کتاب الفقہ علی المذاہب الأربعة
تجزیاتی مطالعہ
از: مفتی محمد خالد حسین نیموی قاسمی
رکن الاتحاد العالمی لعلماء المسلمین ،دوحہ قطر
فقہ اسلامی کی ہمہ گیری
شریعت اسلامیہ، انسانیت کی فلاح ونجات کے لیے دائمی وابدی قانون ہے۔ اس قانون کا اولین مصدر ومنبع، اللہ کی کتاب قرآن کریم، حضرت رسول اللہ…کی سنت اور اجماع امت ہے؛جب کہ ثانوی مصدر وماخذ قیاس واجتہاد ہے۔اس قانون کو فقہاء ِ امت نے مرتب ومدون شکل میں امت کے سامنے پیش کیا۔ انھوں نے کتاب اللہ وسنت رسول اللہ کے منصوص احکام میں اجتہاد کرکے غیر منصوص مسائل کے لیے اصول وکلیات وضع کیے۔اس اجتہادی عمل میں اختلاف کی بھی گنجائش تھی؛ چنانچہ عہدِ صحابہ رضی اللہ عنہم سے ہی امت میں فروعی مسائل میں اختلافات پیدا ہوئے۔ یہ اختلافات اسلام کے توسع کی علامت اور باعث ِرحمت تھے۔ فقہاء کرام کے ذریعہ مختلف علاقوں میں ان کے اجتہادات ونظریات اور استخراج مسائل کے طریقے پہنچے؛چوں کہ نصوص محدود اور مسائل لامحدود ہیں؛لہٰذا نصوص میں اجتہادکا عمل صحابہ کے علاوہ تابعین، تبع تابعین اوربعدکے زمانہ میں بھی تسلسل کے ساتھ جاری رہا۔
چار مسالک فقہیہ پر اتفاق
خلافت بنو امیہ اور خلافت بنو عباسیہ کے زمانے میں جب اسلام کا پرچم ایشیاء کے دور دراز خطوں اور افریقہ ویورپ کے علاقوں میں بھی لہرانے لگا اور نت نئے مسائل امت کو درپیش ہوئے،، تو ان فقہاء ومجتہدین نے شریعت کی روشنی میں اجتہاد سے ان مسائل کا کامیاب حل پیش کیا۔ابتداء میں ہر علاقے کے لوگ اس علاقے کے مجتہدین کی آراء کی پیروی کرتے تھے؛لیکن مختلف اسباب کے تحت من جانب اللہ جتنی مقبولیت چار دبستان فقہ:حنفیہ،مالکیہ،شافعیہ،حنبلیہ کے حصے میں آئی،اتنی کسی اور کے حصہ میں نہیں آئی۔یہاں تک کہ چوتھی صدی آتے آتے امت عملی طور پر چار فقہی مکاتب فکر پر متفق ہوگئی۔(حجة اللہ البالغہ)
فقہ اسلامی کی تدوین
فقہ کی تدوین کے سلسلہ میں حضرت سیدنا علی مرتضیٰ اور حضرت عبد اللہ بن مسعود کے سلسلے کے تلامذہ بالخصوص حضرت امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب کے کارہائے نمایاں تاریخ کے زریں ابواب ہیں۔ اسی طرح امام مالک بن انس،امام محمد بن ادریس شافعی اور امام احمد بن حنبل کا بھی تدوین شریعت کے باب میں اہم ترین رول رہا ہے۔شروع میں ائمہ اربعہ کے ساتھ دیگر ائمہ مجتہدین کی آراء اور ان کے نقاط نظر کو بھی پیش کرنے، ان کے اقوال ذکر کرنے اوران کے دلائل تحریر کرنے کا رواج عام تھا۔اسی لیے دیکھتے ہیں کہ امام ترمذی ائمہ اربعہ کے اقوال کے ساتھ امام ابو ثور،امام سفیان ثوری،امام اوزاعی،امام اسحاق بن راہویہ،امام داود ظاہری،امام لیث بن سعدمصری،ابن ابی لیلیٰ، عبداللہ بن مبارک رحمہم اللہ کے اقوال کو بھی نقل کرتے ہیں۔ اسی طرح امام طحاوی نے شر ح معانی الآثار میں،علامہ سرخسی نے المبسوط میں، علامہ ابن رشدنے بدایة المجتہد میں، ابن قدامہ نے المغنی میں، ابو اسحاق شیرازی نے المہذب اور علامہ نووی نے المجموع شر ح المہذب میں نقلِ مذاہب کاکافی اہتمام کیا ہے۔
محدثینِ فقہاء نے شروحِ حدیث میں ائمہ اربعہ کے ساتھ دیگر فقہاء کی آراء کو بکثرت نقل کیاہے؛ لیکن بعد میں ائمہ اربعہ کے علاوہ دیگر مجتہدین کی آراء کا ذکر متروک ہوگیا۔اس کے برعکس ائمہ اربعہ کے اقوال کو تمام تفصیلات کے ساتھ نقل کرنے کا فقہاء نے زبردست اہتمام کیا۔ علامہ مرغینانی نے ہدایہ میں، علامہ کاسانی نے بدائع الصنائع میں،علامہ ابوبکر جصاص رازی نے احکام القرآن میں ائمہ اربعہ کے اقوال کو دلائل کے ساتھ نقل کیا ہے اور فقہ حنفی کی آراء کو مدلل کرنے اور ترجیح دینے کا بھی اہتمام کیا ہے۔عام طور پر مصنّفین جس فقیہ اور مجتہد کے مقلد ہواکرتے تھے ؛انھیں کے اقوال کو ترجیح دیاکرتے تھے۔عام طور پر فقہاء کے نزدیک اسی کا چلن رہا ہے۔ ماضی قریب میں نیل الاوطار کی شکل میں علامہ شوکانی نے اچھی کاوش امت کے سامنے پیش کی۔ ماضی میں ایسی کوششیں بھی ہوئی ہیں جن میں صرف دلائل کے ساتھ ائمہ اربعہ کے مذاہب کے نقل کا اہتمام کیا گیا۔ترجیح اور وجوہ ترجیح کو ذکر نہیں کیا گیا۔
