از: مولانا محمد عارف مبارکپوری‏، شارجہ ، متحدہ عرب امارات

۱-     فرمان باری: أولٰئک یلعنہم اللّٰہ ویلعنہم اللٰعنون (بقرہ:۱۵۹)

”ان پر لعنت کرتا ہے اللہ اور لعنت کرتے ہیں لعنت کرنے والے“۔

سوال یہ ہے کہ فعل (یلعنہم) مکرر کیوں لایاگیا جبکہ حرف عطف کے ذریعہ اس تکرار سے بچا جاسکتا تھا؟

اس کے دو جواب دئیے گئے ہیں:

اوّل: چوں کہ دونوں لعنتیں الگ الگ ہیں؛ اس لیے فعل میں تکرار ہے۔ اللہ کی لعنت سے مراد، رحمت سے دور کرنا ہے اورانسان کی لعنت سے مراد، بددعا دینا ہے۔ اس کے برعکس آیت کریمہ (ان اللّٰہ وملائکتہ یصلون علی النبی) (احزاب:۵۶)

”اللہ اور اس کے فرشتے رحمت بھیجتے ہیں رسول پر“

میں فعل میں تکرار نہیں اس لیے کہ تحقیق یہ ہے کہ اللہ کی ”صلاة“ اور فرشتوں کی ”صلاة“ ایک ہے اور اس سے مراد ذکر خیر ہے۔ یہ قول ابن عاشور اور آلوسی نے نقل کیا ہے۔(۱)

دوم: اس خبر کو دو مستقل جملوں کی شکل میں لانے کی وجہ تاکید اور تعظیم ہے۔ یہ قول ابوحیان نے نقل کیا ہے۔(۲)

۵-    فرمان باری: والہکم الہ واحد لا الہ الا ہو (بقرہ:۱۶۳)

”اور معبود تم سب کا ایک ہی معبود ہے۔ کوئی معبود نہیں اس کے سوا۔“

اس آیت میں دو مقام پر بدیہیات ہیں:

مقام اوّل: لفظ (الہ) کو دوبار لانے کی کیا ضرورت ہے جبکہ ایک کافی تھا؟

ابن عاشور اس کے جواب میں لکھتے ہیں:

”یہ اس لیے ہے تاکہ اس پر ”واحد“ کی صفت جاری کی جاسکے، مقصد یوں کہنا تھا: (الہکم واحد) مبتدا اور خبر کے بیچ میں لفظ ”الہ“ کو لایاگیا تاکہ مبتدا کے اندر الوہیت کے مفہوم کو راسخ کیا جاسکے۔ جیسے تم کہتے ہو عالم المدینة عالم فائق (مدینہ کے عالم نمایاں عالم ہیں)۔ نیز اس لیے تاکہ اس لفظ کا ذکر بھی آجائے،جو دراصل نعت (صفت) کی شکل میں آنا چاہیے تھا، جس سے یہ فائدہ حاصل ہوکہ یہ موصوف کے لیے ثابت وصف ہے، اس لیے کہ یہ اس کی نعت ہوچکی ہے؛ کیوں کہ نعت میں اصل یہ ہے کہ وہ وصف ثابت ہو ، اور خبر میں اصل یہ ہے کہ وہ وصف حادث ہو۔ اور یہ فصیح کلام میں ایک سلیس استعمال ہے کہ اسم یا فعل کو دوبارہ ذکر کیا جائے تاکہ اس پر وصف یا متعلق قائم ہے، جیسے (الہا واحدا) اور جیسے (واذا مروا باللغو مروا کراما) (فرقان:۷۲) ”اور جب گذرتے ہیں کھیل کی باتوں پر تو نکل جائیں بزرگانہ“(۳)

مقام دوم: (والہکم الہ واحد) کہنے کے بعد (لا الہ الا ہو) کہنے میں کیا حکمت ہے جب کہ اوّل الذکر، دوسرے کو مستلزم ہے؛ کیوں کہ جس کے لیے وحدانیت ثابت ہوگی اس کے لیے، الوہیت بھی ثابت ہو۔

اس کے دو جواب دئیے گئے ہیں:

