حرفِ آغاز

حبیب الرحمن اعظمی

مرد وعورت کا وہ مخصوص حصہٴ بدن جس کو عربی میں ”عورت“ اور اردو و فارسی میں ”ستر“ کہا جاتا ہے، انسان کے ابتدائی عہد یعنی حضرت آدم علیہ الصلوٰة والسلام سے لے کر خاتم الانبیاء محمد رسول اللہ صلى الله عليه وسلم تک، ہر پیغمبر کی شریعت میں اس کا چھپانا فرض رہا ہے، کس عضو بدن کو چھپایا جائے اس کی تعیین و تحدید میں اختلاف ہوسکتاہے کہ ”ستر“ کہاں سے کہاں تک ہے مگر اصل فرضیت ستر میں تمام شریعتیں متفق ومتحد رہی ہیں۔

سترپوشی کا یہ حکم عام ہے جس میں مرد وعورت دونوں برابر ہیں، پھر خلوت وجلوت ہر حال میں یہ ستر پوشی ضروری ہے چاہے کوئی دیکھنے والا ہو یا نہ ہو بغیر کسی شرعی وطبعی ضرورت کے تنہائی میں بھی ننگا ہونا مرد وعورت کسی کے لئے جائز نہیں ہے۔

سترپوشی کا یہ حکم درحقیقت انسانیت سے تعلق رکھتا ہے انسان اپنی انسانیت پر قائم رہتے ہوئے ننگے پن کو گوارا نہیں کرسکتا ہے، کسی نہ کسی حد تک وہ اپنے مخصوص اعضاء کو بہرحال چھپائے رکھنے کو ضروری سمجھتا ہے۔

اسی سے ملتا جلتا ایک مسئلہ اور ہے جسے حجاب مرأة اور پردئہ نسواں سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یعنی عورت کا اجنبی مرد سے پردہ کرنا۔ یہ سترپوشی کے مسئلہ سے الگ ہے، اس مسئلہ میں بھی اتنی بات تو تمام انبیاء، صلحاء، رشیوں، منیوں اور شریف لوگوں میں ہمیشہ سے رہی ہے کہ مردوں سے عورتوں کا بے محابا اور بلا خوف و تأمل اختلاط اور میل وملاپ نہ ہو، خود ہمارے ملک ہندوستان میں، ہندو دھرم، بدھ مت وغیرہ مذاہب اور دھرموں کے پیروکاروں میں مردوں اور عورتوں کے درمیان بغیر کسی روک ٹوک کے ملنا جلنا گوارا نہیں کیاجاتا تھا، اور تو اور یہ یورپ وامریکہ جو اختلاطِ مرد وزن کے سب سے بڑے داعی ہیں جنھوں نے عورت کو گھر سے نکال کر اور اسے بے پردہ کرکے بازاروں اور گلی کوچوں میں لاکھڑا کردیا ہے انھوں نے بھی مذہبی اور دینی شرافت کے حدود اور قدیم روایات کو توڑ کر ہی یہ سب کچھ کیا ہے۔

کوئی ہوشمند اس بات سے انکار نہیں کرسکتا ہے کہ مردوزن کا بے روک میل وملاپ اخلاقی تباہ حالی اور بے حیائی و فحش کاری کا سب سے بڑا ذریعہ ہے، اس لئے شرافت پسند معاشرے میں اس اختلاط کو کبھی بھی اچھی نظر سے نہیں دیکھا گیا ہے۔ کیونکہ یہ انسانی دنیا جب سے وجود میں آئی ہے اس میں کوئی قوم اور کوئی مذہب ایسا نہیں ملے گا جس میں جنسی انارکی اور فواحش بدکاری کو اچھا اور جائز سمجھا جاتا ہو؛ بلکہ پوری دنیا اور سارے مذاہب اس جرم کی قباحت اور برائی پر متفق وہم رائے ہیں، البتہ بہت سی قوموں اور مذہبوں میں فواحش،اور ناجائز جنسی تعلقات کی ممانعت کے باوجود ان کے اسباب و ذرائع پر چنداں توجہ نہیں دی جاتی اورنہ ان پر بندش لگائی جاتی ہے۔