فقہ مقارن کا رجحان
البتہ ماضی قریب میں ایک مختلف رجحان پیدا ہوا، جسے (فقہ مقارن)کا رجحان کہا جا تا ہے۔ جس میں ائمہ اربعہ ودیگر ائمہ کے اقوال کو مع دلائل ذکر کیا جاتا ہے؛ لیکن مصنف کسی ایک مجتہد کی تقلید نہیں کرتے؛ بلکہ اپنی تحقیق کے مطابق ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک بلکہ بسا اوقات بعض دیگر ائمہ کے اقوال کو بھی ترجیح دیتے ہیں؛جب کہ اس رجحان کی خطرناکیوں سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے؛ البتہ ائمہ اربعہ کے اجتہاد کے دائرہ میں رہتے ہوئے اگر نئے پیش آمدہ مسائل کے حل کے لیے حالات کی ضرورت کے مطابق ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک کے قول کو اختیار کیا جائے، تو اس کی گنجائش نکل سکتی ہے۔اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے فقہ ِائمہ اربعہ کے موضوع پر کئی کتابیں ماضی اور حال میں تصنیف کی گئی ہیں۔
کتاب الفقہ علی المذاہب الاربعہ کی تصنیف
ائمہ اربعہ کی فقہ پر تصنیف کی جانے والی کتابوں میں سب سے زیادہ مشہور نامور عالم دین معروف مصری مصنف عبد الرحمن الجزیری کی کتاب ”کتاب الفقہ علی المذاہب الاربعہ“ہے۔اس کے بعد حکومت کویت کی نگرانی میں ائمہ اربعہ کی فقہ کے سلسلہ کا سب سے بڑا اور جامع کام ”الموسوعة الفقہیة“ کے نام سے ۵۴ جلدوں میں انجام پایاہے۔اس سے قبل ائمہ اربعہ کے ساتھ دیگرائمہ مجتہدین کی فقہ پر مشتمل موسوعہ تیار کرنے کا کام حکومت مصر کی نگرانی میں شروع ہوا تھا؛ لیکن یہ سلسلہ پایہٴ تکمیل تک نہیں پہنچ سکا۔بہر حال (کتاب الفقہ عل المذاہب الاربعہ )فقہ ائمہ اربعہ پر اہم ترین کاوش ہے؛ اس کتاب کے مصنف شیخ عبدالرحمن بن محمد عوض الجزیری ہیں؛ مصنف جامعہ ازہر سے تعلق رکھنے والے ممتاز فقیہ ہیں؛ موصوف جامع ازہر کے کلیة اصول دین میں ایک عرصے تک استاد رہے۔
مصنفّ کتاب علامہ جزیزی کا تعارف
عبد الرحمن بن محمد عوض الجَزِیری (۱۲۹۹-۱۳۶۰ھ/۱۸۸۲-۱۹۴۱م)مشہور فقیہ اورممتاز ازہری علماء میں سے ہیں، مصرکے جزیرہ ”شندویل“ کے مرکز ”سواج“ میں ۱۲۹۹ھ/۱۸۸۲ء، میں ولادت ہوئی۔ تعلیم جامع ازہر میں ہوئی؛چوں کہ شروع سے ہی فقہی ذوق کے حامل تھے۔خاص طور پر امام ابوحنیفہ کی فقہ کی طرف کافی رجحان تھا؛ اس لیے انھیں امام اعظم ابو حنیفہ کے مسلک اور اس مسلک کی کتابوں سے خاص شغف رہا اور اسی مسلک کی کتابوں کو اپنی تحقیق کا موضوع بنایا۔ سن ۱۳۱۳ھ سے ۱۳۲۶ھ، تک آپ کا خاص فقہی ذوق پروان چڑھتا رہا۔اس کے بعد جامع ازہر میں تدریس کی ذمہ داری آپ کے سپر د ہوئی۔اس ذمہ داری کو آپ نے بحسن وخوبی انجام دیا۔ سنہ ۱۳۳۰ہجری میں وزارت الاوقاف کے تحت آنے والی تمام مساجد اور ان مساجد کے ائمہ کرام کے ذمہ دار مقرر ہوئے، پھر اس شعبہ کا انھیں ذمہ دار اعلی مقرر کردیا گیا، بعد ازاں جامع ازہر کے کلیة اصول الدین میں استاذ مقرر ہوئے۔موصوف کی لیاقت، مقبولیت اور شہرت کے مدنظر حکومت نے انھیں ”ہیئت کبار العلماء“ کا رکن منتخب کیا ایک عرصے تک اس عہدے پر فائز رہے، سن ۱۳۵۹ھ/۱۹۴۱ئمیں ”حلوان“ نامی مقام پر ان کی وفات ہوئی۔
اہم ترین کارنامہ
ان کا اہم ترین کارنامہ ”کتاب الفقہ علی المذاہب الاربعة“کی تصنیف ہے۔اس کا وہ حصہ جو عبادات سے متعلق ہے، اسے جامع ازہر کے علماء کی ایک انجمن نے مصری وزارت اوقاف کی نگرانی میں تیار کیا ہے؛ جب کہ علامہ جزیزی اس علمی فقہی لجنہ کے اہم ترین ذمہ دار تھے، پھر اس کتاب کی ترتیب، تہذیب اور تنقیح کا ذمہ دار آپ کو ہی بنادیا گیا۔بعد ازاں انھوں نے اس لجنہ کے قائم کردہ نقوش کے مطابق دیگر ابواب کی تکمیل کی اوران میں دیگر مباحث کااضافہ بھی کیا، کہا جاسکتا ہے کہ وزارت اوقاف کی نگرانی میں شائع ہونے والی کتاب نقش اول تھی جب کہ علامہ جزیری کی یہ کتاب نقش ثانی اوراس سلسلہ کی توسیع ہے،اسے کتا بِ سابق کا جدید ایڈیشن بھی کہا جاسکتا ہے۔
کتاب کے مشمولات
