از: جناب غلام رسول دیشمکھ‏، انجمن روڈ، بھساول

دہشت گرد کون ہیں؟ کیا یہ کسی تحریک یا نظریہ کا نام ہے؟ یا کسی فرد یاجماعت کا؟ یہ وقت کا اہم موضوع ہے۔ اس موضوع پرکئی سال غور کرنے کے باوجود یو۔این۔ او (UNO) بھی اس کی تعریف متعین کرنے سے قاصر ہے۔ وہ جو بھی تعریف متعین کرتی ہے اس کی زد میں وقت کی سپرطاقتیں آجاتی ہیں۔ چونکہ UNO سُپرطاقتوں کی آلہٴ کار ہے، اس لئے ان طاقتوں کی خواہش پر ملت اسلامیہ کو ہدف بنایاگیا۔ اور دہشت گردی کا ایک آسان نام ”اسلامی دہشت گردی“ ایجاد کرلیاگیا۔ تاکہ افغانستان، عراق وغیرہ پر حملوں کا جواز فراہم ہوجائے۔ اس طرح وقت کے سب سے بڑے دہشت گرد امریکہ نے اپنے جنگجومقاصد کو حاصل کرنے کیلئے ان مسلم ممالک میں تباہی اور بربادی مچادی اور وہاں لوٹ گھسوٹ اور قتل وغارت گری کو اپنے لئے جائز قرار دیا۔

اس طرح فلسطین میں عربوں کا قتل عام، اسرائیل کررہا ہے۔ جسے آپ امریکہ کے بعد دہشت گرد ثانی بھی کہہ سکتے ہیں۔ جرمنی میں ہٹلر نے یہودیوں کا جو قتل عام کیاتھا (جسے لو ہولوکاسٹ کے نام سے جانتے ہیں) اس کا بدلہ وہ عربوں سے لے رہے ہیں۔ ہٹلر نے جو سلوک ان کے ساتھ کیاتھا، اس سے بدتر سلوک وہ فلسطین میں عربوں کے ساتھ کررہے ہیں۔ چونکہ اسرائیل جرمنی سے بدلہ نہیں لے سکتا اورامریکی پالیسی ساز بھی اسرائیل کے ذریعے عربوں کو کچلنا چاہتے ہیں۔

دہشت گردی کے چند نمونے

٭ آزاد بھارت میں آزادی کے فوراً بعد تحریک آزادی کے رہنما مہاتما گاندھی کو دن کی روشنی میں قتل کردیا جاتا ہے۔ قاتل اعلیٰ ذات کا ہندو Nathuram Godse جو سنگھ پریوار کا فرد تھا۔ گویا آزاد بھارت میں یہ دہشت گردی کا آغاز تھا۔

٭ ملک کی سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی کا قتل اسی کے ایک سکھ محافظ کے ہاتھوں دن دہاڑے گولی مارکر ہوا۔

٭ سابق وزیر اعظم راجیوگاندھی کا قاتل، جنوبی ہند کا ایک ہندو شخص تھا۔

٭ آسٹریلیا کے عیسائی پادری گراہم اسٹینس اوراس کے بچوں کو زندہ جلادیاگیا۔ جلانے والے بجرنگ دل اور بے جے پی کے لوگ تھے۔

٭ نکسلائیٹ، الفا وغیرہ تنظیموں کے تشدد کے شکار آئے دن لوگ ہوتے رہتے ہیں۔ شمالی ہند میں نچلی ذاتوں کے لوگوں کی جان ومال، عزت وآبرو کو پامال کرنااعلیٰ ذات کے انتہاپسندوں کا مشغلہ رہا ہے۔

٭ سنگھ پریوار نے مسٹرایڈوانی کی قیادت میں تاریخی بابری مسجد کو شہید کردیا۔ باوجود اس کے کہ اس کا کیس سپریم کورٹ میں چل رہاتھا، اور اسی کورٹ میں یہ حلف نامہ داخل کرنے کے بعد کہ بابری مسجد کو نقصان نہیں پہنچائیں گے، قانون کو ہاتھ میں لیاگیا۔

