حضرت مولانا ابوالمحاسن سجاد (تعلیمی وتدریسی خدمات و امتیازات)

بہ قلم: ڈاکٹرمولانا اشتیاق احمد قاسمی

مدرس دارالعلوم دیوبند

            حضرت مولانا ابوالمحاسن سجاد رحمة اللہ علیہ کو اللہ تعالی کی طرف سے بہت سی خوبیاں ملی تھیں، ان میں علمی محاسن سب پر غالب تھے، وہ بڑے مشّاق مدرس، حاضر دماغ باحث، قابل رشک معقولی اور قابل فخر فقیہ تھے، ان کی فکر، رسا اور رائے، صائب تھی۔ ان کا علم محض کتابی نہ تھا؛ بلکہ آفاقی تھا، ان کے طرز تدریس کی دھوم تھی، دور دور تک ان کا کوئی ہمسر نظر نہ آتا تھا، طلبہ ان کے عاشق زار تھے، وہ اسلامی انقلاب کے ساتھ تعلیمی انقلاب کے داعی اور ساعی تھے، دیار کفر میں اسلامی شیرازہ بندی کے ذریعے مسلمانوں کو ایک نظام کے تحت دیکھنا چاہتے تھے، ان کی حاضردماغی ضرب المثل تھی، حضرت علامہ سیّدسلیمان ندوی لکھتے ہیں:

            ”فلسفہٴ تاریخ کے ماہر کہتے ہیں کہ علم اور عمل کم یکجا ہوتے ہیں؛ لیکن انھیں کم یاب مثالوں میں مولانا سجاد کی ذات تھی، وہ اپنے وقت کے بڑے مشاق مدرس اور حاضر العلم عالم تھے، خصوصیت کے ساتھ معقولات اور فقہ پر ان کی نظر بہت وسیع تھی، جزئیات فقہ اور خصوصاً ان کا وہ حصہ جو معاملات سے متعلق تھے ان کی نظر میں تھا، امارت شرعیہ کے تعلق سے اقتصادی ومالی وسیاسی مسائل پر ان کو عبور کامل تھا، زکوٰة، خراج وقضا وامامت وولایت کے مسائل کی پوری تحقیق فرمائی تھی․․․ جب بھی گفتگو کی گئی ان کا علم تازہ نظر آیا، ان کا علم محض کتابی نہ تھا؛ بلکہ آفاقی بھی تھا، اللہ تعالیٰ کا سب سے بڑا عطیہ فکر رسا اور رائے صائب تھی، مسائل وحوادث میں ان کی نظر بہت دور پہنچ جاتی تھی، وہ ہرگتھی کو نہایت آسانی سے سلجھا دیتے تھے“ (محاسن سجاد، ص۴۰، الہلال بک ایجنسی)

            حضرت مولانا وحیدالحق استھانوی سے ان کے مدرسہ اسلامی بہار شریف میں فیض حاصل کیا، پھر وقت کے معروف مربی ومدرس حضرت مولانا عبدالکافی رحمة اللہ علیہ سے مدرسہ سبحانیہ الٰہ آباد میں علوم وفنون حاصل کیے، دیوبند تشریف لائے؛ مگر سوے اتفاق کہ ایک تبتی طالب علم سے لڑائی ہوگئی، اس کی وجہ سے جن طلبہ کو دیوبند چھوڑنا پڑا ان میں موصوف بھی تھے، دیوبند سے واپس ہونے کے باوجود دیوبند کی یاد ہمیشہ تازہ رہی، اپنی مجلسوں میں برابر دیوبند کا ذکر فرماتے، بالآخر حضرت شیخ الہند کی تحریک سے جڑگئے، جمعیة علمائے ہند اورامارت شرعیہ کے اولین یوم تاسیس سے اپنے دم واپسیں تک ساتھ رہے(محاسن سجاد، ص۲۳) غرض یہ کہ مدرسہ سبحانیہ الٰہ آباد میں ہی اپنی تعلیم مکمل فرمائی۔

علمی مقام

            حضرت ابوالمحاسن کا زمانہ معقولات کے غلبے کا تھا، موصف کو معقولات میں کافی عبور تھا؛ اس لیے طلبہ معقولی سمجھتے تھے؛ لیکن حقیقت یہ ہے کہ آپ کو منطق وفلسفہ سے زیادہ فقہ میں عبور تھا، تفسیر اور حدیث سے بڑی مناسبت تھی، علم بلاغت اور عَروض میں بھی بڑی مہارت تھی، تھوڑی دیر میں عربی زبان میں قصیدہ منظوم کرلیتے تھے۔

