اصلاحِ معاشرہ کی کوششیں ناکام اور بے اثر کیوں؟ (اسباب ووجوہات کا جائزہ) (۲/۲)

از: مفتی توقیر عالم قاسمی

مدرسہ اشرف العلوم بردوان مغربی بنگال

مقرر ضرورتِ وقت کا لحاظ رکھتے ہوئے خطاب کرے

            مقرر اور خطیب کو چاہیے کہ ضرورتِ وقت اور معاشرے میں پھیلی ہوئی خرابی کی طرف نظر رکھتے ہوئے خطاب اور بیان کرے۔

             حکیم الامت حضرت تھانویؒ ’’ علماکا ستور العمل‘‘ کے عنوان کے تحت فرماتے ہیں:

            خطاب میں علما ضرورتِ وقت کا لحاظ رکھیں، جن امور میں لوگ اس زمانے میں مبتلا ہوں ، یا جن ضروریات میں فروگذاشت کرتے ہوں ، مدارِ بیان اس پر رکھے، دوسرے مضامین اگر ہوں تو بالتبع اور بقلّت ہوں۔ اور یہ ضروری مضامیںجمیع ابواب کے ہوں، صرف عقائد ودیانات پر اقتصار نہ کرے، بلکہ معاملات ومعاشرت واخلاق سے بھی مشبع(سیر حاصل) بحث کرے، بلکہ بوجہ متروک ہونے کے یہ ثلاثہ اخیرہ زیادہ اہم ہو گئے ہیں۔ اور وعظ میں بات صاف کہے کہ سننے والوں کو سمجھ میں خوب آجائے۔ مگر خشونت اور اشتعال انگیز طرز سے بچے۔(اصلاح انقلاب امت: ۱/۲۲)

            لہٰذا تقریر میں ایسا طرز اپنانا، اور ایسے مضامین اور قصص وواقعات کا انتخاب کرناجس سے مقصد محض واہ واہی اور تفریح طبع ہو، عمل سے اس کا تعلق نہ ہو، یا اس میں عبرت ونصیحت کا پہلو بھی نہ ہو،  مقصدِ وعظ کے منافی ہے۔

اجلاس کا تیسرا عنصر اور حصہ سامعین

            جو حضرات اجلاس اور اصلاحی پروگراموں میں شرکت کرتے ہیں اور وعظ وتقریر سنتے ہیں، وعظ وتقریر سننے سے ان کی نیت کیا ہو؟۔

            مجد د ملت حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ فرماتے ہیں:

            ’’ وعظ ایک روحانی مطب ہے، یعنی باطنی اصلاح کی تدبیروں کا نام وعظ وتقریر ہے، جس سے باطنی امراض کا علاج ہوتا ہے، وعظ سننے والے وعظ سننے سے پہلے اپنی نسبت یہ سمجھ لیں کہ وہ بیماریوں میں مبتلا ہے، وعظ سے ان کا علاج بتایا جارہا ہے، لہٰذا اس کی تدبیریں سن کر حالت درست کرلینے کا عزم کر لیا جائے‘‘۔ (اصلاح النساء ، ص:۱۲۴)

            تقریر سننے سے لوگوں کی غرضیں مختلف ہوتی ہیں: آگے حضرت تھانویؒ فرماتے ہیں:

            (۱) بعض کی غرض محض ادائے رسم ہوتی ہے، جیسے بہت سے کام دن رات ہوتے ہیںایسے یہ بھی ایک کرلیا۔

            (۲) بعض کی نیت یہ ہوتی ہے کہ وعظ ایک برکت ہے، اس سے برکت حاصل ہو جائے گی۔

            (۳) بعض کی نیت یہ ہوتی ہے کہ شریک ہو کر اتنی دیر گناہوں سے بچا رہے گا اور ثواب لکھا جائے گا۔

            اول نیت صحیح نہیں ہے، بعد کی دو نیتیں دین کی ضرورت ہیں۔ (حوالہ سابق)

