قسط اوّل

مولانا حذیفہ وستانوی

مسائل

 (۱) شریعت اسلامیہ نے علم طب سیکھنے ،سکھانے، اور اس کے اطلاق کونہ صرف مباح بلکہ مصالح عظیمہ ومنافع جلیلہ یعنی صحت کی حفاظت، اور امراض کے ضرر سے بدن کو بچانے کی بناء پر فرض کفایہ قرار دیا ہے ۔ (احکام الجراحة الطبیة،ص:۷۷)

(۲) اعضاء انسانی کی چیر پھاڑ کرنا ناجائز و حرام ہے، البتہ بوقت ضرورت علماء کرام نے میڈیکل سرجری (آپریشن ) کرنے کی اجازت دی ہے ۔(ص:۸۴)

مسئلہ: میڈیکل سرجری بسا اوقا ت مریض کی موت وہلاکت، یا کسی عضو کے تلف ہونے کا سبب بن جاتی ہے، اسلئے فقہاء کرام نے اس کی مشروعیت وجواز کیلئے آٹھ شرطیں بیان کی ہیں، (۱) سرجری مشروع وجائز ہو، (۲) مریض سرجری کا محتا ج ہو، (۳) مریض اس کی اجازت دے، (۴) سرجن اور اس کے اعوان واہلکار وں میں اہلیت کاملہ موجود ہو ، (۵) سرجن کو سرجری کے کامیابی کا غالب گمان ہو، (۶) سرجری کا ایسا متبادل نہ پائے جو ضرر میں اس سے خفیف ہو، (۷) سرجری پر مصلحت مرتب ہو، (۸) سرجری کی وجہ سے ایسا ضرر لاحق نہ ہو جو موجودہ بیماری کے ضرر سے بڑا ہو۔

مسئلہ: اگر تجربہ کار سرجن کو میڈیکل سرجری کی وجہ سے مریض کے ہلاک ہونے کا غالب گمان ہو تو اس وقت میڈیکل سرجری حرام ہوگی ۔(۱۰۲)

مسئلہ: اگر مریض میں اہلیت اذن نہ ہو، تو اسکے ولی کی اجازت کافی ہے۔ (ص:۱۰۹)

مسئلہ: سرجن میں اہلیت کاملہ کیلئے دو شرطیں ہیں: (۱) وہ مطلوبہ سرجری میں علم و بصیرت رکھتا ہو، (۲) اس کی تطبیق اور بہترین طریقے سے اسے پورا کرنے پر قادر ہو۔ (ص: ۱۱۲)

مسئلہ: سرجن میں اہلیت کاملہ ہونے کے باوجود وہ آپریشن میں کامیاب نہ ہو، اور آپریشن سے مریض کو ضرر لاحق ہوجائے، یا وہ مرض دوسرے اعضاء کی طرف سرایت کرجائے تو سرجن ضامن نہیں ہوگا۔ (ص: ۱۱۳)

مسئلہ: اگر سرجری پر مرتب ہونے والا ضرر موجودہ مرض کے ضرر سے بڑھ کر ہو، تو ایسی سرجری کرنا، وکرانا دونوں حرام ہیں، کیوں کہ قاعدہ فقہیہ : ”الضرر لایزال إلا بمثلہ “ کہ ضرر کو ضرر سے زائل نہیں کیا جاتا ۔(ص: ۱۲۴)

مسئلہ: اگر سرجری پر مرتب ہونے والا ضرر موجودہ مرض کے ضرر سے کم ہو تو ایسی سرجری کرنا وکرانا دونوں جائز ہیں، اسلئے کہ قاعدہ ہے: ”إذا تعارض مفسدتان روعی أعظمہا ضرراً بإرتکاب أخفہما“ ، کہ جب دو ضرر جمع ہوجائیں تو ان دونوں میں سے أخف کو اختیار کرلیا جائے گا۔ (ص: ۱۲۴)

سرجری (آپریشن )کی قسمیں باعتبار حلت وحرمت

مسئلہ: چھ قسم کی سرجری جائز ہے، اور بسااوقات سرجری کرنا لازم وضروری بھی ہوتا ہے:

(۱) عمل جراحی (Operation) بربنائے علاج : وہ آپریشن جو بغرض علاج کے کیا جائے۔

(۲) عمل جراحی برائے تشخیص امراض : (Surgical Diagnosis) وہ سرجری جو تشخیص مرض کیلئے کی جائے۔

 (۳) عمل جراحی برائے ولادت: (Surgical Accouchement)

وہ سرجری جو بوقت ولادت ، حاملہ ، اور جنین یا ان دونوں میں سے کسی ایک کو ہلاکت سے بچانے کے خاطر کی جائے۔

 (۴)          عملِ جراحی برائے ختنہ: (Surgical Phimosiectomy) ختنہ کرنا۔

 (۵)         جراحتِ دماغ صغیرہ برائے عمل (پریکٹیکل) : (Small Brain Practical Operation)

