از: محمد اللہ خلیلی قاسمی، شعبہٴ انٹرنیٹ ، دارالعلوم دیوبند
۱۶/ ستمبر کی شام کو اسٹار نیوز پر ایک خصوصی پرگرام پیش کیا گیا جس کا عنوان تھا: ’بے نقاب‘۔ اس خصوصی رپورٹ میں دعوی کیا گیا تھا کہ کچھ مفتی حضرات نے سائل کی منشاء کے موافق روپئے لے کرفتوی جاری کیا ہے۔ مجھے اس رپورٹ کے خصوصاً اس حصے کے کچھ پہلوؤں پر روشنی ڈالنی ہے جن کا تعلق دارالعلوم دیوبند اور حضرت مفتی حبیب الرحمن صاحب کی ذات گرامی سے ہے۔
اسٹار نیوز آسٹریلیا کے عیسائی کاچینل ہے جوہندی میں خبریں نشر کرتاہے۔ اسٹار نیوز سیٹلائٹ چینل ہونے کی وجہ سے دنیا کے تقریباً تمام اہم ملکوں اور خطوں میں دیکھا جاسکتا ہے۔اسٹار نیوز کے اس پرگرام ’بے نقاب‘ میں تقریباً دو ڈھائی گھنٹے کے دوران یہ پیش کیا گیا ہے کہ مفتی فتووں کے عوض پیسے لیتے ہیں اور سوال پوچھنے والے کی مرضی کے مطابق شریعت کو توڑ مروڑ کر فتوے جاری کردیتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں خلاف شریعت فتوی جاری کرنے کے لیے رشوت لینے کے جرم عظیم کا ارتکاب کرتے ہیں۔اس پورے پروگرام میں مفتیوں کو بے ایمان، فتووں کے دلال، دھرم کے ٹھیکیدارجیسے القاب سے نوازا گیا ہے۔ نیز، فتووں کا فریب، فتووں کا فساد، فتوے کی فیس وغیرہ کی تعبیر استعمال کی گئی ہے۔مفتیوں پر آستھا ( عقیدت) اور جذبات سے کھلواڑ، سمودائے (معاشرہ) کو بدنام کرنے، دھرم پر وشواس رکھنے والوں کو گمراہ کرنے کا الزام لگایا گیا ہے۔
پروگرام میں پیش کیے گئے فتوے دارالعلوم دیوبند ، مدرسہ امینیہ دہلی، اسلامک فقہ اکیڈمی دہلی ، مدرسہ خادم الاسلام ہاپوڑ، مدرسہ محمودیہ میرٹھ وغیرہ کے مفتیان کرام سے حاصل کیے گئے تھے۔ بے نقاب پروگرام میں پیش کیے گئے فتوے کچھ اس قسم کے تھے: کریڈٹ کارڈ کا استعمال ناجائز ہے، لڑکیوں کا جینس اور ٹی شرٹ پہننا ناجائز ہے، مسلمانوں کا فلموں میں کام کرنا ناجائز اور ان کی کمائی حرام ہے، عورتوں کا ایسے کھیل کھیلنا جس میں ان کے بدن کا کوئی عضو دکھائی دیتا ہو ناجائز ہے،ڈبل بیڈ کا استعمال ناجائز ہے، ٹی وی دیکھنا ناجائز ہے، پولیو خوارک مسلمانوں کے خلاف ایک سازش ہے، برتھ کنٹرول کی تدبیر اختیار کرنا ناجائز ہے ،وغیرہ۔
’بے نقاب‘ جھوٹ کا پلندہ
قابل غور بات یہ ہے کہ تقریباً ان تمام مسئلوں پرمفتیان کرام نے جو جوابات دیے تھے وہ اپنی جگہ پر صحیح اور شریعت اسلامیہ کے مطابق تھے۔خود بے نقاب پرواگرام نے اپنے الفاظ میں جو فتوے پیش کیے ( ڈبل بیڈ کی حرمت سے متعلق فتوے کے علاوہ) وہ سارے فتوے از روئے شرع بالکل صحیح تھے۔ لیکن ان کو اس انداز اور ایسے تبصروں کے ساتھ پیش کیا گیا کہ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ یہ سارے فتوے شریعت اسلامیہ کے خلاف اور سائل کی منشاء و مرضی کے موافق پیسے لے کر جاری کیے گئے ہیں۔ اسٹار نیوز کا یہ جادو چل بھی گیا اور اچھے خاصے لوگ اس کے دام تزویر میں گرفتار ہوکر اول وہلہ میں اس واقعہ کو صد فی صد سچ سمجھ بیٹھے۔