از: صاحبزادہ ڈاکٹر قاری عبدالباسط محمد
مجمع عبداللہ بن مسعود لتحفیظ القرآن الکریم حی العزیزیہ، جدہ
آج کل بعض حلقوں میں نمازِ تراویح اور قیام اللیل میں قرآن دیکھ کر قراء ت کرنے کا رواج ہوگیا ہے، عرب ممالک کی بیشتر مساجد میں یہ وبا عام ہوچکی ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ تراویح کا یہ طریقہ حفاظتِ قرآن کے لیے سمِ قاتل سے کچھ کم نہیں، اس سے حفاظتِ قرآن کا ایک اہم ذریعہ متاثر ہوجائے گا؛ کیوں کہ حفاظت قرآن کے لیے دو طریقے اختیار کیے گئے ہیں، ایک سینہ، دوسرے صحیفہ۔ پہلا ذریعہ تو اسلام کے امتیازات میں سے ہے، حفاظتِ قرآن کا یہ بے نظیر اور عظیم الشان طریقہ پہلی قوموں میں نہیں پایا جاتا، آج امت تک اگر قرآن من وعن پہنچا ہے تو اس میں صحیفہ سے زیادہ سینہ کا دخل ہے؛ اسی لیے فضیل بن عیاض رحمة اللہ علیہ نے فرمایا: حَامِلُ الْقُرْآنِ حَامِلُ رَأْیَةِ الْاِسْلَامِ ”حافظِ قرآن درحقیقت اسلام کا علمبردار ہے“ (التبیان:۵۵)۔
اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پہلا ذریعہ حفاظت قرآن سینہ بہ سینہ کا کیا مقام ومرتبہ ہے۔ قاضی فضیل بن عیاض رحمة اللہ علیہ کے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر حفظ قرآن میں کمی آتی ہے تو اسلام کی شان وشوکت میں کجی آجائے گی۔ پیش نظرمسئلہ ”نماز میں قرآن دیکھ کر پڑھنا“ اس بات سے صرفِ نظر کرتے ہوئے کہ وہ جائز ہے یا نہیں؛ حفاظتِ قرآن میں حددرجہ مخل ہے؛ کیوں کہ اس کی وجہ سے حفظ قرآن سے بے اعتنائی پائی جاسکتی ہے، امت میں حفظِ قرآن کا جو رجحان پیدا ہوا ہے، اس میں کمی آسکتی ہے اور حفاظ میں غفلت اور لاپرواہی پیدا ہوسکتی ہے، جس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ دین اسلام کا یہ امتیاز ملیامیٹ ہوجائے گا اور نعوذ باللہ قرآن سینوں سے ہٹ کر صرف صحیفوں تک محدود رہ جائے گا۔
مسئلہ کا ایک پہلو تو یہ ہے جو کہ دینی بھی ہے اور قومی بھی۔ اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ آیا نماز میں قرآن دیکھ کر پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟ اس سلسلے میں کتاب وسنت میں کیا ہدایات ہیں؟ سلف صالحین نے کیا رہنمائی فرمائی ہے؟ کتب فقہ میں کیا حکم ہے؟ یہ ایک مفصل گفتگو ہے، جس کو ہم آئندہ صفحات میں حتی الامکان سمیٹنے کی کوشش کریں گے۔
”نماز میں قرآن دیکھ کر پڑھنا“ قرآن وحدیث کی نظر میں:
۱- قرآن میں ہے ﴿فَوَلِّ وَجْھَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ﴾ (البقرة:۱۴۴) ”اب آپ اپنا رخ مسجدِ حرام کی سمت کرلیں“۔
بارہا یہ دیکھا گیا ہے کہ قرآن مجید امام کے دائیں طرف رکھا ہوا ہوتا ہے۔ سورئہ فاتحہ سے فراغت کے بعد امام، دائیں جانب رکھے گئے قرآن مجید کی طرف متوجہ ہوتا ہے، اس طرح کہ پیچھے سے دیکھنے والا اچھی طرح یہ محسوس کرتا ہے کہ امام کا چہرہ بالکل سیدھے قبلہ کی طرف نہیں ہے؛ بلکہ دائیں جانب رکھے ہوئے قرآن مجید کی طرف ہے؛ حالاں کہ استقبال قبلہ میں مرکزی کردار چہرے کے استقبال کا ہوتا ہے؛ کیوں کہ چہرہ ہی پورے انسانی ڈھانچے کی نمائندگی کرتا ہے۔ اگر چہرے کا استقبال نہ ہوتو بے رخی اور عدم دل چسپی کا احساس ہوتا ہے؛ جب کہ یہ توانابت اور کمالِ توجہ کا مقام ہے، یہ الگ بات ہے کہ صرف ڈھانچے اور سینے کا استقبال بھی کافی ہوسکتا ہے؛ لیکن کمالِ ادب یہی ہے کہ ایک ایک عضو کا استقبال ہو؛ چنانچہ کمال توجہ کی اسی حد کو ملحوظ رکھ کر شیخ ابن باز رحمة اللہ علیہ نے لکھا ہے: یتوجہ المصلي الی القبلة أینما کان بجمیع بدنہ․ (ہدایة الحائرین، صفة صلاة النبی:۲۹۷) ”مصلی جہیں کہیں بھی ہو استقبال قبلہ ضروری ہے، بدن کے ایک ایک عضو کے ساتھ۔“
