حرفِ آغاز
مولانا حبیب الرحمن اعظمی
اسلامی تاریخ میں ربیع الاوّل وہ مبارک ترین مہینہ ہے، جس میں دعائے خلیل اور نویدِ مسیحا کا ظہور ہوا، یعنی محسنِ انسانیت پیغمبرِ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کو خالقِ کائنات نے رحمتِ مجسّم بناکر اس خاکدان میں بھیجا۔ آپ کی بعثت کے وقت دنیا کا کیا حال تھا ان مختصر صفحات میں اس کا اجمال بھی پیش کرنا ممکن نہیں ہے؛ بس یوں سمجھ لیجیے کہ دین ومذہب، تہذیب وتمدن، معاشرت ومعیشت، اور اخلاق وکردار غرضیکہ زندگی کے تمام شعبوں میں جہالت وضلالت کا دور دورہ تھا اور انسانیت کی گاڑی اپنی پٹری کو یکسر چھوڑچکی تھی اور قریب تھا کوہ ظلمت وتاریکی کے ایسے مہیب اور خطرناک غار میں گرجائے، جس سے پھر ابھرنا ممکن نہ ہو۔ ’’کُنْتُمْ عَلٰی شَفَا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ‘‘ سے قرآن اسی عالمگیر ابدی تباہی کی طرف اشارہ کررہا ہے۔
عین اس تباہی وبربادی کے عالم میں آپ صلى الله علیہ وسلم نے گرتی ہوئی انسانیت کا ہاتھ پکڑا اور اپنی روشن تعلیمات اور تابناک اخلاق کے ذریعہ دنیا سے نہ صرف کفر وشرک اور ظلم وجہل کی تاریکیوں کو دور کردیا؛ بلکہ لہوولعب بدعات و رسومات اور بے سروپا خرافات سے مسخ شدہ انسانیت کو اخلاق وشرافت، وقار وتمکنت اور سنت وشریعت کے خوشنما دیدہ زیب زیور سے آراستہ وپیراستہ کردیا۔اور آج دنیا میں جہاں کہیں بھی شرافت ومروت، عدل وانصاف، علم وحکمت، عبادت واطاعت اور ایمان وایقان کی روشنی نظر آتی ہے، وہ درحقیقت عطیہ ہے، اسی آفتابِ رسالت اور محسنِ انسانیت کا۔
اس رحمتِ مجسم اور محسنِ اعظم کا حق تو یہ تھا کہ ہمارے قلوب ہمہ وقت اس کی عظمت واحترام سے معمور ہوتے اور ہمارے دلوں کی ہر دھڑکن اس کی تعظیم وتوقیر کی ترجمان ہوتی، ہمارا ہر عمل اس کے اسوہٴ حسنہ کا نمونہ، اور ہماری ہر حرکت وسکون اس کی سنتِ مطہرہ کے تابع ہوتی؛ گویا ہماری مکمل زندگی سیرتِ رسول صلى الله علیہ وسلم کا تذکار اور اخلاقِ نبوی (صلى الله علیہ وسلم) کی جیتی جاگتی تصویر ہونی چاہیے تھی؛ نہ یہ کہ دیگر اہلِ ادیان ومذاہب کی دیکھا دیکھی ہم بھی اس نبی برحق اور محسنِ اعظم کی یاد وتذکرہ کے لیے چند دن مخصوص کرلیں اور پھر پورے سال بھولے سے بھی اس کی سیرت واخلاق کا ذکر تک زبان پر نہ لائیں، لاریب کہ آپ کا تذکرہ، آپ کی یاد، اور آپ کے فکر میں حیات کے جتنے لمحے بھی گذرجائیں وہ ہمارے لیے سرمایہٴ سعادت اور ذریعہٴ نجاتِ آخرت ہیں۔
لیکن افسوس وصد افسوس! کہ آج رسولِ عربی فداہ روحی، ابی وامی کے نام لیوا، اور اس کے عشق ومحبت کے دعویدار ’’ماہِ ربیع الاوّل‘‘ میں ’’عیدِ میلاد النبی‘‘ کے دلنشیں نام پر جو وقتی اور بے روح محفلیں منعقد کرتے ہیں، اس کے تصور ہی سے روح کانپ اٹھتی ہے اور کلیجہ منھ کو آنے لگتا ہے۔ آہ! ملتِ اسلامیہ کی یہ کیسی بدبختی وبدنصیبی ہے کہ محسن اعظم صلى الله علیہ وسلم کے مقدس نام اور سیرتِ پاک کے بابرکت عنوان پر اس ہڑبونگ، غل غپاڑا، شور وشغب اور طوفانِ بے تمیزی کا مظاہر ہ کیا جاتا ہے کہ کچھ دیر کے لیے شیطان کی پیشانی بھی احساسِ ندامت سے عرق آلود ہوجاتی ہے، دل کی دنیا تاریک تر ہوتی جارہی ہے؛ مگر اس کی فکر سے بے پرواہ بازاروں اور گلی کوچوں کو برقی قمقموں سے منور کیا جاتا ہے۔ دل کی بستی ویران اور اجاڑ ہورہی ہے؛ مگر اس کے غم سے غافل راستوں اور چوراہوں کو حسین وخوش منظر جھنڈیوں سے سجایاجاتا ہے۔ چھ چھ آٹھ آٹھ گھنٹے حضور اقدس صلى الله علیہ وسلم کے نام پر جلسوں اور جلوسوں میں گذار دیا جاتا ہے؛ مگر آں حضرت صلى الله علیہ وسلم کی آنکھوں کی ٹھنڈک اوراسلام کے رکنِ اولیں نماز کے تصور تک کو ذہن ودماغ کے دریچے تک آنے نہیں دیا جاتا۔