            حضرت مولانا عبدالحکیم اوگانوی لکھتے ہیں:

            ”یوں تو مولانا جامع العلوم تھے؛ مگر جن علوم میں کافی؛ بلکہ کافی سے زیادہ دست گاہ رکھتے تھے وہ منطق، فلسفہ، بلاغت اور علم ادب تھا، کانپور میں کوئی عالم آپ کے پایہ کا نہ تھا اورالٰہ آباد میں بھی بجز مولانا منیرالدین الٰہ آبادی کے کوئی مدرس عالم آپ کا ہمسر نظر نہ آیا۔“ (محاسن سجاد، ص۵)

            حضرت مولانا ابوالمحاسن سجاد کے عزیز ترین شاگرد رشید حضرت مولانا عبدالصمد رحمانینے موصوف کی قرآن وسنت اور فقہ و معقولات سے مناسب کو بڑے اچھے انداز میں بیان فرمایا ہے، معقولات سے مناسبت کو بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:

            ”اس دور میں عموماً طلبہ میں معقولات کا ذوق زیادہ تھا اور اس کی جانب دل چسپی میرے خیال میں افراط کی حد سے بھی زیادہ تھی، اسی بنا پر عموماً اس دور میں طلبہ میں مولانا کی ممتاز حیثیت معقولی ہونے کی تھی اور یہ واقعہ ہے کہ مولانا اس فن میں ناقدانہ نظر رکھتے تھے اور ہرمسئلہ میں مولانا کی رائے قولِ فیصل کا درجہ رکھتی تھی․․․“

            آگے قرآن مجید سے طبعی مناسبت کو ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

            ”قرآن مجید کا مولانا کو طبعی ذوق تھا وہ مجھ سے اکثر فرمایا کرتے تھے کہ میں جب قرآن مجید کی تلاوت کرنے بیٹھتا ہوں تو بہ مشکل گھنٹہ آدھ گھنٹہ میں ایک صفحہ کی تلاوت کرتا ہوں، قرآن کی بلاغت، اس کا عمق، پھر اس کے احکام، پھر احکام کی روح اور اس کا مناط، پھر اس کے ماتحت اس کے فروع پھر فروع کے تنوعات، پھر ان میں باہمی تفاوت کی بوقلمونی؛ اس طرح ایک ساتھ سامنے آنے لگتی ہیں کہ میں اس میں کھوجاتا ہوں اور اکثر ایک ہی دو آیت میں وقت ختم ہوجاتا ہے اور تھک کر تلاوت ختم کردیتا ہوں۔“

            احادیثِ نبویہ سے متعلق مولانا ابوالمحاسن کی مناسبت کو بیان کرتے ہوئے لکھا ہے:

            ”احادیث کے متعلق مولانا کا نظریہ بہت بلند تھا، مولانا فرماتے تھے کہ ہر حدیث قرآن مجید کی کسی نہ کسی آیت کی تفسیر ہے، نیز یہ کہ ہر حدیث مشکوٰة نبوت کی ہی تنویر کی روشنی میں – جو ”بِمَا اَرَاکَ اللّٰہ“ کے ماتحت – آپ کو حاصل تھی۔ اس امر پر زبردست دلیل ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جو تشریح و تبیین آیاتِ قرآنی کی فرمائی ہے؛ سب کے لیے آپ نے قرآن کے الفاظ میں اشارات پائے ہیں، پھر اس پر قیاسات کی بنیاد رکھتے ہیں اور فروعی احکامات کا استخراج کرتے ہیں۔

            اس لیے مولانا کی رائے تھی کہ ہرحدیث کا تعلق قرآن سے بتانا چاہیے اور ہر نوع کے مسائل کے متعلق سب سے پہلے قرآن سے جو کچھ ثابت ہے اس کو زیربحث لانا چاہیے، اس کے بعداحادیث سے جو کچھ سمجھا ہے اس کو بتانا چاہیے، اس کے بعد طلبہ کو اس طرف رہنمائی کرنی چاہیے کہ مسئلہ کے اس خاص نوع میں مجتہدین کی کیا خدمات ہیں؟ اور کیوں کرہیں؟ اور ان کا مدار کیا ہے؟“۔