            سیرت طیبہ اور اصلاح معاشرہ کے جلسے میں شرکت کرنے والے سامعین کی نیتیں بھی مختلف ہوتی ہیں۔ اگر کوئی شخص سیر ت طیبہ کو صحیح مقصد، صحیح نیت اور ضحیح جذبے سے سنتا اور سناتا ہے تو یہ کام بلاشبہ عظیم الشان ثواب کا کام ہے اور باعث خیر وبرکت ہے اورزندگی میں انقلاب لانے کا موجب ہے، لیکن اگر کوئی شخص سیرت طیبہ کو صحیح نیت سے نہیں سنتا اور صحیح نیت سے نہیں سناتاہے، بلکہ اس کے ذریعے کچھ اور اغراض و مقاصد دل میں چھپے ہوئے ہیں جن کے تحت سیرت طیبہ کے جلسے اور محفلیں منعقد کی جا رہی ہیں تو بھائیو! یہ بہٹ بڑے گھاٹے کا سودا ہے، اس لیے کہ ظاہر میں تو نظر آرہا ہے کہ آپ بہت نیک کام کر رہے ہیں، لیکن حقیقت میں وہ الٹا گناہ کا سبب بن رہا ہے اور اللہ کے عذاب اور عتاب کا سبب بن رہاہے۔(اصلاحی خطبات: ۲/۱۳۵)

وعظ وتقریر سننے کے آداب

            صحیح العقیدہ خطیب اور واعظ کی تقریر اور وعظ سننا چاہیے، اس بارے میں بھی بے احتیاطی عام ہوتی جارہی ہے ، چناں چہ دیکھا جاتا ہے کہ عوامی دلچسپی کے لیے، سامعین کے مجمع کی کثرت کے لیے، یاجلسہ گاہ میں فراہمئ چندہ کی کثرت کے مد نظر ایسے مقرر کو مدعو کیا جاتا ہے جس کے عقائد بھی صحیح نہیں ہوتے ہیں، بلکہ بعض مرتبہ وہ مستند عالم بھی نہیں ہوتا ہے۔حکیم الامت حضرت تھانویؒ اس بارے میں تحریر فرماتے ہیں:

            ’’ لوگ ہر قسم کے واعظوں کا وعظ سن لیتے ہیں، اس کے مفاسد ہیں، لہٰذا جب کوئی واعظ جدید آئے ، اپنے شہر یاقریب کے کسی عالمِ معتبر سے اس واعظ کی حالت پوچھ لے، اگر وہ اطمینان دلادے تو وعظ سنے ،ورنہ نہ سنے؛ کیوں کہ بعض واعظ جاہل ہوتے ہیں اور بعض بد مذہب ، اور ان میں بعض اپنے مدعا ذہن میں جمادینے میں ملکہ رکھتے ہیں، اور بعض ایسے چالاک ہوتے ہیں کہ اول اول مخاطبین کے موافق کہتے ہیں، پھر بعد مناسبت وموانست اپنے مسلک کی دعوت شروع کرتے ہیں، بقول مولانا رومیؒ :

زانکہ صیاد  آورد  بانگ صغیر

تاکہ گیرد مرغ را آں مرغ گیر

            شکاری سیٹی کی آواز نکالتا ہے ۔تاکہ وہ پرندہ کو پکڑے۔

            اور اگر باوجود احتیاط کے کوئی بات مشتبہ کان میں پڑ جائے تو علماء محققین سے اس کی تحقیق کرلے۔ (اصلاح انقلاب امت: ۱/۳۲،۳۳)

جلسہ سننے والوں کی نیتیں مختلف ہوتی ہیں

            (۱) بعض کی نیت یہ ہوتی ہے کہ اگر شرکت نہیں کریں گے تو محفل منعقد کرنے والے ہم سے ناراض ہوجائیں گے اور ان کے دل میں شکوہ  وشکایت پیدا ہوجائے گی۔ اللہ کو راضی کرنے کی فکر نہیں ہے، محفل منعقد کرنے والوں کو راضی کرنے کی فکر ہے۔

