فتنہ نمازِ سہ گانہ (۳- وقت کی نماز)

از: ڈاکٹر ایم اجمل فاروقی‏، ۱۵/گاندھی روڈ، دہرہ دون

دنیا میں اِس وقت ترکی میں ہونے والی سیاسی تبدیلیوں اور گھریلو حالات سے متعلق بہت دلچسپی پائی جارہی ہے۔ حالیہ پارلیمانی اور صدارتی انتخابات سے قبل بہت زبرست پروپیگنڈہ مہم عالمی میڈیا میں چھیڑی گئی بڑے بڑے جلوسوں کی خبریں اور تصاویر شائع ہوئیں کہ وہاں سیکولر ترقی پسند عوام کٹر مسلمانوں کے خلاف خصوصاً خواتین سڑکوں پر آگئی ہیں اور اسلام پسندوں کے خلاف بہت ماحول بناہوا ہے، اِس تمام پروپیگنڈہ کے علی الرغم انتخابات کے نتائج نے اِس پروپیگنڈہ مہم کی قلعی کھول دی۔ مگرشیطانی طاقتوں کے آلہٴ کار ہار ماننے والے کہاں ہیں؟ ترکی کو اب ایک نئی سازش کے لئے لانچنگ پیڈ بنایا گیا ہے کہ ”زمانہ کی ضرورتوں اورحالات کے تغیروتبدل کی وجہ سے اب نماز پانچ بار ادا کرنے کے بجائے تین بار ادا کی جائیں“۔ اور اِس بات کو بھی پہلے کی ہی طرح ایسے پیش کیاگیا جیساکہ اِسے کسی بہت بڑی علمی، دینی شخصیت نے پیش کیا ہے اور اس کو ترکی کے علاوہ عرب ممالک میں بھی پذیرائی مل رہی ہے۔ خصوصاً مصر کا ذکر کیاگیا ہے کہ وہاں کے علمی حلقوں اور اخوان المسلمین کے بھی ایک حلقہ کی تائید حاصل ہے۔ ابھی آزاد ذرائع سے یہ معلوم کرپانا مشکل ہے کہ اصل حقیقت کیاہے۔ یہ خیال ظاہر کرنے والے کون ہیں؟ اُن کی علمی عوامی حیثیت کیا ہے؟ اور دراصل انھوں نے کہا کیا؟۔ پھر بھی ذرائع ابلاغ سے کوئی اور رخ سامنے نہیںآ یا۔ اب ہمارے سامنے دو صورتیں ہیں یاتو اس کو شیطان کی فریب کاریوں اور سازشوں میں سے ایک سازش مان کر ”کچھ نہیں سب بکواس ہے“ کا رویہ اپنائیں۔ دوسرا یہ کہ نصوص اور عقل و سائنس و تجربہ کی کسوٹی پر اِس بکواس کو رگڑکر اس کا جھوٹ ہونا ظاہر کردیا جائے۔ کہ یہ جراثیم جہاں جہاں بھی پرورش پارہے ہوں ان کا قلع قمع ہوجائے۔