جزء اول:عبادات پر مشتمل ہے ؛جب کہ جز ء ثانی:معاملات پر،جزء ثالث:تتمة المعاملات پر جزء رابع:نکاح وطلاق اورجزء خامس:حدودوغیرہ پر مشتمل ہے ؛ کتاب الفقہ علی المذاہب الاربعہ گوناگوں خوبیوں کی حامل ہے؛ البتہ اس میں یہ کمی رہ گئی ہے کہ کتاب الوقف اور کتاب القضاء وغیرہ کے مباحث اس میں شامل نہیں ہیں۔خود علامہ جزیری کو ان ابواب کی تکمیل کا موقع نہیں ملا۔ بعد میں بعض اہم مباحث کا اضافہ تو ہوا؛ لیکن پوری طرح اس کی تکمیل نہ ہو۔
کتاب کی تصنیف کا پس منظر
کتاب الفقہ علی المذاہب الاربعة کی تالیف وزارت الاوقاف مصر کی تحریک اور اس کی دلچسپی سے عمل میں آئی۔اس وقت کے مصر کے بادشاہ ملک ”فوٴاداول“ کی خواہش تھی کہ ایک ایسی کتاب مرتب کی جائے جس میں ائمہ اربعہ کی فقہ کو تمام تفصیلات اور جزئیات کے ساتھ یکجا کردیا جائے؛تاکہ عام علماء وائمہ مساجد کے لیے ان مسائل تک رسائی آسان ہوجائے اور مساجد میں جو حلقہائے درس قائم ہیں؛ ان حلقوں میں اس کتاب کی تدریس ہوسکے۔اس سے قبل ملک فوٴاد کی حکومت کی طرف سے ایک مصحف شریف کی طباعت کا بھی انتظام کیا گیا تھا۔مصاحف کے رسم الخط سے واقف کار علماء وماہرین کا خیال ہے کہ ملک فوٴاد کا شائع کردہ مصحف وہ پہلا مصحف ہے؛ جس میں دقت نظر کے ساتھ رموز واوقاف اور رسم الخط کی درستگی کا اہتمام کیا گیا۔بعد میں جتنے بھی مصاحف زیور طبع سے آراستہ ہوئے اس میں اسی اسلوب کی نقالی کی گئی اور ملک فوٴاد کے مقرر کردہ انھیں اصولوں کو برتا گیا۔
ملک فواد کی خواہش پر وزارت اوقاف نے ”الفقہ علی المذاہب الاربعة“ کے زیر عنوان جس کتاب کی طباعت کا اہتمام کیا۔اس میں صرف عبادات کا حصہ شامل تھا۔ان کے خُطّہ میں تمام ابواب کی تکمیل کا منصوبہ شامل نہیں تھا؛بلکہ ان کی خواہش یہ تھی کہ اس کے بعد دو کتابیں اور منظر عام پر آئیں۔ ایک کا تعلق عقائد سے ہو اور دوسرے کا تعلق اخلاق وآداب سے ہو؛لیکن ایسا نہ ہوسکا۔اس طور پر فتاوی عالم گیریہ اور مجلة الاحکام العدلیہ کے بعد کتاب الفقہ علی المذاہب الاربعہ تیسری ایسی کتاب بن گئی جس کی شروعات حکومت کی تحریک پر ہوئی۔
کتاب کی مختلف اشاعتیں
کتاب کی پہلی طباعت (حصہ عبادت )کا سہرا شیخ الازھر اور چاروں فقہی دبستان فکر سے تعلق رکھنے والے جامعہ ازھر کے مشائخ وعلماء پر مشتمل اکیڈمی کے سر بندھتا ہے۔
ا س علمی فقہی کیڈمی کے اراکین مندرجہ ذیل علماء ومشائخ تھے:علماء حنفیہ میں سے:عبد الرحمن الجزیری، اورمحمود الببلاوی،علماء مالکیہ میں سے محمد السمالوطی، اورمحمد عبد الفتاح العنانی،علماء شافعیہ میں سے:محمد الباجی اورعلماء حنابلہ میں سے:محمد سبیع الذبی، اورابو طالب حسنین مستقلا شریک رہے۔بعد میں اس کتاب کی تکمیل وتہذیب کی مکمل ذمہ دارعبد الرحمن الجزیری کے سپرد کردی گئی۔
اس کتاب کی پہلی طباعت سن ۱۳۴۸ھ مطابق ۱۹۲۸عیسوی میں عمل میں آئی۔پہلی اشاعت میں چار ہزار نسخے شائع ہوئے۔
دوسری اشاعت سے قبل بڑے پیمانے پر اس کتاب میں تصحیح، تہذیب اور تنقیح کی ضرورت محسوس کی گئی۔اس امر کی ذمہ داری جس اکیڈمی کے سپر کی گئی ؛اس کے ارکان مندرجہ ذیل حضرات تھے۔ علماء حنفیہ میں سے عبد الرحمن الجزیری،علماء مالکیہ میں سے عبد الجلیل عیسیٰ،علماء شافعیہ میں سے: محمد الباجی، ومحمد إبراہیم شور،اورعلماء حنابلہ میں سے:محمد سبیع الذبی۔یہ حضرات اس کار عظیم میں مستقل طور پر شریک رہے۔پھر تہذیب وتنقیح اورعبارتوں کو سہل کرنے کی ذمہ داری عبد الرحمن الجزیری کے سپرد کی گئی۔اسی موقع پر مندرجہ ذیل ابواب کا کتاب میں اضافہ بھی کیا گیا: (۱)ابواب الاضحیہ والذبائح، (۲) ما یحل ویحرم من الطعام والشراب واللباس۔
اس اشاعت میں علماء ومشائخ کے تبصرے اور تنقیدات کی روشنی میں خاص طور پر تہذیب وتنقیح کا کام کیا گیا۔اس سلسلے میں جو سب سے اہم تبصرہ تھا ؛وہ شیخ عبد اللہ دراز مالکی کا تبصرہ تھا۔اس سے استفادہ کیا گیا اور مالکیہ کے نقطئہ نظر کو بہتر طور پر پیش کیا گیا۔
دوسری طباعت سن ۱۳۴۹ھ مطابق ۱۹۳۱ عیسوی میں عمل میں آئی،اس مرتبہ نسخوں کی تعداد دس ہزار تھی۔
