از: مولانا رشید احمد فریدی 

‏ مدرسہ مفتاح العلوم تراج، سورت      

تمہید

                رحمة للعالمین سید المرسلین شفیع المذنبین سرورِکائنات فخر موجودات محمد مصطفی احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت ومحبت اور تکریم و توقیر کا خاص جذبہ اہلِ ایمان کے قلوب میں ہمیشہ موجود رہتا ہے اور آپ کی ذات سراپا کمالات کا ایک ایک جزء ہی نہیں ایک ایک ادا اس قدر عظیم ہے کہ دنیا کی دولت کیا ایک موٴمن اس کی عظمت پر اپنی جان قربان کرنے کے لیے تیار ہوجاتا ہے، بھلا وہ کب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں بے ادبی گوارہ کرسکتا ہے۔

                عرض یہ ہے کہ رمضان المبارک ۱۴۳۳ھ سے کچھ عرصہ پہلےبلساڑ (گجرات) میں ”فاتی والا“ خاندان کے ایک شخص کے متعلق چرچا شروع ہوگیا تھا، بڑھتے بڑھتے ۱۴۳۴ھ کے فریضہٴ حج کے بعد سے اعتقاد کا بازار گرم ہونے لگا؛ چنانچہ لوگ فاتی والا کی ملاقات کے لیے بلساڑ کا رخ کرنے لگے۔ آنے والوں کے سامنے ایک تسبیح زیارت کے لیے پیش کی جاتی تھی اور ساتھ ساتھ یہ کہا جاتا کہ یہ تسبیح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے پہنچی ہے، عقیدت سے زیارت کے لیے جانے والوں میں کثرت سے عورتیں بھی ہوتی ہیں،آنے والوں کے سامنے صاحبِ واقعہ کے متعلق عجیب وغریب من گھڑت واقعات خواب کے روپ میں بتائے جاتے۔ بالآخر بہت سارے واقعات میں سے تہتر کو قلم بند کرکے کتابی شکل میں مرتب کرلیاگیا اور پھر رمضان ۱۴۳۴ھ سے چند دن قبل شہر سورت میں ”دُرُّالحرمین فی مبشَّرات رسولِ الثقلین“ کے نام سے کتاب کا اجراء ہوا۔

                شوال ۱۴۳۴ھ میں ایک عالم نے مذکورہ کتاب راقم کو یہ کہہ کردی کہ اس میں تو عجیب وغریب باتیں ہیں، تاکہ میں ان کو مطالعہ کے بعد حقیقت سے آگاہ کروں۔ چند دن کے بعد ہمارے مدرسہ کے ایک مدرس بھی یہی کتاب لے کر آئے اور کہنے لگے کہ اس میں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف عجیب عجیب باتیں لکھی ہیں، جب میں نے مطالعہ شروع کیا تو عجائب سے بڑھ کر مفاسد سامنے آتے گئے یہاں تک کہ اس کی تردید ضروری معلوم ہوئی؛ چنانچہ میں نے پوری کتاب مکمل گہری نظر سے پڑھی، اور عام مسلمان کے اعتقاد کی حفاظت کے لیے اور فتنہ سے بچانے کی غرض سے تفصیلی وتحقیقی جائزہ پیش کیا ہے؛ تاکہ مذکورہ کتاب کے اندر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کے ساتھ جو بے ادبیاں اور آپ کے حقوق یعنی محبت وعظمت کی ناقدریاں؛ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عالی مقام کے ساتھ جو گستاخیاں موجود ہیں، ان سب کو دفع کیا جائے اور ان تمام من گھڑت چیزوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ عظیم کی براء ت ظاہر کی جائے۔

                صاحبِ واقعہ ایک سلسلہٴ طریقت سے منسلک ہیں اور خواب میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کے بجائے بیداری میں دیکھنے کا ذکر کرتے ہیں، نیز توجہات کے حصول کا شوق ہے اور علمِ شریعت سے بے خبر ہیں، ایسی صورت میں نفس وشیطان کے مکروفریب کا خطرہ زیادہ لگارہتا ہے اور ان کو بیجا مقام اور عہدہ کے دعویٰ میں مبتلا کردیتا ہے اور بعض لوگ بغیر دعویٰ کے اپنے مخصوص افکار کے لیے مبشرات وکشوف کو دلیل میں پیش کرتے ہیں اور اس کے مطابق یقین رکھتے ہیں؛ اس لیے اصل کتاب کے رد سے پہلے چند امور بطور مقدمہ کے لکھنا ضروری ہوا۔

$ مبشرات پر چند کتابیں

                کتاب کے نام (درالحرمین فی مبشرات رسول الثقلین) سے ظاہر ہوتاہے کہ ذکر کیے ہوئے واقعات کا تعلق خواب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت سے ہے؛ اس لیے کہ ایسے ہی خوابوں کو مبشرات کہا کرتے ہیں۔ اور ”مبشرات رسول“ پر اہلِ علم نے مستقلاً بھی کتابیں تالیف کی ہیں، جیسے حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی کتاب ”فیوض الحرمین“ ہے اور شاہ ہدایت علی نقشبندی کی ”فتوح الحرمین“ ہے۔ اور چوں کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ مبارکہ ہادیِ محض ہے؛ اس لیے خوش قسمت لوگوں کی زندگی کے مختلف احوال میں ہدایت ورہنمائی کے لیے اللہ تعالیٰ خواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت سے مشرف فرماتے ہیں جو ایک بڑی سعادت ہے۔ یہ بھی نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا ایک خاص پہلو ہے؛ چنانچہ بعض اہل علم نے امت کے بیشمار عمدہ خوابوں میں سے قابلِ ذکر خوابوں کا انتخاب ”سیرت النبی بعد ازوصال النبی“ کے نام سے شائع کیا ہے۔ اور خوابوں کی تعبیر کے سلسلہ میں اس فن کے امام حضرت محمد بن سیرین تابعی کی کتاب ”تعطیر الانام فی تعبیر المنام“ اور علامہ عبدالغنی نابلسی کی کتاب ”تعطیر الانام بتعبیر المنام“ اصولی اور بنیادی کتاب کی حیثیت رکھتی ہے اور خصوصاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت پر خواب یا بیداری میں محققین علمائے اسلام نے عمدہ کلام کیا ہے اور ہر زمانہ میں ایسے اہل علم وفضل گزرے ہیں جنھیں خوابوں کی تعبیر میں کمال حاصل تھا، مثلاً ماضی قریب میں مفتی اعظم ہند دارالعلوم دیوبند، فقیہ الامت حضرت مفتی محمودحسن گنگوہی گزرے ہیں۔

$ کذب علی النبی کی وعید اور اس کی حرمت

                انَّ مَذْھَبَ أھْلِ الْحَقِّ أنَّ الْکِذْبَ ھُوَ الْاخْبَارُ عَنِ الشَّيْءِ بِخِلاَفِ مَا ھُوَ عَمَدًا کَانَ أو سَھْوًا أو غَلَطاً (نووی) یعنی خارج میں جو حقیقت یا جو شئے جس طرح سے ہے، اس کے خلاف خبر دینا اگرچہ بلا ارادہ ہو ”کذب“ کہلاتا ہے اور قصداً ایسا کرنا گناہ کبیرہ ہے اور جاننا چاہیے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف خلافِ واقعہ کوئی فعل، یا کلام کی نسبت کرنا یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بیان کرنا؛ حالانکہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے پیش نہیں آیا ہے، یہ کذب علی النبی کہلاتا ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ بولنا اکبر الکبائر میں سے ہے، اس پر جہنم کی سخت وعید آئی ہے۔

