حرفِ آغاز

 مولانا حبیب الرحمن اعظمی

                قیامت کب آئے گی اس کا حتمی علم ملک مقرب اور نبی مرسل کو بھی نہیں ہے؛ چنانچہ حدیث جبریل میں جب اللہ کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جبریل امین نے عرض کیا، ”فاخبرنی عن الساعة“ وفی روایة ”متی الساعة“ مجھے بتائیے کہ قیامت کب آئے گی؟ تو اس کے جواب میں آپ نے فرمایا: ”مالمسئول عنھا باعلم من السائل“ جس سے اس کے بارے میں پوچھا گیا ہے وہ خود پوچھنے والے سے زیادہ علم نہیں رکھتا، مطلب یہ ہے کہ خلق خدا میں کوئی اس صلاحیت کا حامل نہیں ہے کہ اس سے قیامت کا وقت واقعی دریافت کیا جائے؛ کیوں کہ یہ مفاتیح الغیب میں سے ہے جن کا علم خالق کائنات کے علاوہ کسی کو بھی نہیں ہے۔

                البتہ خدائے علیم وحکیم نے اپنے آخری نبی پیغمبر اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی بہت ساری علامتوں اور نشانیوں سے آگاہ کردیا تھا، جنھیں اللہ کے نبی نے منشائے خداوندی کے مطابق دیگر وحی الٰہی کی طرح مکمل جزم ویقین کے ساتھ امت کو پہنچادیا ہے، ان سے وقوع قیامت کی دوری ونزدیکی کا اندازہ ہوسکتا ہے۔

                قیامت کی پیشگی علامتوں کے طور پر آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان کردہ یہ ساری پیش گوئیاں خواہ تواتر کے ساتھ قطعی طور پر ثابت ہوں، یا بطریق آحاد ظنی طور پر ان کا ثبوت ہو، یہ سب کی سب باب عقائد میں داخل ہیں، یہ خیال کہ عقیدہ میں صرف وہی امور داخل ہیں جو تواتر کے ساتھ قطعی طور پر ثابت ہیں صحیح نہیں ہے، اعتقاد قلبی اور علم قطعی دو علاحدہ علاحدہ چیزیں ہیں، لہٰذا اعتقاد کے لیے نہ تو علم قطعی ضروری ہے اور نہ ہی علم قطعی کے لیے اعتقاد لازم ہے، بس فرق یہ ہے کہ جو باتیں قطعی دلائل سے ثابت ہیں وہ عقیدہ قطعیہ ہوں گی اور جو چیزیں ظنی دلیلوں سے ہم تک پہنچی ہیں وہ ظنی طور پر عقیدہ میں شامل ہوں گی، اور اسی لحاظ سے ان کے قبول ورد کے تعلق سے حکم میں فرق وتفاوت ہوگا۔

                ائمہ حدیث (اللہ تعالیٰ ان کی قبروں کو نور سے معمور فرماے) نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت دیگر علوم واحکام کی طرح قیامت سے متعلق ان کی پیش گوئیوں کو بھی پورے اہتمام کے ساتھ اپنی تصانیف میں ”اشراط الساعة“ یا ”امارات الساعة“ کے عنوان سے جمع کردیا ہے، جن کو عام طور پر علماء نے ان تین قسموں میں تقسیم کیا ہے: (۱) علامات بعیدہ، یعنی وہ نشانیاں جو ظاہر ہوکر گزرگئیں، (۲) علامات متوسطہ، یعنی جن کے ظہور کا سلسلہ جاری ہے، (۳) علامات قریبہ، یعنی وہ عظیم اور بڑی علامتیں جو قیامت کے قریب ظاہر ہوں گی جن کے بعد قیامت آجائے گی۔

