استاذ محترم حضرت مولانا قاری محمدعثمان منصورپوریؒ

(۱۹۴۴ء-۲۰۲۱ء)

یادوں کے نقوش

بہ قلم:مولانا اشتیاق احمد قاسمی

مدرس دارالعلوم دیوبند

            میرے گرامی قدر استاذ محترم حضرت مولانا قاری محمد عثمان صاحب رحمة اللہ علیہ بھی بالکل خاموشی سے جوارِ رحمت میں چلے گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ایسا نہیں لگتا تھا کہ اتنی جلدی نکل جائیں گے، خیر تقدیر الٰہی! جس کو کوئی نہیں جانتا، اللہ تعالیٰ ہی خالقِ ہردوجہاں ہیں اوراسی کے قبضہٴ قدرت میں ہرذرہ ہے، حضرت کی وفات سے عجیب سناٹا چھاگیا، دارالعلوم سونا سونا لگ رہا ہے، مسندِ اہتمام سونی دکھ رہی ہے، مسند حدیث کی رونق چلی گئی، تحفظ ختم نبوت کے شعبے کا سربے تاج نظر آرہا ہے، منحرف فِرَق اور باطل مکاتبِ فکر کی سرکوبی کا شعبہٴ ”محاضراتِ علمیہ“ بے سرپرست نظر آرہا ہے، قادیانیت کو بیخ وبن سے اکھاڑ پھینکنے کا جذبہ رکھنے والا مجاہد میدانِ کارزار میں نہیں ہے، وہ میکینک جس کی جادوی حکمت و تدبیر سے دارالعلوم کی مشین کا ہر پرزہ اپنی جگہ متحرک تھا اب وہ اپنی دکان خود بڑھا گیاہے، ان کی رحلت پر وہ مالی بھی عمگین ہے جو روزانہ گلشنِ دارالعلوم کے گلہائے رنگا رنگ کا ایک گلدستہ تیار کرکے دفتر اہتمام میں حضرت کے سامنے رکھتا تھا اور اپنی خدمت پر نازاں تھا، ایک دن حضرت نے پوچھا: کیا کام کرتے ہو؟ اس نے جواب دیا، چمن بندی کے شعبے میں ہوں، گلشن کی دیکھ ریکھ کرتا ہوں، مختلف قسم کے پھول لگاتا ہوں، پوچھنے پر بہت سے پھول کے نام گنوائے، اس پر فرمایا: اتنے پھول کس کام کے؟ کبھی دکھایا بھی تو کرو! چنانچہ وہ روزانہ ایک گلدستہ تیار کرتا اور میز پر جاکر رکھ دیتا، آج ان کی رحلت پر وہ بھی بہت غم زدہ ہے اور وہ میز بھی بے رونق دکھ رہی ہے جس پر گلدستہ سجتا تھا۔

آخری ملاقات

             رمضان المبارک ۱۴۴۲ھ کا دوسرا عشرہ تھا، کسی جنازے کے لیے حضرت احاطہٴ مولسری میں تشریف لائے تھے، اسی وقت معلوم ہوا کہ ایک اور جنازہ آنے والا ہے، انتظار میں سب لوگ کھڑے تھے، شمال کی مولسری کے پاس حضرت قاری صاحب کھڑے تھے، جب انتظار کا وقفہ زیادہ ہونے لگا تو ہم نے سوچا کہ حضرت کے لیے کرسی لائی جائے، شعبہٴ کمپیوٹر کے ایک ملازم نے جلدی سے ایک کرسی نکالی، میں لے کر دوڑا ہوا خدمت میں پہنچا تو فرمایا: نہیں، نہیں، ضرورت نہیں، مجھے کھڑے رہنے میں کوئی زحمت نہیں ہے، لے جاؤ، میں رکا ہوا اصرار کرتا رہا، اِدھر دوسرا جنازہ آگیا، فرمایا: دیکھو آگیا، اب لے جاؤ! چنانچہ میں واپس لے کر آگیا، چوں کہ سارا مجمع کھڑا تھا تو حضرت کو بیٹھنے میں تکلف ہوا؛ حالاں کہ اس دن قدرے نقاہت بھی محسوس ہورہی تھی۔

