از: مولانا نایاب حسن
علمائے کرام انبیا کے وارث ہیں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال کی روشنی میں انھیں پوری امت پر وہ فضیلت و برتری حاصل ہے،جوامت کے دوسرے افراد و طبقات کوحاصل نہیں۔اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کے عابدوں پر عالموں کو فضیلت دی ہے(سنن ترمذی،ح:۲۶۸۷)آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں یہ ارشاد فرمایا کہ میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے نبیوں کی طرح ہیں (المقاصدالحسنہ،ح:۶۷۰)قرآن کریم میں یہ فرمایاگیاہے کہ”علم والے اور بے علم لوگ برابر نہیں ہوسکتے“ (الزمر:۹)اس سے بھی مراد وہی اہلِ علم ہیں،جودین کی سمجھ بوجھ رکھنے والے،خدائے تعالیٰ کی تخلیقات میں غور وتدبرکرنے والے اورکائنات کے ذرات میں مخفی فطرت کے اشاروں کو سمجھنے والے ہیں۔پھرعلماء کویہ مقام و مرتبہ یوں ہی نہیں مل گیاہے؛بلکہ اس کے بے شمار تقاضے بھی ہیں اور اَنیک ذمے داریاں بھی ،کہ:
جن کے رتبے ہیں سوا،ان کو سوا مشکل ہے
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس دنیا سے پردہ فرماجانے کے بعد اس دینِ متین کے تحفظ و بقااوراس کی ترویج و اشاعت کی ساری ذمے داری علمائے امت کے کندھوں پرہے،یہ ان کا دینی فریضہ ہے کہ وہ دین کے علوم کو حاصل کرکے اگلی نسل تک پہنچائیں اور امت کی عملی،فکری و عقائدی خامیوں کو دورکرنے کے جتن کریں،ان کی یہ بھی ذمے داری ہے کہ وہ اپنے آپ کو نبوی صفات و خصوصیات سے آراستہ کریں اور امت کے سامنے ایک بہترین عملی نمونہ بنیں،ان کی ذمے داری یہ بھی ہے کہ وہ موجودہ ناگفتہ بہ دور میں دینِ اسلام کی عصری معنویت اوراس کی دائمی آفاقیت وعالمگیریت سے لوگوں کو آشنا کروائیں اور جو لوگ اسلام کی حقانیت کو تسلیم کرنے سے اِنکاری ہیں یا جو مانتے ہیں؛ مگران کی عملی دنیا گمرہی و کج روی کی دلد ل میں پھنسی ہوئی ہے،اُنھیں راہِ راست پر لانے کی کوشش کریں۔ بحمداللہ ایسے علماء ہر دور میں پائے جاتے رہے ہیں اور آج کے تشویش ناک ماحول میں بھی ایسی خدامست ہستیاں روئے زمین کے ہر خطے میں پائی جاتی ہیں،جن کی نظروں سے دلوں کی دنیا بدلتی،جن کی باتوں سے پژمردگیِ قلب و روح ختم ہوتی اورجنھیں دیکھنے سے خدایادآجاتا ہے، ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں،جواپنی مسحورکن اوراثرو تاثیرمیں ڈوبی ہوئی باتوں کے ذریعے حق کے کٹرسے کٹردشمن کواسلام کا ہمنوا بنالینے کی غیر معمولی قدرت رکھتے ہیں اور ان ہی لوگوں کی بدولت آج اسلام دنیا میں سب سے زیادہ قبول کیے جانے والے مذاہب میں اول نمبر پر ہے،گرچہ ایسے افراد کی بھی کمی نہیں ،جواپنے دل،قلب اور روح میں برپاہونے والی ہلچل سے عاجز آکرسکون کی تلاش میں اسلام کی بنیادی تعلیمات،قرآنِ مقدس اور احادیثِ مبارکہ کوپڑھتے اوران کی غیر معمولی جاذبیت انھیں دامنِ اسلام کی جانب کھینچ لے آتی ہے؛مگراس کے باوجود شخصیتوں کی تاثیر سے انکار نہیں کیا جاسکتااوراسی وجہ سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے کتابوں کے ساتھ نبیوں اور رسولوں کوبھی مبعوث فرمایاتھا۔
