ہجومِ بلبل ہوا چمن میں ، جوگل نے کیا جمال پیدا
کمی نہیں قدرداں کی اکبر! کرے تو کوئی کمال پیدا
کتاب اللہ وسنتِ رسول اللہ کے عظیم مفسروشارح، علوم نانوتوی ومعارفِ شاہ ولی اللہ کے بے نظیر ترجمان، عالم المعقول والمنقول، فناء فی العلم، مسندِ شیخ الحدیث کی زینت، شاہِ تدریس، لسانِ دارالعلوم، اکابر کی حسین یادگار، استاذ الاساتذہ
’’سلطان العلماء‘‘
حضرت علامہ مولانا مفتی سعیداحمد پالن پوری علیہ الرحمہ
شیخ الحدیث وصدرالمدرسین دارالعلوم دیوبند
(ولادت:۱۳۶۰ھ-۱۹۴۰ء/وفات:۲۵؍رمضان ۱۴۴۱ھ-۱۹؍مئی۲۰۲۰ء)
یادوں پر مشتمل ایک تاثراتی تحریر
از: مولانا محمدفہیم الدین بجنوری قاسمی
استاذ دارالعلوم دیوبند
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
(میرتقی میر)
استاذِ گرامی قدر، حضرت علامہ مفتی سعیداحمد پالن پوری علیہ الرحمہ کی وفات سے، دارلعلوم دیوبند ایک شیخ الحدیث اور صدرمدرس سے زیادہ، ایک باعظمت ہستی سے محروم ہوگیا، قحط الرجال کے اس دور میں یقینا ہر دو خلاء غایت درجہ اہمیت کے حامل ہیں ؛ لیکن عظمتوں کے مینار جن عناصر سے تشکیل پاتے ہیں ، وہ نایاب نہیں ، تو ہرعہد میں کم یاب ضرور رہے ہیں ، اس وقت تو خیر! آپ مادرِ علمی کے سالارِ قافلہ تھے؛ اس لیے بزمِ قاسمی کا ہنگامۂ گیرودار، آپ کے نفسِ گرم کا رہینِ منت تھا؛مگر ہردو مناصب سے قبل بھی، گلشنِ علم وعرفان کی بہاروسرسبزی، آپ ہی کی نغمہ سرائی سے منسوب ہواکرتی تھی۔
اہل نظر کو اس بات کا ادراک ہے کہ چمن کی آہ وفغاں کا پس منظر، محض ایک منصب کا خلاء یا ایک عمل کا انقطاع نہیں ہے، حضرت کے ساتھ جن علمی، دینی، فکری اور ملی عظمتوں نے ہمیں الوداع کہا ہے؛ رونا اصل ان کے لیے ہے، بلاشبہ آپ کی جدائی سے، جہاں دارالعلوم نے اپنے اکابر ومشائخ کی روایات کا امین اور دورِ اوائل کے امتیاز کا پاسبان کھویا ہے، وہیں دارالعلوم کی مسندِ حدیث سے، خدا جانے کتنی مدتِ مدید کے لیے، اس کی زینت، رونق اور شوکت چھن گئی ہے۔
اس آخری دور میں خالص علمی بنیاد پر، بین الاقوامی شہرت صرف آپ کے حصے میں آئی، برِصغیر تو بتمامہ آپ کی شاگردی پر نازاں ہے ہی، بیرون میں بھی آپ کی شخصیت کو بڑے پیمانے پر پذیرائی حاصل ہوئی، آپ کے فیض نے کئی برِاعظموں کا سفر طے کیا، عجم کے علاوہ عربوں نے آپ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا، یورپ، افریقہ وامریکہ وغیرہ کے علمی اسفار نے، آپ کو دارالعلوم دیوبند کے علم وفکر کے سفیر کی حیثیت میں نمایاں کیا اوراسی نظریہ سے دنیا بھر میں آپ کو سنا اور پڑھا گیا۔
اس اجمالی تاثر کے بعد، اب میں مختلف عناوین کے تحت، حضرت کے ان کمالات کا عکس، سینۂ قرطاس پر اتارنے کی کوشش کروں گا، جو ہزاروں کفش برداروں کی مانند، میرے لیے بھی شنیدہ کے بجائے، دیدہ ہونے کی وجہ سے، ذاتی مشاہدات وتجربات کے درجے میں ہیں ۔
