اسلامی اعتدال پسندی کا امریکی معیار: ایک چشم کشا رپورٹ

از: ذاکر اعظمی / الریاض

حال ہی میں معروف امریکی تحقیقی ادارہ (RAND Corporation) جس کی سرپرستی حکومت امریکہ سالانہ 150 ملین ڈالر کے خطیر بجٹ سے کرتی ہے اسلام اورمسلمانوں کے تعلق سے ایک تازہ ترین رپورٹ پیش کی ہے۔ مذکورہ رپورٹ کی تیاری میں تین سال کا عرصہ لگا جو ۲۱۷ صفحات پر مشتمل ہے اوراس کا عنوان ہے ”اعتدال پسند مسلم معاشرہ کا قیام“ (Building Moderate Muslim Networks) اس رپورٹ میں اسلام اورمسلمانوں کے تعلق سے جس جارحانہ انداز میں زہر افشانی کی گئی ہے وہ امریکہ اور اہل مغرب کے مذہبی تعصب اور انتہا پسندی کا آئنہ دار ہے۔ ذیل کی سطور میں ہم اس مبنی بر تعصب رپورٹ کے بارے میں تجزیہ پیش کرنے کی حتی المقدور کوشش کریں گے۔

اس تحقیقی رپورٹ کا لب لباب یہ ہے کہ عصر حاضر میں مغرب نواز اعتدال پسند مسلم قیادت کو کس طرح ابھارا جائے، مسلمانوں کو ان کے اصلی سرچشمے یعنی قرآن وسنت سے کس طرح برگشتہ کیا جائے، سیکولرزم اور مغربی افکار کو مسلم معاشروں میں کس طرح پروان چڑھایا جائے، وہ کون سے وسائل ہیں جو مسلم نوجوانوں کے دلوں میں ان کے مذہب کے تعلق سے شکوک وشبہات پیدا کرسکتے ہیں، اور ساری دنیا کے مسلمانوں کو اس بات پر کس طرح قائل کیا جائے کہ ان کی پستی اور زبوں حالی سے نجات صرف اور صرف امریکی اعتدال پسند اسلام کو اپنانے میں مضمر ہے۔

رپورٹ ہذا مسلم معاشروں میں ایک فکری ونظریاتی اسلامی انقلاب کی بات کرتی ہے جوامریکہ اور مغرب نواز ہو۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس سے قبل امریکہ صوفیت اور تقلیدی اسلام کو اہل مغرب کے لئے خطرہ نہیں تصور کرتا تھا، لیکن مذکورہ رپورٹ کی روشنی میں بلا کسی تفریق کے ساری دنیا کے مسلمانوں کو امریکہ اور اہل مغرب کے لئے بطور چیلنج پیش کیاگیا ہے جن کے خطرات سے نمٹنے کے لئے مسلم دنیا میں امریکہ کی جانب سے پیش کردہ اعتدال پسند اسلام یا امریکی اسلام کاانقلاب برپا کرنا ازحد ضروری ہے۔ اس مختصر سی تمہید کے بعد ہم اس رپورٹ میں زیربحث آئے اہم نقطاط پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں:

اسلام کی تشکیل نو:

اس رپورٹ کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ اس کا مرکزی محور امریکہ کی عالمی سیاست ہے جس کا اصل ہدف شیعہ سنی اختلافات کو ہوادینا، سعودی عرب اور دیگر مسلم ملکوں کے تئیں معاندانہ رویہ کو اختیار کرنا، اور نہ صرف اسلام پسندوں بلکہ پورے اسلامی معاشرہ کو امریکہ کا ہمنوا بنانا ہے تاکہ ساری دنیا کے مسلمان امریکہ سے کندھا سے کندھا ملاکر چل سکیں اور بقول امریکہ عصر حاضر کے تقاضوں کو پورا کرسکیں۔ علاوہ ازیں مذکورہ رپورٹ اس بات پر زور دیتی ہے کہ کمیونزم کے سابقہ تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اعتدال پسند یا انتہا پسند مسلمان کے بجائے اسلام کے پورے ڈھانچہ کی اورہالنگ (Overhauling) کی جائے اور سارے مسلمانوں کو ایک ہی زمرہ میں شمار کیا جائے اور انہیں اہل مغرب کے لئے ایک کھلا چیلنج تصور کیا جائے۔

