از: سید امجد علی حیدر آبادی
شریک دورئہ حدیث شریف، دارالعلوم دیوبند
عورت کو آدھی دنیا کہاگیا، اور کہاجاتا ہے، اسلئے اس کو کسی بھی سماج یا ازم کیلئے نظر انداز کرنا آسان نہیں ہے؛ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ عورت انسانی حیات کی گاڑی کا لازمی پہیہ ہے، لیکن انسانی تاریخ کا یہ المیہ ہے کہ عورت آدھی دنیا ہونے کے باوجود اسے وہاہمیت و حیثیت نہیں دی گئی جس کی واقعتا وہ مستحق تھی، جس طرح قدیم تہذیب و تمدن (یعنی اسلام کی آمد سے قبل) نے عورت کے وقار کو تباہ کیا، اسی طرح جدید تہذیب نے بھی اسے شو پیس بنایا، اسے استعمال تو کیا لیکن اسے عزت نہیں بخشی، نمایاں تو کیاگیا لیکن عورت کے عورت پن کے خاتمے کی قیمت پر، آج وہ زندگی کے ہر شعبے میں نمایاں تو نظر آتی ہے، لیکن یہ نمائندگی عزت و عصمت، حیا و شرم، گنوانے کی قیمت پر ملی۔
صنف نازک کے ادوار
عورت کے اس متضاد ادوار کے سلسلہ میں جب ہم تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو ہم کو افراط و تفریط کی کھینچ تان کا ایک عجیب سلسلہ نظر آتا ہے، ایک طرف ہم دیکھتے ہیں کہ وہی عورت جو ماں کی حیثیت سے آدمی کو جنم دیتی ہے اور بیوی کی حیثیت سے زندگی کے ہر نشیب و فراز میں مرد کی رفیق بنی رہتی ہے، اسی محسنہ کو اسلام سے قبل اس کے پیدا ہوتے ہی زندہ درگور کردیا جاتا ہے، اس کی پیدائش کو نحوست تصور کیا جاتا ہے،اس کو ملکیت اور وراثت کے تمام حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے، اس کو گناہ اور ذلت کا مجسمہ سمجھا جاتا ہے، پھر اسلام کا عظیم الشان دور آتا ہے، جو سسکتی انسانیت کے لئے مسیحا ثابت ہوا، مرد و زن کو اس نوخیز مذہب نے وہ احکامات اور تعلیمات دی جو دونوں کی جسمانی اورحیاتیاتی سانچوں کے عین مطابق ہے، دوسری طرف مغربی جدید تہذیب کا بڑھتا ہوا سیلاب نظر آتا ہے کہ وہی عورت اٹھائی اور ابھاری جارہی ہے مگر اس شان سے کہ اس کے ساتھ بداخلاقی اور بدنظمی کا طوفان بھی اٹھ رہا ہے، وہ حیوانی خواہشات کا کھلونا بنائی جاتی ہے،اس کو واقعی شیطان کا ایجنٹ بناکر رکھ دیا جاتا ہے، اور اس کے ابھرنے کے ساتھ انسانیت کے گرنے کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔
تاریخ کے سفینے میں قیام دنیا کے بعد بے شمار تہذیبوں نے اپنے پیر پسارے، ان کے ماننے والوں نے اپنی تعلیمات کو بساطِ قوت سے زیادہ پھیلانے کی کوشش کی، جس کے عوض اس قوم کو اپنے ہی دور میں تہذیب ساز جیسے خطاب ملے۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ وہ قوم اپنی لنگڑی، ادھوری تہذیب اور بے اصل نظریات کے ساتھ دفن ہوگئی۔ آئیے تاریخ سے ہم ایسی تہذیب اور سوچ رکھنے والی اقوام کی دو چار مثالیں پیش کریں۔
یونان: اقوام قدیمہ میں سے جس قوم کی تہذیب سب سے زیادہ شاندار نظر آتی ہے وہ اہل یونان ہیں، اس قوم کے ابتدائی دور میں اخلاقی نظریہ، قانونی حقوق، اور معاشرتی برتاؤ، ہر اعتبار سے عورت کی حیثیت بہت گری ہوئی تھی، یونانی خرافات (Mythology) میں ایک خیالی عورت پانڈورا (Pandora) کو اسی طرح تمام انسانی مصائب کا موجب قرار دیاگیا تھا، جس طرح یہودی خرافات میں حضرت حواء علیہا السلام کو قرار دیاگیا، ان کی نظر میں عورت ایک ادنیٰ درجہ کی مخلوق تھی، معاشرت کے ہر پہلو میں اسکا مرتبہ گراہوا رکھا گیا اور عزت کا مقام مرد کے لئے مخصوص تھا۔
روم: اہل یونان کے بعد جس قوم کو دنیا میں عروج نصیب ہوا، وہ اہل روم تھے، یہاں پھر وہی اتار چڑھاؤ کا منظر ہمارے سامنے آتا ہے جو اوپر آپ دیکھ چکے ہیں، رومی لوگ وحشت کی تاریکی سے نکل کر جب تاریخ کے روشن منظر پر نمودار ہوتے ہیں، تو ان کے نظامِ معاشرت کا نقشہ یہ ہوتا ہے کہ مرد اپنے خاندان کا سردار ہے،اس کو اپنی بیوی و بچوں پر پورے حقوقِ مالکانہ حاصل ہیں، بلکہ بعض حالات میں وہ بیوی کو قتل کردینے کا بھی مجاز ہوتا ہے، نیز اس دور میں عورت اور مرد کے غیر نکاحی تعلق کو معیوب سمجھنے کا خیال بھی دلوں سے نکلتا چلا گیا، یہاں تک کہ بڑے بڑے معلّمین اخلاق بھی زنا کو ایک معمولی چیز سمجھنے لگے، کاٹو جس کو ۱۸۴/ میں روم کا محتسب اخلاق قرار دیاگیا تھا صحیح طور پر جوانی کی آوارگی کو حق بجانب ٹھہراتا ہے، حتی کہ اپکسٹیٹس جو فلاسفہٴ روامیین میں بہت ہی سخت اخلاقی اصول رکھنے والا سمجھا جاتا تھا، اپنے شاگردوں کو ہدایت کرتا ہے کہ:
”جہاں تک ہوسکے شادی سے پہلے عورت کی صحبت سے اجتناب کرو، مگر جو اس معاملے میں ضبط نہ رکھ سکیں انھیں ملامت بھی نہ کرو۔“
