از: مفتی فضیل الرحمن ہلال عثمانی رکن آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ

اسلام میں نکاح، طلاق اور وراثت کے قوانین پرنظر ڈالی جائے تواس کے لیے اس کے اپنے مستقل صابطے اور اس کی اپنی حدود ہیں، مثلاً نکاح کن لوگوں سے کن رشتوں میں ہوسکتا ہے، کن میں نہیں ہوسکتا․․․․ اسی طرح طلاق کا معاملہ ہے کہ طلاق کے بعد عورت کس سے نکاح کرسکتی ہے، کس سے نہیں․․․․ اسی طرح اسلام میں وراثت کا قانون خون کے حقیقی رشتوں کی بنیاد پر حصے مقرر کرتا ہے۔

                دوسری بات یہ کہ اسلامی معاشرت کا ایک اخلاقی معیار ہے۔ جن رشتوں میں یہ ضروری ہے کہ عورت اور مرد، لڑکا اور لڑکی ایک ساتھ رہیں، ایک ساتھ پلیں بڑھیں، ایک ساتھ زندگی گذاریں۔ ان رشتوں میں اسلام نے ایسا ذہنی تقدس پیدا کردیا ہے کہ کسی برے خیال کا ان کے درمیان گذر نہ ہوسکے، مثلاً بہن کا رشتہ، باپ بیٹی کا رشتہ، ماں اور اولاد کا رشتہ؛ تاکہ ان رشتوں میں خلا ملا ہونے کے باوجود کوئی غلط نتیجہ سامنے نہ آسکے․․․ منھ بولے رشتے میں خواہ کتناہی تقدس پیدا کردیا جائے، مصنوعی رشتوں کے رسمی تقدس پر بھروسہ کرکے اسلامی معاشرے کو گدلا نہیں کیا جاسکتا۔

عرب کا دستور

                اسلام سے پہلے عرب کا دستور یہ تھا کہ یہ لوگ جس بچے کو گود لے کر متبنّیٰ بنالیتے تھے اس کو حقیقی اولاد کی طرح سمجھتے تھے، اسے وراثت ملتی تھی، منھ بولی ماں اورمنھ بولی بہنیں اس سے وہی خلا ملا رکھتی تھیں جو حقیقی بیٹے اور بھائی سے رکھا جاتا ہے۔

                منھ بولے باپ کی بیٹیوں کا اور اس کے مرجانے کے بعداس کی بیوہ کا نکاح اسی طرح ناجائز سمجھا جاتا تھا، جس طرح سگی بہن اور حقیقی ماں کے ساتھ کسی کا نکاح حرام ہوتا ہے۔ اور یہی معاملہ اس صورت میں بھی کیا جاتا تھا جب منھ بولا بیٹا مرجائے یا اپنی بیوی کو طلاق دیدے․․․ منھ بولے باپ کے لیے وہ عورت سگی بہو کی طرح ہوتی تھی۔

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کے منھ بولے بیٹے زید

                ۵۹۵ء میں جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجہ سے نکاح کیا تو حضرت خدیجہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کے لیے ایک پندرہ سالہ غلام زید بن حارثہ کو پیش کیا۔ زید یمن کے قبیلے بنوقضاعہ کے سردار حارثہ بن شراحیل کے لختِ جگر تھے۔ آٹھ سال کی عمر میں ڈاکوؤں کے ہاتھ لگ گئے تھے۔ زید کی والدہ سُعدیٰ بنتِ ثعلبہ قبیلہٴ طے کی شاخ بنی مَعن سے تھیں۔ یہ اپنی والدہ کے ساتھ نانیہال گئے، وہاں سفر میں ان کے پڑاؤ پر قین بن جسر کے لوگوں نے حملہ کیا، پکڑے جانے والوں میں نوعمر زید بھی تھے، ان لوگوں نے طائف کے قریب عُکاظ کے قبیلے میں ان کو بیچ دیا۔ خریدار تھے حضرت خدیجہ کے بھتیجے حکیم بن حزام۔ انھوں نے زید کو اپنی پھوپھی حضرت خدیجہ کی نظر کردیا۔ حضرت خدیجہ سے نکاح کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے زید کو حضرت خدیجہ کے یہاں دیکھا اور ان کی عادات واطوار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند آئیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو حضرت خدیجہ سے مانگ لیا اور حضرت خدیجہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کردیا۔

