از: ڈاکٹر ایم ، اجمل فاروقی، ۱۵- گاندھی روڈ، دہرہ دون

اللہ جو تمام کائنات کا خالق اور رب ہے اور اُس کی ہدایت اور رہنمائی تمام انسانوں کی بھلائی کے لیے ہے۔ کیونکہ اللہ کی کوئی برادری، مسلک، وطن، تجارت، رشتہ داری نہیں ہے اِس لیے ان تمام رشتوں سے جو پیچیدگیاں یا مفادات پیدا ہوتے ہیں وہ اللہ رب العالمین کے ساتھ نہیں ہیں۔ اسلام جسے ایک مذہب بناکر اسے صرف مسلمانوں کی بھلائی کے لیے محدود و مخصوص کردیاگیا ہے وہ کائنات کی بھلائی کا قانون ہے۔ مگر انسانوں کو بہکاکر الٰہی رہنمائی سے بھٹکاکر محدود علم سے انسانی معاشرہ اور کائنات کو چلانے کی کوششوں کے نتیجہ میں خشکی اور تری میں فساد بھرگیا ہے۔ پوری انسانیت میں ایسے لوگوں کی تعداد اور طاقت بڑھ گئی ہے جو اللہ کے بندوں کو اللہ کی رہنمائی سے نکال کر شیطان اور نفس کی غلامی میں لیجا رہے ہیں اور لیجانا چاہتے ہیں۔ حالانکہ یہ طاقتیں خود اسلام کی حقانیت کی قائل ہیں۔ یہ خود اسلامی تعلیمات پر عمل کررہی ہیں، مگر اسلام کا حوالہ دئیے بغیر عمل کررہی ہیں۔ مگر چاہتی ہیں کہ مسلمان اور دنیا کی اکثریت اسلام سے دور ہوجائیں۔ اس کے لیے وہ اپنی دلی آرزوئیں کھلے اور چھپے ظاہر کرتے رہتے ہیں۔ ذیل میں چند اقتباسات میں اُس طرح کے دوست نما دشمنوں کے خیالات درج ہیں:

۱-   ”اطمینان بخش پہلو یہ ہے کہ لوگ آج بھی سیاست اور سیاسی جماعتوں کی باتیں کرتے ہیں۔ مذہبی جماعتیں تیزی سے اپنی حمایت کھوتی جارہی ہیں۔ بصورت دیگر مولوی کو پاکستانی سیاست میں کوئی نمایاں حیثیت حاصل نہیں رہی۔ لیکن اس کا سہرا صدر مشرف کے سرجاتا ہے کہ وہ اسلام کو جدید رخ دینے کی کوشش کررہے ہیں․․․ متوسط طبقہ جو فوجی اقتدار کو مقابلہ کی دعوت دے سکتا ہے اپنا معیار زندگی بلند کرنے میں منہمک ہے۔ معاشی نشو نما 5% کے قریب ہے اور امریکی امداد کثیر تعداد میں آرہی ہے۔ یہاں تک کہ امریکہ میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے خواہش مند طلباء کے لیے بھی۔ سڑکوں پر دوڑنے والی گاڑیوں کی تعداد میں اضافہ ہوگیا ہے اسی طرح ہوٹلوں اور ریستورانوں میں بھی لوگوں کی بھیڑ ملے گی۔ دکانوں میں سامان اچھی طرح سجے ہوئے ہیں۔ جدید بازار اورمارکیٹوں میں خریداروں کا میلہ لگا ہوا ہے۔ آنکھوں کو متوجہ کرنے والے اشتہارات میں بھی تبدیلی آئی ہے۔ اب ان میں عورتیں بھی نظر آتی ہیں․․․․ میری حیرت کی انتہا نہیں رہی کہ جب میں نے پاکستان ٹیلی ویژن پر خاتون کو ننگے سر خبریں پڑھتے دیکھا۔“ (معروف کالم نگار وحقوق انسانی کے سرگرم لیڈر کلدیپ نیر، اردو راشٹریہ سہارا ۲/فروری ۲۰۰۵/)