امامِ تدریس
شاگرد ہیں ہم میرسے استاد کے راسخ
استادوں کا استاد ہے استاد ہمارا
(راسخ عظیم آبادی)
تدریس آپ کا اصل میدان تھا، اس جوہر کو آپ کے جملہ کمالات کی روح اور جان سمجھنا چاہیے، تدریس میں جو کمال وجمال آپ کو عطا ہوا تھا، اس کی نظیرہرچہار سو مفقود تھی،اگر تدریس بہ ذات خود ایک فن ہے اوراس کے مقاصد ومحرکات کو پیش نظر رکھتے ہوئے، اس کے خدوخال، خوب وزشت اور ظاہر وباطن کی تحدید ہوسکتی ہے، تو آپ کی تدریس اس کا مصداق اکبر تھی اور حد درجہ تنزل اختیار کرتے ہوئے میں یہ کہوں گا کہ سرِرشتۂ تعلیم کے ’’عالمی مہم جو‘‘ اگر آپ کے درس سے ذاتی نیاز حاصل کرتے، تو تدریس کے نئے معنی وضع ہونے کانظارہ بہ چشم خود کرتے۔
پورے ماحول کا ہمہ تن گوش ہوجانا، حاضرین کی یکسوئی وانہماک، وسیع حلقۂ درس پر گرفت، سامعین کا جوش وخروش، حاضری میں طلبہ کے مابین سبقت کی فضائ، دقیق مضامین کا ایسا بیان کہ ذہین کو اکتاہٹ نہ ہو اور غبی محروم نہ ہو؛ یہ نظارے آپ کی تدریسی کرامات ہیں ۔
صاحبِ طرز مدرس
تدریس میں آپ کا اسلوب ممتاز، منفرد، نرالا، اچھوتا، نادر، طرح دار، پیارا، دل کش، سحرانگیز اور سامعین وحاضرین کے لیے نظربندی کا سامان پیدا کرنے والا تھا، پھر آپ کے اسلوب کی انفرادیت بھی نوع بہ نوع تھی، طرزِتکلم جدا، لب ولہجہ منفرد، آواز الگ، ترتیب البیلی، غرض! آپ کا صاحبِ اسلوب ہونا بھی متعدد پہلوئوں کا حامل تھا۔
آپ کے معجزنما لہجے میں بہ یک وقت عالمانہ شوکت اور ناصحانہ شیرینی دونوں ہوتی تھیں ، جب آپ بولتے تھے، تو گویا بھینی بھینی خوش بو مہکتی تھی اور ہلکی ہلکی بارش کا احساس ہوتا تھا، ایک عجب اسلوبِ بیان تھا، جو خراماں خراماں شروع ہوتا، گاہے تیز ہوکر رواں دواں بھی ہوتا، کبھی موج درموج کا سماں ہوتا اور کبھی سیل درسیل کا، میں اس کا واقف کار نہیں کہ اس دل کش انداز کے آپ واضع تھے، یا اسے انھوں نے اپنے پیش رو اساتذہ سے مستعار لیا تھا، بہ ہرصورت اس انداز کی گونج دیر تک محسوس کی جائے گی۔
حضرت کے درس کا امتیاز اکابر کے جھرمٹ میں بھی قائم تھا
آپ کے درس کا امتیاز عہدِقدیم کی یادرگار ہے، سچ ہے کہ مشک افشانی کو کبھی قدردانوں کے شکوے کی نوبت نہیں آتی، میں جب جامعہ اسلامیہ مسیح العلوم بنگلور میں پڑھاتا تھا، تو ندوۃ العلماء کے ایک استاذ آئے تھے، جنھوں نے دارالعلوم دیوبند میں بھی اکتسابِ فیض کیا تھا اور وہ حضرت قاری طیب صاحب علیہ الرحمہ کے عہد میں یہاں آئے تھے، انھوں نے دیوبند کی یادوں میں بہ طور خاص حضرت والا کے درس کا ذکر کیااور ہمیں یہ بتاکر حیرت میں ڈالاکہ اس وقت کے اکابر کے انبوہِ کثیر میں بھی، آپ کے درس کی منفرد شناخت تھی اور طلبہ کے مابین غایت درجہ محبوبیت ومقبولیت تھی۔
