از: مولانا زاہد مکھیالوی                     

‏ جامعہ فلاحِ دارین الاسلامیہ بلاسپور،مظفرنگر

                سید الکونین خاتم الابنیا حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش سے لے کر وفات تک، بچپن ، جوانی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بڑھا پا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت، آپ کا معاشرہ، آپ کے عقائد، آپ کے اخلاق، آپ کا رہن سہن غرض یہ کہ زندگی کے ہر مو ڑ اور ہر گوشہ کا نام سیرت ہے۔عقل و فہم اور دینی شعور رکھنے والے کسی بھی مسلمان پر یہ بات بھی ڈھکی چھپی نہیں کہ انسانی زندگی کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عالی ذات میں بہترین نمو نہ ہے قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا : لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِی رَسُولِ اللہِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ( الاحزاب ۲۱) اللہ کے رسول میں تمہارے لیے بہترین نمو نہ ہے ۔ نیز امتِ مسلمہ کے لیے آپ کی بے پایاں شفقت ومہر بانی اور مسلمانوں کی خیرو فلاح کے لیے قلبی تڑپ اور جہد مسلسل کے وقیع مضامین سے قرآن وحدیث بھرے ہوئے ہیں چنانچہ قرآن کریم میں ایک مقام پر ارشاد باری ہے :

                لَقَدْ جَاءَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُوٴمِنِیْنَ رَوٴُفٌ رَّحِیْمٌ (التوبہ ۱۲۸)

                ترجمہ: تمہارے پاس تمہیں میں سے ایک رسول تشریف لائے ہیں، ان پر تمہاری تکلیف بھاری ہے او روہ تمہاری بھلائی کے حریص ہیں اور ایمان والوں پر نہایت شفیق و مہر بان ہیں۔

                اسی شفقت و مہر بانی کے تعلق سے ایک حدیث ملاحظہ فرمائیں :

          ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم تلا قول اللہ تعالیٰ فی إبراھیم: رَبِّ اِنَّھُنَّ اَضْلَلْنَ کَثِیْراً مِنَ النَّاسِ فَمَنْ تَبِعَنِی فَاِنَّہ مِنِّی وَ قال عیسیٰ اِنْ تُعَذِّبْھُمْ فَاِنَّھُمْ عِبَادُکَ فَرَفَعَ یَدَ یْہِ فَقَالَ اللّٰھُمّ أمتی أمتی وَ بَکیٰ فقال اللہ تعالیٰ یا جبرئیل اذھب الیٰ محمد وَرَبُّک اَعْلَمُ فَسْئَلُہ مَا یُبْکِیْکَ فاتاہ جبرئیل علیہ السلام فسالہ فاخبرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بما قال وھواَ عْلَمُ فَقَالَ اللہ تعالیٰ یا جبرئیل اِذْھَبْ الیٰ محمد فقل اِنَّا سَنُرْضِیْکَ فیِ اُمتک ولا نَسُوئُکَ (رواہ مسلم) ۱/ ۱۱۳)

                 حضرت عبد اللہ بن عمروبن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق یہ آیت تلاوت فرمائی رب إنھن الخ (کہ میرے پروردگار ان بتوں نے بہت سے لو گوں کو گمراہ کر دیا یعنی ان کی وجہ سے بہت سے آدمی گمراہ ہو گئے، پس جو لوگ میری پیروی کریں وہی میرے ہیں، پس ا ن کے لیے تو میں آپ سے عرض کر تا ہوں کہ ان کو تو ہی بخش دے ۔

                اور عیسیٰ علیہ السلام کا یہ قول بھی تلاوت فرمایا اِنْ تُعَذِّبْھُمْ فَاِنَّھُمْ عِبَادُکَ الخ یعنی اے اللہ اگر آپ میری امت کے ان لوگوں کو عذاب دیں تو یہ آپ کے بندے ہیں ( یعنی آپ کو عذاب و سزا کا پورا حق ہے) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کے لیے اپنے دونوں ہاتھوں کو بلند کیا اور کہا اے میرے اللہ !میری امت، میری امت ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس دعا میں روئے، اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کو فر مایا کہ محمد کے پاس جاوٴ؛ اگر چہ تمہارا رب سب خوب جانتا ہے؛ مگر پھر بھی تم جا کر ہماری طرف سے پو چھو کہ ان کے رونے کا سبب کیا ہے ؟ پس جبرئیل آپ کے پاس آ ئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پو چھا آپ نے جبرئیل علیہ السلام کو وہ بتلا دیا جو اللہ سے عرض کیا تھا یعنی اس وقت میرے رونے کا سبب امت کی فکر ہے۔ جبرئیل نے جاکر اللہ تعالیٰ سے عر ض کیا تو اللہ نے جبرئیل کو فرمایا کہ محمد کے پاس جاوٴ اور ان کو ہماری طرف سے کہو کہ تمہاری امت کے بارے میں ہم تمہیں راضی اور خوش کر دیں گے ، اور تمہیں رنجیدہ اور غمگین نہیں کریں گے ۔