وہ سرجری جو لاشوں پر بطور پریکٹکل کی جاتی ہے ۔

(۶) جراحی حسن وزیبائش (Cosmetic Surgery) بربنائے ضرورت وحاجت: وہ سرجری جو بوقت حاجت اعضاء سے ضرر کو دور کرنے کیلئے کی جاتی ہے، اور نتیجةً اس سے حسن حاصل ہوتا ہے۔

میڈیکل سرجری (Medical Surgery)کی قسموں کا بیان مع تعریفات واحکام

(الف) عمل جراحی (Esseulial Surgery) بربنائے علاج و ضرورتِ شدیدہ: مریض کی حالت بر بنائے مرض اتنی خستہ ہو چکی ہو کہ اگر سرجری نہ کی جائے تو اسی مرض میں مریض کی موت واقع ہوجائے تو اس مرض کو دور کرنے اور اپنی جان کی حفاظت کیلئے سرجری کرنا فرض ولازم ہے، اس طرح کی سرجری کو الجراحة العلاجیة الضروریة کہا جاتا ہے ۔ (ص: ۱۳۳/۱۳۴)

(ب) عمل جراحی (Esseulial Surgery) بربنائے علاج وضرورتِ خفیفہ : وہ بیماری جس میں مریض کی موت وہلاکت کا خوف ہو، یا اس مرض کی شدت میں اضافہ کا خوف ہو، تو ایسے بیماری کو ختم کرنے کیلئے جو سرجری کی جاتی ہے اس کو ” الجراحة العلاجیة الحاجیة “ کہتے ہیں۔

اس سرجری کی دو قسم ہے:

(۱) ایسی بیماری جس کی وجہ سے مریض کو سخت ضرر پہونچتا ہو، خواہ وہ ضرر دائمی ہو یا وقتی ہو۔ ایسی بیماری ، جس سے فی الحال اس کا کوئی ضرر نہ ہو، لیکن مستقبل میں ضرر کا خوف ہو، اور اس خوف کا حدوث متوقع ہو، شک اور وہم کے درجہ میں نہ ہو، بایں طور کہ اگر سرجری نہ کیجائے تو یہ مرض اس کے کسی عوض کو لاحق ہو کر اس عضو کی منفعت کو بالکلیہ ختم کردے ۔(ص: ۱۴۰/۱۴۴)

ایسے مریض کیلئے ان حالتوں میں سرجری کے جواز پر علماء کا اتفاق ہے ۔

(ج) جراحات صغری برائے علاج ومعالجہ :(Minor Surgery) ایسی بیماری کا آپریشن کرنا جو نہ ضرورت کے درجے کو پہونچے اورنہ حاجت کے، بایں طور کہ وہ مرض انسان کو نہ موت تک پہونچا سکتا ہو اور نہ اس میں موت کا خوف ہو، لیکن اس مرض کو یونہی چھوڑے رکھنا تکلیف وپریشانی کا سبب بن سکتا ہو، اور یہ تکلیف وپریشانی متوقع ہو، جیسے ناک میں زائد گوشت کا بڑھ جانا ، اگر اس زائد گوشت کو نہ نکالا جائے تو یہ بڑھ کر تکلیف ومشقت کا سبب بن سکتا ہے، اسلئے آپریشن کی یہ صورت شرعاً جائز ہے ۔(ص: ۱۴۸/۱۴۹)

(۲) عمل جراحی برائے تشخیص امراض : (Surgical Diagnosis) ایسی سرجری جس سے مرض کی تشخیص کی جاتی ہے، شرعاً یہ سرجری جائز ہے، لیکن اگر مرض کی تشخیص کیلئے کوئی آسان متبادل شکل موجود ہو، جیسے سونو گرافی وغیرہ تو پھر اس صورت کو اختیار کرنا جائز نہیں ہوگا۔ (ص: ۱۵۱/۱۵۳)

(۳) عمل جراحی برائے ولادت (Surgical Accouchement): وہ سرجری جس میں بذریعہ آپریشن بچے کو اس کے ماں کے پیٹ سے نکالا جاتا ہے، خواہ وہ کامل الخلقت ہو، یا ناقص الخلقت ہو، اس سرجری کی دو حالتیں ہیں :

(۱) حالت ضروریہ: یہ وہ حالت ہے جس میں بچہ یا حاملہ دونوں کی یا ان دونوں میں سے کسی ایک کی جان خطرے میں ہو، اس حالت میں سرجری کرنا جائز ہے ، جیسے حاملہ کی وفات کے بعد اگر جنین زندہ ہو تو اس حالت میں بذریعہ آپریشن بچہ کا نکالنا جائز ہے ۔

