حرفِ آغاز
از حضرت مولانا مرغوب الرحمن صاحب دامت برکاتہم،مہتمم دارالعلوم دیوبند
رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ دارالعلوم دیوبند کے زیر اہتمام ۱۷/صفر ۱۴۲۹ھ موافق ۲۵/فروری ۲۰۰۸/ بروز دوشنبہ کو مدرسہ ثانویہ دارالعلوم دیوبند کے وسیع میدان میں ”دہشت گردی مخالف کل ہند کانفرنس کا انعقاد عمل میں آیا جس میں ملک کے تقریباً تمام مسلک و مذہب کے نمائندوں نے بذات خود یا اپنے پیغامات کے ذریعہ شرکت کی اس موقع پر صدر کانفرنس والامراتب حضرت مہتمم صاحب دارالعلوم دیوبند نے جو وقیع ترین اوراپنے موضوع پر ہمہ گیر تاریخی خطبہ صدارت پیش فرمایا تھا اس کی اہمیت کے پیش نظر بطور حرف آغاز کے ہدیہٴ ناظرین ہے۔ (مدیر)
الحمد للّٰہ رب العٰلمین والصلٰوة والسلام علٰی سیدنا محمد وآلہ وأصحابہ اجمعین․ أمابعد:
اللہ رب العزت کا بے پایاں احسان وکرم ہے کہ اس نے ہم سب کو اپنے سچے دین کا پیروکار بنایا اور خاتم النّبیین رحمة للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں شامل فرماکر ہم پر اپنی نعمت کی تکمیل فرمادی، نیز صراط مستقیم پر گامزن، سلف صالحین کے کاروانِ رشدوہدایت میں شمولیت کی توفیق سے بہرہ ور فرمایا، مزید یہ کہ ہمیں اسلامی مدارس کی خدمت کے لئے منتخب فرمایا جو دین مبین کی صحیح و بے غبار تعلیم و تشریح کے حامل، خیروفلاح کی دعوت کے امین اورامن و سلامتی کے پاسبان ہیں، بلاشبہ یہ سب حق تعالیٰ کے الطاف وعنایات ہیں جن کے لئے ہم اس کی بارگاہِ عزت وکرم میں سجدئہ شکر بجالاتے ہیں اور دعاء کرتے ہیں کہ وہ ہمیں حیات مستعار کے ہر لمحہ میں خیر کی توفیق سے نواز کر حسن خاتمہ کی دولت سے مالامال فرمائے آمین۔
مہمانان عالی وقار! بارگاہ الٰہی میں ہدیہٴ شکر وسپاس پیش کرنے کے بعد میرا خوشگوار اخلاقی فریضہ ہے کہ میں آپ حضرات کی خدمت میں اپنی اور تمام خدام دارالعلوم دیوبند کی جانب سے نذرانہٴ تشکر پیش کروں کہ آپ نے اپنی اہم اور قیمتی مصروفیات سے صرف نظر فرماکر ہماری حقیر دعوت کو شرف قبولیت سے نوازا اور زحمت سفر برداشت کی۔ اسی کے ساتھ میں دل کی گہرائی سے معذرت خواہ بھی ہوں کہ ہم آپ جیسے موقر مہمانوں کے شایان شان ضیافت کا اہتمام نہ کرسکے، ہمیں امید ہے کہ جس جذبہٴ خلوص اوراحساس ذمہ داری نے آپ کو آمادئہ سفر کیا ہے وہی آپ کے لئے حسن جزاء کا ضامن بھی ہوگا، خدارا آپ حق ضیافت میں ہماری کوتاہی کو معاف فرمائیں اور دعاء فرمائیں کہ رب کریم اس کانفرنس کو حسن قبول کی دولت اور مقصد میں کامیابی سے ہمکنار فرمائے،آمین۔
حضرات گرامی! جہاں تک اس عظیم الشان دہشت گردی مخالف کل ہند کانفرنس کے مقصد کا تعلق ہے وہ اجمالی طورپر دعوت نامہ سے آپ کے علم میں آچکا ہے، دعوت نامہ میں نہایت اختصار کے ساتھ جس صورت حال کی طرف اشارہ کیاگیا ہے، اس کی سنگینی آپ جیسے ارباب بصیرت سے مخفی نہیں ہوسکتی۔ دہشت گردی اور اس کے تعلق سے پیدا ہونے والے حالات آج عمومی طور پر ہر امن پسند انسان کے لئے تشویش کا باعث ہیں؛ لیکن مدارس اسلامیہ اور دینی فکر سے وابستہ لوگوں کے لئے یہ ایک خطرناک چیلنج کی حیثیت اختیار کرگئے ہیں، ایک طرف دہشت گردوں کی سرگرمیاں اور تخریبی کارروائیاں ہیں جن سے امن پسند عوام کا سکون غارت ہوتا رہتا ہے اور بے گناہوں کی جانیں قربان ہوتی ہیں، دوسری طرف قانون و انتظام کے رکھوالوں کا غیرذمہ دارانہ کردار ہے جو، ہر دہشت گردانہ واقعہ کے بعد بغیر سوچے سمجھے شک کی سوئی، مسلمانوں کی طرف پھیر دیتے ہیں اور حقیقی مجرموں تک رسائی کی سنجیدہ کوشش کئے بغیرکچھ بے قصوروں کو مورد الزام قرار دے کر فرض منصبی کی ادائیگی میں اپنی کوتاہی کی پردہ پوشی کرتے ہیں۔ ان حالات نے مدارس اسلامیہ کی ذمہ داریوں کو دوچند کردیا ہے اس لئے کہ آج بھی امت مسلمہ صحیح رہنمائی کے لئے انہی مدارس کی طرف دیکھتی ہے اور انہی کا موقف خاص طور پر ہندوستان جیسے ممالک میں امت مسلمہ کے نمائندہ موقف کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس لئے وقت کے تقاضے کو ملحوظ رکھتے ہوئے مدارس اسلامیہ کو اس محاذ پر اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ دہشت گردی کے بارے میں اپنے متوازن نظریہ کا واضح اعلان واظہار کرکے دشمنانِ دین وایمان کا منھ بند کرنا ہوگا، ساتھ ہی مسلمانوں اور مدارس سے وابستہ افراد کے خلاف مسلسل جاری ناروا طرز عمل کے مقابلہ کے لئے لائحہٴ عمل تیار کرنا ہوگا۔
دانشوران قوم! اس سلسلے میں سب سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ دہشت گردی کے بارے میں مدارس اسلامیہ کے اس طے شدہ، متفقہ موقف کا واضح اعلان کردیا جائے کہ ہمارا دہشت گردی سے کوئی واسطہ نہیں، ہم ہر قسم کی دہشت گردی کو مسترد کرتے ہیں اوراس سلسلے میں کسی تفریق کو قطعاً روا نہیں رکھتے۔ دہشت گردی کلی طور پر ایک غلط اور عاقبت نااندیشانہ عمل ہے خواہ اس کا مرتکب کسی بھی مذہب وملت سے وابستہ ہو اور معاشرہ کے کسی بھی طبقے سے تعلق رکھتا ہو، دہشت گردی، اسلامی تعلیمات کے بھی سراسر منافی ہے، اسلام دین رحمت ہے، دین امن ہے اس لئے دہشت گردی کی ہر ایسی کارروائی جس کا نشانہ بے قصور افراد بنتے ہوں اسلام کے تصور امن سے متصادم ہے۔
اس بارے میں اسلامی تعلیمات اس قدر واضح اور قطعی ہیں کہ ان کی روشنی میں بلا خوف تردید، یہ دعویٰ کیا جاسکتا ہے کہ آج اگر دنیا کے پاس امن وسلامتی اور صلح وآشتی کا کوئی جامع، بامقصد اور ہمہ گیر تصور موجود ہے تو وہ فقط اسلام کا عطیہ ہے۔ اسلام نے ایک بے قصور انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا۔ ارشاد ہے:
مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَیْرِ نَفْسِ أَوْفَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًا․ (سورہ مائدہ آیت:۳۲)
جس نے کسی انسان کو بغیر جان کے عوض یا زمین میں فساد کے بغیر قتل کیا تو گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کردیا۔
اسلام نے صراحت کے ساتھ مسلمانوں کو ہدایت دی کہ اگر دیگر اقوام کی جانب سے تمہارے جان ومال اور امن وامان کے لئے کوئی خطرہ نہ ہو تو ان کے ساتھ رواداری اور حسن سلوک کا معاملہ کرو، ارشاد ہے:
