اسلامی معاشرے میں عورت کا مقام، حقوق واختیارات

از: مولانا محمد اشرف علی قاسمی محمدپوری   

خادم جامعہ خالد بن ولید، محمد پور اعظم گڑھ   

            اسلا م ’’خدا کااِس جہاں میں آخری پیغام ہے ‘‘ یہ دنیا میں کامیابی وکامرانی کی کلید اور آخرت میں سرخ روئی  کا واحد ذریعہ ہے، اسلام در حقیقت نام ہے ان نظریات واحکامات کے مجموعے کا جنھیں خالقِ کائنات نے انسانو ں کی رہبری کے لیے، اپنی جانب سے نازل فرمایا ہے۔

            عورت اس کائنات کی ایک عظیم ہستی ہے،اور کیوں کہ یہ بھی بنی نوع اِنسان میں شامل ہے ؛ اس لیے وہ بھی مرد کی طرح اسلام کو اپنانے، دل وجان سے اسے تسلیم کرنے، اس کے عقائد ونظریات کو من وعن قبول کرنے اور احکام و اوامر کو بجالانے کی پابند اور مکلف ہے۔

            ا یک عورت اگراس دنیا میں کامیابی وکامرانی، عزت وعافیت، قلبی وروحانی سکون کی آر زو مند ہے، اور وہ موت کی سختیوں، برزخ کی ہولناکیوں، قیامت کی ہوش رُبا پریشانیوں،اور جہنم کی تباہ کاریوں سے’’ نجات ‘‘کے لیے سنجیدہ اور فکر مند ہے تو اسے اسلامی شریعت کی پاس داری بہر حال کرنی ہوگی اور خود کو احکامِ الٰہیہ کاپابند بنانا ہوگا؛خواہ وہ ایمانیات وعقاید سے تعلق رکھتے ہوں یا عبادات ومعاشرت سے، اور خواہ وہ اس کے مزاج ورِواج کے موافق ہوں یا مخالف۔

عورت کے لیے شرعی احکام کی نوعیت

            اسلامی احکام کے تعلق سے یہ بات اجمالی طور سے جاننی چاہیے کہ بعض احکام مرد وعورت دونوں کے لیے یکساں ہیں،(جیسے : ایمان، نماز، روزہ، حج و زکوٰۃ کی فرضیت وغیرہ) اور بعض احکام مردوں کے ساتھ مخصوص ہیں(جیسے امامت، خلافت وغیرہ ) اور بعض صرف عورتوں سے تعلق رکھتے ہیں (مثلاً : عدت، سفر میں محرم کا ساتھ ہونا،وغیرہ )ثانی الذکر کے علاوہ باقی دونوں قسم کے احکام اس کے لیے لازم وضروری ہیں۔

 عورت  نظامِ قدرت میں

            خَلقی اور پیدائشی طور پر عورت مرد کی طرح کائنات کی تمام چیزوں سے افضل وبر تر ہے، قدرت نے اسے بھی ان تمام خوبیوں سے مزین کیا ہے جن کی بنا پر وہ ہرمخلوق سے ممتاز، کائنات کی مخدوم،اور قدرت کا شاہ کار ہونے میں مرد کی برابر کی شریک ہے، اسے بھی قوتِ گویائی عطا کی گئی ہے، عقل وخرد سے نوازا گیا، کرامت و شرافت کا تاج پہنا یا گیا، پاکیزہ چیزیں اس کی غذاقرار پائیں،تخلیق کے بہترین سانچے میں ڈھال کر اسے’’ سر ‘‘بلند کرکے چلنا سکھایا گیا، نسلِ انسانی کے تسلسل میں اسے بنیادی عنصر کی حیثیت دی گئی ۔

              تاہم جب مرد وعورت کا ایک دوسرے کے بالمقابل جائزہ لیا جاتا ہے تو یہ بات روزِ روشن کی عیاں ہوجاتی ہے کہ مرد کو عورت پر تخلیقی طور پر تفوق اور برتری حا صل ہے، قدرت نے مرد کی تخلیق اس انداز سے کی ہے کہ وہ مشکل کاموں کو انجام دے سکے،بلند و بالا عزائم کو بروئے کار لاسکے، خوف و خطر کے ماحول میں اپنے حواس سلامت رکھ سکے، سفر کی لمبی لمبی مسافتیںبآسانی طے کرسکے،دشمنوں سے اپنی  اور ’’اپنوں ‘‘کی عزت وآبرو، جان ومال کی حفاظت کر سکے وغیرہ۔

