از: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

                رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ میں اعداء اسلام کے ساتھ جو معرکہٴ آرائیاں ہوئیں ، ان میں غالباً سب سے سخت معرکہ ’غزوہٴ احزاب،کا تھا ، اس غزوہ میں تمام اسلام دشمن طاقتیں یکجا ہوگئی تھیں ، اس میں مکہ کے مشرکین بھی تھے ، قبیلہٴ بنوغطفان کے جاں باز بھی ان کے دوش بدوش تھے اور مسلمانوں کے بغلی دشمن یہود بھی اس نازک وقت میں کھل کر مسلمانوں کی مخالفت میں سرگرم ہوگئے تھے ، اس طرح بیس ہزار کا لشکرِ جرار مدینہ کی اس مختصر آبادی کا محاصرہ کیے ہواتھا ، جو محض دو ڈھائی ہزار نفوس پر مشتمل تھی ، یہ بڑا نازک وقت تھا ؛ اسی لیے مسلمانوں نے حضرت سلمان رضی اللہ عنہ  کے مشورہ پر عمل کرتے ہوئے ایرانیوں کے طریقہٴ جنگ کے مطابق ایک گہری اور وسیع خندق کھودی ، سامنے کی طرف سے یہ خندق تھی اور پشت کی طرف سے پہاڑ تھے ؛ تاکہ دشمن مسلمانوں تک پہونچ نہ سکیں ، تقریبا بیس دنوں مسلمان محاصرہ کی حالت میں رہے ۔

                جنگ کے موقع پر یہ بات ضروری ہوتی ہے کہ فوجیوں کو غذائی رسد اور ضروری سہولتیں حاصل رہیں ، تبھی وہ پوری قوت اور جوش وولولہ کے ساتھ حملہ کرسکتے ہیں اور اپنے دفاع کا فریضہ انجام دے سکتے ہیں ؛ لیکن صورتِ حال یہ تھی کہ یخ بستہ کردینے والی ٹھنڈک اور اس کے ساتھ ساتھ غذا کی نہایت قلت ، غذا ئی صورت حال یہ تھی کہ راوی نقل کرتے ہیں :

          ”یُوٴْتُون بِمِلإ کَفَّي مِن الشعِیرِ فَیُصْنَعُ لَھُمْ بإِهالةِ سنِخةٍ تُوْضَعُ بَیْنَ یَدَیِ الْقَومِ والقومُ جِیاعٌ وھِی بشِعة فِی الحلقِ ولھا رِیح منتِن“ (صحیح البخاری ، کتاب المغازي ، باب غزوة الخندق وھو الأحزاب، حدیث نمبر : ۳۷۹۱)

” صحابہ کے پاس دو مٹھی جو لایا جاتا مزہ اتری ہوئی بد بودار چربی کے ساتھ اس کو ان کے لیے پکایا جاتا ، جو لوگوں کے سامنے رکھ دیا جاتا ، درانحالیکہ وہ بھوکے ہوتے “

                مگر کیا مجال تھی کہ کبھی زبان پر شکوہ آئے ، احتجاج ہو ، یا بطورِ الحاح والتجاء ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے عرضِ مدعا کیا جائے ، وہ ہمیشہ صبر و قناعت کا پیکر بن کر رہتے اور ہر حال میں ان کی زبان اللہ تعالیٰ کے شکر و سپاس سے تر رہتی ، معمولی ہتھیاروں سے چٹان کے پتھروں کو توڑنا اور خشک پتھریلی زمینوں کو کھودنا آسان بات نہیں تھی ؛ لیکن صحابہ کا حال یہ تھا کہ پورے جوش و خروش کے ساتھ اپنا کام کیے جاتے ، سخت جسمانی کام کرتے ہوئے ، بعض اوقات لوگ نعرہ لگاتے اور نغمے گاتے ہیں ، یہ بات ان کے لیے کام کو آسان بناتی ہے اور ان میں نیا جوش وولولہ بھر دیتی ہے ، عربوں کے یہاں بھی اس کا رواج تھا ؛ چنانچہ صحابہ اس موقع سے حوصلہ بڑھانے والے اشعار پڑھتے ، ان اشعار کے لفظ لفظ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کا عشق ، اللہ کی قدرت پر بے پایاں یقین اور اللہ کے فیصلوں پر راضی رہنے کا جذبہ اور صبر و قناعت کا عزمِ مصمم ظاہر ہوتا ہے ، آپ بھی ان ایمان افروز اشعار کو پڑھیے جن کو امام بخاری نے اپنے مجموعہٴ حدیث میں نقل کیا ہے :