تیسری اشاعت میں جس کمیٹی نے اہم رول ادا کیا اور اس اشاعت کو ممتاز بنانے کی کوشش کی ان میں مندرجہ ذیل حضرات شامل تھے۔
علماء حنفیہ میں سے:محمود ابو دقیق، اورعبد الرحمن الجزیری،علماء مالکیہ میں سے:محمد حبیب اللہ الشنقیطی اورمحمد سلام،علماء شافعیہ میں سے:إبراہیم الجبالی اورحامد جادشریک رہے۔
تیسری اشاعت سن ۱۳۵۵ھ مطابق ۱۹۳۶ء، میں عمل میں آئی اس مرتبہ نسخوں کی تعداد بارہ ہزارتھی۔
چوتھی اور پانچویں اشاعت
چوتھی اشاعت سن ۱۳۵۸ھ مطابق ۱۹۳۹ئمیں عمل میں آئی۔اس بار بیس ہزار نسخے شائع ہوئے۔ اس اشاعت میں اس کتاب کی مکمل طور پر نسبت عبد الرحمن الجزیری کی طرف ہوگئی؛جب کہ ان کا نام پہلی دوسری اور تیسری اشاعت میں لجنہ کے رکن کے طور پر تھا؛جب کہ پا نچویں اشاعت سن ۱۳۶۹ھ مطابق ۱۹۵۰ء، میں مطبع دار الکتاب العربی سے عمل میں آئی۔
خلاصہ یہ ہے کہ کتاب الفقہ علی المذاہب الاربعہ للجزیری در حقیقت سلسلہ اول کی توسیع ہے۔اس سلسلہ کی پہلی جلد جو وزارت اوقاف کی طرف سے شائع ہوئی تھی،اس کی تعدیل اور اضافات کثیرہ پر مشتمل ہے۔اس میں علامہ جزیری نے دلائل کا اضافہ بھی کیا ہے،حکمت تشریع کا جا بجا ذکر فرمایا اس کی اشاعت سن ۱۹۳۹ء، میں عمل میں آئی۔اس کے بعد دوسری تیسری اور چوتھی جلد میں دیگر ابواب فقہیہ کا اضافہ فرمایا؛لیکن تکمیل سے پہلے ہی راہی ملک بقا ہوگئے۔
الفقہ علی المذاہب الاربعہ کا تکملہ
علامہ جزیزی کی وفات کے بعد باقی ماندہ کام کس طور پر انجام پایا۔اس سلسلہ میں اس کتاب کے ناشر نے ان امور کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے:
الفقہ علی المذاھب الاربعہ کی چوتھی جلد کے اختتام پر عالم جلیل شیخ عبد الرحمن الجزیری نے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ قارئین کی خدمت میں جلد ہی پانچویں جلد پیش کریں گے اور اس کی شروعات کتاب الحدودسے ہوگی؛لیکن میعاد اجل نے انھیں مہلت نہ دی اور مسودہ کتاب کو مطبع کے حوالہ کرنے سے قبل ہی وہ اللہ کی بار گاہ میں پہنچ گئے۔مکتبہ تجاریہ کبری نے ان کی وفات کے بعدان کے اہل خانہ سے پانچویں جلد کے لیے کتاب الحدود کا جو کچھ مسودہ کی شکل میں مصنف نے تحریر فرمایا تھا؛ اسے حاصل کیا۔ مسودہ سے اندازہ ہواکہ مصنف نے کتاب الحدود کوتقریبا مکمل کرلیا تھا۔صرف ترتیب وتنسیق اور حواشی کی ضرورت باقی رہ گئی تھی؛ باقی ماندہ کاموں کی ذمہ داری فقہ مذاہب کے متبحر عالم شیخ علی حسن عریضی کے سپرد کی گئی۔ جوعلماء ازہرمیں ممتاز مقام کے حامل ہیں؛چنانچہ انھوں نے مصنف کے منہج اور اسلوب کے مطابق اس کام کو بہترطورپر انجام دیا۔اصل کتاب میں جن مقامات پر حواشی اور تعلیقات کی ضرورت تھی اس کی بھی تکمیل کی اور پورے مرحلہ میں طباعت تک مکمل نگرانی کا فریضہ انجام دیتے رہے۔یہاں تک کہ کتاب الحدودکی اشاعت بہترطورپر۱۹۳۱ء میں عمل میں آئی۔
مختلف مشہورومعروف مطابع سے اشاعت
علامہ جزیزی کی شہرہ آفاق کتاب ”کتاب الفقہ علی المذاہب الاربعة “عالم عرب کے تمام مشہور مطابع سے شائع ہوئی ہے۔خاص طور پر مصر، دمشق؛ سعودیہ عربیہ؛ بیروت وغیرہ سے اس کی اشاعت عمل میں آئی۔ تاہنوز آب وتاب کے ساتھ یہ سلسلہ جاری ہے۔میری طالب علمی کے زمانے انیس سو بانوے سے لے کر انیس سو چھیانوے تک یہ کتاب عام طور پر استنبول ترکی سے وقف اخلاص کے ذریعے حاصل کی جاتی تھی،جو قدیم ٹائپنگ کتابت کے ساتھ چار جلدوں میں طبع ہوئی تھی۔ الحمدللہ کمپیوٹر کتابت کے ساتھ پانچ ضخیم جلدوں میں اس کی اشاعت دارالقدس قاھرہ مصر سے عمل میں آئی ہے اور پانچ جلدوں میں سے ہر ایک اوسطاً پانچ سو صفحات پر مشتمل ہیں۔مجموعی طور پر تقریباً ڈھائی ہزار صفحات بنتے ہیں۔
اس کی پہلی جلد شروع ہوتی ہے کتاب الطہارہ سے۔جب کہ پہلی جلد کا اختتام ہوتا ہے اضحیہ اور قربانی کے مباحث پر۔یہ جلد کل چھ سو ستر صفحات پر مشتمل ہے۔
کتاب کا اردو ترجمہ