             اس کے برعکس عورت ’’صنفِ نازک ‘‘ہے اور اس کی نزاکت و لطافت کی وجہ سے تصویر کائنات رنگین ودل کش ہے، وہ مرد کی بہ نسبت کم زور  وکم ہمت ہے،جلد غصہ ہونے والی اور جلد گھبرا جانے والی ہے،گھریلو اور چھوٹے کاموں میں اس کا ذہن خوب چلتا ہے، بچوں کی نفسیات سمجھنے اور ان کی پرورش وتربیت میں اس کا کوئی ثانی ہے نہ بدل، وغیرہ،یہی قدرت کا فیصلہ اور فطرت کا ضابطہ ہے،اس حقیقت کا انکار سورج کی روشنی کے انکارکے مرادف ہے اور اس کو مسترد کردینا فطرت سے بغاوت کہلاتا ہے۔

مرد کے بالمقابل عورت کی حیثیت

            اسلام دین ِ فطرت ہے، یہ اسی ذات کی جانب سے نازل کیا گیا ہے، جس نے مرد وعورت کی تخلیق کی ہے؛ اس لیے اسلامی  نقطئہ نگاہ سے عورت کی حیثیت کا تعین ہی اصل، افراط وتفریط سے پاک اور مبنی بر اعتدال ہوگا۔

             قرآنِ کریم میں مرد کو عورت کا’’ قوَّام‘‘یعنی حاکم ونگراں کہا گیا ہے،(نسائ: ۳۳ )اسی آیت میں آگے ہے ’’فَإنْ أطَعْنَکُمْ‘‘ (پھر اگر وہ تمہاری اطاعت کریں )اس میں عورت کو مرد کی اطاعت کا حکم ہے، وراثت کے باب میں ’’للذکرِ مثلُ حظِّ الأنثیین‘‘ (النسائ: ۱۱) ارشاد فرمایا، یعنی ایک مرد کو دو عورتوں کے برابرحصہ ملے گا،میرے علم کے مطابق قرآنِ کریم میں صنفی طور پرمرد وعورت کا تذکرہ ’’ذکَر‘‘ اور’’ انثی‘‘ کے ٰلفظ سے پانچ مرتبہ(سورۂ آلِ عمران: ۱۹۵،النسائ: ۱۲۳،النحل: ۹۷،مومن: ۴۰الحجرات: ۱۳،میں )آیا ہے اور ہر مقام پرذکر کرنے میں مرد کو عورت پر مقدم کیا گیا ہے، جس سے مرد کی برتری کی جانب اشارہ ہوتاہے ۔

            جب حضرت ام سلمہ ام المومنین ؓ  عورتوں کی دل کی ترجمان بن کر بارگاہِ رسالت مآب میں حاضر ہوکر قرآنی آیات میں مردوں کے بالمقابل عورتوں کا تذکرہ’’نہ ہونے کے برابر ‘‘کا شکوہ کرتی ہیں تو رحمتِ الٰہی جوش میں آکر ان کی دل بستگی کے واسطے ایک طویل آیت (الاحزاب:۳۶۱)  نازل کرتی ہے، جس میں اسلام لانے والی، ایمان قبول کرنے والی، بندگی کرنے والی، سچائی کی خوگر، صبر کی پیکر، خاکساری کی مظہر، صدقہ ٔ وخیرات کی دل دادہ، روزہ رکھنے کی شائق، عفت و پاک دامنی کی علم بردار اور رب کے ذکرکی لذتوںسے آشنا، عورتوں کا صراحتاً ذکر کیا جاتا ہے اور ان کے لیے ان کے رب کی جانب سے مغفرت کا وعدہ کیاتا ہے،اوراجرِ عظیم کا مژدہ سنایا جاتاہے؛ مگر۔۔۔۔۔ مردوں کے تذکرے کے ساتھ ؛بل کہ مردوںکے تذکر ے کے بعد!۔۔۔۔۔۔۔جی ہاں منشائے الٰہی یہی ہے۔

