از: محمدراشد ڈسکوی

رفیق شعبہ تصنیف وتالیف‏، واستاذ جامعہ فاروقیہ کراچی

                تمام ادیان میں صرف دینِ اسلام کو ہی جامع، کامل و اکمل ہونے کا شرف حاصل ہے، دنیا کے کسی خطے میں رہنے والا، کوئی بھی انسان ہو ، کسی بھی زبان کا ہو، کسی بھی نسل کا ہو، اگر وہ اپنی زندی کے کسی بھی شعبے کے بارے میں راہنمائی لینا چاہتا ہو ،تواس کے لیے اسلام میں راہنمائی کا سامان موجود ہے،اگر کوئی انسان اسلام میں داخل ہو کر اسلام کی راہنمائی کے مطابق اپنی زندگی کو ترتیب دیتاہے تو ایسے شخص کو دنیا و آخرت کی کامیا بی کا مژدہ سنایا گیا ہے، اور اس کے برعکس کوئی مسلمان اپنی زندگی کے معمولات کے سرانجام دینے میں اسلامی احکامات کی طرف دیکھنے کے بجائے اسلام دشمن لوگوں کی طرف دیکھتا ہے (دیکھ کر ان کے طور طریقوں کو اختیا ر کرتا ہے، یہ طور طریقے، شکل و صورت میں ہوں یا لباس میں ، کھانے میں ہو ں یا سونے میں ، معاملات میں ہوں یا معاشرت میں، اَخلاق میں ہوں یا کسی بھی طریقے میں ہوں )تو اس امر کو اسلام میں سخت ناپسند کیا گیا ہے، ایسے شخص کی پُرزور مذمت کرتے ہوئے اس کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے، سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف فیصلہ سنا دیا ہے کہ” جو شخص دنیا میں کسی کی مشابہت اختیار کرے گا، کل قیامت میں اس کاحشر اسی شخص کے ساتھ ہو گا“؛اس لیے بہت ضروری ہے کہ ہم اپنی زندگی کے کسی بھی موڑ پر ،کسی بھی کام میں غیر مسلموں کا طریقہ یا مشابہت اختیار نہ کریں، ہماری مسلمانی کا تقاضیٰ بھی یہی ہے کہ ہم اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت اور سیرت سے محبت کرتے ہوئے ان کی مبارک سنتوں کو اپنی زندگی میں جگہ دے کر اللہ تعالیٰ کے سامنے سرخرو ہوں اور اس خوفناک دن کی رسوایوں سے بچ سکیں۔

تشبہ کی تعریف

                اپنی حقیقت ،اپنی صورت، ہیئت اور وجود کو چھوڑ کر دوسری قوم کی حقیقت ، اس کی صورت اختیار کرنے اور اس کے وجود میں مدغم ہو جانے کا نام تشبہ ہے۔ (التنبہ علی ما في التشبہ للکاندھلوي، ص: ۷، مکتبہ حکیم الامت کراچی )

                 شریعت مطہرہ مسلم وغیر مسلم کے درمیان ایک خاص قسم کا امتیاز چاہتی ہے کہ مسلم اپنی وضع قطع،رہن سہن اور چال ڈھال میں غیر مسلم پر غالب اوراس سے ممتاز ہو،اس امتیاز کے لیے ظاہری علامت داڑھی اور لباس وغیرہ مقرر کی گئی کہ لباس ظاہری اور خارجی علامت ہے۔اور خود انسانی جسم میں داڑھی اور ختنہ کو فارق قراردیا گیا ہے۔

                 نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے موقع بہ موقع اپنے اصحاب رضوان اللہ علیہم کو غیرمسلموں کے مشابہت اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے ۔ذیل میں ان میں سے کچھ احکامات ذکر کیے جاتے ہیں:

                اللہ رب العزت کی طرف سے بواسطہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اُمت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کو غیرمسلمین کفارویہود اور نصاریٰ سے دور رکھنے کی متعدد مقامات پر تلقین کی گئی، مثلاً:

          ﴿یَآأیّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَتَّخِذُوا الْیَھُوْدَ وَالنَّصَاریٰ أولیاء، بَعْضُھُمْ أولیاءُ بَعْضٍ، وَّمَنْ یَتَوَلَّھُمْ مِنْکُمْ، فاِنّہ مِنْھُمْ، انّ اللہَ لاَ یَھْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِیْنَ﴾ (المآئدة: ۵۱)

ترجمہ:” اے ایمان والو! مت بناو یہود اور نصاریٰ کو دوست ،وہ آپس میں دوست ہیں ایک دوسرے کے،اور جو کوئی تم میں سے دوستی کرے اِن سے ،تو وہ انہی میں سے ہے ،اللہ ہدایت نہیں دیتا ظالم لوگوں کو“۔ (تفسیر عثمانی، ص: ۱۵۰)

          ﴿یَآ أیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا﴾(آل عمران: ۱۵۶)

ترجمہ: اے ایمان والوتم نہ ہو (جاوٴ)ان کی طرح جو کافر ہوئے۔(تفسیر عثمانی، ص: ۹۰)

                سنن ترمذی میں ایک روایت ہے،جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ:

 ”جو شخص ملتِ اسلامیہ کے علاوہ کسی اور امت کے ساتھ مشابہت اختیار کرے تو وہ ہم میں سے نہیں ،اِرشادفرمایا کہ تم یہود اور نصاری کے ساتھ مشابہت اختیار نہ کرو“۔ (سنن الترمذي، کتاب الاستیذان، رقم الحدیث: ۲۶۹۵)

                اس حدیث کی شرح میں صاحب تحفة الأحوذي لکھتے ہیں کہ

                مراد یہ ہے کہ تم یہود و نصاریٰ کے ساتھ ان کے کسی بھی فعل میں مشابہت اختیار نہ کرو۔(تحفة الاحوذی: ۷/۵۰۴)

                سنن ابی داوٴد میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ

 ”جو شخص کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے گا وہ انہی میں سے ہوگا“․ (سنن ابو داوٴد، کتاب اللباس، رقم الحدیث: ۴۰۳۰)

