از: محمد عظیم قاسمی فیض آبادی
قرآن کریم نے سورئہ بنی اسرائیل کی جس آیت میں والدین کے حقوق ان کی خدمات اور ان کے ساتھ حسن سلوک کی تعلیم و تاکید کی ہے وہیں ”واٰت ذا القربی“ فرماکر دیگر اہل قرابت ورشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک، صلہ رحمی اور ان کے حقوق کی رعایت کی بھی تاکید فرمائی ہے۔ نوجوانوں کے گھر خاندان میں بھائیوں، بہنوں اور دیگر افرادِ خاندان کے ساتھ اچھے اخلاق وکردار اور آپسی تعلقات میں صلہ رحمی وغیرہ کو بڑی خاص اہمیت دی ہے، انسان کے اپنے گھریلو وخاندانی وقرابتی رشتہ کو حکمت کی اصطلاح میں ”تدبیر منزل“ کے عنوان سے جانا جاتا ہے۔
تدبیر منزل کے تعلق سے نبی کریم صلى الله عليه وسلم کی تعلیمات اتنی زیادہ اور اتنی واضح و روشن ہیں جن کے کسی شعبہ کا کوئی حصہ اور کوئی بھی پہلو محتاج بیان نہیں رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی تعلیمات وہدایات آپ کی سیرت و سنت، آپ کا طور طریق آپ کی چال ڈھال اور آپ کا اخلاق و کردار سب انسان کو نیکی، خوش خلقی، ہمدردی وغمگساری، باہمی اخوت ومحبت، امداد واعانت، نرمی و چشم پوشی، عفو درگذر، حلم و بردباری اور آپسی حقوق کی ادائیگی کا جو بے مثال سبق دیتا ہے وہ دنیا کے کسی اور دھرم و مذہب کے اندر ملنے والا نہیں۔
حق قرابت اور صلہ رحمی کے متعلق حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیہِ وسلَّم اَلرَّحِمُ شُجْنَةٌ مِنَ الرَّحْمانِ قَالَ اللّٰہُ تعالٰی مَنْ وَصَلَکَ وَصَلْتُہ وَمَنْ قَطَعَکَ قَطَعْتُہ. حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ رحم (یعنی حق قرابت) رحمان سے مشتق ہے (یعنی خداوند رحمان کی رحمت کا ایک حصہ ہے اور اس نسبت سے) اللہ تعالیٰ نے اس (رحم) سے فرمایا کہ جو تجھے جوڑے گا میں اسے جوڑوں گا اور جو تجھے توڑے گا (یعنی قطع تعلق کرے گا) میں (بھی) اس کو توڑوں گا۔
مطلب یہ ہے کہ انسان کی باہمی قرابت و رشتہ داری کے تعلق ولگاؤ کو اللہ تعالیٰ کے مقدس نام ”رحمن“ سے اور اس کی صفت رحمت سے خاص نسبت ہے اور وہی اس کا مصدر ومنبع ہے، اسی وجہ سے اس کا نام ”رحم“ مقرر ومتعین کیاگیا ہے اور اسی خصوصی نسبت کی وجہ سے اللہ کے نزدیک اس کی اتنی اہمیت ہے کہ اللہ رب العزت کا یہ فیصلہ ہے کہ جو صلہ رحمی کرے گا یعنی رشتہ داروں کے حقوق ادا کرے گا اور رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئے گا اس کو اللہ تعالیٰ اپنے سے جوڑے اور وابستہ کرے گا یعنی اس کو اپنا بنالے گا کتنا خوش نصیب ہے وہ شخص جسے اللہ تعالیٰ اپنا بنالے، اور اس کے برخلاف جو کوئی قطع رحمی کا رویہ اپنائے گا اور اہل قرابت سے بے تعلقی اور دوری اختیار کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کو اپنے سے الگ اور بے تعلق کردے گا۔ اتنا بدنصیب ہے وہ جس سے اللہ تعالیٰ بے زاری کا اعلان کرے۔
