حرفِ آغاز
مولانا حبیب الرحمن اعظمی
اسلام ایک زندہ مذہب ہے، تاریخ کے مختلف ادوار میں وہ خواہ کسی حال اور پیمانے میں رہا، اور راہ حیات میں اسے چاہے کیسے ہی ناسازگار حالات سے گزرنا پڑا، مگر وہ اپنی مکمل شکل میں کائنات ہست و بود میں موجود رہا، اور بغیرکسی پس وپیش اورادنیٰ تردد کے یہ دعویٰ کیا جاسکتا ہے کہ اس پر کوئی ایسا زمانہ نہیں آیا کہ اس کی اساسی حیثیت پورے طور پر مٹ گئی ہو، اوراگلے زمانہ میں پھر نئے سرے سے طلوع اسلام ہوا ہو۔
دین اسلام کی اصل غایت اللہ تعالیٰ سبحانہ کی معرفت، اس کی رضا کی طلب، اوراس کے احکام کی تعمیل ہے۔ خدائے وحدہ لاشریک لہ کی دعوت، شاہراہِ اسلام کی اصلی منزل ہے، سارے پیغمبراسی ایک کی طرف دعوت دیتے رہے، حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ”منْ اَنْصَارِیْ اِلٰی اللہِ“ کا آوازہ بلند کرکے دنیا کو بتایا کہ میں خدائے واحد کی طرف بلانے والا ہوں، رحمتِ عالم خاتم النّبیین ﷺ نے بھی اپنی منزل کی نشاندہی ان الفاظ میں فرمائی ”قُلْ ھٰذِہ سَبِیْلِی ادعوا اِلَی اللہِ عَلٰی بَصِیْرَةٍ“
آنحضرت ﷺ کے بعد اس شاہراہ کے داعی صحابہٴ کرام تھے، وہ اپنے اپنے دائرہٴ عمل میں اللہ کے بندوں کو اس کی دعوت دیتے رہے، اور آئندہ آنے والے لوگ ان ہی سے اس شاہراہ کا نشان لیتے رہے۔ جس طرح خدائے واحد کی طرف بلانا تمام پیغمبروں کا اجتماعی نقطہ تھا، ساری امت کو نبیٴ رحمت ﷺ کے نقش قدم پر لانا تھا ،اصحاب رسول کا اجتماعی نقطہ تھا، حضرت فاروق اعظم نے ایک موقع پر حضرات صحابہ کے اس داعیانہ کردار کو ان الفاظ میں واضح فرمایا تھا: ”ایھا الناس قد سُنّت لکم السنُن، وفُرضت لکم الفرائضُ، وترکتم علی الواضحة الا ان تضلّوا بالناس یمینًا وشمالاً“ اے لوگو! تمہاری راہیں متعین ہوچکی ہیں، اور تمہاری ذمہ داریاں طے کی جاچکی ہیں، تم ایک شاہراہ پر چھوڑے گئے ہو، دیکھنا دائیں بائیں دیکھ کر، (اور دوسری قوموں کے متوازی نظریات سے متاثر ہوکر) راہ سے ہٹ مت جانا۔“
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے شاہراہ اسلام کے اولین قافلے سے ہم رکاب رہنے کی تلقین و ہدایت ان الفاظ میں فرمائی ہے:
من کان مستنّا فلیستَنّ بمن قدمات فان الحیّ لا توٴمن علیہ الفتنة، اولئک اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کانوا افضل ھذہ الامة، ابرّھا قلوبًا واعمقھا علمًا، واقلّھا تکلفاً، اختارھم اللہ لصحبة نبیّہ ولاقامة دینہ، فاعرفوا لھم فضلھم، واتبعوھم علی اثرھم، وتمسکوا بما استطعتم من اخلاقھم، وسیرھم فانھم کانوا علی الھدی المتسقیم“
جس کو کسی راہ پر چلنا ہو، اسے چاہئے کہ ان لوگوں کی راہ پر چلے جو اس دنیا سے جاچکے ہیں، کیونکہ زندوں پر فتنہ و آزمائش (میں مبتلا ہوجانے سے بالکلیہ ) امن واطمینان نہیں ہے، وہ وفات یافتہ جن کی راہ اختیار کرنی چاہئے وہ اصحاب رسول ﷺ ہیں، یہ طبقہ اسلامی امت کا بہترین طبقہ تھا، ان کے دل بہت نیک تھے، ان کا علم سب سے عمیق اور گہرا تھا، ان میں تکلف اور بناوٹ نہیں تھی، اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے نبی کی صحبت ورفاقت اور اپنے پسندیدہ دین کی اقامت کے لئے منتخب کرلیاتھا، ان کی فضیلت اور برتری کا اعتراف کرو اور پہچانو، بلاشبہ وہ سیدھی راہ پر تھے۔
