علمِ مقاصدِ شریعت: تعارف اور جائزہ (۱)

از: مدثر جمال تونسوی

”مقاصدِ شریعت“ باقاعدہ ایک علم ہے۔

مقاصد: یہ مقصد کی جمع ہے اس کے معنی ہیں: میانہ روی جو افراط و تفریط سے پاک ہو۔ قرآن کریم میں ہے:

وَ اقْصِدْ فِی مَشْیِکَ (لقمان:۱۹)

اپنی چال میں میانہ روی رکھو۔

اسی طرح حدیث مبارک میں ہے:

القصدَ ، القصدَ تَبْلُغُوا(بخاری، کتاب الرقاق)

میانہ روی سے دین پر چلتے رہو، منزل تک پہنچ جاوٴ گے۔

شریعت عربی زبان میں پانی کے منبع اور سرچشمہ کوکہتے ہیں، نیز دین، ملت، طریقہ، سنت اور منہاج پر بھی شریعت کا لفظ بولا جاتا ہے۔

جس طرح پانی انسانی زندگی کی بقاء اور تروتازگی کے لیے ناگزیر ضرورت ہے ، اسی طرح دین اسلام انسانوں کی روحانی اور مذہبی زندگی کی بقاء اور اصلاح کا سرچشمہ اور منبع ہے، اسی دین اسلام سے انسانوں کی دنیوی اور اُخروی فلاح وبہبود اور اللہ تعالیٰ کے ہاں رضامندی جڑی ہوئی ہے۔

مقاصدِ شریعت کا اصطلاحی معنیٰ:

متقدمین اہلِ علم کے ہاں اس علم کا مستقل وجود نہیں تھا؛ بلکہ عموماً تمام دینی علوم اور خصوصاً اصول فقہ کے ذیل میں اس علم وفن سے بحث کی جاتی تھی۔ چنانچہ مصلحت، حکمت، منفعت اور اسرار وغیرہ کی جو تعبیرات علومِ دینیہ میں ملتی ہیں وہی مباحث مستقل موضوع اختیار کرکے ایک مستقل علم کی شکل اختیار کرگئیں۔

عصرحاضر میں اس موضوع پر ایک مفید ترین کتاب تحریر کرنے والے شیخ نور الدین الخادمی نے اس علم کی جامع ترین تعریف کرتے ہوئے تحریر کیا ہے:

المقاصد ھی المعانی الملحوظة فی ا لأحکام الشرعیة و المترتبة علیھا سواء أکانت تلک المعانی حکماجزئیة أم مصالح کلیة أم سِمات إجمالیة وھی تتجمع ضمن ھدف واحد، ھو تقریر عبودیة اللہ و مصلحة الإنسان فی الدارین (الاجتہاد المقاصدی حجیتہ ، ضوابطہ، مجالاتہ۔ج۱۔ص۵۲)

”مقاصد شریعت سے مراد وہ اَہداف بھی ہیں جو شرعی اَحکام میں ملحوظ رکھے گئے ہیں اور وہ بھی ہیں جو اُن شرعی احکام پر مرتب ہوتے ہیں، چاہے وہ اَہداف جزوی حکمتیں ہوں ، کلی مصلحتیں ہوں یا محض اجمالی نشانیاں ہوں اور یہ سب اَہداف اپنے ضمن میں ایک ہی ہدف رکھتے : اللہ تعالیٰ کی بندگی کا اظہار اور انسان کے لیے دنیا اورآخرت میں فائدہ مندی“

خلاصہٴ کلام یہ کہ ایک حکیم وخبیر ذات باری تعالیٰ نے شرعی احکام میں اپنے بندوں کے لیے جو فوائد رکھے ہیں وہی مقاصد شرعیہ ہیں۔ مثلاً :