(۲) حالت حاجیہ: یہ وہ حالت ہے کہ طبعی طور پر بچے کی ولادت متعذر ہو نے کی وجہ سے بطریق سرجری بچے کو نکال لیا جاتا ہے، اس طرح نہ کرنے کی صورت میں بچے یا حاملہ کی ہلاکت کا خوف ہوتا ہے ، اس حالت کا حکم ڈاکٹر (آپریشنر) کی تقدیر رائے پر موقوف ہے، اگر ڈاکٹر کو عورت کے ولادت طبعی کی مشقت برداشت نہ کرنے ، یا پھر بچے کو ضرر لاحق ہونے کا گمان غالب ہو، تو اس صورت میں بچے کو بذریعہ سرجری نکالنا جائز ہے، اور اگر ڈاکٹر کا غالب گمان اس کے برعکس ہو تو سرجری کرنا جائز نہیں ہے ۔(ص: ۱۵۸)

(۴) عملِ جراحی برائے ختنہ (Surgical Phimosiectomy): وہ سرجری جس میں مرد کے عضوِ خاص کی اس چمڑی کو جو حشفہ کو چھپائے ہوتی ہے، اور عورت کے فرج کے اعلی حصہ کے ادنی جز کو کاٹا جاتا ہے ، احناف کے نزدیک ختنہ کرنا مسنون ہے۔ (ص: ۱۵۹)

اس لئے سرجری کی یہ صورت نہ صرف جائز بلکہ مسنون ہے ۔

(۵) جراحی تشریح الأعضاء(Surgical Anatomy): وہ سرجری جو فن طب میں نظری وعملی اعتبار سے مہارت حاصل کرنے کیلئے مردہ لاشوں پر بطور پریکٹیکل کی جاتی ہے ، اس سرجری کے جواز وعدم جواز میں علماء کا اختلاف ہے ۔

قول اول: علم طب سیکھنے کی غرض سے مردہ لاشوں کی چیر پھاڑ کرنا جائز ہے اس کے قائلین: (۱) ہیئة کبار العلماء بالمملکة العربیة السعودیة، (۲) مجمع الفقہ الإسلامی بمکة المکرمة ، (۳) لجنة الإفتاء بالمملکة الأردنیة الہاشمیة ، (۴) لجنة الإفتاء بالأزہر بمصر۔

قول ثانی: بغرض تعلیم مردہ لاشوں کی چیر پھاڑ کرنا جائز نہیں ہے، اور اس کے قائلین بھی علماء کی ایک جماعت ہے، جیسے: شیخ محمد بخیث المطیعی، والشیخ محمد برہان الدین السنبلی۔

نوٹ: یہی رجحان علماء دیوبند کا ہے، کہ انسان کی لاش کی چیر پھاڑ کرنا جائز نہیں ہے، اس کی تفصیل دیکھیئے:(منتخبات نظام الفتاوی:۱/۴۱۲، فتاوی محمودیہ: ۱۸/۳۴۳، جدید مسائل کا حل: ۹۹، احسن الفتاوی)

مسئلہ: لاش کی خریدو فروخت کرنا جائز نہیں ہے، خواہ لاش مسلمان کی ہو یا کافر کی ہو، اس لئے کہ صحت بیع کیلئے مبیع کا بائع کی ملک میں ہونا ، یا بائع کا اس مبیع میں وکیل ہونا شرط ہے، اور یہاں لاش نہ بائع کی ملک ہوتی ہے، اور نہ بائع اس کے مالک کی جانب سے وکیل ہوتا ہے، اسلئے شرعاً لاش کی بیع وشراء جائز نہیں ہے۔ (ص: ۱۸۰)

حیلہ: صاحب” احکام الجراحة الطبیة “ نے لاش حاصل کرنے کا ایک جائز طریقہ ذکر کیا ہے، کہ لاش لینے والا لاش دینے والے سے عقد اجارہ کرلے، اور لاش کی قیمت کو لاش دینے والے کی محنت ، تلاش اور نقل وحرکت کی اجرت قرار دے ۔(ص: ۱۸۰)

مسئلہ: جنائی پوسٹ مارٹم، (تحقیق جرائم کیلئے کیا جانے ولا پوسٹ مارٹم )اور وہ پوسٹ مارٹم جو اسبابِ موت کو معلوم کرنے کیلئے کیا جاتا ہے، اس خوف سے کہ اس کی موت کا سبب کوئی وبائی مرض ہو، تو اس مرض کو معلوم کرکے دوسرں کے صحت کی حفاظت کی جائے، پوسٹ مارٹم کی ان دونوں قسموں کے بارے میں مملکت سعودیہ عربیہ کے علماء عظام نے ان کے جواز کا فتویٰ دیا ہے۔(ص: ۱۸۱)