            اس سے کئی دن پہلے مسجد قدیم سے ظہر کی نماز پڑھ کر لوٹ رہے تھے، میں پیچھے تھا، متوجہ ہوے اور پیار سے فرمایا: مولوی اشتیاق! میں جی کہہ کر قریب ہوا، فرمایا: تمہارے والد صاحب رحمة اللہ علیہ کی وفات کی خبرملی تھی، بڑا قلق ہوا، دفتر اہتمام میں دعا بھی ہوئی تھی، اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائیں! میں نے اس پر آمین کہی اور پیچھے پیچھے چلتا رہا، یہاں تک کہ وہ مطبخ کی طرف اپنی رہائش گاہ کے لیے مڑگئے۔ چند دنوں کے بعد طبیعت ناساز ہوئی، اور بہت زیادہ بھی نہیں، گھر پر ہی علاج چلتا رہا؛ مگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے طے شدہ وقت قریب آتا گیا:

ع         مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی

شفقت ومناسبت

            اساتذہ سب ہوتے ہیں جن کے سامنے کتاب کھول کر پڑھی جاتی ہے، زانوے تلمذ تہہ کیا جاتا ہے؛ مگر مناسبت اللہ کا انعام ہے، ہر ایک سے نہیں ہوتی، جس استاذ کی شفقت وعنایت جتنی زیادہ ہوتی ہے اس سے اتنی ہی عقیدت پھر مناسبت کے بعد محبت بھی ہوجاتی ہے۔ حضرت استاذ محترم سے پہلی بار استفادے کا موقع اس وقت ملا جب ”موطا امام محمد“ کا سبق متعلق ہوا، گھنٹے کے بعد قدرے انتظار کرنا پڑتا، جب سارے طلبہ سراپا اشتیاق ہوجاتے، تب تشریف لاتے، شیروانی زیب تن ہوتی، نگاہیں نیچی رکھے، مسند تدریس پر بیٹھتے اور حدیث شریف کی سند پر گفتگو کرتے، پھر اجزائے حدیث کو الگ الگ سمجھاتے، پھر مسالک بیان کرتے، امام محمد کی تعبیر کی خوبی سمجھاتے اوراحناف کی ترجیحات بڑے اعتدال سے ذکر کرتے، الفاظ وتعبیرات میں برجستگی اور شگفتگی دل آویز رہتی تھی، حضرت الاستاذ کا یہ انداز بڑا اچھا لگنے لگا، عقیدت کے بعد مناسبت بھی پیدا ہونے لگی، دورئہ حدیث شریف سے امتیازی نمبرات کے ساتھکامیابی حاصل ہوئی، پھر افتاء میں داخل ہوا، ”محاضرات“ کاسلسلہ شروع ہوا، اس زمانے میں قادیانیت ملک کے گوشے گوشے میں دندنارہی تھی، ارادہ ہوا کہ ”ردقادیانیت“ کے موضوع کو اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے، آخر یہ کیا بلا ہے جو اپنے سیلاب بلاخیز میں آبادی کی آبادی کو بہالے جارہی ہے؟ اس کے لیے ایک تو ”شعبہٴ مناظرہ“ میں داخلہ لیا، دوسرے ”ردقادیانیت“ پر پیش کیے گئے حضرت کے محاضرات کو سامنے رکھ کر مضمون نگاری شروع کی، اس سے اور بھی مناسبت میں اضافہ ہوا، پھر جب محاضرات کے اسباق شروع ہوے تو ہمہ تن گوش ہوکر حضرت قاری صاحب کی باتیں سنتا اور نئی باتوں کو نوٹ بھی کرتا تھا، اس طرح افتاء کا سال پورا ہوا اور حضرت قاری صاحب سے محبت ہوگئی، اب جہاں کہیں سے گزرتے، رک کر دیکھنے لگتا، مجھے ان کی شخصیت میں کشش کی بہت سی جہات نظر آتی تھیں؛ لیکن یہ اندازہ نہیں تھا آپ کی نظرعنایت بھی میری طرف ہے اور اسی کا یہ اثر ہے؛ غرض یہ کہ اگلے سال ”تدریب افتاء“ میں داخلہ ہوا، اور تمرینِ افتاء حضرت الاستاذ مفتی محمودحسن بلندشہری مدظلہ العالی کے پاس تھی، ”ردقادیانیت“ کے موضوع پر ملک بھر میں پروگرام ہوتے تھے، دہلی میں جمعہ کے دن بہت سی مسجدوں میں اس موضوع پر بیان کا نظام حضرت نے بنایا، اس کے لیے اساتذئہ کرام کے ساتھ تخصص و تکمیلات کے طلبہ کی بھی ترتیب بنی، اس میں میرا بھی نام تھا، ہم لوگ صبح چار بجے والی فاسٹ پیسنجر سے دہلی پہنچے، میرا انتخاب حضرت قاری صاحب کی خدمت کے لیے ہوا، ساتھ میں حضرت مفتی صاحب مدظلہ بھی تھے، دفتر جمعیت کے پاس سے ایک آٹو رکشہ پر بیٹھے، اس نے ایک جگہ لے جاکر اتاردیا، اترنے کے بعد معلوم ہوا کہ مسجد یہاں سے دور ہے، تقریباً ڈیڑھ کلومیٹر ہے۔