ممبئی کے ایک مہربان نے جو عالم دین بھی ہیں، اس پروگرام کو دیکھنے کے بعد ٹی وی ہی پر یہ تاثر دیا کہ ایسے مفتیوں کو سرعام پھانسی دیدینا چاہیے۔ اسٹار نیوز کے اس ڈھائی گھنٹے کے پروگرام نے پوری ملت اسلامیہ اور خصوصاً دارالعلوم دیوبند سے وابستہ پوری دنیامیں پھیلے ہوئے مسلمانوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ قابل ذکر بات یہ ہے ایک طرف اس پروگرام میں دارالعلوم دیوبند کے مفتی حبیب الرحمن صاحب کو پیسوں کے عوض فتوی دینے کا الزام لگایا گیا ، اور دوسری طرف ان دیگر مفتیوں کو بھی دارالعلوم دیوبند سے منسوب کر کے دکھایا گیا کہ یہ مفتی دارالعلوم دیوبند سے مفتی کے سند حاصل کیے ہوئے ہیں۔ اس طرح یہ پورا معاملہ کہیں نہ کہیں دارالعلوم دیوبند سے جوڑا گیا۔
پروگرام میں جگہ جگہ بار بار یہ دعوی کیا گیا ہے کہ من چاہا فتوی حاصل کرنے کے عوض رقم دینے کے متعلق مفتی سے پیشگی بات ہوچکی تھی، لیکن کہیں بھی صاف طور پر انھوں نے اس سودے بازی کا منظر نہیں دکھایا ہے۔علاوہ ازیں، اسٹار نیوز نے اپنے پروگرام میں ان فتاوی سے اپنے مطلب کے مطابق ادھر ادھر سے عبارتیں لے لیں اور اسی کو پیش کردیا ، حالاں کہ اہل علم جانتے ہیں کہ کسی بھی استفتاء کا جواب سوال کی نوعیت کے مطابق دیا جاتا ہے۔ پورے استفتاء اور فتوی کو دیکھے بغیر اس کے کسی جز کے متعلق کسی حتمی رائے کا اظہار نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اسٹار نیوز نے یہاں بھی عیاری سے کام لیتے ہوئے استفتاء ، اس کے پس منظر اور سوال کی نوعیت کو حذف کر کے محض وہ اجزاء پیش کیے جو نہ صرف مفتی کے منشاء کے خلاف تھے بلکہ دیانت و انصاف کے عالمی اصول سے بھی ٹکراتے تھے۔ مفتیوں نے ان کی مرضی کے مطابق فتوی تو نہیں دیا لیکن انھوں نے ان فتاوی کو توڑ مروڑ کر اپنی مرضی کے مطابق ضرور بنالیا۔
اس میں تو کوئی شک نہیں کہ اس اس پروگرام کی ویڈیو فائل میں بہت زیادہ ایڈیٹنگ سے کام لیا گیا۔ کسی بھی پروگرام کو تیار کرنے کے لیے ویڈیو کو ایڈٹ کرنا اور اس کے مختلف اہم ٹکڑوں کو ملا کر فلم تیار کرنا ضروری امر ہوتا ہے۔ اس سے انکار و فرار کی گنجائش نہیں، لیکن یہ چیزاس وقت قابل اعتراض بن جاتی ہے جب اس میں ہیرا پھیری ، دھوکہ دہی اور جعل سازی سے کام لیا گیا ہو، ایک جگہ کے واقعہ کو دوسری جگہ کے واقعہ سے جوڑ کر غلط تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہو، ایک وقت کی بات دوسرے وقت کی بات سے ملا کر بے بنیادنتیجہ نکالا گیا ہو۔ اسٹار نیوز کے ’بے نقاب‘ پروگرام میں اس پیشہ ورانہ مہارت کا انتہائی چالاکی کے ساتھ استعمال کیا گیا ہے۔