                حدیث شریف میں ہے مَنْ حَدَّث عَنّی حَدِیْثًا یرٰی أنَہُ کَذِبٌ فَھُو احَدُ الکاذبین․ جو شخص حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کوئی بات نقل کرے دراں حالے کہ وہ سمجھ رہا ہے کہ خلاف واقعہ ہے تو یہ شخص جھوٹوں میں سے ایک جھوٹا ہے۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کفیٰ بالمَرءِ کَذِبًا اَنْ یَقُولَ بِکُلِّ مَا سَمِعَ آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہ کافی ہے کہ ہر سنی ہوئی بات کو کہا کرے۔ اسی طرح یہ بھی حدیث میں ہے ان اَفرَی الفِرٰی اَن یُوِیَ عَینَیہ مالم تَرَیا یعنی جو واقعہ خواب میں نہیں دیکھا ہے، اس کو خواب کی طرح بیان کرنا سب سے بڑا جھوٹ ہے۔ نیز حدیث شریف میں ہے لَا تَکْذِبُوا عَلَیّ فَانَّہ مَن یَّکْذِبُ عَلَیَّ یَلِجُ النَّارَ، مجھ پر جھوٹ نہ بولو؛ اس لیے کہ جو شخص مجھ پر جھوٹ بولے گا، وہ جہنم میں داخل ہوگا، نیز حدیث شریف میں ہے انَّ کذباً علَیّ لَیْسَ کَکَذِبٍ علیٰ احدٍ فَمَنْ کَذَبَ علَیّ مُتعمّدًا فَلْیَتَبَوَّأَ مَقْعَدَہ مِنَ النَّاِر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھ پر جھوٹ بولنا ایک دوسرے پر جھوٹ بولنے کی طرح نہیں ہے، پس جس نے مجھ پر عمداً جھوٹ کہا تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے۔ یہ حدیث من کذب علی متعمدًا الخ متواتر ہے اور کذب علی النبی کی حرمت پر امت کا اجماع ہے، خواہ کذب کا تعلق احکام سے ہو یا فضائلِ اعمال سے (مقدمہ مسلم مع شرح النووی) اور جب دین میں حرام ہے تو کسی شخص کی ذاتی فضیلت اور خصوصیت کے لیے جھوٹے واقعہ کی نسب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنا بدرجہٴ اولیٰ حرام ہوگا۔

$ زیارتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سعادت اختیاری نہیں ہے

                خواب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت واقعی ایک عظیم سعادت اور معنوی دولت ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے مجھے خواب میں دیکھا، تحقیق کہ اس نے حق دیکھا یعنی واقعی اس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو دیکھا، دوسری حدیث میں ہے جس شخص نے مجھ کو خواب میں دیکھا اس نے حقیقت میں مجھ کو ہی دیکھا؛ اس لیے کہ شیطان میری صورت نہیں بناسکتا، ایک اور حدیث میں ہے جس شخص نے مجھے خواب میں دیکھا، وہ عنقریب مجھے بیداری میں دیکھے گا؛ اس لیے کہ شیطان میری صورت اختیار نہیں کرسکتا؛ لیکن یہ نعمت محض عطیہٴ خداوندی ہے، بندہ کے کسب واختیار کو ہرگز دخل نہیں ہے (فیض الباری) اور ایمان وعملِ صالح نہ خواب کی شرط ہے، نہ ہی کفر وفسق اس کے لیے مانع ہے اور نہ ہی نبی کے اختیار میں ہے کہ وہ کسی کے خواب میں آکر اس کی بشارت وسعادت کا ذریعہ ہوں اور جب نبی کے اختیار میں نہیں تو کسی بھی ولی کو کب یہ اختیار مل سکتا ہے؟ بلکہ محض قادرِ مطلق، فاعلِ مختار اور علیم وخبیر ذات اپنے بندوں میں سے جس کو جب، جہاں اور جس قدر سعادت سے نوازنا چاہے، وہ اپنی قدرت وارادہ سے اس کے اسباب پیدا کردیتی ہے، خواب بھی ایک سبب بن جاتا ہے، جو من جانب اللہ پیش آتا ہے، اس کا نہ کوئی معمول ہے، نہ اس کے لیے کوئی زمان ومکان متعین ہے۔

                حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی فرماتے ہیں: جاننا چاہیے کہ جس کو بیداری میں یہ شرف نصیب نہ ہوا (جیساکہ صحابہٴ کرام کو حاصل ہے) اس کے لیے بجائے اس کے خواب میں زیارت سے مشرف ہوجانا سرمایہٴ تسلی اور فی نفسہ ایک نعمتِ عظمیٰ اور دولتِ کبریٰ ہے اور اس سعادت میں اکتساب کو اصلاً دخل نہیں ہے، محض موہوب ہے۔

ایں سعادت بزورِ بازو نیست                         تا نہ بخشد خدائے بخشندہ (نشر الطیب ص۱۹۳)

$ بیداری میں زیارتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیت وصلاحیت

                حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کرنے والوں کی چار حالتیں ہیں: (۱) حالت خواب میں چشمِ دل سے (۲) خواب و بیداری کی درمیانی حالت میں چشمِ دل سے (۳) بحالتِ بیداری چشم دل سے بطور مکاشفہ کے (۴) بحالتِ بیداری چشمِ ظاہر سے مکاشفہ کی انتہائی نادر صورت۔ خواب میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت عوام و خواص ہر ایک کو ہوتی ہے۔ بیداری وخواب کی درمیانی حالت میں زیارت اہلِ تقویٰ یعنی خواص امت کو ہوتی ہے ۔ اور بیداری میں زیارت اگرچہ ممکن ہے؛ مگر یہ اخص الخواص لوگوں کو ہوسکتی ہے، جیساکہ علامہ انور شاہ کشمیری کا بیان فیض الباری میں ذکر کیا ہے اور شاہ عبدالحق محدث دہلوی نے مدارج النبوہ میں لکھا ہے۔ ان چاروں میں سے صرف پہلی صورت میں رویت (دیدار) کی ضامنت لی گئی ہے اور سماعِ کلام کی ضمانت کسی بھی حالت میں نہیں ہے۔

                امام غزالی ”المنقذ من الضلال“ میں صوفیائے کاملین کی بلیغ تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں فَانَّ جَمِیْعَ حَرَکَاتِھِمْ وَسَکَنَاتِھِمْ فِیْ ظَوَاھِرِھِمْ وَبَوَاطِنِھِمْ مُقْتَبَسٌ وَلَیجسَ وَرَاءَ النبوةِ نورٌ یُسْتَضَاءُ بِہ․․․․ (الن أن قال) ․․․․ حَتیٰ أَنَّھُمْ فِیْ یَقْظَتِھِمْ یُشَاھِدُوْنَ الْمَلائِکَةَ وَأرْوَاحَ الْأنْبِیَاءِ الخ: یعنی صوفیائے کاملین کی تمام حرکات وسکنات مشکوٰةِ نبوت سے منور ہوتی ہیں، یہاں تک کہ یہ حضرات بیداری میں فرشتوں اور انبیاء کی روحوں کا مشاہدہ کرتے ہیں (تنویر الحلک فی رویة النبی والملک من الحاوی للفتاویٰ)

                وَفِیْ الْمَدْخَلِ لاِبْنِ حَاجِّ الْمَالِکِی: وُوْیَةُ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم فِیْ الْیَقْظَةِ بَابٌ ضَیِّقٌ وَقَلَّ مَنْ یَقَعُ لَہ ذَلِکَ الاَّ مَنْ کَانَ عَلٰی صِفَةٍ عَزِیْزٍ وُجُوْدُھَا فِیْ ھٰذَا الزَّمَانِ بَلْ عَدَمَتْ غَالِبًا مَعَ أنَّنَا لاَ نُنْکِرُ مَنْ یَقَعُ لَہ ھَذَا مِنْ أکَابِرِ الَّذِیْنَ حَفِظَھُمُ اللہُ تَعالیٰ فِیْ ظَوَاھِرِھِمْ وَبَوَاطِنِھِمْ، ابن حجر مکی مدخل کے حوالہ سے لکھتے ہیں کہ بیداری کی حالت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کا باب بہت تنگ ہے اور یہ سعادت نہیں ملتی؛ مگر ایسے اوصاف کے حامل کو کہ جن صفات کا ہونا موجودہ زمانہ میں نادر؛ بلکہ معدوم ہے، اس کے باوجود ہم انکار نہیں کرتے ان اکابرِ امت یعنی اخص الخواص حضرات کا جن کو اللہ تعالیٰ نے ظاہر وباطن میں معاصی سے محفوظ رکھا ہے اور انھیں بیداری میں زیارت نصیب ہوئی ہے (الفتاویٰ الحدیثیہ لابن حر، ص۲۱۲)