درس کی مقبولیت
آپ کا درس کیا تھا، ایک شمع محفل کا سماں ہوتا تھا! طلبہ پروانہ وار ہجوم کرتے تھے، ہمارا دور دارالحدیث تحتانی کا ہے، جو اس وقت کی تعداد کے لیے بھی بہ مشکل کافی ہوتی تھی، حضرت کے گھنٹے میں کھچاکھچ بھرجاتی تھی، تاخیر سے آنے والے طلبہ بھی حوصلہ نہیں ہارتے تھے اور دروازوں پر یا دروازوں کے باہر رہ کر درس سنتے تھے، اس دور کی چوکھٹ اور دروازے سے بھی بڑے کاملین نکلے۔
ہمارا تعلیمی سال ۱۹۹۸ء -۱۹۹۹ئکا ہے اسے نشأۃ ثانیہ کے عہد کا عروج سمجھنا چاہیے، اس وقت دورِثانی کے جملہ اکابر،نازک عوارضِ صحت سے محفوظ تھے اور تدریس کے لیے درکار قوت وتوانائی شباب پر تھی؛ بالخصوص حضرت الاستاذ علیہ الرحمہ کاکوکبۂ جلال بام عروج پر تھا، تدریس کا طوطی شباب پر تھا اور حضرت دارالحدیث کے دلہاہوا کرتے تھے، آپ کے درس ترمذی میں ’’کأن علی رؤوسہم الطیر‘‘ کا منظر قابلِ دید ہوتا تھا۔
اسی قوت وتوانائی کا ثمرہ تھا کہ درس کا اہتمام دیدنی تھا؛ بالخصوص معرکۃ الآراء مباحث میں کلام کی کیفیت بیان سے باہر ہے، مجھے دارالحدیث کا وہ سناٹا یاد ہے، جو آپ کے خراماخراما لہجے میں دفعتہ تیزی آنے کی وجہ سے کسی بھی دن پیداہوجاتا تھا،اگر حضرت کا رعب، دینی درس گاہوں کی تہذیب اور خاص رنگ کی تربیت کا ماحول عارض نہ ہوتا، تو ان بحثوں کے اختتام پر دارالحدیث کے درودیوار نعرئہ تکبیر سے گونج اٹھتے اور اندرون کی مسرت سے مغلوب ہوکر طلبہ حضرت کو شانوں پر اٹھالیتے، بعض مباحث کے اختتام پر میں نے یہ محسوس کیا، جیسے طلبہ آوازئہ تحسین بلند کرنے سے باز رہنے کے لیے، ضبط کی قوتیں بروئے کارلانے میں مصروف ہیں ۔
دورہ کا سنسنی خیزسال
فکروقلم کا رشتہ بھی عجیب ہے، گفتگوکے بہائو میں مجھے اپنے دورے کا سال تازہ ہوگیاہے، معلوم نہیں کب ان حسین اور شیریں یادوں کو قلم بند کرنے کاموقع ہوگا! دل کے ہاتھوں مجبور ہوں کہ زندگی کے سب سے خوب صورت تجربے پر ایک دو جملے لکھ کر آگے بڑھوں ۔
دورے کے سال کو طلبہ کے ’’عروسی‘‘ کا سال سمجھنا چاہیے، دارالحدیث کے شرکاء گویا نوشۂ ذی جاہ ہوتے ہیں ، کون کہتا ہے کہ دورے میں سال بھر بتانے کا موقع ملتا ہے؟ آغاز میں سامنے کی سیٹوں تک رسائی کے ہنگامے اور الوداعی ترانوں کی گونج کے درمیان کا زمانی فاصلہ، ماہ وسال کی سست روی کے بجائے، لمحات وساعات کی تیزگامی سے گذرتا محسوس ہوتا ہے:ع: ’’جلوئہ گل سیرنہ دیدم وبہار آخر شد‘‘ کا منظر ہوتا ہے، وہ شب وروز کے دروس، حدیث نبوی کے جاں فزاں زمزمے، پرکشش آوازوں کی نغمہ سرائی، حدیث ہی حدیث، مطالعہ ہی مطالعہ، میکدہ اور فقط مے نوشی، جام اور بادے، وہ لطف جو اس سال آیا پھر کبھی میسرنہ ہوا، زندگی کے اس حسین سال کی عکاسی کے تئیں قلم وفاء سے قاصر ہے، اپنے ذاتی جذبات یاد ہیں کہ میں سال کے آخر میں بہت سنجیدگی سے اس پر غور کررہا تھا کہ دورہ مکرر پڑھوں اور قال الرسول کے نغموں سے ایمان کی تازگی اور روح کی بالیدگی کا یہ سلسلہ کم ازکم ایک سال اور دراز کروں ۔
