از: محمد حمزہ منصور، کراچی، پاکستان
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لباس اور آپ کی وضع قطع پر قومیت اور وطنیت کے بجائے اتباعِ انبیاء کا غلبہ تھا، ذخیرہ حدیث میں ”کتاب اللباس“ اور ”شمائل نبوی“ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے لباس اور عادی طور و طریقوں میں بھی انبیائے کرام علیہم السلام کی اتباع اور وحی و الہام کا عنصر شامل تھا، عرب میں قدیم زمانے سے چادر اور تہہ بند کا دستور چلا آرہا تھا، جو حضرت اسماعیل علیہ السلام کالباس تھا،جیساکہ حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ انھوں نے آذربائجان کے عربوں کو حلہ(ازار اور چادر)پہننے کی یہ کہہ کر ترغیب دی کہ وہ تمہارے باپ اسماعیل علیہ السلام کا لباس ہے۔
أما بعد، فاتزروا وارتدوا وانتعلوا وألقوا الخفاف والسراویلات وعلیکم بلباس أبیکم إسماعیل وإیاکم والتنعم وزی العجم (فتح الباری لابن حجر۱۰/۲۸۶، باب لبس الحریر،ط؛ دارالمعرفہ، بیروت)
نیز اللہ کے نبی طبعی آداب میں بھی وحی اور الہام سے خالی نہیں ہوتے؛بلکہ اللہ کی وحی اور اس کے حکم سے قوم کو عقائد، اخلاق، اعمال، عبادات، اور معاملات سب کے متعلق ہدایت جاری کرتے ہیں؛ یہاں تک کہ بول وبراز (پیشاب، پاخانہ) کے آداب بھی ان کو سکھاتے ہیں، یہ ناممکن ہے کہ نبی عام لوگوں کے رسم و رواج کی پیروی پر اکتفاء کریں۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے لباس کے متعلق بھی احکام جاری فرمائے یہاں تک کہ مسلمانوں اور کافروں کے لباس میں امتیاز ہوگیا، آحادیث ِ نبویہ سے ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کافروں کی مشابہت سے ممانعت فرمائی ہے اور ان کی مخالفت کا حکم دیا ہے، اور جو لباس دشمنانِ خدا سے مشابہت کا سبب بنے ایسے لباس کو ممنوع قرار دیا ہے۔
جیساکہ حدیثِ مبارکہ میں ہے:
إن فرق ما بیننا وبین المشرکین العمائم علی القلانس.(سنن ترمذی۱/۴۴۱،باب العمائم علی القلانس،ط؛ رحمانیہ)
ترجمہ: ہمارے اور مشرکین کے درمیان فرق یہ ہے کہ ہم عمامہ ٹوپیوں پر باندھتے ہیں۔
ایک اور حدیث مبارکہ میں ہے:
قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم…. من تشبہ بقوم فھو منھم. (المسند الجامع، (الجھاد)، ۱۰/۷۱۶،رقم الحدیث ۸۱۲۷، دار الجیل، بیروت)
ترجمہ : حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے؛ جس شخص نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی تو وہ شخص اسی قوم میں شمار ہوگا۔
ایک اور حدیث ِ مبارکہ میں ہے:
ان ھذہ من ثیاب الکفار فلا تلبسھا (مسلم،۳/۱۶۴۸، باب النھی عن لبس الرجل الثوب المعصفر،ط؛ داراحیاء التراث)
یعنی یہ کافروں کے(جیسے)کپڑے ہیں ، پس ان کو نہ پہنو!
ان احادیث سے ثابت ہوگیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کالباس اور آپ کی وضع قطع یہ سب وحی الٰہی کے تابع تھی۔
نیزیہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین سے لے کر آسمان تک خواہ حیوانات ہوں یا نباتات یا جمادات، سب کو ایک ہی مادہ سے پیدا کیا ہے؛ مگر اس کے باوجود ہر چیز کی صورت اور شکل مختلف بنائی؛ تاکہ ان میں امتیاز قائم رہے؛کیوں کہ امتیاز کا ذریعہ یہی ظاہری شکل و صورت ہے اور جس طرح دنیاکی قومیں ایک دوسرے سے معنوی خصائص اور باطنی امتیازات کے ذریعہ جدا ہیں، اسی طرح ہر قوم کا تمدن، تہذیب اور لباس بھی دوسری قوم سے ممتاز کرتا ہے، عبادات کی انھیں خاص شکلوں کی وجہ سے ایک مسلم ، موحد، مشرک اور بت پرست سے جدا ہے، اور ایک عیسائی ایک پارسی سے جدا ہے، غرض قوموں میں امتیاز کا ذریعہ یہی قومی خصوصیات ہیں؛ جب تک ان مخصوص شکلوں اور ہیئتوں کی حفاظت نہ کی جائے تو قوموں کا امتیاز باقی نہیں رہتا۔
دینِ اسلام ایک کامل اور مکمل مذہب ہے، تمام ملتوں اور شریعتوں کا ناسخ بن کر آیا ہے، وہ اپنے پیروکاروں کو اس کی اجازت نہیں دیتاکہ وہ ناقص اورمنسوخ ملتوں کے پیروکاروں کی مشابہت اختیار کریں، جس طرح اسلام معتقدات اور عبادات میں مستقل ہے کسی کا تابع نہیں ہے، اسی طرح اسلام اپنے معاشرتی آداب اور عادات میں بھی مستقل ہے، کسی دوسرے کا تابع اور مقلد نہیں ہے۔
حضرت مولانا ادریس کاندھلوی تشبہ کی حقیقت بیان کرتے ہوئے یوں رقم طراز ہیں:
”تشبہ کی تعریف سنیے؛ تاکہ آپ تشبہ کی قباحتوں اور مضرتوں کا اندازہ لگاسکیں“!