اس حدیث پر غور کرنے کے بعد انسان کے لئے یہ اندازہ کرنا کچھ مشکل نہیں کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم کی ہدایت و تعلیم میں صلہ رحمی یعنی رشتہ داروں کے ساتھ نیک سلوک کی کتنی اہمیت ہے اور اس میں کوتاہی کتنا سنگین جرم اور کتنی بڑی محرومی رحمن اور اس کی رحمت وعنایت سے دوری ہے۔
عن عبدِ الرحمٰنِ بْنِ عَوْفٍ قَالَ سمعتُ رَسولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ علیہِ وَسلَّمَ یَقُولُ قَالَ تَبَارَکَ وَتَعالٰی اَنَا اللّٰہُ وَاَنَا الرَّحْمانُ خَلَقْتُ الرَّحِمَ وَشَقَقْتُ لَہَا مِنْ اِسْمِیْ فَمَنْ وَصَلَہَا وَصَلْتُہ وَمَنْ قَطَعَ بَتَتُّہ. (ابوداؤد)
حضرت عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ میں اللہ ہوں، میں رحمن ہوں، میں نے ”رحم“ یعنی (رشتہ و قرابت) کو پیدا کیا ہے اور اپنے نام رحمن کے مادّہ سے نکال کر اس کو ”رحم“ نام دیا ہے۔ لہٰذا جو اسے جوڑے گا میں اس کو جوڑوں گا اور جو اس کو توڑے گا میں (بھی) اس کو توڑوں گا۔
رب ذوالجلال نے اپنی حکمت ومشیت سے تخلیق کا کچھ ایسا نظام بنایا ہے کہ ہر پیدا ہونے والا قرابت و رشتے کے اٹوٹ بندھنوں میں بندھا ہوتا ہے پھر ہر رشتے کے کچھ حقوق و تقاضے ہیں انھیں حقوق و تقاضوں کو حدیث کے اندر ”رحم“ کے عنوان سے بیان کیاگیا ہے جو اللہ کے پاک نام ”رحمن“ سے نکلا ہے لہٰذا جو بھی بندہ انسان کے فطرت میں رکھے ہوئے اور اللہ کے متعین کئے ہوئے ان حقوق اور تقاضوں کو ادا کرے گا اور صلہ رحمی کا معاملہ کرے گا اس کے لئے اللہ نے اس انعام کا اعلان کیا ہے کہ اللہ اس کو جوڑے گا (اس کو اپنا بنالے گا اور اپنے فضل وکرم سے نوازے گا) اور اس کے برعکس جو کوئی قطع رحمی کا معاملہ کرے گا اور رشتہ وقرابت کا لحاظ نہ کرے گا ان حقوق و تقاضوں کو پامال کرے گا جو اللہ تعالیٰ نے متعین کئے اور انسان کی فطرت کے اندر رکھے ہیں، تو اللہ تعالیٰ بھی اس کو توڑے گا اور اپنے سے جدا کردے گا اور اپنے قرب، اپنے رحم وکرم اور خصوصی عنایات سے محروم کردے گا۔
موجودہ دور میں مسلمان جن حالات سے دوچار ہیں اور اللہ کے فضل وکرم، رحمت وعنایت سے دوری ومحرومی کا جو سلسلہ اور منظر دنیا دیکھ رہی ہے بلاشبہ وہ مختلف شعبہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی ہماری بہت سی کوتاہیوں اور بداعمالیوں کا نتیجہ ہے۔
صلہ رحمی جس طرح اللہ کے رحم وکرم اور اس کی عنایات وقرب کا سبب ہے اسی طرح اس کے بعض دنیوی برکات بھی ہیں قرآن کریم اور تعلیمات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی حقیقت کو جابجا بیان فرمایا ہے کہ بعض نیک اعمال کے صلہ میں اللہ رب العزت اس دنیا میں بھی برکتوں، رحمتوں اور سعادتوں سے نوازتا ہے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے: قال قال رسولُ اللّٰہِ صلَّی اللّٰہُ علَیہِ وَسَلَّمَ مَنْ اَحَبَّ اَنْ یَبْسُطَ لَہ فِی رِزْقِہ وَیُنْسَأ لَہ فِی اِثْرِہ فَلْیَصِلْ رَحَمِہ. الحدیث (بخاری ومسلم)