                قیامت کی قریبی نشانیوں میں سے بالخصوص مہدیِ موعود کا ظہور، مسیح دجال کا خروج، اور حضرت عیسیٰ مسیح علیہ السلام کا نزول اپنے دور رس اثرات ونتائج اور امتحان وآزمائش کے اعتبار سے نہایت اہم ہیں، اسی لیے اللہ کے نبی نے بھی ان کی جملہ ضروری تفصیلات کو بڑے شرح وبسط کے ساتھ بیان فرمایا ہے، مثلاً خاتم الاولیاء خلیفہٴ مہدی کی شخصیت پر روشنی ڈالتے ہوئے ان کا اصل نام، ولدیت، وطنیت، وقتِ ظہور کے حالات، بیعت خلافت کا مقام وکیفیت، مخالفین ومعاندین سے جنگ، ان کے ساتھ خدائی نصرت، ان کا عدل وانصاف اور بیکراں داد ودہش، ان کے عہد میں مال ودولت کی فراوانی، زمین کی پیداوار میں محیرالعقول برکت وزیادتی، اسی عہد میمون میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول، اور حضرت مسیح علیہ السلام کا ان کی اقتداء میں نماز پڑھنا، حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام کی معیت میں دجال کا تعاقب اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ہاتھوں دجال کی ہلاکت، مدتِ خلافت، وغیرہ ان کی شناخت سے متعلق ضروری امور اس وضاحت وصراحت سے بیان فرمادیے ہیں کہ ان کے ظہور کے وقت ان پر نظر پڑتے ہی بلا توقف لوگ انھیں پہچان لیں گے۔

                یونہی دجال اکبر سے متعلق امت کو جس قدر معلومات درکار تھی انھیں بھی مکمل طور پر بیان فرمادیا ہے، مثلاً اس دنیائے امتحان وآزمائش میں اس کا موجود ہونا، اس کی جسمانی ساخت اور بدہیئتی، اس کی سواری کی جسامت اور رنگت، اس کا آنکھوں سے کانا اور معیوب ہونا، اس کی پیشانی پر ” ک ا ف ر“ کا لکھا ہوا ہونا، اس کے طلسماتی کرتبوں کی تفصیل، مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ اور بیت المقدس کے علاوہ سارے خطہٴ ارض میں اس کا فساد اور تباہی برپا کرنا، بطور خاص قوم یہود کا اس کا ہم نوا ہونا، حضرت عیسیٰ مسیح علیہ السلام کے ہاتھوں اس کا ہلاک ہونا، وغیرہ۔

                اسی طرح حضرت عیسیٰ مسیح علیہ السلام کے نزول، اور بعد از نزول ان کے اہم واقعات واحوال کو بھی صاف صاف بیان فرمادیا ہے۔ مثلاً دو فرشتوں کے سہارے ان کا منارہٴ شرقی دمشق پر اترنا، وقت نزول ان کے لباس کی نوعیت اور رنگ، مسلمانوں کے امام کی اقتداء میں ان کا نماز ادا کرنا، امام مہدی اور لشکرمسلمین کو ساتھ لے کر دجال کے تعاقب میں ان کا جانا، بیت المقدس کے قریب باب لُد پر دجالی لشکر سے مقابلہ، انھیں دیکھ کر دجال کا پانی میں نمک کی طرح پگھلنا، پھر ان کے ہاتھوں دجال کا ماراجانا، خلیفہٴ مہدی کی وفات کے بعد براہ راست امت مسلمہ کی سربراہی کرنا، قوم یاجوج وماجوج کا سمندری طوفان کی طرح دنیا میں پھیل جانا، اور ان کی دعا سے بیک وقت سب کا ہلاک ہوجانا بعد از نزول دنیا میں ان کے قیام کی مدت، باقی ماندہ عیسائیوں کا ان کے ہاتھوں پر مسلمان ہوجانا، بعد از وفات پیغمبر اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہٴ پاک میں مدفون ہونا، وغیرہ، وہ ساری تفصیلات جن سے ان کی تشخیص وتعیین ادنیٰ تردد کے بغیر ہوجائے امت سے بیان کردی ہیں، ”اشھد ان لا الٰہ الا اللہ، واشھد ان محمدا رسول اللہ“

                آج کی صحبت میں ہماری گفتگو کا محور صرف مہدی موعود سے متعلق ہی ہے۔ حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام یا کانے دجال کے سلسلہ کی پیشین گوئیوں کا ذکر تو اس لیے آگیا ہے کہ ان کا تعلق بھی خلافت مہدی کے دور سے ہی ہے۔