            شریعت میں صرف عورتوں کی گواہی کا اعتبار نہیں کیاگیا، اور اگرعورت کے ساتھ مرد بھی گواہ ہوتوقرآن کا حکم ہے کہ ایک مرد ساتھ دو عورتوں کا ہونا ضروری ہے (البقرہ :۲۸۲)  اور اگر صرف مرد ہوں تو دو مردوں کی گواہی کافی ہے، نکاح ختم کرنے، امامت،خلافت،امارت  قضاء وغیرہ کا حق صرف مردوں کو دیا گیاہے، مخصوص ایام میں نماز کی معافی، روزے کی تاخیر، عدت،حج اور سفر کے لیے محرم کی شرط، غیر خدا کو سجدہ کی اجازت ہونے پر عورت کو مرد کے سامنے سجدہ ریز ہونے کی تمنا کا اظہار، شوہر کی ناراضگی پر رات بھرفرشتوں کی طرف سے لعنت کی وعید، شوہر کی رضا کے ساتھ انتقال ہونے پر بلا حساب وعذاب جنت میں داخلے کی بشارت سے بھی مزاجِ شریعت اور منشائے نبوت کا پتہ چلتا ہے۔

تو کیا عورت بے حیثیت اور مظلوم ہے؟

            اس کے باوجود عورت نہ مظلوم ہے، نہ ہی بے حیثیت، اسلامی معاشرے میں وہ بہ ذاتِ خود ایک بڑی حیثیت اورغیر معمولی اہمیت کی حامل ہے اور اس نے تاریخ کے مختلف ادوار میں اسلا م و انسانیت کی بیش بہا خدمت انجام دی ہے۔

عورت کامقام

            اسلام میںمومن عورت مختلف اعتبار سے، اعلیٰ حیثیت ومقام رکھتی ہے ؛اگر وہ ’’ماں‘‘ ہے تو اولاد کو حکم ہے کہ ’’اس کے ساتھ احسان کرو،(نسائ: ۳۶)اگر بوڑھی ہوجائے تو اسے ’’اف ‘‘تک نہ کہو،اسے ہر گز نہ جھڑکو،اس سے نرم لہجے میں احترام کے ساتھ گفتگو کرو، فرطِ محبت میں ا س کے سامنے  جھکے رہو اور ربِ کریم سے اس کے لیے رحمت کی دعا کرتے رہو ‘‘(نسائ:۲۳مفہوم )

            اور یہ بھی کہ ماں کی خدمت کو لازم پکڑو؛کیوں کہ جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے (حاکم:۲۵۰۲)مرد پر سب سے بڑا حق اس کی ماں کا ہے،  (حاکم:۷۲۴۴)اسی لیے ایک صحابی کے دریافت کرنے پر کہ میرے حسنِ سلوک کا سب زیادہ مستحق کون ہے؟آپ کی زبانِ مبارک سے تین بار نکلا:ماں۔۔۔۔۔ پھرماں۔۔۔۔۔  پھرماں۔۔۔۔۔ اور پھر باپ (بخاری:۵۶۲۶ )۔

             عورت اگر’’بیٹی‘‘ ہے تو جسے بیٹیوں کے ذریعے، ان کی پرورش و پرداخت کے تعلق سے، آزمائش میں ڈالا گیااور اس نے صبر سے کام لیا اور انھیں اپنی حیثیت کے موافق کھلایا، پلایا اور پہنایا تو یہ چیز اس کے لیے جہنم سے آڑ بن جائے گی۔(احمد:۱۷۴۳۹) جس شخص کے کوئی بچی تھی اور ا س نے اسے زندہ درگور نہیں کیا، اسے ذلیل نہیں کیااور نرینہ اولاد کو اس پر ترجیح نہیں دی، تو اللہ اسے جنت میں داخل فرمائیں گے(ابودائود:۵۱۴۸) جس نے تین یا دو بچیوں کی پرورش کی، ان کو اچھی تعلیم و تربیت سے آراستہ کر کے ان کا نکاح کردیا،ان کے ساتھ حسنِ سلوک کا معاملہ کیا تو ا س کے لیے وعدئہ جنت ہے۔ (ابودائود:۵۱۴۹ )

            اور اگر ’’بیوی‘‘ ہے تونیک بیوی بہترین سامانِ دنیا ہے (مسلم:۱۶۳۷)نیک بیوی سعادت مندی کی علامت ہے (ابن حبان:۴۰۳۲)۔