لَا یَنْہَاکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوکُمْ فِی الدِّیْن وَلَمْ یُخْرِجُوْکُمْ مِّنْ دِیَارِکُمْ اَنْ تَبَرُّوْہُمْ وَتُقْسِطُوا اِلَیْہِمْ ط اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ (الممتحنہ:۸)
اللہ تمہیں اس بات سے نہیں روکتا کہ تم ان لوگوں کے ساتھ نیکی کرو جنھوں نے تم سے دین کے بارے میں جنگ نہیں کی اور تمہیں تمہارے گھروں سے نہیں نکالا بیشک اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔
اسلام نے عہد کی پابندی کو لازم کیا:
وَاَوْفُوا بِالْعَہْدِ اِنَّ الْعَہْدَ کَانَ مَسْئُولاً․ (بنی اسرائیل آیت:۳۴)
اور عہد کو پورا کرو، بیشک عہد کے بارے میں باز پرس ہوگی۔
اسلام نے صلح کو بہتر قرار دیا: والصلح خیر․ (نساء آیت:۱۲۸) اور صلح بہترین چیز ہے۔
اسلام نے تمام انسانوں کی برابری کا اعلان کیا، قرآن کریم میں ارشاد ہے:
یٰٓاَیُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّاُنْثٰی وَجَعَلْنٰکُمْ شُعُوبًا وَّقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا (حجرات آیت:۱۳)
اے لوگو! ہم نے تمھیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمھیں مختلف گروہوں اور قبیلوں میں کردیا تاکہ آپس میں پہچان ہوسکے۔
اسی طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے، حقوق انسانی کے اولین اور جامع ترین عالمی منشور (خطبہٴ حجة الوداع) میں ارشاد فرمایا:
لافضل لعربی علیٰ عجمی ولا عجمی علی عربی ولا لأحمر علیٰ أسود ولا لأسود علی احمر کلکم بنو آدم وآدم من تراب، ان اَکرمکم عند اللّٰہ أتقٰکم․
کسی عربی کو کسی عجمی پر، کسی عجمی کو کسی عربی پر، کسی گورے کو کسی کالے پر، کسی کالے کو کسی گورے پر فضیلت نہیں ہے۔ تم سب آدم علیہ السلام کی اولاد ہو اور آدم کی تخلیق مٹی سے ہوئی تھی، اللہ کے نزدیک تم میں سب سے معزز وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہو۔
اسلام نے بدلہ لینے میں بھی برابری کی تلقین کی، زیادتی کی اجازت نہیں دی،ارشاد ہے:
وَاِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوا بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُمْ بِہ (النحل آیت:۱۲۶)
اگر بدلہ لو تو اسی قدر بدلہ لو جتنی تم کو تکلیف پہنچائی گئی ہو۔
اسلام نے دوستی یا دشمنی دونوں صورتوں میں عدل وانصاف پر کاربند رہنے کی تلقین کی:
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا کُوْنُوْا قَوَّامِیْنَ بِالْقِسْطِ شُہَدَاءَ لِلّٰہِ وَلَوْ عَلٰی اَنْفُسِکُمْ اَوِ الْوَالِدَیْنِ وَالْاَقْرَبِیْنَ․ (نساء آیت:۱۳۵)
اے ایمان والو! انصاف پر قائم رہنے والے اور اللہ کی مرضی کے مطابق گواہی دینے والے بنو خواہ اس میں تمہارا یا ماں باپ اور رشتہ داروں کا نقصان ہو۔
دوسری جگہ ارشاد ہے:
وَلاَ یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَأٰن قَوْمٍ عَلیٰ اَلاَّ تَعْدِلُوا (مائدہ آیت:۸)