واضح رہے کہ مذکورہ ادارہ کی ۲۰۰۴/ کی رپورٹ نے بش انتظامیہ کو شفارشات پیش کی تھیں کہ اسلام پسند یا شدت پسند مسلمانوں کے خلاف جنگ کو جیتنے کے لئے اشتراکی ذہن رکھنے والے مسلم گروپوں کی بھرپور مدد کی جائے تاکہ وہ شدت پسندوں سے برسرپیکار ہوکر ساری اسلامی دنیا میں اعتدال پسندی اور جدیدیت کے نام پرامریکہ اور مغرب کے مفادات کو تحفظ فراہم کرسکیں۔ اس کے برعکس موجودہ رپورٹ اعتدال پسند مسلم نیٹ ورک کے قیام کی پرزور اپیل کرتی ہے، اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا اصل مقصد اب نفس اسلام کو ہی تبدیل کرنا ہے کیونکہ سابقہ تجربات کی روشنی میں مسلمان خواہ اعتدال پسند ہو یا شدت پسند وہ بحیثیت مجموعی اس شریعت محمدی پر ایمان رکھتا ہے جس پر ان کی دنیا وآخرت کی کامیابی کا سارا دارومدار ہے۔ لہٰذا اسلام کے ڈھانچہ کو تبدیل کئے بغیرمسلمانوں کی مذہبی سوچ میں تبدیلی پیدا کرنا سعی لاحاصل ہے۔

اعتدال پسندی کا امریکی معیار کیاہے؟

مذکورہ رپورٹ کے مطالعہ سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ رپورٹ ہذا اسلام پسندوں، شدت پسندوں اور (Radical) مسلمانوں کے درمیان دانستہ طورپر شکوک و شبہات پیدا کرتی ہے اور اس بات پر زور دیتی ہے کہ لبرل اور اعتدال پسند مسلمانوں (Moderate and Liberal Muslims) کو ہر طرح کی مالی اور فکری امداد فراہم کی جائے، بحیثیت مجموعی اس رپورٹ کی روشنی میں امریکی اعتدال پسندی کی تعریف صرف ان مسلمانوں پر صادق آتی ہے جو امریکہ کی جانب سے وضع کردہ اعتدال پسندی کی مندرجہ ذیل شرائط پر پورے اترتے ہوں:

۱-     اسلامی شریعت کے نفاذ کو غیرضروری سمجھنا۔

۲-    اس بات پر ایمان رکھنا کہ عورت شوہر کے بجائے (Boy Friend) کو اختیار کرنے میں کلی طور پر آزاد ہے۔

۳-    اقلیتی مذہب سے تعلق رکھنے والے شخص کے مسلم اکثریت والے ملک کے اعلیٰ منصب پر فائز ہونے کو جائز تصور کرنا۔

۴-    لبرل مسلمانوں کی حتی المقدور مدد کرنا اور ان کی حوصلہ افزائی کرنا۔

۵-    صرف دو طرح کے اسلامی رجحان کی تائید کرنا، ایک تقلیدی اسلام یعنی وہ مسلمان جونماز کے علاوہ دین کے دوسرے امور سے بے بہرہ ہو، دوسرے وہ صوفی مسلمان جو قبرپرستی وغیرہ جیسی بدعات کو صحیح تصورکرتے ہیں۔ ان دونوں اسلامی رجحان کے علاوہ سارے اسلامی افکار کو وہابیت کے زمرے میں شمار کیا گیا ہے۔

یاد رہے کہ اسلام کا یہ تصور شرق اوسط میں امریکہ کے سابق سفیر ڈینس روس کی اس سفارش کی روشنی میں وضع کیاگیاہے جس میں سیکولر یالبرل اسلام کے فروغ پر زور دیاگیا ہے،جس کا مقصد ایسی سیکولر تنظیموں کا قیام ہے جو ہوبہو وہی دینی اور سماجی خدمات انجام دیں جو عام طور سے اسلامی تنظیمیں انجام دیتی ہیں خواہ وہ طبی کیمپ کی صورت میں ہو یا یتیموں کی کفالت کا مسئلہ وغیرہ۔

مذکورہ رپورٹ کا سب سے مضحکہ خیز پہلو یہ ہے کہ اعتدال پسند مسلمان کے معیار کو جاننے کے لئے (۱۰) سوال وضع کئے گئے ہیں،جو مسلمان اس مندرجہ ذیل معیار پر پورا اترے گا وہی اعتدال پسند کہلائے گا۔