                ایک مو قع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اَللّٰھُمَّ اْغْفِرْلِعَائشَةَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِھَا وَمَا اَسَرَّتْ وَمَا اَعْلَنَتْ۔ یہ دعاسن کرحضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہایہاں تک ہنسیں کہ ان کا سر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی گود کی طرف جھک گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تجھ کو میری دعا نے خوش کر دیا، عرض کیا حضرت !آپ کی دعاکیوں خوش نہ کر تی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خدا کی قسم ! یہی میری دعا میری تمام امت کے لیے ہر نماز کے بعد ہو تی ہے ۔ (مجمع الزوائد ج/ ۹ص/۲۴۴)

                یہ امت کے فکر وغم اور خیر خواہی کے جذبات سے معمور پیغمبرانہ مزاج تھاجو ہمہ وقت آپ کو مضطرب و بے چین رکھتا تھا ، اور یہ سلسلہٴ شفقت و مہر بانی صرف دنیا کی فانی زندگی تک محدود نہیں بلکہ محشر کے میدان میں بھی، جب ہر انسان ہی نہیں بلکہ ہر نبی نفسی نفسی کے عالم میں ہو گا، کرب و ابتلاء کے عین مو قع پر بھی زبانِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم پر ”امتی امتی“ جاری ہو گا ، اور آپ دیگر انسانوں کے ساتھ ساتھ اپنی امت کے حق میں خصو صی شفاعت فرمائیں گے ۔

                پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو امت سے اس قدر محبت و پیار کا تعلق او رہم مسلمانوں کا سنتِ نبوی سے اعراض یقینا یہ انتہائی تشویشنا ک اور تکلیف دہ ہے، اللہ تعالیٰ ہی ہمارے حال پر رحم فرمائے، جس نبی کو اسوہ بنا کر مبعوث کیا گیا، اس نبیِ رحمت نے زندگی کے کسی بھی گو شہ کو تشنہ نہیں چھوڑا؛ بلکہ کامل و مکمل طریقہ سے تمام شعبوں میں زبانی عملی ہر طرح سے اور ہر سطح سے رہبری فرمائی۔خواہ ان اُمور کا تعلق عبادت سے ہو یا معاملات سے یا معاشرت واخلاقیات سے، زندگی کا ہر مر حلہ اس آفتابِ نبوت کی پاکیزہ و مقدس روشنی سے منور اور روشن ہے، ہماری سب سے بڑی کو تاہی یہ ہے کہ ہم بے عملی کا شکار ہیں، رذیل دنیا کی حرص و طمع کے دبیز پر دوں نے ہمیں پوری طرح سے ڈھانپ رکھا ہے، یہی وجہ ہے کہ منزل کی صحیح سَمت معلوم ہو نے کے باوجود ہم اس پر چلنے سے عاجز و قاصر رہتے ہیں، شدید ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنا محاسبہ خود کریں، اپنی عبادتوں کا جائزہ لیں ہماری نمازیں پیغمبر کی نماز سے میل کھاتی ہیں یانہیں۔ زکوٰة اور رمضان شریف کے روزوں، حج بیت اللہ اور دیگر عبادتی کاموں میں ہم اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ کو کتنا ملحوظ رکھتے ہیں ۔ اسی طرح معاملات کودیکھیں کہ اس میں ہم کس حد تک پیغمبرانہ اسوہ کو اختیار کیے ہوئے ہیں ، یاغیروں کے بنائے ہوئے اُصول اور ان کے بے برکت طریقے اختیار کر تے ہیں، معاملات کی صفائی و شفافیت کے متعلق نبیِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات و ہدایات پر ہمیں کتنا اعتماد ہے، اخلاق و معاشرت کے پہلو سے بھی ہم اپنے طر زِ عمل پر نظر ڈالیں ، اخلاق نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہماری خصلتیں اور مزاج کتنا متاثر ہے ۔