نَحْنُ الَّذِیْنَ بَایَعُوا محمدا

عَلی الجھادِ مَا بَقِیْنَا أبدا

(صحیح البخاری ، کتاب المغازی ، باب التحریض علی القتال ، حدیث نمبر : ۲۸۴۳)

” جب تک ہم زندہ رہیں گے اس وقت تک کے لیے ہم نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ہاتھ پر بیعت کی “

وَاللہِ لولا اللہُ مَا اھْتَدَیْنَا

وَلَا تَصَدَّقْنَا وَلَا صَلَّیْنَا

فَإنزِلِنْ سَکینةً عَلَیْنَا

وَثَبِّتِ الأقدامَ إنْ لَا قِیْنَا

إنَّ الأُلیٰ قَدْ بَغَوْا عَلَیْنَا

إذا أرَادُوا فِتنةً أَبَیْنَا

 (حوالہ سابق ، حدیث نمبر : ۴۱۰۴)

” خدا کی قسم !اگر اللہ ہمیں ہدایت سے نہ نوازتے تو ہم ہدایت نہیں پاتے اور نہ صدقہ دیتے اورنہ نماز پڑھتے ، پس خداوندا ! ہم پر سکینہ نازل فرمائیے اور جب ہمارا مقابلہ دشمن سے ہو تو ہمیں ثابت قدم رکھیے ، ان لوگوں نے ہمارے خلاف زیادتی کی ہے ، جب انھوں نے فتنہ پیدا کرنا چاہا تو ہم نے اس کو قبول کرنے سے انکار کردیا “

                ایک طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رفقاء پر فقر و فاقہ کی آزمائش ہے ، دوسری طرف یہ جذبہٴ سرفروشی اور جانبازی و جان نثاری بھی دو ش بدوش ہے ، اسی ماحول میں اسلام کا سورج جزیرة العرب کے افق پر طلوع ہوا ، وہ بلندی کا سفر طے کرتا گیا؛ یہاں تک کہ اس کی کرنیں مشرق سے مغرب تک پھیل گئیں ، اس پر ایمان لانے والوں کے ایک ہاتھ میں فولاد کی تلوار ہوتی تھی اور دوسرے ہاتھ میں اخلاق کی تلوار ، ان کی زندگی میں اتنی سادگی اور قناعت تھی کہ انھیں متاعِ سیم وزر کی طرف دوڑنے کی ضرورت ہی نہیں تھی ، دنیا کے لوگ مال و دولت کے انبارکے ذریعہ اپنی شان و شوکت کے مصنوعی محل کھڑا کرتے ہیں ؛ مگر ان کا رعب وجلال ان کی فقرو دُرویشی میں پنہاں تھا ، بڑے بڑے بادشاہوں کو ان سے گفتگو کا یارانہ ہوتا تھا ؛ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خوف دامن گیر نہیں تھا کہ میری امت معاشی اعتبار سے پسماندہ ہوجائے گی اور اس فقر و پسماندگی کی وجہ سے اسے ذلت ورسوائی سے دو چار ہونا پڑے گا ؛بلکہ آپ کو ڈر اس بات کا تھا کہ یہ امت جد و جہد کے جذبہ سے محروم ہوکر عیش و عشرت میں مبتلا نہ ہوجائے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

” خدا کی قسم ! مجھے تم پر فقر و محتاجی کا خوف نہیں ہے ؛ لیکن میں تم پر جس بات کے بارے میں ڈرتا ہوں وہ یہ ہے کہ تم پر دنیا کی نعمتیں بچھادی جائیں گی ، جیسے تم سے پہلوں کے لیے بچھادی گئی تھیں ، پھر پچھلی قوموں کی طرح تم دنیا کے سلسلہ میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرنے لگو گے اور جیسے دنیا کی حرص نے انھیں غفلت اور لہو ولعب میں مبتلا کردیا تھا ، کہیں تم کو بھی غفلت اور لہوو لعب میں مبتلا نہ کردے “ (بخاری ،باب ما یحذر من زھرة الدنیا والتنافس بھا ، حدیث نمبر : ۶۴۲۵)