نادر تواضع

            اتنے میں ایک ٹھیلی والا آیا جو اینٹ ڈھورہا تھا، اس پر اینٹ کی سرخیاں بڑی مقدار میں پڑی تھیں۔ ہم نہادھوکر اچھا کپڑا پہنے نماز کے لیے جارہے تھے، ٹھیلی والے نے کہا: حضرت! مسجد بہت دور ہے، یہاں رکشہ بھی نہیں ہے، نماز کا وقت قریب ہے، آئیے! اسی پر بیٹھیے! میں مسجد تک پہنچادیتا ہوں، دھوپ میں پیدل چل کر بہت پریشان ہوجائیں گے! حضرت نے اس کی معقولیت بھری تقریر سن کر کہا: چلو اسی سے چلتے ہیں، مجھے اس پر بیٹھنے میں ادنیٰ تامل ہوا کہ کپڑے سرخی سے گندے ہوجائیں گے؛ لیکن میں کسی طرح سے اس کا اظہار نہیں کیا، حضرت قاری صاحب کو کشف ہوگیا، آہستہ سے اپنا خوبصورت نفیس سفید رومال سر سے اتارا اور اس ٹھیلی پر بچھادیا، ارشاد فرمایا: مولوی اشتیاق! اس پر بیٹھو! کپڑے گندے ہوجائیں گے، میں بڑا پشیمان ہوا اور جلدی سے رومال اٹھاکر جھاڑا اور ادب سے حضرت کو پیش کیا، ٹھیلی پر بیٹھ گیا، پسینہ کچھ زیادہ ہی آنے لگا، حضرت کی تواضع کا تاثر مجھے اندر سے جھنجھوڑ چکا تھا؛ غرض ہم تینوں مسجد پہنچے، نماز کا وقت قریب تھا، حضرت سیدھے منبر پر پہنچے اور بیان شروع فرمادیا، نہایت ہی سادہ انداز میں مرزا غلام احمد قادیانی کی حماقتوں کو سمجھایا، اس کے دعویٴ نبوت کا مطلب سمجھاکر اس کی تردید کی، ”کلمہٴ قادیانیت“ کا مفہوم سمجھاکر ”کلمہٴ توحید“ سے اس کا تقابل پیش کیا، جس سے سامعین نے صاف سمجھ لیا کہ قادیانیت اسلام کے مقابل ایک مستقل مذہب ہے اور قادیانی ہرگز مسلمان نہیں ہوسکتے، تقریر کے بعد خطبہ پھر نماز ہوئی اور سنت ونفل کے بعد واپسی کا ارادہ ہوا، مسجد کے باہر ایک رکشہ نظر آیا، اس سے آئی، ٹی، او لے جانے کی بات ہوئی۔