                کافی دنوں کے بعد زید کے گھروالوں کو پتہ لگا کہ زید مکے میں ہیں، تو ان کے والد حارثہ بن شراحیل اور ان کے ساتھ زید کے چچا تلاش کرتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچے اور عرض کیا کہ آپ جو فدیہ چاہیں ہم دینے کو تیار ہیں، ہمارا بچہ آپ ہمیں دے دیں۔

                حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: میں لڑکے کو بلاتا ہوں اوراس کی مرضی پر چھوڑ ے رہتا ہوں اگر وہ آپ کے پاس جانا چاہے گا تو میں کوئی فدیہ نہ لوں گا اورآپ کا بچہ آپ کے حوالے کردوں گا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے زید کو بلایا اور ان سے کہا․․․․ ان دونوں صاحبوں کو جانتے ہو؟

                انھوں نے عرض کیا: جی ہاں! یہ میرے والد ہیں اور یہ میرے چچا ہیں۔ آپ نے فرمایا: یہ لوگ تمھیں لینے آئے ہیں، اگر تم جانا چاہو تو ان کے ساتھ جاسکتے ہو، میری طرف سے تمھیں اجازت ہے۔ زید نے چھوٹتے ہی جواب دیا: میں آپ کو چھوڑ کر کہیں نہیں جاؤں گا۔

                والد اور چچا حیران ہوگئے اور کہا زید کیا تو آزادی پر غلامی کو ترجیح دیتا ہے، اور اپنے ماں باپ اور خاندان کو چھوڑ کر غیروں کے پاس رہنا چاہتا ہے؟

                زید نے جواب دیا․․․․ میں نے ان میں جو اوصاف دیکھے ہیں، اس کے بعد میں دنیا میں کسی کو بھی ان پر ترجیح نہیں دے سکتا۔ زید کا یہ جواب سن کر باپ اور چچا بہ خوشی راضی ہوگئے کہ زید کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رہنے دیں۔

                جب وہ مایوس ہوکر لوٹنے لگے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے زید اور ان کے والدین کو حرم میں لے جاکر قریش کے عام مجمع میں اعلان فرمایا کہ: میں زید کو آزاد کرتا ہوں آپ سب لوگ گواہ رہیں کہ آج سے زید میرا بیٹا ہے، یہ مجھ سے وراثت پائے گا اور میں اس سے۔

                اسی بنا پر لوگ ان کو زید بن محمد کہنے لگے․․․․ یہ سب واقعات نبوت سے پہلے کے ہیں۔

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم منصب نبوت پر

                ۲/فروری ۶۱۰/ کو جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم منصبِ نبوت پر سرفراز ہوئے تو چار ہستیاں ایسی تھیں، جنھوں نے کسی تردد کے بغیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دعویٰ نبوت سنتے ہی آپ کو اللہ کا سچا رسول تسلیم کرلیا۔ ایک حضرت خدیجہ، دوسرے حضرت زید، تیسرے حضرت علی اور چوتھے حضرت ابوبکر۔

                اس وقت حضرت زید کی عمر تیس سال تھی اور ان کو حضور کی خدمت میں رہتے ہوئے پندرہ سال گزرچکے تھے۔

                ہجرت مدینہ کے بعد ۴/ہجری میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید کے لیے حضرت زینب کے ساتھ نکاح کا پیغام دیا۔ حضرت زینب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی اُمیمہ بنت عبدالمطلب کی صاحبزادی تھیں۔ حضرت زینب اور ان کے رشتہ داروں نے اس رشتے کو نامنظور کردیا۔ ابن عباس کی روایت ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پیغام دیا تو حضرت زینب نے کہا: اَنَا خَیْرٌ مِّنْہُ نَسَباً․ (میں اس سے نسب میں بہتر ہوں)۔

                ابن سعد کا بیان ہے کہ حضرت زینب نے جواب میں یہ بھی کہا تھا کہ: لاَ اَرْضَاہُ لِنَفْسِیْ وَاَنَا اَیِّمُ قُرَیْشٍ․ (میں اسے اپنے لیے پسند نہیں کرتی، میں قریش کی شریف زادی ہوں)۔