اوّل: جب (والہکم الہ واحد) کہا تو کسی کے ذہن میں یہ خیال گذرسکتا ہے کہ مان لو ہمارا معبود ایک ہے، ہوسکتا ہے دوسروں کا معبود ہمارے معبود سے الگ ہو؟ اس وہم کو ختم کرنے کے لیے توحید مطلق کو بیان کرنا ضروری تھا، اس لیے فرمایا (لا الہ الا ہو) ، اس لیے کہ جب ہم کہتے ہیں ”لا رجل“ (کوئی مرد نہیں) تو اس کا تقاضا ہے کہ اس ماہیت کی ہی نفی ہو اور جب اس ماہیت کی نفی ہوگئی تواس کے ہر ہر فرد کی نفی اور انکار ہوگیا،اس لیے کہ اگر اس ماہیت کا ایک فرد بھی پایاگیا تو اس کے پائے جانے سے اس ماہیت کا وجود ہوگیا اور یہ لفظ کے مدلول (ماہیت کی نفی اورانکار) سے متصادم ہے، لہٰذا یہ ثابت ہے کہ لا رجل (کوئی مرد نہیں) عام اور ہر ہر فرد کو شامل نفی و انکار کا متقاضی ہے، اب اس کے بعد جب الا زیدا کہا جائے تو اس سے حقیقی مکمل توحید مفہوم ہوگی۔ یہ قول رازی اور ابوحیان نے نقل کیا ہے۔(۴)

دوم: (لا الہ الا ہو) وحدانیت کے مفہوم کی تاکید اور اللہ کی ذات کے علاوہ سے الوہیت کی نفی ہے۔ یہ جملہ اس لیے آیا ہے کہ معبود کے ہر فرد کی نفی ہو اور پھر اس مفہوم کو اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات میں منحصر کردے۔ لہٰذا پہلی آیت سے اللہ کی طرف وحدانیت کی نسبت معلوم ہوئی اور دوسری آیت سے الوہیت کو لفظ صریح کے ذریعہ، اللہ کی ذات میں منحصر کرنے کا علم ہوتا ہے؛ اس لیے کہ جس کے لیے وحدانیت ثابت ہوگی اسی کے لیے الوہیت ثابت ہوگی۔ یہ قول ابن عاشور، ابوسعود اور آلوسی نے ذکر کیا ہے۔(۵)

۶-     فرمان باری: یا أیہا الناس کلوا مما فی الأرض حلالا طیبا (بقرہ:۱۶۸)

”اے لوگو! کھاؤ زمین کی چیزوں میں سے حلال پاکیزہ“۔

سوال یہ ہے کہ حلال اور طیب ایک ہی معنی میں ہیں پھر حلال کی صفت ”طیب“ لانے میں کیا حکمت ہے؟

اس کے کئی جواب دئیے گئے ہیں:

اوّل: یہ تاکید کے لیے ہے؛ اس لیے کہ بہ قول امام مالک اس کا معنی: جو شریعت کی نظر میں لذیذ ہو،اس کو مکروہ اور ناپسندنہ سمجھے یا جو شریعت کی نظر میں شبہ سے پاک ہو۔ اور حلال کو اس سے متصف کرنے کا فائدہ، حکم کے عموم کو بیان کرنا ہے جیسے کہ فرمان باری ہے (وما من دابة فی الارض) (انعام:۸۳) ”اور کوئی نہیں چلنے والا زمین پر“۔

اس سے ان لوگوں کی تردید مقصود ہے، جنھوں نے بعض حلال چیزوں کو حرام کرلیا؛ اس لیے کہ جس نکرہ کی کوئی عام صفت آجائے اس میں عمومیت اور شمول پیدا ہوجاتا ہے، نکرہ غیرموصوفہ کی یہ حیثیت نہیں۔ یہ قول آلوسی اورابوحیان نے نقل کیا ہے۔(۶)

