حرفِ آغاز
مولانا حبیب الرحمن اعظمی
یہ ایک روشن حقیقت ہے کہ ملک عزیز کو برٹش سامراج کے پنجہٴ استبداد سے رہائی دلانے میں قوم مسلم نے بے پناہ قربانیاں دی ہیں، بالخصوص ۱۸۵۷/ کی تحریک آزادی کے برپا کرنے میں علماء اسلام کا بنیادی کردار تھا، جنگ آزادی کی تاریخ سے معمولی واقفیت رکھنے والا بھی جانتا ہے کہ سراج الہند شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کا فتویٰ جہاد اس تحریک کے جسم میں خون بن کر دوڑ رہا تھا، انہی کے ساختہ پرداختہ سید احمد شہید رائے بریلوی، مولانا اسماعیل شہید، مولانا عبدالحئی بڈھانوی وغیرہ مجاہدین نے پورے ملک کو جذبہٴ جہاد سے سرشار کردیا تھا اور حقیقتاً یہی جذبہ ۱۸۵۷/کی تحریک آزادی میں کارفرماتھا، تحریک کی ناکامی کے بعد بھی یہ جذبہ زندہ رہا ۱۸۶۵/ اور ۱۸۷۱/ کا عظیم آباد کیس، ۱۸۶۳/ کاانبالہ سازش کیس، ۱۸۷۲/ میں مالدہ اور راج محل کا مقدمہٴ بغاوت، اور شیخ الہند مولانا محمودحسن اور ان کے رفقاء کی ریشمی رومال تحریک اس کے زمینی معتبر ثبوت ہیں، غرضیکہ تاریخ آزادیٴ ہند کا ہر باب مسلمانوں کی ایثار وقربانی اور بے لوث سرفروشانہ جہد وجنگ کی خوشبو سے رچا بسا ہے۔
وطن کی آزادی کے لیے قوم مسلم کی یہ والہانہ جاں سپاری، اگرچہ ان کا ایک مذہبی فریضہ تھی، پھر بھی اپنے وطن کو غیروں کی تہذیبی، تعلیمی ، معاشی اور سیاسی غلامی سے نجات دلانے کا عظیم مقصد بھی ان کے پیش نظر تھا، اس وقت کی کانگریس پارٹی کی مسلسل یقین دہانیوں کی بناء پر انھیں اعتماد تھا کہ آزادی کے ثمرات اور مفید نتائج سے انھیں بھی دیگر برادرانِ وطن کی طرح یکساں مستفید ہونے کا موقع فراہم کیاجائے گا اور زندگی کے ہر شعبہ میں قانون وانصاف کے مطابق مساویانہ حقوق سے وہ بھی بہرہ ور ہوں گے۔
چنانچہ آزادی حاصل ہوجانے کے بعد ۱۹۵۰/ میں بلند کردار مجاہدین کی تمناؤں کے مطابق وسیع تر جمہوری دستو کا نفاذ عمل میںآ یا، جو بلا شبہ ایک سیکولر عوامی جمہوریہ کا آئینہ دار تھا، مگر صدحیف کہ خود اس دستور کی پاسدار ومحافظ قومی حکومتوں نے اپنے حوصلہ کی پستی اور فکرونظر کی تنگی سے اس دستور کو پورے طور پر بروئے کار آنے نہیں دیا، اور بابائے وطن مہاتما گاندھی کے اس تاریخی اعلان کو کہ ”میں مسلمانوں کو ہندوستان کی سڑکوں پر گھسٹنے نہیں دوں گا، انھیں وقار کے ساتھ سراوپر کرکے چلنا ہوگا“ خود ان کے نام کے پجاریوں نے تعصب اور فرقہ واریت کی بھٹی میں بھسم کردیا۔
اس حقیقت سے کون باحیاء آنکھیں چراسکتا ہے کہ ملک کی آزادی کے بعد جتنے بھی فسادات اور خونی واقعات رونما ہوئے ہیں ان میں مسلمانوں کا قتل عام نہیں ہوا ہے، جس قوم نے ملک عزیز کے لیے عظیم قربانیاں دیں، آزادیٴ وطن کی خاطر قید وسلاسل کی بے پناہ اذیتیں برداشت کیں، افسوس کہ آج اسی کو قومی زندگی کے ہرشعبے میں محرومی اور امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ اقتصادی، معاشی، صنعتی وغیرہ شعبوں میں وہ اپنی مدد آپ کرنے کے اصول پر آگے بڑھنے کی تگ و دو میں لگے ہوئے ہیں، مگر قدم قدم پر ان کے آگے رکاوٹیں کھڑی کردی جاتی ہیں۔ سرکاری، نیم سرکاری ملازمتوں کے دروازے ان کے لیے تقریباً بند کردیے گئے ہیں، تعلیمی مواقع سے انھیں جبری طور پر دور کردیاگیا ہے، غرضیکہ زندگی کے ہر میدان میں ان کے ساتھ غیریت اور جانبداری برتی جاتی ہے گویا مسلمان اس ملک میں کوئی اجنبی قوم ہیں جو اچانک دھرتی سے نکل آئے ہیں۔