اردو داں طبقہ کے لیے باعث مسرت ہے کہ اس کتاب کا ترجمہ جناب مولانا منظور احسن عباسی صاحب نے کیا ہے اور یہ ترجمہ شاندار کمپیوٹر کتابت کے ساتھ اصل عربی متن کے ساتھ پڑوسی ملک کے موقر ادارے علماء اکیڈمی،شعبہ مطبوعات محکمہ اوقاف پنجاب کی طرف سے سن ۲۰۰۶ء میں شائع ہوچکا ہے۔
کتاب کی تصنیف سے مصنف کے مقاصد
اس کتاب کی تصنیف سے مصنف کا مطمح نظر کیا تھا نیز اس انداز کی کتاب لکھنے کی مصنف کو کیا ضرورت پڑی؟ مقدمہ کتاب میں اپنے مقصد کو بیان کرتے ہوئے مصنف تحریر فرماتے ہیں:
ان أصل وضع الکتاب کان الغرض منہ تسہیل مواضیع الفقہ الاسلامی علی ائمة المساجد العلماء وھولاء علیہم أن یوضحوا ما یقف فی سبیلہم من مجمل أو مبھم․
گویا مصنف نے یہ کتاب مساجد کے علماء اور ائمہ کے لیے فقہ اسلامی کو آسان بنانے اور اس کی تفصیلات سے انھیں واقف کرانے کے لیے تصنیف کی؛جب یہ کتاب منظر عام پر آئی تو ہاتھوں ہاتھ لی گئی۔علماء وباحثین کے مشورہ کے مطابق انھوں نے آئندہ ایڈیشنوں میں کا فی کچھ اصلاح کی ہے۔ ان اصلاحات کی وضاحت کرتے ہوئے مصنف لکھتے ہیں:
أولا: ان اجعل لکل مسائل عناوین خاصة بھا، کی یسہل علی کل واحد أن یرجع الی المسالة التی یریدھا بالنظر الی محتویات الکتاب (الفھرست) بخلاف الکتاب الاول فان مسائلہ کانت مخلوطة فلا یسھل علی الناس الوقوف علی اغراضھم منھا․
پہلی بات یہ ہے کہ میں نے ہر مسئلہ کے لیے خاص عنوان مقرر کیا ہے تاکہ ہر وہ شخص جو کسی مسئلہ کی جستجو میں ہو محض فہرست دیکھ کر اس کے لیے اپنے مطلوبہ مسئلہ تک رسائی آسان ہوجائے۔
ثانیًا: رأیت من الضروری أن انص فیہ علی الصحیفة علی المذھبین المتفقین حتی یتحرر ھذان المذھبان علی وجہ لا یحتمل الخطا وھذہ الطریقة یتبین منھا خطا الطریقة الأولی فی کثیر من أبواب الکتاب کما ھو الحال فی کتاب الصلاة ومباحث القبلة ومباحث الحیض ومباحث الجبیرة وغیرھا مما لا استطیع النص علیہ لضیق المقام، وما علی القاری الا أن یرجع الی الکتاب لیعلم مافیہ من صواب واضح․
ثالثا قد رجعت الی کتب الفقہ فی کثیر من مواضیع الکتاب المذکورة فی اسفل الصحیفة وھی فی الغالب ذکر السنن والفرائض بطریق الاجمال․
دوسری بات یہ ہے کہ میں نے یہ لازمی خیال کیا کہ جس رائے پر اتفاق بین المذاہب ہے؛ اسے سب سے پہلے متن میں ذکر کروں؛تاکہ یہ مسلک نمایاں اور واضح ہوجائے اور اس میں غلطی کا کوئی امکان باقی نہ رہے؛جب کہ سابقہ اشاعت میں یہ معاملہ نہیں تھا۔جیساکہ بہت سے ابواب مثلا کتاب الصلاة،مباحث قبلہ،مباحث حیض،مباحث مسح جبیرہ،وغیرہ میں اس کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔
تیسری بات یہ ہے کہ میں نے کتاب کی سابقہ اشاعت کے بہت سے مقامات میں جو مسائل کتاب کے حاشیہ میں درج تھے،ان کی تحقیق کے لیے بہت زیادہ کتب فقہ کی طرف رجوع کیااور جو کچھ بھی اجمال یا غلطیاں محسوس ہوئیں انھیں درست اور واضح کرکے میں نے اس کتاب میں بیان کیا۔
رابعًا رأیت من الضروری أن أبالغ فی الایضاح حتی یتیسر لکل من نظر فی ھذا أن یظفر بغرضہ بسہولة وقد اعتنیت عنایة خاصة بمسائل: کتاب الحج والصیام لیسہل علی الناس فہمھا بدون عناء کبیر․
خامسا ذکرت کثیرا من حکمة التشریع فی کل موضع امکننی فیہ ذلک وکنت أود أن أکتب حکمة التشریع لکل مباحث الکتاب․ ولکنی خشیت تضخمہ وذھاب الغرض المقصود منہ․
سادسا رأیت أن آتی بادلة الأئمة الأربعة من کتب السنة الصحیحة واذکروجھة نظر کل منھم وبالجملة فقد بذلت فیھذا الکتاب مجہودا کبیرا وحررتہ تحریرا تاما وفصلت مسائلہ بعناوین خاصة رتبتھا ترتیبادقیقا․
چوتھی بات یہ ہے کہ میں نے اس کتاب میں مسائل کو مکمل اور بھر پور وضاحت کے ساتھ ذکر کرنے کا اہتمام کیا؛ تاکہ اس کتاب کے مطالعہ کرنے والے ہر قاری کے لیے اپنے مقاصد تک رسائی آسان ہوجائے۔کتاب الحج اور کتاب الصوم کے مسائل کی تسہیل وتوضیح کا خاص اہتمام کیا تاکہ اس کو لوگ اچھی طرح سمجھ کر اس پر عمل کرسکیں۔