(۶) جراحة التجمیل الحاجیة: جب انسان کے کسی عوض میں کوئی نقصان پیدا ہو ، یاکوئی عضو تلف ہوجائے، یا مسخ ہوجائے، تو اس کی درستگی کیلئے سرجری کرانا جراحة التجمیل الحاجیة کہلاتا ہے۔

اس کی دو قسم ہے:       (۱) ضروری                 (۲) اختیاری

(۲)          ضروری: ان عیوب کی سرجری کرانا جو انسان کیلئے باعثِ ضرر ہو، خواہ وہ عیوب پیدائشی ہوں ، جیسے: اوپر کے ہونٹوں کا پھٹاہوا ہونا، اور ہاتھ ، پیر کی انگلیوں کا ملا ہوا ہونا، یا وہ عیوب بعد میں پیدا ہونے والے ہوں، جیسے: آگ میں جلنے کی وجہ سے جلد کا خراب ہونا، اور ہتھیلی کی انگلیوں کا مل جانا، یہ عیوب ضررحسی ومعنوی دونوں کو شامل ہیں، اور ضرر موجب ترخیص ہے، لہٰذا یہ بمنزلہٴ حاجت کے ہے، اور حاجت کبھی بمنزلہٴ ضرورت ہوتی ہے، بربنائے قاعدہ فقہیہ : ”الحاجة تنزل منزلة الضرورة عامة کانت أو خاصة “، لہٰذا ان عیوب کو دور کرنے کیلئے سرجری کرنا جائز ہے۔

سرجری کی اقسام باعتبار حرمت

باعتبار حرمت کے سرجری کی تین قسمیں ہیں:

 (۱) عملیہٴ خوش وضعی، عملیہٴ خوشنمائی (Shapely Surgery)

(۲) عملیہٴ تبدیلیٴ جنس (Sex Changing Surgery)

(۳) عملیہٴ حفظ ما تقدم ”عملیہ تحفظی“ (Bullet Proof Surgery)

عملیہ خوش وضعی، عملیہٴ خوشنمائی (Shapely Surgery) : وہ سرجری جو اعضاء کی خوبصورتی ، یا بڑھاپے کو زائل کرنے کیلئے کی جاتی ہے ۔

اس جراحت کی دو قسم ہے:

(۱) عملیہٴ جراحی برائے شکل سازی (Shape Making Surgery ): شکل وصورت بدلنے والی سرجری، جیسے : تغییر کرکے آنکھ کو خوبصورت بنانا،ٹھوڑی کو خوبصورت بنانا۔

 (۲) عملیہٴ شباب آور، عملیہ تشبیب ،عملیہ شباب ساز(Young Making Surgery): وہ سرجری جو بڑھاپے کے آثار چھپانے کیلئے کی جاتی ہے ۔

اس قسم میں سرجری کیلئے نہ کوئی ضرورت ہوتی ہے، اور نہ کوئی حاجت ہوتی ہے، بلکہ محض تغییر فی خلق اللہ ہوتا ہے، اور اپنی خواہش وشہوت کو پورا کرنا ہوتا ہے، لہٰذا اس طرح کی سرجری کرنا غیر مشروع وناجائز ہے۔ (ص: ۱۹۱/ ۱۹۳)

عملیہٴ تبدیلیٴ جنس (Sex Changing Surgery) وہ سرجری جس میں مرد کو عورت اور عورت کو مرد بنایا جاتا ہے، اور یہ عمل بہت سے محرمات پر مشتمل ہے، مثلاً: تشبہ من جنس غیرہ، اور غیر کے سامنے بلا ضرورت اپنے ستر کو کھولنا، اور ان کی حرمت قرآن وحدیث سے صراحةً ثابت ہے، ان وجوہات کی بناء پر فقہاء نے اس سرجری کو حرام قرار دیا ہے ۔

عملیہٴ حفظ ما تقدم ”عملیہ تحفظی“ (Bullet Proof Surgery): ایسی بیماری کی سرجری کرنا جس میں مستقبل میں ضرر لاحق ہونے کا احتمال ہو، اس کی دو قسمیں ہیں:

(۱)          احتمال، غلبہٴ ظن کے درجہ کا ہوتو اس کا حکم گزرچکا ہے۔

(۲)         احتمال، محض وہم اور شک کی حد تک ہو، جیسے: صحت وتندرستی کی حالت میں محض مستقبل میں ضرر کا خوف کرتے ہوئے اپنڈیکس کا آپریشن کرنا، حرام ہے، اس لئے کہ حکم شرعی یقین پر دائر ہوتا ہے، شک اور وہم پر نہیں

۔

مسئلہ: ایکسرے کے ذریعہ سے طبی جانچ کرانا بہت ساری خرابیوں پر مشتمل ہے، مثلاً: جلد کے خراب ہونے کا خطرہ ہے، اور بعض کتابوں میں اسے کینسر اور دیگر امراض کے پیدا ہونے کا سبب بھی ذکر کیا گیا ہے، لیکن اس کے باوجود بوقت حاجت جب کہ تشخیص مرض کا کوئی متبادل موجود نہ ہو، تو شریعت نے ایکسرے نکالنے کی اجازت دی ہے، جیسے: پیٹ، تلی اور پتے وغیرہ کے امراض میں۔