یہ علماءتبلیغِ اسلام اور معاشرے کی اصلاح کے لیے ہر دور میں الگ الگ طریقے اختیار کرتے رہے ہیں،ان ہی میں سے کچھ طریقے وہ ہیں،جوآج کل بہت رائج ہیں،مثلاً:تبلیغی تحریک کی شکل میں ،اس طرح کہ کچھ لوگوں کی ایک جماعت دنیا بھر کے مختلف ملکوں، شہروں، دیہاتوں کی مسجدوں میں جاکر قیام کرتی اور وہاں گردوپیش میں رہنے والے اُن مسلمانوں کودین کے مبادیات سے واقف کراتی اور انھیں مسجدکی طرف لاتی ہے،جوباوجودمدعیِ اسلام ہونے کے دین کے بنیادی ارکان کی ادائیگی سے غافل ہوتے اور انھیں بنیادی تعلیمات کی بھی خبر نہیں ہوتی، کچھ ایسے لوگ بھی ہیں،جواپنے علم و مطالعہ اورحیثیت و طاقت کے مطابق غیر مسلموں میں دعوت و تبلیغ کاکام کرتے ہیں اور ان کی کوششیں بھی بارآورہوتی ہیں اور ایک طریقہ ہے جلسوں کاکہ کسی متعین شہریاگاوٴں میں،کسی متعین تاریخ میں ”اصلاحِ معاشرہ“یا”سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم“یااسی قسم کے کسی عنوان کے تحت کسی دینی ادارے میں یا گاوٴں کی کسی کھلی جگہ میں ایک پروگرام منقعدکیا جائے اور اس میں عام لوگوں کودین کی باتیں بتلائی جائیں اور انھیں اسلام کی موٹی موٹی اور بنیادی تعلیمات سے آگاہ کیا جائے،بلاشبہ یہ طریقہ بھی اسلام کے تعارف کی توسیع اور اس کی اشاعت اور ناخواندہ و عام مسلمانوں میں دینی شعور بیدارکرنے کے حوالے سے اہم ہے اور اس کے فوائد بھی حاصل ہوتے رہے ہیں،کم ازکم ہندوستان میں تو اس قسم کے اجتماعی پروگرام یا جلسوں کی روایت صدیوں پرانی ہے،خودہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی صحابہٴ کرام کواکٹھاکرکے انھیں دین کے مسائل اور اخلاق کی تعلیم دیاکرتے تھے۔
جلسے میں فی زمانہ متعددخرابیاں درآئی ہیں۔جوسنجیدہ قسم کے لوگ ایسے جلسوں میں بحیثیت سامع شریک ہوتے ہیں یا اُنھیں بطور مہمان مدعوکیاجاتا ہے،اُنھیں اندازہ ہوگاکہ فی الوقت ایسے بہت سے جلسوں سے اصلاح کا مقصدتوکم حاصل ہورہاہے؛البتہ اس کے مقابلے میں فساد و بگاڑکے نت نئے دروازے کھلتے جارہے ہیں،آپ تحقیق کریں،توبہت سے ایسے”مولوی نما“جاہل ملیں گے، جو ان جلسوں میں ایک خاص فنکارانہ رنگ و آہنگ میں بے سرپیرکی باتیں کرکے،من گھڑت لطائف و ظرائف سناکر عوام کوذہنی تفریح مہیاکراتے اوراپنی جیبیں بھرتے ہیں،رات میں دودو،تین تین،چارچارگھنٹے ان کی لچھے دارتقریرہوگی اورصبح پوپھٹنے سے پہلے ہی یہ لوگ اپنا ”نذرانہ“ ہتھیاکرچلتے بنتے ہیں،بہت سے لوگ ان کی حقیقت سے واقف بھی ہوتے ہیں؛ مگرچوں کہ اب دین کے نام پر تفریح بھی لوگوں کا مزاج بنتا جارہاہے،سووہ بھیڑجمع کرنے کے لیے ایسے ہی لوگوں کو بلا تے ہیں؛حالاں کہ ہندوستان بھر میں قابل،ذی علم و ذی ہوش علماے کرام کی کمی نہیں،جوصحیح معنوں میں ملت کا دردرکھتے ہیں اوروہ اس کی صحیح رہنمائی کرسکتے ہیں اور کرنابھی چاہتے ہیں؛ مگر چوں کہ عام طورپر وہ چرب زبان نہیں ہوتے؛اس لیے:
پھرتے ہیں میرخوارکوئی پوچھتانہیں!