                 حضرت زید نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام تھے، ان لوگوں کو یہ بات سخت ناگوار تھی کہ اتنے اونچے گھرانے کی لڑکی اور وہ بھی کوئی غیر نہیں؛ بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی پھوپی زاد بہن اور اس کا پیغام آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے آزاد کردہ غلام کے لیے دے رہے ہیں۔

                مگر اسلام غلام اور آزاد کو ایک صف میں کھڑا کرنا چاہتا تھا، اس پر قرآن مجید کی آیت نازل ہوئی کہ: وَمَا کَانَ لِمُوٴمِنٍ وَلاَ مُومِنَةٍ اِذَا قَضَی اللہُ وَرَسُوْلُہُ اَمْرًا اَنْ یَّکُوْنَ لَھُمُ الْخِیَرَةُ مِنْ اَمْرِھِمْ، وَمَنْ یَّعْصِ اللہَ وَرَسُوْلَہُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلالاً مُّبِیْنَاً․ (سورئہ احزاب:۳۶)

                ”کسی مومن مرد اور مومن عورت کو یہ حق نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم کسی معاملے کا فیصلہ کردے تو پھر اسے اپنے اس معاملے میں خود فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل رہے اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کرے تو وہ صریح گمراہی میں پڑگیا۔“

                اللہ کے اس حکم کو سنتے ہی حضرت زینب اور ان کے سب خاندان والوں نے بلاتامل سرِاطاعت خم کردیا۔ اس کے بعد نبی نے ان کا نکاح پڑھایا اور خود حضرت زید کی طرف سے دس دینار اور ساٹھ درہم مہر ادا کیا اور گھر بسانے کے لیے ان کو ضروری سامان عنایت فرمایا۔

                حضرت زینب نے اگرچہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم مان کر زید کے نکاح میں جانا قبول کرلیاتھا؛ لیکن وہ اپنے دل سے اس احساس کو کسی طرح نہ مٹاسکیں کہ زید ایک آزاد کردہ غلام ہیں، ان کے اپنے خاندان کے پروردہ ہیں۔ اس احساس کی وجہ سے زید سے ان کے ازدواجی تعلقات کبھی خوشگوار نہ ہوسکے۔ ایک سال سے کچھ ہی زیادہ مدت گذری تھی کہ نوبت طلاق تک پہنچ گئی۔

اسلامی قانون- قدم بہ قدم

                اسلام کا طریقہ ہے کہ: وہ جلدبازی میں کوئی قانونی آرڈی نینس جاری نہیں کرتا؛ بلکہ پہلے ذہن وفکر کو آمادہ کرتا ہے اور زمین کی تیاری کے بعد ہی تخم ریزی کرتا ہے۔

                پہلا کام خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر سے شروع ہوا کہ بچوں کو ان کے حقیقی باپوں کے نام سے پکارا جائے، خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منھ بولے فرزند کو زید بن محمد سے زید بن حارثہ کہا جانے لگا۔ قرآن مجید میں ہے: اُدْعُوْھُمْ لِاٰبَائِھِمْ ھُوَ اَقْسَطُ عِنْدَ اللہِ․ (سورئہ احزاب:۵)

                منھ بولے بیٹوں کو ان کے باپ کی نسبت سے پکارو! یہ اللہ کے نزدیک زیادہ منصفانہ بات ہے۔

                بخاری، مسلم اور ابوداؤد نے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے رایت نقل کی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَنْ اَدْعَیٰ اِلٰی غَیْرِ اَبِیْہ وَھُوَ یَعْلَمُ اَنَّہُ غَیْرُ اَبِیْہ فَالْجَنَّہُ عَلَیْہ حَرَامٌ․

                ”جس نے اپنے آپ کو باپ کے سوا کسی اور کا بیٹا کہا دراں حالیکہ وہ جانتا ہو کہ وہ شخص اس کا باپ نہیں ہے اس پر جنت حرام ہے۔“