                وہ صفات کیا ہیں، جن کا پایا جانا غیرممکن نہیں تو معدوم ضرور ہے، ابن حاج مالکی اور ابن حجرمکی نے اسے یہاں بیان نہیں کیا ہے؛ البتہ فراستِ ایمانی یا مکاشفہٴ روحانی کے لیے جو صفات ذکر کیے گئے ہیں، جیساکہ آگے آرہا ہے، ان سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے، اور شیخ عبدالعزیز دبّاغ فرماتے ہیں: جو شخص یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ سرکارِدوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کو بیداری میں دیکھتا ہے تو اس کے متعلق عارفین کا قول یہ ہے کہ اس کے دعویٰ کو دلیل کے بغیر قبول نہ کیا جائے اور وہ دلیل یہ ہے کہ وہ ایک کم تین ہزار مقام طے کرچکا ہو اور مدعی کو ان مقامات کے بیان کرنے کو کہا جائے۔ (مقدمہ سیرت النبی بعد از وصال النبی ص۴۱)

                ابن حجرمکی: مَنْ رَآنِيْ فِي الْمَنَامِ فَسَیَرَانِيْ فِي الْیَقْظَةِ کے متعلق احادیث بخاری کے شارح ابن ابی جمرہ کی بات نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں ․․․․ وَأمَّا غَیْرُھُمْ فَیَحْصُلُ لَھُمْ ذٰلِکَ قَبْلَ ذٰلِکَ (الموت) بِقِلَّةٍ أوْ بِکَثْرَةٍ بِحَسَبِ تَأَھُّلِھِمْ وَتَعَلُّقِھِمْ اِتِّبَاعَھُمْ لِلسُّنَّةِ اذ الاخْلاَلُ بِھَا مَانِعٌ کَبِیْرٌ حاصل یہ کہ عوام کا تو کیا اعتبار خواص امت کے حق میں بھی موت سے پہلے بیداری میں رویتِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اعلیٰ درجہ کی اہلیت اور کمال اتباعِ سنت کا ہونا ضروری ہے، اس لیے کہ سنت میں ادنیٰ کوتاہی بھی اس کے لیے بہت بڑا مانع ہے۔ (الفتاویٰ الحدیثیہ ص ۲۱۲)

$رویت صورتِ مثالیہ کی ہوتی ہے

                جمہور علماء شریعت اور صوفیاء طریقت کے نزدیک زیارتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم جس حالت میں بھی ہو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صورتِ مثالیہ کی ہوتی ہے نہ کہ حقیقی صورت کی جو قبرِ اطہر میں آرام فرما ہے۔ امام سیوطی لکھتے ہیں ھَلِ الرُّوٴْیَةُ لِذَاتِہ صلی اللہ علیہ وسلم بِجِسْمِہ وَرُوْحِہ أَوْ لِمِثَالِہ؟ الَّذِیْنَ رَأَیْتُھُمْ مِنْ أرْبَابِ الْأَحْوَالِ یَقُوْلُوْنَ بِالثَّانِيْ وَبِہ صَرَّحَ الْغَزَالِيُّ فَقَالَ لَیْسَ الْمُرَادُ أنَّہ یَرَیٰ جِسْمَہ وَبَدَنَہ بَلْ مِثَالاً․ (تنویرالحلک) شاہ عبدالحق محدث دہولی فرماتے ہیں: حاصل کلام یہ ہے کہ حضرت نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھنا مثالی صورت میں ہے جیسا کہ خواب میں آپ کی مثال شریف کا دیدار ہوتا ہے، جاگتے میں بھی مثال شریف کا دیدار ہوتا ہے اور وہ مبارک وجود جو مدینہ منورہ میں قبر اطہر کے اندر آرام فرماہے اور زندہ ہے، مثالی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ ایک وقت میں کئی مثالی وجود عوام کو خواب میں اور خواص کو جاگتے میں نظر آتے ہیں۔ سوال وجواب کے وقت قبر میں بھی آپ کی مثالی صورت ظاہر ہوتی ہے۔ (مدارج النبوہ ص ۷۶/۱، الفتاویٰ الحدیثیہ ص ۲۱۳)

                پس تحقیق یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رویت منامی کو یہ نہیں کہا جاسکتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بعینہ دیکھا؛ چونکہ کبھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت وروحانیتِ مبارکہ کی تمثالی حقیقت وصورت دکھائی جاتی ہے اور وہ ہم سے مخاطب بھی ہوتی ہے، تو کبھی روحِ مبارک خود ہی بدنِ مثالی کے ساتھ خواب میں آتی ہے (بوادر النوادر ص ۲۹۳)

                اور متقدمین ومتأخرین میں سے بعض اکابر جو اس بات کے قائل ہیں کہ عین جسمِ اطہر جو روح مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا بدنِ مبارک ہے اور قبر شریف میں مستور ہے، اس کی زیارت ہوتی ہے تو یہ قول شاذ ہے۔

$ صورت مثالیہ کی شان اور مقام

                حضرات صحابہ کو خاتم النّبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ اور ذاتِ مبارکہ اور جسمِ اطہر کو اپنی ظاہری آنکھوں سے مشاہدہ کرنے کا شرف حاصل ہے؛ مگر اس کے بعد تابعین سے لے کر آج تک (اور آئندہ بھی) لوگوں کو خواب میں دیدار کی جو سعادتِ عظمیٰ حاصل ہے (یاہوگی) وہ سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صورتِ مثالیہ ہی کے دیدار سے وابستہ ہے۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قرب، روحانی ترقی کا زینہ، قیامت میں شفاعت کا استحقاق، حسنِ خاتمہ کی علامت، دخولِ جنت کا ایک سبب یہ سب بشارتیں اسی صورتِ مثالیہ کے ساتھ قائم ہیں۔ بیماروں کو صحت کی برکت، پریشان حال کو عافیت کی دولت، محبوسوں کو رہائی کا پروانہ اور لشکرِ اسلام کو فتح ونصرت کا مژدہ وغیرہ ہزاروں فوائد؛ غرض ہر طرح کے طالبِ صادق کو بذریعہٴ خواب جو نعمتیں حاصل ہوئی ہیں، وہ سب اسی صورتِ مثالیہ ہی کی برکت ہے اور سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ شیطان کو نبی کی صورت میں متمثل ہونے کی قدرت نہیں د ی گئی؛ اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان ہادیِ محض ہے اور شیطان ضالِ محض ہے اور یہ صورت مثالیہ آلہ وآئینہ ہے ذات مبارکہ کی معنویت کے ظہور کا وَصَارَ ذٰلِکَ الْمِثَالُ آلةً یَتَأدَّیٰ بِھا الْمَعْنٰی الَّذِيْ فِيْ نَفْسِہ (تنویرالحلک) لہٰذا صدق وعصمت کا لزوم اور محبت وعظمت کے حقوق، احترام و توقیر کے احکام اس صورت مثالیہ کے ساتھ بھی واجب ہیں؛ بلکہ اذَا لَمْ تُخَالِفْ حُکْماً ظَاھِرًا مِنَ الشَّرْعِ حُسْنُ الْعَمَلِ بِھَا أدَبًا مَعَ صُوْرَتِہ صلی اللہ علیہ وسلم (فیض الباری) کوئی فرمان ذیشان کا ظہور ہو اور (چونکہ شیطان آواز میں مشابہت کرکے مغالطہ دے سکتا ہے؛ اس لیے) ظاہری شریعت کے خلاف نہ ہو تو اسی صورتِ مثالیہ کے ساتھ ادب کا تقاضہ ہے کہ اس پر عمل کیا جائے۔ نیز بے ادبی اور گستاخی جائز نہ ہوگی؛ کیوں کہ صورت کی اہانت معناً ذاتِ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی اہانت کی طرف مشیر؛ بلکہ دلیل ہے؛ اس لیے کہ صورت کو ذات سے ملابست ہے حاصل یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صورتِ مثالیہ کو ذاتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا عنوان اور معنیٴ رسول کا ترجمان ہونے کی وجہ سے انتہائی اعلیٰ وارفع مقام حاصل ہے جو غیر نبی کی صورت کو نہیں ہے۔