                ایک اور روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

” مجھے اپنے بعد تمہارے شرک میں مبتلا ہوجانے کا اندیشہ نہیں ؛ لیکن اس بات کا ڈر ہے کہ دنیا کی دولت میں تم ایک دوسرے پر بازی لے جانے کی کوشش کروگے “ (دیکھیے : بخاری ، حدیث نمبر : ۶۴۲۵)

                رسول اللہ لی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کی روشنی میں آج عمومی طور پر مسلمانوں کا اور خاص طور پر مسلمان حکمرانوں کا حال دیکھا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کے بارے میں جس چیز سے ڈرتے تھے ، آج امتِ مسلمہ عملی طور پر اسی مرض میں مبتلا ہے ، گذشتہ ماہ ڈیڑھ ماہ سے عالم عرب میں آزادی اور جمہوریت کی جو لہر اٹھی ہے ، اس نے زور زبردستی سے برسر اقتدار رہنے والے فرماں رواوٴں کی نیندحرام کردی ہے ، ساتھ ہی بعض ایسے واقعات سے بھی پردہ اٹھ رہا ہے ، جو اقتدار کی دبیز اور مضبوط دیواروں کی اوٹ میں چھپے ہوئے تھے ، جیسے تیونس کے آمر زین العابدین بن علی جب اپنے ملک سے فرار ہوئے تو اس طرح کہ سولہ ٹن سونے کی اینٹیں ان کے ساتھ تھیں ، اس کے ساتھ مال و دولت کے اور جو خزانے لے جائے گئے ہوں گے ، ان کا اندازہ کیا جاسکتا ہے ، مصر کے سابق صدر حسنی مبارک کی بیوی اور بیٹے کئی لدے لدائے جہازوں کے ساتھ مصر سے بھاگے اور خود حسنی مبارک کی دولت کا اندازہ کیا جائے کہ وہ دو بلین ڈالر سے بھی زیادہ ہے ، لیبیا کے صدر کی صورت حال یہ ہے کہ ان کی دوسری بیوی دوٹن سونا لے کر فرار ہوچکی ہیں ، ان کی ایک محبوبہ جو یوکرین کی متوطن ہیں اور سایہ کی طرح ان کے ساتھ رہا کرتی تھیں ، وقت کے تیور کو دیکھتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ وہ دولت کا ایک انبار لے کر اپنے وطن پہونچ چکی ہیں ، پھر قذافی کی عیاشی اور عشرت آرائی کا حال یہ ہے کہ ان کے ساتھ دو سو جوان اور نوجوان خاتون باڈی گارڈ ساتھ ہوتی ہیں اور یوکرین کی محبوبہ نرس کے طور پر ان کے ساتھ رہتیں ، دولت جمع کرنے اور داد عیش دینے کی قریب قریب یہی صورت حال اکثر عرب ملکوں میں ہے ، جہاں فرماں رواوٴں نے عوام کو اپنا غلام اور ملک کو اپنی ذاتی جائداد سمجھ لیا ہے ، افسوس ناک بات یہ ہے کہ ان کی ہوسِ دولت کو پوری کرنے کے لیے ملک میں موجود بینک کافی نہیں ہوتے ؛ اس لیے زیادہ تر مسلم حکمرانوں کے پیسے مغربی ممالک کے بینکوں میں محفوظ کیے گئے ہیں ، ان ہی ملکوں میں انھوں نے سرمایہ کاری کررکھی ہے اور یہیں بڑے بڑے قصور و محلات واقع ہیں ؛ اس لیے جب مغرب کے کٹ پتلی حکمرانوں کے خلاف ان کے ملک میں فضا بنتی ہے تو مغربی قوتیں مخالفین کی مددکرتی ہیں اور ان کی طرف سے برپا کی جانے والی شورشوں کو تقویت پہونچاتی ہیں ، ادھر ان کا تختِ اقتدار متزلزل ہوا اور اُدھر ان کے کھاتے منجمد کردئیے جاتے ہیں اور ان کی ساری دولت پر قبضہ جمالیا جاتا ہے ، ان کے بعض ’بے نامی ‘کھاتے بھی ہوتے ہیں ، ایسی صورت میں کوئی ان کے بارے میں پوچھنے والا بھی نہیں ہوتا ۔