دوم: یہ تخصیص کے لیے ہے؛ اس لیے کہ اس سے مراد بہ قول امام شافعی، صحیح مزاج سے پیدا ہونے والی درست شہوت، جس کو طیب اور عمدہ قرار دے۔ لیکن اس پر یہ اعتراض کیاگیا ہے کہ جس کو یہ، طیب اور پاک نہ سمجھے وہ یا تو غیرمشتبہ حلال ہے لہٰذا ممنوع نہیں ورنہ وہ ”حلال“ کی قید سے نکل گئی۔ اس کا جواب یہ دیاگیا ہے کہ ”حلال“ سے مراد، شریعت نے جس کے حلال ہونے کی تصریح کی ہو (اور اس سے مراد، جس کے بارے میں نص نہ ہو) لیکن طبیعت مستقیمہ اس کو لذیذ سمجھے۔ اوراس کو اس کی رغبت اور خواہش ہو۔ اور شریعت میں اس کی حرمت کی کوئی دلیل نہ ہو مثلاً نشہ آور یا ضرر رسا ہونا ۔ اس مقام کا تقاضا ہے کہ یہ قید شہوت فاسدہ کو ابھارنے والی چیز کو خارج کرنے کے لیے قید احترازی نہیں؛ بلکہ اس لیے ہے کہ یہ اس کے مفہوم میں داخل ہے، کیوں کہ طیب اور لذیذ اس چیز کو کہا جاتا ہے جس کو شہوت مستقیمہ لذیذ قرار دے۔اور اس صورت میں اس کا فائدہ، اس چیز کو مباح ہونے کو بہ صراحت بیان کرنا ہے، جسے ان لوگوں نے حرام کررکھا ہے۔ یہ قول آلوسی کا ہے، ابوحیان رازی اور ابن عاشور نے بھی اسے نقل کیا ہے۔(۷)

سوم: اس سے مراد مباح ہے، اور جہاں تک تکرار لازم آنے کی بات ہے تو ہمیں تسلیم نہیں؛ اس لیے کہ ”حلالا“ سے مراد جس کی جنس حلال ہو اور ”طیبا“ سے مراد جس سے کسی دوسرے کا حق متعلق نہ ہو، کیوں کہ حرام خوری، گو کہ کھانے والا اس کو طیب اور عمدہ سمجھے؛ لیکن اس حیثیت سے کہ اس کا انجام سزا کاٹنا ہے، ضرر رساں ہوگی، طیب اور عمدہ نہیں۔ جیساکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

ان الذین یأکلون أموال الیتامی ظلما، انما یأکلون فی بطونہم نارا․ (نساء:۱۰)

”جو لوگ کہ کھاتے ہیں مال یتیموں کا ناحق وہ لوگ اپنے پیٹوں میں آگ ہی بھررہے ہیں“۔

یہ قول رازی نے نقل کیا ہے، ابن عاشور نے اس پر نکیر کی ہے۔(۸)

۷-    فرمان باری: أولٰئک ما یأکلون فی بطونہم الا النار (بقرہ:۱۷۴)

”وہ نہیں بھرتے اپنے پیٹ میں مگر آگ“۔

یہ بدیہی بات ہے کہ انسان پیٹ ہی میں کھاتا ہے، پھر اس کے ذکر کرنے میں کیا حکمت ہے جب کہ یہ بداہتاً معلوم ہے؟

اس کے کئی جواب دئیے گئے ہیں:

اوّل: یہاں پر ”بطن“ (پیٹ) کا ذکر مزید وضاحت اور مجاز کے وہم و خیال کو ختم کرنے کے لیے ہے؛ اس لیے کہ اگر آدمی اپنا مال تباہ وبرباد کردے تو بھی کہا جاتا ہے: أکل فلان مالہ (وہ اپنا مال کھاگیا) یہ قول طبری، رازی اور ابوحیان نے نقل کیا ہے۔(۹)

دوم: یہ بھرپیٹ کھانے سے کنایہ ہے، کہا جاتا ہے: أکل فلان فی بطنہ (اس نے بھرپیٹ کھایا) اور أکل فی بعض بطنہ (اس نے آدھا پیٹ کھایا)۔ یہ قول زمخشری، رازی، ابوحیان، اور ابوسعود اور آلوسی نے نقل کیا ہے۔(۱۰)

سوم: یہ تاکید کے لیے ہے؛ کیوں کہ بداہتاً معلوم ہے کہ کھانا پیٹ ہی میں ہوتا ہے، اس کی نظیر یہ آیت ہے: (ولا طائر یطیر بجناحیہ) اس کو طبری، ابوحیان اور ابوسعود نے نقل کیا ہے۔ آلوسی نے اس پر نکیرکی ہے۔(۱۱)

۸-    فرمان باری: یرید اللّٰہ بکم الیسر ولا یرید بکم العسر (بقرہ:۱۸۵)