                اس مصنوعی نسبت کو بول چال میں بھی ختم کردینے سے ذہن بدلنے لگے۔ اس بات کی تشریح کردی گئی کہ کسی کو پیار سے یا اخلاقاً بیٹا کہہ دینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے؛ لیکن اس کو باقاعدہ بیٹا بنالینا اور مصنوعی رشتے کو حقیقی رشتے کی جگہ دینا غلط ہے۔ بیٹوں یا بیٹیوں جیسا حسنِ سلوک کرنا اور قانونی طورپر اس کو حقیقی رشتے کی جگہ دینا اس میں فرق ہے۔

                قرآن مجید میں ہے: وَلَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ فِیْمَا اَخْطَاتُمْ بِہ وَلکِنْ مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُکُمْ، وَکَانَ اللہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمَا․ (احزاب:۵)

                ”نادانستہ جوبات تم کہو اس کے لیے تم پر کوئی گرفت نہیں ہے؛ لیکن اس بات پر ضرور گرفت ہے جس کا تم دل سے ارادہ کرو، اللہ درگذر کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔“

                اس طرح ہلکی سی ضرب اس رسم پرلگادی گئی اور ذہنوں کو تیار کردیا گیا۔ اب اس کو جڑ سے اکھاڑنے کی عملی ابتدا خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کرائی گئی۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ رسمِ جاہلیت کا خاتمہ

                اسی زمانے میں جب حضرت زید اور زینب کے درمیان تلخی بڑھتی چلی جارہی تھی۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اشارہ ہوچکا تھا کہ زید جب اپنی بیوی کو طلاق دے دیں توان کی مطلقہ بیوی سے آپ کو نکاح کرنا ہوگا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جانتے تھے کہ عرب کی سوسائٹی میں منھ بولے بیٹے کی مطلقہ سے نکاح کرنا کیا معنی رکھتا ہے۔

ایک مشکل کام اور سول صلی اللہ علیہ وسلم سماج کے نشانے پر

                اسلام کے خلاف ہنگامہ اٹھانے کے لیے منافقین اور یہود ومشرکین کو جو پہلے ہی بپھرے بیٹھے ہیں ایک زبردست شوشہ ہاتھ آجائے گا۔ اس نام پر جب حضرت زید نے بیوی کو طلاق دینے کا ارادہ کیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ: اللہ سے ڈرو اور اپنی بیوی کو طلاق نہ دو۔ آپ کا منشا یہ تھا کہ یہ شخص طلاق نہ دے تو مجھے نکاح کی نبوت نہیں آئے گی، ورنہ اس کے طلاق دینے کی صورت میں مجھے حکم کی تعمیل کرنی ہوگی اور مجھ پر وہ کیچڑ اچھالی جائے گی کہ پناہ بہ خدا؛ مگر اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اولوالعزمی کے اعلیٰ مرتبے پر دیکھنا چاہتا تھا اور ایک بڑی مصلحت کی خاطر آپ سے یہ کام لینا چاہتا تھا۔ قرآن مجید میں ہے: وَاِذْ تَقُوْلُ لِلَّذِیْ اَنْعَمَ اللہُ عَلَیْہ وَاَنْعَمْتَ عَلَیْہ اَمْسِکْ عَلَیْکَ زَوْجَکَ، وَاتَّقِ اللہَ وَتُخْفِیْ فِیْ نَفْسِکَ مَا اللہُ مُبْدِیْہ وَتَخْشَیْ النَّاسَ․ وَاللہُ اَحَقُّ اَنْ تَخْشٰہُ․ (احزاب:۳۷)

                ”اے نبی! یاد کرو وہ مواقع جب تم اس شخص سے کہہ رہے تھے جس پر اللہ تعالیٰ نے اور تم نے احسان کیا تھا کہ اپنی بیوی کو نہ چھوڑو اور اللہ سے ڈرو۔ اس وقت تم اپنے دل میں وہ بات چھپائے ہوئے تھے جس کو اللہ کھولنا چاہتاتھا۔ تم لوگوں سے ڈررہے تھے؛ حالانکہ اللہ ا س کا زیادہ حق دار ہے کہ تم اس سے ڈرو۔“

                آخر نوبت طلاق تک آگئی اور عدت پوری ہونے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے حکم سے حضرت زینب سے نکاح کیا، لوگ منھ بولے رشتوں کے معاملے میں محض جذباتی بنیادوں پر جس قسم کے نازک اور گہرے تصورات رکھتے تھے وہ اس وقت تک ہرگز نہ مٹ سکتے تھے جب تک آپ خود آگے بڑھ کر اس رسم کو نہ توڑدیں۔