جبکہ مذہب اسلام میں جرائم ومعاصی کو حرام ٹھہرانے کے ساتھ ان اسباب و ذرائع کو بھی ممنوع و حرام قرار دیاگیا ہے جو بطور عادت جاریہ کے ان جرائم تک پہنچانے والے ہیں، جیسے شراب کو حرام کیاگیا تو شراب کے بنانے، بیچنے، خریدنے اور کسی کو دینے کو بھی حرام کردیاگیا، سود کو حرام کیاگیا تو سود سے ملتے جلتے سارے معاملات کو بھی ناجائز کردیاگیا۔ اسی طرح جب ناجائز جنسی تعلق اور زنا کو حرام کیاگیا تو اس کے قریبی اسباب و مقدمات پر بھی پابندی لگادی، چنانچہ اجنبی عورت کو شہوت اور بری نظر سے دیکھنے کو آنکھوں کازنا، غلط ارادے سے ان کی بات سننے، کو کانوں کا زنا، اس کے چھونے کو ہاتھوں کا زنا اور اس کے پاس جانے کو پیروں کا زنا کہا گیا۔ صحیح مسلم کی حدیث میں ہے:

العینان زناہما النظر، والاذنان زناہما الاستماع، واللسان زناہ الکلام، والید زناہما البطش، والرجل زناہما الخطٰی.

آنکھوں کا زنا (اجنبیہ کو شہوت سے) دیکھنا ہے، کانوں کا زنا اس کی باتوں کی طرف کان لگانا ہے، زبان کا زنا اس سے گفتگو کرنا ہے، ہاتھ کا زنا اس کو چھونا وپکڑنا ہے، پیروں کا زنا اس کی طرف جانا ہے۔

ظاہر ہے کہ یہ سب امور حقیقتاً زنا نہیں ہیں لیکن اس کے اسباب و مقدمات ہیں اس لئے انہیں زنا سے تعبیر کرکے ان کی حرمت کی طرف متنبہ کیاگیا ہے۔

چنانچہ شہوانی جرائم سے بچانے کے لئے شریعت اسلام میں بطور سدّ وذرائع کے پردئہ نسواں کے احکام نافذ و جاری کئے گئے، اس سلسلے میں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ شریعت اسلام نے جن کاموں کو گناہ کا سبب قریب قرار دے کر حرام کردیا ہے وہ تمام مسلمانوں مرد وعورت کے لئے حرام ہیں خواہ وہ کام کسی کے لئے گناہ میں مبتلا ہونے کا سبب بنیں یا نہ بنیں۔ اب وہ بجائے خود ایک حکم شرعی ہیں جس پر عمل سب کے لئے لازم ہے۔

پھر اس حجاب شرعی کے درجات ہیں جو حسب ذیل ہیں:

پہلا درجہ: حجاب ذات کا ہے کہ عورت اپنے آپ کو اجنبی مردوں سے پردے میں رکھے۔ قرآن وحدیث کی رو سے اصل پردہ یہی ہے، آیت پاک ”واِذَا سَأَلْتُمُوْہُنَّ مَتَاعًا فَاسْئَلُوہن مِنْ وَّرَاءِ حجاب“ اور جب ان سے کوئی چیز مانگو تو پردے کے باہر سے مانگا کرو۔ اور ”وَقَرْن فِی بُیُوتِکُنَّ“ اور اپنے گھروں میں ٹھہری رہو۔ سے اسی پردہ کو بیان کیاگیا ہے کہ شریعت کا اصل مطلوب یہ ہے کہ عورت گھروں میں رہیں، بغیر کسی شرعی یا طبعی ضرورت کے گھروں سے باہر نہ نکلیں۔

دوسرا درجہ: بوقت ضرورت جب گھر سے باہر نکلیں تو برقع یا لمبی چادر کو سرسے پیر تک اوڑھ کر نکلیں کہ بدن کا کوئی حصہ ظاہر نہ ہو۔