”اللہ چاہتاہے تم پر آسانی، اور نہیں چاہتا تم پر دشواری“۔

یہاں پر آیت کا پہلا ٹکڑا (یرید اللّٰہ بکم الیسر) دوسرے ٹکڑے (ولا یریدبکم العسر) سے بے نیاز کرتاہے؛ اس لیے کہ آسانی چاہنا، دشواری نہ چاہنے کو مستلزم ہے۔ لہٰذا دوسرے جزو کو ذکر کرنے میں کیا حکمت ہے؟

اس کے چند جواب دیے گئے ہیں:

اوّل: تاکید کے لیے ہے۔ یہ قول ابوحیان اور ابن عاشور نے نقل کیا ہے۔(۱۲)

دوم: یہ آیت (یریداللّٰہ بکم الیسر ولا یرید بکم العسر) ماسبق کے سارے مضمون یعنی فرمان باری ”کتب علیکم الصیام“ (آیت:۱۸۳) سے یہاں تک، کی تعلیل و توجیہ ہے۔ اور اس میں یہ اشارہ ہے کہ روزہ کی مشروعیت گوبہ ظاہر مشقت اور دشوار معلوم ہوتی ہے، لیکن اس میں جس قدر مصلحتیں پنہا ہیں وہ اس بات کی دلیل ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ سے آسانی چاہتا ہے یعنی بعض دوسرے مذاہب والوں نے ریاضت کے لیے جو خود کو بے جا مشقت میں ڈالا، اس سے ہٹ کر، نفس کی ریاضت کا آسان طریقہ بتادیا۔(۱۳)

۹-فرمان باری: فمن کان منکم مریضاً أو علی سفر فعدة من أیام أخر (بقرہ:۱۸۵)

”اور جو کوئی بیمار ہو یا مسافر کو گنتی پوری کرنی چاہیے اور دنوں سے“۔

اس آیت کریمہ کے دوبارہ ذکر کرنے میں کیا فائدہ ہے جب کہ اسکی نظیر آیت (فمن کان منکم مریضا) (بقرہ:۱۸۴) پہلے آچکی ہے اور مریض و مسافر کا حکم معلوم ہوچکا ہے؟ اس کے کئی جواب دئیے گئے ہیں:

اوّل: چوں کہ پہلی (کتب علیکم الصیام) (بقرہ: ۱۸۳) میں روزہ کی فرضیت، اس اختیار کے ساتھ تھی کہ آدمی چاہے روزہ رکھے یا فدیہ میں کھانا کھلائے۔ اور اس آیت میں بہ صراحت مریض اورمسافر سے فرضیت ساقط تھی۔ اس کے بعد آیت (شہر رمضان) سے سابقہ آیت کا حکم منسوخ ہوگیا، اور روزہ رکھنا ہی فرض ہوگیا تو اس سے یہ اندیشہ تھا کہ آدمی یہ نہ سمجھے کہ پہلی آیت میں جن لوگوں کے لیے رخصت تھی وہ بھی منسوخ ہوگئی۔ حتی کہ مریض اور مسافر پر بھی روزہ فرض ہے۔ لہٰذا اس آیت میں اس حکم کو دوبارہ ذکر کردیاگیا تاکہ بہ صراحت، اس رخصت کے باقی رہنے کا حکم معلوم ہوجائے۔ اور صرف قدرت، حضر اور صحت کے ساتھ ہی کھانا کھلانے کی رخصت منسوخ ہوئی ہے۔ یہ توجیہ ابن عاشور، بیضاوی اور ابوسعود نے ذکر کی ہے۔(۱۴)

یہ توجیہ اس صورت میں ہے کہ موخرالذکر آیت کو، اول الذکر آیت کے لیے ناسخ مانا جائے؛ لیکن اگر ہم یہ مان کر چلیں کہ دونوں آیتیں بیک وقت نازل ہوئی ہیں، تو اس جگہ پر اس آیت کے دوبارہ ذکر کرنے کا خاص مقصود یہی ٹکڑا (ومن کان منکم مریضا) ہے؛ اس لیے کہ اس کا ذکر روزہ کے دنوں کی تعیین کے بعد آیاہے، جب کہ پہلی آیت میں سامعین کی رعایت میں قبل از وقت رخصت کی اطلاع دینا ہے۔ یہ توجیہ ابن عاشور نے نقل کی ہے۔(۱۵)