                علامہ سہارنپوری  لکھتے ہیں کہ مشابہت عام ہے ، خیر کے کاموں میں ہو یا شر کے کاموں میں، انجام کار وہ ان کے ساتھ ہو گا، خیر یا شر میں۔(بذل المجہود: ۴/ ۵۹)

                ”مَنْ تَشَبَّہَ “ کی شرح میں ملا علی القاري  لکھتے ہیں کہ:

 ”جو شخص کفار کی، فساق کی، فجار کی یاپھر نیک و صلحاء کی، لباس وغیرہ میں (ہو یا کسی اور صورت میں) مشابہت اختیار کرے وہ گناہ اور خیر میں ان کے ہی ساتھ ہوگا۔(مرقاة المفاتیح، کتاب اللباس،رقم الحدیث: ۴۳۴۷، ۸/۲۲۲،رشیدیہ)

                ایک اور حدیث ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں ہے:

” ہم میں،اور مشرکین کے درمیان فرق (کی علامت ) ٹوپیوں پر عمامہ کا باندھنا ہے“۔ یعنی:ہم ٹوپی پر عمامہ باندھتے ہیں اور مشرکین بغیر ٹوپی کے عمامہ باندھتے ہیں۔(سنن ابی داوٴد، کتاب اللباس، رقم الحدیث: ۴۰۷۸۔ مرقاة المفاتیح، رقم الحدیث: ۴۳۴۰، ۸/۲۱۵)

تشبہ کے بارے میں آثارِ صحابہ و تابعین:

                حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دورِ حکومت میں جب سلطنتِ اسلامیہ کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا گیاتو حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کو اس بات کی فکر دامن گیر ہوئی کہ مسلمانوں کے عجمیوں کے ساتھ اختلاط کی وجہ سے اسلامی امتیازات میں کوئی فرق نہ آ جائے ، اس خطرے کے پیش ِ نظر آپ رضی اللہ عنہ نے ایک طرف مسلمانوں کو اس سے بچنے کی تلقین کی، تو دوسری طرف غیرمسلمین کے لیے بھی دستور قائم کیا۔

                جیسا کہ حضرت ابو عثمان النہدی رحمہ اللہ کی روایت ہے کہ ہم عتبة بن فرقد کے ساتھ آذربائیجان میں تھے کہ ہمارے پاس حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک خط بھیجا (جس میں بہت سارے احکامات و ہدایات تھیں، منجملہ ان کے ایک ہدایت یہ بھی تھی کہ ) ”تم اپنے آپ کو اہلِ شرک اور اہلِ کفر کے لباس اور ہیئت سے دور رکھنا“۔

          (جامع الأصول، الکتاب الأول في اللباس، الفصل الرابع في الحریر، النوع الثاني، رقم الحدیث: ۸۳۴۳، ۱۰ / ۶۸۷،مکتبة دارالبیان)

                ایک دوسری روایت میں ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے لکھا تھا کہ

 ”اے مسلمانوں! ازار اور چادر کا استعمال رکھو اور جوتے پہنو․․․․ اور اپنے جدِ امجد اسماعیل علیہ السلام کے لباس (لنگی اور چادر)کو لازم پکڑو اور اپنے آپ کو عیش پرستی اور عجمیوں کے لباس اور ان کی وضع قطع اور ہیئت سے دور رکھو،( مبادا کہ تم لباس اور وضع قطع میں عجمیوں کے مشابہہ بن جاوٴ )․․․․اور موٹے ، کھردرے اور پرانے لباس پہنو“(شعب الایمان، رقم الحدیث ۵۷۷۶، ج۸، ص۲۵۳)

                اور دوسری طرف اہلِ نصاریٰ اور یہود کو دارالاسلام میں رہنے کی صورت میں بہت سے اُمور کا پابند کیا، جن سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ بہت ہی مظبوط انداز میں اسلامی تہذیب و تمدن اور اسلامی اَقدار کی حفاظت کی گئی ہے۔

                چنانچہ! فتح شام کے موقع پر نصاریٰ شام کے عہدِ صلح کے بعد جو شرائط طے کی گئیں وہ یہ تھیں:

 ”ہم (نصاریٰ شام) مسلمانوں کی تعظیم و توقیر کریں گے، اور اگر مسلمان ہماری مجالس میں بیٹھنا چاہیں گے توہم ان کے لیے مجلس چھوڑ دیں گے، اور ہم کسی امر میں مسلمانوں کے ساتھ تشبہ اور مشابہت اختیار نہیں کریں گے، نہ لباس میں ، نہ عمامہ میں ، نہ جوتے پہننے میں ، اور نہ سر کی مانگ نکالنے میں ، ہم اُن جیسا کلام نہیں کریں گے، اور نہ مسلمانوں جیسا نام اور کنیت رکھیں گے، اور نہ زین کی سواری کریں گے، نہ تلوار لٹکائیں گے، نہ کسی قسم کا ہتھیار بنائیں گے، اور نہ اُٹھائیں گے، اور نہ اپنی مہروں پر عربی نقش کندہ کروائیں گے، اور سر کے اگلے حصے کے بال کٹوائیں گے، اور ہم جہاں بھی رہیں گے، اپنی ہی وضع پررہیں گے، اور گلوں میں زنار لٹکائیں گے، اور اپنے گرجاوٴں پر صلیب کو بلند نہ کریں گے، اور مسلمانوں کے کسی راستہ اور بازار میں اپنی مذہبی کتاب شائع نہیں کریں گے، اور ہم گرجاوٴں میں ناقوس نہایت آہستہ آواز میں بجائیں گے، اور ہم اپنے مُردوں کے ساتھ آگ لے کر نہیں جائیں گے(یہ آخری شرط مجوسیوں سے متعلق ہے)۔

                حضرت عبد الرحمن بن غنم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے یہ شرائط نامہ لکھ کر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے سامنے ملاحظہ کرنے کے لیے رکھا، تو انہوں نے اس شرائط نامہ میں کچھ مزید اضافہ کروایا جو یہ تھا:

” ہم کسی مسلمان کو ماریں گے نہیں ، یعنی تکلیف نہیں پہنچائیں گے، ہم نے انہی شرائط پر اپنے لیے اور اپنے اہلِ مذہب کے لیے امان حاصل کیا ہے، پس اگر ہم نے شرائط مذکورہ بالا میں سے کسی شرط کی خلاف ورزی کی تو ہمارا عہد اور امان ختم ہو جائے گا اور جو معاملہ اہلِ اسلام کے دشمنوں اور مخالفوں کے ساتھ کیا جاتا ہے وہی معاملہ ان کے ساتھ کیا جائے گا“(تفسیر ابن کثیر، سورہ توبة:۲۹)

                ایک اورروایت جسے علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے،اس میں کچھ مزید شرائط کا بھی ذکر ہے،جو ذیل میں ذکر کی جاتی ہیں:

” ہم اپنی آبادی میں کوئی نیا گرجا گھر نہیں بنائیں گے، اور جو گرجا گھرخراب ہو جائیں گے، اس کی مرمت نہیں کروائیں گے، اور جو خطہٴ زمین مسلمانوں کے لیے ہو گا، ہم اُسے آباد نہیں کریں گے، اور کسی مسلمان کو دن ہو یا رات، کسی وقت بھی گرجا میں اُترنے سے نہیں روکیں گے، اور اپنے گرجاوٴں کے دروازے مسافروں اور گزرنے والوں کے لیے کشادہ رکھیں گے، اور تین دن تک ان مسلمان مہمانوں کی مہمان نوازی کریں گے، اور اپنے کسی گرجا اور کسی مکان میں مسلمانوں کے خلاف جاسوسی کرنے والے کو ٹھکانہ نہیں دیں گے، اور مسلمانوں کے لیے کسی غل و غش کو پوشیدہ نہیں رکھیں گے، اور اپنی اولاد کو قرآن کی تعلیم نہیں دیں گے، اور کسی شرک کی رسم کو ظاہراً اور اعلانیہ طور پر نہیں کریں گے، اور نہ کسی کو شرک کی دعوت دیں گے، اور نہ اپنے کسی رشتہ دار کو اسلام میں داخل ہونے سے روکیں گے“۔

                مذکورہ بالا شرائط کو دیکھتے ہوئے بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ مسلمانوں کے اسلامی تہذیب و تمدن اور تشخص کو برقرار رکھنے کے لیے کس قدر اہتمام کیا گیا؛ اس لیے کہ اسلام میں غیروں کے طور طریقوں کاداخل ہو جانا مسخِ اسلام اور تخریبِ اسلام ہے۔

                حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب رحمہ اللہ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ”تشبہ بالغیر فی الحقیقت تخریبِ حدود اور ابطالِ ذاتیات کا نام ہے“۔ (مجموعہ رسائل حکیم الاسلام ، اسلامی تہذیب وتمدن:۵/۴۸۵)

                غیروں کے ساتھ اختلاط ، میل جول اختیار کرنے سے کس قدر سختی سے اور کن کن طریقوں سے روکا گیا، اس کا اندازہ اس مکالمے سے بخوبی ہو سکتا ہے جو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے درمیان ہوا، وہ یہ ہے:

”حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ میرے یہاں ایک نصرانی کاتب ملازم ہے۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تجھے کیا ہو گیا؟خدا تجھے غارت کرے ! کیا تو نے اللہ کا یہ حکم نہیں سنا کہ ”یہود و نصاریٰ کو اپنا دوست مت بناوٴ؛ کیوں کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں“۔ تو نے کسی مسلمان کو ملازم کیوں نہیں رکھا؟

حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو جواب دیا کہ اے امیر الموٴمنین! میرے لیے اس کی کتابت ہے اور اس کے لیے اس کا اپنا دین۔ (یعنی: وہ نصرانی ہے تو کیا ہوا، مجھے تو اس کی کتابت سے غرض ہے، میرا اس کے دین سے کیا تعلق؟)

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جن کی اہانت اللہ تعالیٰ نے کی ہے، میں ان کی تکریم نہیں کروں گا، جن کو اللہ تعالیٰ نے ذلیل کیا ہے میں ان کو عزت نہیں دوں گا، جن کو اللہ تعالیٰ نے دور کیا ہے میں ان کو قریب نہیں کروں گا“(المستطرف: ۲/۶۰)۔

                اس پر مغز مکالمے سے یہ بات ظاہر ہو جاتی ہے کہ

                (۱) جب تک کوئی اضطراری حالت داعی نہ ہو اس وقت تک اصل یہی ہے کہ غیر مسلمین سے استغاثہ اور وہ بھی ایسا کہ جس میں ان کی تکریم ہوتی ہو ، دینِ متین کی فہم حقیقی اورعقل و دانش اس کی اجازت نہیں دیتی ۔

                (۲) یہ عذر قابلِ سماعت نہیں ہے کہ ہمیں تو ان کی صرف خدمات درکار ہیں،نہ کہ ان کا مذہب؛کیوں کہ اس تحصیل ِ خدمت کے ذیل میں ان کے ساتھ معیت ہماری اس شدت اور تغلیظ کو کم کر دے گی یا محو کر دے گی جو ایک مسلمان کا اسلامی شعار بتایا گیا ہے، اور یہی قلتِ تغلیظ بالآخر مداہنت و چشم پوشی اور اعراض عن الدین کا مقدمہ بن کر کتنے ہی شرعی منکرات کی نشوونما کا ذریعہ ثابت ہو گی۔

                (۳) حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ اور حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے بعد کوئی شخص ان جیسا تدین نہیں لا سکتا؛ لیکن اگر کوئی شخص بالفرض لے بھی آئے تو کوئی وجہ نہیں کہ حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کو تو کفار کی خدمات حاصل کرنے سے روکا جائے اوراسے نہ روکا جائے۔

                یہ بات تسلیم کی جا سکتی ہے کہ ایک شخص پختہ اور راسخ الایمان بھی ہے اور اس اشتراک ِ عمل سے اس میں کوئی تزلزل بھی نہیں آسکتا؛ لیکن یہ تو ہو سکتا ہے کہ ایسی ذمہ دار ہستی کا اشتراکِ عمل، عامة المسلمین کے لیے کفار سے استعانت اور اختلاط کے معاملے میں شبہ کا باعث بن جائے اور عوام اپنے لیے اس فعل کو حجت شمار کریں اور اس طرح یہ اختلاط و التباس عام ہو کر ناقابلِ تدارک مفاسد کا باعث بن جائے۔