۱- اپنی حقیقت ، اپنی صورت اور وجود کو چھوڑ کر دوسری قوم کی حقیقت، اس کی صورت اور اس کے وجود میں مدغم ہونے کا نام تشبہ ہے۔
۲- یا اپنی ہستی کو دوسرے کی ہستی میں فنا کردینے کا نام تشبہ ہے۔
۳- اپنی ہیئت اور وضع کو تبدیل کرکے دوسری قوم کی وضع اور ہیئت اختیار کرلینے کا نام تشبہ ہے۔
۴- اپنی شانِ امتیازی کو چھوڑ کر دوسری قوم کی شانِ امتیازی کو اختیار کرلینے کا نام تشبہ ہے۔
۵- اپنی اور اپنوں کی صورت اور سیرت کو چھوڑ کر غیروں اور پرایوں کی صورت اور سیرت کو اپنالینے کا نام تشبہ ہے۔
اس لیے شریعت حکم دیتی ہے کہ مسلمان قوم دوسری قوموں سے ظاہری طور پر ممتاز اور جدا ہونی چاہیے اور وضع و قطع میں بھی۔(سیرتِ المصطفیٰ۳/۳۰۶، تشبہ کی تعریف، ط؛ مکتبة الحسن)
شریعت میں تشبہ (دوسروں کے ساتھ مشابہت اختیار کرنے)کی ممانعت کسی تعصب پر مبنی نہیں ہے؛ بلکہ غیرت ، حمیت اور اسلامی خصوصیات وامتیازات کے تحفظ کے لیے ہے؛ اس لیے کہ کوئی قوم اس وقت تک قوم نہیں کہلاسکتی؛ جب تک اس کی خصوصیات اور امتیازات پائیدار اورمستقل نہ ہوں۔
نیز یہود ونصاریٰ اور کافروں کو دوست بنانے یا ان کی مشابہت اختیار کرنے سے مسلمانوں کے دل بھی ان کی طرح سخت ہوجاتے ہیں اور احکامِ شریعت کو قبول کرنے اور اس پر عمل کرنے کی صلاحیت ختم ہوجاتی ہے۔
واضح رہے کہ غیروں کی وضع قطع اور ان جیسا لباس اختیار کرنے میں بہت سے مفاسد ہیں:
(۱)پہلا نتیجہ تو یہ ہوگا کہ مسلمان اور کافر میں ظاہری کوئی امتیاز باقی نہیں رہے گا، حقیقت یہ ہے کہ تشبہ بالکفار اہلِ کفر میں دلچسپی اور ان کی قربت کا زینہ ہے۔
(۲)غیروں کی مشابہت اختیار کرنا غیرت کے بھی خلاف ہے۔
(۳)کافروں کا لباس اختیار کرنا درحقیقت ان کی سیادت اور برتری کو تسلیم کرنا ہے۔
(۴)اور یہ اپنی کمتری اور غلامی کا اقرار اور اعلان ہے جس کی اسلام اجازت نہیں دیتا؛کیوں کہ اسلام غالب ہوتا ہے، تابع اور مغلوب نہیں ہوتا۔
نیز اس تشبہ کا نتیجہ یہ ہوگاکہ رفتہ رفتہ کافروں سے مشابہت کا دل میں میلان اور داعیہ پیدا ہوگا جو صراحةً ممنوع ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿وَلَا تَرْکَنُوا إِلَی الَّذِینَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّکُمُ النَّارُ وَمَا لَکُمْ مِنْ دُونِ اللہِ مِنْ أَوْلِیَاءَ ثُمَّ لَا تُنْصَرُونَ﴾ (ہود:۱۱۳)
ترجمہ: اور مت جھکو ان کی طرف جو ظالم ہیں، پھر تم کو لگے گی آگ اور کوئی نہیں تمہارا اللہ کے سوا مددگار، پھر کہیں مدد نہ پاوگے۔ (ترجمہ از شیخ الہند)
