اسلام ایک کامل ومکمل دین ہے۔ جو دنیائے انسانیت کے لئے خالق کائنات کاایک حسین تحفہ اور بے مثال نذرانہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بنفس نفیس اس کے احکام و قوانین وضع فرمائے ہیں۔ اور یہ احکام و قوانین عین انسانی فطرت سے ہم آہنگ اور موافق ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ خالق انسانیت ہے۔ اسی نے انسانی فطرت اور مزاج تخلیق فرمایا ہے۔ لہٰذا اس سے زیادہ انسان کا مزاج شناش اور فطرت شناش اور کون ہوسکتا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ اسلامی احکام اور قوانین میں جو انسانی مزاج اور فطرت کی رعایت نظر آتی ہے۔ بلاشک و شبہ اس کی نظیر اور مثال دنیائے انسانیت کے کسی قانون اور دستور میں دستیاب نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خود ساختہ انسانی قوانین کا ردوبدل اور ترمیم و تنسیخ کے بھینٹ چڑھنا ہمارا روز مرہ کا مشاہدہ بنا ہوا ہے مگر قوانین اسلام میں اس کی کوئی گنجائش نظر نہیں آتی بلکہ وہ ہر ملک کے باسی اور ہر صدی کے پیدائشی انسان کے مزاج اور فطرت کے موافق و مطابق ہیں۔ فطرت سلیمہ نے کسی قانونِ شرعی میں ردوبدل کا نہ کبھی مطالبہ کیا ہے اور نہ کرے گی (انشاء اللہ) ہاں فطرتِ خبیثہ رذیلہ اس کا مطالبہ کرتی رہتی ہے۔ مگر اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ کسی حکم شرعی میں کوئی نقص یا خامی ہے بلکہ اس کی وجہ خود مطالبہ کرنے والی فطرت کا نقص اور کجی ہے۔ الغرض اسلام نے وضع قانون میں انسانی مزاج اور فطرت کی بدرجہٴ اتم رعایت برتی ہے۔ خوشی ہو یا غمی، صحت ہو یا مرض، بچپن ہو یا جوانی یا بڑھاپا۔ شریعت نے ہرحال، ہر آن اور ہر مرحلہ پر انسانی مزاج کے موافق احکام وقوانین مقرر کئے ہیں۔
مزاح اور خوش طبعی
مزاح اور خوش طبعی یا مذاق اور دل لگی ایک ایسی پرکیف اور سرور آگیں کیفیت ہے جو اللہ تعالیٰ نے تقریباً ہر انسان میں ودیعت فرمائی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ مادہ کسی میں کم تو کسی میں کوٹ کوٹ کر رکھا ہے سرور و انبساط کے موقع پر انسان سے بکثرت اس کا ظہور ہوتا رہتا ہے۔ بلاشبہ ایک ایک عظیم نعمتِ خداوندی ہے۔ جو دلوں کی پژمردگی کو دور کرکے ان کو سرور و انبساط کی کیفیت سے ہمکنار کرتا ہے۔ عقل وفہم کے تعب و تکان کو زائل کرکے نشاط اور چشتی سے معمور کرتا ہے۔ جسمانی اضمحلال کو ختم کرکے فرحت وراحت سے آشنا کرتا ہے۔ روحانی تکدر اورآلودگی کو مٹاکر آسودگی کی نعمت سے روشناس کراتا ہے۔ بارہا دیکھا گیا ہے کہ غمزدہ اور مصیبت کے مارے انسان کے سرسے غم واندوہ کے بادلوں کو ہٹانے اور چھٹانے کے لئے اسی نعمت سے کام لیاجاتا ہے۔
الغرض مزاح اور دل لگی انسانی فطرت کا ایک لازمی حصہ ہے جو خود خالق ومالک نے اس میں ودیعت فرمایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر فردِ بشر میں یہ مادہ معتد بہ مقدار میں پایاجاتا ہے۔ جو شخص اس عطائے الٰہی کو منجمد نہیں رہنے دیتا اس کو بروئے کار لاتا ہے وہ صحیح معنی میں فوائدِ کثیرہ اور منافعِ عظیمہ حاصل کرتا ہے۔ چنانچہ تجربہ شاہد ہے کہ جو شخص اس ودیعت الٰہی سے استفادہ نہیں کرتا بلکہ بہ تکلف اسکو دباتا ہے۔ اپنے اوپر وقار اور سنجیدگی کا خول چڑھا لیتاہے اوراپنے آپ کو وقار اور تمکنت کا مجسم پیکر بناکر لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہے۔ اسے مغرور، متکبر، بدمزاج، بدخلق، نک چڑھا جیسے القابِ بے بہا سے نوازا جاتا ہے۔ اس کے لئے افادہ اور استفادہ امرمحال بن جاتے ہیں وہ چاہے کثیر و عظیم علوم کا امین ہو اور دیگر بہت سے خواص کا حامل ہو مگر اس کے ان خواص سے اہل عالم کما حقہ استفادہ نہیں کرپاتے اس کے برخلاف جو انسان اس نعمت خداوندی کو بروئے کارلاتا ہے۔ اسے منجمد نہیں رہنے دیتا اہل دنیا اسے متواضع، منکسر المزاج، خوش اخلاق، خوش طبع، خوش مزاج جیسے القاب سے نوازتے ہیں، اپنے متعلقین ومتوسلین میں وہ بڑا ہی مقبول ومحبوب ہوتا ہے۔ دنیا میں وہ ہر دلعزیز بن کر زندگی بسر کرتا ہے کثیر تعداد میں لوگ اس سے استفادہ کرتے ہیں نتیجتاً اس کی صلاحیتوں اور استعداد کو جلاء ملتی جاتی ہے اوراس کی قابلیتیں نکھر کر سامنے آتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انبیاء کرام علیہم الصلوٰة والسلام بہ ہمہ وجوہ امت کے فکر وغم میں مستغرق ہونے کے باوجود ان میں بھی ایک فطری جذبہ ہے۔ موقع اور محل کی مناسبت سے انسان سے اس کا صدور مطلوب ہے اور محمود بھی ۔ جب شریعتِ اسلامیہ عین فطرتِ انسانیہ کے موافق ہے تو اس میں اس فطری جذبے یعنی مزاح و خوش طبعی کے احکام نہ ہوں۔ یہ ناممکن ہے۔
مزاح کا شرعی حکم
ہماری شریعت تمام امور میں اعتدال پسند واقع ہوئی ہے، لہٰذا مزاح اور خوش طبعی میں بھی اعتدال کو ملحوظ رکھا ہے۔ چنانچہ موقع اورمحل کی مناسبت سے احیاناً مزاح مباح بلکہ مستحب ہے۔ تواس کی کثرت اور اس پر مداومت مذموم قرار دی گئی ہے۔
علامہ نووی فرماتے ہیں:
اعلم ان المزاح المنہی عنہ ہو الذی فیہ افراط ویداوم علیہ فانہ یورث الضحک وقسوة القلب ویشغل عن ذکر اللّٰہ والفکر فی مہمات الدینِ ویوٴول فی کثیر من الاوقاتِ الی الایذاء ویورث الاحقاد ویسقط المہابة والوقار فاما من سلم من ہذہ الامور فہو المباح الذی کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یفعلہ علی الندرة لمصلحةٍ تطیب نفس المخاطب وموانسة وہو سنة مستحبة․ (مرقاة ج۸ ص۶۱۷)
(جان لو کہ مزاح وہ ممنوع ہے جو حد سے زیادہ ہو اور اس پر مداومت کی جائے کیونکہ یہ بہت زیادہ ہنسنے اور دل کے سخت ہونے کا باعث ہے، ذکر الٰہی سے غافل کردیتاہے اور اہم دینی امور میں غور وفکر سے باز رکھتا ہے۔ بسا اوقات ایذارسانی تک پہنچاتا ہے۔ بغض وعناد پیدا کرتا ہے رعب و داب ختم ہوجاتا ہے لیکن جو شخص ان امور سے محفوظ ہوتو اس کے لئے مباح ہے جو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کبھار کسی مصلحت کے پیش نظر مخاطب کو بے تکلف اور مانوس بنانے کے لئے انجام دیا اور یہ سنتِ مستحبہ ہے۔)
علامہ نووی کے اس کلام سے مزاح ممنوع و مستحب اور مذموم و ممدوح کی تعیین ہوجاتی ہے کہ کثرتِ مزاح چونکہ بہت زیادہ ہنسنے، قلب کے سخت اور بے حس ہونے، ذکر الٰہی سے غافل ہونے وغیرہ امورِ مذمومہ کا باعث ہے اس لئے وہ ممنوع ہے اوراحیاناً مزاح سے یہ امورِ شنیعہ پیدا نہیں ہوتے اس لئے وہ سنتِ مستحبہ ہے۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن حارث سے مروی ہے ما رأیت احداً اکثر مزاحاً من رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلم (مظاہرحق ج۵ ص۴۸۵) کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کثیرالمزاح کسی کو نہیں پایا۔ چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کثرتِ مزاح کے ان مفاسد سے محفوظ تھے لہٰذا آپ کے لئے وہ مباح تھا۔