تشخیص کے احکام

مسئلہ: تشخیص وہ فن یا وہ راستہ ہے، جس سے مرض کی نوعیت کا جاننا آسان ہوتا ہے، تشخیص کی یہ تعریف دوباتوں پر مشتمل ہے، (۱) تشخیص طب کا ایک فن ہے، (۲) تشخیص کا مقصد مرض کو پہچاننا ، اور یہ دونوں چیزیں بڑی اہم ہیں، اس فن کو حاصل کرنے کیلئے اس کے اسپیشلسٹ ڈاکٹروں کی صحبت اختیار کرنا ضروری ہے، اس فن کو سیکھے بغیر مرض کی تشخیص کرنا جائز نہیں ہے۔(ص: ۲۳۲،۲۳۳)

مسئلہ: تشخیص سے حاصل ہونے والے علم کی چار صورتیں ہیں:

(۱) مرض کا یقین ہو، تو اس یقین کے مطابق اس مرض کا جو بھی علاج ہو کرنا درست ہوگا ، اگرچہ سرجری ہو ۔

(۲) مرض کا ظن غالب ہو، اس صورت میں ظن غالب کا اعتبار ہوگا، شک کی طرف التفات نہیں کیا جائے گا، اور علاج کرنا جائز ہوگا، اگرچہ سرجری ہو۔

(۳) مرض کا شک ہو ، اس صورت میں توقف کرے، اگر مریض یا ڈاکٹر شک والی تشخیص کو بنیاد بنا کر سرجری کرنا چاہے تو جائز نہیں ہے، یہاں تک کہ شک والا پہلو ختم ہوکر کسی جہت کا غالب گمان ہوجائے ۔

(۴) مرض کا وہم ہو، اس صورت میں بھی طبیب اور مریض کیلئے مرض موہوم کا آپریشن سے علاج کرنے کی اجازت نہیں ہے، اسلئے کہ اس صورت میں غالب گمان بیماری کا نہ ہونا ہے، اور اعتبار غالب گمان کا ہوتاہے ۔(ص: ۲۳۵/۲۴۰)

مسئلہ: سرجری کے مباح ہونے کیلئے اذن شرع واذن مریض یا ولی، دونوں کا ہونا ضروری ہے، اذن شرع سے مراد اس سرجری کا محرمات میں سے نہ ہونا ۔ (ص: ۲۴۰)

مسئلہ: میڈیکل سرجری کیلئے اجازت دینے کی دو قسمیں ہیں:

(۱) اذن مطلق: وہ یہ ہے کہ مریض ڈاکٹر سے کہے کہ آپ جو بھی مرض پائیں اس کا جس طرح علاج کرسکتے ہیں،میری جانب سے اس کی اجازت، کسی ایک مرض کی سرجری کے ساتھ مقید نہ کرے ۔

(۲) اذن مقید: وہ یہ ہے کہ مریض ڈاکٹر کو کسی خاص مرض کے سرجری کی اجازت دے، اجازت کی دونوں قسمیں شرعاً معتبر ہیں ۔(ص: ۲۴۲)

مسئلہ: مریض کی اجازت قبول کرنے کیلئے اس میں دو شرطوں کا پایا جانا ضروری ہے:(ا) اہلیت (۲) ابتداء اذن پر مریض کا قادر ہونا ۔ (ص: ۲۴۴)

مسئلہ: اگر مریض کے اندر یہ دو شرطیں پائی جائیں تو اس کے اولیاء کی اجازت قابل قبول نہیں ہوگی ۔ (ص: ۲۴۵)

مسئلہ: ولایت علی الغیر اس وقت معتبر ہے جبکہ وہ غیر اپنے مصالح کو پورا کرنے سے عاجز ہو ۔ (ص: ۲۴۶)

مسئلہ: مریض پر ولایت کا اعتبار اسی وقت ہوگا جبکہ مریض میں اہلیت اذن نہ ہو۔ (ص: ۲۴۶)

مسئلہ: اذن میں اولیاء کی ترتیب وہی ہوگی جو عصبیت میں ہوتی ہیں ۔(ص: ۲۴۸)

مسئلہ: اگر اولیاء میں ولی اقرب موجود ہو تو ولی ابعد کی اجازت کا اعتبار نہیں ہوگا ۔ (ص: ۲۴۹)

مسئلہ: آذن (یعنی اجازت دینے والا) عاقل، بالغ ہو ۔ (ص: ۲۵۰)

مسئلہ: بچے، مجنون، اور نشے میں چور شخص کی اجازت قابلِ قبول نہیں ہوگی ۔ (ص: ۲۵۰)