اخلاق و معاشرت کے بند جب اتنے ڈھیلے ہوگئے تو روم میں شہوانیت، عریانیت، اور فواحش کا سیلاب پھوٹ پڑا، تھیٹروں میں بے حیائی و عریانی کے مظاہرے ہونے لگے ننگی اور فحش تصویریں ہر گھر کی زینت کے لئے ضروری ہوگئیں، اہل روم کے یہاں عورت ذات کے سلسلہ میں نظریات و رجحانات نے اتنا زوال قبول کیا کہ اس کی تصویر کشی مشکل نظر آتی ہے، مشہور رومی فلسفی ومدبر سنیکا (۴ ق․ م تا ۶) اہل روم کے طرزِ عمل پر ماتم کرتا ہے اور کہتا ہے کہ:
”اب روم میں طلاق کوئی بڑی شرم کے قابل چیز نہیں رہی۔ عورتیں اپنی عمر کا حساب شوہروں کی تعداد سے لگاتی ہیں۔“
مردوں کے اس رویہ کے بعد عورت ذات کا بھی مزاج بدلا، اور وہ بھی یکے بعد دیگرے کئی کئی شادیاں کرتی چلی گئیں۔ مارشل (۴۳/ تا ۲۰۴/) ایک عورت کا ذکر کرتا ہے جو دس خاوند کرچکی تھی۔ اسی طرح جودنیل (۶۰/ تا ۱۰۴/) ایک عورت کے متعلق لکھتا ہے کہ اس نے پانچ سال میں آٹھ شوہر بدلے۔ سینٹ جروم (۳۴۰/ تا ۴۴۰/) ان سب سے زیادہ ایک باکمال عورت کا حال لکھتا ہے کہ جس نے آخری بار تیئیسواں شوہر کیا اور اپنے شوہر کی بھی وہ اکیسویں بیوی تھی۔
مسیحی یورپ: مغربی دنیا کے اس علاج کے لئے مسیحیت پہنچی،اور اوّل اوّل اس کی بڑی اچھی خدمات رہیں فواحش کا اس نے انسداد کیا، عریانیت کو زندگی کے ہر شعبے سے نکالا، اور پاکیزہ اخلاقی تصورات لوگوں میں پیدا کئے، مگر عورت اور صنفی تعلقات کے بارے میں آبائے مسیحیین دو بنیادی نظرئیے رکھتے تھے جو فطرتِ انسانی کے خلاف اعلانِ جنگ تھے۔ ان کا ابتدائی اور بنیادی نظریہ یہ تھا کہ:
”عورت گناہ کی ماں،اور بدی کی جڑ ہے، معصیت کی تحریک کا سرچشمہ اور جہنم کا دروازہ ہے تمام انسانی مصائب کا آغاز اسی سے ہوا ہے،اس کا عورت ہونا ہی اس کے شرمناک ہونے کیلئے کافی ہے، اس کو اپنے حسن و جمال پر شرمانا چاہئے، کیونکہ وہ شیطان کا سب سے بڑا ہتھیار ہے،اس کو دائماً کفارہ ادا کرتے رہنا چاہئے، کیونکہ وہ دنیا اور دنیا والوں پر مصیبت ولعنت لائی ہے۔“
ترتولیان جو ابتدائی دور کے ائمہ مسیحیت میں سے تھا، عورت کے متعلق مسیحی تصور کی ترجمانی ان الفاظ میں کرتا ہے کہ:
”وہ شیطان کے آنے کا دروازہ ہے، وہ شجر ممنوع کی طرف لے جانے والی، خدا کے قانون کو توڑنے والی خدا کی تصویر․․․ مرد کو غارت کرنے والی ہے۔“
کرائی سوسٹم جو مسیحیت کے اولیاء کبار میں شمار کیا جاتا ہے عورت کے حق میں کہتا ہے کہ:
”وہ ایک ناگزیر برائی، ایک پیدائشی وسوسہ، ایک مرغوب آفت ایک خانگی خطرہ، ایک غارت گر دلربائی، ایک آراستہ مصیبت ہے۔“
ان کا دوسرا نظریہ یہ تھا کہ:
”عورت اور مرد کا صنفی تعلق بجائے خود ایک نجاست اور قابل احتراز چیز ہے، خواہ وہ نکاح کی صورت ہی میں کیوں نہ ہو۔“
تجرد اور دوشیزگی معیارِ اخلاق قرار پائی، اور تأہل کی زندگی اخلاقی اعتبار سے پست اور ذلیل سمجھی جانے لگی۔
نظریات کا اثر: ان دونوں نظریات نے نہ صرف اخلاق اور معاشرت میں عورت کی حیثیت حد سے زیادہ گرادی بلکہ تمدنی قوانین کو بھی اس درجہ متاثر کیا کہ ایک طرف ازدواجی زندگی مردوں اور عورتوں کیلئے مصیبت بن گئی تو دوسری طرف عورت کا مرتبہ سوسائٹی میں ہر حیثیت سے پست ہوگیا۔
مسیحیت سے مغرب تک: مسیحی شریعت کے زیراثر جتنے قوانین مغربی دنیا میں جاری ہوئے، ان سب کی مجموعی خصوصیات کو اہم اس طرح تقسیم کرتے ہیں:
(۱) معاشی حیثیت سے عورت کو بالکل بے بس کرکے مرد کے قابو میں دے دیاگیا، اور وراثت میں اس کے حقوق نہایت محدود تھے، اور ملکیت میں اس سے بھی زیادہ محدود تھے۔
(۲) دوسری خصوصیت یہ تھی کہ طلاق وخلع کی سرے سے اجازت ہی نہیں تھی، زوجین میں ناموافقت، وباہمی تعلقات کے خراب ہونے کے باوجود مذہب و قانون ان دونوں کو زبردستی ایک دوسرے کے ساتھ بندھے رہنے پر مجبور کرتے تھے۔
(۳) تیسری خصوصیت یہ تھی کہ شوہر کے مرنے کی صورت میں بیوی کیلئے، بیوی کے مرنے کی صورت میں شوہر کیلئے نکاحِ ثانی کرنا سخت معیوب بلکہ گناہ قرار دیاگیا تھا۔
یہ چند مسیحی یورپ کی خصوصیات،اور صنف نازک کے تئیں ان کے فاسد نظریات تھے جو مختصراً آپ کے سامنے پیش کئے گئے۔ اب آگے تہذیب اہل مصر کو ملاحظہ فرمائیے:
مصر: مصر کی عظمت کے پرچم دنیا بھر میں لہرائے ہوئے تھے، وہاں فرعون اپنی بہن تک سے شادی کرلیتا تھا، دیوی دیوتاؤں کو خوش کرنے کے لئے عورتوں کی قربانی دی جاتی تھی، دریائے نیل کو خوش کرنے کیلئے ایک دوشیزہ کو بھینٹ چڑھا دیا جاتا تھا، غرض یہ کہ عورت کو عملی زندگی کی تعمیر میں کسی بھی نوعیت کا اختیار حاصل نہیں تھا، مرد کی مکمل تقلید مصری عورتوں کا مقدر بن چکی تھی۔