            (۲) مقرر کا جوش دیکھنا مقصود:  کوئی شخص اس لیے جلسے میں شرکت کر رہا ہے کہ اس میں فلاں مقرر صاحب تقریر کریں گے، ذرا جاکر دیکھیں گے کہ وہ کیسی تقریر کرتے ہیں، سنا ہے بڑے شاندار اور جوشیلے مقرر ہیں، بڑی دھواں دھار تقریر کرتے ہیں، گویا کہ تقریر کا مزہ لینے کے لیے جا رہے ہیںکہ فلاں کیسے گاگا کر شعر پڑھ رہا ہے، کتنے واقعات سناتا ہے۔

            (۳) وقت گزاری کی نیت:  کچھ لوگ اس لیے سیرت النبی کے جلسے میں شرکت کرتے ہیں کہ چلو آج اور کوئی کام نہیں ہے ، کسی جلسے میں جاکر بیٹھ جاؤ تو وقت گزر جائے گا، لہٰذا مقصد یہ نہیں ہے کہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو حاصل کیا جائے، بلکہ مقصد یہ ہے کہ کچھ وقت گزاری کا سامان ہو جائے، حالاں کہ نیت یہ ہونی چاہیے کہ میں سیرت النبی کو سن کر عمل پیرا ہوں گا۔

جلسے میں مرد وعورت کا مخلوط اجتماع

            سیرت طیبہ کے نام پر منعقد ہونے والی محفلوں میں عین محفل کے دوران ہم ایسے کام کرتے ہیں جو سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کے قطعی خلاف ہیں، سرکار دوعالم کا نام لیا جا رہا ہے، آپ کی تعلیمات اور سنتوں کا ذکر کیا جارہا ہے، لیکن عملاً ہم ان تعلیمات کا ، ان سنتوں اور ہدایات کا مذاق اڑا رہے ہیں، جیسے عورتیں اور مرد مخلوط اجتماع میں شریک ہوتے ہیں، پوری آرائش وزیبائش کے ساتھ سج دھج کر ، بے پردہ ہوکر خواتین شریک ہورہی ہیں،اور جلسہ گاہ کے آس پاس بے محابا ادھر ادھر پھرتی رہتی ہیں اور مرد بھی ساتھ ہوتے ہیں۔

سیرت کے جلسے میں نمازیں قضا

            سیرت طیبہ کے جلسے کے انتظامات ہو رہے ہیں اور ان اجتماعات میں نمازیں قضا ہو رہی ہیں اور غضب بالائے غضب یہ ہے کہ آج کے دور میں کثرت سے یہ دیکھا جارہاہے کہ عام طور پر جن اجلاس کے منتظمین عوام الناس اور نوجوانان ہوتے ہیںاور اصلاح معاشرہ کا جلسہ کرانے کے لیے رات دن ایک کرکے انتھک محنت اور کوشش کرتے ہیں، ان میں سے اکثر کی زندگی میں نہ دین ہے، نہ دین داری، نہ نماز، ایک وقت کی نماز تک نہیں پڑھتے، (الامان والحفیظ) ایسے جلسے سے کیا فائدہ مرتب ہوگا اور اس سے معاشرے میں کیا سدھار آئے گا، جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے’’ جس شخص کی ایک عصر کی نماز فوت ہو گئی اس کے تمام مال اور تمام اہل وعیال لوٹ لیے گئے۔ اتنا عظیم نقصان ہے اور اور جلسے کے انتظامات میں نمازیں فوت ہو رہی ہیں۔

            ہمارے علاقے میں ایک عام چلن اور رواج یہ بھی ہے کہ رات کے دو دو، تین تین، چار چار، بجے تک جلسے کا پروگرام چلتا رہتا ہے، اس کے بعد فجر کی نماز غائب ہورہی ہے، کیا جلسہ سن کر نماز معاف ہو جائے گی؟۔ نعوذ باللہ