            مولانا رحمانی اپنے استاذ محترم کے فقہی درک، گہرائی اور گیرائی کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

            ”مولانا جس طرح اختلاف احادیث کے باب میں جمع وتطبیق سے کام لیتے تھے اوراختلافِ احوال اورمقتضائے ماحول پر اس کو محمول فرماتے تھے؛ یا اختلاف مدارج یعنی اباحت، رخصت، عزیمت کو سبب قرار دیتے تھے، اسی طرح فقہاء کے مختلف اقوال میں جمع وتطبیق سے کام لیتے تھے اورامام صاحب اور صاحبین کے اختلاف کو نیز دوسرے ائمہ: امام شافعی وغیرہم کے اختلاف کو خصوصاً معاملات میں متقضائے ماحول اور اسی طرح کے دوسرے اسباب پر محمول فرماتے تھے اور کہتے تھے کہ مختلف جہات کی بنا پر جو مختلف احکام ہیں، ان میں واقعیت کے اعتبار سے کوئی اختلاف ہی نہیں ہے۔“

            آگے لکھتے ہیں:

            ”یہی وہ خصوصیات تھیں جن کی بنا پر مولانا ان مسائل میں جوارتقائی اسباب کی بنا پر آئے دن نئی نئی صورتوں میں رونما ہواکرتے ہیں، بلاتکلف صائب رائے دیتے تھے اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ اس کو پہلے سے سوچے بیٹھے ہیں اوراس کے شواہد اور نظیر پر غور وفکر کے تمام مراحل کو طے فرماچکے ہیں․․․ میرے خیال میں مولانا کی اصلی خصوصیت ”تفقہ فی الدین“ کی خداداد دولت تھی، جس میں وہ فقیہ اور یگانہ تھے۔“ (حضرت استاذ کی یاد: مولانا عبدالصمد رحمانی، ص۳۱، ۳۷)

الہ آباد سے رخصت ہوتے وقت محبوبیت کے مظاہر

            اللہ تعالیٰ جب کسی بندے سے محبت فرماتے ہیں تو روئے زمین پر اس کے مظاہر دکھابھی دیتے ہیں، حضرت مولانا اپنے عزیزوں، دوستوں اورہم عصروں میں محبوب تھے، طلبہٴ کرام بے پناہ محبت کی نظروں سے دیکھتے تھے، عام لوگوں میں بھی محبوبیت کی یہی شان نظر آتی تھی، حضرت مولانا محمدیوسف خان لکھتے ہیں:

            ”مولانا علیہ الرحمہ جس وقت الہ آباد چھوڑ رہے تھے، شہر کے عمائدین ورؤوسا اسٹیشن پر آکر رورہے تھے“ (محاسن سجاد، ص۳۲)

            اور حضرت مولانا عبدالصمد رحمانی لکھتے ہیں:

            ”․․․عمائدین کی ایک جماعت مولانا کو رخصت کرنے کے لیے اسٹیشن پر آئی تھی تو ہر شخص کی زبان پر یہی تھا کہ الہ آباد سے فقہ رخصت ہورہا ہے۔“ (حضرت استاذ کی یاد، ص۳۷)

تدریس کے تین ادارے

            فراغت کے بعد سب سے پہلے ”مدرسہ سبحانیہ الہ آباد“ میں تدریس کا آغاز فرمایا، وہاں اپنے محسن ومربی اوراستاذ محترم کے زیرسایہ رہنے لگے، (معلوم ہوا کہ اب یہ مدرسہ سرکاری ہوگیا ہے اس کے ذمہ دار جناب مولانا ریاض الدین صاحب ہیں) پھر اپنے وطن کی مادرعلمی یعنی ”مدرسہ اسلامیہ بہار شریف“ آئے، یہ موصوف کے استاذ اور خسر حضرت مولانا وحیدالحق صاحب کا مدرسہ تھا، اس کو بھی سنبھالہ دیتے رہے، پھر جب مولانا عبدالکافی نے اصرار فرمایا تو وہاں سے دوبارہ الہ آباد آگئے اور ”نائب مدرس اوّل“ کی حیثیت سے پڑھانے لگے، وہاں سے گیا تشریف لائے اور ”مدرسہ انوارالعلوم“ کی بنیاد رکھی۔ (محاسن سجاد، ص۱۲-۱۳)