۲- نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لِیَلِنِيْ مِنْکُمْ أُوْلُوا الأَحْلَامِ وَالنُّھٰی․(صحیح مسلم، حدیث:۴۳۲) ”نماز میں میرے قریب وہ لوگ کھڑے ہوں جو سمجھدار اور صاحبِ علم ہیں۔“ اگر قرآن دیکھ کر پڑھنے کی اجازت ہوتی تو پھر اس حدیث کا کوئی مطلب ہی نہیں بنے گا؛ اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان درحقیقت امت کے لیے یہ تعلیم تھی کہ امام کے پیچھے اور امام کے قریب وہ لوگ کھڑے ہوں جو صاحبِ علم اور صاحبِ فہم وذکاء ہیں تاکہ نماز میں اگر کوئی بھول چوک ہوجائے تو یہ امام کو لقمہ دیں اور بھول چوک کی تلافی ہوسکے۔ اگر قرآن دیکھ کر پڑھنے کی اجازت ہوتی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلمیہ نہ فرماتے۔ الغرض آپ کا یہ فرمان اشارے اور کنایے میں قرآن دیکھ کر پڑھنے کی ممانعت پر دلالت کرتاہے۔
۳- نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صَلُّوْا کَمَا رَأَیْتُمُوْنِي أُصَلِّيْ․ (صحیح البخاری، حدیث:۶۳۱) ”اس طرح نماز پڑھو جیسے تم لوگ مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو۔“ دورِ نبوی کی تیئس سالہ زندگی میں کہیں یہ ثابت نہیں کہ آپ علیہ السلام نے یاآپ علیہ السلام کی موجودگی میں صحابہ نے نماز میں قرآن دیکھ کر پڑھا ہو؛ حتی کہ ابتدائی دور میں تو نماز میں بات چیت کرنے کی اجازت بھی تھی؛ لیکن اس دور میں بھی دیکھ کر پڑھنا ثابت نہیں۔
۴- عَلَیْکُمْ بِسُنَّتِيْ وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الْمَھْدِیِّیْنَ الرَّاشِدِیْنَ․ (سنن أبي داود، حدیث:۴۶۰۷) ”میری سنت (میرے طریقے) کو اور خلفاء راشدین کی سنت (کے طریقے) کو لازم پکڑو“۔ عہد خلفاء راشدین میں بھی کوئی ایسی نظیر نہیں ملتی جس سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ اُن حضرات نے نماز میں قرآن دیکھ کر قراء ت کرنے کی اجازت دی ہے؛ البتہ سیدنا عمر سے ممانعت ضرور ثابت ہے۔ عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: نَھَانَا أمیرُ المُوٴمِنِیْنَ عُمَرُ رضی اللہ عنہ أَن یَوٴُمَّ النَّاسَ فِي الْمُصْحَفِ، وَنَھَانَا أَن یَّوٴُمَّنَا اِلَّا الْمُحْتَلِمُ․ (کتاب المصاحف، ہل یوٴم القرآن فی المصحف:۱۸۹) ”ہمیں امیرالمومنین عمر بن خطاب نے اس بات سے منع کیا کہ امام قرآن دیکھ کر امامت کرے اور اس بات سے منع کیا کہ نابالغ امامت کرے۔“
۵- قیام کی حالت میں مصلی کے لیے مستحب ہے کہ نگاہ سجدہ کی جگہ پر ہو؛ کیوں کہ اس سے دلجمعی پیدا ہوتی ہے اور خشوع وخضوع کے آثار نمایاں ہوتے ہیں۔ دیکھ کر قرآن پڑھنے کی صورت میں نگاہ یقینا قرآن مجید کے صفحات و حروف پر ہوگی، جس سے نماز کا ایک اہم ادب فوت ہوجائے گا۔
امام ابن کثیر رحمة اللہ علیہ نے لکھاہے: قال شریک القاضي: ینظر في حال قیامہ الی موضع سجودہ کما قال جمھور الجماعة، لأنہ أبلغ في الخضوع وآکد في الخشوع وقد ورد بہ الحدیث․ (تفسیر ابن کثیر سورة البقرة:۱۴۴) ”حضرت شریک رحمة اللہ علیہ نے فرمایا: قیام کی حالت میں مصلی کی نظر سجدہ کی جگہ پر ہونی چاہیے، جمہور نے یہی فرمایا ہے؛ اس لیے کہ یہ خشوع وخضوع کی اعلیٰ ترین کیفیت ہے اور اس سلسلے میں حدیث بھی وارد ہوئی ہے۔“