ایران: ایران آج سے تقریباً دو ہزار سال قبل ایک مہذب ملک مانا جاتا تھا، وہاں عورت کی حیثیت ایک حقیر جانور کی سی تھی، ایرانی لوگ لڑکیوں کی پیدائش کو باعث ندامت سمجھتے تھے، نیز ایک عورت کو متعدد بھائیوں کی بیوی بناتے تھے، باپ کے مرنے کے بعد ماں کو ترکہ کے طور پر اپنے تصرف میں لاتے تھے۔
قدیم ہندوستان: یہ وہ مختصر سی تاریخی نشیب و فراز کی اس خطہ ارضی کی داستانیں تھی جو ماضی میں تہذیبوں کا گہوارہ رہ چکی ہیں، اور آج بھی جن کی تہذیب و تمدن، ثقافت و حضارت کا ڈنکا اس دنیائے فانی میں بجایا جارہا ہے، کچھ ایسی ہی داستان خود ہمارے ملک ہندوستان کی ہے، جو صدہا سال سے افراط و تفریط کا شکار ہے، جب ہم ہندوستان کی اس قدیم تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو عورت ایک طرف داسی بنائی جاتی ہے، مرد اس کا سوامی اور پتی دیو یعنی مالک اورمعبود بنتا ہے، اسے بچپن میں باپ کی، جوانی میں شوہر کی، اور بیوگی میں اولاد کی مملوکہ بن کر رہنا پڑتا ہے، اسے شوہر کی چتا پر بھینٹ چڑھایا جاتا ہے، اس کو ملکیت اور وراثت کے حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے، اس پر نکاح کے بڑے سخت قوانین مسلط کئے جاتے ہیں جن کے مطابق وہ اپنی رضا اور پسند کے بغیر ایک مرد کے حوالے کی جاتی ہے، اور پھر زندگی کی آخری سانس تک اس کی ملکیت سے کسی حال میں نکل نہیں سکتی، اس کو یہودیوں، اور یونانیوں کی طرح گناہ اوراخلاقی و روحانی پستی کا مجسمہ سمجھا جاتا تھا، اور اس کی مستقل شخصیت تسلیم کرنے سے انکار کردیاجاتا تھا، تو دوسری طرف جب اس پر مہر کی نگاہ ہوتی ہے تو اسے بہیمی خواہشات کا کھلونا بنالیا جاتا تھا وہ مرد کے اعصاب پر سوار ہوجاتی ہے اورایسے سوار ہوتی ہے کہ خود بھی ڈوبتی ہے اور ساری قوم کو بھی لے ڈوبتی ہے۔
ہم نے مختصر طور پر مختلف ادوار کی تہذیب وتمدن کی علمبردار اقوام کے حالات آپ کے سامنے رکھے، ہمیں نہ ان اقوام کی تاریخ سے دلچسپی ہے اور نہ ہی ان کے کارناموں سے، کیونکہ وہ قومیں اپنی تعلیمات اور غیر متوازن نظریات کے ساتھ فنا ہوگئیں، اور ان سب کے بعد مذہب اسلام نے جو تعلیمات اہل دنیا کو دیں، اورجس روش پر لے کر یہ مذہب چلا، تو تجربات شاہد ہیں کہ دنیا نے امن وامان کا منھ دیکھا، جب اسلام عالم عرب کی حدود سے نکل کر اقوام عالم میں پھیلنا شروع ہوا، اورجس علاقے اور خطے میں بھی پہنچا فطرت کے عین مطابق ہونے کی وجہ سے ہر ایک ملک کے باشندوں کے موافق آیا، ہر جگہ کے تمدن پر اس نے غلبہ پایا، ہر ایک کے علوم و فنون کی سرپرستی فرمائی، ذرہ برابر عقل سلیم اور فطرتِ سلیمہ رکھنے والوں نے دل کھول کر اسلام قبول کیا، اور اسلامی تہذیب نے ہر علاقے اور ہر خطے کو منورکیا۔
اسلام اورمغرب: جوں جوں زمانہ ترقی کرتا رہا اسلام مخالف سرگرمیوں میں بھی اضافہ اور نت نئے طریقے ایجاد ہوتے رہے، مغرب نے اسلام کے ہراس نظریہ کو مٹانے اور داغدار کرنے کی پوری کوشش کی، جس کے زیر اثر ایک صحت مند انسانیت سانس لے رہی تھی۔ یورپ نے اسلامی نظریات و تعلیمات کے مقابل اپنی غیرمتوازن نظریات کو لاکھڑا کیا، اس کی ظاہری چمک دمک دکھاکر سادہ دل انسانوں کو پھانسنے کی بھرپور کوشش کی۔ اور دور رس منفی نتائج سے بے خبر جدید تہذیب کے بہاؤ میں بہتے چلے گئے۔ اس تہذیب سے جتنا نقصان عورت ذات کو پہنچا کسی اور کو نہیں پہنچا۔ عورت کو گھروں سے نکال کر عام شاہراہوں پر نمائش کیلئے لاکھڑا کیا، اسلام نے اس کے برعکس اس کو عزت و مقام دیا۔
خیر! یہ بحث تو ہم بعد میں کریں گے، اس سے قبل ہم چاہتے ہیں کہ مغربی تہذیب کے نظریات اوراس کے بنیادی عناصر، اس کا عروج و زوال، اور اس کے ماننے والوں کے خیالات آپ کے سامنے رکھیں۔
مغربی تہذیب کے بنیادی عناصر
وہ نظریات جن پر نئی مغربی معاشرت کی بنیاد رکھی گئی ہے ۔ ہم اس کو تین عنوانوں کے تحت تقسیم کرتے ہیں: (۱) عورتوں اور مردوں میں مساوات
(۲) عورتوں کا معاشی استقلال (۳) مرد و عورت کا آزادانہ اختلاط
مساوات
مساوات کے یہ معنی لئے گئے کہ عورت اور مرد نہ صرف اخلاقی مرتبہ، اور انسانی حقوق میں مساوی ہوں؛ بلکہ تمدنی زندگی میں عورت وہی کام کرے جو مردکرتے ہیں، اور اخلاقی بندشیں عورت کیلئے بھی اسی طرح ڈھیلی کردی جائیں جس طرح مرد کیلئے پہلے سے ڈھیلی ہیں۔ مساوات کے اس غلط تخیل نے عورت کو اس کے ان فطری وظائف سے غافل اور منحرف کردیا، جن کی بجا آوری پر تمدن کی بقاء بلکہ نوعِ انسانی کی بقاء کا انحصار ہے۔ مغرب کے اس بنیادی نظرئیے نے جو تباہی پھیلائی، اوراس کے تناظر میں جن سنگین برائیوں نے جنم لیا وہ دنیا کے سامنے ہے۔