اور کسی قوم کی دشمنی تمھیں انصاف سے ہٹانے کا باعث نہ بن جائے۔
اسلام نے تمام انسانوں پر رحمت و شفقت کی تلقین کی، ارشاد نبوی ہے:
الراحمون یرحمہم الرحمٰن ارحموا من فی الارض یرحمکم من فی السماء․
رحم کرنے والوں پر اللہ رحم کرتا ہے تم زمین والوں پر رحم کرو تم پر آسمان والا رحم کرے گا۔
اسلام نے تمام مخلوق کو اللہ کا کنبہ قرار دیا، ارشاد نبوی ہے:
الخلق عیال اللّٰہ فاحب الخلق الی اللّٰہ من أحسن الٰی عیالہ․
اسی مضمون کو حالی مرحوم نے ان الفاظ میں ادا کیا ہے۔#
یہ پہلا سبق ہے کتاب ہدیٰ کا
کہ مخلوق ہے ساری کنبہ خدا کا
خلاصہ یہ ہے کہ اسلام نے ہرحال میں امن و انصاف اور رحمت وشفقت کی تلقین کی اور فرد وجماعت کو حدود کا پابند بنایا، اسلام کسی بھی حال میں فتنہ وفساد کو روا نہیں رکھتا۔ اس لئے دہشت گردی کی کسی بھی صورت کا تعلق اسلام سے نہیں ہوسکتا؛ لہٰذا مدارس اسلامیہ جو اسلامی تعلیمات کے حقیقی علمبردار ہیں، کسی تحفظ کے بغیر دہشت گردی سے بیزاری کا واضح لفظوں میں اعلان کرتے ہیں۔
پاسبانان ملت! دہشت گردی کے بارے میں اپنے اس واضح موقف کے اظہار کے بعد دوسری قابل غور چیز وہ صورت حال ہے جو اس حوالے سے خاص طور پر ہمارے ملک میں پیدا کردی گئی ہے جس کا نشانہ عمومی طور پر تمام ہی مسلمان ہیں اور خاص طورپر دین دار مسلمان یا مدارس اسلامیہ کے علماء و فضلاء اور ان سے وابستہ طبقہ، کہ ان میں سے کسی کو بھی کسی دہشت گردانہ کارروائی کے سلسلے میں ملزم یا کم ازکم مشتبہ قرار دینے کے لئے نہ تو کسی غور وفکر کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے نہ کسی احتیاط کو کام میں لایا جاتا ہے اور نہ قرائن وشواہد جمع کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش کی جاتی ہے؛ بلکہ ان کے سر الزام ڈالنے کے لئے اتنا کافی سمجھا جاتا ہے کہ وہ مسلمان ہیں یا ان کا تعلق مدارس یا کسی دینی جماعت سے ہے۔ اور اب تو صورت حال اس حد تک سنگین ہوگئی ہے کہ فرقہ پرست طاقتیں تمام دہشت گردوں کا تعلق مدارس اسلامیہ سے منسلک کررہی ہیں؛ بلکہ بعض دریدہ دہن لوگوں نے تو مذہبی تعلیم ہی کو دہشت گردی کی اساس اور منبع قرار دے دیا ہے، جیساکہ اخباری اطلاعات کے مطابق حال ہی میں ”اسلامک مدرسے بے نقاب“ نامی کتاب میں کہا گیا ہے جس میں دینی مدارس اور دین اسلام کے متعلق بہت سی بے بنیاد، اشتعال انگیز باتیں اور بھی مذکور ہیں۔
اور یہ ساری افترا ء پردازی اس حال میں ہورہی ہے کہ مسلمانوں کا امن پسندانہ کردار، وطن عزیز سے ان کی بے غبار وفاداری اور تحریک آزادی میں تمام مسلمانوں اور خاص طور پر مدارس کے علماء کی بے مثال قربانیاں تاریخ ہند کی ایسی روشن حقیقت کی حیثیت رکھتی ہیں، جس پر ایوان عدالت سے زندان عقوبت تک اس سرزمین کا ذرہ ذرہ گواہ ہے۔ کیا کوئی انصاف پسند شخص یہ کہنے کی جرأت کرسکتا ہے کہ مدارس اسلامیہ اور ان کے بوریہ نشین علماء کی جدوجہد کے بغیر برطانوی استعمار کے شکنجہ سے وطن کی آزادی کا خواب شرمندئہ تعبیر ہوسکتا تھا؟ ان بزرگوں نے پسینہ کی جگہ خون بہایا اور وطن کی عزت و سربلندی کے لئے تن من دھن کی بازی لگادی اور پھر یہ حقیقت بھی تاریخ میں آب زر سے لکھی جانے کے لائق ہے کہ یہ ساری قربانیاں ستائش کی تمنا اور صلے کی پروا سے بے نیاز ہوکر پیش کی گئیں، اسی لئے حصول آزادی کے بعد یہی علماء مدارس جو دار ورسن کی ہر آزمائش میں سب سے آگے تھے، ہر انعام وجزاء سے دست کش ہوکر یکسوئی کے ساتھ تعمیرانسانیت کے کام میں مشغول ہوگئے۔
یہی کام ان مدارس اسلامیہ کا نصب العین ہے جن کو آج دہشت گردی کا مرکز یا ملک دشمن سرگرمیوں کی آماجگاہ بتایا جارہا ہے۔ جب کہ حقیقت صرف اور صرف یہ ہے کہ یہ مدارس ملک وملت اورانسانیت کے لئے خیر وفلاح کے سرچشمے ہیں، یہ ملک کو امن پسند، ایمان دار اور فرض شناس شہری فراہم کرتے ہیں، یہ انسان دوستی اور صلح وآشتی کا درس دیتے ہیں، یہاں نفرت نہیں محبت سکھائی جاتی ہے، یہاں پڑھنے والے کا فکری خمیر، امن وسلامتی، دردمندی، خیرخواہی، غریب پروری، وطن دوستی اور احترام انسانیت کے جذبات سے تیار ہوتا ہے۔ اور یہ وطن دوستانہ، امن پسندانہ کردار صرف دارالعلوم دیوبند یا چند بڑے مدارس کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ ملک کے طول وعرض میں پھیلے ہوئے تمام مدارس اسی طرز فکر کے حامل ہیں اس لئے کہ دارالعلوم دیوبند اور دیگر مرکزی مدارس سے جو رجال کار تیار ہوئے انھوں نے اپنے اکابر کی اسی فکر کو اپنایا اور پورے ملک میں چراغ سے چراغ جلانے کا کام کیا اور اپنی مثبت سوچ اور اعلیٰ ترین کردار سے چپے چپے کو منور کردیا اوراپنے بزرگوں کے پیغام امن و انسانیت کو گاؤں گاؤں پھیلادیا اس لئے اگر یہ کہا جائے تو قطعاً مبالغہ نہ ہوگا کہ مدارس اسلامیہ دہشت گردی کی راہ میں سد سکندری کی حیثیت رکھتے ہیں جس کا ایک قوی ترین شاہد یہ تاریخی حقیقت ہے کہ یہ مدارس، صدیوں سے اپنے اسی دینی نصاب و نظام کے ساتھ سرگرم عمل ہیں؛ لیکن کبھی بھی ان کے کردار پر حرف نہیں آیا؛ بلکہ ان سے جمہوریت پسند، محب وطن، امن پرور اور ملک وقوم کے وفادار علماء دین تیار ہوتے رہے ہیں جن کی وطن دوستی ہر شک شبہ سے بالاتر رہی اور وہ اپنے بلند کردار اور اعلیٰ تعلیمات کے ذریعہ ہر قسم کی تفریق پسندانہ ذہنیت کے مقابلہ میں سینہ سپر رہے۔ ان کے اسی کردار نے ہمارے وزیراعظم کو اس کا موقع فراہم کیا کہ وہ اقوام متحدہ میں فخر کے ساتھ کہہ سکیں کہ ہندوستانی مسلمان دہشت گردی میں ملوث نہیں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مدارس کا کردار بالکل آئینہ کی طرح صاف ہے، یہاں کے نظام میں کوئی چیز راز نہیں ہے سب کچھ کھلا ہوا ہے ایسے شفاف کردار پر جب کیچڑ اچھالی جاتی ہے تو قلب و دماغ ایک حیرتناک اذیت سے دوچار ہوتے ہیں
ع دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت، درد سے بھر نہ آئے کیوں
علماء ذی وقار! اس تاریخی موقع پر ضروری معلوم ہوتا ہے کہ دہشت گردی کے نازک مسئلہ پر اپنی حکومت، برادران وطن اور ارباب مدارس کی خدمت میں کچھ صاف صاف باتیں عرض کردی جائیں۔