امام محمد رحمة اللہ علیہ نے موطا میں لکھا ہے: ینبغی للمصلي اذا قام في صلاتہ أن یرمي ببصرہ الی موضع سجودہ، وھو قول أبی حنیفة رحمہ اللہ․ (الموطا، باب وضع الیمین علی الیسار، حدیث:۲۹۱) ”مصلی جب قیام کی حالت میں ہو چاہیے کہ وہ اپنی نگاہ سجدہ کی جگہ پر رکھے اور یہی امام ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ کاقول ہے۔“
علامہ البانی رحمة اللہ علیہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز پڑھنے کی کیفیت کے بارے میں لکھا: وَکَانَ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَا صَلّٰی طَأْطَأَ رَأْسَہُ وَرَمٰی بِبَصَرِہِ نَحْوَ الأَرْضِ․ (أصل صفة صلاة النبی ﷺ:۱ صلی اللہ علیہ وسلم۲۳۰) ”جب آپ نماز پڑھتے تو سرکو جھکائے رکھتے اور نگاہ کو زمین کی طرف لگائے رکھتے تھے۔“
ابن سیرین رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں: کانوا یستحبون أن ینظر الرجل في صلاتہ الی موضع سجودہ․ (تعظیم قدر الصلاة:۱/۱۹۲) ”مستحب یہ ہے کہ آدمی نماز میں اپنی نگاہ سجدہ کی جگہ پر رکھے۔“
حدیث میں ہے: فَإِذَا صَلَّیْتُمْ فَلَا تَلْتَفِتُوْا فَإِنَّ اللہَ یَنْصِبُ وَجْھَہُ لِوَجْہِ عَبْدِہِ فِيْ صَلَاتِہِ مَا لَمْ یَلْتَفِتْ․ (سنن الترمذی، حدیث: ۲۸۶۳، مستدرک الحاکم، حدیث:۸۶۳) ”جب نماز پڑھو تو اِدھر اُدھر نہ دیکھو؛ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نماز میں اپنا چہرہ بندہ کے چہرہ کی طرف اس وقت تک کیے رکھتے ہیں؛ جب تک بندہ اپنا رخ نہیں پھیرتا۔“
ایک اور حدیث میں ہے: دَخَلَ رَسُوْلُ اللہِ صلی اللہ علیہ وسلم الْکَعْبَةَ مَا خَلَفَ بَصَرُہُ مَوْضِعَ سُجُوْدِہِ حَتّٰی خَرَجَ مِنْھَا․ (المستدرک للحاکم، حدیث:۱۷۶۱) ”جب آپ کعبہ میں داخل ہوئے تو اپنی نگاہ سجدہ کی جگہ سے نہیں اٹھائی؛ یہاں تک کہ آپ کعبہ سے باہر تشریف لے آئے۔“
۶- نماز پڑھتے ہوئے سکون وطمانینت اور خشوع وخضوع کا حکم ہے، قرآن دیکھ کر پڑھنے میں وہ سکون وطمانینت اور خشوع وخضوع نہیں رہتا؛ کیوں کہ ساری توجہ قرآن پر ہوتی ہے، قرآن کھولنے، بند کرنے اور اوراق پلٹنے میں کہاں خشوع پیداہوسکتا ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لَیْسَ یَنْبَغِيْ أَن یَّکُوْنَ فِي الْبَیْتِ شَیْءٌ یُشْغِلُ الْمُصَلِّيَ․ (سنن أبي داود، حدیث:۲۰۳۰، مسند أحمد، حدیث: ۱۶۶۳۶) ”گھر میں کوئی ایسی چیز نہیں ہونی چاہیے جونمازی کو مشغول کرتی ہو۔“
۷- یہ بات پہلے گزرچکی ہے کہ نماز میں قرآن دیکھ کر پڑھنا حفاظتِ قرآن کے لیے سخت مضر ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تَعَاھَدُوا الْقُرْآنَ فَوَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِیَدِہِ لَھُوَ أَشَدُّ تَفَصِّیًا مِنَ الإِبِلِ فِي عُقُلِھَا․ (صحیح البخاری، حدیث:۵۰۳۳) ”قرآن کی نگہ داشت کرو، اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، یقینا قرآن کریم رخصت ہونے اور سینوں سے نکل جانے میں اونٹ کے اپنے بندھن سے بھاگنے سے زیادہ تیز ہے۔“
”نماز میں قرآن دیکھ کر پڑھنا“ اقوال سلف کی نظر میں:
امام ابوداؤد رحمة اللہ علیہ نے ”کتاب المصاحف“ میں قرآن دیکھ کر نماز پڑھنے کے حوالے سے ایک باب قائم کیاہے: ”ھل یوٴم القرآن في المصحف“، جس میں صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کے مختلف آثار نقل کیے ہیں، اس کے بعد ”وقد رخص في الإمامة في المصحف“ کا عنوان لگاکر ان حضرات کے آثار نقل کیے ہیں، جنھوں نے نماز میں قرآن دیکھ کر پڑھنے کی اجازت دی ہے۔ امام ابوداؤد نے ان کو پہلے ذکر کیا ہے جن آثار میں ممانعت ہے اور جن آثار میں اجازت ہے انھیں بعد میں۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ وہ بھی ممانعت اور عدمِ جواز کے قائل ہیں اور پھر ”وقد رُخص“ کا لفظ استعمال کیا ہے یہ بتانے کے لیے کہ نماز میں قرآن دیکھ کر پڑھنے کی اجازت اگر ہے تو وہ عمومی نہیں ہے؛ بلکہ بہ وقتِ مجبوری ہے۔ ذیل میں مذکورہ باب سے چند اہم آثار کو نقل کردینا استفادے سے خالی نہیں۔
۱- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: ہمیں امیرالمومنین عمر بن خطاب نے اس بات سے منع کیا کہ امام قرآن دیکھ کر امامت کریں اوراس بات سے منع کیا کہ نابالغ امامت کرے: ”عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اللہ عنھما قَالَ: نَھَانَا أمِیْرُ الْمُوٴْمِنِیْنَ عُمَرُ رضي اللہ عنہ أَن یَّوٴُمَّ النَّاسَ فِي الْمُصْحَفِ وَنَھَانَا أَن یَّوٴُمَّنَا إِلَّا الْمُحْتَلِمُ“․
۲- قتادہ، سعید بن المسیب رحمة اللہ علیہ سے نقل کرتے ہیں کہ انھوں نے فرمایا: اگر قیام اللیل میں پڑھنے کے لیے مصلی کو کچھ یاد ہے تو وہی بار بار پڑھے؛ لیکن قرآن دیکھ کر نہ پڑھے۔ ”عن قتادة عن ابن المسیب قال: إِذَا کَانَ مَعَہُ مَا یَقُوْمُ بِہِ لَیْلَہُ رَدَّدَہُ وَلاَ یَقْرَأُ فِي الْمُصْحَفِ․
۳- لیث، مجاہد رحمة اللہ علیہ سے نقل کرتے ہیں کہ وہ قرآن دیکھ کر نماز پڑھانے کو مکروہ قرار دیتے تھے، اس وجہ سے کہ اس میں اہل کتاب سے تشبہ ہے، ”عن لیث عن مجاھد أنَّہُ کَانَ یَکْرَہُ أَنْ یَّتَشَبَّھُوْا بِأَھْلِ الْکِتَابِ یَعْنِيْ أَنْ یَّوٴُمَّھُمْ فِي الْمُصْحَفِ“․
۴- اعمش،ابراہیم رحمة اللہ علیہ سے نقل کرتے ہیں کہ اہل قرآن دیکھ کر نماز پڑھانے کو سخت ناپسند کرتے تھے؛ کیوں کہ اس میں اہل کتاب سے تشبہ ہے۔ ”عن الأعمش عن إبراھیم قال: کَانُوْا یَکْرَھُوْنَ أَنْ یَّوٴُمَّ الرَّجُلُ فِي الْمُصْحَفِ کَرَاھِیَةً شَدِیْدَةً أَن یَّتَشَبَّھُوْا بِأَھْلِ الْکِتَابِ“․ اس کے علاوہ بھی اور بہت سے آثار امام ابوداؤد نے نقل کیے ہیں، مزید تفصیل کے لیے کتاب المصاحف (۱۸۹، ۱۹۰، ۱۹۱) کی طرف رجوع کیا جائے۔
۵- خطیب بغدادی رحمة اللہ علیہ نے اپنی تاریخ عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کا اثر نقل کیا ہے کہ وہ اس بات کو ناپسند کرتے تھے کہ کوئی رمضان کے مہینے میں لوگوں کو نماز پڑھائے اور قراء ت، قرآن میں دیکھ کرکرے اور فرماتے تھے کہ یہ اہلِ کتاب کا عمل ہے: عَنْ عَمَّارِ بْنِ یَاسِرٍ کَانَ یَکْرَہُ أَن یَّوٴُمَّ الرَّجُلُ النَّاسَ بِاللَّیْلِ فِيْ شَھْرِ رَمَضَانَ فِي الْمُصْحَفِ ھُوَ مِنْ فِعْلِ أَھْلِ الْکِتَابِ․ (تاریخ:۹/۱۲۰)
معلوم ہوا کہ اکثر اہلِ علم نے اس کو باطل گردانا ہے۔ بعض علماء نے اگر کچھ نرمی برتی بھی ہے تو بلاضرورتِ شدیدہ کے جائز کسی نے نہیں کہا ہے۔ علامہ کاسانی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں: إن ہذا الصنیع مکروہ بلا خلاف“ (بدائع الصنائع: ۲/۱۳۳) ”نماز میں قرآن دیکھ کر پڑھنا بالاتفاق مکروہ ہے“۔