اسی پر بس نہیں ہے؛ بلکہ انھیں قومی مجرم ثابت کرنے کے لیے جہاں کہیں بھی دہشت گردی کاکوئی حادثہ رونما ہوتا ہے، بغیر کسی ثبوت وشہادت کے اسے مسلمانوں کے سرتھوپ دیاجاتا ہے، شاید ہماری وزارت داخلہ اور خفیہ مشنریوں نے یہ اصول بنالیا ہے کہ بم دھماکے چاہے الفاء، بوڈو، نکسلیوں یاکسی بھی فسطائی تنظیموں کی جانب سے کیوں نہ ہوں، نیز یہ دھماکے چاہے مندر میں ہوں یا مسجد میں یا مسلمانوں کی قبرستانوں میں آنکھ بند کرکے مسلم نوجوانوں خاص طور پر تعلیم یافتہ اور ہنرمند جوانوں کے سرتھوپ دیا جائے اور اس جرم بے گناہی میں انھیں پسِ دیوار زندان کردیاجائے۔
ادھر حالیہ بھرت پور راجستھان اور رودرپور اتراکھنڈ میں امن وامان کے قیام اور حفاظت کے ذمہ داروں نے جس طرح دن کی روشنی میں کھلے عام چن چن کر مسلمانوں کو اپنی گولیوں کا نشانہ بنایا ہے، اس نے ملک میں ہونے والے فسادوں کو بے نقاب اور برہنہ کردیا ہے کہ یہ ہندومسلم فساد نہیں؛ بلکہ سرکاری اہل کاروں کی طرف سے مسلم کشی کی ایک آزمودہ تدبیرہے، جسے ہماری قومی سرکاریں وقفہ وقفہ سے دہراتی رہتی ہیں، ان نام نہاد فسادات کی تاریخ بتاتی ہے کہ اس معاملے میں مسلمانوں کی خیرخواہی کا دم بھرنے والی کانگریس پارٹی کی حکومتوں کا قدم سب سے آگے ہے، اس پارٹی کے زمانہٴ حکومت میں مسلمانوں کے جان ومال کی جس قدر تباہی وبربادی ہوئی ہے اس کا دسواں حصہ بھی دوسری حکومتوں کے زمانہ میں یہ بربادری نہیں ہوئی ہے۔
ہوے تم دوست جس کے اس کا دشمن آسماں کیوں ہو
یہ ہے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں سب سے بڑی اقلیت بلکہ صحیح معنوں میں دوسری اکثریت کے ساتھ، قومی سرکاروں اوراس کے اہل کاروں کا غیرجمہوری ہی نہیں؛ بلکہ غیرانسانی رویہ، اور قانون وانصاف کے محافظوں کا غیرقانونی اور غیردستوری ہی نہیں؛ بلکہ آدمیت سے عاری طرزعمل جس نے ہندوستان کی جمہوریت اور یہاں کے سیکولر نظام پر سوالیہ نشان لگادیا ہے، وزیراعظم من موہن سنگھ، اور کانگریس پارٹی کی صدر سونیاگاندھی کو جن کی کشادہ دلی، انصاف پسندی اور جمہوریت نوازی کاگیت گایاجاتا ہے بطور خاص اس مسئلہ پر توجہ دینی چاہیے، موجودہ حکومت اس وقت جن سنگین مسائل میں گھری ہوئی ہے ایسے حالات میں اگر ملک کی دوسری اکثریت اور سیاسی زبان میں سب سے بڑی اقلیت کا اعتماد نظام حکومت سے اٹھ گیا تو صرف کانگریس ہی نہیں؛ بلکہ ملک کا کیا حال ہوگا وہ ظاہر ہے عیاں را چہ بیاں۔
اس موقع پر ہم اپنے اس تاثر کا بھی اظہار کیے بغیر نہیں رہ سکتے کہ اس انتہائی صبر آزما، حوصلہ شکن ماحول میں بھی مسلمان پوری پامردی، حوصلہ مندی اور عزم ویقین کی قوت کے ساتھ زندگی کے میدان میں ڈٹا ہوا ہے اور قدم بہ قدم آگے بڑھنے کی کامیاب جدوجہد میں مصروف ہے اور بڑی بڑی آزمائشوں سے گزرنے کے باوجود اس کے فکروعمل کی توانائیاں قائم ودائم ہیں، حالات کی تلخ کامیوں کا اسے شکوہ ضرور ہے لیکن اس سے ہراساں نہیں ہے، مسائل کے ہجوم کا اسے احساس ہے ، مگراس احساس سے اس کے قوائے عمل مضمحل نہیں ہیں، یہ ایک خوش آئند صورت حال ہے، جو اس بات کا پتہ دے رہی ہے کہ یہ ایک زندہ قوم ہے، جو انشاء اللہ زندہ رہے گی اور صفحہ گیتی پر اپنی تاریخ پھر رقم کرے گی۔ وذلک لیس علی اللہ بعزیز․
چلا جاتا ہوں ہنستا کھیلتا باد حوادث سے
اگر آسانیاں ہوں زندگی دشوار ہوجائے
* * *
———————————–
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 10 ، جلد: 95 ، ذي قعده 1432 ہجری مطابق اكتوبر 2011ء