از: یرید احمد نعمانی
کیا کبھی آپ کسی معروف ڈپارٹمینٹل اسٹور گئے ہیں؟ پوری توجہ اور انہماک کے ساتھ اپنی اشیا ضرورت کی خریداری میں مصروف ہوں، ایسے میں کسی ’’بنت حوا‘‘ کی آواز سوچ وفکر کا دائرہ اپنی طرف مبذول کراتی ہے۔ متعلقہ کمپنی کی مصنوعات کی خوبیوں، فوائد اور ثمرات کی تسبیح میں گنواتی زبان لمحہ بھر کے لئے آپ کو ذہنی وقلبی تذبذب سے دوچار کردیتی ہے۔ کشش صوت سے لے کر ہیئت لباس تک کا ‘‘وصف اور ڈھنگ’’ ابلیسی تیر بن کر آپ کی ایمانی و روحانی نظر وفکر کے قالب کو زخمی کرتا نظر آئے گا۔
قارئین! یہ رونا اور یہ دکھڑا کسی خاص مقام، مکان اور جگہ کا نہیں ہے۔ شامت اعمال کی یہ مشاہداتی تصویریں مسلم معاشرے میں ہر نشیب وفراز اور قدم قدم پر دیکھنے کو ملتی ہیں۔ جاہلیت قدیمہ اور جاہلیت جدیدہ صنف نازک کی تذلیل، تحقیر اور عدم توقیر کے حوالہ سے سرموکوئی فرق وامتیاز نہیں رکھتیں۔ حوا کی بیٹی ماضی قدیم میں یونانیوں کے ہاں برائیوں کا منبع، عرب کے ہاں ذلت ورسوائی کی علامت اور اہل کلیسا کے ہاں لونڈیوں سے بدتر حیثیت کی حامل گردانی جاتی تھی۔ حد تو یہ ہے کہ نصرانیت باوجود ایک مذہب سماوی کا دعویدار ہونے کے تحریف وتبدل کی رنگ آمیزی سے اس قدر کھوکھلا ہوچکا تھا کہ، عورتوں کے لئے کلام مقدس کو چھونا اور گرجے میں داخلہ تک ممنوع قرار دیا جاچکا تھا۔ اس کے برخلاف اسلام نے ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کی صورت میں عورت کے حقوق بیان اور بحال کیے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک تعلیمات تو صنف اناث کو ’’آبگینوں‘‘ کی مانند نازک بتلاتی اور ان کی حفاظت کا حکم دیتی ہیں۔
فی زمانہ حقوق نسواں کی بحالی اور تحفظ کے نام پر ٹڈی دل مغرب زدہ این جی اوز کا وجود نامسعود مسلمان خواتین کو دین سے برگشتہٴ خاطر کرنے کے لئے کیا کیاطریقے اورحربے اپنارہا ہے؟ آئیے! ایک اچٹتی نظر اس کھلی حقیقت پر ڈالتے ہیں:
(۱) معاشرے کے مستحکم اور فیصلہ کن اہمیت وحیثیت رکھنے والے افراد کار سے ربط وضبط بڑھانا تاکہ راستے کی رکاوٹوں کو دور کیا جاسکے۔
(۲) اشتہارات کی تشہیر اور لٹریچر کی اشاعت کے ذریعہ رائے عامہ کی ہمواری۔
(۳) باقاعدہ اور منظم طریقہ کار کے تحت عدالتوں میں ’’عورتوں کے لئے جنسی فیصلوں کی آزادی‘‘ کے عنوان سے من پسند شادی کرنے والے جوڑوں کے مقدمات عدالت میں ہیں تاکہ بین الاقوامی سطح پر اس طرز عمل کی زیادہ سے زیادہ پذیرائی ہوسکے۔
(۴) جنسی بے راہ روی کو ہوا دینے کے لئے مخلوط تعلیمی اداروں کے قیام کی بھرپور حوصلہ افزائی۔
(۵) دفاتر، فیکٹریوں اور کارخانوں میں مرد وعورت کے اختلاطی ماحول کی نشوونما۔ نوبت بایں جا رسید کہ بعض مسلم ممالک میں مخلوط ماحول پیدا کرنے کے لیے ایجوکیشن، انجینئرنگ، اکاؤنٹس اور دیگر دفتری امور کے لئے خواتین کیڈٹس کی بھرتی جاری وساری ہے۔