روزے کا فائدہ حصولِ تقویٰ بیان کیا گیا ہے تو یہ تقوی کا حصول مقصدِ شرعی ہے۔

 جہاد کاایک مقصد جارح دشمن کی جارحیت کو دفع کرنا ہے تو یہی شرعی مقصد کہلائے گا۔

نکاح کے مقاصد میں اپنی شرمگاہ اور نظروں کی حفاظت اور اولاد کا حصول پیش نظر ہے تو یہی چیزیں شرعی مقاصد کہلائیں گی۔

الغرض شرعی مقاصد اور مصالح کا باب بہت وسیع ہے؛ مگر جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا کہ یہ سب مقاصد اور مصالح آخر کار اللہ تعالیٰ کی بندگی اور بندوں کی دنیوی اور اُخروی سعادت مندی سے ہی جڑ جاتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کا فرمان ہے:

وَ لَقْدَ بَعَثْنَا فِی کُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلاً اَنِ اعْبُدُوْا اللہَ وَ اجْتَنِبُوْا الطَّاغُوْتَ (النحل:۳۶)

ہم نے ہر قوم میں رسول بھیجے (یہ پیغام دے کر کہ)ایک اللہ کی عبادت کرو اور شیطان سے بچ کر رہو۔

مقاصدِ شریعت کی بات کو دیگر بعض اہلِ علم نے یوں بھی بیان کیا ہے کہ :

شریعت کے مقاصد بنیادی طور پر دو ہی ہیں:

(۱)دینی اور دنیوی منافع اور مصالح کا حصول ۔

(۲)دینی اور دنیوی نقصانات اور فسادات کا دفعیہ۔

یہ الگ بحث ہے کہ اگر کبھی دینی اور دنیوی منفعت میں ٹکراوٴ پیدا ہورہا ہو تو پھر کس منفعت کو ترک کریں گے اور کس منفعت کو ترجیح دیں گے؟ اگرچہ اس میں اصولی اورعمومی ضابطہ یہی ہے کہ دینی منفعت کو ہی ترجیح دیں گے؛ لیکن بہرحال یہ موضوع ایک الگ مستقل اور مفصل بحث ہے جو اس وقت ہمارے پیش نظر نہیں ہے؛ کیوں کہ فی الحال ہم اس علم کی مبادیات اور تعارف پر گفتگو کررہے ہیں۔

اب تک کی بحث سے ہم نے اس علم کی تعریف جان لی اور ساتھ ہی اس کی غرض و غایت بھی جان لی یعنی کہ: اللہ تعالیٰ کی بندگی کا ثبوت اور انسان کی دینی و دنیوی سعادت مندی۔

مقاصدِ شریعت کی اَقسام:

اس علم وفن کی تعریف اور غایت جاننے کے بعد اب اس کی اہم ترین اقسام جاننا ضروری ہے۔ اس فن کے اولین معمار امام ابو اسحاق ابراہیم بن موسی الغرناطی الشاطبی (متوفیٰ۷۹۰ھ)کی مباحث سے بطور خلاصہ وانتخاب ان اقسام کو بیان کیا جاتا ہے:

(۱)مصالح ضروریہ: اُن اَہداف و غایات کو کہا جاتا ہے کہ اگر وہ ہاتھ نہ آئیں تو انسان کی دنیا یا آخرت برباد ہو جائے ۔ مثلا اگر نکاح اور نماز پڑھنا کہ اگر نکاح کی قدرت ہو اور کوئی مانع بھی نہ ہو اس کے باوجود نکاح نہ کیا جائے تو دنیوی فوائد سے محرومی ہے اور اگر شرعی عذر کے بغیر نماز ترک کر دی جائے اور اس سے منہ موڑ لیا جائے آخرت برباد ہو جاتی ہے ۔

یہ شرعی مقاصد کی سب سے اولین قسم ہے ، گویاکہ شریعت نے احکام شرعیہ میں ان مصالح کو علت کے بعد سب سے مقدم رکھا ہے اور یہ پانچ مصالح ہیں جنھیں مقاصد خمسہ سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔

یہ درج ذیل ہیں:(۱)دین کی حفاظت (۲)انسانی جان کی حفاظت (۳) انسانی عقل کی حفاظت (۴)انسانی نسل کی حفاظت (۵)انسان کے مال کی حفاظت۔

گویا اب یوں سمجھیے کہ شریعت نے جتنے بھی احکام دیے ہیں، ان سب میں ان پانچ مصلحتوں میں سے کوئی نہ کوئی مصلحت ضرور موجود ہوگی اور بعض میں دو تین یا سب مصلحتیں بھی موجود ہوسکتی ہیں؛ لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ شریعت کا کوئی حکم ایسا ہو جس میں ان پانچ باتوں میں سے کوئی بھی بات موجود نہ ہو۔ ان پانچوں باتوں کی اصل اور بنیاد خود قرآن مجید ہے جو اس فن کے ماہرین اور ماہرینِ قرآن پر مخفی نہیں۔ نیز یہ بھی واضح رہے کہ یہ پانچوں باتیں آپس میں ہم مرتبہ نہیں؛ ہیں بلکہ ان پانچوں کے باہمی درجات میں تفاوت ہے، مثلا اگر دین اور جان میں سے کسی ایک کو بچانے کا موقع ہو تو شریعت کا حکم یہ ہے کہ اس موقع پر دین بچانا مقدم ہوگا، اگرچہ جان نہ بچ پائے، اسی طرح اگر جان اور مال میں سے ایک چیز بچائی جا سکتی ہو تو شریعت جان بچانے کو ترجیح دے گی وغیرہ۔

یہ پانچ ضروریات اصول دین میں سے ہیں۔ امام شاطبی نے انھیں ”اصول دین، قواعد شریعت اور کلیات ملت“ کے القاب دیے ہیں جن سے ان کی اہمیت خود بخود واضح ہو رہی ہے۔ مثلا:

 ارکانِ اسلام کا مکلف اس لیے بنایا گیا؛ تاکہ انسان کا ”دین“ سلامت رہے۔

دیت، قصاص اور زخموں وغیرہ کے احکام اس لیے دیے گئے؛ تاکہ انسانی ”نفس“ کی حفاظت ہو۔

نشہ آور چیزوں اور دیگر لہو ولعت کی ممانعت کی گئی؛ تاکہ انسانی ”عقل“ سلامت رہے۔

گھریلو زندگی سے متعلق احکامات اس لیے دیئے گئے؛ تاکہ انسانی ”نسل“ کو بقاء اور تحفظ میسر آئے۔

خرید وفروخت کے احکامات اور چوری وڈاکہ زنی وغیرہ کی ممانعت اس لیے کی گئی؛ تا کہ انسانی ”مال“ محفوظ رہ سکے۔

اب دیکھ لیجیے کہ شریعت نے کس طرح اپنے احکامات میں ان پانچ باتوں کو ملحوظ رکھا ہے اسی لیے انھیں اصول دین اور قواعدشریعت کا لقب دیا گیا ہے۔ اور یہ بھی واضح رہے کہ جو باتیں ان پانچ مقاصد میں سے کسی میں بھی خلل انداز ہوں انھیں شریعت ”مفاسد“ کا نام دیتی ہے اور جن باتوں سے یہ پانچ باتیں سلامت اور محفوظ رہیں انھیں ”مصالح“ قرار دیتی ہے۔

(۲)مصالح حاجیہ:یعنی وہ مصلحتیں جن سے انسانی حاجات وابستہ ہوں اور اگر وہ حاجات پوری نہ ہوں تو انسان تکلیف اور مشقت میں پڑ جائے، اِن انسانی حاجات سے متعلقہ احکامات میں شریعت نے جو اَہداف مقرر کیے ہیں انھیں ”مصالحِ حاجیہ“کا نام دیا گیا ہے۔ مثلا عذر کے وقت تیمم کرنا وغیرہ۔