                قرآن مجید میں ہے:

                فَلَمَّا قَضٰیْ زَیدٌ مِّنْھَا وَطَرًا زَوَّجْنٰکَھَا لِکَیْ لاَ یَکُوْنَ عَلٰی الْمُوْمِنِیْنَ حَرَجٌ فِیْ اَزْوَاجِ اَدْعِیَائِھِمْ اِذَا قَضَوْا مِنْھُنَّ وَطَرًا، وَکَانَ اَمْرُ اللہ مَفْعُوْلاً․ (احزاب:۳۷)

                ”جب زیداس سے اپنی حاجت پوری کرچکے (یعنی عدت پوری ہوگئی) تو ہم نے اس (مطلقہ خاتون) کا نکاح تم سے کردیا؛ تاکہ مومنوں پر اپنے منھ بولے بیٹوں کی بیویوں کے معاملہ میں کوئی تنگی نہ رہے؛ جب کہ وہ ان سے اپنی حاجت پوری کرچکے ہوں اور اللہ کا حکم تو عمل میںآ نا ہی چاہیے تھا۔“

                کہنے والوں کا ایک کہنا یہ تھا کہ: اچھا، زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ منھ بولے بیٹے کی مطلقہ سے نکاح جائز قرار دیاگیا ہے، یہ صرف جائز ہے، ضروری تو نہیں، پھر ایسا کرنا ضروری کیوں تھا؟ اس کا جواب قرآن مجید میں دیاگیا:

                مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَا اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ، وَلٰکِنْ رَسُوْلَ اللہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّینَ․ (احزاب:۴۰)

                (لوگو!) محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، مگر وہ اللہ کے رسول اور خاتم النّبیین ہیں۔

                ایک تو یہ کہ ان کے کوئی بیٹا نہیں ہے اس لیے ان کی بہو کہاں ہوئی؟ دوسرے یہ کہ وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اس حیثیت سے ان کی ذمہ داری ہے کہ جس حلال چیز کو تمہاری رسموں نے خوامخواہ حرام کررکھا ہے اس کے بارے میں تمام تعصبات کا خاتمہ کردیں اوراس کے حلال ہونے کے بارے میں کسی شک وشبہ کی گنجائش باقی نہ رہنے دیں۔ تیسرے یہ کہ وہ خاتم النّبیین ہیں، ان کے بعد نہ کوئی رسول آنے والا ہے اور نہ کوئی نبی کہ اگر قانون اور معاشرے کی کوئی اصلاح ان کے زمانے میں نافذ ہونے سے رہ جائے تو بعد کا آنے والا نبی یہ کسر پوری کردے۔

                اس طرح جاہلیت کے اس بت کو ایک کاری ضرب سے توڑ کر رکھ دیاگیا۔

                * قرآن وحدیث اور اسوه رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے معلوم ہوا کہ اسلام میں متبنّیٰ بنانا اور گود لینا اور دوسرے کے بچے کو گود لے کر اس کے ساتھ حقیقی اولاد کا معاملہ کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ اور قیامت تک یہ رسم ختم ہوچکی ہے۔

                * گودلینا اکثر بے اولاد والدین کی اپنی خواہش ہوتی ہے یا پھر وہ لوگ گود لیتے ہیں، جن کے کوئی نرینہ اولاد نہیں ہوتی، اولاد ہونا نہ ہونا یا لڑکے کا نہ ہونا یہ سب اللہ تعالیٰ کی حکمتیں ہیں۔ دنیا میں انسان کی ساری خواہشیں نہ پوری ہوسکتی ہیں، نہ ہوسکیں گی۔ اسلام دینِ فطرت ہے اور گود لینا بہت سے اخلاقی، معاشرتی اور نفسیاتی مسائل پیدا کرتا ہے؛ اس لیے اسلام نے اس رسم کا دروازہ پورے طور پر بند کردیا ہے۔

***

——————————————

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 10-11 ‏، جلد: 96 ‏، ذی الحجہ 1433 ہجری‏، محرم 1434 ہجری مطابق اکتوبر – نومبر 2012ء

Related Posts