(۶) ذرائع ابلاغ کے ذریعہ مخلوط محفلوں کی خبریں، کہانیاں اور رپورتاژ منظر عام پر لائی جارہی ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا سے پیش کیے جانے والے پروگراموں میں جنسی آزادی اور خاندانی منصوبہ بندی کے مقاصد کو خصوصی طور پر اجاگر اور نمایاں کیا جارہا ہے۔
اس صورت حال پر حفیظ جالندھری کے اشعار جاندار اور خوبصورت تجزیہ وتبصرہ معلوم ہوتے ہیں:
اب مسلماں میں بھی نکلے ہیں کچھ روشن خیال
جن کی نظروں میں حجات صنف نازک ہے وبال
چاہتے ہیں بیٹیوں، بہنوں کو عریاں دیکھنا
محفلیں آباد لیکن گھر کو ویراں دیکھنا
یہ بات اب طشت از بام ہوچکی ہے کہ ان این جی اوز کے پشت پناہ اقوام متحدہ، امریکہ اور صہیونی گماشتے ہیں، جن کا مطمح نظر اور مقصد حیات ہی اسلام کے نور کو اپنی پھونکوں سے بجھانا ہے۔
تسلیم کہ ’’معاش‘‘ بعض مخصوص حالات وکیفیات میں کچھ خواتین کی اقتصادی مجبوری ہے۔ لیکن اس کے لئے حدود شرع کو پامال کرنا، اسلامی تعلیمات کا سرعام ’’عملی استہزا‘‘ کرنا اور مشرقی روایات واقدار کو پس پشت ڈالنا کہاں کی دانشمندی، روشن خیالی اور تہذیب یافتہ ہونے کی علامت ونشانی ہے؟ اسلام دین فطرت ہے۔ اس کی روشن، واضح اور غیر مبہم تعلیمات ہر دور وزمانہ میں چھوٹے سے لے کر بڑے تک، عورت سے لے کر مرد تک، بچہ سے لے کر بوڑھے تک، جاہل سے لے کر عالم تک، فقیر سے لے کر غنی تک غرض ہر ایک کے لئے یکساں قابل قبول وعمل تھیں، ہیں اور رہیں گی۔ کمی اور نقص انسان کی کمزوری اور خامی ہے۔ ضرورت اس امرکی ہے مسلمان خواتین اپنی متاع عفت وایمان کی حفاظت، اہمیت اور ضرورت کو اسلام کی آفاقی تعلیمات کی روشنی میں جاننے، سمجھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی سعی بلیغ کریں۔
سردست صاحب ایمان خاتون کا لباس اسلام کی نگاہ میں کیا اہمیت وحیثیت رکھتا ہے؟ اس سوال کا جواب ’’دین مبین‘‘ کی تعلیم کردہ ہدایات کے آئینے میں دیکھتے ہیں۔
٭ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: ’’اللہ تعالیٰ ان عورتوں پر رحم فرمائے جنھوں نے اسلام کے ابتدائی دور میں (مکہ سے مدینہ) ہجرت کی۔ جب اللہ پاک نے ’’ولیضربن بخمرھنّ علی جیوبھنّ‘‘ کاحکم نازل فرمایا تو انھوں نے اپنی موٹی چادروں کو کاٹ کر دوپٹے بنالیئے۔‘‘ مفسرین لکھتے ہیں کہ زمانہ جاہلیت میں مشرک عورتیں سرپردوپٹہ کرکے بقیہ حصہ کمر پر ڈال دیا کرتی تھیں۔ اس کے برعکس مسلمان عورتوں کو حکم ہوا کہ سرسمیت سینہ اور گلے پر بھی دوپٹہ ڈالیں۔ یہ حکم سن کر صحابیات نے موٹی چادروں کو کاٹ کر اپنے دوپٹے بنالئے، کیونکہ باریک کپڑے سے سر اور بدن کا پردہ نہ ہوسکتا تھا۔ ’’تحفہٴ خواتین‘‘ میں مولانا عاشق الٰہی رحمہ اللہ حدیث مذکور کے ذیل میں رقمطراز ہیں: ’’آج کل کی عورتیں سر چھپانے کو عیب سمجھتی ہیں اور ڈوپٹہ اوڑھتی بھی ہیں تو اس قدر باریک ہوتاہے کہ سرکے بال اور مواقع حسن وجمال اس سے پوشیدہ نہیں ہوتے، دوسرے اس قسم کا ڈوپٹہ بناتی ہیں کہ سرپر ٹھہرتا ہی نہیں چکناہٹ کی وجہ سے بار بار سرکتا ہے اور پردہ کے مقصد کو فوت کردیتا ہے۔‘‘