                (۴) جس مخلوق کی اس کے خالق نے تکریم نہ کی، اور ان کے لیے عزت کا کوئی شمہ گوارا نہ کیا، تواُسی خالق کے پرستاروں کی غیرت و حمیت کے خلاف ہے کہ وہ اس کے اعداء کی تکریم کریں ، وہ جسے پھٹکار دے، یہ اس سے پیار کریں۔

                (۵) اسلام میں سیاستِ محضہ مقصود نہیں ؛ بلکہ محض دین مقصودہے، سیاسی الجھنیں محض تحفظ ِ دین کے لیے برداشت کی جاتی ہیں، پس اگر کوئی سیاست ہی کا کوئی شعبہ تخریب ِ دین یا مداہنت و حق پوشی کا ذریعہ بننے لگے، توبے دریغ اس کو قطع کر کے دین کی حفاظت کی جائیگی، ورنہ بصورتِ خلاف قلبِ موضوع لازم آجائے گاکہ وسیلہ مقصود ہو جائے اور مقصود وسیلہ کے درجہ پر بھی نہ رہے گا۔(مجموعہ رسائل حکیم الاسلام ، اسلامی تہذیب و تمدن: ۵/ ۹۷، ۹۸)

تشبہ با لکفارکے مفاسد:

                غیروں کی وضع قطع اور ان جیسا لباس اختیار کرنے میں بہت سے مفاسد ہیں:

                (۱) پہلا نتیجہ تو یہ ہو گا کہ کفر اور اسلام میں ظاہراً کوئی امتیاز نہیں رہے گا، اور ملتِ حقہ ، ملتِ باطلہ کے ساتھ ملتبس ہو جائے گی، سچ پوچھیے تو حقیقت یہ ہے کہ ”تشبہ بالنصاریٰ “ (معاذ اللہ) نصرانیت کادروازہ اور دہلیز ہے ۔

                (۲) دوم یہ کہ غیروں کی مشابہت اختیار کرنا غیرت کے بھی خلاف ہے، آخر دینی نشان اور دینی پہچان بھی تو کوئی چیز ہے، جس سے یہ ظاہر ہو کہ یہ شخص فلاں دین کا ہے، پس اگر یہ ضروری ہے تو اس کا طریقہ سوائے اس کے اور کیا ہے کہ کسی دوسری قوم کا لباس نہ پہنیں ، جیسے اور قومیں اپنی اپنی وضع کی پابند ہیں، اسی طرح اسلامی غیرت کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ ہم اپنی وضع کے پابند رہیں، اور دوسری قوموں کے مقابلہ میں ہماری خاص پہچان ہو۔

                (۳) کافروں کا معاشرہ ، تمدن اور لباس اختیار کرنا درپردہ ان کی سیادت اور برتری کو تسلیم کرنا ہے؛ بلکہ اپنی کمتری اور تابع ہونے کا اقرار اور اعلان ہے، جس کی اسلام اجازت نہیں دیتا۔

                (۴) نیز! اس تشبہ بالکفارکا نتیجہ یہ ہو گا کہ رفتہ رفتہ کافروں سے مشابہت کا دل میں میلان اور داعیہ پیدا ہو گا، جو صراحةً نصِ قرآنی سے ممنوع ہے:

          وَلاَ تَرْکُنُوْا الیٰ الَّذِیْنَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّکُمُ النَّارُ، وَمَا لَکُمْ مِنْ دُوْنِ اللہِ مِنْ أوْلِیَاءَ ثُمَّ لاَ تُنْصَرُوْنَ․(الھود: ۱۱۳)

ترجمہ: اور تم ان کی طرف مت جھکو، جو ظالم ہیں، مبادا ان کی طرف مائل ہونے کی وجہ سے تم کو آگ نہ پکڑ لے، اور اللہ کے سوا کوئی تمھارا دوست اور مددگار نہیں، پھر تم کہیں مدد نہ پاوٴگے۔

                بلکہ غیر مسلموں کا لباس اور شعار اختیار کرنا ان کی محبت کی علامت ہے، جو شرعاً ممنوع ہے،

          یَا أیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَتَّخِذُوْا الْیَھُوْدَ وَالنَّصَاریٰ أوْلِیَاءَ، بَعْضُھُمْ أَوْلِیَاءُ بَعْضٍ، وَمَنْ یَتَوَلَّھُمْ مِنْکُمْ، فانَّہ مِنْھُمْ، انَّ اللہَ لاَ یَھْدِيْ الْقَوْمَ الظَّالِمِیْنَ․ (المآئدة: ۵۱)

ترجمہ: اے ایمان والو! تم یہود و نصاریٰ کو دوست مت بناوٴ، وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست اور رفیق ہیں، وہ تمھارے دوست نہیں اور تم میں سے جو ان کو دوست بنائے گا، وہ انہی میں سے ہو گا، تحقیق اللہ تعالیٰ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں کرتا۔

                (۵) اس کے بعد رفتہ رفتہ اسلامی لباس اور اسلامی تمدن کے استہزاء اور تمسخر کی نوبت آئے گی، اسلامی لباس کو حقیر سمجھے گا، اور تبعاً اس کے پہننے والوں کوبھی حقیر سمجھے گا، اگر اسلامی لباس کو حقیر نہ سمجھتا تو انگریزی لباس کو کیوں اختیار کرتا؟

                (۶) اسلامی احکام کے اجراء میں دشواری پیش آئے گی، مسلمان اس کافرانہ صورت کو دیکھ کر گمان کریں گے کہ یہ کوئی یہودی یا نصرانی ہے، یا ہندو ہے، اور اگر کوئی ایسی لاش مل جائے توتردد ہو گا کہ اس کافر نما مسلمان کی نمازِ جنازہ پڑھیں یا نہیں؟! اور کس قبرستان میں دفن کریں؟