۱-     وہی جمہوریت قابل قبول ہوگی جو مغرب کے معیار پر پورا اترے گی۔

۲-    جمہوریت اسلامی اصول و مبادی سے متصادم ہے۔

۳-    اسلامی شریعت کا نفاذ اعتدال پسند اور انتہا پسند مسلمان کے درمیان خط فاصل ہے۔

۴-    اعتدال پسند مسلمان وہ ہے جو عورتوں کے حقوق کو عصر حاضر کے تناظر میں دیکھے نہ کہ رسول اللہ … کی فرمودات کی روشنی میں۔

۵-    کیا آپ شدت پسندی کی تائید کرتے ہیں؟

۶-     کیا آپ جمہوریت کو اس کے وسیع تر یعنی مغرب کے وضع کردہ انسانی حقوق کے تناظر میں دیکھتے ہیں (جو اباحیت اور ہم جنسی جیسے فظیع اعمال کو جائز تصور کرتا ہے)؟

۷-    کیاآپ اس جمہوریت کے تعلق سے کچھ تحفظات رکھتے ہیں جو فرد کو تبدیلیٴ مذہب کی مکمل آزادی دیتی ہے؟

۸-    کیاآپ اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ انسان اپنا مذہب تبدیل کرنے میں پوری طرح سے آزاد ہے؟

۹-     کیا آپ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ حکومت کی ذمہ داری صرف شریعت کے فوجداری (Criminal) پہلو کا نفاذ ہے؟ یا صرف شریعت کے سول کوڈ کو ہی نافذ کیاجانا چاہئے؟ کیا آپ اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ اسلامی شریعت کے ماسوا دنیا کو دوسرے قوانین یعنی کمیونزم یا اشتراکیت وغیرہ کو اسلامی معاشرہ میں نافذ کیاجاسکتا ہے؟

۱۰-   کیاآپ اس امر پریقین رکھتے ہیں کہ اقلیت سے تعلق رکھنے والا شخص مسلم معاشرہ میں اعلیٰ عہدہ پر فائز ہوسکتا ہے؟ کیا ایک غیرمسلم پوری آزادی کے ساتھ ایک اکثریتی مسلم ملک میں اپنی عبادت گاہ تعمیر کرسکتا ہے؟

انہیں سوالوں کے جوابات کی روشنی میں یہ متعین ہوگا کہ ایک مسلمان امریکی معیار کے مطابق اعتدال پسند ہے یا شدت پسند۔ علاوہ ازیں رپورٹ ہذا عالم اسلام میں پائے جانے والے اعتدال پسند مسلمانوں کی مندرجہ ذیل تین قسمیں بیان کررہی ہے:

۱-     اشتراکی ذہن رکھنے والے لبرل مسلمان جو مذہب کو سیاست سے جدا تصور کرتے ہیں۔

۲-    علمائے دین سے عداوت رکھنے والے جن کے لئے اس رپورٹ میں ”اتاترکیین“ کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے اور تونسیا کی حکومت کو اس کا ہمنوا شمار کیاگیا ہے۔

۳-    وہ اسلام پسند جو مغربی جمہوریت اوراسلام کے مابین تصادم کو جائز تصور کرتے ہیں۔

اس ساری وضاحت کے بعد رپورٹ ہذا امریکہ کی نگاہ میں اعتدال پسند مسلمان کی تعریف کچھ اس طرح کرتی ہے ”یعنی وہ مسلمان جو مزاروں کی زیارت کرتے ہیں، تصوف کے قائل ہیں اور دین میں اجتہاد کو ناجائز تصور کرتے ہیں۔“

رپورٹ کا ایک بڑا حصہ یعنی دس ابواب میں سے دو ابواب اس بات پر زور دیتے ہیں کہ عالم اسلام میں پائے جانے والے مختلف گروہوں کی دامے درمے سخنے مدد کی جائے، اوراسلامی مراکز کو نظر انداز کیا جائے، اور ان مراکز کی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھی جائے تاکہ امریکہ کی جانب سے مراعات یافتہ مغرب نواز اسلامی گروپ ایشیا اور یورپ میں پروان چڑھ سکیں، اور وقت کے ساتھ ساتھ یہ نام نہاد امریکا کے ہمنوا خود ساختہ اسلامی گروپ اس قدر مضبوط ہوجائیں کہ پورا عالم اسلام معروف اسلامی مراکز اور اداروں کے بجائے انہیں گروہوں سے دین اسلام کے بارے میں رہنمائی حاصل کرنے لگے اور نتیجہ امریکہ کی جانب سے پیش کردہ نام نہاد اعتدال پسند اسلام کو خوب پھلنے پھولنے کا موقع مل سکے۔