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص کو پسند ہوکہ اس کے رزق کے اندر وسعت ہو اور دنیا کے اندر اس کے قدم کے نشان دیرتک باقی رہیں (یعنی اس کی عمر طویل ہو) تو اس کو چاہئے کہ (رشتہ داروں کے ساتھ) صلہ رحمی کا معاملہ کرے یعنی رشتہ داروں کے ساتھ نرمی ان کے حقوق کی ادائیگی اور ان کے ساتھ حسن سلوک ان نیک وصالح اعمال میں سے ہیں جس کی برکت سے اللہ رب العزت بندے کے رزق میں فراخی وکشادگی پیدا فرمادیتے ہیں اور عمر میں زیادتی وبرکت ہوتی ہے۔
اگر نوجوان اپنی کمائی وکسب سے رشتہ داروں کی مالی خدمات ان کی امداد واعانت کرے اور اپنے اوقات کا کچھ حصہ ان سے ملاقات اور ان کی خیریت وغیرہ معلوم کرنے میں صرف کرے اور وقتاً فوقتاً ان کے کاموں میں ہاتھ بٹائے تو یہ چیزیں اس کے حق خیر کا باعث ہو اس کی زندگی کی خوشگواری، اس کے رزق ومال میں برکت اور اس کی زندگی میں برکت واضافہ اور اس کے گھر، خاندان کے چین وسکون کا سبب ہونا بالکل قرین قیاس اور اللہ حکیم ورحیم کی رحمت وحکمت کے عین مطابق ہے۔
اسبابی نقطئہ نظر سے غور وفکر کرنے سے بھی یہ بات سمجھ میں آسکتی ہے اور یہ مشاہدہ اور عام تجربہ بھی ہے کہ، خاندانی جھگڑے، گھریلو الجھنیں جو عموماً رشتہ داروں اور اعزہ واقارب کے حقوق ادا نہ کرنے اور ان کے ساتھ سختی وشدت کا معاملہ کرنے کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں وہ انسان کے لئے دلی پریشانی، اندرونی گھٹن وکڑھن کا باعث بنتی ہیں اور پھر یہی چیزیں بڑھ کر کینہ وحسد تک نوبت پہنچ جاتی ہے جو گھریلو وخاندانی بگاڑ وخلفشار کا ذریعہ ہیں جس کا اثر لازمی طور پر تجارت و زراعت، کاروبار اور صحت پر بلکہ ہر چیزپر بری طرح پڑتا ہے اور جو لوگ اہل خاندان، رشتہ داروں اور قرابت داروں کے حقوق کی ادائیگی کا خیال رکھتے ہیں ان کے ساتھ صلہ رحمی، نرمی اور ان کے اچھے برے وقت پر ان کے ساتھ شرکت اور ان کی نصرت وحمایت کا جذبہ وحوصلہ رکھتے ہیں ان کے قلوب آپسی محبت وپیار سے لبریز رہتے ہیں ان کی زندگی خوشگوار فرحت ومسرت سے پُر اور امن وامان کے ساتھ بسر ہوتی ہے اور ہر اعتبار سے ان کے حالات قابل اطمینان ہوتے ہیں اور فضل الٰہی ان کے شامل حال ہوتی ہے۔
صلہ رحمی خونی رشتے کا اولین فریضہ ہے اگر کوئی شخص صلہ رحمی نہ کرے بلکہ قطع رحمی کا مرتکب ہوتو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے شخص کے لئے سخت وعید سنائی ہے کہ ایسا شخص جنت میں داخل نہیں ہوسکتا ہے۔ قطع رحمی کی پاداش میں اس کے لئے جنت میں داخلہ ممنوع ہوگا۔ عَنْ جُبَیْرِ بنِ مُطْعِمٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لاَ یَدْخُلُ الْجَنَّةَ قَاطِعٌ (بخاری ومسلم)
حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قطع رحمی کرنے والا جنت میں داخل نہ ہوسکے گا۔