سیرت کے ان جلسوں اور جلوسوں میں فکرِ ننگ وناموس سے بے نیاز ہوکر مردوں اور عورتوں کا جس طرح اجتماع اور اختلاط ہوتا ہے، عہد جاہلیت کا ’’جشنِ نوروز‘‘ بھی اس کے آگے ماند پڑجاتا ہے۔ قوم وملت کا اس قدر سرمایہ ان سطحی اور غیر شرعی مجلسوں کی آرائش وزیبائش میں ہر سال صرف ہوتا ہے کہ اگر اس کا عُشرِ عشیر بھی بیواؤں کی نگہداشت اور بے سہارا بچیوں کے نکاح پر خرچ کردیا جائے تو ملت کی ہزاروں ماؤں اور بہنوں کو اطمینان وسکون اور عزت وآبرو کی زندگی میسر ہوجائے۔
محسنِ کائنات صلى الله علیہ وسلم کی محبت کے مدعیو! خدارا غور وفکر اور عقل وہوش سے کام لو! وہ دعوی محبت یکسر فریب اور نرادھوکہ ہے جو اطاعت وتسلیم، جاں سپاری، وخود سپردگی کی عاشقانہ اداؤں سے خالی ہو۔ عرب کا ایک شاعر کہتا ہے:
تَعصي الا لَہ وانت تُظھِرُ حبَّہ ھذا محالٌ وفي القیاسِ بدیع
لو کان حبُّک صادقًا لَأطَعْتَہ لِأنَّ المُحِبَّ لِمَنْ یُحِبُّ یُطِیع
تم زبان سے اللہ کی محبت کا اظہار کرتے ہو اور عمل سے اس کی نافرمانی اور مخالفت۔ محبت اور مخالفت کو یکجا ہونا ازروئے عقل نہایت عجیب؛ بلکہ محال ہے۔ اگر تمہاری محبت سچی ہوتی تو تم یقینی طور پر اس کی اطاعت کرتے؛ کیونکہ محب وعاشق اپنے محبوب کا اطاعت گذار اور فرماں بردار ہوتا ہے۔
تم زبان سے عشقِ رسول صلى الله علیہ وسلم کا دم بھرتے ہو؛ مگر تمہارے طورطریقے، اخلاق واعمال اور عادات وخصائل تعلیماتِ رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم اور ہدایاتِ محبوب صلى الله علیہ وسلم کے سراسر خلاف ہیں۔ ہادیٴ اعظم اور محسنِ انسانیت نے بالکل آخری وقت میں جب کہ نبض ڈوب رہی تھی اور نزع کا عالم طاری تھا، تمہیں نماز کی وصیت فرمائی تھی، غیرمحرم عورتوں سے اختلاط تو بڑی دور کی بات ہے، ان کی جانب نظراٹھانے کو بھی آپ صلى الله علیہ وسلم نے دین وایمان کی ہلاکت اور تباہی قرار دیا تھا، بیجا اسراف اور فضول خرچی سے تمہیں باز رہنے کی موٴکد ہدایت فرمائی تھی؛ لیکن آج انھیں کے نام پر ان جلسوں اور جلوسوں میں تم وہ سب کچھ کرتے ہو جس سے تمہارے محسن نے تمہیں روکا تھا۔ خدا را ہوش میں آؤ اور دیکھو دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی تم ہو کہ ان سطحی اجتماعات اور غیرشرعی رسومات میں اپنی طاقت اپنی دولت، اوراپنے وقت کو برباد کررہے ہو اور اس طرح اپنی دنیا کو تباہ کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ اور اس کے رسول صلى الله علیہ وسلم کی ناراضگی بھی خرید رہے ہو۔
ترسم کہ بہ کعبہ نہ رسی اے اعرابی
کیں رہ کہ تو می روی بہ ترکستانست
***
—————————
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 3 ، جلد: 95 ، ربیع الثانی 1432 ہجری مطابق مارچ 2011ء