مومن عورت کے حقوق

            عام طورپرذہنوں میں یہ غلط فہمی راسخ ہے کہ حقوق صرف مردوں کے عورتوں کے ذمے ہیں،جن کی اد ا ئیگی ہرحال میں عورت کو کرنی ہوگی،اور بات میں وزن پیدا کرنے کے لیے ان آیات واحادیث کا سہارا لیا جاتا ہے جن میں:

’’مرد کو عورت پر فوقیت دی گئی ہے اور عورت سے کہا گیاہے کہ مرد کے حقوق کا خیال رکھے،اس کی جان و مال، عزت وآبرو کی حفاظت کرے۔(النسائ: ۴۳در منثور)بہترین بیوی اسے قرار دیا گیا ہے جو اپنے ظاہر سے خاوندکے رنج کو مسرت میں تبدیل کردے، شوہر کا حکم بجا لائے، اس کی غیرموجودگی میں اپنے نفس اور شوہر کے مال کی حفاظت کرے (نسائی: ۹۸۶۱)۔ اگر میں کسی کوکسی شخص کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو عورتوں سے کہتا کہ وہ اپنے شوہروں کو سجدہ کریں۔ (ابودائود:۲۱۴۲)۔مرد پر سب سے بڑا حق اس کی ماں کاہے، اور عورت پر سب سے بڑا حق اس کے شوہر کا ہے۔(حاکم: ۷۳۳۸)  وغیرہ۔

            حالاں کہ کتاب وسنت میں مردوں کے ذمہ بھی عورتوں کے حقوق بیان کیے گئے ہیں،اور نجات و بخش کے لیے مردوں پر ان کی اد ا ئیگی کو لازمی قرار دیا گیا گیا۔

            چنانچہ ارشاد باری ہے: وَلَہُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْہِنَّ بِالْمَعْرُوْف ِ(الآیۃ،البقرۃ:۹۲۲) ’’عورتوں کے لیے بھی (مردوں پر ) اسی طرح کے حقوق ہیں جس طرح کے حقوق عورتوں پر مردوں کے ہیں ‘‘: ذیل میں عورتوں کے چند حقوق کی جانب اشارہ کرنا مناسب معلوم ہوتاہے۔

میراث

            ’’مومن عورت ‘‘مردوں کی طرح میراث کی حق دار ہوتی ہے؛چنانچہ ارشاد باری ہے:  لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمِّا تَرَکَ الْوالِدَانِ وَالْاَقْرَبُوْنَ وَلِلنِّسَائِ نَصِیْبٌ مِّمّا تَرَکَ الْوَالِدَانِ وَالْاَقْرَبُوْنَ مِّمَّا قَلَّ مِنْہُ اَوْکَثُرَ نَصِیْباً مَفْرُوْضاً (نسائ: ۷)’’والدین اور رشتہ داروں کے ترکہ میں مردوں کا حصہ ہے، اور اسی طرح والدین اور رشتہ داروں کے ترکہ میںعورتوں کا بھی حصہ ہے،ترکہ کم ہو یا زیادہ، حصے متعین ہیں ‘‘۔

مہر،نان ونفقہ اور رہا ئش

            ارشادِ ربانی ہے: وَآتُوْ النِّسَائَ صَدُقٰتِہِنَّ نِحْلَۃَ (النسائ:۴) ’’عورتوں کو ان کی مہریں بخوشی ادا کرے ‘‘۔اور لِیُنْفِقْ ذُوْسَعَۃِ مِن  سَعَتِہ، وَمَنْ قُدِرَ عَلَیْہِ رِزْقُہ‘ فلْیُنْفِقْ مِمَّا آتَاہُ اللہُ: (طلاق :۷) ’’وسعت والا اپنی وسعت کے موافق بیوی کو خرچ دے اور تنگ دست بھی اللہ کے دئے ہوئے میں سے نفقہ دیا کرے‘‘ اور اَسْکِنُوْہُنَّ مِنْ حَیْثُ سَکَنْتُمْ  مِنْ وُجْدِکُمْ (طلاق:۶) ’’انھیں اپنی حیثیت کے موافق ان مکانوں میںٹھہرائو جہاں تم رہتے ہو‘‘  اسی سلسلے میں ارشاد نبوی ہے :