جہاں تک حکومت اوراس کے انتظامی اداروں کا تعلق ہے تو ان سے ہم یہ کہنا چاہیں گے کہ
(۱) امن واستحکام کے قیام اور بدامنی کے خاتمہ کے لئے عدل وانصاف پر مبنی مساویانہ سلوک کی ضرورت کو آپ سے زیادہ کون سمجھ سکتا ہے؟، اگر آپ دہشت گردی کی لعنت کا مقابلہ کرنے میں سنجیدہ ہیں تو نہایت پختگی اور مضبوطی کے ساتھ انصاف کا دامن تھام کر کام کیجئے اور عقیدہ ومذہب کی بنیادپر کسی بھی تفریق سے کلی اجتناب کیجئے، حقیقی مجرموں کو تلاش کرکے کیفرکردار تک پہنچائیے اور بے قصوروں کی آہوں سے اپنے کو محفوظ رکھنے کی کوشش کیجئے تاکہ ملک کی وحدت وسالمیت برقرار رہے اور وہ تیزی کے ساتھ ترقی کی راہ پر آگے بڑھتا رہے۔
(۲) دہشت گردی کی حقیقت اور اس کے پس منظر کو سمجھئے، واقعہ یہ ہے کہ دہشت گردی، بنیادی طور پر ہمارے ملک کا مسئلہ نہیں ہے؛ بلکہ یہ اُن عالمی طاقتوں کی تقسیم کردہ لعنت ہے جن کے نظریات کی بنیاد صہیونیت پر ہے، جن کا واحد ایجنڈہ صہیونی عزائم کی تکمیل ہے اور وہ فساد فی الارض کے علمبردار ہیں ورنہ کیا وجہ ہے کہ اربوں ڈالر اور لاکھوں فوجی دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے جھونک دینے کے باوجود آج تک کامیابی کے آثار نظر نہیں آتے؛ بلکہ ان کی ناکامی کی انتہاء تو یہ ہے کہ آج تک وہ دہشت گردی کا مفہوم ہی طے نہیں کرپائے۔ ان کے طرز عمل سے تو فقط یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے مذموم توسیع پسندانہ عزائم کی راہ میں حائل ہونے یا ہوسکنے والا ہر شخص دہشت گرد ہے، جب کہ زمانہ واقف ہے کہ آج دنیا میں دہشت گردی کی لعنت صہیونی طاقتوں کے ہی دم سے زندہ ہے اسی لئے ان کے طریقہٴ کار پر نظر رکھنے والے مبصرین کا کہنا ہے کہ ہمارے وطن عزیز میں پیش آنے والی دہشت گردانہ کارروائیوں کی جانچ بہت گہرائی سے کیا جانا ضروری ہے کیوں کہ بعض واقعات میں طریقہٴ کار کی مماثلت محسوس ہوتی ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ ہماری ادھوری یا غلط رُخ پر ہونے والی تحقیقات اصل مجرموں کی پردہ پوشی اور بے قصوروں کو مجرم قرار دینے کی ناانصافی کا ذریعہ بنتی رہیں۔
(۳) حکومت کو دہشت گردی کے مسئلے سے نمٹنے میں اس حقیقت کو پیش نظر رکھنا چاہئے کہ تاریخ میں بارہا ایسا ہوا ہے کہ حکومتوں کے مجرم قوموں کے ہیرو کہلائے ہیں، خاص طور پر وہ جن کے شدت پسندانہ رویہ کا سبب، حکومت کی ناانصافی اور ظلم ہو۔ اس تاریخی حقیقت پر نظر رکھتے ہوئے کوشش ہونی چاہئے کہ ہر ایسا عمل ترک کردیا جائے جس کا رد عمل دہشت گردی کی شکل میں سامنے آسکتاہے۔
(۴) کسی ایک فرد یا چند افراد کے طرز عمل کے لئے پوری قوم کو ذمہ دار قرار نہیں دیا جاسکتا، ورنہ دنیا کے تمام بڑے مذاہب اور تمام معزز قوموں کو دہشت گرد قرار دینا پڑے گا، جو یقینا ایک غلط بات ہوگی۔ یہی بات مسلمانوں پر بھی منطبق کیجئے، مسلمان اس ملک کی تاریخ وثقافت کا اٹوٹ حصہ ہیں ان کو غیرمطمئن کردینا ملک وقوم کے حق میں کسی بھی طرح مفید نہیں ہوسکتا۔