دوم: اس کا اعادہ تخصیص کی خاطر ہے۔ اس کی توضیح (بہ قول آلوسی) یہ ہے کہ (شہد) ”شہود“ سے ماخوذ ہے، جو ذاتی یا علمی طور پر حضور و وجود کو بتاتا ہے، اور ایک قول کے مطابق یہاں پر دونوں کے اعتبار سے شہود مراد ہے۔ لفظ (الشہر) پہلے معنی کے لحاظ سے مفعول فیہ ہے، اس کا مفعول بہ ترک کردیاگیا ہے، اس لیے کہ اس سے کوئی غرض وابستہ نہیں۔ لہٰذا یہاں ”بلد“ یا ”مصر“ کو مقدر ماننا بلاوجہ ہے۔ دوسرے معنی کے لحاظ سے لفظ (الشہر) مفعول بہ ہے، اس کا مضاف محذوف ہے اصل عبارت یوں ہے: ہلال الشہر (اور بہ ہر دو تقدیر ”الف لام“ عہد کا ہے) اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ جو اس مہینہ میں حاضر رہا یا: جس کو اس مہینہ کے چاند کا علم یقینی ہوگیا وہ روزہ رکھے۔ یعنی جس کو چاند میں شبہ ہو اس پر روزہ فرض نہیں۔ مضاف مقدر ماننے کی وجہ یہ ہے کہ پورے ماہ کا علم تو اس وقت ہی ہوگا جب مہینہ گذر جائے اور جب مہینہ گذر گیاتو روزہ کے فرض ہونے کا کوئی مطلب نہیں۔ لہٰذا اس دوسرے معنی کے اعتبار سے آیت (فمن کان منکم مریضا أو علی سفر فعدة من أیام أخر) مریض و مسافر دونوں کے لحاظ سے تخصیص پیدا کرنے والی ہوئی۔ اور پہلے معنی کے اعتبار سے مریض کے لحاظ سے تخصیص پیدا کرنے والی ہے، مسافر کے لحاظ سے نہیں۔ اور اس صورت میں اس کا تکرار اسی تخصیص کے لیے ہے۔ یہ قول بیضاوی اور ابوسعود نے نقل کیا ہے۔(۱۶)

سوم: اعادہ کی وجہ اس وہم کا ازالہ ہے کہ اوّل الذکر آیت (فمن شہد منکم الشہر فلیصمہ) سے منسوخ ہے، جبکہ ”شہد“ تحقق و علم کے معنی میں ہو، نیز رخصت کے حکم کو زیادہ پرزور انداز میں بیان کرنا اور (فمن شہد منکم الشہر فلیصمہ) کی مزید توضیح ہے۔اس کو ابن عاشور نے نقل کیاہے۔(۱۷)

۱۰-   فرمان باری: فلیستجیبوا لی ولیوٴمنوا بی (بقرہ:۱۸۶)

”تو چاہیے کہ وہ حکم مانیں میرا اور یقین لائیں مجھ پر“۔

سوال یہ ہے کہ اگر استجابت سے مراد، دل اور زبان سے ہے تو یہی ایمان ہے، پھر (ولیوٴمنوا بی) تکرار محض ہے۔ اس میں کیا حکمت ہے؟ اس کے چار جواب دیے گئے ہیں:

اوّل: استجابت سے مراد اللہ کے حکم کو ماننا ہے اور یہ عطف مغایر ہے؛ اس لیے کہ امراوّل سے مراد: فعل ہے اور امر دوم سے مراد: اس پر قائم و دائم رہنا ہے۔ یہ جواب رازی، ابن عاشور، ابوحیان اورآلوسی نے نقل کیا ہے۔(۱۸)

دوم: استجابت سے مراد عام ہے جو دعوتِ ایمان قبول کرنے کو بھی شامل ہے،اس کے بعد اہتمام کی وجہ سے (ولیوٴمنوا بی) کو ذکر کیاگیا جو عام پر خاص کا عطف ہے۔ یہ جواب ابن عاشور نے نقل کیا ہے۔(۱۹)

سوم: استجابت سے مراد فرمابرداری اور سرتسلیم خم کرنا ہے اورایمان ایک دلی کیفیت کا نام ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بندے کو نورایمانی حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے نیکیاں اور عبادت کرے۔ یہ جواب امام رازی نے نقل کیا ہے۔(۲۰)

