مغربی تہذیب  اور سائنسی تجربات واكتشافات

حرفِ آغاز

 مولانا حبیب الرحمن اعظمی

                اپنے آپ کو دانشور اور روشن خیال کہلانے والوں کی اکثریت اسلامی آثار وروایات کے مقابلہ میں مغربی تہذیب واقدار کی ترجمانی اور نمائندگی کو اپنے لیے سرمایہٴ افتخار سمجھتی ہے، اس جماعت کی جانب سے تحقیق وریسرچ کے عنوان سے جو چیزیں سامنے آرہی ہیں، ان سے صاف ظاہر ہورہا ہے کہ یہ لوگ حالات اور تقاضے کی آڑ لے کر اسلامی معاشرہ کو مغربی تہذیب کے سانچے میں ڈھالنا چاہتے ہیں، ان کی یہ بھی خواہش ہے کہ جو دینی تصورات اور مذہبی روایات ماڈرن تہذیب سے متصادم ہوں، انھیں کاٹ چھانٹ کر یورپ سے برآمد کی ہوئی اس جدید تہذیب سے ہم آہنگ کردیا جائے۔

                سوال یہ ہے کہ عصرِ جدید کے آخر وہ کون سے تقاضے ہیں کہ اسلام اپنی اصلی وحقیقی شکل میں رہتے ہوئے ان کا ساتھ نہیں دے سکتا، اگر مسئلہ جدید اکتشافات وایجادات کا ہے کہ آج کا انسان دال روٹی کے بجائے کیک، ٹوسٹ اور سینڈوچ کھانے لگا ہے، دست کاری اور گھریلو صنعتوں کے مقابلے میں بڑے بڑے مشینی کارخانے قائم کرلیے ہیں، قدیم مواصلاتی ذرائع کے بالمقابل جدید نظامِ مواصلات دریافت کرلیے ہیں، تیر وتلوار کی جگہ کلاسنکوپ، رائفل اور میزائل وایٹم بم کے استعمال پر قادر ہوگیا ہے، قدیم طرزِ علاج کے بجائے طرح طرح کے جدید طریقہٴ علاج ایجاد کرلیے ہیں تو بتایا جائے کہ آخر مذہب کا ان ایجادات سے کیا تصادم ہے؟ آخر مذہبِ اسلام کا وہ کون سا اصول وقانون ہے جو ان تبدیلیوں کی نفی کرتا ہے اور ان ایجادات واکتشافات پر قدغن لگاتا ہے؟

                بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ سائنسی تجربات واکتشافات اسلام کی روشن صداقت وحقانیت پر مہرِ تصدیق ثبت کررہے ہیں، مثال کے طور پر اسلام آخرت کے سلسلہ میں یہ نظریہ اور اعتقاد پیش کرتا ہے کہ قیامت کے دن ایک وقت ایسا بھی آئے گا کہ انسان کے اعضاء وجوارح اپنے اپنے اعمال وافعال کی شہادت دیں گے، اسلام سے بے بہرہ عقل ومادہ کے پجاری اسلام کے اس عقیدہ کو ماننے کے لیے تیار نہ تھے؛ مگر آج کے ٹیپ ریکارڈر اور دیگر مواصلاتی آلات وغیرہ نے بندگانِ عقل ومشاہدہ کو اس کے ماننے پر مجبور کردیا کہ اگر لوہا وغیرہ سے بنے یہ جمادات کے آلے بول سکتے ہیں تو جس خدانے زبان کو گویائی عطا کی ہے، وہ بدن کے دیگر اجزاء کو بھی گویا کرسکتا ہے، ملتِ اسلامیہ کے عقیدئہ معراجِ جسمانی سے مادہ پرستوں کی عقل انکار کرتی رہی؛ لیکن آج کے خلائی اور سیاراتی نظام نے تصورِ معراج کو تجربہ ومشاہدہ کی حدود میں لاکھڑا کیا ہے، قیامت کے دن وزنِ اعمال کے مسئلہ کو بھی سائنس نے تجربہ ومشاہدہ کی شکل میں دنیا کے روبرو کردیا ہے، آج سائنسی ترازؤوں کے ذریعہ حرارت وبرودت اور ہوا تک کو تولا جارہا ہے۔

                الغرض سائنسی ایجادات واکتشافات تو اسلام کے پیش کردہ غیبی امور وحقائق کو تسلیم کرنے پر دنیا کو مجبور کررہے ہیں؛ اس لیے اسلام کا ان سے کوئی تصادم نہیں ہے۔