$ رویت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ضمانت اور دل کی شہادت

                خواب میں زیارتِ رسول کی احادیث: (۱) مَنْ رَآنِيْ فِي الْمَنَامِ فَقَدْ رَآنِيْ (۲) مَنْ رَآنِيْ فِي الْمَنَامِ فَقَدْ رَأی الحق کے پیش نظر محققین اور جمہور علماء فرماتے ہیں کہ جس حُلیہ میں بھی دیکھا اور دل نے کہا کہ اس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو واقعتا اس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو دیکھا ہے، جو دیکھنے والے کے حق میں سعادت ہے، اس میں انسان کے اختیار کو دخل نہیں ہے۔ (فیض الباری ص ۲۰۳/ج۱)

                خواب میں زیارتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کسی نے حضرت تھانوی سے سوال کیا کہ یہ کیسے معلوم ہو کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں؟ فرمایا کہ علمِ ضروری (بدیہی) کے طور پر اگر قلب گواہی دے دے کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں تو بس کافی ہے(سیرت النبی ص ۴۸/ نشرالطیب)

                یعنی دیکھتے ہی بغیر تأمل کے دل میں آجائے کہ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو یقینا اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا؛ اس لیے خاتم النّبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت اللہ تعالیٰ نے ہر انسان ہی نہیں؛ بلکہ کائنات کی ہر شے میں ودیعت فرمائی ہے، جیسا کہ احادیث وواقعات شاہد ہیں، مثلاً ابوجہل مٹھی میں کنکر لے کر آیا اور کہا اے محمد! بتاؤ میری مٹھی میں کیا ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں کہوں کہ تیری مٹھی میں کیا ہے یا تیری مٹھی میں جو ہے وہی بتادے کہ میں کیا ہوں؟ بس کنکر نے کلمہٴ شہادت پڑھا (دلائل النبوة) یہی وجہ ہے کہ خواب میں دیکھنے والے کا صرف یہ خیال کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ رہا ہے، حق ہونے کے لیے کافی ہے یعنی اس نے نبی کو ہی دیکھا ہے، پس یہ احتمال صحیح نہیں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھے اور نہ پہچانے۔ ورنہ زبانِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف رویت کی ضمانت نہ ہوتی۔ (ملحوظ رہے کہ پیغمبر اعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی رویت کے صحیح ہونے کی اطلاع دی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ جو کچھ میں خواب میں کہوں گا وہ بھی حق ہے (نوادراتِ کشمیری ص ۲۹۲) یہ رویتِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ہے۔

$سماعِ کلام کی ضمانت نہیں ہے

                جہاں تک کلامِ نبی کے سننے کا مسئلہ ہے تو فقہائے محدثین فرماتے ہیں کہ خواب میں دیکھنے والا اگر کچھ کلام بھی سنتا ہے تو اسے قرآن وحدیث پر پیش کیا جائے گا، اگر شریعت کے خلاف ہے تو اس کا اعتبار نہیں ہے۔ پس عمل قرآن وسنت ہی پر کیا جائے گا؛ اس لیے کہ شیطان کو نبی کی صورت گھڑنے کی تو مطلقاً قدرت نہیں ہے؛ مگر آواز میں تصرف کرسکتا ہے اور دیکھنے والے کے دل میں یہ خیال ڈال سکتا ہے کہ وہ یہ سمجھے کہ نبی کا کلام سن رہا ہے؛ کیونکہ حدیث شریف میں خواب میں رویت کی ضمانت لی گئی ہے، سماع کلام کی ضمانت نہیں ہے۔

                (۱) علامہ انور شاہ کشمیری کا بیان ہے وَلَمَّا ضَیَّقَ الأوَّلُوْنَ فِيْ رُوٴیَتِہ وَقَیَّدُوْھَا بِتَقْیِیْدَاتٍ وَسَّعُوْا فِيْ اِعْتِبَارِ أقْوَالِ الْحُلْمِیَّةِ بِخِلَافِ الْجُمْھُوْرِ فَانَّھُمْ اذَا وَسَّعُوْا فِيْ أمْرِ الرُّوْیَةِ ضَیَّقُوْا فِي اعتبارِ تِلْکَ الأقْوَالِ وَلٰکِنَّھَا تُعَرَّضُ عَلی الشَّرِیْعَةِ عِنْدَ جِمِیْعِھِمْ فَانْ وَافَقَت قُبِلَتْ وَالَّا فَلاَ (فیض الباری ج۱، ص۲۰۳) یعنی خواب میں رویتِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق سلف کی ایک جماعت کا نظریہ سخت احتیاط والا تھا کہ خواب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا دیکھنا اسی وقت معتبر ہوگا جب کہ دیکھنے والا اس حلیہ میں دیکھے جو شمائل میں مذکور ہے، اس میں ذرا بھی فرق آیا تو کہہ دیتے کہ اس نے نبی کو نہیں دیکھا، اتنی شدت وہ کلام میں نہیں کرتے تھے۔ بخلاف جمہور کے کہ انھوں نے رویت کے بارے میں وسعت کردی کہ خواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جس حلیہ میں دیکھا اگر اس کے دل میں آیا کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ رہا ہے تو بس واقعی اس نے نبی کو دیکھا؛ البتہ سنے ہوئے کلام کے اعتبار میں شدت اختیار کرتے ہیں کہ دیکھنے والے نے جو کلام سنا ضروری نہیں کہ وہ نبی کا کلام ہو؛ کیوں کہ شیطان خواب میں بھی آواز میں مشابہت کرکے مغالطہ میں ڈال سکتا ہے؛ لیکن اس پر سب متفق ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب میں جو کچھ فرمایا وہ شریعت کی کسوٹی پر پرکھے جائیں گے۔

                (۲) شیخ عبدالحق محدث دہلوی لکھتے ہیں: علمائے محققین نے فرمایا کہ خواب میں حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہوا کلام آپ کی سنت کی کسوٹی پر پرکھنا چاہیے، اگر سنت کے موافق ہے تو صحیح ہے اور اگر مخالف ہے تو خواب میں دیکھنے والے کی سماعت کا قصور ہے (سیرت ص ۳۳ بحوالہ فیض الباری)

                (۳) شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی خواب میں رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھنے سے متعلق کلام کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یہ تو ممکن نہیں کہ شیطان خبیث اپنی صورت آپ کی سی صورت بناسکے اور خواب میں دکھاسکے؛ البتہ مغالطہ دے سکتا ہے اور صحیح خواب میں بھی کبھی شیطان ایسا کرتا ہے کہ آپ کی آواز اور بات کے مشابہ شیطان بات کرتا ہے اور وسوسہ ڈالتا ہے (فتاویٰ عزیزی، ص۳۸۵ بحوالہ مقدمہ سیرت، ص۴۲)

                (۴) امام نووی نے تہذیب الاسماء واللغات کے شروع میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائص میں لکھا ہے کہ شیطان آپ کی صورت اختیار نہیں کرسکتا؛ لیکن اس خواب دیکھنے والے نے اگر کوئی چیز خواب میں احکام سے متعلق سنی تو اس پر عمل جائز نہیں ہے، نہ اس وجہ سے کہ خواب میں کوئی تردد ہے؛ بلکہ اس وجہ سے کہ دیکھنے والے کا ضبط معتمد نہیں ہے (سیرت النبی ص ۴۵)

                (۵) ابن امیر حاج مدخل میں لکھتے ہیں: اس سے بہت احتراز کرنا چاہیے کہ خواب میں یا غیبی آواز سے جاگتے میں کسی ایسی چیز کی طرف قلب کو طمانینت اور سکون ہو جو صدر اوّل کے خلاف ہو (سیرت ص ۴۴)

                (۶) فَمَا ثَبَتَ عَنْہُ یَقْظَةً لَا یُتْرَکُ بِمَا رأیٰ مناماً آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو احوال اور احکام بیداری میں یعنی آپ کی حیاتِ طیبہ میں ثابت ہوچکے ہیں اسے خواب میں دیکھے اور سنے ہوئے کلام کے ذریعہ ترک نہیں کیا جائے گا (فیض الباری)