            أنْ تُطْعِمَہَا إذَا طَعِمْتَ وَتَکْسُوْہَا إذَا کَسَوْتَ وَلاَ تَضْرِبِ الْوَجْہَ وَلاَ تُقْبِحِ وَلَا تَہْجُرْ إلَّا فِي الْبَیْتِ۔

            ’’تم پر بیوی کا حق یہ ہے کہ جب کھائو تو اسے بھی کھلائو، جب پہنو تو اسے بھی پہنائو، چہرے پر نہ مارو، اسے بد دعا نہ دو، ناراض ہوکر گھر سے باہر نہ  نکالو(۴۴۲۱) 

            ان نصوص سے معلوم ہوا کہ شادی کے بعد،مہرادا کرنا،نان ونفقہ،اور رہنے کے لیے مکان دینا، بیوی کے بنیادی حقوق ہیں، جو شوہر پر لازم ہیں۔

عور ت کے اخلاقی حقوق

            مردوں کا یہ اخلاقی فریضہ ہے کہ وہ عورتوں کے ساتھ حسنِ معاشرت اختیار کریں،نرمی کا برتائو کریں،ان کی ہلکی پھلکی غلطیوں کو نظر انداز کریں، کوئی غلطی نظر آئے تو خوبیوں پر بھی نگاہ ڈال لیا کریں،ان کی دل جوئی کی کوشش کرتے رہیں،ان پر خرچ کرنے کو ثواب کی چیز سمجھیں،دو یا دو سے زائد بیویاں ہوں تو ان کے ساتھ عدل و انصاف کریں ؛ چنانچہ ار شاد ربانی ہے:’’وعاَشِرُوْہُنَّ باِلْمَعْرُوْفِ(النسائ:۱۹)’’عورتوں کے ساتھ خوش اسلوبی کی زندگی بسر کرو ‘‘ اور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فر مایا: إنما النسائُ شقائقُ الرجال ’’ عورتیں طبیعت ومزاج میں مردوں کے مشابہ ہوتی ہیں‘‘ (ابوداود:۲۳۶)’’ عورتوں کے ساتھ بھلائی کی وصیت قبول کرو ؛کیوںکہ وہ تمہارے یہاں مقید ہیں، تم ان سے (حلال طریقے سے) نفع اٹھانے کے علاوہ ان کی کسی اور چیز کے مالک نہیں ہو‘‘ (حاکم:۳۰۸۷) اگر کسی کی دو بیویاں ہیں اور اس کا جھکاؤ کسی ایک کی جانب ہوگیا (جس کی وجہ سے دوسری کی حق تلفی ہوئی تو) وہ قیامت میں اس طرح آئے گا کہ اس کے جسم کا ایک حصہ جھکا ہوا ہوگا (ابودائود:۲۱۳۵)’’میں تمہیں دو کمزوروں کے حق کے سلسلے میں مشقت میں ڈال کر جارہا ہوں : ۱-بیوی، ۲-یتیم کہ ان کی حق تلفی نہ ہو ورنہ مشقت میں پڑ جائوگے ‘‘(احمد: ۹۶۶۴)۔

عورت کے اختیار ات

            عورت بے بس، اور مجبور بھی نہیں ہے، اسلام نے اس کی عزتِ نفس کا پور ا خیال کیا ہے، اور مختلف مواقع پر اپنے حق میں فیصلہ لینے کا اُسے پورا اختیار دیا ہے، ایک بالغ عورت خرید و فروخت کرنے، اپنے مال میں تصرف کرنے، اپنے مال سے صدقہ کرنے،ہدیہ دینے، اپنا نکاح کرنے یا کسی کو اپنے نکاح کا وکیل بنانے کا پور اختیار رکھتی ہے، ان سب چیزوں میں دوسرے شخص کا فیصلہ اس کی مرضی کے بغیر، اس پر نافذ نہیں ہوگا، خواہ فیصلہ کرنے والااس کا باپ ہو، بھائی ہو، شوہر ہو یا کوئی اور؛ گرچہ نکاح کے باب میں مستحب، پسندیدہ اور حیا و صلہ رحمی کا تقاضا یہی ہے کہ عورت یہ معاملہ اپنے اولیا ء کے حوالہ کردے؛ تاہم شرعاً اپنے نکاح کی مالک خود وہی ہے اور اس کی رضا و اجازت کے بغیر نکاح منعقد نہیں ہوگا۔ 