حیاتیاتی تضاد
اسلام کی نظر میں عورت ومرد دونوں برابر نہیں ہیں، ہر ایک کا دائرئہ عمل شریعت نے الگ الگ مقرر کیاہے،اور ماضی قریب تک اسی اصول پر دنیا قائم رہی، مگر جب سائنسی دور شروع ہوا تواس اصول کا بہت مذاق اڑایا گیا، اوراس کو دورجہالت کی یادگار قرار دیاگیا، چنانچہ ساری دنیا میں اور خاص طور سے مغرب میں اس اصول پر ایک نئی سوسائٹی ابھرنا شروع ہوئی، مگر طویل تجربے نے یہ بات ثابت کردی ہے کہ مرد اور عورت دونوں پیدائشی طور پر یکساں نہیں ہیں، اس لئے دونوں کو یکساں فرض کرکے جو سماج اورمعاشرہ بنایا جائے وہ لازمی طور پر بے شمار خرابیاں پیداکرنے کا باعث ہوگا۔
پہلی بات آپ یہ سمجھ لیں کہ عورت اورمرد میں فطری صلاحیتوں کے زبردست نوعی اختلافات ہیں، اس لئے دونوں کو مساوی حیثیت دینا اپنے اندر ایک حیاتیاتی تضاد رکھتا ہے، ڈاکٹر الکس کیرل، عورت اور مرد کے فعلیاتی (Physiological) فرق کو بتاتے ہوئے لکھتاہے:
”مرد اور عورت کا فرق محض جنسی اعضاء کی خاص شکل، رحم کی موجودگی، حمل یاطریقہٴ تعلیم ہی کی وجہ سے نہیں ہے؛ بلکہ یہ اختلافات بنیادی قسم کے ہیں، خود نسیجوں کی بناوٹ اور پورے نظام جسمانی کے اندر خاص کیمیائی مادّے جو خصیة الرحم سے مترشح ہوتے ہیں، ان اختلافات کا حقیقی باعث ہیں، صنف نازک کے ترقی کے حامی ان بنیادی حقیقتوں سے ناواقف ہونے کی بنا پر یہ سمجھتے ہیں کہ دونوں جنسوں کو ایک ہی قسم کی تعلیم، ایک ہی قسم کے اختیارات، اور ایک ہی قسم کی ذمہ داریاں ملنی چاہئیں، حقیقت یہ ہے کہ عورت، مرد سے بالکل ہی مختلف ہے، اس کے جسم کے ہرایک خلیے میں زنانہ پن کا اثر موجود ہوتا ہے، اس کے اعضاء اور سب سے بڑھ کراس کے اعصابی نظام کی بھی یہی حالت ہوتی ہے، فعلیاتی قوانین (Physiological laws) اتنے ہی اٹل ہیں، جتنے کہ فلکیات (Sidereal world) کے قوانین اٹل ہیں، انسانی آرزوؤں سے نہیں بدلا جاتا، ہم ان کواسی طرح ماننے پر مجبور ہیں، جس طرح وہ پائے جاتے ہیں، عورتوں کو چاہئے کہ اپنی فطرت کے مطابق اپنی صلاحیتوں کو ترقی دیں، اور مردوں کی نقالی کی کوشش نہ کریں۔“ (Manthe unknown, P.93.)
مغرب میں اسی نظریے نے خاندان کا نظام، جو تمدن کا سنگ بنیاد ہے، بری طرح منتشر کردیا ہے، مساوات کے اس غلط تخیل نے عورتوں اور مردوں کے درمیان بداخلاقی میں مساوات قائم کردی ہے۔ وہ بے حیائیاں جوکبھی مردوں کے لئے بھی شرمناک تھیں، اب وہ عورتوں تک کیلئے شرمناک نہیں رہیں۔
عورتوں کا معاشی استقلال اوراس کے نتائج
عورت کے معاشی استقلال نے اس کو مرد سے بے نیاز کردیا ہے، وہ قدیم اصول کہ مرد کمائے اور عورت گھر کا انتظام کرے، اب اس نئے قاعدے سے بدل گیا کہ عورت اورمرد دونوں کمائیں اور گھر کاانتظام بازار کے سپرد کردیا جائے۔ اس انقلاب کے بعد دونوں کی زندگی میں بجز ایک شہوانی تعلق کے اور کوئی ایسا ربط باقی نہیں رہا جو ان کو ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ ہونے پر مجبور کرتا ہو۔ یہ تجربہ ہے کہ جو عورت اپنی روٹی آپ کماتی ہے وہ اپنی تمام ضروریات کی خود کفیل ہے، اپنی زندگی میں دوسرے کی حفاظت اور اعانت کی محتاج نہیں ہے، وہ آخر محض اپنی شہوانی خواہش کی تسکین کے لئے کیوں ایک خاندان کی ذمہ داری کا بار اٹھائے؟ خصوصاً جبکہ اخلاقی مساوات کے تخیل نے اس راہ سے وہ تمام رکاوٹیں بھی دور کردی ہوں جو اسے آزاد شہوت رانی کا طریقہ اختیار کرنے میں پیش آسکتی تھیں۔
یہ وہ چیز ہے جس نے مغربی معاشرت کی جڑیں ہلاکر رکھ دی ہیں، آج ہر ملک میں لاکھوں جوان عورتیں تجرد پسند ہیں، جن کی زندگیاں آزاد شہوت رانی میں بسر ہورہی ہیں۔ منع حمل،اسقاط، قتل اولاد، شرح پیدائش کی کمی، اور ناجائز ولادتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد بڑی حدتک اسی سبب کی رہین منت ہے، بدکاری، بے حیائی،اور امراضِ خبیثہ کی ترقی میں بھی اس کیفیت کا بڑا دخل ہے۔
مرد و عورت کا آزادانہ اختلاط