                ایک طرف عالمِ اسلام کی یہ صورت حال ہے اور دوسری طرف ہمارے سامنے رقبہ اور آبادی کے لحاظ سے ایک چھوٹے سے ملک جاپان کی مثال ہے ، مورخہ ۱۱/مارچ ۲۰۱۱ء کو جاپان میں زبردست سونامی آئی ، جس کی مثال صدیوں میں نہیں ملتی ، یہ ایسی سونامی تھی کہ آٹھ میٹر بلند سمندر کی سرکش موجیں آبادی میں گھس پڑیں اور پوری آبادی کو دھوکر رکھ دیا ، مکانات اس طرح گر پڑے کہ گویا بچوں کے کھیلنے کے مٹی کے گھر و ندے ہوں ، کاریں اور بسیں ماچس کی ڈبیوں کی طرح سڑکوں پر بہنے لگیں ، سمندری سونامی کے ساتھ ساتھ زمین میں بھی زلزلہ آگیا ، اس کے نتیجہ میں تین نیو کلیرری ایکٹراڑ گئے اور اس کی تابکاری کے اثرات ایک وسیع علاقہ میں پھیل گئے ، ایک ہی وقت میں اس قوم کو زلزلہ ، سونامی اور نیوکلیر حادثہ سے گذرنا پڑا ؛ لیکن اس قوم نے اپنی حوصلہ مندی ، جد و جہد اور قربانی کے ذریعہ ان حادثات کا مقابلہ کیا ، نہ دنیا کی دوسری قوموں کے سامنے ہاتھ پھیلایا، نہ آہ و وبکاکی اور نہ پست ہمت ہوئے ، جس پامردی کے ساتھ انھوں نے حالات کا مقابلہ کیا ہے ، وہ یقینا ایک مثال ہے ، اور بجا طور پر پوری دنیا میں ان کی ان کوششوں کو داد دی جارہی ہے ، شاعرِ حقیقت شناس علامہ اقبال نے خوب کہا تھا :

آ ، تجھ کو بتاؤں میں تقدیر اُمم کیا ہے

شمشیر و سنان اول ، طاوٴس و رباب آخر

                یعنی جب کوئی قوم ترقی و عروج کا سفر طے کرتی ہے تو وہ تلواروں اور نیزوں سے مزین ہوتی ہے ، وہ مشکل حالات کو برداشت کرنے کا حوصلہ رکھتی ہے ، وہ عیش و عشرت کے خاکوں میں رنگ بھرنے کے بجائے جد وجہد کے میدان میں آگے بڑھتی ہے ، اور جب قوموں کے زوال و انحطاط کا زمانہ آتا ہے تو وہ عیش و عشرت کے نقشے بنانے لگتی ہے اور رقص و سرود سے اپنے دل کو بہلانے کی عادی ہوجاتی ہے ، یہی وہ بات ہے کہ جس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اندیشہ رکھتے تھے ، حضرت عبد اللہ بن عباس ص کا قول ہے کہ جب کسی قوم میں خیانت اور بد دیانتی پیدا ہوجاتی ہے تو وہ کم ہمت اور بزدل ہوجاتی ہے: ”مَا ظَھَرَ الْغُلُوْلُ فِيْ قَومٍ الاَّ أُلْقِیَ فِيْ قُلُوْبِھِمُ الرُّعْبُ“(طبری ، ص : ۲۶۹۶)۔

                اس وقت عالم اسلام کی صورت حال یہی ہے کہ اپنی قوم کے ساتھ حکمرانوں کا معاملہ بدترین بد دیانتی کا ہے اور صہیونی و صلیبی طاقتوں کے سامنے شرمناک بزدلی اور کم حوصلگی کا ، عام مسلمانوں کی بھی صورت حال یہ ہے کہ وہ علم و تحقیق ، محنت اور جدو جہد میں پیچھے ہیں اورعیش پرستی میں آگے، دوسری قومیں ہمیں دیکھتی ہیں اور خندہ زن ہوتی ہیں کہ یہ لٹی پٹی اور ذلیل و رسوا کی ہوئی قوم اپنی محرومی اور کم نصیبی کو بھول کر کس طرح دادِ عیش دے رہی ہے ، کاش! ہم اس طرزِ عمل میں تبدیلی لائیں ، اپنے اندر حالات کا مقابلہ کرنے اور جدو جہد کے ذریعہ آگے بڑھنے کا حوصلہ پیدا کریں اور عیش و عشرت کے نقشوں کو تج کر، ایک باعزت اور آبرو مند امت کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر اپنے آپ کو لانے کی کوشش کریں ۔

***

———————————–

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 8-9 ‏، جلد: 96 ‏، رمضان-ذیقعدہ 1433 ہجری مطابق اگست-ستمبر 2012ء

Related Posts