درسگاہ نبوت کے تربیت یافتہ، فقیہ امت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا یہ ارشاد محض ایک اتفاقی اور وقتی نصیحت نہ تھی، وہ آئندہ برپاہونے والے فتنوں میں امت کو راہ حق بتارہے تھے۔#
کھول کر آنکھیں میرے آئینہٴ گفتار میں آنے والے دور کی دھندلی سی ایک تصویر دیکھ
حضرات صحابہ سے اسلام کا یہ دینی و علمی ورثہ تابعین اور ائمہ مجتہدین کو پہنچا، غرضیکہ اسلام کی شاہراہ مسلسل جو ”خیرالقرون قرنی، ثم الذین یلونھم، ثم الذین یلونھم“ کی بشارت نبوی میں صحابہ و تابعین سے مسلسل چلی آرہی تھی، اکابر محدثین، وفقہائے مجتہدین نے اس پر پہرہ دیا اور اس کے کل وجزء کی مکمل صیانت و حفاظت کی، اسی سے تمسک دین مسلسل سے وابستگی ہے،اور یہی دین قیم، اور ایک زندئہ وپائندہ مذہب ہے، پھر اسلام کی پندرہ صدیوں میں ہر صدی میں اللہ رب العزت نے اپنی قدرت کاملہ، وحکمتِ بالغہ سے ایسے لوگ پیدا کرتے رہے جنھوں نے اسلام کے اصول وعقائد،اور اساس اعمال و اخلاق کو ہر قیمت پر زندہ رکھا، اوراس کی تاریخ میں کوئی ایسا دور نہیں آیا جب کہ قرآن وحدیث اوراسلام کی تعبیر کلیتہً تحریف کی نذر ہوگئی ہو، اگرایسا ہوا ہوتا تو اسلام ایک زندہ مذہب نہ رہتا، اللہ سبحانہ تعالیٰ کے ان اولوالعزم بندوں نے اپنی حیات کے لمحے لمحے کو اظہار حق اور ابطال باطل کے لئے وقف کردیا، نامساعد حالات، اور الحاد وزندقہ کی لہریں اٹھیں مگر انھیں ایک انچ بھی اس شاہراہ عظیم سے نہ ہٹاسکیں، یہی اسباب کی وہ دنیا ہے جس کے ذریعے دین حق کی ابدی حفاظت ہوئی، اور خدائے حکیم و قدیر کا یہ وعدہ پورا ہوتا رہا ”اِنَّا نَحْنُ نَزَّلَنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہ لَحَافِظُونَ“
صحابہٴ کرام سے چلا یہ سلسلہ نسلاً بعد نسلٍ بارہویں صدی میں مسندہند حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے خاندان تک پہنچا، اور اپنے بعد والوں کے لئے یہی خاندان روشنی کا مینار رہا۔
حضرت شاہ صاحب کے خلف رشید اور فرزنداکبر حضرت شاہ عبدالعزیز نے حدیث و فقہ کی مسند سنبھالی، اوراپنے والد ماجد کے افکار و نظریات کو بروئے کار لانے میں اپنی ساری توانائیوں کو داؤ پرلگادیا، بعد میں آ نے والے سب اہل علم اسی خانوادے سے استناد پکڑتے ہیں،اور بطور خاص برصغیر میں یہی خاندان اہل حق کا مرکز اعتماد ہے۔
دارالعلوم دیوبند درحقیقت انھیں محدثین دہلی کے نظروفکر کی نشاة ثانیہ ہے، جس نے اپنے ابتدائے قیام سے اسلامی علوم وثقافت کی ترویج واشاعت میں جو نمایاں خدمات انجام دی ہیں وہ ہماری تاریخ کا ایک زریں باب ہے۔ دارالعلوم سے وابستہ علماء مکمل طور پر صحابہ سے لے کر محدثین دہلی تک اسناد اسلام کی ہر کڑی سے پورے وفادار رہے اور سلف صالحین کی اتباع کی یہاں تک پابندی کی کہ چھوٹی سے چھوٹی کسی ایجاد بندہ کو دین نہیں بننے دیا۔#
دنیا نے اپنے آپ کو بدلا گھڑی گھڑی
یہ اہل عشق ہیں کہ جہاں تھے وہیں رہے
دارالعلوم دیوبند کا یہی وہ مثالی کردار ہے جس نے اسے چہار دانگ عالم میں شہرت وقبولیت اورنیک نامی کے ایسے عظیم اور بلند وبالا مقام پر پہنچادیا جس کی مثال ماضی قریب کی دوصد سالہ اسلامی علوم وثقافت کی تاریخ پیش کرنے سے قاصر ہے۔ ”ذلک فضل اللہ یوتیہ من یشاء“․
———————————–
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 7 ، جلد: 95 ، شعبان 1432 ہجری مطابق جولائى 2011ء