نصوص کی جہاں تک بات ہے وہ سورج کی طرح روشن اور عیاں ہیں حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل احادیث میں اوقات پنج گانہ کی تصریحات اور ان ۱۴۵۰ سالہ تواتر اس کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ قرآن پاک میں ان الصلوٰة کانت علی المومنین کتٰباً موقوتاً (نساء:۱۰۳)کی تاکید صراحت کے ساتھ موجود ہے۔ پھر اول وقت آخر وقت کی باقاعدہ صراحتیں ایسی بات پر دلالت کرتی ہیں کہ نمازیں اسی طرح سے فرض ہیں جو کہ آج ساری دنیا میں معروف ومشہور ہیں۔ دوسری بات کو ذرا تفصیل سے دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ہوائی سفر وغیرہ کی وجہ سے ٹائم زون کے جو مسئلے پیدا ہوئے ہیں اس پر مستند علماء اور اداروں کی طرف سے شریعت کی روشنی میں رہنمائی مہیا کرادی ہے۔ اوّل تو یہ مسئلہ کتنے فیصد لوگوں کو درپیش ہے پھر اُس کا شرعی حل بھی موجود ہے۔ اس بحث میں ایک بہت اہم نکتہ یہ ہے کہ اللہ رب کائنات نے جو علیم بھی ہے حکیم بھی ہے جوانسانی جسم اورجبلت اور انسانی فطرت کا خالق بھی ہے اور عالم بھی ہے اس نے نماز کو وقت کی پابندی کے ساتھ ادا کرنے کا جو حکم دیا ہے اس کی کیا مصلحت ہے؟ ابھی تک طبّی تحقیقات کی روشنی میں دیکھا جائے تو جس مصروفیت اور تغیر زمانہ کی آڑ لے کر یہ فتنہ بپا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اس مصروفیت، تناؤ اور دباؤ سے نمٹنے کا بہترین طریقہ یہ صبح سے رات تک مختلف خصوصی اوقات میں ادا کی جانے والی یہ نمازیں ہی ہیں۔ تحقیقات بتاتی ہیں کہ انسانی جسم میں فطری طور پر حیاتیاتی گھڑی Biological Clock ہوتا ہے۔ جس کے مطابق انسانی جسم کی حرکات وسکنات اور جسمانی وذہنی کارکردگی کنٹرول ہوتی ہے۔ دن کے مختلف اوقات میں جسم اور ذہن کی صلاحیتوں کا پیمانہ یا سطح مختلف ہوتی ہے۔ صبح کو اپنے عروج پر ہوکر ظہر کے وقت تک مستقل استعمال کی وجہ سے ڈھلنے لگتی ہے تو اُس وقت ظہر کی نماز کے ذریعہ انسانی جسم اور روح دونوں کی تازگی کا انتظام کردیاگیا۔ اسی طرح وقفہ وقفہ سے انسانوں کی عوامی مصروفیات اور روحانی وجسمانی تکان کو دور کرنے کا انتظام وقت کی پابندی کے ساتھ نماز کی ادائیگی کے ذریعہ کردیاگیا ہے۔ انسان روح اورجسم دونوں کا مجموعہ ہے اور دونوں کی اپنی اپنی ضرورتیں ہیں۔ اسی طرح نماز کی ایک ظاہری شکل (حرکات وسکنات) ہیں اور دوسری روحانی شکل (خشوع وخضوع) ہے اس طرح دونوں ایک دوسرے کا تکملہ (پوراکرنے والے) ہیں۔ اس میں اگر ہم بغیر مکمل علم کے جیسا علم کہ اللہ کا ہے مستقل تغیروتبدل کرنا چاہتے ہیں تو یہ پوری انسانیت کے لیے ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔ یہ تو طے شدہ بات ہے کہ اللہ غنی اور صمد ہے وہ انسانوں کے رکوع، سجود، قیام وقعود نیز اِن کی خیرات، صدقات کا اور دان دکشنا کا محتاج نہیں ہے اس نے جو بھی ارکان فرض کیے ہیں اس میں اصل فائدہ دراصل خود انسان کا ہے انسانی معاشرہ کا ہے پوری انسانی برادری کا ہے۔ جس جسمانی طبعی گھڑی Clock کی میں نے بات کی ہے اس کا آج مختلف میدانوں میں بہت مہارت کے ساتھ استعمال ہورہا ہے۔مینجمنٹ کے ماہرین اس کااستعمال کررہے ہیں۔ فوجی ماہرین اس کا استعمال کررہے ہیں۔ یوگا جسے آج کل دنیا بھر میں جھاڑپونچھ کر دنیا بھر میں بڑی چمک دمک سے پیش کیا جارہا ہے تمام اسکولوں، یونیورسٹیوں میں یوگا کی تعلیم عام کی جارہی ہے۔ کھیلوں کی دنیا میں اس کی بڑی اہمیت ہے۔ اسپورٹس میڈیشن کے ماہرین اس بات کو جانتے ہیں کہ کس وقت میں انسانی جسم کی کارکردگی اپنے عروج و شباب پر ہوتی ہے وہ کوشش کرتے ہیں کہ ان کی ٹیم یا کھلاڑی کو مقابلہ کاوہی وقت ملے تاکہ وہ جسم کی ٪۱۰۰ صلاحیت کا استعمال کرسکے۔ ایسا وقت نہ ملنے کی صورت میں کھلاڑیوں نے شارٹ کٹ کے طور پر طاقت بڑھانے والی ادویہ Steroids کا استعمال کرنا شروع کیا۔ اس کے علاوہ بڑی کمپنیاں اپنے ملازمین کے اوقات کے تعین میں اس تحقیق کا استعمال کررہے ہیں کہ انسانی جسم ایک نظام الاوقات کا پابند ہے اورمختلف اوقات میں اس کی کارکردگی مختلف ہوتی ہے۔ یہ وہ معمولی علم ہے جو آج حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کے ۱۴۵۰ سال بعد ہمیں حاصل ہے۔ آئندہ ہزاروں سالوں میں جب انسانی علم؛ تحقیق اور تجربہ مزید ترقی کرے گا تو اور نہ جانے کیا کیا فوائد شریعتِ اسلام کے ظاہر ہوں گے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ آج کی گلاکاٹ مسابقہ اورمقابلہ کی زندگی مادہ پرستانہ معیارِ زندگی کی اندھا دھند دوڑ میں حیران و پریشان انسان کو اور زیادہ وقت ملتا کہ وہ اپنے جسمانی اور روحانی وجود کو تروتازہ کرپاتا وہ اپنے خالق سے بات کرپاتا وہ اپنی زندگی اور نیا کی حقیقت کو زیادہ سے زیادہ وقت سمجھنے اور recharge (مقوی) بنانے کی کوشش کرتا اُس کے خلاف سخت حالات میں دباؤ سے نمٹنے کے لئے زیادہ ضرورت کے علی الرغم اسے پہلے سے بھی کم سطح پرلاکر اس طرح کی بچکانہ یا مکارانہ تجاویز پیش کرنا انسانیت کی بھلائی نہیں انسانیت پر ظلم ہے۔ دین کی حقیقت سے واقف ہر شخص کو سمجھنا اور یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ اور رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع واطاعت میں نہ اللہ کا کوئی فائدہ ہے اور نہ رسول  صلی اللہ علیہ وسلم کا۔ دین کی اتباع کے ذریعہ ہی بنی نوع انسانی جسمانی، روحانی، دنیاوی واخروی خوشی اور کامیابی حاصل کرسکتی ہے۔ اس کے علاوہ صرف ضلالت اور گمراہی مقدر ہے جس کا نتیجہ ناکامی اور فساد فی الارض ہے۔ ایسے انسانوں کو اللہ تبارک و تعالیٰ کی یہ تنبیہ ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے : ”یہ تم پر احسان رکھتے ہیں کہ مسلمان ہوئے تو کہہ مجھ پر احسان نہ رکھو اپنے اسلام لانے کا بلکہ اللہ تم پراحسان رکھتا ہے کہ اس نے تم کو راہ دی ایمان کی اگر سچ کہو“ (الحجرات:۱۷)

______________________________

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ12، جلد: 91 ‏،ذی الحجہ 1428 ہجری مطابق دسمبر2007ء

Related Posts