ایک اوربہت بُری لت، مسلمانوں کو لگتی جارہی ہے، وہ یہ ہے کہ دینی واصلاحی جلسوں میں ایسے ادنیٰ درجے کے شاعروں کوبھی دھڑلّے سے بلایاجاتا ہے،جوفی الحقیقت گویّے ہوتے ہیں اور جن کی شاعری توعام طورپر دینِ اسلام اور اس کی تعلیمات کی فضیلتوں پرمشتمل ہوتی ہے، مگران کا سراپا اورطرزِعمل خوداُن کی چغلی کھارہاہوتاہے،نتیجتاًان کے اشعار سامعین کے کانوں کی عیاشی فراہم کرنے کے علاوہ کسی اورفائدے کا سبب نہیں بنتے،مزیدیہ کہ ایک اصلاحی جلسہ اچھے خاصے مشاعرے میں بدل کررہ جاتا ہے ،آپ سمجھ سکتے ہیں کہ جب جلسہ ایک رات کاہے،کل وقت زیادہ سے چھ گھنٹے کاہے،مقرروں کی تعدادکم ازکم چارپانچ تو ہوتی ہی ہے ،اوپرسے شعرا بھی تین چارسے کم نہیں ہوتے،تواس جلسے میں کیاہوگا،یہی وجہ ہے کہ عموماً یہ جلسے ،جلسے توکم مگرمشاعرے زیادہ ہوتے ہیں اوران کانتیجہ سوائے ”آمدند، نشستند، خوردند ورفتند“کے سواکچھ بھی نہیں نکلتا؛بلکہ بسااوقات ان اجتماعی موقعوں پرایسے ایسے حادثات بھی رونما ہوجاتے ہیں، جنھیں قلم وزبان پرلایابھی نہیں جاسکتا۔ان جلسوں کی ایک بڑی خامی، جوحالیہ چارپانچ سالوں میں متعارف ہوکرسامنے آئی ہے،وہ یہ ہے کہ مشاعروں کے طرزپران میں باقاعدہ ”اناوٴنسر“ بھی بلائے جاتے ہیں،جن کی طولانی تمہیدات میں ہی پورے پروگرام کا کم و بیش ایک تہائی حصہ توضائع ہوجاتا ہے،عام طورسے یہ اناوٴنسر حضرات زبان و بیان کے پیچ و خم سے نابلدہونے کے ساتھ الفاظ و القاب کی لطافت و نازکی اور ان کے محلِ استعمال سے بھی ناواقف ہوتے ہیں، بہت سے جلسوں میں یہ دیکھنے میں آ یاکہ ایک واقعی قابل،عالم،فاضل اور باکمال مقرر کوسیدھے سادے الفاظ میں دعوت دے دی گئی؛جبکہ ایک ”پینترے باز“ مقررکے لیے زمین و آسمان کے قلابے ملادیے گئے۔بے جاالقاب کا استعمال تو ہمارے مذہب میں یوں بھی ممنوع ہے،ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جتنے بڑے بڑے شاہانِ عصرکواپنے مکتوبات روانہ فرمائے تھے، ان کے سرناموں میں صرف”محمدبن عبداللہ“لکھوایااوراندرصرف ”رسول اللہ“، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بارصحابہٴ کرام کونصیحت کرتے ہوئے فرمایاکہ”تم لوگ میری تعریف میں اس طرح مبالغہ آرائیاں مت کیا کرو، جیساکہ نصاریٰ نے عیسی بن مریم کے ساتھ کیا،میں تومحض اللہ کا بندہ اوراس کا رسول ہوں؛لہٰذاتم مجھے عبداللہ اور رسول اللہ ہی کہاکرو“۔(صحیح بخاری،ح:۳۲۱۳) تو کیا ضرورت ہے کہ ہم کسی کی وقتی خوش نودی حاصل کرنے اورواہ واہی بٹورنے کے لیے خواہ مخواہ لفظوں کا پُرشور دریا بہائیں۔