                (۷) شاہ ہدایت علی جے پوری نقشبندی لکھتے ہیں: جو کشف یا خواب یا آوازِ غیب، خلاف قرآن وحدیث پاک کے ہو وہ قطعی ماننے کے لائق نہیں اور جس کشف ، ادراکِ خواب، یا واقعات کی تصدیق قرآن پاک اور حدیث شریف سے ہو وہ قابل ماننے کے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ اس عالم شہادت میں فرماچکے ہیں، اس کے خلاف حضور صلی اللہ علیہ وسلم کبھی نہیں فرمائیں گے۔ اسی واسطے تمام علمائے حقانی وعرفائے ربانی کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اپنے کشف کو اپنے خوابوں کو قرآن وحدیث کی کسوٹی پر اور جو کسوٹی پرکھرے اترے وہی کھرے ہیں ورنہ کھوٹے (فتوح الحرمین ص۵۵،۵۸)

$ زیارت رسول صلی اللہ علیہ وسلم چشم دل سے ہوتی ہے

                سب جانتے اور مانتے ہیں کہ خواب میں زیارتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم چشم دل سے ہوتی ہے؛ اس لیے کہ نیند میں ظاہری ٓانکھ بند ہوجاتی ہے؛ البتہ خواصِ امت میں جن اکابر کو بیداری میں زیارت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دولت حاصل ہوئی ہے، وہ چشم دل سے ہے یا چشم سر سے؟ چونکہ بیداری میں ظاہری آنکھ کھلی ہوتی ہے؛ اس لیے شبہ ہوتا ہے کہ شاید یہ زیارت ظاہری آنکھ سے ہو اس پر علامہ جلال الدین سیوطی تنبیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں اَکْثَرُ مَا تَقَعُ رُوٴیَةُ النَّبِي صلی اللہ علیہ وسلم فِي الْیَقْظَةِ بِالْقَلْبِ ثُمَّ یَتَرَقّیٰ الٰی أنْ یَرَیٰ بِالبَصَرِ وَقَدْ تَقَدَّمَ الْأمْرَانِ فِيْ کَلاَمِ الْقَاضِيْ أبِيْ بَکْرٍ بْنِ الْعَرب ”لٰکِنْ لَیجسَتِ الرُّوٴْیَةُ الْبَصَرِیَّةُ کالرُّوٴْیَةِ الْمَتَعَارَفَةِ عِنْدَ النَّاسِ مِنْ رُوٴیَةِ بَعْضِھِمْ لِبَعْضٍ․ یعنی زیارتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم جو بیداری میں (بعض خواص کو نصیب ہوتی ہے اکثر وہ قلب کے ذریعہ ہوتی ہے پھر اگر اس مقام سے بھی ترقی ہوتی ہے تو بچشم سر بھی زیارت ہوجاتی ہے؛ لیکن یہ رویت بصری لوگوں کے نزدیک معروف طریقہ سے ایک دوسرے کو عام حالت میں دیکھنے کے مشابہ نہیں ہوتی ہے (تنویرالحلک/نوادرات کشمیری) حاصل یہ کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رویت بہرحال قلب سے ہوتی ہے، اگرچہ بعض اہل ورع وتقویٰ کو بیداری میں بھی ہوجائے۔

$ خواب اور بیداری میں زیارت کا فرق

                شیطان، نبی کی صورت اختیار نہیں کرسکتا نہ خواب میں اور نہ بیداری میں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار بیداری میں بھی ممکن ہے تو پھر دونوں رویت میں کیا فرق ہے؟ ملاحظہ ہو: قطب الاقطاب شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب کاندھلوی نے ایک مرفتہ فقیہ الامت حضرت مفتی محمودحسن گنگوہی سے پوچھا: مفتی جی! خواب اور بیداری میں حضرت نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دیدار میں کیا فرق ہے؟ حضرت مفتی صاحب نے جواب دیا کہ خواب میں دیکھنے کا اعتبار ہے، بیداری میں نہیں۔ شیخ الحدیث نے پوچھا تو کیا شیطان بیداری میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت بناسکتا ہے؟ حضرت فقیہ الامت نے فرمایا کہ شیطان کو بیداری میں بھی نبی کی صورت بنانے کی قدرت نہیں ہے؛ لیکن خواب میں دیکھنے پر ضمانت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے مجھے خواب میں دیکھا واقعی اس نے مجھ کو ہی دیکھا ہے“ بیداری میں دیکھنے پر یہ ضمانت نہیں ہے؛ اس لیے یہ ممکن ہے کہ بیداری (مکاشفہ وغیرمکاشفہ) میں کوئی شخص کسی بزرگ صورت کو دیکھے اور شیطان دیکھنے والے کی قوتِ متخیلہ میں یہ تصور پیدا کردے کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ رہا ہے جب کہ خواب میں دیکھنے والے کے دل میں شیطان یہ خیال بھی نہیں ڈال سکتا ہے یعنی خواب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رویت پر جو القاء ہوتا ہے کہ اس نے نبی کو دیکھا یہ اللہ ہی کی طرف سے ہوتا ہے نہ کہ شیطان کی طرف سے اور بیداری میں یہ حفاظت نہیں ہے۔

$ بیداری میں فرشتہ کو دیکھنا

                انبیائے کرام چوں کہ صاحبِ وحی ہوتے ہیں؛ اس لیے وہ فرشتوں کو دیکھتے ہیں، جیساکہ احادیث اور واقعات شاہد ہیں، انبیاء کے علاوہ مومنین کے لیے فرشتہ کی رویت ہوسکتی ہے یا نہیں تو امام جلال الدین سیوطی نے اس موضوع پر ”تنویرُ الحَلِکِ فی رویةِ النبی والمَلِکِ“ میں احادیث وآثار کے ذریعہ امکان ثابت کرکے چند صحابہٴ کرام کے واقعات ذکر کیے ہیں اور بطور خلاصہ لکھا ہے کہ تیرہ صحابہٴ کرام نے فرشتوں کو دیکھا ہے اور غیر صحابہٴ کرام میں چنداربابِ احوال کے دیکھنے کا ذکر کیا ہے، بہرحال امام سیوطی علوم میں تبحر رکھنے کے ساتھ اونچے مقام کے صاحبِ ولایت بھی تھے۔ ان کی تحقیق کے مطابق فرشتوں کو دیکھنا، اگرچہ ممکن ہے؛ لیکن اس کا وقوع ایسے ہی مومن کامل کے لیے ہوسکتا ہے جو صالحیت میں بلند مقام پر ہو؛ چنانچہ جن حضرات کے واقعات لکھے ہیں، وہ ایسے ہی درجہ کے لوگ تھے، یہی وجہ ہے کہ آج تک ہزاروں اولیاء اللہ گزرے ہیں؛ مگر گنتی کے چند ہی ہوں گے، جن کو زندگی بھر میں ایک یا دو مرتبہ ہی فرشتہ کا دیدار ہوا ہو۔

$فراست ومکاشفہ کی لیاقت

                فراست کی دو قسمیں ہیں، ایک جو تجربہ سے حاصل ہو، دوسری قسم جو نورِ یقین سے حاصل ہو اور یہ نور پیدا ہوتا ہے، نفس کو اخلاق ردّیہ سے تزکیہ کرنے اور قلب کو صفاتِ ذمیمہ سے صفائی کرنے سے؛ خلاصہ یہ کہ فراست ایمانی انوار ربانی کے ذریعہ مغیبات (وہ امور جو حواسِ ظاہرہ سے پوشیدہ ہیں) کا مشاہدہ کرنے کا نام ہے۔ (مفتاح السعادة)