٭حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ پاک ایسے مرد پر لعنت فرماتے ہیں جو عورت کا لباس پہنے اور ایسی عورت بھی اللہ تعالیٰ کی لعنت کی سزاوار ٹھہرتی ہے جو مرد کا پہناوا زیب تن کرے۔‘‘ اس حدیث مبارک کی روشنی میں اپنے گرد وپیش پر نظر ڈالیے! فیشن پرستی کا ماحول، موسم اور فضا اباحیت پسندی، جنسی بے راہ روی، فحاشی وعریانی اور مادیت کی یورش ہر سوبپا کئے ہوئے ہے۔ نادانی خود فریبی اور نفس پرستی کا شکار مسلمان ’’غیروں‘‘ کی نقالی میں اس قدر منہمک ہوچکا ہے کہ مرد وزن کے ہیئت لباس، نوعیت کار اور پیدائشی فرق تک کو ختم کردینے پہ تلاہوا ہے۔
٭ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی دوسری روایت میں جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’اہل جہنم کے دو طبقے ایسے ہیں جن کو میں نے نہیں دیکھا۔ ان دو گروہوں میں سے ایک تو وہ قوم ہوگی جن کے پاس کوڑے ہونگے گائے کی دم کی طرح اور اس سے وہ لوگوں کو (ناحق) ماریں گے۔ دوسرا طبقہ ان عورتوں کا ہے جو بظاہر کپڑے پہنے ہوں گی لیکن پھر بھی ننگی ہوں گی، مردوں کو اپنی طرف مائل کرنے والی اور خود ان کی جانب میلان رکھنے والی ہوں گی۔‘‘ ان کے سرخوب بڑے بڑے اونٹوں کے کوہان کی طرح ہوں گے۔ وہ جنت میں داخل نہیں ہوں گی اور نہ ہی اس کی خوشبو پاسکیں گی۔ حالانکہ اس کی خوشبو اتنی اتنی دور سے آرہی ہوگی۔‘‘ کتنی سخت وعید ہے ان دختران ملت کے واسطے جو اسلامی معاشرت اور اوضاع واطوار سے صرف نظر کرکے جدت پسندی اور باطل رسوم ورواج کو اپنی کامیابی کی کلید اور ترقی کا زینہ سمجھ بیٹھی ہیں۔ کیا آج مغرب کی مادہ پرستی نے عورت کو زمانہ جاہلیت کی طرح عزت کی اوج ثریا سے خاکِ ذلت پر نہیں دے مارا؟ کیا آج امت مسلمہ کی مائیں، بہنیں اور بیٹیاں مغربی استعمار کے دام تزویر کا شکار نہیں؟ فیصلہ آپ پر ہے!!
فطرت سے بغاوت کے نتیجے میں خود اس یورپ کی معاشرتی ٹوٹ پھوٹ اور خانگی زندگی کی زبوں حالی کیا صورت وشکل اختیار کرچکی ہے؟ اس ضمن میں سوویت یونین کے آخری صدر میخائل گوربا چوف کا یہ ’’اعتراف جرم‘‘ سند کے طورپر پیش کرنے کے لئے کافی ہے، جس میں انھوں نے کہا: ’’ہم نے عورتوں کو گھر سے نکال کر بہت بڑی غلطی کی ہے۔ اس سے اگرچہ ہماری مصنوعات بڑھ گئیں لیکن ہم معاشرتی ابتری کا شکار ہوگئے ہیں۔‘‘
٭٭٭
————————————–
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 1-2 ، جلد: 95 ، صفر، ربیع الاول 1432 ہجری مطابق جنوری، فروری 2011ء