گرم رکشے پر شبنمی نصیحت

            حضرت بائیں طرف بیٹھ گئے، نہایت ہی اطمینان سے بیٹھ کر اشارہ کیا، آجاؤ! میں بیٹھتے ہی چونک سا گیا، دھوپ میں رکشہ توے کی طرح گرم ہوگیا تھا، تعجب تھا کہ اتنی نازک شخصیت کس طرح پُرسُکون ہوکر بیٹھی ہے، اس تصور سے میں بھی بہ تکلف اطمینان سے بیٹھا رہا، رکشہ جب آگے بڑھا تو حضرت نے گفتگو شروع کی؛ ”ہم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں کہ ہمیں تو دھوپ میں رکشہ بھی نصیب ہے، تصور کرو، حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عرب کی چلچلاتی دھوپ میں گرم پتھروں اور پہاڑوں پر کیسے پیدل چلے ہوں گے، دین کی تبلیغ کے لیے کتنی مشقتیں اٹھائی ہوں گی، طائف کی (ساڑھے پانچ سو فٹ) اونچی پہاڑی پر کیسے چڑھے ہوں گے، آہستہ آہستہ حضرت نے چند جملے ایسے ارشاد فرمائے کہ گرم رکشہ لطف دینے لگا اور چند لمحوں میں ٹھنڈا محسوس ہونے لگا، اس شبنمی نصیحت نے بڑا متاثر کیا، اکابر بزرگوں کی لمبی لمبی تقریریں بارہا سنی ہیں؛ مگر جتنا اثر حضرت قاری صاحب کے چند جملوں نے کیا اتنا کسی نے نہیں کیا۔

ادنیٰ سی ضیافت پر خندہ پیشانی

            وہاں سے ایک مدرسہ میں آئے، جہاں کھانا طے تھا، دیکھا تو دسترخوان پر نہ تو سلیقے کے پلیٹ کٹورے تھے اورنہ ہی کھانا مزیدار، سلاد میں کھیرے اور پیاز کی کتلیاں بھی ایسی تھیں جیسے چاقو کے علاوہ کسی اور چیز سے کاٹی گئی ناسپاتی کے بدشکل ٹکڑے! لیکن حضرت بڑی قدر دانی اور خندہ پیشانی سے تھوڑا تھوڑا اٹھاتے اور میزبان کو خوش کرتے ہوے اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا کررہے تھے، ہاں اخیر میں ”پیپسی“ ضرور آئی اس زمانے میں یہی کالا مشروب بازاروں میں ملتا تھا اور لوگ بڑی ہوس سے پیتے تھے، بعد میں اس سے اچھے مشروب آئے، پھر امریکی مصنوعات کی بائی کاٹ نے اس کی اہمیت کو اور گھٹا دیا، غرض میں نے یہ سوچا کہ حضرت اس کو ضرور پسند فرمائیں گے؛ مگر آپ نے آہستہ سے منع کردیا، بعد میں اس کی مضرتوں سے دنیا واقف ہوئی اور دور ہوئی، تب معلوم ہوا کہ ہمارے اکابر کتنے دور رس ہوتے ہیں، اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائیں!

تواضع

            حضرت قاری صاحب اصول پسند اور بڑی متواضع شخصیت کے حامل تھے، دارالعلوم دیوبند میں علیا کے مدرس ہونے کے باوجود ادنیٰ سے ادنیٰ آدمی سے بڑا متواضعانہ سلوک کرتے تھے، یہ آپ کی طبیعت ثانیہ تھی۔

            (الف) درجہٴ علیا کے مدرس، دارالاقامہ اور تحفظ ختم نبوت کے ناظم ہونے کے باوجود حضرت الاستاذ مفتی محمودحسن گنگوہی کے اسباق بخاری شریف میں حاضر ہوتے اور خوب استفادہ فرماتے تھے، جب ہماری جماعت کو بخاری شریف کتاب الایمان تبرکاً پڑھانے کے لیے حضرت تشریف لائے تو دیکھا کہ حضرت قاری صاحب پیچھے پیچھے آرہے ہیں پورا گھنٹہ بیٹھ کر استفادہ کیا پھر ساتھ ہی واپس ہوے اور غالباً نسائی شریف کی کتاب الطہارة والصلاة کے اسباق میں بھی تشریف لاتے تھے، اس سے حضرت کی بے نفسی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

            (ب) ”تحفظ ختم نبوت“ کے ناظم اعلیٰ حضرت استاذ محترم مفتی سعیداحمد پالن پوری رحمة اللہ علیہ سے مشورے کے لیے سیدھے مکان پر تشریف لے جاتے، ساتھ میں فائلیں ہوتیں، طلبہٴ کرام کے انتخاب کے لیے سب کو لے کروہیں پہنچتے، مسودات ومقالات پر رائے لینے کے لیے بھی بارہا میں نے دیکھا، اس میں ذرا برابر تکلف نہ فرماتے تھے، یہ تھی حضرت امیرالہند کی تواضع اور فروتنی!