پانچویں یہ کہ میں نے اکثر مقامات پر مشروعیت کی حکمتوں کو بھی بیان کیا ہے؛تاکہ مسائل قلب میں پیوست ہونے کے ساتھ ساتھ کے ساتھ ذہن نشین بھی ہوجائیں۔نیز عقل عامہ بھی مطمئن ہوجائے۔ میری خواہش تو یہ تھی کہ ہر مسئلہ میں میں احکام شرعیہ کی حکمتوں کو لازمی طور پر بیان کروں؛ لیکن اس سے کتاب کی ضخامت دو چند ہوجاتی؛ لہٰذا میں نے اس سلسلہ کو مختصر کردیا۔
چھٹا یہ کہ میں نے ائمہ اربعہ کے مستدلات کو بھی مستند احادیث کی کتابوں سے ذکر کیا ہے اور ہرمسئلہ میں بنیادی رجحانات کی بھی نشان دہی کی ہے۔
ذکر مسلک میں مصنف کا معمول
مصنف کا معمول یہ ہے کہ سب سے پہلے متن میں ایک مسئلے کو ذکر کرتے ہیں؛ جو مسئلہ ان کے نزدیک سب سے زیادہ راجح ہوتا ہے۔مثال کے طور پر کتاب الطہارة میں مصنف نے معنی الطھارة فی اللغة کا عنوان قائم کیا ہے۔اس کے تحت آپ نے لکھا: النظافة والنزاھة عن الاقذار والاوساخ سواء کانت حسیة أو معنویة․ اس مفہوم کو انھوں نے حضرت عبد اللہ بن عباس کی اس روایت سے مدلل کیا ہے جو صحیحین میں مروی ہے کہ رسول اللہ…ایک مریض کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے اور فرمایا: لا باس طھور انشاء اللّٰہ․یہاں طہور فطور کے وزن پر ہے ؛ مطہر من الذنوب یعنی گناہوں سے پاک کرنے والے کے مفہوم میں۔یعنی رسول اللہ…نے بشارت دی کہ بیماری گناہوں کو دھل دیتی ہے،ظاہر ہے کہ گناہ تو معنوی گندگی ہے۔ آگے علامہ جزیزی نے فرمایا کہ: اما تعریف الطھارة والنجاسة فی اصطلاح الفقہاء ففیہ تفصیل المذاھب․ ان تفصیلا ت کو انھوں حاشیہ میں بیان کیا ہے۔
سب سے پہلے حنفیہ کے مسلک کو نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں: الحنفیة قالوا: الطھارة شرعا النظافة عن حدث أو خبث فقولھم النظافة یشمل ما اذا نظفھا الشخص أو نظفت وحدھا بأن سقط علیھاماء فازالہا․ اس کے بعد علامہ نے حدث اصغر اور حدث اکبر کی تفصیلا ت بیان کی ہیں۔اس ضمن میں انھوں نے حنفیہ کے نقطہ نظر پر وارد کیے جانے والے کئی اعتراضات کو بھی ذکر کیا ہے اور ان کے جوابات بھی دیئے ہیں۔ خاص طور پر انزال کی وجہ سے غسل کی فرضیت اور خروج ریح کی وجہ سے وضو کی فرضیت کے سلسلہ کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے لکھا ہے: فالذی من حقنا ھو الذی نسأل عنہ ونناقش فیہ․ والذی یختص بالالہ وحدہ نودیہ بدون مناقشة، وھذا بخلاف المعاملات أوالأحوال الشخصیة، فانھا متعلقة بحیاتنا، فلنا الحق أن نعرف حکمة کل قضیة ونناقش فی کل جزئیة․ ھذا ھو الرأی المعقول، علی أن بعض المفکرین من علماء المسلمین قال أن کل قضیة من قضایا الشریعة لھا حکمة معقولة وسر واضح عرفہ من عرفہ وخفی علی من خفی علیہ لا فرق فی ذلک بین العبادات والمعاملات․(ص۶،ج۱)
یعنی ہمارا یہ حق ہے کہ ہم معاملات ومصالح کے سلسلے میں خوب مناقشہ کریں۔ہر حکم کی حکمت کو جاننا ہمارا حق ہے؛جب کہ حقوق اللہ اور خالص عبادات کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ انھیں تو ہم جذبہ بندگی کے ساتھ حکمت ومصلحت کی جستجو کے بغیر ادا کرنے کے مکلف ہیں؛جب کہ دیگر اہل علم کا یہ کہنا ہے کہ شریعت کے تمام احکامات کی معقول حکمت اور مصالح ہیں۔یہ وہ گنج سر بستہ ہے جو ہر ایک سے نہیں کھلتا اور بہتوں کے قلب پر من جانب اللہ اس کے اسرار کھول دیے جاتے ہیں۔عبادات و معاملات میں چنداں فرق نہیں ہے۔
اس کے بعد حاشیہ میں فقہ حنفی کی تفصیلات کو ذکر کیا گیا ہے، اس کے بعد مالکیہ کے موقف کو واضح کیا گیا ہے۔اس کے بعد فقہ شافعی کے موقف کو ذکر کیا گیا ہے اور اس کے بعد پھر حنابلہ کے نقطئہ نظر کو ذکر کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں مصنف کا یہی معمول ہے کہ عام طور پر متن میں اس مسئلہ کو ذکر کرتے ہیں جو متفق علیہ ہوتا ہے ؛اس کی جزئیات میں جو اختلاف ہوتا ہے؛تو جزئیات کے اختلافات کو وہ حاشیے میں ذکر کرتے ہیں۔ تقریباً پوری کتاب میں ان کا یہی معمول ہے۔