مغربی معاشرت کی تیسری بنیادی فکر مرد و عورت کا آزادانہ اختلاط ہے۔ یہ نظریہ آندھی اور طوفان کی طرح اقوامِ عالم میں پھیل رہا ہے، تباہی اور بربادی اس آواز کا مقدر ہے۔ مقامی روایات اور تہذیب کو اس نظریہ کی بدولت بھینٹ چڑھنا پڑا۔ نئی نسل ذہنی طور سے مفلوج اور قوت و ارادہ سے کھوکھلی ہوکر رہ گئی ہے۔ مردوں اور عورتوں کے آزادانہ اختلاط نے عورتوں میں حسن کی نمائش، عریانیت، اور فواحش کو غیرمعمولی ترقی دے رہی ہے۔ حسن و جمال کی یہ نمائش رفتہ رفتہ تمام حدود کو توڑتی چلی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ برہنگی کی آخری حد کو پہنچ کر ہی دم لیتی ہے۔ اس وقت مغربی تہذیب میں صنف مقابل کیلئے مقناطیس بننے کی خواہش عورت میں اتنی بڑھ گئی ہے،اور اتنی بڑھتی چلی جارہی ہے کہ شوخ و شنگ لباسوں، غازوں اور سرخیوں اور بناؤ سنگھار کے نت نئے سامانوں سے اس کی تسکین نہیں ہوتی۔ بے چاری تنگ آکر اپنے کپڑوں سے باہر نکل پڑتی ہے۔ یہ گھن بڑی تیزی سے مغربی قوموں کی قوتِ حیات کو کھارہا ہے۔ یہ گھن لگنے کے بعد آج تک کوئی قوم نہیں بچی، ایسے ماحول میں خصوصاً ان کی جوان نسلوں کو وہ ٹھنڈی اور پرسکون فضا میسر ہی کہاں آسکتی ہے جو ان کی ذہنی اور اخلاقی قوتوں کے نشوونما کیلئے ناگزیر ہے۔
فلکیاتی قوانین کی مخالفت
یہ جیتی جاگتی صداقت ہے کہ جس قوم نے بھی طبیعی اور فلکیاتی قوانین کو تسلیم نہیں کیا ہے، اور ان کے خلاف چلنا شروع کردیا ہے تواس قوم کے تمدن کے اندر زبردست خرابیاں پیدا ہوگئی ہیں۔ مثال کے طور پر مغرب نے طبیعی اور فلکیاتی قوانین کو چھوڑ کر ”مساوات“ جیسے کمزور اور بے بنیاد فلسفے کی بنیاد ڈالی، اس کے برے نتائج ہم گذشتہ سطروں میں مختصر طور سے بیان کرآئے ہیں۔ پھر اس غلط فلسفے کی وجہ سے دونوں صنفوں کے درمیان جوآزادانہ اختلاط پیدا ہوا ہے اس نے جدید سوسائٹی میں نہ صرف عصمت کا وجود باقی نہیں رکھا، بلکہ ساری نوجوان نسل کو طرح طرح کی اخلاقی اور نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا کردیا ہے، آج مغربی زندگی میں یہ بات عام ہے کہ ایک غیر شادی شدہ لڑکی ڈاکٹر کے کمرے میں داخل ہوتی ہے، اس کو سردرد اور بے خوابی کی شکایت ہے، وہ کچھ دیر اپنی ان تکالیف پر گفتگو کرتی ہے، اس کے بعد ایک مرد کا ذکر کرتی ہے جس سے وہ ابھی جلد ہی ملی تھی، اتنے میں ڈاکٹر محسوس کرتا ہے کہ وہ کچھ رک رہی ہے، تجربہ کار ڈاکٹر اس کی بات سمجھ کر آگے بات شروع کردیتا ہے۔
(Well, then he asked you to his flat. What did you say?)
لڑکی جواب دیتی ہے:
"How did you know? I was just going to tell you that”
اسکے بعد لڑکی جو کچھ کہتی ہے، اس کو ناظرین خود قیاس کرسکتے ہیں، چنانچہ علمائے جدید خود بھی اس تلخ تجربے کے بعد اس نتیجے میں پہنچے ہیں کہ آزادانہ اختلاط کے بعد عصمت و عفت کا تحفظ ایک بے معنی بات ہے، چنانچہ اسی سلسلہ میں ایک مغربی ڈاکٹر کے احساسات ملاحظہ فرمائیے وہ لکھتا ہے:
"There can come a moment between a man an a woman when control an judgement are impossible”
یعنی اجنبی مرد اور عورت جب باہم آزادانہ مل رہے ہوں تو ایک وقت ایسا آجاتا ہے، جب فیصلہ کرنا اور قابو رکھنا ناممکن ہوجاتاہے، حقیقت یہ ہے کہ عورت اورمرد کے آزادانہ اختلاط کی خرابیوں کو مغرب کے دردمند افراد شدت سے محسوس کررہے ہیں۔ یورپ کی ایک مشہور خاتون ڈاکٹر میرین ہیلرڈ نے آزادانہ اختلاط کے خلاف سخت مضمون لکھا، وہ کہتی ہیں:
"As a doctor, i dont believe there is such a thing as platonic relationship between a man and a woman who are alone together a good deal”
یعنی بحیثیت ڈاکٹر میں اسے تسلیم نہیں کرسکتی کہ عورت اور مرد کے درمیان بے ضرر تعلقات بھی ممکن ہے، مگر اس کے باوجود یہی خاتون ڈاکٹر لکھتی ہیں:
”میں اتنی غیر حقیقت پسند نہیں ہوسکتی کہ یہ مشورہ دوں کہ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ایک دوسرے کا بوسہ لینا چھوڑ دیں، مگر اکثر مائیں اپنی لڑکیوں کو اس سے آگاہ نہیں کرتیں کہ بوسہ صرف اشتہا پیدا کرتا ہے نہ کہ وہ جذبات کو تسکین دیتا ہے۔“ (ایڈرز ڈائجسٹ، دسمبر ۱۹۵۷/)
خاتون ڈاکٹر یہ کہہ کر بالواسطہ طور پر خدائی قانون کو تسلیم کرتی ہے، کہ آزادانہ اختلاط کے ابتدائی مظاہر جومغربی زندگی میں نہایت عام ہیں، وہ جذبات میں ٹھیراؤ پیدا نہیں کرتے، بلکہ اشتہا کو بڑھاکر مزید تسکین نفس کی طرف ڈھکیلتے ہیں، اور بالآخر انتہائی جنسی جرائم تک پہنچادیتے ہیں، مگر اس کے باوجود اس کی سمجھ میں نہیںآ تا کہ اس محرک شیطنت کو کس طرح حرام قرار دے۔
مخلوط تعلیم