(۵) اس پر بھی غور کیا جائے کہ مسلمان، آج ہی کس طرح دہشت گرد بن جائیں گے جب کہ آزادی کے بعد سے اب تک ہر قسم کے مشکلات و مصائب جھیلنے اور امتیازی سلوک کا نشانہ بننے کے باوجود انھوں نے اپنے وطن کے دوستانہ کردار کو برقرار رکھا، اپنے حقوق کے مطالبہ کے لئے ہمیشہ جمہوری اور آئینی طرز عمل اختیار کیا، شدت پسندانہ رویہ سے احتراز کیا، کبھی کسی طرح کی ملک دشمن سرگرمی میں حصہ نہیں لیا اور نہ ہی ملک کے مختلف علاقوں میں سرگرم شدت پسند تنظیموں سے کوئی رابطہ رکھا، آخر وہ اپنے اس ملک کو کیوں نقصان پہنچائیں گے جس کی آزادی کے لئے انھوں نے اپنی ہر عزیز متاع کو داؤ پر لگایا، خاص طور پر جب کہ کسی بھی دہشت گردانہ کارروائی کا نقصان دوسروں سے پہلے خود انھیں کو پہنچنا یقینی ہے، ان نکات پر غور کرکے ہر صاحب عقل سمجھ سکتا ہے کہ مسلمانوں کا دہشت گرد ہونا خلاف واقعہ بھی ہے اور ناممکن بھی۔
دوسری بات ہمیں برادران وطن سے کہنی ہے کہ ہم اورآپ بھائی بھائی ہیں اور صدیوں سے اس ملک میں اچھے پڑوسیوں کی طرح رہتے آئے ہیں، ہماری مشترکہ قربانیوں سے وہ تہذیب وجود میں آئی ہے جسے گنگاجمنی تہذیب کہا جاتا ہے، ہم نے ملک کی ہر لڑائی شانہ بشانہ لڑی ہے، اگر آپ نے فرقہ پرست طاقتوں کے گمراہ کن پروپیگنڈے کو حقیقت سمجھ لیا اور مسلمانوں کی تابناک تاریخ کو نظر انداز کردیا تو یہ ہماری ہی نہیں آپ کی اور اس ملک کی بھی بدقسمتی ہوگی، اس لئے آپ ہمارے قریب آکر ہمیں دیکھئے اور ملک کے امن وامان اور وحدت وسالمیت کی حفاظت میں مشترکہ جدوجہد جاری رکھئے۔
اکابر ملک وملت! بندے کا یہ مقام ہرگز نہیں ہے کہ وہ آپ سے بات کرتے ہوئے ناصحانہ طرزکلام اختیار کرے اورنہ ہی آپ اس کے محتاج ہیں؛ لیکن وقت کے تقاضے کے تحت ایک بھائی کی حیثیت سے چند ضروری باتیں عرض کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔
سب سے اہم اور بنیادی بات یہ ہے کہ مدارس اسلامیہ ہمارے ہاتھ میں ہمارے اسلاف اور ملت اسلامیہ کی نہایت قیمتی امانت کی حیثیت رکھتے ہیں، اس امانت کی ہر پہلو سے حفاظت اور اس کا حق ادا کرنا ہمارا سب سے اہم فریضہ ہے۔
اس فریضہ کی تکمیل کے لئے ضروری ہے کہ ہم ہر وقت مدارس کے نصب العین کو سامنے رکھیں، ہمارے اکابر رحمہم اللہ نے شریعت اسلامی کے علمی ورثہ کو اس کے مخصوص مزاج اور متوارث منہاج کے مطابق اس کی صحیح شکل میں محفوظ رکھنے کے لئے یہ مدارس قائم کئے تھے، ان کے پیش نظر ایسے رجال کار تیار کرنا تھا جو اسلامی علوم وفنون کے ماہر اور اعلیٰ اسلامی اخلاق و کردار کے حامل ہوں، جو اپنی علمی مہارت، فکری گہرائی و گیرائی اور کردار کی پختگی سے ملت اسلامیہ کی باشعور نمائندگی اور ہوش مندانہ قیادت کا فریضہ انجام دے سکیں۔
ایسے افراد کی تیاری کے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنے طلبہ کو ہر قسم کے مضر خارجی اثرات سے محفوظ رکھنے کی پوری کوشش کریں، ان کومادیت کی لہر اور مغربی تہذیب کی لعنت سے بچائیں، ان کی ٹھوس ذہنی تربیت کا اہتمام کریں جس کے نتیجے میں وہ نہ تو کسی اسلام دشمن تحریک کی زد میں آسکیں اور نہ ہی ان کو اسلام کے نام پر کسی غیرقانونی سرگرمی کے لئے آلہٴ کار بنایا جاسکے۔