تدریس کا آغاز

            جب اپنی مادرعلمی میں اسباق شروع کیے تو مدرسہ کی بڑی شہرت ہوئی، بڑی محنت وجانفشانی سے پڑھاتے تھے، مزاج کی نرمی، عفو ودرگزر اور طلبہ کے ساتھ ہمدردی نے آپ کی مقبولیت کو دوچند کردیا، مدرسہ کے تعلیمی قالب میں نئی روح پھونک دی، مدرسہ میں متوسطات کے ساتھ علیا کی کتابیں بھی پڑھائی جانے لگیں، آپ کے شاگرد رشید حضرت مولانا محمداصغرحسین صاحب نائب پرنسپل مدرسہ شمس الہدیٰ پٹنہ رقم طراز ہیں:

            ”․․․مدرسہ اسلامی تشریف لے آئے اور درس جاری فرمایا، مزاج کی نرمی، عفوودرگزر کی طینت اورطلبہ کی ہمدردی کے ساتھ جو اپنی طباعی اور انہماکی شان سے شب وروز درس وتدریس کی مہم شروع کی تو تھوڑے ہی عرصہ میں مدرسہ کے تعلیمی قالب میں نئی روح پھونک دی، ایک مدت سے مدرسہ قائم تھا؛ لیکن شرح وقایہ، جلالین شریف، قطبی اورمیرقطبی وغیرہ سے اوپر پڑھنے والے طلبہ کبھی نہ رہے․․․ مگر حضرت ابوالمحاسن کے پُرمحبت درس نے ایسی سحرکاری کی کہ اب طلبہ مدرسہ میں جمنے لگے؛ چنانچہ میرزاہد رسالہ اور ترمذی شریف تک پہنچ گیا۔“ (محاسن سجاد، ص۲۰)

تدریس کا نرالا انداز

            حضرت ابوالمحاسن کے طریقہٴ تعلیم و تدریس کو حضرت مولانا عبدالصمد رحمانی نے بڑے اچھے انداز میں لکھا ہے، اس کا حاصل یہ ہے کہ حضرت طلبہٴ کرام سے کتاب حل کراتے تھے، ان کی قوتِ مطالعہ کی پختگی کی طرف متوجہ رہتے اور اس حد تک محنت کراتے کہ طلبہ کو کتاب سے اچھی خاصی مناسبت پیداہوجاتی، وہ فرماتے تھے:

            ”پڑھنے والے کے سامنے دو باتیں رہنی ضروری ہیں: (۱) ایک تو یہ کہ جس مسئلہ کو تم کتاب میں پڑھ رہے ہو، پہلے اس کو کتاب سے سمجھوکہ صاحب کتاب اس مسئلہ کے متعلق کیا کہہ رہا ہے؟ اوراس کے سمجھنے میں جو کچھ سمجھو اس عبارت سے سمجھو اور کسی خیال کو اپنی طرف سے زبردستی اس میں نہ ٹھونسو۔

            (۲) دوسری چیز یہ ہے کہ یہ سمجھو کہ اصل مسئلہ کی حقیقت کیاہے؟ اور جب اصل مسئلہ کی حقیقت سمجھ لوتو اس کے بعد یہ بھی دیکھو کہ صاحب کتاب سے اس حقیقت کے سمجھنے میں چوک تو نہیں ہوئی ہے۔“ (حضرت استاذ کی یاد، ص۳۰)

            آگے لکھتے ہیں:

            ”پس حضرت استاذ (سبق میں) پہلے کتاب کو سمجھاتے، پھر نفسِ مسئلہ کی طرف رہنمائی فرماتے، اس طرح پڑھنے والے میں تحقیق، تلاش، محنت، مطالعہ کی فکر کا جذبہ پیدا کردیتے اور پڑھنے والے کے دماغ کی تربیت فرماتے تھے۔“ (حضرت استاذ کی یاد، ص۳۰)

            حضرت مولانا عبدالصمد رحمانی نے اپنے استاذ محترم کے طرز تدریس کو بیان کرنے سے پہلے اس زمانے میں دو طرح کے طریقے کو بیان کرکے دونوں کے افراط و تفریط کی نشاندہی کی ہے، اس کا حاصل یہ ہے :

            (الف) اس زمانے میں ایک انداز تو یہ تھا کہ طالب علم ایک اندازے سے پورے سبق کی عبارت پڑھ جاتااور پڑھانے والا مدرس پورے سبق کی تقریر کردیتا تھا، مطلب بیان کرتا، اس سے متعلق اعتراض وجواب بیان کرتا پھر طالب علم ترجمہ کرتا اور سبق ختم ہوجاتا۔