۲-  جب ہم کابل ہوائی اڈہ پر اتر رہے تھے تو میرے ذہن میں کابل کے بارے میں تصور تھا کہ وہاں کپڑوں کے ڈھیر سے بنے ہوئے تکلیف دہ برقعوں سے لدی ہوئی عورتیں ہوں گی۔ جس طرح طالبان کے زمانہ میں اُن پر ظلم ہوا تھا اس کے برعکس کچھ بھی نہیں سوچا جاسکتا تھا، مگر آج کے کابل میں تبدیلی کی اگر کوئی نشانی ہے تو وہ یہی ہے۔ برقع چلاگیا ہے۔ ڈرختم ہوگیا ہے۔ ہر جگہ عورتیں ہی عورتیں نظر آتی ہیں۔ (ارندم سین گپتا ٹائمس آف انڈیا ۱۷/ فروری ۲۰۰۵/)

(خبر کی سرخی پردہ گیا، ڈر بھاگا، نئے دور کی شروعات اور ساتھ ہی ایک بیوٹی پارلر کا بڑا فوٹو گراف شائع کیاگیا ہے جس میں افغان خاتون کو میک اپ کراتے دکھایا گیا ہے)

۳-  ”مسلم پرسنل لاء بورڈ سماجی اصلاح کے مسئلوں کو ٹالتا رہا ہے۔ عام طور پر مسلم سماج میں عورتوں کو مسجد میں جاکر نماز نہیں پڑھنے دیا جاتا۔ اس کے ردّ عمل میں کچھ شہروں میں مسلم خواتین نے مسجدوں میں جاکر نماز ادا کرنا شروع کردیا ہے․․․․ ثانیہ مرزا نئی ہوا قومی جھلک ہے ․․․ مسلم عورتیں آگے آرہی ہیں، لیکن مسلم نوجوان اصلاح کے میدان میں آگے نہیں آرہے ہیں۔ جس میدان میں مسلم نوجوان آگے آئے ہیں جیسے فلم کے میدان میں تو انھوں نے بڑی کامیابی حاصل کی ہے۔ ملک و بیرون ملک ان کا چرچا ہے۔ اس کے پہلے بھی سنگیت کے میدان میں خاص کر ہندوستانی سنگیت (شاستریہ) میں مسلم سنگیت کاروں نے ہی نام کمایا ․․․․ مسلم اصلاح پسندوں اور نوجوانوں پر منحصر ہے کہ سائنس کی نئی روشنی میں وہ پھر آگے بڑھیں اور مبینہ مسلم بنیاد پرستی سے نجات حاصل کریں۔(چترانن مشرا سابق مرکزی وزیر سینئر کمیونسٹ لیڈر ”سماجی اصلاحات کے حق میں کھڑے ہوں“ اردو راشٹریہ سہارا ۲۶/ فروری)

۴-  عرب ممالک نے دہشت گردی کو موٴثر طریقہ سے روکنے کے لیے تعلیمی اصلاحات کو اپنے یہاں تیزی سے نافد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ خلیجی ممالک کے وزرائے تعلیم کی دو روزہ کانفرنس میں اس نصاب تعلیم میں ترمیم کے ساتھ پورے نصاب میں اصلاحات کرنے پر اتفاق رائے ہوگیا ہے تاکہ بنیاد پرست نظریات پر قابو پایا جاسکے۔ ان وزراء تعلیم نے بتایا کہ ان کی سرکاریں وسیع پیمانہ پر تعلیمی اصلاحات ۴ برس کے بجائے ۲ برس میں ہی نافذ کرنے پر متفق ہوگئی ہیں۔ یہ اصلاحات خاص طور پر ان مذہبی نصابی کتابوں پر مرکوز ہونگی جن میں عیسائیوں اور یہودیوں کے بارے میں منفی جذبات ابھرسکتے ہوں یا جہادیوں کی فوج تیار کرنے کی تلقین مل سکتی ہو۔ اس کانفرنس میں سعودی عرب، کویت، بحرین، قطر، عمان اور متحدہ عرب امارات کے وزراء تعلیم نے شرکت کی تھی۔ (راشٹریہ سہارا، اردو ۱۱/ فروری ۲۰۰۵/)