پھر بھی چوں کہ سلف میں سے بعض نے اجازت دی ہے (قطع نظر اس کے کہ وہ اجازت ضرورتِ شدیدہ کی وجہ سے ہے یا بلا ضرورت بھی اجازت ہے) اس لیے کچھ لوگ جواز کے قائل ہوئے ہیں اور استدلال میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا عمل پیش کرتے ہیں۔ امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے تعلیقاً ذکر کیاہے: وَکَانَتْ عَائِشَةُ یَوٴُمُّھَا عَبْدُھَا ذَکوَانُ مِنَ الْمُصْحَفِ․ (صحیح البخاری، باب إمامة العبد والمولی) ”سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو ان کے غلام ذکوان قرآن دیکھ کر نماز پڑھاتے تھے۔“ یہی روایت مصنف ابن ابی شیبہ میں اس طرح ہے: کَانَ یَوٴُمُّ عَائِشَةَ عَبْدٌ یَقْرَأُ فِي الْمُصْحَفِ․ (حدیث:۷۲۹۳) ”سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو ان کے غلام ذکوان نماز پڑھاتے تھے اور وہ قرآن دیکھ کر قراء ت کرتے تھے۔“
اس اثر کے متعلق علامہ البانی رحمہ اللہ علیہ نے لکھا ہے: وما ذکر عن ذکوان حادثة عین لا عموم لھا․ (فتح الرحمن: ۱۲۴) ”اور ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے لیے سیدنا ذکوان کی امامت کا جو واقعہ ذکر کیا جاتاہے وہ ایک جزوی اور خصوصی واقعہ ہے عمومی نہیں ہے۔“
علامہ کاسانی رحمة اللہ علیہ نے فرمایا:
وأما حدیث ذکوان فیحتمل أن عائشة ومن کان من أھل الفتوی من الصحابة لم یعلموا بذلک وھذا ھو الظاھر بدلیل أن ھذا الصنیع مکروہ بلا خلاف ولو علموا بذلک لما مکنوہ من عمل المکروہ في جمیع شھر رمضان من غیرحاجة، ویَحْتَمِلُ أن یکون قول الراوي کان یوٴم الناس في شھر رمضان وکان یقرأ من المصحف إخبارا عن حالتین مختلفین أي کان یوٴم الناس في رمضان وکان یقرأ من المصحف في غیر حالة الصلاة․ (بدائع الصنائع:۲/۱۳۳، ۱۳۴)
”سیدنا ذکوان والی حدیث میں احتمال ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہما اور دیگر صحابہ کو معلوم نہ ہوا ہو کہ وہ دیکھ کرپڑھ رہے ہیں اوریہی مناسب بھی معلوم ہوتا ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ (نماز میں) قرآن دیکھ کر پڑھنا بالاتفاق مکروہ ہے۔ اگر انھیں اس حالت کاپتہ ہوتا تو ہرگز ایک مکروہ فعل کی اجازت نہ دیتے وہ بھی پورے مہینے بلا ضرورت کے اور یہ بھی احتمال ہے کہ راوی کا یہ قول کہ ”ذکوان رمضان میں لوگوں کی امامت کرتے تھے اور قرآن دیکھ کر پڑھتے تھے“ دو الگ الگ حالتوں کی خبر دینا ہے، یعنی ذکوان رمضان میں لوگوں کی امامت کرتے تھے اور نماز سے باہر قرآن دیکھ کر پڑھتے تھے۔“
اسی طرح کی بات علامہ عینی رحمة اللہ علیہ نے بھی کہی ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں:
أثر ذکوان إن صح فھو محمول علی أنہ کان یقرأ من المصحف قبل شروعہ في الصلاة أي ینظر فیہ ویتلقن منہ ثم یقوم فیصلي، وقیل مادل فإنہ کان یفعل بین کل شفعین فیحفظ مقدار ما یقرأ من الرکعتین، فظن الراوی أنہ کان یقرأ من المصحف․ (البنایة:۲/۵۰۴)
”اس اثر کو اگر صحیح مان لیا جائے تو اس بات پرمحمول ہوگا کہ ذکوان نماز شروع کرنے سے پہلے قرآن دیکھتے تھے، پھر ذہن نشین کرکے نماز پڑھاتے تھے، ذکوان ہر دورکعت بعد یہ عمل کرتے اور اگلی دو رکعت میں جتنا پڑھنا ہوتا وہ یاد کرلیتے۔ اسی کو راوی نے اس طرح نقل کردیا کہ وہ قرآن دیکھ کر قراء ت کرتے تھے۔“