                ہاں اگر عصری ضروریات اور جدید تقاضوں سے مراد علم وسائنس نہیں؛ بلکہ وہ پوری تہذیب ومعاشرت ہے، جس کے زہریلے اثرات سے آج مغربی دنیا تڑپ رہی ہے، مثلاً شراب، جوا، سود کا بے محابا رواج، مرد اور عورت کا آزادانہ میل ملاپ، کلبوں کی انسانیت کُش زندگی، حیوانیت کی حد تک جنسی بے راہ روی، تہذیب وثقافت کے نام پر اخلاقی انارکی، سول میرج، گرل اور بوائے فرینڈ جیسی حیاسوز رسمیں جس نے یورپ کو ایک ایسے چوراہے پر لاکھڑا کردیا ہے، جس کے ہر چہار جانب حیوانیت، درندگی، حرص وشہوت، خود غرضی، بے چینی مایوسی اور تاریکی نے گھیرا ڈال رکھا ہے۔

                یہ بدقسمتی ہی کی بات ہے کہ عصری ضروریات اور جدید تقاضوں کا نام لے کر یورپ کی اسی تباہ کن اور ہلاکت بہ کنار تہذیب کو معاشرے پر لادنے کی ناروا کوشش کی جارہی ہے، بالخصوص ملک کا سیاست گزیدہ طبقہ تو اس کے لیے بے چین ہے اور ترقی کے خوش نما عنوان سے جاہلیت و حیوانیت کی بے حیا تہذیب کو ملک پر لادنا چاہتا ہے، ملکِ عزیز اگرچہ مدت ہوئی یورپ کے طاغوتی پنجہ سے آزاد ہوگیا؛ مگر ملک کے یہ سیاسی لیڈران اپنے علم وفہم کی کمی اور فکر ونظر کی پستی کی بنا پر آج بھی یورپ کے ذہنی طور پر غلام ہیں اور اپنی اس غلامی کو ملک کے عوام پر بھی مسلط کرنا چاہتے ہیں اور ملک کو یورپ کی اسی تہذیبی تباہی کی طرف لے جانا چاہتے ہیں، جس سے آج یورپ خود کراہ رہا ہے اور اس کے ہوش مند افراد اس ہلاکت سے نکلنے کی تدبیریں سوچ رہے ہیں، ملک کی ترقی عورتوں کو گھر سے نکال کر سڑکوں اور دفتروں میں پہنچادینے سے نہیں ہوگی؛ بلکہ ملک صحیح سمتوں میں ترقی کرے گا تو امن وآشتی، عدل وانصاف اور دولت کی درست تقسیم سے؛ جبکہ ترقی کے یہی اسباب خود سیاسی بازی گروں کی وجہ سے ملک میں کم یاب ہیں۔

”تفو بر تو اے چشم گردوں تفو“

                چونکہ اسلام آج سے چودہ سو سال پہلے ہی اس تہذیب کو ”تبرجِ جاہلیت“ کہہ کر یکسر رد کرچکا ہے؛ اس لیے آج کے روشن خیال اور تاریک دل دانشور اس جاہلی تہذیب کو صالح اور مہذب بنانے کی بجائے اسلامی آثار وروایات کو فرسودہ اور ازکار رفتہ قرار دے کر اس کو مسخ کرنے کے لیے اپنی ہر امکانی کوشش صرف کررہے ہیں، یہ ایک ایسا خطرناک رویہ ہے جس کا عبرت ناک انجام ترکی کی شکل میں دنیا کے سامنے موجود ہے۔ تہذیبِ مغرب کے پرستار ملک کی فلاح وبہود کا نام لے کر یہی تاریخ ہندوستان میں بھی دہرانا چاہتے ہیں، اس سازش میں یہ پہلو کس قدر خطرناک ہے کہ بعض وہ افراد واشخاص جو ملک میں علمائے دین کی حیثیت سے شہرت رکھتے ہیں انھیں یہ گروہ اپنا آلہٴ کار بنانے میں کامیاب ہوگیا ہے، جن کی وساطت سے اسلامی احکامات میں کتربیونت کا سلسلہ شروع کردیاگیا، اور قرآن ،حدیث اور فقہِ اسلامی کے حوالے سے قرآن وحدیث کے محرمات کو حلال وجائز گرداننے کی جسارت کی جارہی ہے، یہ ایک ایسی خطرناک سازش ہے کہ اگر اس کا پردہ چاک نہیں کیاگیا تو مرضِ سرطان کی طرح غیرمحسوس طور پر اس کی جڑیں پھیل جائیں گی اور پھر اس کا مداوا مشکل ہی سے ہوسکے گا، اربابِ علم ودین کب تک اسلامی احکام وہدایت کے خلاف اس کھلواڑ کو خاموش تماشائی بنے دیکھتے رہیں گے۔ ع

دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا

———————————–

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 12، جلد: 98 ‏، صفرالمظفر 1436 ہجری مطابق دسمبر 2014ء

Related Posts