جیساکہ پہلے بھی یہ بات آچکی ہے کہ اس کتاب کے عبادات کا حصہ درحقیقت وزارت اوقاف کے تحت مقرر کردہ علماء ومشائخ کے ایک لجنہ کاتصنیف کردہ ہے۔اس لجنہ کے ایک اہم رکن علامہ جزیری بھی تھے ؛لیکن جب اس کے حصہ عبادات کی اشاعت کے بعد اس کتاب پر تنقید اور تبصرے ہوئے تو اس کتاب کی تنقیح،تہذیب،عبارت سازی،اسلوب کی تسہیل میں علامہ جزیری نے محوری اور بنیادی رول ادا کیا۔دیگر ابواب کا اضافہ فرمایا تو اس کتاب کی نسبت مکمل طور پر علامہ جزیر ی کی طرف کی جانے لگی اور موصوف نے اس سلسلہ میں دیگر علماء کی کاوشوں سے کا فی حد تک استفادہ کیا۔
اس کتاب کے حوالہ سے کئی امور خاص طور پر قابل ذکر ہیں:اوّل یہ کہ اس کتاب میں عام طور پر صرف مسائل کو بیان کیا گیا ہے اسی طرح چاروں دبستان فکر کے ائمہ کے اقوال کو ذکر کیا گیا ہے۔ اس کی حکمت تشریع کو بیان کیا گیا ہے؛ لیکن عام طور پر کتاب اللہ وسنت رسول…ودیگر ادلہ شرعیہ سے متعلقہ مسئلہ کے دلائل بیان کرنے اور ایک کوراجح اور دوسرے کومرجوح قراردینے پر توانائی صرف نہیں کی گئی۔
علامہ جزیزی نے اس کی وجہ بھی بیان کی کہ یہ کتاب انھوں نے مساجد کے علماء وائمہ کے لیے تصنیف کی ہے تاکہ وہ مساجد میں اس کی تدریس کا فریضہ انجام دے سکیں۔ظاہر ہے اس طرح کی کتابوں میں ادلہ شرعیہ سے اس انداز میں تعرض نہیں کیا جاسکتا ہے۔جو معمول دیگر مفصل کتابوں میں ہے۔
کتاب پر اہل علم کا نقد و تبصرہ
علامہ جزیری اور اس کام کے لیے مقرر کردہ لجنہ سے وابستہ تمام علماء ومشائخ کی تمام تر محنت ومشقت اور مساعی جمیلہ کی تعریف وتوصیف کے باوجود اہل علم نے اس کتاب میں در آنے والی کئی فروگذاشتوں کی بھی نشاندہی کی ہے اور ان پر تعقب بھی کیا ہے۔چند قابل ذکر اعتراضات مندرجہ ذیل ہیں:
(۱) اس کتاب پر ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ مسالک کے نقل کے سلسلہ میں بعض مقامات پر فروگذاشت ہوئی ہے اور قابل اعتماد مسلک کو مصنف بعض مقامات پر نقل نہیں کرسکے؛ بلکہ بعض اوقات غیر معتمد اقوال کو نقل کردیا ہے۔
(۲) دوسرا نقد یہ کیا گیا کہ مصنف نے اپنے طور پر عبارت سازی اور جملہ سازی کی ہے۔ معتمد علیہ نصوص فقہیہ کو ان کے مراجع سے نقل نہیں کیا ہے اور حوالہ جات کا اندراج بھی نہیں کیا ہے؛جب کہ نقلِ مذہب میں فقہی نصوص اور مراجع کا ذکر کرنا از حد ضروری ہے۔
(۳) تیسرا نقد یہ کیا گیا ہے کہ یہ کتاب تمام ابواب فقہیہ پر مشتمل نہیں ہے۔کئی اہم فقہی ابواب کتاب میں شامل نہیں کیے جاسکے ہیں۔مثلا کتاب الوقف کتاب القضاء وغیرہ۔
(۴) چوتھا نقد یہ کیا گیا کہ اس میں بعض اوقات مرجوح بلکہ متروک اقوال کو بھی نقل کردیا گیا۔
(۵) پانچواں نقد یہ کیا گیا کہ بعض مباحث میں خلط مبحث ہے۔لہٰذا اس کتاب کومرجع اور حوالہ کی کتاب بنا نا مناسب نہیں ہے۔جب تک دیگراصلی مراجع سے توثیق نہ کرلی جائے اس وقت تک اس پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔
لیکن ان تمام اعتراضات کے جواب کے لیے بس اتنی بات کافی ہے کہ اس کتاب کی تصنیف کے مقصد کو سامنے رکھا جائے تو اس انداز کا کوئی بھی اعتراض وارد نہیں ہوگاکہ یہ آسان اسلوب اور عام فہم انداز میں فقہہِ ائمہ اربعہ کے سلسلہ میں تصنیف کی گئی ایک درسی کتاب ہے۔جس کی تدریس مختلف مساجد کے حلقہائے درس میں کی جانی تھی،اس کتاب کی تصنیف اسکالرس باحثین اور ارباب افتاء کے لیے نہیں کی گئی۔اس لیے بعینہ کتب متقدمین کی عبارتوں کو نقل نہیں کیا گیا؛ بلکہ اس کے مقابلہ میں اسی مفہوم کو ادا کرنے کے لیے آسان عبارت پیش کی گئی۔ظاہر ہے کہ عام افراد کے لیے یہ ایک خوبی کی بات ہے جب کہ باحثین کے لیے یہ عیب ہے۔
ان میں سے بعض تبصروں کو الاسلام سوال وجواب کے مقالہ نگار نے اس طور پر بیان کیا ہے۔
۱- عدمُ تحریرِ المعتمدِ من الاقوال عانند المذاہب، بل اعتمادہ کان علی المرجوح عند المذہب فی بعض المسائل، وقد تتبع کثیرٌ من الباحثین ذلک فوُجد انہ قد اخطا فی نسبة الاقوال إلی اصحابہا من أہل المذاہب، ولیسَ ذلک فی کلِّ ما کتب بل فی کثیرٍ منہا․
