حرفِ آغاز
مولانا حبیب الرحمن اعظمی
قرآن وحدیث، سیرومغازی اور تاریخِ عالم کے مطالعہ سے معلوم ہوتاہے کہ مذاہب عالم میں دینِ اسلام کے سب سے بڑے حریف دو مذہب یہودیت ونصرانیت ہیں، اسلام کے اولین دور یعنی عہدنبوت میں بھی اسلام کے خلاف ان کی فتنہ انگیزیوں اور مقابلہ آرائیوں کا سلسلہ پورے شدومد کے ساتھ جاری رہا، کتاب الٰہی کی درج ذیل آیات بغور پڑھیے اور ان کے جذبہٴ عداوت وعناد کا اندازہ کیجیے:
(۱) وَقَالُواْ کُونُواْ ھُوداً أَوْ نَصَارَی تَھْتَدُواْ قُلْ بَلْ مِلَّةَ إِبْرَاھِیمَ حَنِیفاً․ (البقرة:۱۳۵)
کہتے ہیں کہ یہودی یا نصرانی ہوجاؤ تو درست راستہ پالوگے، آپ ان سے کہہ دیجیے؛ بلکہ میں حضرت ابراہیم کی ملتِ حنیف کا پیروکار ہوں۔
(۲) وَلَن تَرْضَی عَنکَ الْیَھُودُ وَلاَ النَّصَارَی حَتَّی تَتَّبِعَ مِلَّتَھُمْ․(البقرة:۱۲۰)
ہرگز تجھ سے راضی نہ ہوں گے یہود اور نہ نصاریٰ یہاں تک کہ تو ان کی ملت کا تابع ہوجائے۔
غالباً اسی لیے قرآن حکیم نے ”صراط مستقیم“ کی تفسیر کرتے ہوئے ایجابی پہلو میں منعم علیھم کا اور سلبی پہلو میں مغضوب علیھم اور ضالّین ہی کا ذکر کیا ہے اور اس اہتمام سے کہ جب تک یہ سلبی پہلو ذکر نہ کیا جائے اس وقت تک صرف ”صراط الذین انعمت علیھم“ ان کے پورے مفہوم کو ادا ہی نہیں کرتا، پھر اس دعا کے پنج وقتہ تعلیم کرنے میں اس طر ف بھی اشارہ ہے کہ ملتِ حنیفیہ وامتِ مسلمہ پر سب سے زیادہ خطرہ ہے تو شاید ان مغضوب علیھم اور ضالّین کی اتباع کا ہے جس کا دوسرا نام یہودیت اورنصرانیت ہے۔
سیرت ومغازی کا معمولی طالب بھی جانتا ہے کہ یہود مدینہ معاہد ہونے کے باوجود شرائط معاہدہ کے بالکل خلاف کفارِ قریش سے ساز باز کرتے رہتے اور چپکے چپکے ان کو مسلمانوں کے متعلق خفیہ اطلاعات فراہم کرنے میں لگے رہتے تھے، اور مشرکین مکہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جنگ پر ابھارتے رہتے تھے، کون نہیں جانتا کہ غزوہٴ احد اور غزوہٴ خندق کے برپاکرنے میں انھیں یہود کی خفیہ سرگرمیوں کا ہاتھ تھا۔
پھر اس پر انھوں نے بس نہیں کیا؛ بلکہ داعی اسلام، رحمت کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کو (نعوذ باللہ) قتل کرنے تک کی متعدد بار سازشیں کیں اور جیسے جیسے اسلام ترقی کرتا رہا اسی قدر یہودیت ونصرانیت بڑھ بڑھ کر اس کے مقابلہ پر آتی رہی، یہاں تک کہ فتح مکہ کے بعد مشرکین عرب نے اسلام کے آگے سپرڈال دی اور ان کی طرف سے اسلام کو اتنا اطمینان ہوگیا کہ صاف لفظوں میں اعلان کردیاگیا کہ ”انَّ الشیطان قد اَیِس ان یعبدہ المصلون فی جزیرة العرب“ شیطان اب مایوس ہوگیا ہے کہ نمازی مسلمان جزیرہٴ عرب میں اس کی پوجاکریں گے۔
لیکن یہودیت ونصرانیت کا عَلَم جنگ اسلام کے بالمقابل برابر لہراتا رہا اور کسی وقت بھی اسلام کو ان کی فتنہ انگیزیوں اور دسیسہ کاریوں سے اطمینان میسر نہ ہوا، حتیٰ کہ اللہ کے رسول، نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے آخری لمحات میں مسلمانوں کو یہ حکم دینا پڑا اخرجوا الیھود والنصاریٰ من جزیرة العرب․ یہود ونصاریٰ کو جزیرہٴ عرب سے باہر نکال دینا، اسلام اور اہل اسلام کے ساتھ یہودیت ونصرانیت کا یہ حریفانہ ومعاندانہ رویہ خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے عہد میں بھی جاری رہا اور اپنی مسلسل ہزیمتوں کے باوجود یہ پیچھے ہٹنے پر آمادہ نہ ہوئے، آگے چل کر خلفائے بنو امیہ، وبنوعباسیہ کے دور میں بھی ان کی شرارتوں کا سلسلہ منقطع نہیں ہوا۔ خلافت عباسیہ کے بعد مملکت اسلامیہ حصہ درحصہ تقسیم ہوگئی، جس کی وجہ سے ان کی پہلی جیسی قوت وشوکت باقی نہ رہی تو نصرانیت ایک حد تک منظم ہوکر مسلم حکمرانوں پر حملہ آور ہوئی اور ایک طویل عرصہ تک انھیں جنگوں میں الجھائے رکھا، تاریخ میں عیسائیت ویہودیت کی اسی متحدہ آویزش کو صلیبی جنگوں سے ذکر کیاگیا ہے، حتیٰ کہ صلاح الدین ایوبی جیسے باکمال فرزندِ اسلام کی پوری زندگی ان کی سرکوبیوں کی نذر ہوگئی؛ البتہ صلاح الدین ایوبی نے آخر میں انھیں ایسی عبرتناک وہمت شکن شکست دی کہ دست بدست نبردآزمائی کے بجائے انھیں مجبوراً اپنی معاندانہ سرگرمیوں کا رخ بدلنا پڑگیا اور اب انھوں نے اپنی پوری توجہ قرآن وحدیث اور اسلامی عقائد واعمال کے بزعم خود ابطال کی جانب پھیردی اور اسی پر بس نہیں کیا؛ بلکہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس اور ہرعیب سے بری سیرت مطہرہ کو طعن وتشنیع کا ہدف بنانے میں اپنے علم وفکر؛ بلکہ صحیح معنوں میں دجل وفریب کی پوری طاقت جھونک دی، اور اپنے مسلم نما شاگردوں یعنی مستشرقین کی ایک فوج تیار کرکے عالم اسلام میں پھیلادی جس کا سلسلہ تاہنوز جاری وساری ہے، یہود ونصاریٰ کے ساختہ پرداختہ ان مستشرقین نے اسلام اور تعلیمات اسلام کو اپنے فکرونظر اور قلب ودماغ کی سیاہیوں سے داغ دار بنانے میں اپنی جیسی تمام کوششیں صرف کرڈالیں؛ مگر اللہ رب العزت کا پسندیدہ دین اسلام آج بھی مذاہب وملل کے افق پر آفتاب وماہتاب کی مانند چمک رہا ہے۔
بہرحال اسلام کے خلاف یہودیت ونصرانیت کی یہ معاندانہ روش بدستور قائم ہے اور موجودہ دور میں اپنے مادی وسیاسی استعلاء کے پیش نظر اس کوشش میں مصروف ہے کہ دنیا کے نقشہ سے نام ہی کی سہی اسلامی مملکتوں کا نام ونشان مٹادے۔ افغانستان، عراق، لیبیا، مصر، شام وغیرہ مسلم ممالک میں جو کچھ ہوا اور ہورہا ہے، یہ سب اسی اسلام کے خلاف حریفانہ ذہنیت کا شاخسانہ ہے، ترکی کی حالیہ فوجی بغاوت کے بارے میں اہل دانش وبینش کا بھی یہی اندازہ ہے کہ اس کے پیچھے اسی فتنہ انگیز طاقت کا غیرمرئی ہاتھ ہے، یہ بغاوت ترکوں کی خوش بختی سے اگرچہ ناکام ہوگئی ہے؛ مگر زندگی کے شعبوں پر اس کا جو منفی دیرپا اثر پڑے گا اس سے کیونکر انکارکیاجاسکتا ہے۔
یہ معاند طاقت اس بات کو قطعاً برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے کہ کوئی مسلم حکمراں اسلام اور مسلمانوں کے صلاح وفلاح کی بات کرے؛ چنانچہ مصر کے سابق حکمراں مرسی (جو عوام کے منتخب رہنما تھے) کا حشر دنیا کے سامنے ہے کہ تخت حکومت سے اتار کر انھیں زنداں کی سلاخوں کے پیچھے پہنچادیاگیا؛ چونکہ ترکی کے صدر طیب اردگان کا جرم بھی یہی ہے کہ وہ آج کے دور میں اسلام اور مسلمانوں کا نام لیتے ہیں؛اس لیے انھیں بھی صدام وقذافی کی طرح موت کے گھاٹ اتارنے یامرسی کی طرح پس دیوار زنداں کردینے کامنصوبہ تھا؛ مگر اللہ رب العزت نے ان کی یاوری کی کہ باغیوں اور ان کے پشت پناہوں کی ساری تدبیریں رائگاں گئیں ”مَکَرُواْ وَمَکَرَ اللہُ وَاللہُ خَیْرُ الْمَاکِرِینَ“
——————————————
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ7-8، جلد:100 ، شوال-ذيقعده 1437 ہجری مطابق جولائی-اگست 2016ء