سفر میں دل داری اور نماز کا اہتمام

            چار اسفار میں ناچیز کو حضرت کے ساتھ رہنے کا اتفاق ہوا، ان میں کئی چیزیں متاثر کن دیکھیں:

            (الف) نماز کا خوب اہتمام فرماتے، دیوبند سے دہلی جیسے سفر میں پانچ چھ گھنٹے اس لیے لگتے تھے کہ صحیح وقت پر نماز با جماعت اطمینان سے ادا فرماتے ہوے جاتے تھے، ساتھ میں چھوٹی جائے نماز اور بڑا مصلیٰ ہوتا تھا، اطمینان سے رکتے اور معمولات پورے کرنے کے بعد چلتے۔

            (ب) راستے میں گزرتے ہوے اگر کوئی چائے کے بہانے روکتا تو ضرور اس کی دل داری فرماتے، کھاتے تو بہت کم تھے؛ مگر چائے سے کبھی انکار نہ تھا، اس کے ذریعے میزبان کا دل خوش کردیتے، ان کے لیے دعائیں کرتے۔

            (ج) وقت ضائع نہ کرتے، چلتے ہوے یا تو خاموش تسبیحات پڑھتے رہتے یا کوئی کتاب اٹھالیتے، غرض خالی نہ رہتے تھے۔

            (د) ساتھ رہنے والوں کا بھی خوب خیال رکھتے، خصوصاً دسترخوان پر بڑی محبت سے کھلاتے، جی خوش ہوجاتا تھا، ان اداؤں کو یاد کرکے آنسو آنے لگتا ہے۔

حیدرآباد کا سفر

            دارالعلوم حیدرآباد میں ”عظمت صحابہ سیمینار“ تھا، مجھے خدمت کے لیے حضرت کے ساتھ رکھا گیا، اس سفر میں بھی کئی چیزیں بڑی متاثرکن تھیں:

            (الف) سب سے پہلے ٹکٹ وغیرہ کی تفصیلات معلوم کیں، دیوبند سے دہلی پھر واپسی وغیرہ کا نظم معلوم کیا، ادارے نے جہاز کے ٹکٹ کے ساتھ ٹیکسی کا کرایہ پہلے بھیج دیا تھا، واپسی میں حضرت کو دہلی سے دیوبند کے لیے ٹیکسی لینی نہیں تھی کوئی اور انتظام تھا تو آپ نے دارالعلوم حیدرآباد کے ذمہ دار کو واپسی کا کرایہ واپس فرمایا اور ضرورت نہ ہونے کی صراحت فرمائی، یہ تھی معاملے کی صفائی، منتظمین بہت متاثر ہوے۔

            (ب) اس سفر میں حضرت کو دیکھا کہ جہاز میں سوار ہوتے ہی ایک کتاب نکالی اورپڑھتے رہے، اس میں سے نوٹس لکھتے رہے، پوری کتاب میں سے اپنا مطلوبہ حصہ پڑھ ڈالا، جب سیمینار میں حضرت کو بلایا گیا تو حضرت نے ڈائز پر اس نوٹ کو رکھ لیا اور نہایت ہی مرتب انداز میں بڑے اہم نکات پر گفتگو فرمائی، سامعین میں اہلِ علم وقلم کی تعداد اچھی خاصی تھی، سب نے حضرت کی گفتگو کی انفرادیت کو تسلیم کیا، منتظمین نے اس کو ریکارڈ کیا، حضرت کی خواہش تھی کہ کاغذ پر منتقل ہوکر مرتب ہوجائے، منتظمین نے اس کا وعدہ بھی کیا؛ مگر افسوس کہ وہ نہ ہوسکا۔

