حرفِ آغاز
حبیب الرحمن اعظمی
آج دنیا میں مسلمان ہی وہ واحد خوش قسمت قوم ہیں جن کے پاس اللہ عز اسمہ کا کلام بالکل محفوظ، تحریفات سے پاک اور ٹھیک ٹھیک انھیں الفاظ میں موجود ہے جن الفاظ میں وہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم پر اترا تھا۔
اور آج دنیا میں مسلمان ہی وہ بدقسمت لوگ ہیں جو اپنے پاس اس جامع ترین دستور الٰہی رکھنے کے باوجود اس کی خیرات و برکات اور بے پایاں نعمتوں سے محروم ہیں، قرآن مقدس انھیں اس لئے مرحمت ہوا تھا کہ اسے پڑھیں اور سمجھیں، اس کے مطابق عمل کریں اور اسے لے کر خدا کی زمین پر خدائی قانون کی حکومت قائم کریں۔ تاریخ کے اوراق شاہد ہیں کہ جب انھوں نے کتاب الٰہی کی ہدایتوں پر عمل کیا تو اس نے انھیں دنیا کا پیشوا اور امام بنادیا۔ حضرت عامر بن واثلہ کا بیان ہے کہ خلیفہٴ وقت حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی امیر مکہ حضرت نافع بن عبدالحارث سے مقام عسفان میں ملاقات ہوئی تو ان سے دریافت فرمایا کہ اہل مکہ پر اپنی جگہ کسے امیر مقرر کرکے آئے ہو؟ حضرت نافع نے عرض کیا ”ابن ابزیٰ“ کو! فاروق اعظم نے پوچھا، یہ ابن ابزیٰ کون ہے؟ نافع نے کہا میرے آزاد کردہ غلاموں میں سے ایک غلام ہے۔ حضرت فاروق اعظم نے فرمایا تم نے اہل مکہ پر ایک غلام کو حاکم و امیر بنادیا؟ نافع بولے ہاں، میں نے ایسا ہی کیا ہے کیوں کہ وہ قرآن کا قاری اور فرائض و علوم قرآنی کا عالم ہے یہ سن کر حضرت فاروق اعظم نے فرمایا: نبی برحق صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد بالکل برحق ہے کہ : ”ان اللّٰہ یرفع بہٰذا الکتاب اقواما ویضع آخرین“
حضرت فاروق اعظم کے اس ارشاد کا حاصل یہی ہے کہ عبدالرحمن بن ابزیٰ ان لوگوں میں ہیں جنھیں قرآن نے بلند مرتبہ پر پہنچایا ہے، قرآنِ عزیز انسان کے پاس اس لئے نہیں آیا ہے کہ وہ نکبت ومصیبت میں مبتلا ہو۔ طٰہ وما انزلنا علیک القرآن لتشقٰی ”ہم نے تجھ پر قرآن اس لئے نہیں اتارا کہ تو محنت و مشقت میں پڑے“ بلکہ قرآن تو سراسر خیروبرکات کا مجموعہ اور سعادت و کرامت کا سرچشمہ ہے۔ لہٰذا جو قوم اس نور مبین کے ہوتے ہوئے ذلت ونکبت کی تاریکیوں میں سرگشتہ و پریشان ہے تو سمجھ لینا چاہئے کہ وہ کتاب الٰہی کے ساتھ بے اعتنائی کررہی ہے اس لیے موجودہ ذلت و نکبت اور محکومیت و مغلوبیت سے نکلنے کا صرف یہی ایک راستہ ہے کہ مسلمان اجتماعی و انفرادی طور پر اپنی اس روش کو چھوڑ کر اللہ کی اس رسی کو مضبوطی کے ساتھ تھام لیں۔ ہمارے مرض کا صرف یہی علاج ہے لیکن وائے محرومی کہ ہم نے انعام یافتہ بزرگوں کا راستہ چھوڑ کر گمراہ اور مبغوض قوموں کی روش اختیار کرلی ہے وضع قطع، صورت و سیرت تعلیم و تربیت، تہذیب وتمدن، اعمال واخلاق، اقتصادی ومعاشی معاملات اور حکومت وسلطنت غرضیکہ زندگی کے ہر شعبہ میں ہمارا رُخ قرآن اور صاحب قرآن سے ہٹا ہوا ہے۔ ہم زبان سے تو کہتے ہیں کہ ”منہ میرا کعبہ شریف کی طرف“ لیکن رفتار کی سمت لندن، پیرس، ماسکو برلن اور نیویارک ہے اور اصول یہ ہے کہ جب کوئی قوم اپنے نظام زندگی سے بے خبر، اپنے علوم و تواریخ سے بے بہرہ، اور اپنے یقینات اور ایمانیات سے لاتعلق ہوکر دوسری قوم کے رسوم و رواج، خصائل اور عبادات اور تہذیب ومعاشرت کو اپنا لیتی ہے تو اس قوم کا ہیولیٰ تبدیل ہوکر اوپر سے بظاہر وہی پہلی قوم معلوم ہوتی ہے لیکن فی الحقیقت اندر سے وہ دوسری قوم بن جاتی ہے۔
آج قوم مسلم اسی زبوں حالی کا شکار ہے، عصر حاضر کی ایجاد واختراع، دولت و ثروت اور ظاہری چمک دمک سے اس کی آنکھیں خیرہ ہوگئی ہیں اسے خدائی اعلان الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی الخ نظر نہیں آرہا ہے اور وہ بے تحاشا تہذیب مغرب کو اختیار کرتی جارہی ہے وہی عریانی و آوارگی، نفس پرستی و ہوس ناکی جس نے مغرب کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑاکردیا ہے اور دانشوران مغرب اس سے بچنے کی تدبیریں سوچ رہے ہیں مگر ہم ہیں اسی طریق لعنت کو گلے میں آویزاں کرنے کے لئے بیتاب ہیں۔
یہ کس قدر محرومی کی بات ہے کہ جس قوم کے پاس ایک مستقل نظام، فکر و عمل اور ایک مکمل نظام تہذیب وتمدن ہے جس میں زندگی کے جملہ مسائل کا حل تفصیلی یا اصولی طور پر موجود ہے۔ اور ہدایت و راہنمائی حاصل کرنے کے لیے اسے کسی حال میں بھی باہر جانے کی ضرورت و حاجت نہیں ہے، وہ اپنے اس زریں و جامع ترین نظام کو چھوڑ کر غیروں کے پس خوردہ کیلئے بیتاب ہے۔
وائے محرومی متاع کارواں جاتا رہا $ کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
______________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ5، جلد: 90 ،ربیع الثانی1427 ہجری مطابق مئی2006ء