٭ گودھرا میں مودی پیٹنٹ فارمولے کو اپنا کر اس کے تجربے سے گجرات میں مسلم اقلیت کی نسل کشی کی گئی۔

٭ مہاراشٹر میں ناندیڑ، پربھنی، پُرنا، جالنہ، عمر کھیڑ وغیرہ بم دھماکوں کے مجرم آج بھی آزاد گھوم رہے ہیں۔ ان کی آج تک خاطر خواہ تحقیقات نہیں کی گئی۔

٭ ممبئی میں گنپتی جلوس کے موقع پر ایک شخص کے پاس تھیلی میں بم ملے تھے، لیکن کوئی ناخوشگوار واقعہ ہونے سے قبل وہ پولس کی گرفت میں آگیا۔ اس واقعہ کی تحقیق ہونی چاہئے تھی۔ (اگر کوئی حادثہ وقوع پذیرہوجاتا تو آپ سوچ سکتے ہیں کہ اس کی ذمہ داری کس پر ڈالی جاتی؟)

مندرجہ بالا نمونے کے چند واقعات ہیں۔ کیا ان میں دہشت گردی نظر نہیں آتی؟ ان کو دہشت کہنا تو دور رہا، کوئی انہیں صرف دہشت گرد کہنے کے لئے بھی آمادہ نہیں۔ یعنی یہ فقرہ صرف ملت اسلامیہ ہی سے وابستہ ہے۔

جرائم اور مذہب

زمانے کی یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ جرائم اور جرائم پیشہ افراد کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اور نہ کوئی ملک ہوتا ہے۔ اسی طرح دہشت گرد کا بھی کوئی ذات، مذہب یا ملک نہیں ہوتا۔ مگر جب ملت اسلامیہ کا تعلق آتا ہے، فوراً پیمانے بدل جاتے ہیں اور اس کی ہر حرکت وعمل کو مخصوص خوردبین سے دیکھاجاتا ہے کہ کس طرح اور کیسے اس کو بدنام کیا جائے اور اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے راستے ہموار کئے جائیں۔

اسامہ بن لادن کے گروپ کو امریکہ ہی نے روس کے خلاف افغانستان میں کام کرنے کی تربیت دے کر تیار کیا تھا۔ طالبان کو جنم دینے والا بھی امریکہ ہی ہے۔ جب ان لوگوں سے اس کا مقصد پوراہوگیا تو وہ خود امریکہ کی نظر میں دہشت گرد بن گئے۔ چونکہ اب وہ امریکہ کے کام کے نہیں رہے۔ اس لئے امریکہ کاپروپیگنڈہ ہے کہ ان سے پوری دنیا کو خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔ اس طرح وہ اپنے ظالمانہ عزائم نیز ظلم وستم کو جائز قرار دینے کے لئے جواز فراہم کرلیتا ہے۔ یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ امریکہ کی سی۔ آئی۔ اے اور اسرائیل کی موساد، انتہاپسندوں کی تیاری و تربیت کرکے پوری دنیا میں دہشت گردی کے لئے ان کا استعمال کرتی ہے۔

میڈیا اور پولس کا رول

ملک میں جہاں بھی تشدد کا کوئی ناخوشگوار واقعہ ہو، حکومت کے پاس انتہاپسند گروپوں کے ناموں کی فہرست اور استعمال کئے گئے سامان کی تفصیل پہلے ہی سے موجود رہتی ہے۔ پولس اور میڈیا کی جانب سے مسلم نوجوانوں پر شک کی سوئیاں گھماکر، فرضی کہانیاں گھڑکر نوجوانوں کو گرفتار کیا جاتا ہے۔ ان کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایاجاتا ہے۔ اس طرح پوری مسلم قوم کو مجرم ثابت کرنے کی سازش عمل میںآ تی ہے۔ پوٹا اور مکوکا جیسے قوانین تو بنائے ہی اس لئے گئے ہیں تاکہ اس کا بے دریغ استعمال مسلم اقلیت کے لئے کیا جاسکے۔ چنانچہ یہ حقیقت ہے کہ آج تک ان قوانین کی دفعات کے تحت ملت کے نوجوانوں کو ہی گرفتار کیاگیا ہے۔