یَا اَیُّہَا النَّبِیُّ قُلْ لِاَزْوَاجِکَ وَبَنَاتِکَ وَنِسَاءِ الْمُوٴْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْہِنَّ مِنْ جَلاَبِیْبِہِنَّ“ اے نبی اپنی ازواج مطہرات، بنات طاہرات اور عام مسلمانوں کی عورتوں کو حکم دیدیں کہ نیچی کرلیا کریں اپنے اوپر تھوڑی سی اپنی چادریں۔

جلباب عربی زبان میں اس چادر کو کہتے ہیں جس میں عورت سر سے پیر تک اپنے آپ کو ڈھانک سکے۔ حضرت علی مرتضیٰ اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کے علوم کے وارث تابعی کبیر عبیدہ سلمانی رحمہ اللہ نے جلباب کے استعمال کی یہ صورت بیان کی ہے کہ عورت سر سے پیر تک اس میں لپٹی ہو چہرہ اور ناک بھی اس سے چھپے ہوں، صرف ایک آنکھ راستہ دیکھنے کے لئے کھلی ہو، بروایت ابن ابی طلحہ ترجمان القرآن حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی استعمال جلباب کی یہی کیفیت منقول ہے۔ حافظ ابن جریر طبری رحمة الله عليه نے اپنی تفسیر میں یہ دونوں روایتیں نقل کی ہیں۔

حضرت عبیدہ سلمانی رحمة الله عليه کی اسی تفسیر کو جمہور سلف نے قبول کیا ہے چنانچہ فقہائے اربعہ میں سے امام مالک رحمة الله عليه، امام شافعی رحمة الله عليه اور امام احمد رحمہم اللہ مطلقاً عورت کو اجنبی مرد کے سامنے چہرہ کھولنے کی اجازت نہیں دیتے ہیں اور فقہائے احناف میں شمس الائمہ سرخسی، اور ابوبکر جصاص رازی وغیرہ اکابر فقہاء نے بھی اسی قول کو اختیار کیا ہے، اس لئے کہ اجنبی عورت کو بے پردہ دیکھنے کی حرمت خوف فتنہ کی بنا پر ہے اور یہ فتنہ ظاہر ہے چہرہ کے دیکھنے میں دیگر اعضاء کے مقابلہ میں زیادہ ہے کیونکہ اکثر محاسن چہرہ ہی میں ہیں۔

اور آج کے دور میں جبکہ مغربی طرز معاشرت نے جنسی انارکی کو کوچہ وبازار ہی نہیں بلکہ محفوظ گھروں کی چہاردیواریوں تک پہنچادیا ہے مسلم خواتین کے لئے اپنی اسلامی عفت اور پاکدامنی کی حفاظت کے لئے پہلے سے بھی زیادہ اسلامی حجاب اور پردہ کی رعایت ضروری ہے۔ انھیں یہ نہیں دیکھنا ہے کہ دنیا اور اہل دنیا کیا کرتے اور کیا کہتے ہیں بلکہ انھیں یہ دیکھنا چاہئے اللہ اور اس کے پیارے رسول کیا فرماتے ہیں۔ فقہائے اسلام اور محدثین عظام نے قرآن وحدیث کے منشاء و مراد کو کیا بیان کیا ہے اسی میں ان کے دین و دنیا کی بہتری وبھلائی ہے۔ اور یہی ان کی فطری حیاء کا تقاضا بھی ہے۔ اور ترقی نسواں کے پرفریب پروپیگنڈہ سے ہوشیار رہیں کہ یہ ترقی درحقیقت ترقی معکوس ہے جس نے عورت کو گھر کی ملکہ کے منصب سے محروم کرکے دفتروں میں نوکرانی بنادیا ہے اور اس کی ذات سے لے کر اس کی تصویروں تک کو مردوں کے کاروبار کا ذریعہ بنادیاہے، اس نام نہاد ترقی نے صنف نازک کو اس قدر برسربازاررسوا کیا ہے جس کی مثال تاریخ کے کسی دور میں نہیں ملتی۔

”سمجھو زمانہ چال قیامت کی چل گیا“

***

ماهنامه دارالعلوم ، شماره 4 ، جلد: 94 ، ربيع الثانى – جمادى الاول 1431 هـ مطابق اپریل 2010 ء

Related Posts