اہل قرابت و رشتہ داروں کے ساتھ قطع تعلق اور رشتہ ختم کرنا یا رشتہ میں دراڑ پیدا کرنا کس درجہ کا سخت گناہ اور صلہ رحمی نہ کرنا کتنا بڑا وبال ہے اور اس حدیث پاک کے اندر کتنی شدید وعید آئی ہے کہ اس کے نتیجے میں جنت کے داخلے سے محروم کردیا جائے گا یعنی اس گناہ کی گندگی کے ساتھ کوئی شخص جنت میں داخل نہیں ہوسکے گا البتہ اگر تعلقات منقطع کرنے والے کو اس کے اس جرم کی سزا دے کر پاک کردیا جائے یا کسی اور وجہ سے اسے معاف کردیا جائے تو پھر جنت میں جانے کے قابل ہوسکتا ہے۔
اس مضمون وعنوان کی بے شمار احادیث ہیں جن سے اہل قرابت اور رشتہ داروں کے حقوق کی اہمیت اور ان کے ساتھ حسن سلوک اسلامی تعلیمات سیرت رسول کی روشنی میں معلوم ہوسکتے ہیں، عائلی نظام اور خاندانی زندگی میں بارہا یہ بات پیش آتی ہے ایک آدمی اپنے رشتہ دار اور اہل قرابت کے حقوق کی ادائیگی کے بجائے حقوق کی پامالی کرتا ہے اس کے ساتھ نرمی کے بجائے ترشروئی سے پیش آتا ہے اور ان کے ساتھ براسلوک کرتا ہے اس کے باوجود آدمی کو اپنی طرف سے حقوق کی ادائیگی، نرمی، صلہ رحمی اور اچھا سلوک کرنا چاہئے۔ اس بات کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے کہ اسوئہ رسول اکرم صلى الله عليه وسلم خاندان و رشتہ داروں کے حقوق وسلوک کے معاملے میں انسان کو اس نقطئہ نظر سے دیکھنے کی تعلیم و تربیت دیتا ہے کہ ہر شخص اپنی طرف سے صلہ رحمی، حسن سلوک کرتا رہے اور رشتہ داروں اور خاندان کے لوگوں کے حقوق ادا کرتا رہے۔ رشتہ دار واہل خاندان و قرابت کے لوگ اس کے حقوق ادا کررہے ہیں یا نہیں، وہ صلہ رحمی کرتے ہیں کہ نہیں اور اس کے ساتھ نیک سلوک و نرمی کا برتاؤ کرتے ہیں کہ نہیں اس کے دیکھنے کی ضرورت نہیں۔
کیونکہ شریعت مطرہ کے اندر صلہ رحمی اور اچھے برتاؤ کی بنیاد اس بات پر نہیں رکھی گئی ہے کیونکہ یہ تو ایک طرح کا بدلہ ہوجائے گا۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا لَیْسَ الْوَاصِلُ بِالمُکَافِی وَلٰکِنَّ الْوَاصِلَ الَّذِیْ اِذَا قُطِعَتْ رَحِمَہ وَصَلَہَا (بخاری کتاب الادب:۸۸۶) کہ وہ آدمی صلہ رحمی کرنے والا نہیں (شمار ہوگا) جو (صلہ رحمی کرنے والے رشتہ داروں کے ساتھ) بدلہ کے طور پر صلہ رحمی کرتا ہے بلکہ درحقیقت صلہ رحمی کا حق ادا کرنے والا وہ ہے جو اس حالت میں (رشتہ داروں کے ساتھ) صلہ رحمی کرے (اور ان کے حقوق ادا کرے) جب کہ وہ اس کے ساتھ قطع رحمی اور (حق تلفی) کا معاملہ کریں۔
یہ بات ظاہر ہے کہ قطع رحمی اور حق تلفی کرنے والے رشتہ داروں اور اہل خاندان کے افراد کے جواب میں اگر قطع رحمی اور حق تلفی ہی کا برتاؤ وسلوک کیا جائے گا تو یہ بیماری و گندگی معاشرے میں مزید بڑھے گی اور معاشرے کی بچی کچھی اچھائیاں بھی آہستہ آہستہ اپنی موت مرنے لگیں گی اور اس کے برخلاف جب ان کے ساتھ صلہ رحمی، حسن سلوک اور حقوق وفرائض کی ادائیگی کا معاملہ کیا جائے گا تو انسانی فطرت سے امید ہے کہ انسانیت اس کے اندر جاگے گی اور ”دیرآید درست آید“ کے نظریہ سے دیر سویر ان کی اصلاح ہوگی