حرفِ آغاز
حبیب الرحمن اعظمی
جنگ آزادی چونکہ کانگریس پارٹی کی قیادت میں لڑی گئی تھی، کانگریس کی اس عظیم خدمت کے اعتراف میں قوم نے ملک کی زمام اقتدار اسکے ہاتھ میں دیدی۔ آزادی کے اس نصف صدی سے زائد مدت میں چند سالوں کے علاوہ کانگریس ہی کی حکومت رہی، اس میں کوئی شبہ نہیں کہ کانگریس حکومت نے سامراج کے ہاتھوں نڈھال ہندوستان کو نئی توانائیوں سے ہم آغوش کرنے کے سلسلہ میں قابل قدر خدمات انجام دیں اور ملک کو اقتصادی، معاشی، تعلیمی، دفاعی وغیرہ شعبوں میں نئی جہت عطا کی، اور بین الاقوامی برادری میں ملک کے وقار کو بلند کیا۔ اور آج ہمارا ملک ترقی یافتہ ممالک کی دہلیز تک پہنچ گیا ہے۔
ان خوش آیند حصول یابیوں کے ساتھ ہم اپنے اس احساس کا اظہار کئے بغیر نہیں رہ سکتے کہ کانگریس حکومت زندگی کے بعض اہم شعبوں میں بری طرح ناکام رہی، مثلاً ملک کی اقتصادی ومعاشی ترقی کے مسئلہ میں کانگریس کی غلط یا بالفاظ واضح تحفظ پسند پالیسیوں کے نتیجے میں ملک کے عام شہری ان ترقیات سے فیض یاب نہیں ہوسکے بلکہ ایک خاص طبقہ نے ان پر اپنا مکمل تسلط قائم کرلیا اور دفینہ کے سانپ کی طرح عام شہریوں کو ان کے گرد بھٹکنے بھی نہیں دیتا۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ سرمایہ داروں کا سرمایہ دن دونی رات چوگنی کے حساب سے بڑھ رہا ہے اور غریبوں کی غربت اسی حساب سے روزافزوں ہے۔معاشی نظام میں اسی غیرحقیقت پسندانہ رویہ کی بنا پر آج اشیاء کی گرانی پر اسقدر احتجاج ہورہا ہے کہ حکومت خود اس مسئلہ سے پریشان نظر آرہی ہے۔ اگر تقسیم دولت میں عدل و انصاف کو ملحوظ رکھا جاتا اور ایک خاص طبقہ تک اسے محدود نہ رکھا جاتا تو اس گرانی کو عوام بسہولت برداشت کرلیتے۔
اسی طرح کانگریس پارٹی میں ایک عنصر ابتداء سے ایسا موجود رہا ہے جو خود کانگریس کے اصول و ضوابط اور آئین بھارت کے برخلاف تنگ نظری و فرقہ پرستی سے ذہنی طور پر متاثر ہے۔ اسی عنصر نے آر، ایس،ایس جیسی فاسسٹ تنظیموں کو تقویت پہنچائی ہے، اس عنصر نے ہمیشہ بھیڑ کے لباس میں بھیڑیا کا کردار ادا کیا ہے، یہی وہ عنصر ہے جس نے قانون و انصاف کو فریب دے کر بابری مسجد کے مقفل دروازے کو کھولواکر خانہٴ خدا میں غیر خدا کی عام پوجاپاٹ کی اجازت کا انتہائی مجرمانہ اقدام کیا، کانگریس کا یہی وہ غیر صالح عنصر ہے جس نے آنجہانی راجیوگاندھی سے بابری مسجد کی سرزمین پر سیلانواس کراکر کانگریس کے سیکولر کردار کو ہمیشہ کے لئے مشکوک بنادیا۔ کانگریس پارٹی کا یہی وہ جراسیمی عنصر ہے جس کے ایک فرد نے ریاست کی بھاجپائی حکومت سے ساز باز کرکے بابری مسجد کی قدیم تاریخی عمارت کو منہدم کرادیا اور پھر یہ اعلان کیاکہ ہم نے بابری مسجد کے قضیہ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم کردیا، بابری مسجد کے قضیہ کو وہ کیا ختم کرتا البتہ اسنے اپنے مجرمانہ کردار سے نہ صرف کانگریس کی شبیہ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے داغدار بنادیا بلکہ کانگریس پارٹی کے مضبوط و مستحکم اقتدار کو تہس نہس کردیا۔ کانگریس کے مخلص کارکن ولیڈر اسی وقت سے اس کی پہلی پوزیشن کو بحال کرنے کے لئے ہر طرح کی کوششیں کرنے میں لگے ہیں مگر کامیابی کے آثار دور دور تک نظر نہیں آرہے ہیں۔
ادھر جب سے سونیا گاندھی نے کانگریس پارٹی کی زمام اپنے ہاتھوں میں لی ہے، اور کانگریس کی سربراہی میں موجودہ حکومت نے ملک کے ڈھانچے میں کچھ مفید اصلاحات کیں اور اپنی سابقہ غلطیوں کی تلافی کیلئے بظاہر موٴثر اقدامات کئے جس سے عام کانگریسیوں کو یہ احساس ہوچلا تھا کہ ملک کی دوسری سب سے بڑی اکثریت کو پھر سے اپنے قریب لانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ بالخصوص ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش میں سماج وادی، اور بہوجن سماج کے تلخ تجربوں کے بعد عام سنجیدہ طبقہ کی نگاہیں پھر کانگریس کی جانب اٹھنے لگی تھیں، اور آپس میں یہ چرچے ہونے لگے تھے کہ آیندہ الیکشن میں کانگریس پارٹی کی کارکردگی سابقہ الیکشنوں کے مقابلہ میں بہتر رہے گی۔ اس امید افزا اور خوش آیند حالات میں مرکزی حکومت کی جانب سے اجودھیا کے عارضی مندر کے تحفظ کے لئے سپریم کورٹ سے آہنی دیوار قائم کرنے کی اجازت کا مسئلہ پیدا کردیاگیا ہے۔ یہ کون نہیں جانتا کہ رام للّہ کا یہ عارضی مندر، بابری مسجد کی زمین پر بنایاگیا ہے۔ اور عدالت کا یہ فیصلہ ہے کہ دورانِ مقدمہ اسے جوں کا توں رکھا جائے اور اس میں کسی طرح کی کوئی ترمیم نہ کی جائے۔ پھر نام نہاد سیکورٹی کے نام پر حکومت کا یہ اقدام ہونہ ہو کانگریس پارٹی کے اسی فاسد عنصر کے زیر اثر ہو جس نے اپنے کرتوتوں سے نہ صرف کانگریس کے حلیہ کو مسخ کردیا ہے بلکہ اس کے غیر معقول مجرمانہ رویہ سے ملک وقوم کو اب تک بے پناہ نقصان اٹھانا پڑچکا ہے۔ ہمیں حیرت ہے کہ صدر کانگریس سونیا گاندھی اور کانگریس کے نمایندہ وزیراعظم منموہن سنگھ اپنی تمام تر روشن خیالیوں اور بیدار مغزیوں کے اس عنصر کے دام فریب میں کیسے آگئے۔ عقل و انصاف کا تقاضا تو یہی ہے کہ حکومت اپنے آپ کو اس انتہائی حساس مسئلہ سے الگ تھلگ رکھے اور قانون و انصاف کو اپناکام آزادی کے ساتھ کرنے دے حکومت کا اس طرح کا کوئی بھی اقدام اسکی غیر جانب داری کو مجروح کئے بغیر نہیں رہ سکتا اور اسکا جو اثر ملک و قوم اور خود کانگریس پر پڑے گا وہ نوشتہ دیوار ہے جسے ہر معمولی سے معمولی شخص سمجھ سکتا ہے۔
______________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ7، جلد: 90 ،جمادی الثانی 1427 ہجری مطابق جولائی2006ء