باقی آج کل ہر خاص و عام یہ دعوی کرتا رہتا ہے کہ پینٹ شرٹ مسلم اور غیر مسلم دونوں کاہی لباس ہے ، اب تو ہر جگہ مسلمان بھی پہنتے ہیں، تو عرض ہے کہ یہ بات ہمیں تسلیم نہیں؛بلکہ شرٹ اور پتلون غیر مسلموں کا ہی لباس تھا ، پھر جب اسلامی سلطنتوں کے فرمانروا اقتدار کے نشہ میں عیش پرستی کا شکار بن گئے تو نتیجہ یہ ہوا کہ اسلامی حکومتیں زوال پذیر ہوگئیں اور مسلمانوں سے شکست خوردہ قومیں برسرِ اقتدار آگئیں، چند روز تک مسلمانوں کو اپنی شکست اور ذلت کا احساس رہا؛ مگر پھر رفتہ رفتہ مسلمانوں نے ان کے معاشرے ، تمدن اور وضع قطع کو قبول کرنا شروع کردیا ،یہاں تک کہ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کی اسلامی ممالک کے باشندے اپنے من و تن میں غیروں کے رنگ میں ایسے رنگے گئے کہ مسلم اور غیر مسلم کا کوئی فرق ہی نہ رہا۔
اگریہ بات تسلیم کرلی جائے کہ موجودہ زمانے میں پینٹ شرٹ کے کثرتِ استعمال اور معاشرے میں اس کے عام ہونے کے سبب یہ کسی غیر قوم کا شعار تو نہیں رہا؛ اس لیے اس میں غیر اقوام کے شعار ہونے کی حد تک توتشبہ باقی نہیں رہا؛ مگر اس کی کوئی تاویل ممکن نہیں ہے کہ یہ فساق و فجاراور غیر صلحاء کا لباس ہے ، اور جس طرح غیر مسلموں سے مشابہت ممنوع ہے اسی طرح فساق و فجار اور غیر صلحاء سے مشابہت بھی ممنوع ہے۔
اور مشابہت کی شناعت میں زمان اور مکان کے لحاظ سے سختی یا نرمی کی بات ممکن ہے، جس علاقہ میں جتنی زیادہ مشابہت متصور ہوگی، اسی حساب سے کراہت تحریمی یا تنزیہی ہونے کا حکم لگے گا۔
اسلامی ممالک کے لیے تو علی الاطلاق یہ حکم لگانا بھی درست نہیں ہے کہ کثرتِ استعمال کی وجہ سے مشابہت بالکل ختم ہوگئی ہے؛ اس لیے کہ اگرچہ اکثر شہری علاقوں اور بعض دیہاتی علاقوں میں اس کو بطورِ لباس استعمال کیا جاتا ہے؛ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بہت سارے علاقے بالخصوص قبائلی علاقے اور گاؤں دیہاتوں میں اب بھی اس کو کفار یا کم از کم فساق و فجار اور غیر صلحاء کا لباس تصور کیا جاتا ہے اور اپنے قومی و علاقائی لباس کو اس لباس(پینٹ شرٹ)پر ترجیح دی جاتی ہے، لہٰذا جس علاقے میں جس قدر مشابہت متصور ہوگی، اسی حساب سے کراہت کا حکم لاگو ہوگا۔
نیز یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ یہ تمام تفاوت اور فرقِ مراتب علم اور اعتقاد کے اعتبار سے ہے، ورنہ عملا ہر درجہ کے تشبہ کو ممنوع العمل قرار دینا ہی ایک مسلمان کے لیے احتیاط اور پرہیزگاری کا باعث ہوسکتا ہے؛ کیوں کہ تمدن اور معاشرت کا ایک طویل سلسلہ ہے اور اس سلسلہ کی ایک کڑی دوسری کو کھینچتی ہے، پس کسی تمدن کی کسی چیز کو اختیار کرنا گویا دوسری چیزکے لیے راستہ صاف کردینا ہے تو اس طرح انجام کار پورے ہی تمدن کا حلقہ اپنی گردن میں ڈال لینا ہے؛ اس لیے سدِ ذرائع کے طورپر تشبہ کے تمام مراتب سے خواہ حرام ہو ں یا مکروہ تحریمی ہوں یا مکروہ تنزیہی، عمل کے دائرہ میں یکساں ہی ممانعت کی جائے گی۔
————————————————–
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ4، جلد:101 ، رجب 1438 ہجری مطابق اپریل 2017ء