                (۷) جب اسلامی وضع کو چھوڑ کر دوسری قوم کی وضع اختیار کرے گا تو قوم میں اس کی کوئی عزت باقی نہیں رہے گی، اور جب قوم ہی نے اس کی عزت نہ کی تو غیروں کو کیا پڑی ہے کہ وہ اس کی عزت کریں، غیر بھی اُسی کی عزت کرتے ہیں جس کی قوم میں عزت ہو۔

                (۸) دوسری قوم کا لباس اختیار کرنا اپنی قوم سے لا تعلقی کی علامت ہے۔

                (۹) افسوس! کہ دعویٰ تو ہے اسلام کا ؛ مگر لباس، طعام ، معاشرت ، تمدن ، زبان اور طرزِ زندگی سب کا سب اسلام کے دشمنوں جیسا! جب حال یہ ہے تو اسلام کے دعوے ہی کی کیا ضرورت ہے؟! اسلام کو ایسے مسلمانوں کی نہ کوئی حاجت ہے اور نہ ہی کوئی پرواہ کہ جو اس کے دشمنوں کی مشابہت کو اپنے لیے موجب ِ عزت اور باعث ِ فخر سمجھتے ہوں۔(التنبہ علی ما في التشبہ للکاندھلوي: ۱۶ تا ۲۰)

تشبہ کے فقہی اعتبار سے مراتب

                تشبہ کی ممانعت اور مفاسد اچھی طرح ظاہر ہو جانے کے بعد جاننا چاہیے کہ تشبہ بالکفارکے وہ کون سے مراتب ہیں ، جن سے تشبہ کے جواز ، عدمِ جواز، حرمت و کراہت ، استحسان و عدمِ استحسان اور امکان و عدمِ امکان کی تفصیلات واضح ہو کر سامنے آ سکیں۔

                چناں چہ انسان سے صادرہونے والے افعال و اعمال کی دو ہی قسمیں ہو سکتی ہیں: اضطراری امور اور اختیاری امور۔ ذیل میں ہر دو قسموں پر تفصیلی بحث نقل کی جاتی ہے۔

اضطراری امور میں تشبہ اختیار کرنے کا حکم

                اضطراری امور سے مراد وہ امور ہیں جن کے ایجاد و عدمِ ایجاد میں انسانی اختیارات کو کوئی دخل نہیں ہوتا، مثلاً: انسان کی خلقی اوضاع و اطواراور جبلّی اقتضاء ات، یعنی اس کے اعضاء ِ بدن ، چہرہ مہرہ، پھر اس کے ذاتی عوارض، مثلاً: بھوک پیاس لگنا، اس اندرونی داعیہ کی بناء پر کھانے پینے پر مجبور ہونا، اپنے بدن کو ڈھانپنا وغیرہ ایسے امور ہیں جو اضطراری ہیں اور وہ نہ بھی چاہے ، تب بھی یہ جذبات اس کے دل پر ہجوم کرتے رہتے ہیں۔

                تو ظاہرہے کہ شریعت ایسے امور میں انسان کو خطاب نہیں کرتی، یہ امور کفار و غیر کفار میں مشترک ہیں، یہ نہیں کہا جائے گا کہ منع تشبہ کی وجہ سے اس اشتراک کو ختم کیا جائے، یعنی: شریعت ان امور میں یہ نہیں کہتی کہ چوں کہ کفار کھانا کھاتے ہیں تو ان کی مشابہت کو ترک کرتے ہوئے تم کھانا نہ کھاوٴ، یا چوں کہ وہ (کفار ) لباس پہنتے ہیں تم ان کی مشابہت سے بچنے کے لیے لباس نہ پہنو،یا چوں کہ ان کے ہاتھ، پیر ، ناک ، کان ہیں تم ان کی مخالفت میں اپنے یہ اعضاء کاٹ ڈالو؛ بلکہ شریعت اس بات کا حکم دیتی ہے کہ تم کھانا تو ضرور کھاوٴ لیکن تم کھانے کے طریقے کو ترکِ تشبہ کے ذریعے ممتاز ضرور بناوٴ؛ کیوں کہ یہ تمہارا اختیاری فعل ہے ، اضطراری نہیں۔ اسی طرح شریعت یہ نہیں کہتی کہ ترکِ تشبہ کے جوش میں تم لباس پہننا ہی ترک کردو؛ لیکن یہ ضرور کہتی ہے کہ تم لباس کی وضع قطع کو غیر اقوام کے لباس سے ممتاز اور نمایاں رکھو کہ یہ ضرور تمہارے حدود و اختیا ر میں ہے۔

                 شریعت کبھی یہ نہیں کہے گی کہ اپنے اعضاء ِ بدن کاٹ ڈالو کہ یہ تمہارے اعضاءِ جوارح غیر مسلم اقوام کی طرح ہیں؛ اس لیے بوجہ مشابہت یہ نہیں ہونے چاہیئں، ہاں یہ ضرور کہے گی کہ ٹھیک ہے کہ ان کا وجود میں آنا تمہارے اختیار یا ایجاد سے نہیں ہوا لیکن تمہارے ان اعضاء کی تزیین اور بناوٴ سنگھار کا غیر اقوام سے ممتاز اور نمایاں ہونا تو تمہارے اختیار کا ہی فعل ہے، وہ چھوٹنے نہ پائے۔

اختیاری امور میں تشبہ ختیار کرنے کا حکم

                اس کے بعد انسان سے صادرہونے والے افعال اختیاری طور پرصادرہوتے ہیں ، ان اختیاری امور کی دو قسمیں ہیں: مذہبی امور اور معاشرتی و عادی امور۔

مذہبی امور میں تشبہ کا حکم

                مذہبی امور سے مراد وہ امور و اعمال ہیں، جن کا تعلق مذہب سے ہو، یعنی: ان افعال و اعمال کو عبادت کے طور پر کیا جاتا ہو ، جیسے: نصاریٰ کی طرح سینے پرصلیب لٹکانا، ہندووٴں کی طرح زنار باندھنایا پیشانی پر قشقہ لگانا، یا سکھوں کی طرح ہاتھ میں لوہے کا کڑاپہننا و غیرہ ، تو اس قسم کے مذہبی امور میں غیر اقوام کی مشابہت اختیار کرنا بالکلیہ ناجائز اورحرام ہے۔