۲- عدم توثیق النصوص، فالمولَّف لا یعزو أی مقالةً لاصحابہا، ولا لای مرجعٍ فقہی، وکل ہذا قادح فی مادةِ الکتاب، حتی وإن کان اوضح ان مرجع مادتہ الکتب الفقہیة الاصلیة․ وقد سئل الشیخ یوسف الشبیلی عن ذلک فقال: ”اما کتاب ”الفقہ علی المذاہب الاربعة“ فلا انصح بالاعتماد علیہ؛ فیہ الکثیر من الخلط“!․ وقال الشیخ محمد بلتاجی فی مقالةٍ لہ نشرہا فی مجلة ”الدارة“ عام ۱۹۷۷م: ”لکننا ناخذ علیہ إخلاء کتابہ بصورة مطلقة من المراجع القریبة المنال وجوداً وفہماً لمن یقصدہا من جمہرة المثقفین المسلمین غیر المتخصصین فی علوم الشریعة․ کما ناخذ علیہ إخلائہ من بعض أدلة المذاہب التی لا یستعصی إدراکہا علی ہذہ الجمہرة المثقفة“․
۳- نقصُ الکتاب وعدم تمامہ، کما یتضح من اطلع علی الکتاب ونظر فی مباحثہ․ وقد نقلَ عن الشیخ عبد الکریم الخضیر انہ قال عنہ: ”الکتاب غیر کامل، قد ینقل بعض المذاہب من کُتب غیر مشہُورة فی ہذہِ المذاہب، ویعتمد روایات غیر معمُول بہا فی ہذہ المذاہب“ انتہی․
والکتاب لایصلح مرجعاً لمن أرادَ أن یعرفَ المعتمد والراجح فی أقوال المذاہب الاربعة، وکثرة اخطاء الکتاب جعلتہ مہجوراً عند العلماء والباحثین․
۴- ینبغی لمن أرادَ ان یعرفَ آراءَ المذاہب المحررة أن یاخذ الفقہ من کتبِہم المعتمدة، ومن لم یتیسر لہ ذلک فلیاخذہا من الکتب المعتنیة بذکر الخلاف ممن عرف عنہ العلم والتحقیق، کالإمام النووی فی کتابہ ”المجموع“ ولم یتمَّہ․ وابن قدامة فی کتابہ ”المغنی“، ومن الکتب المعاصرة فی ذلک کتاب ”الموسوعة الفقہیة الکویتیة“ وہی موسوعةٌ مشہورةٌ، مرتبة مسائلہا علی الحروف الہجائیة، وقد اشتغل فیہا عشرات العلماء والباحثین، واحسنُ ما فیہا: شمولہا، وتحریر المذاہب الاربعة من الکتب المعتمدة عندہم․(موقع الاسلام سوال وجواب․ تحت اشراف الشیخ صالح المنجد)
مذکورہ سطورمیں مقالہ نگارنے فروگذاشت کی چار جہات کی نشاندہی فرمائی ہے۔ممکن ہے کہ ان کی کئی ایک باتوں سے اتفاق نہ کیا جائے؛لیکن بعض امور کو بالکلیہ نظر انداز بھی نہیں کیا جاسکتا ہے۔
دیگر بعض حضرات نے مصنف کے طرز نگارش کی بڑی تعریف کی ہے؛چنانچہ نیل وفرات ڈاٹ کام پر اس کتاب کے تعلق سے یہ تحریر ہے: کتاب مہم جدا فی الفقہ جامع لآراء المذاھب الاربعة فی المسائل الفقہیة مما یجعلہ یغنی عن مراجعة الکثیر من الکتب فی ھذا المجال․ ویمتاز الکتاب بقوة اسلوبہ ودقتہ وحسن اخراجہ وغنی موضوعاتہ وقد اشتمل الکتاب علی الجزء الخامس الذی لم یتمکن المولف من اصدارہ قبل وفاتہ․
یعنی یہ کتاب فقہ اسلامی میں بڑی اہمیت کی حامل ہے۔اس میں چاروں دبستان فقہ کی آراء کا احاطہ کیا گیا ہے۔ اس کتاب کے مطالعہ سے آپ اس فن کی دیگر کتابوں کے مطالعہ سے مستغنی ہوسکتے ہیں؛ یہ کتاب اپنے اسلوب کی قوت عبارتوں میں دقتِ نظر اور پیش کرنے کے بہترین اسلوب کی وجہ سے دیگر کتابوں سے ممتاز ہے۔ مصنف نے جن موضوعات کو ذکر کیا ہے ان کا حق ادا کردیا ہے۔ قابل اطمینان امر یہ کہ جن ابواب کی تکمیل مصنف نہیں کرسکے تھے۔ ناشر نے ممتاز علما ء کے تعاون سے اس کی بھی تکمیل کردی۔
مصنف کتاب کی دیگر تصنیفات
الفقہ علی المذاہب الاربعہ کے علاوہ مصنف کتاب نے کئی اور علمی اور فقہی کتابیں یاد گار کے طور پر چھوڑی ہیں اور یہ کتابیں امت مسلہ کے لیے نقش راہ اور مصنف کے ذخیرہ آخرت بنی ہوئی ہیں۔ ان میں سے قابل ذکر مندرجہ ذیل کتابیں ہیں: (۱)توحید العقائد، (۲)الاخلاق الدینیہ والحکم الشرعیہ، (۳) أدلة الیقین فی الرد علی بعض المبشرین، (۴)دیوان خطب۔ الحمد للہ یہ تمام کتابیں مطبوعہ اور مقبول عام ہیں۔
خلاصہ یہ کہ الفقہ علی المذاھب الاربعة اسلامی کتب خانہ کے لیے شاندار اضافہ، عام اہل علم کے بہترین سوغات اور باحثین وماہرین کے لیے قابل استفادہ ولائق بحث وتحقیق کتاب ہے۔ آسان اسلوب میں ائمہ اربعہ کی فقہ کو پیش کیا گیا ہے۔احکام کی علتوں اور مسائل کی حکمتوں کو بھی سلیس زبان میں بیان کیا گیا ہے،جگہ جگہ مقاصد شریعت کو بھی پیش نظر رکھا گیا ہے۔اللہ تعالی اس کتاب کو امت مسلمہ کے لیے نفع بخش اورمصنف ا ورناشر کے لیے ذخیرہ آخرت بنائے آمین یارب العالمین۔
——————————————–
دارالعلوم ، شمارہ :12، جلد:105، ربیع الثانی – جمادِی الاول 1443ھ مطابق دسمبر 2021ء
٭ ٭ ٭