            اس طریقے پر نقد فرمایا ہے کہ اس سے طالب علم کو ہرمسئلہ پر رواں دواں تقریر تو آجاتی تھی؛ مگر کتاب سے مناسبت نہ ہوپاتی تھی، قوتِ مطالعہ میں کمزوری ہوتی، بہت سے طلبہ کتاب سمجھانے پر قادر نہ ہوپاتے تھے۔ رواں دواں تقریر کے دوران اگر کوئی اعتراض کردیتا تو ساری تقریر پانی ہوجاتی تھی۔

            (ب) اس زمانے کا دوسرا طریقہ یہ تھا کہ طالب علم ایک دو سطر عبارت پڑھتا اور استاذ صاحب اس کا مطلب بیان کرتے، اعتراض وجواب ذکر کرتے۔ پھر طالب علم آگے بڑھتا ایک دو سطر عبارت پڑھتا اور اسی طرح سبق پورا ہوجاتا تھا۔

            اس صورت میں طلبہ کو کتاب سے مناسبت ہوجاتی تفہیم کی صلاحیت بڑھتی اور قوتِ مطالعہ میں اضافہ ہوتا؛ مگر طالب علم اپنے دماغ میں کسی مسئلہ سے متعلق کوئی خاص روشنی نہیں رکھتا تھا، نہ یہ قدرت ہوتی کہ کتاب سے الگ ہوکر ایک سلجھی ہوئی تقریر میں مقصد کتاب کو بیان کردے۔

            اس لیے حضرت ابوالمحاسن نے اپنے انداز درس کو معتدل کیااور زمانے کے طرز میں تبدیلی کرکے اپنا امتیاز قام کیا، جس نے ان کو اپنے معاصرین میں ممتاز کردیا۔

تدریس کی تیاری اور تفہیم کی محنت

            حضرت ابوالمحاسن کے امتیازات میں ان کی تدریس وتفہیم کو اوّلیت حاصل ہے، زبان میں لکنت کے باوجود اتنی کامیاب مدرسی تاریخ میں نظر نہیں آتی، بڑی محنت سے تیاری کرتے پھر درس دیتے، انداز آسان اپناتے اور اس طرح کامیابی کے ساتھ طالب علم کے ذہن و دماغ میں مضمون بٹھاتے کہ ان کے دلوں سے صدائے آفریں بلند ہونے لگتی، موصوف کے طرز تدریس کی بڑی شہرت تھی، طلبہ کو مدرسہ کے اوقات کے علاوہ وقت بھی دیتے اور مدرسہ میں کسی وجہ سے چھٹی ہوجاتی تو اپنے گھر بلاکر اسباق پڑھاتے اور کھانے پینے کا انتظام بھی کرتے تھے، حضرت مولانا عبدالحکیم لکھتے ہیں:

            ”مولانا کے درس وتدریس کا یہ حال تھاکہ بڑی محنت اورکاوش سے پڑھاتے تھے اور کتاب کے مطالب مع مالہ وماعلیہ اس آسانی سے طلبہ کے دماغ میں اُتار دیتے تھے کہ دماغ چمک اٹھتا تھا، مولانا کے طرز تدریس کی بڑی شہرت اور دھوم رہی بہت سے تشنہ کامانِ علم اس چشمہ سے سیراب ہوئے اور اپنی پیاس بجھائی۔“ (محاسن سجاد، ص۵)

            اور حضرت مولانا محمداصغرحسین نائب پرنسپل مدرسہ شمس الہدیٰ پٹنہ لکھتے ہیں:

            ”درس وتدریس میں جن امور کی رعایت سے طلبہ کو پوری تشفی ہوسکتی ہے، مولانا اس میں کسی طرح کی کمی جائز نہ رکھتے تھے، مطالب کتاب کو خوب کھول کر سامنے رکھنے کی سعی فرماتے، ظاہر ہے کہ اس کے لیے کس قدر گہرے مطالعہ اور توسیع معلومات کی محنت برداشت کرنے کی ضرورت ہے (اس کا اندازہ کیا جاسکتا ہے)“

            آگے لکھتے ہیں:

            ”پھر ایک بار کی تقریر سے تشفی نہ ہوتی تو دوبارہ، سہ بارہ، تقریر کرنے میں چیں بہ جبیں نہ ہوتے اور اگر اوقات مدرسہ میں آسودگی نہ ہوتی تو خارج وقت دینے میں کوئی دریغ نہ فرماتے، حتیٰ کہ شروح وحواشی دکھلاکر تشفی فرمانے کی زحمت گوارہ کرتے؛ بلکہ کتاب کے مشکل مقامات کو اہل فضل کے سامنے رکھ کر تشفی کرانے میں بھی بے نفسی کا ثبوت دیتے، اگر مدرسہ ہفتہ دو ہفتہ کے لیے بند ہوجاتا تو پندرہ بیس طلبہ کو اپنے مکان لے جاتے اور سب کے ناشتے کھانے کے خود کفیل ہوکرمکانہی پر درس میں مشغول ہوتے۔“ (محاسن سجاد، ص۲۲)

جواب میں برجستگی

            حضرت مولانا کو علمی بحث میں مضمون کا بڑا استحضار رہتا تھا، گفتگو میں سامنے والے کو الزامی جواب دے کر خاموش کردینا ان کے لیے چٹکی کا کھیل تھا، موصوف کے شاگرد رشید جناب مولانا محمدیوسف خان ایک واقعہ اس طرح لکھتے ہیں:

            ”ایک آریہ مناظر مولانا سے ملنے آیا اور کہنے لگا کہ مولانا اس میں تو کوئی مضائقہ نہیں کہ مسلمان گائے کی قربانی ترک کردیں اور ہنود مسلمانوں کو بکرا دے کر قربانی کا انتظام کردیں، مولانا نے فوراً برجستہ فرمایاکہ میاں! ہم لوگوں کو جانور کے بالوں کی تعداد کے مطابق ثواب ملتا ہے، اتنا بال اور جانور میں کہاں؟ وہ لاجواب ہوگیا اور کچھ دیر خاموش ہوکر رخصت کی اجازت چاہی اور چلاگیا۔“ (محاسن سجاد، ص۳۲)

جمعرات کو تقریر ومناظرہ کی تربیت

            حضرت ابوالمحاسن کا زمانہ مناظروں کا تھا، پورے ملک میں عیسائی اسلام کو چیلنج کرتے تھے؛ اس لیے طلبہ کو کتاب کے علم کے ساتھ ہی مناظرہ بھی سکھایا جاتا تھا، جگہ جگہ اسلام کی حقانیت کی دلیل بیان کرنے کے لیے تقریر کی مشق کی ضرورت تھی، حضرت مولانا محمدقاسم نانوتوی اور ان سے پہلے حضرت مولانا رحمت اللہ کیرانوی اور ڈاکٹر وزیرخان کے مناظرے مشہور ہیں؛ غرض یہ کہ حضرت مولانا خطابت کے ساتھ مناظرے کی تربیت بھی دیتے تھے، اس کے لیے جمعرات کا دن متعین تھا، مولانا محمدیوسف خان لکھتے ہیں:

            ”مولانا طلبہ کو بلاناغہ ہر پنج شنبہ کے روز تقریر ومناظرہ کی تعلیم دیا کرتے تھے۔“ (محاسن سجاد، ص۳۱)

تدریس کی قبولیت عامہ

            زبان میں لکنت کے باوجود حضرت ابوالمحاسن کی تدریس کے اسلوب کی مقبولیت عام تھی، دور دور سے طلبہ مولانا کے پاس آتے اور علوم وفنون کی تشنگی دور کرتے، مولانا کے عاشق زار شاگرد رشید جناب مولانا محمدیوسف خان جن کو نازتھا کہ انھوں نے ساری کتابیں مولانا سے ہی پڑھی ہیں، لکھتے ہیں:

            ”(الہ آباد میں) ایک رئیس زادہ مولانا سے ریاضی پڑھنے آتا تھا، وہ سارے ہندوستان کی خاک چھان چکا تھا؛ لیکن کہیں اس کی تشفی نہیں ہوئی، آخر میں وہ مولانا کے طرزتعلیم پر فریفتہ ہوگیا اور باوجود رئیس زادہ ہونے کے برابر مولانا ہی کی خدمت میں قیام گاہ پر (جاکر) تعلیم حاصل کرتا تھا اور اس کے والدین مولانا کو پچیس روپے دیا کرتے تھے، مولانا علیہ الرحمہ اس سے روپے لے کر طلبہ کی ذات میں کل کا کل خرچ کردیا کرتے تھے اور اپنے لیے ایک پیسہ بھی نہیں رکھتے تھے۔“ (محاسن سجاد، ص۳۲)