دوسری نہایت ضروری بات یہ ہے کہ مدارس کے حالات، امن پسندانہ کردار اور تعلیمی سرگرمیوں سے اپنے ماحول کو واقف کرایا جائے، بہت سی غلط فہمیوں کی بنیاد ناواقفیت ہوتی ہے اگر ہمارا رابطہ اپنے ماحول سے مسلسل رہے گا، اور ہماری سرگرمیاں حکومت اور اس کے نمائندوں کے سامنے آتی رہیں گی تو فرقہ پرستوں کے پروپیگنڈے کا ایک موٴثر جواب ہوجائے گا، ہمیں کسی کو خواہ مخواہ اپنا دشمن بنانے یا سمجھنے کی ضرورت نہیں؛ بلکہ اپنے پیغامِ محبت کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔
اور آخر میں نہایت دردمندی کے ساتھ ایک گذارش ملت کے تمام ہی مکاتب فکر کے اکابر کی خدمت میں کرنا چاہوں گا اور وہ یہ کہ آج کے پر آشوب حالات میں امت مسلمہ کا اتحاد، گذشتہ ہردور سے زیادہ ضروری ہوگیا ہے، کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ ہم اپنے فروعی اختلافات کو اپنے گھر تک محدود رکھیں اور دشمنوں کے مقابلے میں ایک متحد امت کا کردار پیش کریں؟ کیا ہمارے لئے صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا یہ عمل بہترین اسوہ نہیں؟ کہ انھوں نے عین اس زمانہ میں جب وہ سیدنا حضرت علی رضی اللہ عنہ سے برسرپیکار تھے روم کے بادشاہ کی جانب سے حضرت علی رضی اللہ کے خلاف متحدہ محاذ بنانے کی دعوت کو پائے حقارت سے ٹھکرادیا اور ملت میں تفریق کے اُس داعی کو یاکلب الروم کے الفاظ سے مخاطب کرکے ٹھوس لفظوں میں بتادیا کہ اگر اُس نے حضرت علی کے زیرحکومت علاقوں کی طرف نظر اٹھاکر بھی دیکھا تو حضرت علی کے لشکر کے سب سے پہلے سپاہی کا نام معاویہ ہوگا۔ آج اس کردار کو زندہ کرنا وقت کی آواز ہے، ضرورت ہے کہ ہم اس آواز کو سنیں اور اسی کے مطابق اپنا لائحہٴ عمل تیار کریں۔
اسی کے ساتھ اپنے داخلی نظام کو بہتر بنانا ازبس ضروری ہے، ہمارا مالیاتی نظام آئینہ کی طرح شفاف ہونا چاہئے، اسی طرح ہمارے مدارس کے ماحول کو ایک بہترین معیاری اسلامی ماحول کا نمونہ ہونا چاہئے، جس میں حسن اخلاق، دیانت وامانت، ادائے حقوق، اتباع سنت اور خوف خدا کی حکمرانی ہو، اگر ہم اپنے معاشرہ کو ان خطوط پر ڈھالنے میں کامیاب ہوگئے تو ان شاء اللہ خطرات کے تمام بادل چھٹ جائیں گے اور مدارس کے خلاف ہونے والی سازشیں اپنی موت آپ مرجائیں گی۔
آخر میں ایک بار پھر صمیم قلب سے آپ سبھی حضرات کا شکریہ اداکرتاہوں اور حق ضیافت میں کوتاہی پر معذرت پیش کرتا ہوں۔
اللہ تعالیٰ اس کانفرنس کو تمام مدارس اور ملت اسلامیہ کے لئے مثمرخیرات وبرکات فرمائے اور ہم سب کو اپنی مرضیات پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔
وآخردعوانا ان الحمد للّٰہ رب العٰلمین․
———————————
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 3، جلد: 92 ، ربیع الاول 1429 ہجری مطابق مارچ 2008ء