علامہ کاسانی اور علامہ عینی رحمة اللہ علیہما کی بات کی تائید اس اثر سے بھی ہوتی ہے جسے حافظ ابن حجر رحمة اللہ علیہ نے ”التلخیص الحبیر“ میں اورامام شوکانی رحمة اللہ علیہ نے ”نیل الاوطار“ میں ذکر کیا ہے، اس اثر میں قرآن دیکھ کر پڑھنے کی بات ہی نہیں:
عن ابن أبي ملیکة أنھم کانوا یأتون عائشة بأعلی الوادي ھو وعبید بن عمیر والمسور بن مخرمة وناس کثیر فیوٴمھم أبو عمر و مولی عائشة، وأبو عمر وغلامھا حینئذ لم یعتق․ (التلخیص الحبیر:۲/۱۱۰، نیل الأوطار، باب إمامة العبد الأعمی والمولی:۵۸۶)
”ابن ابی ملیکہ بیان کرتے ہیں کہ وہ اور عبید بن عمیر، مسور بن مخرمہ اور بہت سے لوگ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آتے تھے، تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے غلام ابوعمرو سب کی امامت کرتے تھے اور وہ اس وقت تک آزاد نہیں ہوئے تھے۔“
اور بعض سلف سے جواجازت منقول ہے وہ اضطراری حالت میں ہے، بلا ضرورتِ شدیدہ کے جائز کسی نے نہیں کہاہے؛ چنانچہ امام احمد رحمة اللہ علیہ سے اس بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا: ما یعجبني إلا یضطر إلی ذلک․ (فتح الرحمن:۱۲۷) ”میں مناسب نہیں سمجھتا الاّ یہ کہ اضطراری حالت ہو۔“ امام مالک رحمة اللہ علیہ نے بھی اس کو اضطرار کی شرط کے ساتھ مشروط کیاہے۔ ابن وہب رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں: سمعت مالکا سُئل عمن یوٴم الناس في رمضان في المصحف؟ فقال لا بأس بذلک إذا اضطروا إلی ذلک․ (کتاب المصاحف: ۱۹۳) ”میں نے امام مالک رحمة اللہ علیہ سے سنا جب کہ آپ سے رمضان میں قرآن دیکھ کر نماز پڑھانے کے بارے میں پوچھا گیا، آپ نے فرمایا: کوئی بات نہیں اگر اس کے بغیر کام نہ چلتا ہو۔
قتادہ سعید بن المسیب رحمة اللہ علیہ سے نقل کرتے ہیں: إن کان معہ ما یقرأ بہ في لیلة، و إلا فلیقرأ في المصحف․ (فتح الرحمن:۱۲۸) ”اگر قیام اللیل میں پڑھنے کے لیے اسے کچھ یاد ہے تو اچھی بات ہے، نہیں تو پھر (بدرجہٴ مجبوری) قرآن دیکھ کر پڑھے۔ سعید بن المسیب کا یہی قول کتاب المصاحف میں اس طرح ہے: إن کان معہ ما یقوم بہ لیلہ رددہ ولا یقرأ في المصحف․ ”اگر قیام اللیل میں پڑھنے کے لیے اسے کچھ یاد ہے تو وہی بار بار پڑھے اور قرآن دیکھ کر نہ پڑھے۔“
اب رہی بات ضرورتِ شدیدہ کی اور اضطرار کی تو مفتیانِ کرام اور باحثین فقہ بتائیں گے کہ کیا اس زمانے میں اس درجہ ضرورت کا تحقق ہوسکتا ہے؟ کیا امت حفظِ قرآن سے اس درجہ تہی دست اور تہی دامن ہوچکی ہے؟ کیا مرکزی مساجد کے ائمہ بھی اس لائق نہیں رہے؟ میرے خیال سے تو ضرورت اور اضطرار بقاءِ قرآن کی ہے، نماز میں حفظ سے قراء ت لازم قرار دینے کی ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ حفظِ قرآن کی تبلیغ ہو اور حفاظتِ قرآن کا دائرہ مزید وسیع ہو۔
امام ابن حزم رحمة اللہ علیہ کا فتوی:
ولا یحل لأحد أن یوٴم وھو ینظر ما یقرأ بہ في المصحف لا في فریضة ولا نافلة، فإن فعل عالما بأن ذلک لایجوز بطلت صلاتہ وصلاة من ائتم بہ عالما بحالہ عالما بأن ذلک لا یجوز․ (المحلی:۳/۱۴۰)
”کسی ایسے شخص کے لیے امامت کرنا جائز نہیں ہے جو قرآن میں دیکھ کر قراء ت کررہاہو، نہ فرض نماز میں اورنہ نفل نماز میں،اگر کسی شخص نے ایسا کیا یہ جانتے ہوئے کہ یہ جائز نہیں اس کی نماز باطل ہوجائے گی اور اس کی اقتداء میں جو نماز پڑھ رہا ہے اس کی نماز بھی باطل ہوجائے گی؛ جب کہ اسے امام کی حالت کا علم ہو کہ وہ نماز کے منافی کام کررہا ہے۔
علامہ البانی رحمة اللہ علیہ کا فتوی:
شیخ ابوانس محمد بن فتحی آل عبد العزیز اور شیخ عبدالرحمن محمود بن الملاح نے اپنی کتاب ”فتح الرحمٰن في بیان ہجر القرآن“ میں شیخ البانی کا یہ فتوی نقل کیاہے:
لا نری ذلک، وما ذکر عن ذکوان حادثة عین لاعموم لھا، وبإباحة ذلک لأئمة المساجد یوٴدي بھم إلی ترک تعاھد القرآن والعنایة بحفظہ غیبا وھذا خلاف قولہ صلی اللہ علیہ وسلم: تعاھدوا القرآن فوالذي نفسي بیدہ لھو أشد تفصیا من الإبل في عقلھا، ومعلوم أن للوسائل حکم الغایات کقولھم مالا یقوم الواجب إلا بہ فھو واجب وما یوٴدي إلی معصیة فھو معصیة․ (فتح الرحمن:۱۲۴، ۱۲۵)
”ہم اسے درست نہیں سمجھتے اور ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے لیے سیدنا ذکوان کی امامت کا جو واقعہ ذکر کیا جاتا ہے وہ ایک جزوی اور خصوصی واقعہ ہے، عمومی نہیں ہے اور اگر ائمہ مساجد کو اس کی اجازت دے دی جائے تو قرآن کریم کا حفظ ومراجعہ اور حفاظتِ قرآن کی کوشش وغیرہ تمام امور رفتہ رفتہ رخصت ہوجائیں گے؛ جب کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کے خلاف ہے: ”قرآن پاک کی نگہ داشت کرو، اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، یقینا قرآن کریم رخصت ہونے اور سینوں سے نکل جانے میں اونٹ کے اپنے بندھن سے بھاگنے اور رخصت ہوجانے سے زیادہ تیز ہے اوریہ بھی معلوم ہے کہ وسائل کا حکم بھی غایات کے مثل ہے، مثلاً علماء کا قول ہے کہ جس چیز کے ذریعہ کسی واجب کی بقاء اور قیام ہو وہ بھی واجب ہوجاتی ہے اور جو شے کسی معصیت کاذریعہ ہو وہ شے بھی معصیت اور گناہ ہوتی ہے۔“
کتب فقہ میں قرآن دیکھ کر نماز پڑھنے سے متعلق جزئیات:
غنیة شرح منیہ، البحرالرائق، تبیین الحقائق، فتح القدیر، رد المحتار اور بدائع الصنائع وغیرہ میں قرآن دیکھ کر نمازپڑھنے سے متعلق مختلف جزئیات ہیں، جن کا خلاصہ پیش کیاجاتاہے:
۱- قرآن مجید ہاتھ میں لے کر نماز پڑھی جارہی ہو اورامام حافظ قرآن بھی نہ ہو توامام مقتدی سب کی نماز فاسد ہوجائے گی۔ اسی طرح اگر منفرد (تنہا شخص) نماز پڑھ رہا ہوتواس کی بھی نماز فاسد ہوگی اور فاسد ہونے کی دو وجہیں ہیں:
الف: عمل کثیر: کیوں کہ قرآن اٹھانے میں دونوں ہاتھ مشغول رہیں گے، قرآن کھولنے، بند کرنے اور اوراق پلٹنے میں بھی دونوں ہاتھ مشغول ہوں گے۔
ب: تعلیم و تعلّم: چوں کہ اس کو قرآن یاد نہیں ہے دیکھ کرپڑھ رہا ہے تو یہ مانا جائے گا کہ یہ نماز کے باہر سے لقمہ لے رہا ہے اور لقمہ لینا ایک طرح سے تعلیم وتعلّم ہے؛ اس لیے یہ انسانی کلام کے درجے میں ہوگیا؛ لہٰذا نماز فاسد ہوجائے گی۔ علامہ کاسانی رحمة اللہ علیہ اس علت کی مزید وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
أن ھذا یلقن من المصحف فیکون تعلمًا منہ، ألا تری أن من یأخذ من المصحف یسمی متعلما فصار کما لو تعلم من معلم، وذا یفسد الصلاة فکذا ھذا․ (بدائع الصنائع: ۲/۱۳۳)․
”یہ قرآن سے تلقین ہے؛ لہٰذا قرآن سے سیکھنے کے درجہ میں ہوگیا۔ جو شخص قرآن سے سیکھتا ہے اسے ہر کوئی متعلّم کہتاہے تو یہ ایسے ہی ہوگیا گویا کہ اس نے معلم سے سیکھا ہے (اگر آدمی نماز کی حالت میں معلم سے سیکھ لے) تو نماز فاسد ہوجاتی ہے؛ لہٰذا اس سے بھی نماز فاسد ہوجائے گی“۔
۲- قرآن ہاتھ میں نہیں ہے؛ بلکہ رحل یا کسی اونچی چیز پر رکھا ہوا ہے، امام یا منفرد اس میں دیکھ کرپڑھ رہے ہیں؛ جب کہ ان کو قرآن یاد نہیں ہے تو اب اگرچہ عمل کثیر نہیں پایا جارہا ہے؛ لیکن دوسری وجہ تعلیم وتعلّم پائی جارہی ہے؛ اس لیے نماز فاسد ہوگی۔