            حقیقت یہ ہے کہ آج جلسہ ایک نمائش اور رسم بن کر رہ گیا ہے، اسی وجہ سے جلسہ سننے والے ایسی تقریریں سننا پسند کرتے ہیں جن کا تعلق عمل سے نہ ہو اورجو عجائب وغرائب اور قصے اور کہانیوں پر مشتمل ہوں۔اور ان میں تفریح طبع کا سامان زیادہ ہو، اسی لیے شعراء کے کلام اور اشعار کو زیادہ پسند کیا جاتا ہے، چناں چہ بعض مرتبہ جلسہ کے پورے پروگرام کو ہی محفلِ مشاعرہ میں تبدیل کر دیا جاتا ہے۔

            لہٰذا آج ہزاروں تقریریں سن لیںاور ہزاروں محفلوں میں شرکت کرلیں، زندگی جیسی پہلے تھی ویسی آج بھی ہے، جس طرح پہلے ہمارے دلوں میں گناہوں کا شوق اور گناہوں کی رغبت تھی، وہ آج بھی موجود ہے، جلسہ سننے سے پہلے بھی بے نمازی تھے اور بعد میں بھی بے نمازی ہیں، ان حالات میں کوئی تبدیلی اور فرق نہیں آیا۔

قرآن نافع ہے، پھر نفع کیوں نہیں ہوتا؟

            اخیر میں مجدد ملت حضرت تھانویؒ کی بات پر مضمون کو ختم کیا جاتا ہے۔ حضرت والا فرماتے ہیں:

            بلاشبہ قرآن نافع ہے، نصیحت ہے، لیکن اس کے لیے کچھ شرائط ہیں، جن کو اس آیت میں بیان کیا گیا ہے: ’’إِنَّ فِی ذَلِکَ لَذِکْرَی لِمَنْ کَانَ لَہُ قَلْبٌ أَوْ أَلْقَی السَّمْعَ وَہُوَ شَہِیْدٌ‘‘۔  (سورۂ ق: ۳۷)

            یعنی اس میں نصیحت ہے اس شخص کے لیے جس کے اندر دل ہے، یا لگائے کان دل لگاکر۔

            یعنی ان عبرت ناک واقعات میں غور وفکر کرکے وہی لوگ نصیحت حاصل کر سکتے ہیںجن کے سینے میں سمجھنے والا دل ہوکہ از خود ایک بات کو سمجھ لیں، یا کم از کم کسی سمجھانے والے کے کہنے پر دل کو حاضر کرکے کان دھریں؛کیوں کہ یہ بھی ایک درجہ ہے کہ آدمی خود متنبہ نہ ہو تو دوسرے کے متنبہ کرنے پر ہوشیا ر ہو جائے۔ (تفسیر عثمانی)

            اور یہ آیت :    إِنَّمَایَتَذَکَّرُ أُوْلُوا الْأَلْبَابِ‘‘۔ (الرعد: ۱۹) یعنی بلاشبہ عقل والے ہی نصیحت حاصل کرتے ہیں۔

            اور اس جیسی آیتیں۔

            یعنی جو شخص سوچے، یاد رکھے، خیال کرے، قصد کرے، ہمت بھی کرے تو اس کو نفع ہوگا، مگر ہماری حالت یہ ہے کہ نہ سوچتے ہیں، نہ یاد رکھتے ہیں، نہ خیال کرتے ہیں، نہ قصد ، نہ ہمت،نہ عمل، تو نفع نہیں ہوتا۔ (اصلاح النساء: ص: ۱۲۶، ۱۲۷)

            اللہ تعالی زندگی کے ہر چھوٹے بڑے عمل میں اخلاص عطا فرمائے۔ آمین

———————————————

دارالعلوم ‏، شمارہ : 12-11،  جلد:102‏،  صفر المظفر –ربيع الثانی 1440ھ مطابق نومبر –دسمبر2018 ء

۞     ۞     ۞

Related Posts