پھر یہ مصالح حاجیہ اپنی اصل میں قسم اول مصالح ضروریہ سے ہی جڑی ہوئی ہیں۔ مثلا:

نکاح کے احکامات میں شریعت نے جو چیزیں مدنظر رکھی ہیں، ان کا ایک ہدف نسلِ انسانی کی بقاء اور تحفظ ہے اور یہ بات اوپر بیان ہوچکی ہے کہ نسلِ انسانی کا تحفظ مقاصد خمسہ اور مصالح ضروریہ میں سے ہے۔

اسی طرح تجارت اور کرایہ داری وغیرہ کے احکامات کا ہدف مال کی حفاظت یا اس کی بڑھوتری ہے اور مال کی حفاظت بھی قسمِ اول؛ مصالح ضروریہ میں سے ایک مصلحت ہے۔

ان انسانی حاجات میں شریعت نے عموماً رخصت اور آسانی کی ملحوظ رکھا ہے؛ چنانچہ بوقت ضرورت مردار کھانے کی اجازت اور پانی میسر نہ ہونے یا قدرت نہ ہونے کے وقت تیمم کا حکم ، سفر میں نماز کی قصر اور روزہ نہ رکھنے کی اجازت اسی سہولت اور رخصت پر مبنی ہے؛ تاکہ انسان اپنی استطاعت کے حدود میں رہتے ہوئے دینی ارکان کو بجا لاسکے اور انھیں محفوظ رکھ سکے۔

(۳)مصالحِ تحسینیہ: یعنی ایسی مصلحتیں اور ایسے اہداف جن کی رعایت انسانی کردار اور گفتار میں حسن وخوبی کا باعث ہوں ، انھیں مصالحِ تحسینیہ کا نام دیا گیا ہے اور تمام اچھی عادات اور اچھے اخلاق اسی سے جڑے ہوتے ہیں ۔ پھر تمام برے اخلاق سے اجتناب برتنا بھی اسی قسم سے متعلق ہے؛ کیوں کہ بری باتوں اور برے اخلاق سے کنارہ کشی خود بخود انسان میں ایک حسن پیدا کردیتی ہے۔

چنانچہ اسراف اور بخل وغیرہ سے اجتناب کرنا، میاں بیوی کے انتخاب میں کفاء ت کو ملحوظ رکھنا، کھانے پینے کے آداب، حسنِ معاشرت، ستر عورت، نجاست سے پاک رہنا وغیرہ سب اس کی مثالیں ہیں۔

جس طرح مصالح کی دوسری قسم یعنی مصالحِ حاجیہ اپنی انتہاء میں قسمِ اول؛ مصالحِ ضروریہ کی طرف لوٹتی ہیں اسی طرح یہ تیسری قسم؛ مصالحِ تحسینیہ بھی انجام کار مصالح ضروریہ کی طرف ہی لوٹتی ہیں۔ مثلا:

طہارت اور سترعورت کا حکم ”حفظِ دین“ کی طرف لوٹتا ہے۔

کھانے پینے کے آداب اور حرام چیزوں سے اجتناب” حفظِ نفس“ کی طرف لوٹتا ہے۔

میاں بیوی کا صحیح انتخاب اور حسنِ معاشرت ”حفظ نسل“ کی طرف لوٹتے ہیں۔

حلال کمانا، صحیح خرچ کرنااور فقیروں کو اپنے مال میں سے حصہ دینا ”حفظ مال“ کی مصلحت کی طرف لوٹتے ہیں۔

یہ ایک نمونہ ہے اس بات کا کہ مصالح کی دوسری دونوں قسمیں اپنی انتہاء اور انجام کار میں قسم اول کی طرف ہی لوٹتے ہیں؛ اسی لیے علمائے کرام نے قسمِ اول کو ”اصول دین اور قواعدِ شریعت“ کا نام دیا ہے۔

مقاصدِ شریعت کا سرچشمہ اور مصدر:

مقاصدِ شریعت کی تینوں قسمیں جو اوپر مذکور ہیں، ان کا سرچشمہ اور منبع قرآنِ کریم اور سنتِ نبوی ہے ، اس فرق کے ساتھ کہ قرآنِ کریم نے ان باتوں کو اصولی انداز میں بیان کیا ہے اور سنت نبوی میں یہ چیزیں اپنی فروعات اورکافی تفصیلات کے ساتھ سے بیان ہوئی ہیں۔ (الشاطبی ومقاصد الشریعة للحمادی العبیدی۔ ۱۲۳)

اس علم کے فوائد:

اس علم و فن کی معرفت اوراس میں رسوخ وکمال حاصل کرنے کے بہت سے فوائد ہیں ، اُن میں سے تین درج ذیل ہیں:

(۱) اس علم وفن کی معرفت سے احکامِ شریعت کی صحیح سمجھ بوجھ حاصل ہوتی ہے۔

چنانچہ امام جوینی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں :

من لم یتفطن لوقوع المقاصد فی الأوامر و النواھی فلیس علی بصیرةٍ فی وضعِ الشریعة و ھی قبلة المجتھدین ، من توجہ إلیھا من أی جھة أصاب الحق دائما (البرہان فی اصول الفقہ، ج۱، ص۲۰۶)

ترجمہ: جو شخص شرعی مامورات اور منہیات کے مقاصد نہ سمجھ سکے تو شرعی احکامات میں صاحبِ بصیرت نہیں بن سکتا ، حقیقت تو یہ ہے کہ یہ مقاصدِ شریعت مجتہدین کی کاوشوں کا قبلہ ہیں اور جو شخص کسی بھی مسئلے میں ان کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو وہ ہمیشہ حق پا کر ہی رہتا ہے ۔

(۲)قرآنِ کریم اور سنت نبوی کے علوم و معارف میں باریکی اور گہرائی نصیب ہوتی ہے۔

(۳) وہ نت نئے مسائل اور حوادث جن کے بارے میں کوئی شرعی حکم منصوص نہیں ہوتا، اُن کے صحیح شرعی حکم تک رسائی حاصل کرنے میں یہ علم و فن خاص طور سے مددگار ہوتا ہے۔

(۴) اس علم وفن کا ماہر شرعی احکامات کو لوگوں کے سامنے آسان اور عام فہم بنا کر پیش کرتا ہے۔

قرآن کریم میں اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:

یُرِیْدُ اللہَ بِکُمُ الْیُسْرَ وَ لَایُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ(البقرة:۱۸۵)

اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ آسانی کرنا چاہتے ہیں اور تمہیں مشکل میں ڈالنا نہیں چاہتے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا تھا :

یَسِّرُوْا وَ لَاتُعَسِّرُوْا وَ بَشِّرُوْا وَ لَاتُنَفِّرُوْا (بخاری، رقم الحدیث۶۹)

تم آسانی کرو، مشکلات کھڑی نہ کرو اور خوش خبری سناوٴ، متنفر نہ کرو!

مقاصدِ شریعت کی ایک دوسری تقسیم:

شرعی احکام میں جو مقاصد اور اَہداف و غایات ملحوظ ہوتی ہیں، اُن کی خود اَحکام کے اعتبار سے تین قسمیں ہیں:(۱)مقاصدِ عامہ (۲) مقاصدِ خاصہ (۳)مقاصدِ جزئیہ۔

 ان کی کچھ وضاحت یوں ہے:

(۱)مقاصد عامہ:

اس سے مراد وہ مقاصد ہیں جنہیں شریعت تمام احکامات میں یا اکثر احکامات میں ملحوظ رکھتی ہے۔ مثلا:

إنما الاعمال بالنیات: اعمال کا دارو مدار نیت پر ہے۔

یہ ایسا شرعی مقصد ہے جو عموماً شرعی احکامات میں ملحوظ ہوتا ہے۔

اسی طرح یہ ضابطہ : الضرورات تبیح المحذورات: ضرورت، ممنوع چیز کو مباح بنا دیتی ہے۔