نیز، مفتیان کرام سے جو فتاوی حاصل کیے گئے انکے سوالات کے انتخاب میں کافی فنکارانہ عیاری سے کام لیا گیا تھا۔ چناں چہ ایسے سوالات کا انتخاب کیا گیا جن کا تعلق عام مسلمانوں کی زندگی اور ان کے جذبات سے تھا۔ کریڈٹ کارڈ ، ٹی وی کا عدم جواز، فلموں اور کھیلوں میں مسلمانوں کے شمولیت پر پابندی ، برتھ کنٹرول اورلڑکیوں کے لیے جینس و ٹی شرٹ کی مخالفت؛ یہ ایسے مسائل تھے جس میں عموماً مسلم طبقہ بھی ملوث ہے، ان مسائل کے متعلق ان فتووں کو دکھا کر یہ تاثر بھی دینے کی کوشش کی گئی یہ مفتی دھرم کے ٹھیکیدار، سطحی ذہنیت رکھنے والے، قدامت پسند اور ترقی کے مخالف ہیں اور جیسا چاہتے ہیں شریعت کو توڑ مڑوڑ کر فتوی جاری کردیتے ہیں۔
فتوی میں تبدیلی کی گئی
حیرت کی بات یہ ہے کہ اس پروگرام میں حضرت مفتی حبیب الرحمن صاحب (مفتی دارالعلوم دیوبند ) کے جس فتوے کو پیش کیا گیا، اس میں تبدیلی کی گئی ہے۔ نیچے سوال و جواب کی عبارت بعینہ درج کی جاتی ہے:
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس بارے میں ہمارے ملک کے اندر اور مختلف بینک کے ذریعہ کریڈٹ کارڈ جاری کرتا ہے۔ پہلے تو لوگ لالچ میںآ کر کریڈٹ کارڈ بنوالیتے ہیں اور بعد میں بہت موٹی رقم بیاج کے طور پر ادا کرنی پڑتی ہے۔ کیا اسلام کے اندر بیاج لینا دینا اور کریڈٹ کارڈ کا استعمال کرنا شریعت کی رو سے جائز ہے یا نہیں؟ جواب با صواب سے نوازیں۔ فقط
محمد عامر بن جاوید حق، ایل ۱۸-کالکا جی، نئی دہلی
الجواب: وباللہ التوفیق! فی نفسہ کریڈٹ کارڈ کا استعمال جائز ہے۔ البتہ اگر اس کے ذریعہ دھوکہ دیا یا لاپرواہی و غفلت میں سود دیا تو پھر کریڈٹ کارڈ کا استعمال جائز نہ ہوگا، بلکہ گناہ ہوگا۔ مسلم شریف میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے حدیث مروی ہے: لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علی اٰکل الربوا و موٴکلہ الخ․واللہ اعلم حبیب الرحمن عفی اللہ عنہ، مفتی دارالعلوم دیوبند
مفتی صاحب نے فتوی میں یہ لکھا تھا کہ ’فی نفسہ کریڈٹ کارڈ کا استعمال جائز ہے‘۔ دارالافتاء کارجسٹر جس میں حضرت مفتی صاحب کے جاری شدہ فتاوی درج ہوتے ہیں، اس کی تصدیق کرتا ہے۔ اگلی عبارت میں کریڈٹ کارڈ کے سود اور دھوکہ پر مبنی استعمال کے عدم جواز کا استثناء کیاگیا۔ لیکن اس پروگرام میں جو فتوی دکھایا گیا، اسکرین پر اس کو روک کر پڑھا جا سکتا ہے۔ اس میں صاف طور پر واضح ہوتا ہے کہ فتوی میں لفظ ”جائز ہے“ سے پہلے ”نا“ کا اضافہ کیا گیا ہے۔ ٹی وی پرجب اس کو پڑھ کر سنایا گیا تو اس وقت ”جائز نہیں“ کے ساتھ سنایا گیا۔ ٹی وی پر اس کا ہندی ترجمہ یوں لکھا گیا:
کریڈٹ کارڈ کا استعمال ناجائز ہے۔ اگر اس کے ذریعہ دھوکا دیا یا لاپرواہی اور انجانے میں سود دیا تو پھر کریڈٹ کارڈ کا استعمال جائز نہیں ہوگا، بلکہ گناہ گار ہوگا کیوں کہ سود کا لینا جس طرح گناہ ہے اسی طرح سود کا دینا بھی گناہ ہے۔
درج بالا عبارت کو پڑھ کر زبان کا ایک ادنیٰ طالب علم بھی اس میں کی گئی جعل سازی کو پکڑ سکتا ہے۔ اولاً، کریڈٹ کارڈ کے استعمال کو ناجائز کہا گیا اور پھر استثناء کر نے کے بعد بھی اس کو ناجائزہی کہا گیا جس سے پوری عبارت کا مفہوم ہی خبط ہوکررہ گیا ہے ۔ سچ ہے :
دروغ گو را حافظہ نہ باشد