معاشرت و عادی امور میں تشبہ کا حکم

                معاشرتی و عادی امور بھی دو قسم کے ہوتے ہیں ، ایک وہ امور جو قبیح بالذات ہیں، یعنی : وہ امور جن سے شریعت نے براہِ راست منع کیا ہے کہ ان افعال کو نہ کیا جائے؛ دوسرے: وہ امور جو مباح بالذات ہیں، یعنی :وہ امور جن سے شریعت نے براہِ راست تو منع نہیں کیا؛ لیکن دیگر خارجی امور کی وجہ سے وہ ممنوع قرار دیے جاتے ہیں۔

قبیح بالذات امور میں تشبہ کا حکم

                قبیح بالذات امور میں غیر مسلم اقوام کی مشابہت اختیار کرنا بھی حرام ہے، جیسے : ٹخنوں سے نیچے شلوار لٹکانا، ریشمی لباس استعمال کرنا، یا کسی قوم کی ایسی حرکت کی نقل اتارنا جن میں ان کے معبودانِ باطلہ کی تعظیم ہوتی ہو، جیسے: بتوں کے آگے جھکنا وغیرہ، ان افعال میں تشبہ کی حرمت اس وجہ سے ہے کہ یہ امور قبیح بالذات ہیں، شریعت کی طرف سے ان کی ممانعت صاف طور پر آئی ہے۔

مباح بالذات امور میں تشبہ کا حکم

                اگر وہ امور اپنی ذات کے اعتبار سے قبیح نہ ہوں؛ بلکہ مباح ہوں تو ان کی بھی دو صورتیں ہیں، ایک: وہ امور کسی غیر قوم کا شعار (یعنی: علامتی و شناختی نشان) ہوں، دوسرے: وہ افعال جو کسی غیر قوم کا شعار نہ ہوں، ہر دو کی تفصیل ذیل میں لکھی جاتی ہے:

غیر اقوام کے شعار میں مشابہت کا حکم

                اگر وہ (مباح بالذات ) امور غیر مسلم اقوام کے شعار (یعنی: علامتی و شناختی نشان)میں سے ہوں تو ان امور میں غیر اقوام کی مشابہت اختیار کرنا حرام ہے، مثلاً: غیر مسلم اقوام کا وہ لباس جو صرف انہی کی طرف منسوب ہو اور انہی کی نسبت سے مشہور ہو اور اس مخصوص لباس کو استعمال کرنے والا انہی میں سے سمجھا جاتا ہو، جیسے : بدھی اور قشقہ۔

مطلقاً غیروں کے افعال میں مشابہت کا حکم

                اور اگر وہ مباح بالذات امور غیر مسلم اقوام کے شعار میں سے نہیں ہیں ، تو پھر ان افعال کی دو قسمیں ہیں کہ ان افعال کا بدل مسلمانوں کے پاس موجود ہے یا ان کا بدل مسلمانوں کے پاس موجود نہیں ہے، ان دونوں قسموں میں مشابہت کا حکم ذیل میں ملاحظہ فرمائیں:

ذی بدل اشیاء میں غیروں کی مشابہت کا حکم

                اگر ان مباح بالذات امور میں مسلمانوں کے پاس امتیازی طور ایسے طور طریقے موجود ہوں جو کفار کے طور طریقوں کے مشابہہ نہ ہوں تو ایسے امور میں غیروں کی مشابہت مکروہ ہے، کیوں کہ اسلامی غیرت کا تقاضا یہی ہے کہ ہم ان اقوام کی ان اشیاء کا استعمال بھی ترک کر دیں جن کا بدل ہمارے پاس موجود ہو، ورنہ یہ مسلم اقوام کے لیے عزت کے خلاف ایک چیزہو گی اور بلا ضرورت خوامخواہ دوسروں کا محتاج و دستِ نگر بننا پڑے گا۔

جیسا کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کے ہاتھ میں فارسی کمان (یعنی : ملکِ ایران کی بنی ہوئی کمان) دیکھی تو ناخوشی سے ارشاد فرمایا کہ ”یہ کیا لیے ہوئے ہو؟ اسے پھنک دو اور عربی کمان اپنے ہاتھ میں رکھو ، جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے تمہیں قوت و شوکت دی اور بلادِ ارض کو مفتوح کیا“۔  (سنن ابن ماجة، باب السلاح، رقم الحدیث: ۲۸۱۰)

                 فارسی کمان کا بدل عربی کمان موجود تھا؛ اس لیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غیرت دلا کر روک دیا؛ تاکہ غیر اقوام کے ساتھ ہر ممکن امتیاز پیدا ہو سکے اور چھوٹے سے چھوٹے اشتراک کا بھی انقطاع ہو جائے۔

غیر ذی بدل اشیاء میں غیروں کی مشابہت کا حکم

                اور اگر غیر اقوام کی اشیاء ایسی ہوں کہ ان کا کوئی بدل مسلم اقوام کے پاس موجود نہ ہو ، جیسے آج یورپ کی نئی نئی ایجادات، جدید اسلحہ، تہذیب و تمدن کے نئے نئے سامان، تو اس کی پھر دوصورتیں ہیں یا تو ان کا استعمال تشبہ کی نیت سے کیا جائے گا یا تشبہ کی نیت سے نہیں کیا جائے گا، پہلی صورت میں استعمال جائز نہیں ہوگا؛ کیوں کہ تشبہ بالکفار کومقصود بنا لینا، ان کی طرف میلان و رغبت کے بغیر ممکن نہیں ہو سکتا، اور کفار کی طرف میلان یقینا اسلام کی چیز نہیں ہے؛ بلکہ اسلام سے نکال دینے والی چیز ہے۔