                آگے صاحب مفتاح السعادة لکھتے ہیں اِنَّ مَن کان مُراقِبًا احوالَہ وأنفاسَہ، مُجتنِبًا عَنِ المَعَاصِیْ صغائرِھا و کبائرِھا، مُتخلِّقًا بالأخلاقِ النبویةِ، مُتحلِّیًا بالآداب المصطفویةِ، وَلَا یریٰ الخیرَ والشرَ والنفعَ والضرَّ الاّ مِنَ اللہ تعالیٰ، ولا یلتفتُ الی مخلوقٍ لعرض حاجتہ ولا یعتمد علیہ طرفةَ عینٍ تکون فراستہ کالشمس ساطعة أنوارھا لامعة أضواوٴھا ینطق بالصدق ویقول الحق (ص۳۱۱ج۱) یعنی جو شخص (۱) اپنے احوال اور سانسوں کی نگرانی رکھنے والا ہو یعنی شریعت کا پابند ہو اور لایعنی میں کوئی لمحہ ضائع نہ ہو (۲) صغائر وکبائر ہر قسم کے معاصی سے بچنے والا ہو (۳) ظاہری اخلاق نبوی سے آراستہ ہو یعنی اتباعِ سنت کا اہتمام کرنے والا ہو (۴) باطنی آدابِ مصطفوی سے مزین ہو (۵) نیکی وبدی، نفع وضرر ہر شے کو صرف اللہ کی طرف سے ہونے کا استحضار ہو (۶) اور اپنی ضرورت پیش کرنے کے لیے مخلوق کی طرف توجہ نہ کرے یعنی اللہ ہی کی طرف رجوع کرے (۷) اور مخلوق پر لمحہ بھر کے لیے بھی اعتماد نہ کرے تو ایسے مومن کی فراست انتہائی روشن ہوگی؛ چنانچہ حدیث شریف میں ہے اِتَّقُوْا فِرَاسَةَ المُوٴمِنِ فَانَّہ یَنْظُرُ بِنُوْرِ اللہِ کامل مومن کی فراست سے بچو؛ اس لیے کہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔

                امام غزالی فرماتے ہیں المُکَاشَفَةُ: ھِي الاطِّلَاعُ عَلیٰ مَاوَرَاءِ الْحِجَابِ مِنَ الْمَعَانِيْ الْغَیْبِیَّةِ وَالأمُوْرِ الْحَقِیْقِیَّةِ یعنی مکاشفہ نام ہے معانی غیبیہ اور امور حقیقیہ پر مطلع ہونے کا (جن کا ادراک حواسِ ظاہرہ سے نہیں ہوسکتا) پس فراست ہو کہ مکاشفہ دونوں میں ادراک و مشاہدہ قلب سے ہوتاہے؛ چنانچہ ارباب تصوف کے یہاں یہی مشہور اور مسلم ہے۔ حضرت مخدومِ جہاں شرف الدین احمد یحییٰ منیری فرماتے ہیں: قاعدہ کی بات ہے کہ جو چیز حواس ظاہر سے غیبت میں ہوتی ہے نورِ بصیرت کے بغیر اس کو نہیں دیکھ سکتے (معدن المعانی ص ۸۲)

$مراقبہ اور توجہ

                مراقبہ کے لغوی معنی ”نگرانی کرنا“ ہے، ارباب تصوف کے یہاں کسی شے کا تصور اس قدر کیا جائے کہ دل میں اس شے کا استحضار پیدا ہوجائے، جیسے مراقبہٴ موت، مراقبہٴ آیت اَلَمْ یَعْلَمْ بِأنَّ اللہَ یَریٰ وغیرہ۔ معلوم ہوا کہ مراقبہ حصولِ استحضار کا ایک ذریعہ ہے۔

دل میں ہے تصویرِ یار جب ذرا گردن جھکائی دیکھ لی

                مگر چوں کہ مراقبہ کی بنیاد تصور ہے اور شیطان کے لیے تصرف کا راستہ کھلا ہوا ہے؛ اس لیے روحانیت کا حصول مراقبہ کے ذریعہ کمزور ہے۔ پس جب کہ شریعت میں خواب حجت نہیں ہے تو مراقبہ جو کہ بحالتِ بیداری ذہنی تصور ہوتا ہے، وہ کہاں قابلِ اعتماد ہوسکتا ہے؛ چنانچہ حضرت فقیہ الامت مفتی محمود حسن گنگوہی نے ایک مرتبہ دورانِ سفر بمبئی کے قیام میں ایک مجلس میں (اور راقم الحروف حاضر تھا) وعظ کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ”بعض لوگ یہ سوچتے ہیں کہ مراقبہ کے ذریعہ صاحبِ قبر سے استفاضہ کریں گے؛ حالانکہ جب زندہ پیر سے استفادہ کی صلاحیت نہیں رکھتے تو مردہ پیر سے کس طرح استفاضہ کریں گے، پھر فرمایا کہ آدمی آنکھ بند کرکے سر جھکائے (مراقبہ کی حالت میں) بیٹھے یہ سمجھے گا کہ اللہ کی طرف سے معانی کا القاء ہورہا ہے، یا صاحب قبر کی طرف سے فیض پہنچ رہا ہے؛ حالانکہ وہ گروگھنٹال (شیطان) اس کے قلب ودماغ پر تصرف کررہا ہوتا ہے۔“ حضرت کا منشا مرشد سے اس کی زندگی میں استفاضہ پر ابھارنا اور مراقبہ سے استفادہ پر خطرہ سے آگاہ کرنا ہے۔ مراقبہ کے ذریعہ استفادہ ہونے کا انکار نہیں ہے؛ چنانچہ اگر زائر مراقب صاحب نسبت ہو اور صاحب مزار بھی صاحب نسبت ہو اور دونوں کی نسبت میں تناسب ہو تو مراقبہ سے نفع متوقع ہے (بوادر النوادر ص ۸۵ ج۲) اور کبھی استحضار کی کیفیت کو بھی مراقبہ سے تعبیر کرتے ہیں (روح تصوف ترجمہ رسالہ قشیریہ)

                نیز اصلاح وافادہ کا اصل ومفید طریقہ وعظ وتذکیر ہے جس کا نافع ہونا نص قطعی سے ثابت ہے اور جس کا اثر دائمی ہوتاہے، اس کے بالمقابل ”توجہ“ سے اگرچہ مقصد حاصل ہوجاتا ہے؛ لیکن اس کا اثر عموماً وقتی اور عارضی ہوتاہے گویا توجہ سے عارضی اصلاح ہوتی ہے نیز توجہ کا تعلق ریاضت ومشق سے ہے پس اگر کوئی غیرمسلم ریاضت کرتا ہے تو اسے بھی یہ چیز حاصل ہوجاتی ہے، جس کو مسمریزم سے تعبیر کرتے ہیں، لہٰذا توجہ کو مسمریزم سے مشابہت بھی ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ اہل اللہ اپنے قلوب کے روشن ہونے کی وجہ سے اہلِ توجہ بھی ہوتے ہیں، اس کے باوجود طریقہٴ اصلاح میں ”توجہ“ سے احتیاط کرتے ہیں؛ مگر بوقتِ ضرورت اور بقدر ِضرورت۔

$ دین اور نسبت کے تحفظ کا ذریعہ

                ہاں! اگر بحالتِ مراقبہ یا بغیر مراقبہ کے کسی عیبی امر کا کشف ہوتا ہے تو پھر صاحبِ کشف میں وہ لیاقت ہونی چاہیے جس کا ذکر اوپر کیاگیا؛ اس لیے کہ کشف کا بغیر شریعت کے کوئی اعتبار نہیں، چنانچہ مصلح الامت حضرت مولانا شاہ وصی اللہ صاحب الہ آبادی نے اپنے مرشد حضرت حکیم الامت کے حوالہ سے فرمایا کہ: حضرت مولانا اشرف علی تھانوی نے ”التنبیہ الطربی“ میں شیخ محی الدین ابن العربی کا یہ قول نقل فرمایا ہے کہ وَاعْلَمْ اَنَّ تَقْدِیْمَ الْکَشْفِ عَلَی النَّصِّ لَیْسَ بِشَيْءٍ عِنْدَنَا لِکثْرَةِ اللَّبْسِ عَلٰی أھْلِہ وَالاَّ فَالْکَشْفُ الصَّحِیْحُ لاَ یَأتِيْ قَطُّ الاَّ مُوَافِقًا لِظَاھِرِ الشَّرِیْعَةِ جاننا چاہیے کہ کشف کی تقدیم نص پر ہمارے نزدیک محض باطل ہے؛ کیونکہ اہلِ کشف کو کثرت سے اشتباہ ہوجاتا ہے ورنہ کشفِ صحیح (اشتباہ سے خالی) ہمیشہ ظاہر شریعت کے موافق ہوتا ہے۔ شیخ اکبر نے اس میں ایک نہایت ہی اہم اور ضروری اصول کی جانب تنبیہ فرمائی ہے، وہ یہ کہ کشف کا درجہ بتلایا ہے کہ یہ شریعت کے تابع ہے اور شریعت اس پر مقدم ہے اور اس کی وجہ یہ بیان فرمائی کہ کشف میں صاحبِ کشف کو اکثر وبیشتر التباس ہوجاتا ہے۔