اجازت قبول کرنے کی چھ شرطیں ہیں:

(۱)          اجازت صاحب حق کی جانب سے ہو، اور وہ مریض یا اس کا ولی ہے ۔

 (۲)          اجازت دینے والے میں اہلیت اذن متحقق ہو۔

 (۳)          اجازت دینے والا مختار ہو، اکراہاً اس سے اجازت نہ لی جائے ۔

(۴)          اس کی اجازت عمل جراحة یعنی سرجری ہی میں ہو، اگر وہ دواء وغیرہ سے علاج کی اجازت دے تو یہ اجازت سرجری کیلئے کافی نہیں ہے۔

 (۵)          اجازت کے الفاظ میں سرجری پر دلالت صراحةً ہو، یا اس کی قائم مقام ہو۔

 (۶)          ماذون بہ یعنی جس سرجری کی اجازت دی جارہی ہے وہ شرعاً جائز ہو، محرمہ میں سے نہ ہو، جیسے: تغییر جنس کی سرجری ۔ (ص: ۲۵۲، ۲۵۴)

مسئلہ: جب مریض میں اجازت کیلئے ذکر کردہ پوری شرائط پائی جاتی ہوں اور اس سے اجازت طلب کی جائے تو اجازت دینا مستحب ہے ۔ (ص:۲۵۶)

مسئلہ: اگر مریض کی ہلاکت کا ، یا اس کے کسی عضو کے تلف ہونے کا خوف ہو، اور اس سے آپریشن کیلئے اجازت طلب کیجائے، اور وہ اجازت نہ دے، اور اسی مرض کی وجہ سے مر جائے تو وہ اپنے آپ کو قتل کرنے والا شمار نہیں ہوگا، اسلئے کہ سرجری سے صحت کا ملنا قطعی نہیں ہے، بر خلاف مخمصہ کی حالت کے، کہ اس میں ترک طعام سے گنہگار ہوگا ۔ (ص: ۲۶۱)

مسئلہ: دو حالتوں میں ڈاکٹر کو مریض اور اس کے ولی کی اجازت کے بغیر سرجری کرنا جائز ہے، (۱) اگر بالفور سرجری نہ کیجائے تو مریض کی موت، یا کسی عضو کے تلف ہوجانے کا خطرہ ہو، (۲) مریض کا مرض ، وبائی امراض میں سے ہو، کہ اس کے پورے سوسائٹی میں پھیلنے کا اندیشہ ہے۔ (ص: ۲۶۲)

(Anesthesia) عمل تخدیر یعنی بے ہوش کرنے کے احکام

مسئلہ: بے ہوش کرنا اصلاً حرام ہے، اسلئے اس میں وقتی طور پر عقل زائل ہوجاتی ہے، جیسے کہ افیون، گانجا، حشیش، شراب سے ہوتی ہے، دونوں میں علت ایک ہی ہے، تو حکم بھی ایک ہی ہوگا ۔ (ص: ۲۷۷)

مسئلہ: چند حالتوں میں بے ہوش کرنا جائز ہے، اس کی تین صورتیں ہیں: (۱) ضرروت، (۲) حاجت، (۳) ضرورت وحاجت سے کم ۔

ضرورت: مریض کی ایسی حالت ہو کہ بے ہوش کئے بغیر سرجری کرنا محال ہو، جیسے: ہارٹ کا آپریشن، یا اس جیسے خطرناک آپریشن کہ اگر مریض کو بے ہوش نہ کیا جائے تو دوران آپریشن یا آپریشن کے تھوڑی دیر بعد مریض کی موت کا خوف ہو، تو ایسی صورت میں بے ہوش کرنا جائز ہے ۔ (ص: ۲۸۴)

حاجت: مریض کی ایسی حالت ہو کہ بے ہوش کئے بغیر سرجری کرنا محال نہ ہو، اور نہ ہی اس میں موت وہلاکت کا خطرہ ہو، لیکن مشقت شدیدہ کا سامنا کرنا پڑے، تو اس حاجت کو بمنزلہٴ ضرورت قرار دے کر بے ہوش کرنا جائز ہے ۔

ضرورت وحاجت سے ادنیٰ درجہ: مریض کی ایسی حالت ہو کہ اس کو بیہوش کئے بغیر سرجری کرنا ممکن ہو، اس میں مشقت تو ہو، لیکن ایسی مشقت نہ ہو کہ اس پر صبر کرنا ممکن نہ ہو، تو اس صورت میں بھی مریض پر آسانی کا معاملہ کرتے ہوئے بے ہوش کرنے کی اجازت دی گئی ہے ۔ (ص: ۲۸۵)