                نیز! غیر مسلموں کی تقلید کسی مسلم کو بامِ عروج پر نہیں پہنچا سکتی، جیسا کہ ظلمت کی تقلید نور کی چمک میں، مرض کی تقلید صحت میں، اور کسی ضد کی تقلید دوسری ضد میں کوئی اضافہ و قوت پیدا نہیں کرسکتی، ہاں ! اگر ان چیزوں میں تشبہ کی نیت نہ ہو؛ بلکہ اتفاقی طور پر یا ضرورت کے طور پراستعمال میں آرہی ہوں، تو ضرورت کی حد تک ان کے استعمال میں کوئی حرج نہیں ہے۔ (مجموعہ رسائل حکیم الاسلام، اسلامی تہذیب و تمدن : ۵/ ۱۲۸-۱۳۳، التنبہ علی ما في التشبہ للکاندھلوي، ص: ۸ -۱۲ ، فیض الباری: ۲/ ۱۵، انوار الباری: ۱۱/ ۱۰۵، ۱۰۶)

خلاصة کلام

                پوری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ ہم مسلمان اپنی تہذیب اور اپنی اَقدار کو باقی رکھتے ہوئے ہر غیر مسلم قوم کے طور طریقوں سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کریں۔

علامہ انور شاہ کشمیری کی تحقیق

                فرمایا: شعار کی بحث صرف ان امورمیں چلے گی، جن کے بارے میں صاحبِ شرع سے کوئی ممانعت کا حکم موجود نہ ہو ، ورنہ ہر ممنوع ِ شرعی سے احتراز کرنا ضرور ہو گا، خواہ وہ کسی قوم کا شعار ہو یا نہ ہو، اس کے بعد جن چیزوں کی ممانعت موجود نہ ہو ، اگر وہ دوسروں کا شعار ہوں تو ان سے بھی مسلمانوں کو اجتناب کرنا ضروری ہو گا، اگر وہ نہ رُکیں اور ان کا تعامل بھی دوسروں کی طرح عام ہو جائے یہاں تک کہ اس زمانے کے مسلمان صلحاء بھی ان کو اختیار کر لیں تو پھر ممانعت کی سختی باقی نہ رہے گی، جس طرح کوٹ کا استعمال ابتداء میں صرف انگریزوں کے لباس کی نقل تھی، پھر وہ مسلمانوں میں رائج ہوا یہاں تک کہ پنجاب میں صلحاء اور علماء تک نے اختیار کر لیا تو جو قباحت شروع میں اختیار کرنے والوں کے لیے تھی ، وہ آخر میں باقی نہ رہی، اور حکم بدل گیا، لیکن جو امور کفار و مشرکین میں بطورِ مذہبی شعار کے رائج ہیں یا جن کی ممانعت صاحبِ شرع صلی اللہ علیہ وسلم نے صراحةً کر دی ہے، اُن میں جواز یا نرمی کا حکم کبھی بھی نہیں دیا جا سکتا۔ (انوار الباری: ۵/ ۱۰۱، فیض الباری: ۲/ ۱۵)

تشبہ سے متعلق اکابر علماء دیوبند کے فتاویٰ

                لباس کی کن کن صورتوں میں تشبہ بالغیر ہے، اس کے بارے میں ہمارے علماء دیو بند نے وقتاً فوقتاً امتِ مسلمہ کی راہنمائی کی ہے، جن میں سے کچھ منتخب فتاویٰ نقل کیے جاتے ہیں، واضح رہے کہ لباس میں مشابہت (اگر وہ لباس غیروں کا مخصوص لباس نہ ہو تو اس)کا تعلق ہر ہر علاقے کے مزاج اور عرف کے ساتھ ہوتا ہے، ایک ہی چیز ایک شہر و علاقے میں عرف کی وجہ سے ناجائز ٹھہرتی ہے تو وہی چیز دوسرے علاقے میں عرف نہ ہونے کیوجہ سے جائزہوتی؛ اس لیے اس معاملے میں اپنے علاقے کے ماہر و تجربہ کار مفتیانِ عظام سے رابطہ کر کے صورتِ حقیقی سے باخبر رہنا ضروری ہو گا۔

پتلون پہننے کا حکم:

                سوال: دور ِ حاضر میں پتلون اور شرٹ پہننے کا اتنا رواج ہو گیا ہے کہ اب یہ کسی خاص قوم کا شعار نہیں رہا، نیز! قرونِ اولیٰ میں مسلمانوں اور غیر مسلموں کے لباس میں کوئی امتیازی نشان نہیں تھا، یہ بات اس خیال کو تقویت دیتی ہے کہ من تشبہ بقوم فھو منھم میں جس مشابہت کا ذکر ہے، مشابہتِ لباس اس میں داخل نہیں ہے؛ اس لیے پتلون اور شرٹ کا پہننا جائز معلوم ہوتا ہے، جناب اپنی تحقیق فرما کر ممنون فرمائیں، بینوا توجروا․

                الجواب باسم ملھم الصواب:

                آج کل کوٹ پتلون وغیرہ کا اگرچہ مسلمانوں میں عام رواج ہو گیا ہے؛ مگر اس کے باوجود اسے انگریزی لباس ہی سمجھا جاتا ہے، بالفرض تشبہ بالکفار نہ بھی ہو تو تشبہ بالفساق میں تو کوئی شبہ نہیں، لہٰذا ایسے لباس سے احتراز ضروری ہے۔

                یہ کہنا صحیح نہیں کہ پہلے زمانہ میں مسلمانوں اور غیر مسلموں کے لباس میں کوئی امتیاز نہ تھا، نیز! اگر کسی زمانہ یا کسی علاقہ میں امتیاز نہ ہو تو وہاں تشبہ کا مسئلہ ہی پیدا نہ ہو گا، یہ مسئلہ تو وہاں پیدا ہو گا، جہاں غیر مسلم قوم کاکوئی مخصوص لباس ہو، احادیث میں غیر مسلموں کے مخصوص لباس سے ممانعت صراحةً وارد ہوئی ہے۔

                 یہ تفصیل اس لباس کے بارے میں ہے، جس سے واجب الستر اعضاء کی بناوٹ اور حجم نظر نہ آتا ہو، اگر پتلون اتنی چست اور تنگ ہو اس سے اعضاء کی بناوٹ اور حجم نظر آتا ہو، جیسا آج کل ایسی پتلون کا کثرت سے رواج ہو گیا ہے، تو اس کا پہننا اور لوگوں کو دکھانا اور دیکھنا سب حرام ہے، جیسا کہ ننگے آدمی کو دیکھنا حرام ہے۔