دیگر فتاوی کے بارے میں ہمیں اب تک تحقیق نہیں ہوئی۔ لیکن بعید نہیں کہ ان میں بھی ایسی تبدیلی کی گئی ہو۔اگر تبدیلی نہ بھی کی گئی ہو تو بھی بہر حال اتنا صاف ہے کہ انھوں نے صحیح فتاوی کو توڑ مروڑ کر اپنی مرضی کے مطابق ڈھال کر منفی انداز سے پیش کیا۔
مفتی صاحب پر روپئے لینے کا بے ہودہ الزام
اسٹار نیوز نے اس پروگرام میں یہ دعوی کیا ہے کہ انھوں نے مفتی حبیب الرحمن صاحب کو کریڈٹ کارڈ کے عدم جواز کا فتوی دینے کے عوض میں پانچ ہزار روپئے دیے ہیں۔ اس سلسلے میں ٹی وی پر جو منظر پیش کیا گیا ہے اس سے بادیٴ النظر میں یہ مغالطہ تو دیا جاسکتا ہے کہ انھوں نے مفتی صاحب کو رقم دی ہے ۔ لیکن اسے بغور دیکھنے سے ’بے نقاب‘ ٹیم کی بد نیتی اور جعل سازی بالکل بے نقاب ہوجاتی ہے۔ اس میں ایک طرف یہ دکھایا گیا ہے کہ رپورٹر روپئے گن رہے ہیں اور پھر درمیان میں بے ربط سے مناظر کے بعد مفتی صاحب کواپنے بیگ میں کچھ روپئے رکھتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔اس پورے منظر میں کہیں بھی روپئے دیتے اور مفتی صاحب کو روپئے لیتے نہیں دکھایا گیا ہے، جب کہ یہی سین اس پوری فلم کا سب سے اہم حصہ ہوسکتا تھا، اوریہی غائب ہے۔ مفتی صاحب کا روپیہ نہ لینا درج ذیل وجوہ سے ظاہر ہے:
*مفتی صاحب نے اس سے خود انکار کیا ہے۔ دارالعلوم دیوبند کے ذریعہ قائم شدہ تحقیقاتی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں اس کو غلط بتایا ہے۔ دفتر اہتمام سے جاری پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ مفتی صاحب جو رقم رکھتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں وہ رقم ایک کتب خانے سے ان کی کتابوں کی فروخت کے عوض اتفاقاً اسی وقت آئی تھی جسے وہ اپنے بیگ میں رکھ رہے تھے۔ ان لوگوں نے اسی منظر کو قید کر کے اس کو رقم قبول کرنے سے جوڑ دیا۔
*اس معاملہ میں دارالافتاء ہی کے دوسرے مفتی محمود حسن صاحب جن کی نشست گاہ مفتی حبیب الرحمن صاحب کے بالکل قریب ہے، ان کی شہادت ہے کہ فتوی پوچھنے والوں نے مفتی صاحب کو میرے سامنے رقم دینے کی پیش کش کی لیکن مفتی صاحب نے اسے سختی سے مسترد کردیا۔ اس طرح دو بار پیش آیا۔ اس پروگرام میں مفتی صاحب کے مکرر انکار کا کوئی ذکر نہیں ہے ۔
*تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فتویٰ پوچھنے والے کے ساتھ محمد عمران نامی جوشخص آیا تھا، اس نے خود اقرار کیا ہے کہ مفتی صاحب نے کسی بھی طرح کی کوئی رقم قبول نہیں کی۔
*پروگرام میں فتوی پوچھنے والے جو نوٹ مفتی صاحب کو دینے کے لیے گن رہے ہیں وہ پانچ پانچ سو کے نوٹ ہیں اور ان کا دعوی ہے کہ انھوں نے مفتی صاحب کو فتوی کے عوض پانچ ہزار روپئے دیے، اس طرح پانچ ہزار میں پانچ کے صرف دس نوٹ بنیں گے جن کو اگر موڑ کر رکھا جائے تو ان کی موٹائی کوئی زیادہ نہیں ہوگی جب کہ مفتی صاحب جو نوٹ اپنے بیگ میں رکھ رہے ہیں ان کی تہہ نسبتاً کافی موٹی ہے اور وہ کسی بھی صورت میں (پانچ پانچ سو کی) پانچ ہزار رقم نہیں ہوسکتی۔