تعصب کی انتہا تو یہ ہے کہ مالیگاؤں، حیدرآباد، اجمیر وغیرہ کی مساجد میں ہونے والے بم دھماکوں کے سلسلے میں بھی ملت کے افراد ہی کو حراست میں لے کر ٹارچر کیا جارہاہے۔

ممکن ہے

بالفرض یہ تسلیم بھی کرلیاجائے کہ متذکرہ واقعات میں ہماری قوم کے کچھ نادان، ناسمجھ یا جنونی نوجوان شامل ہیں تو ان کا تناسب بہت ہی کم ملے گا۔ ان کو کسی خاص مذہب سے جوڑ کر دیکھا نہیں جاسکتا۔ بلکہ دیگر مجرمین کی طرح ہی وہ بھی مجرم ہیں۔ ان معاملات میں انصاف کا تقاضا ہے کہ کسی کا جرم ثابت ہونے پر انہیں سخت سزا دی جائے۔ تاکہ لوگوں کے لئے باعث عبرت ہو۔

لائحہٴ عمل

اس وقت ضرورت ہے ملت اسلامیہ کے سامنے حضرت محمد صلى الله عليه وسلم کا اسوئہ حسنہ رکھا جائے کہ آپ نے نبوت کے ابتدائی ۱۵/سالوں میں کس طرح اخلاص کے ساتھ دعوت و تبلیغ کا کام انجام دیا اور اپنے عمل و کردار سے لوگوں کے دل جیت لئے۔ ان کے دلوں اور دماغوں پر حکومت کی۔ پراگندہ معاشرہ کو صالح معاشرہ میں تبدیل کردیا۔ اسلام ملت اسلامیہ سے یہی مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اپنے عمل و کردار سے لوگوں کے دلوں کو جیت لیں۔ دراصل یہی اس ملت کا مقصد وجود ہے۔ اس فریضہ سے غفلت کے نتائج دنیا اور آخرت دونوں جگہ خطرناک اور بھیانک ہوں گے۔

وقت کا تقاضا ہے کہ ملت اسلامیہ اپنا محاسبہ کرے کہ وہ اتنی بے اثر کیوں ہوگئی ہے؟ اس ملک میں ہم ۲۰ کروڑ ہیں جب کہ دنیا میں دو سو کروڑ۔ اس کے برخلاف بین الاقوامی سطح پر ہمارا کوئی وزن محسوس نہیں ہوتا۔ ہم کوڑا کرکٹ اور جھاگ کی مانند ہوکر رہ گئے ہیں۔

حدیث میں ہے: رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:

”عنقریب غیرمسلم قومیں تمہاری سرکوبی کے لئے ایک دوسرے کو بلائیں گی اور (پھر وہ سب مل کر) دھاوا بول دیں گی۔ جیسا کہ بہت سے کھانے والے افراد ایک دوسرے کو بلاکر دسترخوان پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ ایک آدمی نے عرض کیا: حضور! اس وقت کیا ہماری تعداد تھوڑی ہوگی۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: نہیں، بلکہ اس وقت تم تعداد میں کثیر ہوں گے۔ لیکن تمہاری حیثیت سیلاب کے کوڑا کرکٹ اور جھاگ سے زیادہ نہ ہوگی۔ اس وقت اللہ تعالیٰ کا فیصلہ یہ ہوگا کہ دشمن قوموں کے دلوں سے تمہارا رعب ختم ہوجائے گا۔ اور تمہارے دل ”وہن“ کا شکار ہوجائیں گے۔ کسی نے پوچھا: یا رسول اللہ ! وہن کسے کہتے ہیں آپ نے فرمایا: دنیا سے محبت اور موت سے نفرت۔ (ابوداؤد)

٭٭٭

______________________

دارالعلوم ، شماره : 7 ، جلد : 92  رجب 1429 ھ مطابق جولائی 2008ء

Related Posts