                (احسن الفتاویٰ، کتاب الحظر والاباحة،پتلون پہننے کا حکم: ۸/۶۴، ۶۵، ایچ ایم سعید)

 مرد اور عورت کے لباس میں ایک دوسرے کی مشابہت

                سوال: زعفران یا عصفر کے سوا تمام رنگ مرد کو شرعاً جائز ہیں؛ لیکن بعض علاقوں میں سیاہ اور سرخ رنگ کے کپڑے عورتوں کا شعار سمجھے جاتے ہیں اور سفید کپڑے مردوں کا شعار سمجھے جاتے ہیں، کیا ان علاقوں میں مرد کو مختص بالنساء رنگوں کے کپڑے اور عورتوں کو مختص بالرجال رنگوں کے کپڑے پہننا جائز ہے؟ بینوا توجروا۔

                الجواب باسم ملھم الصواب: مرد اور عورت کو ایک دوسرے کے ساتھ تشبہ اختیار کرنا جائز نہیں؛ اس لیے ان علاقوں میں اس شعار کی رعایت رکھنا ضروری ہے ، ایک دوسرے کا شعار اختیار کرنا جائز نہیں۔ واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم (احسن الفتاویٰ، کتاب الحظرو الاباحة ، مرد اور عورت کے لباس میں ایک دوسرے کی مشابہت: ۸/ ۶۶، ۶۷، ایچ ایم سعید)

ٹائی کا استعمال

                سوال: کسی ملازمت میں ترقی کا معیار ٹائی باندھنے پر ہو تو ایسی صورت میں ٹائی باندھنا جائز ہے یا نہیں؟

                الجواب حامداً و مصلیاً: ٹائی ایک وقت میں نصاریٰ کا شعار تھا، اس وقت اس کا حکم بھی سخت تھا، اب غیر نصاریٰ بھی بکثرت استعمال کرتے ہیں ، اب اس کے حکم میں تخفیف ہے، اس کو شرک یا حرام نہیں کہا جائے گا، کراہیت سے اب بھی خالی نہیں ، کہیں کراہیت شدیدہو گی، کہیں ہلکی، جہاں اس کا استعمال عام ہو جائے، وہاں اس کے منع پر زور نہیں دیا جائے گا۔

                اس پر محشی صاحب لکھتے ہیں: کہ ٹائی کا استعمال اگرچہ مسلمانوں میں بھی عام ہو گیا ہے؛ مگر اس کے باوجود انگریزی لباس کا حصہ ہی ہے، اگر انگریزی لباس تصور نہ کیا جائے؛ لیکن فساق و فجار کا لباس تو بہر حال ہے، لہٰذا تشبہ بالفساق کی وجہ سے ممنوع قرار دیا جائے گا۔ دوسری بات یہ کہ اہلِ صلاح اس لباس کو پسند بھی نہیں کرتے ؛ کیوں کہ یہ علماء و صلحاء کے لباس کے خلاف ہے، تیسری بات یہ کہ اس کے علاوہ ٹائی میں ایک اور خرابی یہ بھی ہے کہ عیسائی ا س سے اپنے عقیدہ ”صلیب عیسیٰ علیہ السلام “یعنی: حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مصلوب کیے جانے کی طرف اشارہ کرتے ہیں، جو کہ نص قرآنی کے خلاف ہے، لہٰذا تشبہ بالکفار کے ساتھ ساتھ عیسائیوں کی مذہبی یادگار اور مذہبی شعار ہونے کی وجہ سے بھی پہننا جائز نہیں:

          ”وعنہ (أي: عن ابن عمر رضي اللہُ تعالیٰ عنھما) قال: قال رسول اللہِ صلی اللہ علیہ وسلم: ”مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ“ أي: مَنْ شَبَّہَ نَفْسَہ بِالْکُفَّارِ، مثلاً: فِي اللِّبَاسِ وَغَیْرِہ، أو بِالْفُسَّاقِ أوْ بِالْفُجَّارِ، أوْ بِأھْلِ التَّصَوُّفِ وَالصُّلَحَاءِ الأبْرَارِ․ ”فَھُو مِنْھُمْ“، أي: في الاثْمِ وَالْخَیْرِ“․ (مرقاة المفاتیح، کتاب اللباس، الفصل الثاني، رقم الحدیث: ۴۳۴۷، ۸/۱۵۵، رشیدیة)

                البتہ اگر ادارہ یا حکومت کی طرف سے پابندی ہو، نہ لگانے پر سزا دی جاتی ہو، یا کوئی اور رکاوٹ بنتا ہو تو اس صورت میں لگانے والے پر گناہ نہیں ہو گا؛ بلکہ اس ادارے یا حکومت کے ارکان پر گناہ عائد ہو گا، جس نے ایسا ضابطہ بنایا۔(فتاویٰ محمودیہ،باب اللباس، ٹائی کا استعمال: ۱۹/۲۹۰، ادارة الفاروق)

ساڑھی پہننے کاحکم

                سوال: تشبہ لباس وغیرہ کے بارے میں ایک استفسار یہ ہے کہ عورتوں کے لیے پیچ دار پائجامہ اور ساڑی جائز ہے یا نہیں؟ اور موٹی ساڑھی پہن کر نماز ہو جاتی ہے یا نہیں؟

الجواب حامداً و مصلیاً:

                جہاں یہ کفارو فساق کا شعار ہے، وہاں ناجائز ہے۔ جہاں عام ہے، ان کا شعار نہیں، وہاں جائز ہے۔پھر اگر پردہ پورا ہو تو اس سے نماز بھی درست ہے۔ فقط: واللہ اعلم بالصواب (فتاویٰ محمودیہ، باب اللباس، فساق و فجار کا شعار: ۱۹/ ۲۹۰، ادارة الفاروق)

***

———————————-

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 7 – 8 ‏، جلد: 97 ‏، رمضان – شوال 1434 ہجری مطابق جولائی – اگست 2013ء

Related Posts