ہمارے اکابر میں سے بہت سے حضرات اس وصف کے حامل رہے ہیں چنانچہ حضرت حافظ ضامن شہید کا کثرت مزاح معروف و مشہور ہے۔ حضرت تھانوی فرماتے ہیں کہ آپ نہایت خوش مزاج تھے چنانچہ جب کوئی ان کے پاس آتا تو فرماتے دیکھ بھائی اگر تجھے کوئی مسئلہ پوچھنا ہے تو وہ (مولانا شیخ محمد کی طرف اشارہ کرکے) بیٹھے ہیں مولوی صاحب ان سے پوچھ لے اور اگر تجھے مرید ہونا ہے تو وہ (حضرت حاجی امداد اللہ کی طرف اشارہ کرکے) بیٹھے ہیں حاجی صاحب ان سے مرید ہوجا اور اگر حقہ پینا ہے تو یاروں کے پاس بیٹھ جا۔
اورحد یہ کہ شہادت کے بعد بھی مزاح کی یہ فطرت جوں کی توں باقی رہی۔ چنانچہ ایک صاحبِ کشف حضرت کی قبر پر فاتحہ پڑھنے گئے بعد فاتحہ کہنے لگے کہ بھائی یہ کون بزرگ ہیں بڑے دل لگی باز ہیں جب میں فاتحہ پڑھنے لگا تو مجھ سے فرمانے لگے جاؤ فاتحہ کسی مردہ پر پڑھیو یہاں زندہ پر فاتحہ پڑھنے آگئے ہو۔ یہ کیا بات ہے جب لوگوں نے بتایا کہ یہ شہید ہیں۔ (حکایاتِ اولیاء ص۲۲۲)
الغرض مزاح کی کثرت اوراس پر مداومت جس کے لئے مضر نہ ہو اس کے لئے سنتِ مستحبہ ہے اور جس کے لئے مضر ہو اس کے لئے ممنوع ہے مگر احیاناً مزاح ہر شخص کیلئے سنتِ مستحبہ ہے۔
پھر مزاح میں یہ امر بھی ملحوظ رہنا ضروری ہے کہ اس سے کسی کو ایذاء نہ پہنچے۔ کسی کی دل شکنی نہ ہو کیونکہ مزاح کہتے ہی ہیں ایسی دل لگی کو جس میں ایذاء رسانی اور دل شکنی نہ ہو۔ ثم المزاح انبساط مع الغیر من غیر ایذاءٍ فان بلغ الایذاء یکون سخریة (مرقات ج۸ ص۶۱۷) (پھر مزاح کسی کے ساتھ بغیر ایذاء پہنچائے دل لگی کرنا ہے اگر یہ ایذاء کی حد کو پہنچ جائے تو وہ سخریہ اور ٹھٹھا ہے) اور سخریہ اور ٹھٹھا منہی عنہ ہے چنانچہ ارشاد باری ہے: یا ایہا الذین آمنو لا یسخر قوم من قومٍ․ الایہ (پارہ ۲۶ سورہ حجرات) ”اے ایمان والو کوئی قوم کسی قوم کا مذاق نہ اڑائے“ لہٰذا اس چیز کا خیال رکھنا از حد ضروری ہے۔
پھر مزاح کا مبنی برصدق و حق ہونا بھی ضروری ہے۔ چنانچہ ارشاد نبوی ہے:
عن ابی ہریرة قال قالوا یارسول اللّٰہ اِنّکَ تداعبنا قال رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلم انی لا اقول الاّ حقّاً (مشکوٰة ص۴۱۶)
(صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے عرض کیایا رسول اللہ آپ بھی ہمارے ساتھ دل لگی فرماتے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں صرف حق بات کہتا ہوں)
یعنی اگر میں تم لوگوں سے مزاح اور دل لگی کرتا ہوں تو وہ بھی مبنی برحق و صدق ہوتا ہے۔ جھوٹ پر مبنی نہیں ہوا کرتا۔
یہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ مزاحی واقعات نقل کئے جاتے ہیں تاکہ عاشقانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مزاح کا سنت طریقہ معلوم ہوجائے اور متبعین سنت کے لئے یہ فطری جذبہ بھی دیگر متعدد فطری جذبات کی طرح عبادت بن جائے۔
عن انسٍ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ ان رجلاً استحمل رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلم فقال انی حاملک علی ولد ناقةٍ فقال ما اصنع بولد الناقةِ فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وہل تلد الابل الا النوق (مشکوٰة ص۴۱۶)
(حضرت انس سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سواری طلب کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمہیں سواری کے لئے اونٹنی کا بچہ دوں گا تو سائل نے عرض کیا کہ میں اونٹنی کے بچے کا کیاکروں گا تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا اونٹنی اونٹ کے علاوہ بھی کسی کو جنتی ہے؟)