            (ج) تقریر و تحریر میں کبھی بھی حضرت کو تکلف کرتے نہیں دیکھا، بالکل سادہ انداز میں لکھتے اور بولتے تھے، آواز دھیمی، باتیں ترتیب وار ہوتیں پھر اخیر میں خلاصہ بھی پیش فرماتے تھے، سادہ اسلوب کے ساتھ موضوع اور مبحث کی ترکیز بھی ہوتی تھی وہ اِدھر اُدھر نہیں بہکتے، اس سے سامعین میں یکسوئی باقی رہتی تھی، یہ بات اس پروگرام میں بھی نظر آئی، صحابہٴ کرام کے سلسلے میں امت کے معتدل موقف کو نہایت ہی مدلل انداز میں پیش فرمایا تھا۔

            اسی طرح اردو زبان میں بغیر مجبوری کے انگریزی الفاظ سے آپ بہت اجتناب کیا کرتے تھے اور اس کی نصیحت بھی فرماتے تھے۔

درس مشکوٰة کا امتیاز

            دارالعلوم دیوبند میں حضرت نے دسیوں سال مشکوٰة شریف کا سبق پڑھایا ہے، یہاں آپ کا یہ امتیاز تھاکہ احکام کی احادیث کو بڑے اطمینان بخش انداز میں پڑھاتے تھے، مسلک کے موافق اوراس کے معارض دلائل کو سامنے لاتے اور بحث کرتے، وہ حدیث مشکوٰة کی تینوں فصلوں میں جہاں کہیں ہوتی اس کی نشاندہی فرماتے پھر احناف کی ترجیحات کو پیش کرتے تھے، اس لیے طلبہٴ کرام ان کو اپنی کاپیوں میں نوٹ کرتے اور اسباق کی پابندی بھی خوب کیا کرتے تھے اور سبق چھوٹ جانے پر افسوس کا اظہار بھی کرتے۔ میری یہ تمنا تھی کہ حضرت کے اسباق مرتب ہوکر شائع ہوں، میں نے ایک بار ملاقات کرکے اپنی تمنا کا اظہار کیا تو فرمایا: ٹھیک کہتے ہو، میرا جی بھی چاہ رہا ہے، دیکھو اللہ تعالیٰ کیا اسباب پیدا فرماتے ہیں۔

            دارالعلوم میں پانچ گھنٹے پڑھانے کی وجہ سے میرے لیے سبق میں حاضر ہوکر مرتب کرنا بہت مشکل تھا؛ اس لیے میری یہ خواہش تھی کہ کوئی پابندِ اسباق طالب علم سال بھر یہ کام کرے پھر اس کی ترتیب کی کوئی صورت بنے اور حضرت الاستاذ کی خدمت میں پیش ہو؛ مگر ہر تمنا برنہیں آتی!

ممتاز تربیت

            حضرت قاری صاحب کے جملہ اوصاف میں صاحب زادگان اور نونہالوں کی تربیت کاپہلو بھی اپنا ایک امتیاز رکھتاہے:

            (الف) ہماری ”معین مدرسی“ کا زمانہ تھا، حضرت نے اپنے ایک عزیز کو میرے ساتھی مفتی محمد خالد نیموی مدظلہ کے سپرد کیا کہ اس کو فلاں فلاں کتاب اپنے کمرے میں پڑھا دیا کریں! اور اسی عزیز کے ذریعے ایک کاپی بھیجوائی کہ روزانہ کی حاضری اس میں نوٹ کریں اور ہفتہ میں ایک بار میرے پاس بھیج دیا کریں؛ تاکہ میں دیکھ لوں کہ پابندی کررہا ہے یا نہیں؟ یہ انداز مجھے بڑا اچھا لگا کہ طالب علم خواہی نخواہی پابند ہوگیا اور چل پڑا، بااستعداد عالم ہوکر فارغ ہوا۔

            (ب) حضرت دارالاقامہ کے ناظم تھے، ایک دن فجر کی نماز کے بعد دیکھا کہ دو تین طلبہ دارجدید میں حضرت کے پیچھے پیچھے چل رہے ہیں، لنگی بنیائن میں ہیں، اپنے سرپر بستر لیے ہوے ہیں، طلبہ ان کو دیکھ دیکھ کر مسکرا رہے ہیں، میں نیا طالب علم تھا، قریب والے سے پوچھا یہ کون شخصیت ہیں؟ تو طلبہ نے حضرت کا نام بتایا اور بتایا کہ ناظم دارالاقامہ ہیں، ہفتہ دس دن میں ایک آدھ بار اس طرح ہوجاتا تھا تو پورا دارالعلوم نماز کا پابند رہتا، بلاکسی ڈانٹ ڈپٹ پٹائی اور کھانا بند کیے مقصد حاصل!