                خلیفہٴ مہدی کے بارے میں آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ان پیشین گوئیوں کی روشنی میں اہل السنة والجماعة کا عقیدہ ہے کہ اخیر زمانہ میں مہدی موعود کا ظہور برحق ہے، صحابہ و تابعین سے لے کر اب تک کے ہر طبقہ کے جمہور علماء وفقہا اور محدثین ظہور مہدی کے مسئلہ کو نقل کرتے چلے آرہے ہیں؛ البتہ ان کے اوصاف واحوال سے متعلق وارد احادیث اخبار احاد کے قبیل سے ہیں، اس لیے ان کے مصداق کی تشخیص وتعیین میں خود طبقہٴ اہل السنة والجماعة کی آراء میں اتفاق قائم نہیں ہوسکا؛ چنانچہ حافظ ابن القیم ”المنار المنیف“ فصل ۵۰ کے ذیل میں لکھتے ہیں:

                وقد اختلف الناس فی المھدی علی اربعة اقوال، مہدی موعود کے بارے میں لوگ چار اقول میں مختلف ہوگئے ہیں:

                (۱) حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہی فی الحقیقت مہدی ہیں، یعنی مہدی موعود کوئی الگ شخصیت نہیں؛ بلکہ یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہی ہیں، جن کا آخر زمانہ میں نزول ہوگا، یہ لوگ اپنے قول پر حدیث ”لا مہدی الا عیسی ابن مریم“ سے استدالال کرتے ہیں۔

                (۲) مہدی موعود بنی عباس کے تیسرے خلیفہ محمد بن عبداللہ المہدی تھے جن کا زمانہ گزرچکا ہے، یہ لوگ اپنے قول کے استدلال میں مسند احمد میں مروی اس حدیث مرفوع کو پیش کرتے ہیں:

                اذا رأیتم الرأیات السود قد اقبلت من خراسان فأتوھا ولوحبواً علی الثلج فان فیھا خلیفة اللہ المھدی․

                جب تم دیکھو کہ سیاہ جھنڈے خراسان کی جانب سے آرہے ہیں تو تم لوگ اس فوج میں شرکت کے لیے آؤ خواہ تمہیں برف پر گھسٹ کر آنا پڑے؛ کیونکہ اس میں اللہ کے خلیفہ مہدی ہیں۔

                چونکہ ابومسلم خراسانی بنوعباس کی مدد میں اپنا لشکر خراسان سے لے کر آیا تھا اوراس کے لشکر کے جھنڈے سیاہ ہی تھے؛ اس لیے ان لوگوں نے حدیث کا محمل اسی کے لشکر کو سمجھ لیا۔

                (۳) مہدی موعود حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما کی اولاد میں سے بیت نبوی علی صاحبہا الصلوٰة والسلام کے ایک فرد ہیں، جو آخر زمانہ میں جبکہ دنیا ظلم وجور سے بھری ہوگی ظاہرہوں گے اور دنیا کو عدل وانصاف سے معمور کردیں گے۔ اکثر حدیثیں اسی پر دلالت کرتی ہیں، (یہی جمہور اہل السنة والجماعة کا عقیدہ ہے) ان تینوں اقوال کو نقل کرنے کے بعد حافظ ابن القیم لکھتے ہیں: ”فھذہ اقوال اھل السنة“ یہ تینوں اہل السنة کے اقوال ہیں۔

                پہلے قول کو موصوف نے بہ دلائل رد کردیا ہے اور دوسرے قول کی سخافت چونکہ ظاہر تھی اس لیے اس پر کوئی کلام نہیں کیا، اور تیسرے قول یعنی جمہور اہل السنة کے مذہب کو ”واکثر الاحادیث علی ھذا تدل“ فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق بتایا ہے؛ لہٰذا یہی درست ہے۔

                اہل السنة کے ان تینوں اقوال کے بعد چوتھے قول میں روافض اور بعض ظالم ومکار اور باطنی فرقہ کے مخترع وبانی دعویٰ مہدویت کی قدرے تفصیل ذکر کی ہے، صفحات کی تنگی کی بنا پر انھیں آئندہ کے لیے باقی چھوڑدیاگیا ہے، اللہ ھو الموفق ویھدی السبیل الحق․

$ $ $

———————————–

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 5‏، جلد: 98 ‏، رجب 1435 ہجری مطابق مئی 2014ء

Related Posts