یہ ایک بہت بڑا لمحہٴ فکریہ ہے، علماے کرام کو اس طرف توجہ دینی چاہیے،یہ بہت اچھی اورقابلِ قدربات ہے کہ ہم معاشرے کی اصلاح کی مہم چلارہے ہیں؛مگرہمیں یہ بھی سوچناہوگاکہ اس کے پردے میں نادانستہ طورپرایسے اقدامات تونہیں کر رہے،جومعاشرے کے مزیدبگاڑاورفسادکا سبب بن رہے ہیں؟ایسے پیشہ ور خطبا،واعظین اورشعرا کی ایک پوری کھیپ میدان میں اُتری ہوئی ہے، جوقول و عمل کے تضاد،فکری سطحیت،علمی اِفلاس،ذہنی پسماندگی وپس گردی، اخلاقی زوال، نظر اور نظریے کی بے سمتی کی شکارہے اورنتیجتاًاِن اصلاحی جلسوں سے ملت کوفائدے کی بجاے نقصان ہی اٹھاناپڑرہاہے۔اگرعام مسلمان اپنی محنت اور خون پسینے سے کمائے ہوئے روپے پیسے دین اوراصلاح کے نام پراکٹھاکرکے کوئی جلسہ منعقدکرتے اوراس میں شریک ہونے والے علماومقررین اور مہمانوں کومنہ مانگی رقمیں دیتے ہیں،تویہ اُن کا حق ہے کہ ان کی صحیح رہنمائی کی جائے،انھیں دین کی صحیح باتیں بتائی جائیں،انھیں ملک کے موجودہ تشویش ناک حالات سے باخبر کرکے انھیں سلام کی صحیح نمایندگی کی تلقین کی جائے،نہ یہ کہ اُنھیں محض چندتفریحی باتیں سناکرٹرخادیاجائے اور مسلمانوں کو بھی چاہیے کہ وہ دین اور اصلاح کے نام پر کیے جانے والے پروگرام کوتفریحِ طبع کا رنگ نہ دیں،پہلے اپنے علاقے کے کسی قابل و مخلص عالمِ دین یاخطیب سے مشورہ کریں اوران کے مشورے کی روشنی میں ہی پروگرام کا خاکہ بنائیں؛تاکہ ان کی مادی و معنوی کوششیں بار آور ہوں اورانھیں دین و دنیاکے تعلق سے مفیدمعلومات حاصل ہوسکیں۔ ابھی چوں کہ جلسوں کا موسم ہے اورمارچ سے لے کرجون تک یوپی اوربہارکے گاوٴں دیہاتوں میں دینی جلسے تواترکے ساتھ کیے جاتے ہیں؛اس لیے یہ زمینی حقائق سپردِ قلم کردیے گئے ہیں؛تاکہ کسی منفی نظریہ کا مظہرگرداننے کی بجاے حالات کا سنجیدگی ودیانت داری کے ساتھ جائزہ لینے اورمعاملے کی سنگینی کوسمجھنے کی کوشش کی جائے۔
—————————————
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ4، جلد: 99 ، جمادی الثانیہ 1436 ہجری مطابق اپریل 2015ء