                حرص و طمع، کینہ و حسد، حبِ جاہ ، حبِ مال، عجب وریا، کذب وخیانت ، غرور و گھمنڈ ، غصہ اور بخل جیسی خسیس اور گھٹیا عادتوں سے ہم عملی طور پر کتنی نفرت کر تے ہیں اور اخلاقِ عالیہ تواضع و انکساری توبہ واستغفار ، انس و محبت، زہد و توکل صبرو شکر، حلم و بر دباری ، صدق و اخلاص، احسان و رضا، شرم وحیا ، ہمدردی و رحم دلی، جیسے بلند اوصاف سے ہماری طبیعت کتنی مانوس ہے اور قت آ نے پر ان دو متضاد راہوں میں سے ہم کس راہ کو اختیار کر تے ہیں ۔ اسی طرح اپنی معاشرتی زندگی کا بھی جائزہ لیں اور بہت سنجیدگی سے محاسبہ کریں کہ قبیلہ و خاندان اعزاء و اقرباء پڑوسیوں اور دیگر لو گوں کے ساتھ رہن سہن اور گزر بسر کے سب طریقے ہمارے اچھے ہیں ؟ اپنی بستی و محلہ اور گھروں میں محبت و موانست کی فضا ہے ، یا نفرت و بیز اری کا ماحول ہے؟ خوش مزاجی ، بڑوں کی عزت و عظمت ، چھو ٹوں کے ساتھ شفقت و محبت ، ماتحتوں کے ساتھ حسنِ سلوک وروا داری ، لو گو ں کی خطا و لغزش معاف کر نا کمزوروں کی مدد کر نا مہمانوں کی ضیافت ، بھو کوں کو کھانا کھلانا ،مظلو موں کی مدد اور ہر شخص کے ساتھ محبت و شفقت کا معاملہ کر نے میں ہماری زندگی کا کتنا حصہ گزرا کہ جس کی بنیاد پر معاشرہ میں آد می ایک محترم اور بلند کر دار انسان کہلانے کا حق دار ہو جاتا ہے ، یہ بلند کر داری غیروں میں بھی اس کو با عزت مقام دیتی ہے ۔

                 خلاصہ یہ ہے کہ ہم اپنا بھی محاسبہ کریں اور اپنے اہل وعیال کا بھی جائزہ لیں، آج ہمارے بچوں کو موبائل فون، ٹیلی ویژن وغیرہ کے ذریعہ کر کٹ کھیل کی معلومات ، کھلاڑیوں کے نام اور مختلف صوبوں، ملکوں میں کھیلے گئے میچوں کا رکارڈ ، فلموں کی اسٹوریاں وغیرہ خوب یاد رہتی ہیں۔اگر یاد نہیں تو پیغمبر علیہ الصلوٰة والسلام کے حالات اور ان کی سیرت یا دنہیں ، ا س میں یقینا بنیادی طور پر قصور ہمارا ہے ۔

                 ہمیں خود سیرتِ طیبہ کا پتہ نہیں، اس سے یکسر غفلت ہے، نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ زندگی کے نہ تو احوال ہمیں یاد ہیں اور نہ جاننے کی فکر ہے؛ البتہ زبانی محبت کا دعویٰ خوب ہو تا ہے سید الکو نین صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں نعوذ باللہ کوئی خبیث النفس شرارت کر دے تو ہمارا خون کھولنے لگتا ہے، ضرور کھولنا چاہیے اور اس پر جتنا بھی غصہ آ ئے کم ہے؛ لیکن اس کے ساتھ یہ بھی دیکھیں کہ پیغمبر علیہ السلام کے ساتھ ہم نے خود کیا تعلق قائم کر رکھا ہے۔ ہماری زندگی سنتوں سے کس قدر معمورہے، ہمیں اس کا محاسبہ کر نے کی ضرورت ہے، ہمارے بچوں کے اندر نبی علیہ السلام کی سیرت کا کتنا چر چا ہو تا ہے ، ہمارے گھروں میں سنتیں کتنی زندہ ہیں؟

                اس کا سہل و مجرب طریقہ یہ ہے کہ صبح بیدار ہو نے سے سونے تک روز مرہ کی دعائیں یاد کی جائیں، بچوں کو بھی یاد کرائیں، اس مو ضوع کی اُردو ، ہندی مختلف زبانوں میں کتابیں بازار میں ملتی ہیں، ان کو ہم پڑھیں، اپنے اہل و عیال میں سنائیں، اسی سے ایک ماحول بنے گا اور سنتوں پر عمل کا داعیہ پیدا ہو گا، انشاء اللہ ہماری سیرت و صورت، عادات واخلاق سنتوں کے پاکیزہ رنگ میں رنگین ہو جائیں گے اور زندگی کے ہر مو ڑ اور ہر مر حلہ میں ہم پیارے نبی کی سیرت طیبہ کو اپنا اسوہ بنا کر زندگی گزاریں تو بلا شبہ دونوں جہاں میں سر خ روئی کا باعث ہو گا ،اور اس کے صالح اثرات نہ صرف یہ کہ ہماری زندگیوں میں ہی ظاہر ہوں گے؛ بلکہ ہماری نسلوں کو بھی اس کا فائدہ پہو نچے گا ، انشاء اللہ ۔

                اللہ رب العزت ہم سب کو عمل کی تو فیق سے نوازے اور اپنی عارضی و فانی زندگی کے ہر مر حلہ میں سنتِ نبوی کو پیشوا بنانے کے لیے ہمیں منتخب فرمائے کہ سیرت طیبہ کا اصل یہی پیغام ہے اور حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت و تعلق اور ایمانی جذبہ کا یہی تقاضہ ہے اور اسی میں فلاحِ دارین ہے۔

***

————————————-

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 4‏، جلد: 98 ‏، جمادی الثانیة 1435 ہجری مطابق اپریل 2014ء

Related Posts