۳-قرآن ہاتھ میں نہیں ہے، جو شخص نماز پڑھ رہا ہے (امام یا منفرد) اسے قرآن یاد ہے تو اس صورت میں نماز فاسد نہ ہوگی؛ کیوں کہ اس کا دیکھ کر پڑھنا یہ درحقیقت اس کے حافظہ کی طرف منسوب ہے؛ اس لیے وہ نماز کے باہر سے لقمہ لینے والا شمار نہ ہوگا، الموسوعة الفقہیہ میں ہے:
واستثنی من ذلک ما لو کان حافظا لما قرأہ وقرأ بلاحمل فإنہ لا تفسد صلاتہ لأن ھذہ القراء ة مضافة إلی حفظہ لا إلی تلقنہ من المصحف، ومجرد النظر بلا حمل غیر مفسد لعدم وجھي الفساد․ (الموسوعة الفقہیة: ۳۳/۵۷،۵۸)
”فقہاء نے ایک صورت کا استثناء کیا ہے، وہ یہ ہے کہ نمازی جو حصہ پڑھ رہا ہے اس کا وہ حافظ ہے اور قرآن بھی ہاتھ میں نہیں ہے، تو اس کی نماز فاسد نہ ہوگی؛ اس لیے کہ یہ پڑھنا اس کے حافظہ کی طرف منسوب ہے نہ یہ کہ وہ قرآن سے سیکھ کر پڑھ رہا ہے اور قرآن میں دیکھنا قرآن اٹھائے بغیر یہ مفسد صلاة نہیں ہے؛ کیوں کہ فساد کی دونوں علتیں نہیں پائی جاتیں۔“
(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: غنیة شرح منیہ:۲۷۴، البحرالرائق:۲/۱۷، تبیین الحقائق: ۱/۱۵۹، ردالمحتار:۲/۳۸۴)
ممکن ہے کوئی یہ سوال کرے کہ جن مساجد میں ائمہ قرآن دیکھ کر تراویح پڑھاتے ہیں ان میں اکثر حافظِ قرآن ہی ہوتے ہیں اور قرآن بھی امام کے ایک طرف کسی چیز پر رکھا ہوتا ہے؛ لہٰذا ان ائمہ کا قرآن دیکھ کر پڑھنا یہی مانا جائے گاکہ یہ اپنے حافظہ سے پڑھ رہے ہیں، جب فسادِ صلاة کی دونوں وجہیں نہیں پائی گئیں تو اب کوئی اعتراض بھی نہیں ہونا چاہیے؟۔ تو عرض ہے کہ فاسد نہ ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ نماز من کل الوجوہ درست ہے؛ بلکہ اس میں بہت سی ایسی خرابیاں اب بھی ہیں جو نمازکو کراہت کے درجے سے نیچے نہیں اترنے دیتیں، ماسبق میں وہ خرابیاں تفصیل سے ذکر کی جاچکی ہیں۔
ڈاکٹر صالح بن محمد الرشید نے اپنی کتاب ”المتحف في أحکام المصحف“ میں قرآن دیکھ کر قراء ت کرنے میں جو خرابیاں ہیں ان کو اختصار کے ساتھ ذکر کیاہے، فرماتے ہیں:
ویشغل عن بعض سننھا وھیئاتھا فیفوت سنة النظر في موضع السجود ووضع الیمنی علی الشمال ویفضي إلی التشبہ بأھل الکتاب فضلا عن کونہ إحداثا في الدین لم یرد الشرع بإباحتہ․ (المتحف في أحکام المصحف:۶۵۳)
”قرآن میں دیکھ کر قرأت کرنا نماز کی بعض سنتوں اور نماز پڑھنے کی بعض مخصوص کیفیات کے خلاف ہے؛ چنانچہ سجدہ کی جگہ نظر رکھنے کی سنت فوت ہوجاتی ہے، ہاتھ باندھنے کی سنت فوت ہوجاتی ہے، دیکھ کر قرأت کرنے سے اہلِ کتاب سے تشبہ پیدا ہوتی ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ یہ دین میں ایسی چیز کا ایجاد کرنا ہے جس کی شریعت نے اجازت نہیں دی ہے۔“
اختتام میں فقہ حنبلی کی مشہور کتاب ”شرح منتہی الإرادات“ کی یہ عبارت ذکر کرنا مناسب معلومہ ہوتا ہے: ویکرہ للحافظ حتی في قیام رمضان، لأنہ یشغل عن الخشوع وعن النظر إلی موضع السجود․ (شرح منتہی الإرادات:۱/۲۴۱)
”حافظِ قرآن کے لیے نمازِ تراویح میں قرآن دیکھ کر پڑھنا مکروہ ہے؛ اس لیے کہ یہ خشوع پیدا کرنے میں مخل ہے اور قیام کی حالت میں سجدہ کی جگہ نگاہ رکھنے سے مانع ہے۔
——————————————–
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ10، جلد:100 ، محرم الحرام 1438 ہجری مطابق اکتوبر 2016ء