رپورٹ کا چھٹا باب اس بات پر زور دیتا ہے کہ ایشیا اور یورپ میں پھیلے ان گروہوں کا تجربہ کیا جائے، اس ضمن میں ان افراد اور جماعتوں کی فہرست پیش کی گئی ہے جن کے ساتھ مل کر کام کیا جاسکتا ہے اور انہیں ہرطرح کا مالی تعاون دیا جاسکتا ہے تاکہ وہ اسلام کی تصویرکو بگاڑ کر پیش کرسکیں، جس کی واضح مثال سعودی عرب کی ایک ویب سائٹ ہے جو اس بات کی تبلیغ کرتی ہے کہ کلمہ ”لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ“ کے بارے میں وارد احادیث ثابت شدہ نہیں ہیں۔ اس ویب سائٹ کو امریکہ بھرپور مالی تعاون دیتا ہے۔

مساجد کے کردار سے خوف:

رپورٹ کا پہلا باب یعنی مقدمہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ مسلمانوں کو مسجد سے دور رکھاجائے کیونکہ مسجد ہی وہ منبر ہے جس سے مسلم امہ اپنے دینی معاملات میں رہنمائی حاصل کرتی ہے۔ اور اگر مسجد کے کردار کو مسخ کردیاگیاتو گویا اسلامی شریعت کا دائرہ کار ازخود محدود ہوکر رہ جائیگا۔ لہٰذا اس مقصد کے حصول کے لئے ان مبلغین کی مدد کرنا ضروری ہے جو مسجد کے باہر سے اپنی نام نہاد مذہبی سرگرمیاں جاری رکھتے ہیں، اسی کے ساتھ ساتھ اسلامی جماعتوں کو فراہم کی جانے والی مالی امداد کی روک تھام ضروری ہے تاکہ ان کی سرگرمیاں محدود ہوکر رہ جائیں اور امریکہ کی جانب سے مراعات یافتہ اعتدال پسند یاتقلیدی اسلام کو ماننے والا گروپ پروان چڑھ سکے۔ واضح لفظوں میں اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام کی بیخ کنی کے لئے ضروری ہے کہ خود مسلمانوں کے اندر اسلام دشمنی کی تخم ریزی کی جائے اور عام مسلمانوں کو اعتدال پسندی کے نام پر دین اسلام سے متنفر کیا جائے۔

شاید یہی وجہ ہے کہ رپورٹ کا دوسرا باب سرد جنگ کے فلسفہ کو اپنانے پر زور دیتا ہے جیساکہ اس کا کامیاب تجربہ امریکہ نے اشتراکیت کو زیرکرنے کیلئے سابقہ سویت یونین میں کیا، بایں طور کہ کمیونسٹوں کے ایک گروہ کے اندر اس اشتراکی فکرکے خلاف نفرت کی آگ بھڑکائی اور انہیں باہم دگر برسرپیکار کرکے اشتراکیت کے چڑھتے سورج کو ہمیشہ کے لئے روبہ زوال کردیا۔

رپورٹ کا تیسرا باب اس امر کو زیر بحث لاتا ہے کہ اشتراکیت کے خلاف سرد جنگ میں استعمال کئے گئے حربے اور وہ حربے جو آج اسلامی فکر کو – نعوذ باللہ – صفحہٴ ہستی سے مٹانے کے لئے استعمال ہورہے ہیں کے مابین کیا بنیادی فرق یا یکسانیت ہے؟ رپورٹ اس نتیجہ پر پہنچتی ہے کہ جس طرح سے اشتراکیت کے ساتھ تصادم کی نوعیت فکری تھی بالکل اسی طرح آج مغرب اور اسلام کے مابین محاذ آرائی اسی فکری انداز کی ہے، اور جب تک مسلمانوں کو فکری طور پر زیر نہیں کیا گیا، انھیں سیاسی وعسکری میدان میں شکست دینا امر محال ہوگا۔