اور معاشرے میں حقوق و فرائض کی ادائیگی اور صلہ رحمی کو فروغ ہوگا اور قطع رحمی، بدسلوکی کا خاتمہ ہوگا اس طرح ایک بار پھر چین وسکون کا بازار گرم ہوکر معاشرہ امن وامان کا گہوارہ بن جائے گا اور اس کے طفیل ہماری آنے والی نئی نسل کیلئے نوجوانوں کی دکھائی ہوئی ڈگر مشعل راہ ثابت ہوگی اور ہر موقع پر اسوئہ نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کو اپنانے اور اس کو حرز جان بنانے کی ایک فضا بن جائے گی۔
تنگ آجائے گی خود اپنے چلن سے دنیا
تجھ سے سیکھے گا زمانہ ترے انداز کبھی
انسان اگر اپنی طرف سے رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کا معاملہ کرے اور اہل خاندان و اقارب کے حقوق ادا کرتا رہے تو یہ اس کی بڑائی، بہادری اور مردانگی ہے اگرچہ رشتہ دار اور خاندان والے اس کے ساتھ اس طرح کا معاملہ نہ کریں۔ شیخ سعدی علیہ الرحمہ نے اس سلسلے میں بڑی جاندار بات کہی ہے کہ۔
بدی را بدی سہل باشد جزا
اگر تو مردی احسنِ الی من أساء
(برائی کا بدلہ برائی سے دینا آسان ہے مردانگی تو یہ ہے کہ برائی کا بدلہ اچھائی سے دیا جائے) اگرچہ تعلیمات اسلام اور اس کا مزاج یہ ہے کہ وہ نہ صرف ہر فرد کی توجہ اپنے فرائض وحقوق کی ادائیگی کی طرف مبذول کرتی ہے بلکہ دل ودماغ کے دریچے میں اصل وبنیادی فکرہی یہ پیدا کرتی ہے کہ کہیں مجھ سے اپنے فرائض کی ادائیگی میں کسی طرح کی کمی تو نہیں ہورہی ہے؟ کیونکہ ایسا ممکن ہے کہ میں اپنی ترکیبوں سے، کسی حیلہ و تدبیروں کے ذریعہ اس کوتاہی کو چھپالوں اور اس پر پردہ ڈال کر اس کے دنیوی ثمرات ونتائج سے مامون و محفوظ ہوجاؤں لیکن ظاہر ہے کہ اس کی کوئی کوتاہی اور اس کا کوئی قصور خواہ وہ کتنا ہی معمولی کیوں نہ ہو اس علیم و خبیر ذات سے پوشیدہ نہیں رکھ سکتا جو دلوں میں آنے والے خیالات کو بھی جانتا ہے یہی فکر پیدا کرنا ہی اسلامی تعلیمات کا اصل منشاء ہے اور جب یہ فکر کسی شخص کو دامن گیر ہوجائے تو اس کا اصل مسئلہ و مقصد اور اس کا مطمح نظر حقوق کی حصول یابی کے بجائے فرائض کی ادائیگی بن جایا کرتا ہے اور اس کے اندر کمی کوتاہی ہر وقت اس کو مواخذہ کی وعید سے ڈرایا کرتی ہے پھر وہ اپنے جائز حقوق ومطالبات بھی پھونک پھونک کر ڈرتے ڈرتے وصول کرتا ہے کہ کہیں وصول شدہ حق کا وزن ادا کردہ فریضے سے زیادہ نہ ہوجائے یہی فکر تھی جس نے قرن اول کے مسلمانوں کو عزت وسربلندی عطا کی، قدر ومنزلت اور ترقی کے بامِ عروج پر پہنچایا تھا آج دنیا جس کے حصول کے لئے اپنا سب کچھ قربان کردینے کے لئے تیار ہے آج بھی اگر یہ فکر معاشرے میں عام ہوجائے خصوصاً نوجوان نسل جس کے کندھوں پر مستقبل کی تعمیر کا دارومدار ہے اپنے آپ کو اس بات پر آمادہ کرلے اور یہ فکر اپنے دلوں پر سوار کرلے تو ہر ایک کے حقوق خود بخود ادا ہونے شروع ہوجائیں گے اور حق تلفیوں و بے انصافیوں کا چلن کم ہوجائے کیونکہ ایک شخص کا فریضہ دوسرے کا حق ہوتا ہے اور جب پہلا شخص