ملاحظہ فرمائیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں سائل سے مزاح بھی فرمایا اور اس میں حق اور سچائی کی رعایت بھی فرمائی سواری طلب کرنے پر آپ نے جب اونٹنی کا بچہ مرحمت فرمانے کا وعدہ فرمایاتو سائل کو تعجب ہوا کہ مجھے سواری کی ضرورت ہے اوراونٹنی کا بچہ اس قابل نہیں ہوتا کہ اس پر سواری کی جائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے تعجب کو دور کرتے ہوئے اور اپنے مزاح کا انکشاف کرتے ہوئے فرمایا کہ بھائی میں تجھے سواری کے قابل اونٹ ہی دے رہا ہوں مگر وہ بھی تو اونٹنی ہی کا بچہ ہے۔
عن انسٍ ان النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال لہ یاذالاذنین (مشکوٰة ص۴۱۶)
(حضرت انس سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا اے دوکان والے)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت انس سے ”اے دو کان والے“ کہنا بھی ظرافت اور خوش طبعی کے طورپر تھا۔ اور ظرافت کا یہ انداز تو ہمارے عرف میں بھی رائج ہے مثلاً کبھی اپنے بے تکلف دوست سے یا ذہین طالب علم سے ناراضگی کا اظہار اس انداز میں کیاجاتا ہے کہ ایک چپت رسید کروں گا تو تمہارا سر دوکانوں کے درمیان ہوجائے گا۔ حالانکہ وہ پہلے سے وہیں پر ہوتا ہے۔
عن انسٍ عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال لامرأةٍ عجوزٍ انہ لاتدخل الجنة عجوزٌ فقالت مالہن وکانت تقرء القرآن فقال لہا ما تقرئین القرآن اِنَّا انشئاناہن انشاءً فجعلنٰہنّ ابکارًا(مشکوٰة ص۴۱۶)
(حضرت انس حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے ایک بوڑھی عورت سے فرمایاکہ بڑھیا جنت میں داخل نہیں ہوگی۔ وہ عورت قرآن پڑھی ہوئی تھی اس نے عرض کیا بوڑھی کے لئے کیا چیز دخولِ جنت سے مانع ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم نے قرآن میں نہیں پڑھا ہم جنتی عورتوں کو پیدا کریں گے پس ہم ان کو کنواریاں بنادیں گے۔)
ایک اور روایت میں یہ واقعہ مزید تفصیل کے ساتھ وارد ہوا ہے کہ اس صحابیہ عورت نے جو بوڑھی تھیں آپ سے دخولِ جنت کی دعا کی درخواست کی تو اس پر آپ نے مزاحاً فرمایا کہ بڑھیا تو جنت میں داخل نہیں ہوگی، یہ سن کر بڑھیا کو بڑا رنج ہوا اور روتے ہوئے واپس چلی گئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جاکر اس عورت کو کہہ دو کہ عورتیں بڑھاپے کے ساتھ جنت میں داخل نہیں ہوں گی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے ”اِنَّا انشئاناہن انشاءً فجعلنٰہنّ ابکارًا“ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مزاح اس واقعہ میں بھی مبنی برحق تھا مگرآپ نے ایک سچی بات کو مزاحیہ انداز میں بیان کرکے امت کو یہ تعلیم دی کہ کبھی کبھار مذاق اور دل لگی بھی کرلینی چاہئے۔
اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک مزاحی واقعہ پر تو مرمٹنے کو جی چاہتا ہے اور بے اختیار دل سے نکلتا ہے کہ کاش حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق بننے والے اس صحابی کی جگہ یہ ناپاک ہوتا۔ حضرت انس فرماتے ہیں کہ ایک بدوی صحابی زاہر بن حرام حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کچھ دیہاتی اشیاء بطور ہدیہ لایا کرتے تھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی واپسی پر اسے کچھ شہری اشیاء ہدیتہ عنایت فرماتے تھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرمایاکرتے تھے زاہر ہمارا باہر کا گماشتہ ہے اور ہم اس کے شہر کے گماشتہ ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم زاہر سے بڑی محبت فرماتے تھے ویسے زاہر ایک بدصورت آدمی تھے ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم بازار تشریف لے گئے تو زاہر کو اپنا سامان بیچتے ہوئے پایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو پیچھے سے اپنے ساتھ اس طرح چمٹالیا کہ اپنے دونوں ہاتھ اس کے بغلوں کے نیچے سے لیجاکر اس کی آنکھوں پر رکھ دئیے تاکہ وہ پہچان نہ پائے (یہ افتاد دیکھ کر) زاہر نے کہا کہ کون ہے؟ چھوڑ مجھے۔ (پھر اس نے کوشش کرکے) مڑ کر دیکھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچان لیا (اور پہچانتے ہی) اپنی پیٹھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سینہٴ مبارک سے مزید چمٹانے لگا ادھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ صدا بلند کرنے لگے کہ ارے کوئی اس غلام کا خریدار ہے؟ اس پر زاہر نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول بخدا آپ مجھے کھوٹا سکّہ پائیں گے، اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لیکن تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک کھوٹا سکّہ نہیں ہے۔ (مشکوٰة ص۴۱۶) سبحان اللہ دو جہانوں کے سردار اوراللہ کے محبوب ہونے کے باوجود آپ کی یہ سادگی؟ اور ذرا سوچئے اس طرح کے بے تکلّفانہ رویہ پر حضرت زاہر کا دل بلیوں نہ اچھلنے لگا ہوگا؟ سیروں خون نہ بڑھ گیا ہوگا؟
عن عوف بن مالک الاشجعی قال اتیت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی غزوة تبوک وہو فی قبةٍ من ادمٍ فسلمت فردّ علیّ وقال فقلت أکلی یا رسول اللّٰہ قال کلّک فدخلت (مشکوٰة ص۴۱۷)
(حضرت عوف بن مالک اشجعی سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ غزوئہ تبوک کے دوران میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم چمڑے کے خیمہ میں تشریف فرماتھے میں نے آپ کو سلام کیا آپ نے جواب دیا اور فرمایا کہ اندر آجاؤ میں نے (مزاح کے طور پر) عرض کیا اے اللہ کے رسول کیا میں پورا اندر داخل ہوجاؤ؟ تو آپ نے فرمایا ہاں پورے داخل ہوجاؤ، چنانچہ میں داخل ہوگیا)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ سے اسقدر بے تکلف تھے کہ صحابہ آپ سے مزاح بھی کرلیا کرتے تھے۔
ایک انصاری صحابیہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا جا جلدی سے اپنے خاوند کے پاس اس کی آنکھوں میں سفیدی ہے وہ ایک دم گھبراکرخاوند کے پاس پہنچی تو خاوند نے پوچھا کیا مصیبت ہے؟ اس طرح گھبراکر دوڑی کیوں چلی آئی؟ اس نے کہا کہ مجھے میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے کہ تمہاری آنکھوں میں سفیدی ہے اس نے کہاٹھیک ہے مگر سیاہی بھی تو ہے تب اسے اندازہ ہوا کہ یہ مزاح تھا اور ہنس کر خوش ہوئی اور فخر محسوس کیا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے اس قدر بے تکلف ہوئے کہ میرے ساتھ مزاح فرمایا (لطائف علمیہ ص۱۰) اس کے علاوہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مزاح کے بہت سے واقعات کتب احادیث میں موجود ہیں جو مزاح کے سنتِ مستحبہ ہونے پر دال ہیں۔ لیکن یہ تمام واقعات اس بات پر شاہد ہیں کہ مزاح مبنی برصدق ہونا چاہئے اوراس میں ایذاء رسانی اور دل شکنی کا پہلو نہ ہونا چاہئے بلکہ مخاطب کی دلجوئی اورنشاط آوری مقصود ہونی چاہئے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحابہ سے بھی مزاح کے بے شمار واقعات مروی ہیں۔ ایک مرتبہ حضرت ابوبکر صدیق، فاروق اعظم اور علی مرتضیٰ ایک دوسرے کے گلے میں ہاتھ ڈالے اس طرح چلے جارہے تھے کہ حضرت علی بیچ میں تھے اور دونوں حضرات دونوں طرف۔ حضرت علی ان دونوں کے مقابلہ میں کچھ پستہ قد تھے، حضرت عمر نے مزاحاً فرمایا: ”علیٌّ بیننا کالنون فی لنا“ یعنی علی ہم دونوں کے بیچ میں ایسے ہیں جیسے ”لنا“ کے درمیان نون ہے یعنی لنا کے ایک طرف کا لام اور دوسری طرف کا الف لمبے اور درمیان میں کا نون پستہ قد ہے اس طرح ہم دونوں طویل القامت اور بیچ میں علی پستہ قامت ہیں۔ اس پر حضرت علی نے برجستہ جواب دیا: ”لولا کنت بینکما لکنتما لا“ یعنی ”اگر میں تمہارے درمیان نہ ہوتا تو تم لا ہوجاتے اور کچھ بھی نہ رہتے“ کیونکہ لنا کے بیچ سے نون ہٹادیاجائے تو وہ ”لا“ رہ جاتا ہے۔
خلاصہٴ کلام یہ کہ مزاح ایک فطری جذبہ ہے انسان سے اس کا صدور مذموم اور قبیح نہیں بلکہ ممدوح اور مقصود ہے اس کا صدورانبیاء کرام علیہم الصلوٰة والسلام سے بھی ہوا ہے صحابہ کرام سے بھی اور اولیائے کرام سے بھی۔ حضرت غوثِ اعظم پیرانِ پیر شیخ عبدالقادر جیلانی کی جلالتِ شان سے کون ناواقف ہے؟ کسی نے آپ کو ایک بہت ہی قیمتی چینی آئینہ ہدیتہ دیا تھا حضرت کبھی کبھی اس میں اپنا چہرہ دیکھ لیا کرتے تھے اتفاقاً وہ آئینہ خادم کے ہاتھ سے گرکر ٹوٹ گیا اس کو بڑا ہی ڈر ہوا کہ حضرت عتاب فرمائیں گے اس نے ڈرتے ڈرتے حضرت سے عرض کیا از قضاء آئینہٴ چینی شکست (قضاء وقدر کی وجہ سے وہ چینی آئینہ ٹوٹ گیا) تو حضرت نے یہ سن کر فی البدیہ فرمایا خوب شد اسبابِ خود بینی شکست (اچھاہوا کہ خود بینی کا ذریعہ اور سبب ٹوٹ گیا) (حضرت تھانوی کے پسندیدہ واقعات ص۵۰)
الغرض مزاح ایک سنتِ مستحبہ ہے جولوگ اسے اپنی وقار اور شان کے خلاف سمجھتے ہیں وہ بہت بڑی غلطی پر ہیں جبکہ یہ شان نبوت کے خلاف نہیں۔ شانِ صحابیت کے خلاف نہیں۔ شانِ ولایت کے خلاف نہیں۔ تو ہماشما کی شان کے خلاف کیسے ہوسکتا ہے؟
البتہ یہ خیال ضرور رہے کہ ہمارا مزاح اور دل لگی کسی کی دل شکنی اور ایذاء رسانی کا سبب نہ ہو۔ اس سے آج کل کے مروجہ اپریل فل کا حکم بھی واضح ہوجاتا ہے کہ وہ ناجائز اور حرام ہے ایک تو اس وجہ سے کہ اس میں اتباع بالغیر اور تشبہ بالغیر لازم آتاہے اور دوم اس وجہ سے کہ اس میں جو مزاح اور مذاق ہوتا ہے اس میں ایذاء رسانی اور لوگوں کو پریشان کرنا ہوتا ہے۔ اسی طرح جو مزاح مبنی برحق ہو لیکن اس میں ایذاء رسانی کا خطرہ ہوتو وہ بھی ناجائز کے زمرے میں آجائے گا۔ مثلاً کوئی سائیکل یا موٹر سائیکل سوار گذررہا ہے اس کو کہا کہ آپ کی سائیکل کے پچھلے پہیّے گوم رہے ہیں حالانکہ یہ مزاح مبنی بر حق ہے کہ واقعتا پچھلے پہیّے گھوم رہے ہیں، مگر سوار غلط فہمی میں مبتلاہوکر پیچھے مڑکر دیکھتا ہے اور نتیجتاً زمین بوس ہوجاتا ہے ایسے مزاح سے پرہیز کرنا چاہئے واللّٰہ تعالٰی اعلم․
اللہ تعالیٰ ہمیں جملہ امور میں اتباعِ سنت کی دولت سے سرفراز فرمائے، (آمین)
———————————
دارالعلوم ، شماره : 8-9، جلد : 92 شعبان – رمضان 1429ھ مطابق اگست -ستمبر ۲۰۰۸ء