از: احمد معاویہ اشرفی
خوشیوں اورمسرتوں کا قوس ِقزح ہرسو اپنا رنگ بکھیر رہا ہے۔غم وسرور کی ملی جلی کیفیت عجب سماں باندھ رہی ہے۔خوشی اس دستار ِفضیلت کی ،جو برسوں کی محنت شاقہ کاانعام ہے۔دکھ اس فرقت وجدائی کا ،جو کامل آٹھ برس مدرسے کی روح پرور صحبت ومجالست کے بعد، اب طالب جان کو سہناپڑرہی ہے۔یقینا دورانِ تعلیم بادِ مخالف کے تھپیڑوں نے کبھی اس کے ارادوں کو مضمحل کیا ہوگا ،کبھی ہمت وحوصلہ کی ناؤ بیچ منجدھار ہچکولے کھاگئی ہوگی؛مگر یہ طالبِ علم دین ڈٹارہا۔اس کی نظر اپنے مقصد ومشن سے ہٹی نہیں۔سو آج اس کی یہ ریاضت رنگ لے آئی،رب کریم کی عنایتوں نے اسے اپنے جلو میں لے لیااور مشائخ واساتذہ کے مبارک ہاتھوں اس کے سر پر وراثت نبوت کا تمغہ سجا دیا گیا۔ قابلِ صد تحسین وتبریک ہیں کل کے طلبہ جو آج علما کی صف میں شامل ہوچکے ہیں۔کل کے متعلّم ِعلوم نبوت جوآج معلّم انسانیت ﷺ کے نائب وجانشین بن چکے ہیں۔
گمراہیوں ،ضلالتوں اورفتنوں کے اس تاریک دور میں جہاں ہر طرف ایمان کے راہزن موجود ہیں،وہاں آپ کا فاتحہٴ فراغت پڑھنا بے شک سعادت وافتخار سے کم نہیں۔اس نعمت کے حصول پر جتنا بھی خداتعالیٰ کا شکر اداکیا جائے کم ہے۔کتاب وسنت کے مطالعے سے پتا چلتاہے کہ موجودہ وقت،توحید پرستوں کی آزمائش وابتلاء کا سب سے کٹھن دور ہے۔دشمنانِ اسلام نے فکری، عسکری اورمعاشرتی یلغار کرکے مسلمانوں سے روحِ بلالی نکالنے کی بھرپورکوشش کرڈالی ہے۔اسلام اورشعائر اسلام کی تضحیک وتوہین کو معاذاللہ عام کیا جارہاہے۔اہلِ ایمان کی غیرت وحمیت کا جنازہ نکالنے کی نت نئی ترکیبیں خوب جوبن پرہیں۔ان حالات میں آپ کی ذمہ داری دوچندہوچکی ہے۔جھوٹ،دجل اورباطل کے ہرکارے تمام تر کیل کانٹوں سے لیس ہوکر میدان کارزار میں اترچکے ہیں۔ایسے میں حق وصداقت کے پروانوں پر لازم ہے کہ وہ بھی وقت کی نزاکتوں کا ادراک کرکے طاغوت کے خلاف کمر بستہ ہوجائیں۔غفلت وتکاسل اوربے اعتنائی کو اپنے قریب بھی پھٹکنے نہ دیں۔تعلق مع اللہ،فکرآخرت اوراتباعِ سنت کی فکر ہردم اپنے اوپر سوار کرلیں۔
ابتداکہاں سے ہو؟یہ سفر شروع کہاں سے کیا جائے؟نشانِ منزل کا تعیّن کس جانب سے ہو؟اس کا جواب بہت آسان اورواضح ہے۔اولاًہم اپنی ذات میں جھانکیں ،اپنے علم وعمل کا محاسبہ کریں اوراپنے نفس کی خبر لیں۔خود احتسابی وخودآگاہی کی یہ امنگ اورفکر جتنی گہری ہوگی،اسی قدر قدرت کی طرف سے ہمارے لیے کامیابی وکامرانی اوررشدوہدایت کے راستے واہوں گے۔حسنِ نیت ،دین کی خدمت کا مصمّم عزم اوربے لوث قربانی ادا کرنے کا تہیہ ،یہ وہ کلیدی اکائیاں ہیں،جن سے ہمارے فضلائے کرام دعوتِ دین،حفاظت ِدین اورتبلیغ ِدین کی عمارت کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔
شیطان کے چیلوں کی ہمہ جہت یلغار کا توڑ اسی صورت ممکن ہوسکے گا،جب ہرمیدان میں حق کے علمبردار باطل کے آگے سینہ سپر ہوں۔خدمت ِدین کے شعبے اوردائرہ کار مختلف ہیں۔ہر شعبہ اپنی جگہ توجہ اور اہمیت کا متقاضی ہے۔حق تعالیٰ نے انسانی فطرت ومزاج کو بھی یکساں نہیں رکھا۔ہر شخص دوسرے سے مختلف طبیعت ومذاق رکھتاہے۔یہ فطری تقسیم واصول اعلاء کلمة اللہ کی جدوجہد کرنے والے افراد،اداروں اورجماعتوں پر بھی پوری طرح لاگو ہوتی ہے۔بس کامیابی کی شرط یہ ہے کہ دوسروں کی تحقیر اوراپنے طریقہ کارپہ اصرار نہ ہو؛ بلکہ تعاون وتناصر اور باہم محبت والفت کا ایسا مظاہرہ ہو کہ بقول حضر ت علی میاں رحمہ اللہ :”ہمیں تو دوسری دینی کوششوں اوران کے ذمہ داروں کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ انہوں نے بہت سے لوگوں کو سنبھال رکھاہے،جو ہماری گرفت میں نہیں آسکتے تھے۔