چہارم: دوسرے ٹکڑے سے مراد ازسرِ نو ایمان لانا ہے۔ اس قول کو ابوحیان نے نقل کرنے کے بعد اسے مستبعد قرار دیا ہے۔ اسلئے کہ ابتدائی آیت متقاضی ہے کہ یہ لوگ اہل ایمان تھے۔(۲۱)

پنجم: دوسرے ٹکڑے سے مراد اس بات کا ایمان و یقین کرنا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی دعا قبول کرتا ہے۔ یہ قول ابوحیان نے عطاء خراسانی سے منسوب کیا ہے۔(۲۲)

۱۱-    فرمان باری: ولا تأکلوا أموال الناس بالباطل وتدلوا بہا الی الحکام لتأکلوا فریقا من أموال الناس بالاثم وأنتم تعلمون․ (بقرہ:۱۸۸)

”اور نہ کھاؤ ایک دوسرے کا مال آپس میں ناحق، اور نہ پہنچاؤ ان کو حاکموں تک کہ کھاجاؤ کوئی حصہ لوگوں کے مال میں سے ظلم کرکے (ناحق) اور تم کو معلوم ہے۔“

سوال یہ ہے کہ ناحق مال کھانے کی ممانعت میں یہ بھی داخل ہے کہ حاکموں کے پاس پہنچاکر لوگوں کا مال ناحق کھایا جائے۔ تو الگ سے اسے ذکر کرنے کی کیا ضرورت تھی جب کہ سابقہ ممانعت اس کو شامل تھی؟

ابن عاشور اس کاجواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:

”ناحق مال کھانے کی ممانعت ذکر کی گئی جو اس صورت کو بھی شامل تھی؛ لیکن خاص طور پر اس کا ذکر اس لیے کیاگیا کہ یہ سخت گھناؤنی ہے، اور اس میں بہت سے حرام کام آجاتے ہیں۔ نیز یہ بتانے کے لیے کہ رشوت دینے والا بھی گنہگار ہے حالاں کہ اس نے خود ناحق مال نہیں کھایا ہے؛ بلکہ دوسرے کو کھلایا ہے۔(۲۳)

$$$

حواشی:

(۱)         ابن عاشور ۲/۶۳؛ آلوسی ۲/۲۷۔

(۲)        ابوحیان تفسیر آیت۔

(۳)        ابن عاشور ۲/۵۰۔

(۴)        رازی ۲/۱۹۲؛ ابوحیان تفسیر آیت۔

(۵)        ابن عاشور ۲/۷۴؛ ابو سعود ۱/۱۸۴؛ آلوسی ۲/۲۹۔

(۶)        آلوسی ۲/۳۹؛ ابوحیان تفسیر آیت۔

(۷)        آلوسی ۲/۳۸، ۴۰؛ ابوحیان تفسیر آیت؛ رازی ۵/۱۸۵؛ ابن عاشور تفسیر آیت۔

(۸)        رازی ۵/۱۸۵؛ ابن عاشور تفسیر آیت۔

(۹)         تفسیر طبری ۲/۵۳؛ رازی ۵/۲۰۵؛ ابوحیان تفسیر آیت۔

(۱۰)       زمخشری تفسیر آیت؛ رازی ۵/۲۰۵؛ ابوحیان تفسیر آیت؛ ابوسعود ۱/۱۹۵؛ آلوسی ۲/۴۳۔

(۱۱)        طبری تفسیر آیت؛ ابوحیان تفسیر آیت؛ ابوسعود ۱/۱۹۵؛ آلوسی ۲/۴۳۔

(۱۲)       ابوحیان تفسیر آیت، ابن عاشور تفسیر آیت۔

(۱۳)      ابن عاشور تفسیر آیت۔

(۱۴)      ابن عاشور تفسیر آیت، بیضاوی ۱/۴۶۴، ابوسعود ۲/۲۰۲۔

(۱۵)      ابن عاشور تفسیر آیت۔

(۱۶)       آلوسی ۲/۶۲؛ بیضاوی ۱/۴۶۴، ابوسعود ۲/۲۰۲۔

(۱۷)      ابن عاشور تفسیر آیت۔

______________________________

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ9، جلد: 91 ‏، شعبان-رمضان 1428 ہجری مطابق ستمبر2007ء

Related Posts