یہ ضابطہ بھی اکثر شرعی احکامات میں بوقت ضرورت جاری ہوتا ہے۔

یہ دومثالیں ہیں، اُن مقاصد کی جو عموماً تمام یا کم ازکم اکثر شرعی احکامات میں ملحوظ رکھے جاتے ہیں۔

(۲) مقاصد خاصہ:

اس سے مراد وہ اَہداف و غایات ہیں جنہیں شریعت خاص خاص اَبواب میں ملحوظ رکھتی ہے۔ مثلا نماز، روزہ ، حج ، زکوة، جہاد فی سبیل اللہ، عقوبات، دیات، معاملات وغیرہ وغیرہ ۔

تیونس کے مشہور عالم دین شیخ ا لاسلام طاہر ابن عاشور قدس اللہ سرہ نے ان مقاصد خاصہ کی درج ذیل تقسیم کی ہے:

گھریلو احکامات سے متعلق مقاصد شرعیہ

اَموال سے متعلق شرعی مقاصد

انسان اور انسانی بدن سے صادر ہونے والے اعمال سے متعلق مقاصد شرعیہ

قضاء اور شہادت(گواہی) سے متعلق شرعی مقاصد

تبرع ، ہدایا اور اِحسانات سے متعلق مقاصد

عقوبات سے متعلق مقاصد

(۳)مقاصد جزئیہ:

اس سے مراد وہ شرعی مقاصد ہیں جنہیں شارع کی طرف سے ہر حکم شرعی میں ملحوظ رکھا گیا ہو۔ مثلا کسی چیز کا واجب ہونا، کسی کا حرام ہونا، کسی کا مندوب ہونا، کسی کا مکروہ ہونا، کوئی چیز کسی حکم کے لیے شرط ہو اور کوئی چیز کسی حکم کے لیے سبب ہو وغیرہ وغیرہ۔

اس تیسری قسم سے عام طور سے فقہائے کرام بحث کرتے ہیں؛ کیوں کہ وہی حضرات شرعی جزئیات اور دقائق کو حل کرنے میں متخصص ہوتے ہیں؛ البتہ اُن کے ہاں ان مقاصد کے لیے اصطلاحی نام مختلف ہوتے ہیں؛ چنانچہ وہ کسی مقصد کو علت سے ، کسی کو حکمت سے اور کسی کو سبب اور شرط وغیرہ کے نام سے تعبیر کرتے ہیں۔

امام عزالدین بن عبد السلام قدس سرہ فرماتے ہیں :

من تتبع مقاصدَ الشرع فی جلب المصالح و درءِ المفاسد حَصَلَ لہ من مجموعِ ذلک اعتقادٌ او عرفانٌ بان ھذہ المصلحة لا یجوز إھمالھا و إن ھذہ المفسدة لا یجوز قربانھا و إن لم یکن فیھا إجماع و لا نص و لا قیاس خاص (قواعد الاحکام، ج۲، ص۱۲۰)

جو شخص بھی منافع کی تحصیل اور مفاسد کے دفعیہ میں شرعی مقاصد کو تہہ تک پہنچے گا تو اسے کامل یقین یا کم از کم قابلِ اطمینان معرفت اس بات کی حاصل ہو جائے گی کہ اُن مصالح کو بے کار چھوڑ دینا جائز ہے اور نہ ہی اُن مفاسد کے قریب جانا جائز ہے ، اگرچہ اس سلسلے میں نہ تو کئی اجماع ہو ، نہ ہی کوئی نص ہو اور نہ ہی کوئی خاص قیاس ہو۔

(باقی آئندہ)

——————————————

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ10، جلد:100 ‏، محرم الحرام 1438 ہجری مطابق اکتوبر 2016ء

Related Posts