جراحتِ عملی کے احکام

مسئلہ: بدن کے کسی عوض کو کاٹنا حرام ہے، لیکن ضرورت وحاجت کے وقت اپنے آپ کو موت وہلاکت، یا مشقت سے بچانے کیلئے جائز ہے ۔ (ص: ۲۹۷)

بواسیر کو کاٹنے کی تین حالتیں ہیں:

(۱)          بواسیر کو کاٹنا حرام ہے، جب کہ اس کو کاٹنے سے ہلاکت کا اندیشہ ہو ۔

(۲)         اس کا کاٹنا مباح ہے: جب کہ اس کے چھوڑے رکھنے سے ہلاکت کا خوف ہو ۔

(۳)          اس کا کاٹنا مکروہ ہے: جب کہ کاٹنے کی صورت میں ہلاکت کا اندیشہ نہ ہو، اور نہ ہی رکھ چھوڑنے کی صورت میں ہلاکت کا اندیشہ ہو ۔ (ص:۳۰۲،۳۰۳)

زائد انگلیوں کو کاٹنے کی دو حالتیں ہیں:

مسئلہ: (۱) زائد انگلیوں کو رکھنے میں کوئی تکلیف نہ ہو، تو اس وقت ان زائد انگلیوں کو کاٹنا جائز نہیں ہے، اسلئے کہ یہ تغییر فی خلق اللہ ہے، اور تغییر فی خلق اللہ حرام ہے ۔ (ص:۳۰۵)

مسئلہ: (۲) زائد انگلیوں کو رکھنے میں تکلیف ہو، اور اس تکلیف کو ختم کرنے کا کوئی دوسرا علاج نہ ہو، سوائے ان انگلیوں کو کاٹنے کے، تو اس صورت میں ضرورتاً ان زائد انگلیوں کو کاٹنا جائز ہے ۔ (ص: ۳۰۸)

ضرورت سے زائد عضو کو کاٹنے کا حکم

مسئلہ: انسان کے عضو کو کاٹنا اصلاً ناجائز وحرام ہے، اور ضرورتاً جائز ہے، تو اس پر واجب ہے کہ جتنی ضرورت ہو اسی پر اکتفاء کرے، زیادہ کاٹنا حرام ہے ۔ (ص:۳۱۱)

(ورم) سوجن کو جڑ سے ختم کرنے کا حکم

مسئلہ: ورم؛ اورام حمیدہ : گوشت یا رگوں میں گانٹھ کا پیدا ہونا، جس کا نمو غیر طبعی ہوتا ہے، یہ کسی آفت یا بیماری کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے، اس کی دو قسمیں ہیں:

(۱) ایسے ورم جو لا علاج نہ ہو ں (Good Swelling) کہلاتے ہیں، یہ وہ سوجن ہے جس کا نمو سست ہوتا ہے، اور اسکو باہر کا غلاف گھیرے ہوئے ہوتا ہے، یہ محدود ہوتی ہے، خون وغیرہ میں منتقل نہیں ہوتی ہے، اس سوجن میں سلامتی غالب ہوتی ہے، اسلئے اسکو جڑ سے نکالدینا جائز نہیں ہے،ان کو ہلکے پھلکے ورم یعنی اورام خفیفہ (Soft Swelling) بھی کہا جاتا ہے۔ (ص: ۲۱۴)

(۲) ایسے ورم جو لا علاج ہوتے ہیں، اورام خبیثہ : (No, Good Swelling) کہلاتے ہیں، یہ وہ سوجن و گانٹھ ہے کہ اس کا نمو تیزی سے ہوتا ہے، اور وہ جسم میں پھیل جاتی ہے، یہ دو مجموعے پر مشتمل ہے:

 (۱) کینسر، (۲) سلحات (Tumour) ،(گوشت میں پیدا ہونے والا ایک خطرناک ورم ہے) کینسر: جس کو ورم سرطان بھی کہا جاتا ہے، اس سوجن میں شدید خطرہ اورعظیم ضرر ہوتا ہے، کہ مریض کو موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے، یہ سوجن خواہ جسم کے کسی متعین حصے میں ہو یا پورے جسم میں پھیل جائے اس کو نکالدینا جائز ہے۔ (ص: ۳۱۶)

مسئلہ: کسی بیماری کی وجہ سی جسم میں گوشت کا بڑھ جانا،اس زائد گوشت کو نکالدینا جسم پر موٴثر ہوتا ہے، اسلئے اس کو نکالنا جائز نہیں ہے، لیکن اگر دواء وغیرہ سے علاج ممکن نہ ہو تو درء المفاسد کے قبیل سے اس کو نکالدینے کی اجازت ہے ۔ (ص: ۳۱۸)