عصر جدید میں آزادانہ اختلاط کو فروغ دینے کیلئے ایک بہت بڑا محرک مخلوط تعلیم بھی ہے، ایسی تعلیم گاہوں میں جذبات کو بھڑکانے کیلئے ایک پورا آتش خانہ موجود ہوتا ہے،اور ان کے بڑھتے ہوئے جذبات کی تسکین کیلئے ہر قسم کا سامان بھی کسی دقت کے بغیر فراہم ہوجاتا ہے، جس ہیجانِ جذبات کی ابتدا بچپن میں ہوئی تھی یہاں پہنچ کر اس کی تکمیل ہوجاتی ہے، بدترین، فحش لٹریچر نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے زیر مطالعہ رہتا ہے، عشقیہ افسانے، نام نہادآرٹ کے رسالے، صنفی مسائل پر نہایت گندی کتابیں، اور منع حمل کی معلومات فراہم کرنے والے مضامین، یہ ہیں وہ چیزیں جو عنفوانِ شباب میں، مدرسوں، کالجوں کے طالبین وطالبات کے لئے سب سے زیادہ جاذبِ نظر ہوتی ہیں۔
مشہور امریکن مصنف ہینڈرچ فان لون (Hendrich fan loon) کہتا ہے کہ:
”یہ لٹریچر جس کی سب سے زیادہ مانگ امریکن یونیورسٹیوں میں ہے، گندگی، فحش اور بیہودگی کا بدترین مجموعہ ہے جو کسی زمانہ میں اس قدر آزادی کے ساتھ پبلک میں پیش نہیں کیاگیا۔ اس لٹریچر سے جو معلومات حاصل ہوتی ہیں، دونوں صنفوں کے جوان افراد ان پر نہایت آزادی، اور بے باکی سے مباحثے کرتے ہیں، اوراس کے بعد عملی تجربات کی طرف قدم بڑھایا جاتا ہے۔ لڑکے اور لڑکیاں مل کر Petting parties کے لئے نکلتے ہیں، جن میں شراب و سگریٹ کا استعمال خوب آزادی سے ہوتا ہے، اور ناچ رنگ سے پورا لطف اٹھایا جاتا ہے۔“ (Howican gat marriod)
اسلام کا نقطئہ نظر
اسلام میں عورتوں کو دینی اور دنیوی علوم سیکھنے کی نہ صرف اجازت دی گئی ہے بلکہ انکی تعلیم و تربیت کو اسی قدر ضروری قرار دیاگیا ہے جس قدر مردوں کی تعلیم و تربیت ضروری ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جس طرح دین واخلاق کی تعلیم مرد حاصل کرتے تھے اسی طرح عورتیں بھی حاصل کرتی تھیں، آپ نے ان کے لئے اوقات متعین فرمادئیے تھے جن میں وہ آپ سے علم حاصل کرنے کیلئے حاضر ہوتی تھیں، آپ کی ازواج مطہرات اور خصوصاً حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نہ صرف عورتوں کی بلکہ مردوں کی بھی معلّمہ تھیں، اور بڑے بڑے صحابہ و تابعین ان سے حدیث، تفسیر، فقہ کی تعلیم حاصل کرتے تھے، اشراف تو درکنار نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لونڈیوں تک کو علم اور ادب سکھانے کا حکم دیا، چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
ایّما رجل کانت عندہ ولیدة فعلّمہا فأحسن تعلیمہا وأدّبہا فأحسن تأدیبہا ثم أعتقہا وتزوّجہا فلہ أجران ․ (بخاری شریف، کتاب النکاح)
(جس شخص کے پاس کوئی لونڈی ہو اور وہ اس کو خوب تعلیم دے، اور عمدہ تہذیب وشائستگی سکھائے پھر اس کو آزاد کرکے اس سے شادی کرے اس کے لئے دوہرا اجر ہے۔)
پس جہاں تک نفس تعلیم و تربیت کا تعلق ہے، اسلام نے عورت اورمرد کے درمیان کوئی امتیاز نہیں رکھا ہے۔ البتہ نوعیت میں فرق ضروری ہے۔ اسلامی نقطئہ نظر سے عورت کی صحیح تعلیم و تربیت وہ ہے جو اس کو ایک بہترین بیوی، بہترین ماں،اور بہترین گھروالی بنائے۔ اس کا دائرئہ عمل گھر ہے، اس لئے خصوصیت کے ساتھ ان علوم کی تعلیم دی جانی چاہیے جو اس دائرہ میں اسے زیادہ مفید بناسکتے ہیں، مزید برآں وہ علوم بھی اس کے لئے ضروری ہیں جو انسان کو انسان بنانے والے اور اس کے اخلاق کو سنوارنے والے اوراس کی نظر کو وسیع کرنے والے ہیں۔ ایسے علوم اورایسی تربیت سے آراستہ ہونا ہر مسلمان عورت کے لئے لازم ہے۔ اس کے بعداگرکوئی عورت غیرمعمولی عقلی و ذہنی استعداد رکھتی ہو، اور ان علوم کے علاوہ دوسرے علوم و فنون کی اعلیٰ تعلیم بھی حاصل کرنا چاہے تواسلام اس کی راہ میں مزاحم نہیں ہے۔ بشرطیکہ وہ ان حدود سے تجاوز نہ کرے جو شریعت نے عورتوں کیلئے مقرر کیے ہیں۔
تہذیب نو اور مغربی خواتین کی سوچ
ہم نے آپ کے سامنے مغربی تہذیب کی بنیادی فکر رکھی، ان کے برے نتائج آپ کے سامنے آئے، مغرب کی ان ہی بنیادی سوچوں سے بے شمار خرابیوں نے جنم لیا، جنھوں نے عورت ذات پر اس کی عزت و عظمت کے سارے دروازے بند کردئیے، اوراس کو ایسے گندے ماحول میں قید کردیا، جس کے اثرات اس کی نسل کو بغاوت پر آمادہ کرتے ہیں، عورتوں کے ناموس کو تباہ کردیاگیا، اس کو بے حیائی، بے شرمی کا اڈہ بنادیاگیا، عورت کو اس مقام تک لانے کیلئے ”آزادیٴ نسواں“ جیسے پرفریب و خوبصورت نعرے دئیے گئے۔ لیکن یہ ماننا پڑے گا کہ دنیا کبھی بھی عقل اور فہم رکھنے والوں سے خالی نہیں رہی۔ دور اندیش نتائج کے مشاہدہ کے بعد خواتین اس تہذیب سے تنفر کا اظہار کررہی ہیں، اور مغرب کی اس تحریک کو عورت کے ساتھ بغاوت قرار دے رہی ہیں، چنانچہ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے چند خواتین نے کہا کہ اس کا مطلب سوائے اس کے کچھ نہیں کہ:
"Women copying men, an exercisein which woman hood has naintrensic valve”(ترجمان دیوبند، اکتوبر، نومبر ۲۰۰۵/)
”عورتیں مردوں کی نقالی کریں، اور یہ ایک ایسا عمل ہے جس میں نسوانیت کی اپنی کوئی قدر وقیمت باقی نہیں رہتی۔“
مسئلہ حجاب: اسلام اور مغرب کے درمیان
مغرب کے بنیادی افکار سے جنم لینے والے مسائل بہت زیادہ ہیں، بعض کو اہم آپ کے سامنے رکھ چکے ہیں، حجاب بھی ایک ایسا ہی مسئلہ ہے، مغرب نے یہ رجحان پیدا کرکے خواتین کو اپنی ہی صنف کے خلاف بغاوت پر آمادہ کردیا ہے، یہ وہ عمل ہے جس نے خواتین سے ان کی نسوانیت چھین لی ہے۔ یورپ نے پردہ اور نقاب کو نہایت نفرت کی نگاہ سے دیکھا، اپنے لٹریچر میں اس کی نہایت گھناؤنی اور مضحکہ انگیز تصویریں کھنچیں، اسلام کے عیوب کی فہرست میں عورتوں کی ”قید“ کو نمایاں جگہ دی۔ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ یہ سب مسائل ”مساوات اورآزادی“ جیسے عنوانات سے پیدا ہوئے ہیں۔ہرطرف بے حیائی، اور بے شرمی گشت کررہی ہے، جو لائق بیان نہیں ہے۔ اسلام نے عورت کے تحفظ و عصمت کا جو تصور دیا اوراس کیلئے جن اصول وضوابط کا انتخاب کیا وہ آج بھی اور قیامت تک ہر قوم کے لئے، ہر میدان میں باعث امن وامان ہیں۔
شرعی ہدایات
شریعت اسلامیہ نے دونوں صنفوں کو ایسے متوازن احکامات دئیے ہیں جو کمی بیشی کو قبول نہیں کرتے۔اگر کوئی بھی صنف اپنے اس دائرہ سے باہر نکلنے کی کوشش کرتی ہے تو اس کو ندامت اور شرمندگی کا منھ دیکھنا پڑے گا۔ قرآن کریم میں پردہ، عفت وعصمت کے تاکیدی احکام، اغیار کے سامنے اظہار زینت کی ممانعت، غضّ بصر کے متعلق خاصی مقدار میں احکامات موجود ہیں، ہم یہاں سورئہ ”نور“ کی ایک جامع آیت کا ترجمہ نقل کررہے ہیں جو مذکورہ بالا تمام احکام کے علاوہ دیگر احکامات پر بھی مشتمل ہے:
”اور کہہ دے ایمان والیوں کو نیچی رکھیں ذرا اپنی آنکھیں، اور تھامتی رہیں اپنے ستر کو، اور نہ دکھلائیں اپنا سنگار مگرجو کھلی چیز ہے اُس میں سے۔ اور ڈال لیں اپنی اوڑھنی اپنے گریبان پر، اور نہ کھولیں اپنا سنگار مگر اپنے خاوند کے آگے، یا اپنے باپ کے، یا اپنے خاوند کے باپ کے، یا اپنے بیٹے کے، یا اپنے خاوند کے بیٹے کے، یا اپنے بھائی کے، یا اپنے بھتیجوں کے، یا اپنے بھانجوں کے، یا اپنی عورتوں کے، یا اپنے ہاتھ کے مال کے، یا کاروبار کرنے والوں کے جو مرد کہ کچھ غرض نہیں رکھتے، یا لڑکوں کے جنھوں نے ابھی نہیں پہچانا عورتوں کے بھید کو، اور نہ ماریں زمین پر اپنے پاؤں کو کہ جانا جائے جو چھپاتی ہیں اپنا سنگار۔ اور توبہ کرو اللہ کے آگے سب مل کر اَے ایمان والو تاکہ تم بھلائی پاؤ۔“(ترجمہ شیخ الہند)
عورت کا دائرئہ عمل
شریعت اسلامیہ نے مرد و عورت کیلئے الگ الگ دائرئہ عمل طے کردیا ہے، کسب مال کی ذمہ داری مرد کے سر رکھی، اور گھر کا انتظام عورت سے متعلق رکھا، حدیث شریف میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
المرأة راعیة علی بیت زوجہا، وہی مسئولةٌ (بخاری شریف: باب قوأنفسکم وأہلیکم نارًا)
(عورت اپنے شوہر کے گھر کی حکمراں ہے، اور وہی اپنی حکومت کے دائرہ میں اپنے عمل کے لئے جواب دہ ہے۔)
اس کو ایسے تمام فرائض سے سبکدوش کیاگیا جو بیرونِ خانہ کے امور سے تعلق رکھنے والے ہیں، مثلاً نمازِ جمعہ، جہاد، جنازہ میں شرکت، عورت کے لئے ضروری نہیں، نیز شریعت نے اس کومحرم کے بغیر سفر کرنے کی اجازت بھی نہیں دی۔ اس کے علاوہ اسلام نے جو نظریہٴ حجاب عورتوں کو دیا ہے ہم کہتے ہیں کہ ان کے تحفظ کا واحد ذریعہ یہی ہے، اس سے ان میں خود اعتمادی پیداہوتی ہے، عورتوں کو کھلے چہروں کے ساتھ باہر پھرنے کی عام اجازت دینا ان مقاصد کے بالکل خلاف ہے، جن کواسلام اس قدر اہمیت دے رہا ہے۔ ایک انسان کو دوسرے انسان کی چیز جو سب سے زیادہ متاثر کرتی ہے وہ اس کا چہرہ ہی تو ہے، نگاہوں کو سب سے زیادہ وہی کھینچتا ہے، جذبات کو سب سے زیادہ وہی اپیل کرتا ہے۔ آپ کو یہ اعتراف کرنا پڑے گا کہ صنفی تحریک میں جسم کی ساری زینتوں سے زیادہ حصہ اس فطری زینت کا ہے جو اللہ نے چہرے کی ساخت میں رکھی ہے۔
نشوونما
مغرب نے ایک ظالمانہ اجتماعی نظام ”آزادی“ کے عنوان سے اہل دنیا کو دیا، لیکن یہ تاریخی صداقت ہے کہ جن لوگوں نے ابتداءً اس نظام کو پیش کیا وہ خود بھی اس کے منطقی نتائج سے آگاہ نہ تھے، شاید ان کی روح کانپ اٹھتی اگر ان کے سامنے وہ نتائج متمثل ہوکر آجاتے جن پرایسی بے قید اباحت اورایسی خود سرانہ انفرادیت لازماً منتہی ہونے والی تھی۔ بالآخر اس تصور نے مغربی ذہن میں جڑ پکڑلی اور نشوونما پاناشروع کردیا۔