            (ج) اسی طرح ایک بار دیکھا کہ فجر بعد حضرت اچانک کسی کمرے میں پہنچ جاتے، نماز نہ پڑھنے والے طلبہ کو جگاتے جلدی نماز پڑھو! بہت تھوڑا وقت باقی ہے اور ساتھ ہی یہ بھی فرماتے کہ تیسرے گھنٹے میں دارالاقامہ آجانا! جب طالب علم وہاں پہنچتا تو اس سے ایک ”عہدنامہ“ لکھواتے کہ میں باجماعت نماز کے چھوٹنے پر شرمندہ ہوں، ایک ماہ تک روزانہ فجر کی اذان کے بعد آپ کے گھر حاضری دوں گا، اس طرح خود بخود طالب علم نماز کا پابند ہوجاتا تھا۔

راقم حروف پر نظر کرم

            میں ان خوش قسمت طلبہ میں سے ہوں جن پر حضرت استاذ محترم کی نگاہ تھی، وہ میری ترقی کے لیے کوشاں تھے۔

            (الف) جب ”تدریب افتاء“ کا دوسرا سال پورا ہوا تو ایک دن حضرت نے دفتر اہتمام میں بلایا، جب وہ نائب مہتمم تھے، ارشاد فرمایا کہ اگر اگلے سال حضرت مولانا محمدطاہر گیاوی مدظلہ کے مدرسے چلے جاتے تو اچھا ہوتا، وہاں ایک فتویٰ نویس مفتی کی ضرورت ہے، انھوں نے مجھ سے کہا ہے کہ اگر کوئی ذی استعداد طالب علم ہوتو بھیجئے! سوچو، اگر تمہاری رائے بنے تو میں بات کروں؛ لیکن چوں کہ میرا ارادہ مادرعلمی میں ”معین مدرسی“ کا تھا؛ اس لیے وہاں جانے کا اتفاق نہ ہوا۔

            (ب) ”معین مدرسی“ کے بعد دارالعلوم حیدرآباد جانے کی رائے بنی، وہاں سے ایک مرتبہ مادرعلمی آنا ہوا تو حضرت سے ملاقات کے لیے حاضر ہوا۔ بہت خوش ہوے اور خبرخیریت کے بعد کہا: کیا تم کچھ انگریزی زبان بھی جانتے ہو؟ میں نے کہا: جی! تھوڑی موڑی جانتا ہوں، کام چل جاتا ہے۔ فرمایا: مفتی فضیل الرحمن ہلال# عثمانی ”مفتی پنجاب“ ہیں، اب وہ ریٹائرڈ ہورہے ہیں، وہاں ایک مفتی کی ضرورت ہے، اگر تم چلے جاتے تو اچھا ہوتا، میں نے کہا، ٹھیک ہے حضرت! مفتی سعید احمد صاحبسے مشورہ کرلیتا ہوں، اگر ان کی رائے ہوئی تو چلا جاؤں گا؛ لیکن جب حضرت سے پوچھا تو فرمایا: نہیں، مت جاؤ، میں تمہیں اچھا مدرس دیکھنا چاہتا ہوں، دارالافتاء کا ایک خاص سرکل ہوتا ہے اور مدرسی میں مطالعہ کی آفاقیت ہوتی ہے؛ اس لیے وہاں کی رائے نہ بنی۔

            اللہ تعالیٰ ہمارے اکابر اساتذئہ کرام کی بال بال مغفرت فرمائیں اور جنت الفردوس اور اعلیٰ علیین میں جگہ عطا فرمائیں!

——————————————

دارالعلوم ‏، شمارہ :9،    جلد:105‏،  محرم الحرام – صفر المظفر 1443ھ مطابق   ستمبر 2021ء

٭        ٭        ٭

Related Posts