*انھوں نے دعوی کیا ہے کہ انھوں نے اپنی مرضی کا فتوی حاصل کرنے کے لیے مفتی صاحب کو رشوت دی ۔ آخر جب فتوی شریعت اسلامیہ کی رو سے صحیح اور درست تھا تو پھر رشوت کا کیا مطلب؟
*مفتی حبیب الرحمن صاحب سے متعلق پورے منظر میں کہیں بھی حضرت مفتی صاحب کی کوئی بات صاف اور واضح طور پر سنائی نہیں گئی ہے جب کہ اسی منظر میں اور اس طرح کے دوسرے مناظر میں دوسرے افراد کی آوازصاف طور پر سنائی دیتی ہے۔
دارالعلوم دیوبند کے علاوہ دیگر اداروں کے مفتی حضرات سے بھی انھوں نے روپیوں کے بدلے من چاہا فتوی حاصل کرنے کا دعوی کیا ہے۔ تقریباً ان تمام اداروں نے اسٹار نیوز کے دعوے کو بے بنیاد اور غلط بتایا ہے، جس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں۔ تاہم، دہلی کے ایک مفتی نے کچھ رقم لینے کی بات قبول کی ہے۔ ان کے بقول ایک وقت فتوی لے کر جانے کے بعد یہ لوگ دوبارہ ان کے پاس آئے اور ہدیہ کے نام پرکچھ روپئے قبول کرنے کے لیے اصرار کیا جسے انھوں نے آخرکار قبول کرلیا۔ ٹی وی پر اس منظر کورشوت لینے سے تعبیر کیا گیا۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ اگر کوئی مفتی شریعت کے عین مطابق اور بلا کسی دباؤ کے فتوی دے رہا ہواور بالفرض اگر وہ فتوی دینے کے بعد کوئی رقم ہدیہ کے عنوان سے قبول بھی کرتا ہے تو اس میں شرعاً و عرفاً کوئی ایسی قباحت بھی نہیں کہ اس کے اس انفرادی اور اتفاقی واقعہ کو ملک میں مروج بدعنوانی و رشوت خوری کے مماثل و مساوی قرار دیدیا جائے۔
یہ ایک گھناؤنی اور قابل مذمت سازش ہے
اس سلسلے میں یہ بات ذہن میں رکھنی ضروری ہے کہ دشمنان اسلام اس وقت پوری دنیا میں جس طرح مختلف محاذوں پراور مختلف عنوانات کے ساتھ اسلام پر حملے کررہے ہیں یہ معاملہ کسی ذی ہوش سے مخفی نہیں۔ پوری دنیا میں مسلمانوں کے ایمان و عقیدہ، اعمال و اخلاق اورملک و سیاست پر جس انداز سے حملے ہورہے ہیں وہ دشمنان اسلام کی طویل مدتی منظم اور منصوبہ بند سازش کا ایک حصہ ہیں۔ خصوصاً گیارہ ستمبر کے واقعہ کے بعد سے افغانستان ، عراق و فلسطین پر ہونے والی یورشیں اس دعوی کا بین ثبوت ہیں۔فوجی محاذ پر عالم اسلام کے خلاف جو غیر اعلانیہ صلیبی جنگ چھیڑی گئی ہے یہ تو الگ رہی، اس کے علاوہ داخلی سطح پر جس طرح سے مسلم ممالک پر اسلامی نصابہائے تعلیم تبدیل کیے جانے اور مدارس و معاہد اسلامیہ پرشکنجہ کسنے کے لیے دباؤ اور دھمکی کی پالیسی اپنائی جارہی ہے ، وہ بھی حالیہ واقعات سے ادنی دلچسپی رکھنے والے سے مخفی نہیں۔
پچھلی صدی کی آخری دہائی میں طالبان تحریک کے عروج کے بعد اسلام دشمن طاقتوں کواس کا اندازہ ہوگیا ہے کہ مسلمانوں کی عالمی دینی بیداری، تصلب، دعوتی سرگرمیوں اور بقول ان کے اسلامی بنیاد پرستی و شدت پسندی کا منبع و مصدر یہی دارالعلوم ، اس نہج پر چلنے والے تعلیمی مدارس اور دینی و تبلیغی جماعتیں ہیں۔ اسی لیے وہ مسلمانوں کی اسی روح کو کچلنے کے درپئے ہیں۔ اس معاملہ کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ تقریباً تمام عالم اسلام کے اندر مسلم دشمن طاقتیں اپنی عیارانہ اور تہدید آمیزپالیسیوں کے نفاذ میں کامیاب ہورہی ہیں۔ لیکن ہندوستان کے مسلمان اور ان کے دینی معاہد و مدارس ان کی سازشوں کے جال سے بہت حد تک محفوظ ہیں۔ وہ عالم اسلام کے تقریباًتمام ہی ممالک حتی کے عالم عرب کے مدارس و معاہد میں جاری نصابہائے تعلیم کواپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے پر مجبور کررہے ہیں۔ خود پاکستان کے مدرسوں اور دینی جماعتوں پر نکیل کسنے میں انھیں خاصی کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ لیکن اللہ کے فضل و کرم سے ہندوستان کے مدارس اور دینی جماعتوں کوہزار پروپیگنڈہ اور کوششوں کے باوجود رام کرنے میں کوئی نمایاں کامیابی نہیں مل سکی ہے۔
علاوہ ازیں، اس وقت پوری دنیا میں فقہ اسلامی خصوصاً فقہ حنفی کے خلاف ایک طوفان اٹھا یا گیا ہے۔ یہ کوئی اتفاقی امر نہیں اور نہ ہی یہ صرف اپنے چند ناسمجھوں کی ناسمجھی کا نتیجہ ہے؛ بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر اس سازش کی زمام کار بھی اسی مغرب کے ہاتھ میں ہے۔ فقہ اسلامی جس کی اساس فقہ حنفی ہی کو کہا جاسکتا ہے، آج تک اس کا متبادل نہ اقوام متحدہ کا چارٹر (Charter) پیش کرسکا ہے اور نہ یورپ و امریکہ کے نام نہاد جمہوری قوانین و دساتیر۔مسلمانوں کا قانون اسلامی چودہ صدی قبل اس وقت مدون ہوچکا تھا جب آج کے جمہوریت و مساوات انسانی کے علم برداروں کے آباء و اجداد پہاڑوں میں بھیڑیں چراتے تھے یا آپس میں اس طرح برسرپیکار تھے کہ ایسی باہمی آویزشیں چشم فلک نے دیکھی بھی نہ ہوں گی۔ اسی کے ساتھ یہ قانون اس حد تک کامل و مکمل ، فطری اور لچکدار ہے کہ وقت کے ساتھ بدلنے والے حالات سے بالکل ہم آہنگ ہوجاتا ہے۔مغربی دنیا اسلام، پیغمبر اسلام اور اسلامی شخصیات کی اہمیت و حیثیت گھٹانے ، انھیں بدنام کرنے اور انھیں جاہل و وحشی ثابت کرنے کی اپنی پرانی ڈگر پر اب بھی قائم ہے۔ اس نے ہمیشہ اسلامی شخصیات، اسلامی علوم اور اسلامی کارناموں کو گھٹا کر یا اسے بدنام کر کے پیش کیا ہے۔ خود انھوں نے فقہ اسلامی کے بارے میں یہ ہوّا اڑایا تھا کہ اس کی بنیاد قانون روما (Roman Law)پر رکھی گئی ہے۔ آج تحقیقات سے اس مغربی الزام کی دھجیاں اڑ چکی ہیں۔ ایک طرف تو فقہ اسلامی کی یہ حیثیت کہ ساری دنیا میں اس جیسا جامع و مکمل اور قدیم قانون نہیں ۔ اور دوسری طرف اس کی یہ اہمیت کہ آج مسلم معاشرے کی بنیاد یہی فقہ ہے، اس کی عملی زندگی کی روح فقہ ہے، کم و بیش سارے عالم اسلام میں اسی فقہ اسلامی کی حکمرانی ہے۔