            قرنِ اول میں اس ’’اختیار‘‘کی کچھ عمدہ عملی مثالیں بھی ہمیں مل جاتی ہیں مثلاً:ام المؤمنین حضرت ام سلمہؓ ،پہلے حضرت ابو سلمہؓ کے نکاح میں تھیں، بیوہ ہوگئیں، عدت گذرنے کے بعد نبی اکرمؐ ان کے پاس تشریف لے گئے، ساتھ میں حضرت عمرؓ  بھی تھے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے انھیں نکاح کا پیغام دیا، آپ تصور کیجئے! یہ پیغامِ نکاح کائنات کی سب سے عظیم ہستی کی طرف سے تھا، جس کی خوشی ساری کامرانیوں کی کلید اور جس کے حکم کا انکار کسی صحابیؓ  تو کیاکسی ادنیٰ مسلمان سے ممکن نہیں ؛ پھر بھی حضرت ام سلمہ ؓیہ کہتے ہوئے نکاح سے معذرت کرلیتی ہیں کہ

’’آپ کا پیغامِ نکاح سر آنکھوں پر ؛تاہم میرے بچے زیادہ ہیں، میری عمر بھی اب نکاح کی نہیں رہی، اور میرے اندر غیرت وحیا کا مادہ بہت زیادہ ہے،آپ کی زوجیت میں رہتے ہوئے اگر کبھی میری طرف سے آپ کو کوئی تکلیف پہونچ جائے تو یہ بات میرے لیے ناقابلِ تحمل ہوگی ‘‘(معجم طبرانی)

            یہ سن کرآپؐ واپس تشریف لائے اور نہ ان پرکوئی دبائو ڈالا اور نہ ہی کبیدہ خاطر ہوئے ؛ہاں بعد میں حضرت عمرؓ کی کوشش اور نبی اکرم… کے ہمت بندھانے سے آمادہ ہوگئیںاور نکاح ہوگیا۔

            مدینہ میں مغیثؓ نامی ایک غلام شخص تھے، بریرہ نام کی ایک خوب صورت باندی سے ان کا نکاح ہوا، مغیث کالے اور بدصورت تھے،حضرت عائشہؓ  نے بریرہؓ کو خرید کر آزاد کر دیا تو اسلامی قانو ن کی رو سے انھیں مغیث کے ساتھ رہنے یا نہ رہنے کا اختیار ملا، وہ مغیث سے بیزار تھیں اور ان سے چھٹکارہ چاہتی تھیں،ادھر شدتِ محبت کی وجہ سے مغیث کسی طرح انھیں کھونا نہیں چاہتے تھے،اب منظر یہ تھا کہ مغیث بریرہ کے پیچھے چکر لگاتے،روتے اور آنسوئوں سے رخسار ترکرلیتے اور لوگوں سے اپنی اہلیہ کو سمجھانے کی التجاء کرتے رہتے، بات بارگاہِ رسالت مآب تک پہونچی، آپ کو مغیث کے حال پر ترس آگیا، آپ… نے بریرہ کو بلوایا، مغیث بھی اس امید پر پہونچ گئے شاید بات بن جائے گی، آپ… نے بریرہ سے کہا :’’اللہ سے ڈر اوراپنے اختیارکومغیث کے حق میں استعمال کرلے نہ کہ ان کے خلاف ؛کیوں کہ یہ تیرے شوہر ہیں اور ان سے تیری اولاد بھی ہے ‘‘

            حضرت بریرہ ؓنے عرض کیا: یا رسول اللہ…! یہ آپ کا حکم ہے یا سفارش اور مشورہ؟ آپنے فرمایا:حکم نہیں،سفارش سمجھو،حضرت بریرہ ؓ نے فرمایا : پھر تو مجھے ان کی ضرورت نہیں؛ چنانچہ ان سے جدا ہوگئیں۔(ابودائود،ترمذی،نسائی ابن ماجہ وغیرہ)۔

            اللہ تعالی زوجین کو اپنے اوامر پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے،  آمین!

*  *  *

————————————————

ماہنامہ دارالعلوم‏، شمارہ: 12،  جلد:101‏، ربیع الاول –ربیع الثانی 1439ہجری مطابق دسمبر 2017ء

Related Posts