بدن کو چیرنے کا حکم

مسئلہ: عمل جراحی کا ایک مرحلہ الشق ” یعنی بدن کو چیرنا ہے “ بدن کو چیرنا کبھی ضرورةً ہوتا ہے جس میں موت سے بچنا مقصود ہوتا ہے، جیسے حاملہ کے پیٹ کو زندہ یا مردہ بچے کو نکالنے کیلئے چیرنا، جبکہ سرجری نہ کرنے کی صورت میں ان دونوں میں سے کسی ایک، یا دونوں پر ہلاکت کا خوف ہو، اور کبھی بدن کو چیرنا حاجةً ہوتا ہے، جس میں ضرر لاحق، یا ضرر متوقع کا ازالہ کیا جاتا ہے، شق کی یہ دونوں صورتیں شرعاً جائز ہیں ۔

مسئلہ: انسان کے جسموں کی وہ پھٹن جو کسی آفت یا بیماری کی وجہ سے ہوجائے، اور علاجاً اس کو جوڑنا ضروری ہو تو شرعاً ان کو جوڑنا جائز ہے ۔ (ص: ۴۲۷)

مسئلہ: عورت کے پھٹے ہوئے پردہٴ بکارت کو جوڑنا مطلقاً جائز نہیں ہے ۔ (ص: ۴۳۲)

مسئلہ: سرجری کے بعد خون کے جریان کو بند کرنے کیلئے اگر اس عضو کو داغنے کی ضرورت ہو، تو اس عضو کو داغنا جائز ہے، اور ہر ایسی حالت جس میں طبیب داغنے کی ضرورت محسوس کرے تو داغنے کی اجازت ہے ۔ (ص: ۴۳۵)

اعضاء کی پیوند کاری

عضو کو منتقل کرنے اور پیوندکاری میں منقول منہ یعنی جس سے اس کا عضو لیا جارہا ہے، وہ یا تو انسان ہوگا یا حیوان ہوگا ۔

مسئلہ: اگر انسان ہے اور کافر ہے، تو اس کے عضو کو منتقل کرنا سعودی عربیہ کے بڑے علماء کے نزدیک جائز ہے، اور اس کے عضو سے مسلمان کے اعضاء کی پیوندکاری جائز ہے ۔

مسئلہ: گر منقول منہ مسلمان ہے، تو اس کے اعضاء کو منتقل کرناجائز نہیں ہے، خواہ وہ زندہ ہو، یا مردہ ہو، اجازت دے یا نہ دے، کسی بھی صورت میں مسلمان کے عضو کو منتقل کرنا جائز نہیں ہے۔

مسئلہ: گر منقول منہ حیوان (جانور) ہو، اور پاک ہو، جیسے وہ جانور جن کو شرعی طریقے پر ذبح کیا گیا ہو تو ان کے اعضاء کو انسانوں کی طرف منتقل کرنا شرعاً جائز ہے ۔

مسئلہ: ور اگر جانور پاک نہ ہو، تو اس کے اجزاء سے انتفاع، اور ان کوجسم انسانی منتقل کرنا جائز نہیں ہے، مگر بوقت ضرورت، جبکہ کوئی دوسرا پاک عضو نہ مل پائے جائز ہے ۔

الثقب (چھید کرنا، سوراخ کرنا)

مسئلہ: لثقب: چھید کرنا، سرجری کے مرحلوں میں سے ایک مرحلہ ہے، اصلاً ممنوع ہے، اسلئے کہ اس میں جسم کے ایک جزء کو تلف کرنا لازم آتا ہے، لیکن بوقت ضرورت فقہاء نے چھید کرنے کی اجازت دی ہے، جیسے کہ اگر بچے کی مقعد کا راستہ خلقی (پیدائشی ) طور پر بند ہو، تو اس کو کھولنا، اور اگر پیشاب کا راستہ بند ہو تو اس کو کھولنا ۔

مسئلہ: ملیہٴ تجمیل اذن (Ear beautifying Surgery) : عورتوں کی زیب وزینت کیلئے ان کے کانوں میں سوراخ کرنا تاکہ وہ بالیاں لٹکائیں جائز ہے ۔ (ص: ۴۰۷)

مسئلہ: رجری کے درمیان کاٹے ہوئے عضو کو اس کی جگہ پر لوٹانا جائز ہے، اسلئے کہ انسان کا مردار عضو بھی پاک ہے ۔

مسئلہ: حد اور قصاص میں کاٹے ہوئے عضو کو اس کی جگہ پر لوٹانا جائز نہیں ہے، اگرچہ صاحب حق اس کی اجازت دیدے، صحیح تر قول کے مطابق، کیوں کہ اگر اس کی اجازت دی جائے تو مقصدِ حد فوت ہوجائے گا ۔

مسئلہ: مصنوعی اعضاء کے ذریعے سے اعضاء کی پیوندکاری کرنا بوقت ضرورت وحاجت جائز ہے۔

***


ماهنامه دارالعلوم ، شماره 2 ، جلد: 94 صفر – ربیع الاول 1431 ھ مطابق فروری 2010 ء

Related Posts