ایک انگریز مصنف ”جارج رائیلی اسکاٹ“ اپنی کتاب ”تاریخ الفحشاء“ (A history of prostitution) میں ایک جگہ عورتوں اور خصوصاً والدین کو ان حالات کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے، چنانچہ وہ لکھتا ہے کہ:
”عورتوں کی آزادی کا بھی ان حالات کی پیدائش میں بہت کچھ دخل ہے۔ گذشتہ چند سالوں میں لڑکیوں پر سے والدین کی حفاظت اور نگرانی اس حد تک کم ہوگئی ہے کہ تیس یا چالیس سال قبل لڑکوں کو بھی اتنی آزادی حاصل نہ تھی جتنی اب لڑکیوں کو حاصل ہے“
تین محرّکات
یہ تو جارج صاحب کا اپنا خیال تھا، لیکن ہماری نظر ایک امریکن رسالے پر جاتی ہے، وہ اس بداخلاقی کیلئے تین اسباب کو ذمہ دار مانتا ہے، چنانچہ رسالہ لکھتا ہے:
”تین شیطانی قوتیں ہیں جن کی تثلیث آج ہماری دنیا پر چھاگئی ہے۔ اور یہ تینوں ایک جہنم تیار کرنے میں مشغول ہیں۔ فحش لٹریچر جو جنگ عظیم کے بعد سے حیرت انگیز رفتار کے ساتھ اپنی بے شرمی اور کثرتِ اشاعت میں بڑھتا چلا جارہا ہے۔ متحرک تصویریں جو شہوانی محبت کے جذبات کو بھڑکاتی ہی نہیں بلکہ عملی سبق بھی دیتی ہیں۔ عورتوں کا گراہوا اخلاقی معیار جو ان کے لباس، اور بسا اوقات ان کی برہنگی، اور سگریٹ کے روزافزوں استعمال،اورمردوں کے ساتھ ان کے ہر قید وامتیاز سے نا آشنا اختلاط کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ یہ تین چیزیں ہمارے یہاں بڑھتی ہی چلی جارہی ہیں۔“
اپنی پستی اور یورپ کی ترقی
اس قدر بحث کے بعد یہ سوال ذہن میں پیدا ہوتا ہے کہ یہ تحریک مغرب سے اٹھی، اور وہیں جوان ہوئی، لیکن اس کا امنڈتا سیلاب دوسرے خطوں میں بسنے والی مسلم اقوام کو کیوں بہالے گیا؟ یا انھوں نے اس ذہنی غلامی کو کیوں قبول کیا؟ اس کاجواب تاریخ میں محفوظ ہے کہ اٹھارویں صدی کا آخری اور انیسویں صدی کا ابتدائی زمانہ تھاجب مغربی قوموں کا ملک گیری کا سیلاب ایک طوفان کی طرح اسلامی ممالک پرامنڈ آیا، انیسویں صدی کے نصف آخر تک پہنچتے پہنچتے بیشتر مسلمان قومیں یورپ کی غلام ہوچکی تھیں۔ مسلمانوں کا قومی غرور دفعتہ خاک میں مل گیا گویا نشہ اترگیا تھا، مگر توازن ابھی تک بگڑا ہوا تھا، ایک طرف ذلت کا شدید احساس تھا جو اس حالت کو بدل دینے پر اصرار کررہا تھا، دوسری طرف صدیوں کی آرام طلبی اور سہولت پسندی تھی جو تبدیلیٴ حالت کا سب سے آسان اور سب سے زیادہ قریب کا راستہ ڈھونڈنا چاہتی تھی، تیسری طرف سمجھ بوجھ اور غور وفکر کی زنگ خوردہ قوتیں تھیں جن سے کام لینے کی عادت سالہا سال سے چھوٹی ہوئی تھی۔ ان سب پر مزید وہ مرعوبیت اور دہشت زدگی تھی جو ہر شکست خوردہ غلام قوم میں فطرةً پیدا ہوجاتی ہے، ان مختلف اسباب نے مل جل کر اصلاح پسند مسلمانوں کو بہت سی عقلی و عملی گمراہیوں میں مبتلا کردیا، ان میں سے اکثر تو اپنی پستی اور یورپ کی ترقی کے اسباب سمجھ ہی نہ سکے، اور جنھوں نے ان کو سمجھا ان میں بھی اتنی ہمت نہ تھی کہ ترقی کے دشوار گذار راستوں کو اختیار کرتے، مرعوبیت اس پر مستزاد تھی، اس بگڑی ذہنیت کے ساتھ ترقی کا سہل ترین راستہ جو اُن کو نظر آیا وہ یہ تھا کہ مغربی تہذیب و تمدن کے مظاہر کا عکس اپنی زندگی میں اُتار لیں،اور اُس آئینہ کی طرح بن جائیں جس کے اندر باغ و بہار کے مناظر تو موجود ہوں مگر درحقیقت نہ باغ ہو، نہ بہار۔
یہی بحرانی کیفیت کا زمانہ تھا، جس میں مغربی لباس، مغربی معاشرت، مغربی آداب و اطوار، حتی کہ چال ڈھال،اور بول چال تک میں مغربی طریقوں کی نقل اتاری گئی۔ اخلاق، معاشرت، معیشت، سیاست، قانون، شائستگی حتی کے مذہبی عقائد اور عبادات کے متعلق بھی جتنے مغربی نظریات یا عملیات تھے، ان کو کسی تنقید اور کسی فہم و تدبر کے بغیر اس طرح تسلیم کرلیاگیا کہ گویا وہ آسمان سے اتری ہوئی وحی ہیں جس پر ”سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا“ کہنے کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں۔
ہم نے مختلف تہذیبوں کا مختصراً تعارف کرایا ہے۔اور اسلامی نظریات کو پیش کرکے ہر مکتب فکر کے اہل علم حضرات کو تقابلی مطالعہ اور تقابلی مشاہدہ کی دعوت دی ہے۔ ہماری درخواست ہے کہ غیرجانبدارانہ فیصلہ کریں،اور نئی نسل کو ایک صالح معاشرہ دیں۔
______________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ4، جلد: 90 ،ربیع الاول1427 ہجری مطابق اپریل2006ء