طلبہ کے امتحانات سے حضرت ابوالمحاسن کی کامیاب تدریس کا اندازہ

            درخت اپنے پھل سے، استاذ اپنے شاگرد سے پہچانا جاتا ہے، حضرت ابوالمحاسن کی شب وروز کی محنت اور مادرعلمی کے لیے جانفشانی نے طلبہ کے اندر حیرت انگیز استعداد پیدا کردی، سارے طلبہ کو ساری کتابیں نوک زبان رہتی تھیں، اس کا اندازہ سالانہ امتحان میں طلبہ کے شاندار مظاہرے سے کیا جاسکتا ہے، اس مضمون کو مولانا محمداصغرحسین نے اس طرح بیان کیا ہے:

            ”ممتحن اور طلبہ کے گرداگرد دوسرے حضرات اہل علم امتحان کی کیفیت کا تماشہ کرنے کو بیٹھ جاتے تو اس وقت کی تعلیمی نمائش کا قابل دید منظر ہوتا تھا، مولانا محمداحسن استھانوی․․․ امتحان کے لیے تشریف لائے اور میرزاہد رسالہ مع حاشیہ غلام یحییٰ بہاری کے امتحان کے سلسلہ میں؛ میں (مولانا محمداصغر) اور مولانا عبدالرحمن جون پوری پیش کیے گئے تو انھوں نے فرمایا کہ آج ایک عجیب منظر دیکھنے میں آرہا ہے کہ بہار شریف میں ان کتابوں کے پڑھنے والے طلبہ موجود ہیں، پھر جو انھوں نے اپنی منطقیانہ شان سے امتحان لینے کے دوران سوالات شروع کیے اور ہم دونوں جوابات دینے لگے تو اس دن کے اس منظر کی لذت آج بھی اہل علم بزرگوں کے کام ودہن میں باقی ہے۔“

            آگے لکھتے ہیں:

            ”مولانا سید شاہ اسماعیل“ (مدرس فقہ مدرسہ عالیہ کلکتہ) سے جب ملنے کا اتفاق کا ہوتا تو اس امتحانی مظاہرہ کا تذکرہ مزہ لے کر فرمایا کرتے تھے۔“

            حضرت ابوالمحاسن کی محنت کانتیجہ تھا کہ جس مدرسہ میں بڑی مشکل سے متوسطات تک کے طلبہ ٹھہرپاتے تھے، وہاں تعلیمی ترقی اتنی ہوئی کہ وہاں سے طلبہ فضیلت کی سند بھی حاصل کرنے لگے۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے: محاسن سجاد، ص۲۰-۲۱)

چند باکمال شاگردان

            حضرت ابوالمحاسن کے شاگردوں کی بہت بڑی تعداد ہے؛ مگر افسوس اس بات پر ہے کہ اس کی تفصیل سوانح نگاروں نے بیان نہیں کی ہے، اگر زندگی میں یا وفات کے بعد فوراً منظم طور پرسوانحی تحریریں تیار کی جاتیں تو اس کی فہرست بھی ملتی، ہمارے لیے ان میں رہنمائی ہوتی، بہرکیف! جن شاگردوں کا تذکرہ بعض خاکہ نگاروں نے کیا ہے، وہ درج ذیل ہیں:

            ۱-         حضرت مولانا عبدالصمدرحمانیؒ امیر شریعت امارتِ شریعہ پٹنہ

            ۲-        حضرت مولانا عبدالحکیمؒ اوگانوی مہتمم مدرسہ انوارالعلوم ، گیا

            ۳-        حضرت مولانا محمداصغرحسینؒ نائب پرنسپل مدرسہ شمس الہدیٰ پٹنہ

            ۴-        حضرت مولانا عبدالرحمن جون پوریؒ

            ۵-        حضرت مولانا محمد شرافت کریمؒ

            ۶-        حضرت مولانا محمدیعقوب گیاویؒ

            ۷-        حضرت مولانا فرخند علی سہسرامیؒ

            ۸-        حضرت مولانا محمدیوسف خان بن مولانا الٰہی بخش خانؒ بہار شریف

            ۹-        حضرت مولانا احمداللہ آبگلویؒ محقق دائرة المعارف حیدرآباد، دکن

انقلابی تعلیمی نظریہ

            حضرت ابوالمحاسن کی علمی گہرائی، گیرائی، سیاسی سوج بوجھ، ملی اور تصنیفی خدمات سے اکثر اہل علم واقف ہیں؛ مگر بہت کم لوگوں کو ان کے انقلابی تعلیمی نظریہ کی واقفیت ہے، غیرمسلم اکثری ملک میں امارتِ شرعیہ اور جمعیة علمائے ہند کے ذریعے ہندی مسلمانوں کو اسلام اور شعائر اسلام کے بقا و تحفظ کی نعمت نصیب ہوئی ہے، یہ انھیں دور رس نگاہ والے بزرگان کی بے لوث جدوجہد کی وجہ سے ہے، غرض یہ کہ حضرت ابوالمحاسن کے انقلابی افکار میں سے ان کا تعلیمی نظریہ بڑی اہمیت کا حامل تھا، کاش! اس کی عملی تنفیذ کا موقع نصیب ہوجاتا، تو آج ہندوستان کے مدارس اسلامیہ کی یہ درگت نہ بنتی جو دیکھنے کو مل رہی ہیں، اس زمانے میں مدارس کا تعلیمی معیار آج سے کہیں اونچا تھا پھر بھی حضرت ابوالمحاسن بے چین تھے، وہ یہ چاہتے تھے:

            ۱-         تمام مدارس کے لیے ایک مرکز بنایا جائے

            ۲-        نصاب کو مزید مضبوط، مفید اور بہتر بنایا جائے

            ۳-        سارے مدارس کا نصاب ایک رہے

            ۴-        ہر قابل اعتناء مدرسہ کے ذمہ ایک مخصوص فن دیا جائے، جس کی تکمیل وہاں ہو، ابتدا ہی سے وہاں کے ہردرجہ میں اس کا لحاظ رکھا جائے، مثلاً کسی مدرسہ میں تفسیر کا اختصاص ہو،تو کسی میں حدیث کا؛ تو کسی میں فقہ اسلامی وغیرہ کا۔

            ۵-        امتحانات کے لیے تمام مدارس کے لائق علماء کی ایک مجلس ممتحنہ ہو جو سوالات مرتب کرے اور نتائج شائع کرے۔

            اسی خاکے میں رنگ بھرنے کے لیے حضرت ابوالمحاسن نے الہ آباد چھوڑا اور انوارالعلوم گیا کی بنیاد رکھی اور وہیں سے اس تحریک کی ابتداء کی؛ مگر وسائل کی کمی کی وجہ سے مشکلات پیش آئے اور یہ خواب شرمندئہ تعبیر نہ ہوسکا۔

خلاصہ

            حضرت ابوالمحاسن سجاد ہندوستان کی انقلابی شخصیات میں سے ہیں، ان کی زندگی میں بہت سی خوبیاں جمع تھیں، سارے علومِ شرعیہ میں قابلِ رشک مہارت حاصل تھی، مدرسہ سبحانیہ الہ آباد، مدرسہ اسلامیہ بہارشریف اور مدرسہ انوارالعلوم گیا کے ذریعے اپنے فیوض پھیلائے، تدریس کا انداز نرالا تھا جس سے اپنے ہم عصروں میں ممتاز تھے، مناظرے میں برجستہ جواب سے مقابل کو خاموش کردیتے تھے، اسلامی تعلیم کے سلسلے میں نہایت ہی معتدل انقلابی نظریہ رکھتے تھے، موصوف کی ظاہری شکل و صورت کو دیکھ کر کوئی متاثر نہ ہوتا تھا؛ لیکن گفتگو کے بعد مرعوب اور گرویدہ ہوجاتا تھا، زبان میں لکنت کے باوجود تقریر ایسی کرتے کہ اہل علم سامعین صدائے آفریں بلند کیے بغیر نہ رہتے، موصوف کی بے لوث تعلیمی، تدریسی، تصنیفی اور ملّی خدمات تاریخ ہند کے صفحات پر آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہیں۔ اگر موصوف کے انقلابی تعلیمی نظریہ پر اچھی طرح عمل ہوتا تو آج مدارسِ اسلامیہ کی زبوں حالی دیکھنے کو نہ ملتی۔

————————————————–

دارالعلوم ‏، شمارہ1۔2،  جلد: 106 ‏، جمادی الثانی۔رجب المرجب 1443ھ مطابق جنوری۔فروری 2022ء

٭        ٭        ٭

Related Posts