رپورٹ کی روشنی میں جہاں تک اشتراکی نظام اور اسلامی فکر کے مابین اختلاف کی بات ہے وہ یہ کہ اشتراکیت کے مقاصد واضح تھے جس کی بیخ کنی قدرے آسان تھی، اس کے برخلاف اسلامی فکر کسی ایک گروہ یاجماعت تک محدود نہیں کہ ان کو ہدف بناکر ان کے خلاف محاذ آرائی کی جاسکے۔ رپورٹ کی سب سے اہم سفارش یہ ہے کہ ان اسلامی ممالک کے ساتھ براہ راست تصادم نہ کیا جائے جن کے ساتھ امریکہ کے سیاسی اوراقتصادی مفادات وابستہ ہوں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ باوجودیکہ سعودی عرب میں پائی جانے والی وہابی یا سلفی فکر کو امریکہ مغربی افکار کے خلاف سب سے زیادہ خطرناک تصور کرتا ہے، لیکن چونکہ سعودی عرب اور پڑوسی دیگر خلیجی ریاستوں کے ساتھ پٹرول کی صورت میں امریکہ کا بہت بڑا مفاد وابستہ ہے، لہٰذا ان ممالک کے ساتھ براہ راست تصادم امریکی حکومت کے مفاد میں نہیں؛ بلکہ ان ممالک پر فکری یلغار ہی کے ذریعہ امریکی اثر و رسوخ کو باقی رکھا جاسکتا ہے۔ شاید یہی بنیادی سبب ہے کہ رپورٹ ہذا صراحت کے ساتھ ذکر کرتی ہے کہ عالم عرب میں جمہوریت کے فروغ کے لئے امریکہ کو خاصی دشواریوں کا سامنا ہے، یا صحیح معنوں میں ان ممالک میں جمہوریت کا قیام امریکی مفاد کے ساتھ براہ راست متصادم ہے۔

پانچویں باب میں امریکہ بہ صراحت یہ اعتراف کرتا ہے کہ ماضی میں اس نے اردن اور مغرب (مراکش) کی اعتدال پسند قوتوں کی تائید وحمایت کی (جن میں حزب العدالة والتنمیة جیسی سیاسی پارٹیاں سرفہرست ہیں)، لیکن بقول رپورٹ ”افسوس اس بات کا ہے کہ جنہیں اعتدال پسند سمجھا گیا وہ کچھ اور نکلے“۔ اسی کے ساتھ یہ تحقیقی رپورٹ اس بات پر بھی زور دیتی ہے کہ تیل کی دولت سے مالامال خلیجی ممالک پر کس انداز سے دباؤ ڈالا جائے کہ فکری اعتبار سے وہ امریکی اعتدال پسندی کو گلے لگالیں۔

علاوہ ازیں رپورٹ ہذا میں بعض عرب اور خلیجی ممالک میں پائے جانے والے اعتدال پسندوں کی ایک فہرست پیش کی گئی ہے جن کو امریکہ کی ایجنٹی پر آمادہ کرنا آسان ہوگا، اس مقصد کے حصول کے لئے ایسے نام نہاد اعتدال پسند ٹی․ وی․ چینل کا اجرا از حد ضروری ہے جو مغرب کے ساتھ تعایش (Co-exixtence) کی ترویج و تبلیغ کے فریضے کو بخوبی انجام دے سکے۔

خلاصہٴ کلام یہ کہ یہ رپورٹ اسلام اورمسلمانوں کے تعلق سے بہت خطرناک اغراض ومقاصد کی حامل ہے جس میں صحیح اسلامی افکار کی جس جارحانہ انداز میں مذمت کی گئی ہے کسی صاحب غیرت مسلمان کے ضمیر کو جھنجوڑنے کے لئے کافی ہے۔ اس رپورٹ کا لب لباب ان وسائل کو زیر بحث لانا ہے جن کے ذریعہ مسلمانوں کو سوشل ازم یا الحاد کے راستے پر گامزن کرنا ہے۔ اس چھوٹے سے مضمون میں اس خطرناک رپورٹ کے اندر جس انداز سے اسلام اورمسلمانوں کے تعلق سے زہر افشانی کی گئی ہے کو سمونا دشوار گذار ہے، مگر اس رپورٹ کے مرتب کا یہ قول ”اس کا مقصد اسلام اورمغرب کے مابین براہ راست تصادم نہیں، بلکہ عالم اسلام کو آپس میں برسرپیکار کرنا ہے“ ہمیں خواب غفلت سے بیدار کرنے کے لئے کافی ہے۔

﴿یُرِیدُونَ أَن یُطْفِوٴُوْا نُورَ اللّٰہِ بِأَفْوَاہِہِمْ وَیَأْبَی اللّٰہُ اِلاَّ أَن یُتِمَّ نُورَہُ وَلَوْ کَرِہَ الْکَافِرُونَ﴾ ․

______________________________

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ7، جلد: 91 ‏، جمادی الثانی 1428 ہجری مطابق جولائی2007ء

Related Posts