از: ڈاکٹر ایم اجمل
۱۵- گاندھی روڈ، دہرہ دون
تہذیب جدید میں سکہٴ رائج الوقت کے طور پر لفظ ”حقیقت پسندی“ یا ”عملی“ (Pragmatic) کے نام پر بدترین مظالم وانسانی حقوق کی پامالی اور بے انصافیوں کو جائز اور حلال کرلیا جارہا ہے، اس کو Realolitik کا نام بھی دیا جارہا ہے، اس کے عملی مظاہر دنیا بھر میں ظاہر ہیں۔ جمہوریت اور انسانی حقوق کے دعویدار اپنے مفادات کے لیے ہر اصول کو طاق پر رکھ کر کہتے ہیں کہ یہ ”واقفیت پسندی“ ہے آج ۲۹/۳/۲۰۱۳/ کے اخبارات میں پُراسرار طور پر نمایاں طور پر امریکی سینیٹروں کے ۲۴ رکنی وفد کے دورہٴ گجرات کی ممبرشاہ سرخیوں کے ساتھ شائع ہوئی ہے۔ جس میں ان ”حقیقت پسندی“ امریکی تاجروں اور سیاست دانوں نے مودی کی ترقی، خوشحالی اور گورنیس کی خوب خوب تعریفیں کی ہیں، اسے امریکہ مدعوکیا ہے اور اپنی حکومت پر دباؤ ڈال کر ویزا دلوانے کی یقین دہانی بھی کرائی ہے، مودی نے اب تک نہ ہزاروں متاثرین سے معافی مانگی ہے، نہ ان کے مسائل حل کیے ہیں، نہ انھیں انصاف دلایا ہے؛ بلکہ انصاف کی راہ میں روڑے اٹکائے ہیں۔ فون کال کی ڈٹیل ضائع کرنے، میٹنگ کی تفصیلات ضائع کرنے سے لے کر سیکڑوں طریقہ سے انصاف کے عمل کو متاثر کیا جارہا ہے، مودی کو معاف تو متاثرین کرسکتے ہیں، ذکیہ احسان جعفری صاحبہ، ظاہرہ شیخ، بلقیس بیگم اور انصاری صاحب جیسے ہزاروں متاثرین کرسکتے ہیں، امریکہ، یورپی یونین اور اقوام متحدہ نے ان متاثرین کے لیے کیا کیا تھا جو وہ معافی دینے کا ڈھونگ رچ رہے ہیں، جن کے ہاتھ خود لاکھوں بے گناہ مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوں اور ہزاروں عصمتوں کو برباد کرنے کا شرف، ان ظالموں کو حاصل ہے وہ کیا انصاف کا ساتھ دیں گے۔ انھوں نے انصاف کا ساتھ کہاں دیاہے؟ اسرائیل، عراق، سوڈان کہاں انھوں نے انصاف کیا ہے؟ ان کا صرف ایک مفاد ہے، اپنے لیے مارکیٹ تلاش کرنا، وہ جو بھی پوراکرے وہ ان کا ہے۔ کیا امریکہ اس بات کو منظور کرے گا کہ 9/11 کے حادثہ کی معافی چین یا پاکستان یا سعودی عرب دے؟ امریکہ اور انگلینڈ نے کرنل قذافی سے جہاز گرائے جانے کے خلاف ہرجانہ کے طور پر اربوں ڈالر وصول کیے ہیں، تب معاف کیا تھا۔ 9/11 کے رد عمل پر دنیا کے متعدد ممالک تباہ کردیے گئے، انھیں کیوں سزا دی گئی؟
اقوام متحدہ اور سارے عالم کے ڈھونگ انسانیت نوازوں کی بے حسی، آپ شام میں دیکھیں، جہاں تھوڑی سی آبادی کے ملک میں 7-8 ماہ میں ایک لاکھ کے لگ بھگ لوگ ہلاک وزخمی ہوگئے اور اوپر سے صرف یہاں بیان بازیاں ہورہی ہیں۔ مالی میں فرانس نے اپنے منظور نظر غلاموں کے حق میں فوری طور سے افواج بھیج کر مداخلت کردی؛ مگر شام میں سب خون اور آگ کا تماشہ دھیمی رفتار کی فلم Slow Motion film کی طرح دیکھ رہے ہیں۔ اب دنیا بھر میں عدم تشدد کے دعویدار لوگوں کو بھی خونِ مسلم کا چسکا لگ گیاہے، کچھ ماہ قبل ہزاروں روہنگیا مسلمانوں کو میانمار میں شہید کیاگیا، خاص طور سے جلاکر شہید کیاگیا۔ لاکھوں لوگ پناہ گزیں ہیں، ہمارے ملک میں بھی پناہ گزیں آئے ہیں اور دربدر ٹھوکریں کھارہے ہیں۔ ان کو ودیشی بتایاگیاتھا۔ اب گذشتہ ہفتہ سے میانمار کے اس علاقہ میں مسلم کش فسادات ہورہے ہیں جو کہ ہندوستانی نسل کے مسلمانوں کی آبادی ہے، وہاں بڑے قصبہ میں فسادات کے دوران سو سے زیادہ مسلمان شہید کردیے گئے ہیں، سیکڑوں مکانوں، دوکانوں اور خصوصاً اللہ کے گھروں (مساجد) کو جلایاگیا ہے اور پولیس وفوج تماشائی بنی ہوئی ہے۔ کسی مسلم ملک میں غیرمسلموں کو نقصان ہوتا ہے تو ساری دنیا کے ”انسانیت دوست، امن پسند، صوفی مبلغ“ پروپیگنڈہ اور لعن طعن کا طوفان کھڑا کردیتے ہیں؛ مگر اتنے بڑے مسلم قتل عام کو فساد کا نام دے کر پوری دنیا خاموش بیٹھ گئی۔ تمل ہندؤں کے مظالم پر اقوام متحدہ میں سری لنکا کے خلاف فوڈ دینے والی اقلیت نواز ہماری حکومت نے تو احتجاج بھی درج نہیں کرایا؛ کیوں کہ بے چارے بے وقوف مسلمانوں پر روکر کیا فائدہ ہوگا اور نہ روکر نقصان بھی نہیں ہوگا؛ جبکہ اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندہ وجے نمبیار نے خود مشاہدہ کرکے بتایا ہے کہ تقریباً 9000 لوگ پناہ گزیں بن گئے ہیں۔ آبادی کی آبادی خالی ہوگئی اور بڑے پیمانے پر لوٹ مار آتش زنی اور چھرے بازی ہوئی ہے اور خصوصاً اہنساکا راگ الاپنے والے بودھوں کے بھکشوؤں نے یہ حرکت کی ہے، وجے نمبیار کا کہنا ہے کہ مقامی مسلمانوں کو یقین نہیں آرہاہے کہ جن کے ساتھ وہ صدیوں سے رہتے آرہے ہیں انھوں نے، ان کے ساتھ ایسا سلوک کیوں کیا؟ مگر ”اسلامی دہشت گردی“ کے خلاف لڑنے والے سارے امن پسند خاموش ہیں اور میڈیا کے لیے تو یہ کوئی خبر ہی نہیں ہے؛ کیوں کہ مسلمان تو اسی سلوک کے مستحق ہیں۔ مسلمانوں کے خلاف ”اسلامی دہشت گردی“ کے سرکاری پروپیگنڈہ کی وجہ سے اور کسی بھی ملک میں مسلمانوں کے خلاف ہونے والی زیادتیوں کے خلاف کارروائی نہ کرنے سے دنیا بھر میں مسلم دشمنوں کے حوصلے بڑھے ہوئے ہیں، خصوصاً جنوبی، مشرقی ایشیا کے بودھ اکثریتی علاقوں میں جب سے عالمی طاقتوں کی رسہ کشی ہوئی ہے، تب سے ان اہنسا کے پجاریوں کو بھی خونِ مسلم کا چسکا لگ گیا ہے۔ سری لنکا میں اب تک Ltte ہی مسلمانوں کی دشمن تھی؛ مگر اب سینالی بودھ بھی بودھ بھکشوؤں کی اگوائی میں کولمبو میں ۲۸/مارچ کو مسلمان تاجروں کے کپڑے کی دوکانوں پر حملہ آور ہوگئے اور انھیں آگ لگادی۔ بودھ بالا سینا نے پچھلے ماہ مسلمانوں کو دھمکی دی تھی کہ وہ ملک بھر میں حلال اشیاء کو ضائع کردیں؛ اگر اپریل تک ایسا نہیں کیا تو ان کی دوکانوں کو آگ لگادی جائے گی، اور ۲۸/مارچ کو دوکانوں کو جلادیاگیا۔ میانمار اور سری لنکا میں اس مسلم مخالف تشدد کی وجوہات پر غور کرنے کی ضرورت ہے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دونوں ملکوں میں عالمی سیاست کے کھلاڑیوں کے مفادات کے کھیل میں ان ملکوں میں پہلے سے موجود گروہی تناؤ کو بھڑکاکر اپنا اپنا تسلط جمایا جارہا ہے، ورنہ اچانک اس طرح کی وارداتوں کی کثرت اور ہمہ گیریت کی کیا وجوہ ہوسکتی ہیں؟ دنیا بھر میں ”امن“ اور ”انصاف“ اور ”انسانی حقوق“ کے دعویداروں اور ”اسلامی دہشت گردی“ کے خلاف جہاد کرنے والوں کی اس مسلم مخالف قتل وبربادی پر خاموشی بہت معنی خیز ہے، شاید اس بربادی میں ان کے دلوں کے سکون کا سامان ہوگا۔
***
———————————-
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 6 ، جلد: 97 ، شعبان 1434 ہجری مطابق جون 2013ء