۵-  ۱۱/ستمبر ۲۰۰۱/ سے سال میں ایک بار میں اپنے مضمون میں اس اچھی خبر کی طرف اشارہ کررہا ہوں کہ اسلامی انتہاپسندی اپنی توانائی کھورہا ہے۔ اس کو عوامی حمایت نہیں مل رہی ہے۔ مسلم ممالک میں جہاں کھلا معاشرہ ہے وہاں یہ زیادہ نمایاں ہے۔ ملیشیا میں ۲۰۰۴/ میں ہوئے انتخابات میں اور انڈونیشیا کے انتخابات میں سیکولر پارٹیوں نے اسلام پسند جماعتوں کو دھول چٹادی ہے۔ ان جماعتوں کو پچھلے ۳۰ سالوں میں سب سے برے نتائج کا سامنا کرنا پڑا۔ عرب ممالک سے بھی اصلاح کی آواز بلند ہورہی ہے۔ خصوصاًخلیجی ممالک میں دوبئی سے جو اصلاحات کے معاملہ میں سب سے آگے ہیں۔ (”عرب دنیا سے اچھی خبر“ فرید زکریا پسر جناب رفیق زکریا نیوز ویک بحوالہ انڈین ایکسپریس ۱۲/۲۳۰)

۶-   دبئی کی اس ترقی کی مثال کے طور پر ۲۴/ فروری ۲۰۰۵/ کے ٹائمس آف انڈیا نے ایک بڑا فوٹو گراف شائع کیا ہے جس میں دنیا کے گنے چنے ۷ ستارہ ہوٹلوں میں سے ایک برج العرب کی چھت پر بنے ہیلی کاپٹر کی پٹی پر بنائے گئے ٹینس کے کورٹ کو دکھایا گیا ہے۔

۷-  یوروپ کے مسلم اکثریتی ملک البانیہ کی راجدھانی تنزانیہ میں سنیچر کی رات مطلب ہے بئیرپینا، ڈسکو میں تھرکنا اور سور کے گوشت کے کباب کھانا۔ یہ ملک خود کو انتہاپسندوں سے بچانا چاہتا ہے۔ اور اسی طرح کے اسلام پر چلنا چاہتا ہے۔ جہاں کسی چیز کی ممانعت نہیں ہے۔ (راشٹریہ سہارا،اردو ۲۰/مارچ ۲۰۰۵/)

مندرجہ بالا اقتباسات سے ظاہر ہے کہ ”جوکچھ اُن کے سینوں میں ہے وہ تو سب سے بڑھ کر ہے“ کی تفسیر کیا ہوگی۔ مگر یہاں دلچسپ اور منافقانہ تضاد یہ ہے کہ مسلمانوں کے لیے اصلاح کا ایجنڈہ بنانے والے خود ”بنیاد یا جڑوں کی طرف رجعت Return to basics کے نام پر اپنے اپنے مذاہب کی رسومات کو اپنا رہے ہیں۔ اپنے یہاں فحاشی، عریانی، زنا، سگریٹ نوشی، شراب نوشی، نشہ آور ادویہ کا استعمال، شادی کے بغیر جنسی تعلقات، فیملی پلاننگ، اسقاط حمل وغیرہ معاملات میں پرانی قدروں پر عمل پیرا ہورہے ہیں۔ بش نے اپنی ۴۲- ویں سالگرہ کے بعد سے شراب نہیں پی ہے۔ اسقاط حمل کے خلاف ماحول بنایا جارہا ہے۔ بوئنگ کمپنی کا صدر جو کہ ایک پوتے کا دادا بھی ہے اپنی کمپنی کی ایک نائب صدر کے ساتھ عشق کے معاملہ میں بوئنگ کی صدارت سے ہاتھ دھوبیٹھا۔ امریکی سنسد نے ایک قانون بناکر ۳۸۹ کے مقابلہ ۳۲ ووٹوں سے قانون بنایا ہے جس کے تحت T.V. پر فحش پروگرام دکھانے پر جرمانہ کی رقم ۳۲ ہزار پانچ سو ڈالر سے بڑھا کر ۵لاکھ ڈالر کردی گئی ہے۔ تین بار خلاف ورزی پرلائسنس رد ہوجائے گا۔ (شاہ ٹائمس ۱۸/ فروری ۲۰۰۵/)

جہاں تک مذہبی انتہا پسندی کی بات ہے اس حقیقت سے کوئی واقف نہیں کہ بش کو الیکشن میں فاتح بنانے کے لیے چرچ اور پادریوں نے اپنی ساری طاقت جھونک دی تھی۔ اور مذہبی رواداری اور آزادی کا حال یہ ہے کہ اکثر یورپی ممالک میں سرڈھانک کر اسکول یا آفس جانے پر پابندی ہے۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت سرکاری سطح پر پھیلائی جارہی ہے اس کام میں چرچ اور حکومت ساتھ ساتھ ہیں۔

______________________________

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ9، جلد: 89 ‏،    رجب‏، شعبان  1426ہجری مطابق ستمبر 2005ء

Related Posts