اپنی ذمہ داری اور فریضہ ادا کرلے گا تو دوسرے کا حق خود بخود اس کو پہنچ جائے گا اگر شوہر اپنے فرائض ادا کرے تو بیوی کے حقوق ادا ہوں گے، بیوی اپنے فرائض و ذمہ داری ادا کرے تو شوہر کے حقوق ادا ہوں گے اگر حاکم اپنے حقوق ادا کرے تو رعایا کو اس کے حقوق ملیں گے اور رعایا اپنے فرائض کو پورا کرے تو حاکم کو اس کے حقوق پہنچیں گے اسی طرح والدین اپنی اولاد کے حقوق (یعنی اس کی صحیح تعلیم و تربیت کا بندوبست کرے) ادا کرے تو اولاد کے حقوق پورے ہوں گے اور اولاد اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرے تو والدین کے حقوق میں کوئی کسر نہ رہ جائے۔ غرض ہر شخص اپنے ذمہ عائد ہونے والے حقوق و فرائض کو پورا پورا ادا کرے تو ہر شخص تک اس کے حقوق اپنے آپ پہنچتے رہیں گے۔ دو طرفہ تعلقات کی خوشگواری و پسندیدگی کا اصل وحقیقی راز یہی ہے کہ ہر فریق اپنی ذمہ داری محسوس کرکے اپنے اوپر عائد ہونے والی ذمہ داریوں کو کما حقہ ادا کرے تو دونوں میں کسی شخص کو بھی حق تلفی کے شکوہ وگلہ کا کوئی موقع نہیں مل سکتا۔
لیکن یہ فکر معاشرے میں اس وقت تک عام نہیں ہوسکتی جب تک اس میں فکر آخرت شامل نہ ہوجائے اور دنیا کی بے ثباتی اور آخرت کی دائمی ولازوال زندگی کا یقین دل کی گہرائی میں اتر کر عملی زندگی میں اس کا مظاہرہ نہ ہونے لگ جائے۔ آج صورت حال یہ ہے کہ ہم عقیدئہ آخرت پر ایمان رکھنے کا زبان سے خواہ کتنا ہی اعلان کرتے ہوں اور کتنی بھی پختگی کے ساتھ اس کا دعویٰ کرتے ہوں لیکن ہماری عملی زندگی یکسر اس سے خالی ہے بلکہ عملی میدان میں اس عقیدے کا کوئی پر تو عموماً نظر نہیں آتا ہماری تمام تر محنتیں، ساری بھاگ دوڑ اور تگ و دو کا محور صرف یہ ہے کہ روپئے پیسے اور مال و اسباب میں اضافہ کیسے ہو اور بینک بیلنس کیسے بڑھ جائے؟ یہی چیز حیات انسانی کا اصل مقصد بن چکی ہے اور یہی ہماری ساری معاشی سرگرمیوں کا آخری پڑاؤ ہے۔
لیکن یہ بات یاد رکھیں کہ صرف مال و دولت کی زیادتی اور مادی اسباب کی کثرت و فراوانی کی بنیاد پر عروج وترقی کی عمارت قائم نہیں رہ سکتی اور معاشرے کا چین سکون حاصل نہیں ہوسکتا اگر مسلمان طریق محمدی اور اسوئہ حسنہ کی پیروی ترک کرکے غیروں کے راستے میں کامیابی تلاش کرے گا تو رفعت وبلندی اور چین وسکون کی جستجو میں دردر کی ٹھوکریں تو ضرور کھائے گا مگر آستانِ یار پر سرخم کئے بغیر اسے یہ دولت حاصل نہیں ہوسکتی ایک مسلمان جب تک اپنے نبی کی پیروی اور اس کے طریقے کو اپنی زندگی کیلئے نمونہ نہ بنائے تو صرف مادی ترقی اور مال ودولت کی فراوانی سے کامیابی کی شاہ راہ پر گامزن نہیں ہوسکتا۔ کیفی مرحوم نے مادہ پرست قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا۔
رفعتوں کی جستجو میں ٹھوکریں تو کھاچکے
آستانِ یار پر اب سرجھکا کر دیکھئے
***
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 7 ، جلد: 94 ، رجب- شعبان 1431 ہجری مطابق جولائی 2010 ء