مغرب کے دسیسہ کاروں نے فقہ کے اس قلعہ میں نقب زنی کی کوشش شروع کی۔ آج فقہ اسلامی کے نام پر ہنگامہ مچانے والے اپنے بھی کسی نہ کسی طرح شعوری یا لا شعوری طور پر اسی مغربی سازش کے آلہٴ کار بن رہے ہیں۔ آج مغرب میں فقہ اسلامی اور شریعت اسلامیہ کے نام پر تحقیق و ریسرچ کا خاصا چسکا پایا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں کتابیں معرض وجود میں آرہی ہیں ۔ان تحقیقات،کتابوں اور پروپیگنڈوں کامقصد فقہ اسلامی کو بدنام کرنا اور اس سے مسلمانوں کا رشتہ منقطع کردینا ہے، کیوں کہ اگر فقہ و شریعت سے مسلمانوں کا رشتہ کٹ جائے گا تو مسلمان عملی طور پر اپاہج ہوجائیں گے اور فقہ کے چشمہٴ صافی سے قرآن و حدیث کا جو آب حیواں اُن کے معاشرے کے رگ و ریشہ میں رواں دواں ہے وہ گدلا ہوجائے گا۔
خصوصاً بر صغیر میں فتوی کی جو اہمیت و حیثیت ہے وہ کسی ذی علم سے مخفی نہیں۔ تقریباً سارے ہی مسلمان فتوی کو اعتبار و اعتماد اور عظمت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ان کے بڑے بڑے مسئلے محض ایک مفتی کی رائے پر (جوعدالتی فیصلہ کی طرح لازمی و جبری نہیں ہوتی) حل ہوجاتے اور وہ ادب و احترام سے اس فیصلے کو مان لیتے ہیں۔ امریکی و اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کے فتوی کے سلسلے میں قارئین کو یاد ہوگا کہ پورے برصغیر خصوصاً اور پورے عالم اسلام میں عموماً امریکہ و اسرائیل مخالف فضا کی ایک لہر پیدا ہوگئی تھی۔ اسی کے نتیجے میں پیپسی و کوکاکولاکی کمپنیوں کو کروڑوں ڈالر کا نقصان ہوا تھا۔
ظاہر ہے کہ جب فتووں، مفتیان کرام اور مدرسوں کے ساتھ مسلم عوام کو اس درجہ عقیدت و محبت اور تعلق خاطر ہے تو ان مدارس و علماء سے عوام کو کاٹنے میں یہ لوگ کیسے کامیاب ہوسکتے ہیں؟ آخر انھوں نے اس کی شکل یہ نکالی کہ مدرسوں ، علماء اور مفتیان سے سادہ لوح مسلمانوں کو بدگمان کیا جائے ۔ اور اس کے لیے میڈیا کا طاقت ور ہتھیار ان کے پاس ہے ہی۔ اگر وہ مسلم عوام کو علماء و مدراس سے بدگمان کرنے میں کامیاب ہوگئے تو پھر ان کے لیے آگے کے سارے مرحلے آسان ہوجائیں گے۔ ان مدرسوں کے نصاب میں تبدیلی آسان ہوسکتی ہے، ان پر شکنجہ کسنا سہل ہوجائے گا اور حتی کہ معمولی الزامات لگا کر ان کو بند کرانا کچھ مشکل نہ ہوگا؛ کیوں کہ عوامی مزاحمت و بغاوت کا خطرہ ٹل جائے گا ۔ گذشتہ کئی سالوں سے اس منصوبے پر عمل جاری ہے اور آئے دن گاؤ ذبیحہ، ٹی وی، عارف گڑیا، عمرانہ معاملہ،ثانیہ مرزا ،انشورنش، وندے ماترم وغیرہ موضوعات پر فتوے کو اچھالنے کی حرکت ، اسی سلسلے کی مختلف کڑیاں ہیں۔
میڈیااس زمانہ کا ایک انتہائی طاقتور ہتھیار ہے جو افسوس کی بات یہ ہے کہ تقریباً پورا کا پورا غیروں کے ہاتھوں میں ہے۔ میڈیاخود کو جمہوریت کا پانچواں ستون کہتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا ، خصوصاً مسلمانوں سے متعلق مسائل میں منفی انداز اپنانا اس کا وطیرہ بن چکا ہے۔ ہر اخبار اور ٹی وی چینل ایک دوسرے سے سبقت لے جانے اور سنسی خیز مواد حاصل کرنے میں اتنا آگے نکل جاتا ہے کہ بسا اوقات بات کا بتنگڑ اور رائی کا پہاڑ بنا دیا جاتا ہے جس میں کتنے بے گناہ اور معصوم افراد میڈیا کی ’ہاٹ نیوز‘ کی بھوک کا شکار بن جاتے ہیں۔
______________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ1، جلد: 91 ، ذی الحجہ 1427 ہجری مطابق جنوری 2007ء