                میں کہتا ہوں کہ یہی حال اور دیگر اسبابِ علم کا بھی ہے، مثلاً مشاہدہ اور عقل کہ اس میں بھی التباس ہوتا ہے؛ چنانچہ مشاہدہ بھی کبھی غلط ہوجاتا ہے اور عقلاء کے درمیان بھی بعض مرتبہ شدید اختلافات رونما ہوجاتے ہیں اسی لیے مدارِ کار شرع ہوئی، نہ کہ عقل اور کشف وغیرہ اس لیے اس پر یقین نہیں کیا جاسکتا کہ یہ رحمانی اور ربانی ہی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ شیطانی ہو؛ لیکن ظاہری صورت چوں کہ دونوں کی یکساں ہوتی ہے؛ اس لیے صاحب کشف کبھی شیطانی کو بھی رحمانی سمجھ لیتا ہے اور دھوکہ میں پڑکر اپنے مقام سے گرجاتا ہے،اس کی مثال کہ یہ التباس کیسے ہوتا ہے شیخ اکبر ہی کے کلام سے جسے علامہ شعرانی نے الیواقیت والجواہر میں نقل فرمایا ہے، بیان کرتا ہوں (شیطان کا شیخ عبدالقادر جیلانی کو گمراہ کرنے کا عبرت آموز تفصیلی واقعہ) اب بطور نتیجہ کے میں کہتا ہوں کہ اس سے صاف معلوم ہوا کہ بزرگوں اور صوفیوں پر جو شیطان کا داؤ چلتا ہے، وہ شریعت سے تمسک نہ کرنے ہی کی وجہ سے؛ چنانچہ جو صوفی شریعت سے جس قدر زیادہ دور ہوگا، اسی قدر جلد وہ شیطان کا سُخریہ بن سکے گا اور جو اس پر مستقیم ہوگا، وہ اسی قدر اس سے محفوظ رہے گا۔ (معارف مصلح الامت ص ۴۸۱ ج۱)

$طریقت بغیر شریعت کے معتبر نہیں ہے

                قرآن وحدیث کے جو احکام انسان کے ظاہر اعمال سے متعلق ہیں، یہاں تک کہ ظاہر وپوشیدہ گناہوں کا ترک کرنا اور اخلاقِ حمیدہ سے آراستہ ہونا، یہ سب شریعت کہلاتے ہیں اور یہی اللہ تعالیٰ کے نزدیک قبولیت کا مدار اور آخرت میں کامیابی کا معیار ہے؛ اس لیے شریعت سے بے نیازی تو کبھی بھی نہیں ہوسکتی۔ اور جب شریعت زندگی کے تمام شعبوں میں عملی طور نمایاں ہوتو اسی کو طریقت کہتے ہیں اور طریقت میں جب ترقی ہوتی ہے تو حقیقت تک رسائی ہوتی ہے۔ بہرحال شریعت روحانی قرب کا زینہ ہے، اس کے بغیر طریقت و حقیقت کا کوئی اعتبار نہیں۔ صاحب نسبت ہوجانے کے بعد بھی اعمالِ شریعت لازم وضروری ہے یہی وجہ ہے کہ محققین اولیاء خاص کر مخدوم جہاں شرف الدین احمد یحییٰ منیری اور مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی نے اپنے مکتوب میں خلفاء، مریدین اور متعلقین کو شریعت کے تمسک یعنی مضبوطی سے عمل کرنے پر خاص زور دیا ہے۔ اور مخدوم جہانیاں جہاں گشت سید جلال الدین بخاری متوفی ۷۸۵ھ جن کو بیس مشائخ سے خرقہٴ خلافت حاصل تھی، فرماتے ہیں: جب تک کوئی شریعت کو مضبوط نہ پکڑے گا، ہرگز حقیقت کو نہ پہنچے گا۔ ایک موقع پر فرمایا: جو شخص شریعت سے عاری (خالی) ہے، وہ طریقت وحقیقت کو نہیں جان سکتا ہے (اقوالِ سلف ص ۹۰ ج۴)

$کذب علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا رد شرعاً واجب ہے

                شروع میں گزرچکا ہے کہ کسی امر خلاف واقع کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نسبت کرنا دراں حالے کہ اس کا ثبوت نہ ہو یہ کذب علی النبی کہلاتا ہے اور قصداً ایسا کرنا اکبر الکبائر میں سے ہے؛ چوں کہ شریعتِ غراء وملت بیضاء پر کذب علی النبی کے گرد وغبار سے دھندلاپن آنے لگاتا ہے؛ اس لیے دین وشریعت کی صیانت وحفاظت کی خاطر کذب علی النبی کا رد شرعاً واجب ہے، یہی وجہ ہے کہ موضوع اور جھوٹی روایتوں کی تفتیش اور تعیین کے لیے راویانِ حدیث کے احوال کی تحقیق اور ان پر نکیر کرنا ضروری قرار پاتا ہے کہ صحیح اور سقیم کے درمیان تمیز ہوجائے( مقدمہ فتح الملہم ص ۶۷، ج۱)

                پس جس طرح اللہ تعالیٰ نے تکوینی طورپر اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے جسمِ اطہر واطیب کو (ذباب یعنی) مکھی کے بیٹھنے سے کہ اس کے پیر یا پر یا منھ میں ذرہ کے برابر گندگی کا احتمال ہے محفوظ فرمایا اسی طرح شریعت بیضاء وغراء کو جو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ مبارکہ سے صادر ہونے والے اقوال وافعال اور احوال و اطوار کا مجموعہ ہے، اسے اکاذیب واساطیر (جھوٹی اور من گھڑت باتوں) سے جو کہ معنوی مکھیاں ہیں، محفوظ رکھنا تشریعی طور پر ضروری قرار پایا (مقدمہ فتح الملہم ص۶۷) چنانچہ ائمہ حدیث نے ایسے موٴمنین پر بھی جرح فرمایا ہے جو عبادت و ریاضت اور اخلاص وتقویٰ کی وجہ سے مقبول تھے، پس باوجودیکہ عام حالت میں کسی موٴمن کی غیبت کرنا یا اس پر بہتان لگانا جائز نہیں ہے؛ مگر تحفظِ شریعت فرض ہونے کی وجہ سے ایسا کرنا نہ غیبت محرمہ میں داخل ہے اور نہ ہی بہتان کہلاتا ہے۔ (مقدمہ مسلم ص ۱۲)

$دفاع رسول شرعاً ضروری ہے

                قرآن پاک عظمتِ رسول کے بیان سے بھرا ہوا ہے، مثلاً سورہٴ اعراف آیت ۱۵۷ میں اہلِ کتاب کو ان کی طرف سے نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کے بعدآپ کی تعظیم ونصرت پر کامیابی کی خبر اور سورئہ فتح آیت ۹ میں پوری امت کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان کے بعد آپ کو قوت پہنچانے اور آپ کی تعظیم کرنے کا حکم دیاگیا ہے اور سورہٴ حجرات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حق تعظیم یہاں تک بتایا گیا ہے کہ نبی کی آواز پر اپنی آواز بلند نہ کرو۔ اور احادیث صحیحہ تو کثرت سے ہیں جن میں عظمتِ رسول کو مختلف انداز سے بیان کیاگیا ہے، بہرحال تعظیم رسول صلی اللہ علیہ وسلم قرآن وحدیث کی تصریحات کی روشنی میں فرض اور ضروری ہے اور ہر وہ قول یا فعل جو عظمت رسول کے خلاف ہو وہ جائز نہیں ہے، خواہ طعن وتشنیع ہو، یا استہزاء وتمسخر ہو، عیب جوئی و بہتان تراشی ہو یا پھر سب و شتم ہو یا کسی بھی طرح کی ایذا رسانی ہو غرض صاحب رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کی تحقیر و توہین کی جو بھی صورت ہو سب حرام وناجائز ہے اور اس کا دفع کرنا اور ذات اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے دفاع کرنا واجب ہے، چنانچہ دیکھیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار کے ہجو (بدگوئی) کا جواب دینے کے لیے حضرت حسان بن ثابت (شاعر اسلام) کو حکم دیا اور تائید خداوندی کی بشارت سنائی۔ استہزاء وتمسخر کرنے والوں پر بددعا کرنا بھی ثابت ہے اور سب وشتم کرنے والوں میں سے بعض کو قتل کرنے کا حکم دیا ہے۔ اور آپ پر طعن و تشنیع کرنے والوں میں سے بعض سے خود صحابہ نے انتقام لیا ہے۔ علامہ ابن تیمیہ نے (الصارم المسلول علی شاتم الرسول صلی اللہ علیہ وسلم) میں قرآن وحدیث کے حوالہ سے تفصیل کے ساتھ کلام کیا ہے۔ حاصل یہ کہ کسی کے قول یا فعل یا حکایت سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کے ساتھ توہین کا سلوب پایا جائے تو اس کا دفاع شرعاً ضروری ہے۔