“ فارغ التحصیل علماء کرام بھی اس قانون ِفطرت سے خارج نہیں ۔کہا جاتاہے کہ یہ دور، اختصاص کا دور ہے۔یعنی ہر آدمی اپنے فن میں لیاقت وصلاحیت کا ملکہ پیداکرے؛لہٰذا اپنے ذوق ومناسبت اوردستیاب وسائل واسباب کو مدنظر رکھتے ہوئے ،اساتذہ واکابرکی مشاورت وسرپرستی میں جس میدان کاانتخاب کریں ،اُس میں پوری طرح لگ جائیں۔ یاد رکھیے!حق بات ،حق طریقے سے حق موقع پر کہی جائے تو ضرور اپنا اثر چھوڑتی ہے۔
ہماری دینی محنتوں اورایمانی کا وشوں کا رنگ معاشرے اور ماحول پراسی وقت نظر آئے گا، جب ہمارے باطن تزکیہ کی محنت سے مصفّیٰ ہوں گے۔مادیت کی چکا چوند نے اگر چہ دور حاضر کے انسان کی بصارت کو خیرہ کررکھاہے؛مگر اس کی بصیرت اتنی ہی ویران ،اجاڑ اورکھنڈرات کا منظر پیش کرتی دکھائی دیتی ہے۔سکون ِقلب کی دولت صرف اللہ والوں کے درپر ملاکرتی ہے۔معرفتِ حق ایک عالم اورنوآموز فاضل کے لیے کس قدر اہمیت رکھتی ہے؟علم ظاہری کو علمِ باطنی سے کس قدرتعلق ہے ؟اس کا جواب ہمارے استاذ محترم کی زبانی سنیے۔فرماتے ہیں:”ایک ہے ایمان اورایک ہے ایمان کی حلاوت ،یہ دونوں بالکل الگ الگ چیزیں ہیں۔ایک ہیں اعمال اورایک ہے اعمال کا نور یہ دونوں بھی بالکل الگ الگ چیزیں ہیں۔ایک ہے علم اور ایک ہے اُس علم کی نافعیت ،یہ دونوں قطعاًالگ الگ چیزیں ہیں۔یہ دونوں اکٹھی اسی صورت میں ہوسکتی ہیں ،جب صاحبِ علم وہ صاحبِ حلم بھی ہو،صاحبِ عقل وہ صاحبِ فکر بھی ہو اورصاحبِ فکر صاحبِ نظر بھی ہو۔تب یہ اکٹھی ہوسکتی ہیں۔ورنہ یہ دونوں قطعاًالگ الگ چیزیں ہیں ۔ایمان بالکل الگ چیز ہے اورایمان کی حلاوت نصیب ہوجانا یہ بڑے مرتبے کی چیز ہے۔ایمان جب نصیب ہوتاہے تو مسلماں کو نجات مل سکتی ہے؛لیکن عروج اسی وقت ملے گا دنیا میں اورمقام اسی وقت ملے گا اعلیٰ علیین آخرت میں ،جب ایمان کی حلاوت نصیب ہو۔“
آخری گزارش یہ ہے کہ اب جب کہ آپ عملی زندگی میں قدم رکھنے کے لیے پرتول رہے ہیں، اسلاف واکابر سے محبت وعشق کواپنا زادِ راہ ضرور بنائیے۔اس پرفتن زمانے میں، جب ہرطرف انانیت،خودپسندی اورخودرائی کے مظاہر بکھرے پڑے ہوں ،اگر کوئی جائے امان ہے تو وہ ”نقوش رفتگاں “میں ہے۔آزمائشوں اورامتحانوں کے تپتے صحرا میں اگرکوئی شجر سایہ دار ہے تووہ انہی نیک نام ونیک کام حضرات کی ذات ہے۔بزرگان ِدین کی سوانح حیات ،مواعظ وملفوظات اورقصص وواقعات نئے فاضل کی تگ وتاز کے لیے لائحہ عمل کی تعیین اور مقاصد پر توجہ مرکوز رکھنے کے لیے اکسیر کا درجہ رکھتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ امت جاں بلب مریض کی طرح سسک رہی ہے۔اسے کسی روحانی مسیحا کی تلاش وضرورت ہے۔جو اس کے دردکا درماں مہیا کرسکے،جو اسے رب سے ملاسکے،جو اسے محمدعربی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشن تعلیمات وہدایات سے روشناس کراسکے۔آپ ہی وہ چراغِ ہدایت ہیں،جو ضلالت وگمراہی کے اندھیرے میں روحانیت کی کرنیں بکھیرتا اورایمانیت کی راہیں دکھلاتاہے۔جگر الہ آبادی نے کیا خوب کہا ہے:
رکتی نہیں بحرِسعادت کی موجِ تند
باندھیں گے بند اہلِ شقاوت کہاں کہاں؟
$ $ $
————————————
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 8-9 ، جلد: 95 ، رمضان — شوال 1432 ہجری مطابق اگست — ستمبر 2011ء