$فضل الٰہی کا موقع ومحل

                فضل الٰہی اللہ قبضہ قدرت میں ہے، وہ جس کو چاہے اپنے فضل سے نوازدے اس کا فضل انسان کے حسب یا نسب کے ساتھ خاص نہیں ہے اور نہ ہی کسی نسل کے ساتھ۔ یہود کی ایک بنیادی غلطی یہ بھی تھی کہ وہ فضل الٰہی کا حقدار اور مستحق صرف اپنی قوم یہود کو سمجھتے تھے اس لیے قرآن پاک نے ان کی تردید کی ہے۔ اس کے برعکس کسی عامی شخص کا اپنے احوال کو فضل الٰہی سمجھ لینا اور پھر آیت کریمہ ذلک فضل اللّٰہ یوتیہ من یشاء کو دلیل میں پیش کردینا یہ بھی صحیح نہیں ہے؛ کیونکہ مشیتِ خداوندی اگرچہ جس کو چاہتی ہے فضل سے نوازدیتی ہے؛ مگر اللہ تعالیٰ اپنے فضل کی نوازش کے لیے ایسے محل (شخص) کا انتخاب کرتے ہیں جس میں لیاقت پائی جاتی ہے؛ اس لیے کہ کسی چیز کا بے محل رکھنا اللہ تعالیٰ کی صفتِ عدل وحکمت کے خلاف ہے اور عقلاً بھی غلط ہے۔ قرآن پاک میں ہے اللہ تعالیٰ خوب جانتے ہیں اس جگہ کو جہاں اپنا پیغام رکھتے ہیں یعنی جس شخص کو اپنے فضل سے نوازتے ہیں۔

$ راہ سلوک کے گرد وغبار

                تبعِ تابعین کے دور سے ہر زمانہ میں کچھ ایسے افراد بھی ہوتے رہے ہیں جو شریعت کی پابندی کے بغیر؛ بلکہ خلاف شریعت کچھ ریاضت ومجاہدہ کے ذریعہ صاحب حال بن گئے؛ مگر شیطانی ونفسانی احوال کو ربانی ورحمانی احوال سے فرق نہ کرسکے تو احوال شیطانی کو فضل الٰہی سمجھ کر انھیں عالی مقام کے حصول کا دھوکہ ہوگیا اور عام لوگوں پر احوال عجیبہ واقوال غریبہ ظاہر کرنے لگے پھر اپنی اس صنعت وکاروبار کو طریقت کا نام دے کر گروہ صوفیاء میں داخل ہوگئے۔ درحقیقت ایسے ہی لوگ احسان وتزکیہ کے روشن چہرہ کے لیے بدنما داغ اور تصوف کے ریشمی قباء پر غبار بن کر چڑھ گئے، اللہ رب العزت نے اپنی حکمت و قدرت سے تزکیہ واحسان کی راہ کو شیطانی گردوغبار اور خس وخاشاک سے پاک و صاف کرنے کے لیے ارباب بصیرت افراد پیدا فرمائے۔ چنانچہ علمائے ربانی و صوفیائے حقانی نے شریعت حقہ کی روشنی اور قوت سے ایے فریب خوردہ لوگوں کی غلط بیانی کو واضح کیا اور شریعت کے خلاف تصوف کو باطل قرار دیا؛ تاکہ طریقت کے رہروکو منزل کی تلاش میں دشواری نہ ہو؛ لیکن بعض مرتبہ تصوف کے ذریعہ دنیوی منفعت حاصل کرنے والوں نے اپنے غلط اطوار سے باز آنے اور توبہ کرنے کے بجائے اپنے آپ کو اہل باطن کہہ کر چھپانے کی کوشش کی اور علمائے حقانی کو اہل ظاہر کا نام دے کر شریعت کی مخالفت کی پرواہ نہیں کی اور اپنے فاسد نظریات اور غلط روش پر قائم رہے اور یہ بھی شیطانی فریب ہے۔

$شیطانی تصرف ایک ناقابل انکار حقیقت ہے

                عن زینب امرأةِ عبدِ اللہِ بن مسعود ان عبد اللہ رَأیٰ فِيْ عُنُقِیْ خَیْطاً فقال: ماَ ھٰذا فقلت: خیط رُقِیَ لی فیہ قالت فاخذہ فقطعہ․․․․ الٰی أنْ ․․․․ فقال عبد اللہ انَّما ذٰلِکَ عَمَلُ الشَّیْطَانِ کانَ یَنْخُسُھَا بِیَدِہ (ابوداؤد)

                مولانا بدرعالم میرٹھی لکھتے ہیں: اس روایت سے معلوم ہوتاہے کہ شیطان انسانی اجسام میں اس قسم کے تصرفات بھی کرسکتا ہے․․․․ احادیث سے شیاطین کے بہت سے تصرفات ثابت ہیں۔ استحاضہ کو شیطان کا اثر کہا گیا ہے، برے خوابوں میں ان کا دخل تسلیم کیاگیا ہے، نماز اور وضو میں وساوس ڈالنا، مال چراکر لے جانا، بچہ کی پیدائش کے وقت اس کا چھیڑنا․․․ ان میں قدرے مشترک شیطانی تصرف ایک ناقابلِ انکار حقیقت ثابت ہوتی ہے۔ اس حدیث سے ایک اور اہم بات یہ بھی ثابت ہوتی ہے کہ گمراہی کا سبب جس طرح شیطانی وساوس ہوتے ہیں اسی طرح بعض مرتبہ اس قسم کے شیطانی تصرفات بھی ہوجاتے ہیں۔ (ترجمان السنة، ج۲، ص۴۱۹)

                امام العصر علامہ انور شاہ کشمیری فرماتے ہیں کہ شیطان انسانی اجسام میں تصرف کرتا ہے جیساکہ جن تصرفات کرتے ہیں فَکَمَا أنَّ الْجِنَّ یَرْکَبُ الانْسَانَ وَیُصْرِعُہ ثُمَّ یَتَکَلَّمُ بِلِسَانِہ کَذٰلِکَ یَفْعَلُ الشَّیْطَانُ أیْضاً پس جس طرح جن انسان پر سوار ہوجاتا ہے اور اسے پچھاڑ دیتا ہے پھر اس کی زبان میں بات کرتا ہے، اسی طرح شیطان بھی کرتا ہے۔ (فیض الباری ج۲ ص ۱۱۵)

$فاتی والا کی کتاب کا رد کیوں؟

                فاتی والا نے جو حکایتیں بیان کیں اور کتاب ”درالحرمین“ میں درج کی گئی ہیں ان میں یہ دو باتیں بالکل ظاہر ہیں: (۱) حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جھوٹ کی نسبت اور یہ کثرت سے ہے (۲) حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت عظمیٰ کے ساتھ اہانت اور گستاخی کا سلوک اور یہ بھی کتاب میں بہت ہے؛ چونکہ جناب شوکت حسین فاتی والا کے ساتھ جو واقعات پیش آئے ہیں، وہ سب شیطان کے تیار کردہ ہیں؛ تاکہ طریقت کی راہ سے ایک فتنہ کھڑا ہوجائے، لہٰذا کتاب کا رد کرنا ضروری ہوا۔

اللہ تعالیٰ فتنوں سے امت مسلمہ کی حفاظت فرمائے، آمین!

——————————————-

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 11‏، جلد: 98 ‏، محرم الحرام 1436 ہجری مطابق نومبر 2014ء

Related Posts