تصنیف وتالیف
تدریس ایک غیرمعمولی ذمے داری ہے اور انسان کو بوجھل کرنے کے لیے تنہا کافی ہے، پھر درسِ نظامی کی تشکیل کچھ اس نوع کی ہے کہ ہر سبق کے لیے سابقہ تیاری امرناگزیر ہے اور اس میں کوئی استثنانہیں ؛ یہی وجہ ہے کہ تدریس کی یہ ذمہ داری ہمہ وقت اعصاب پر سوار رہتی ہے، دن تمام پڑھانے کی نذراورشب مطالعے اور تیاری میں محبوس، ایسی صورت حال میں ایک مدرس سے، دیگر علمی یا عملی امور کی انجام دہی کرامت سے کم نہیں ؛ لیکن ہماری تاریخ ایسی کرامتوں سے پُرہے، جفاکشی، ریاضت اورمجاہدے کی ایک داستان ہے، جو اہلِ علم نے اپنے خونِ جگر سے رقم کی ہے، وہ جہاں منصبِ تدریس کے مسندنشین تھے، قاضی وقت تھے، میدانِ جہاد کے شہ سوار تھے؛ عین اسی وقت ان کے بافیض قلم، علم کے دریابہارہے تھے اور ان کی تصنیف وتالیف کی سرگرمیوں سے اسلام کی لائبریری تیار ہورہی تھی۔
پھر علمی آثارکو صدقۂ جاریہ میں خاص مقام حاصل ہے اور کیوں نہ ہو کہ دین کی بقا اور شادابی میں سب سے بڑا کردار قرطاس وقلم نے ادا کیا ہے، آج اگر ہمیں دورافتادہ علاقوں میں ، چودہ سوسال بیت جانے کے بعد بھی، دینِ اسلام سے، مستفید ہونے کا موقع میسر ہے، تو اس کا سہرا اس دراز تر داستان کے سرہے، جو سینوں اور سفینوں دونوں نے مل کر رقم کی ہے،آخر کوئی وجہ ہے کہ لسانِ نبوت نے علماء کے قلم کی سیاہی کو شہید کے خون سے برتراور راہِ علم کی سعی کو قتال وجہاد کی سرگرمی سے افضل قراردیا ہے!۔
حضرت الاستاذعلیہ الرحمہ انگلیوں پر گنے جانے والی ان نادروعبقری ہستیوں میں سے ایک ہیں ، جن کے چشمۂ علم وعرفان کی فیاضی میں قلم اور زبان دونوں نے اپنا حصہ ڈالا، اُس تاریخ ساز تدریس کے کوائف بیان کرنے کے بعد کہ جس کے سحر نے نصف صدی قلوب پر حکمرانی کی، یہاں ہم نے دادِ قلم کی داستان چھیڑی ہے۔
مبدأ فیاض سے جو قلم آپ کو ہم دست ہوا، اس کی پیشانی توفیق وبامرادی کے تمغے سے درخشاں تھی، ایسے کتنے اہلِ قلم، قارئین کی فہرست میں ہیں ، جنھوں نے کتاب اللہ کی تفسیر کا خاکہ بنایا اوراس کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا، صحیح بخاری کی شرح کا بیڑا اٹھایا اور اس کو مکمل کیا، سنن ترمذی پر طالع آزمائی کی اور اس کو بھی پورا کیا، حجۃ اللہ البالغہ کی تشریح کے دفاتر تیار کیے؟ ایسے کتنے قلم تاریخ نے محفوظ کیے ہیں جن کی انفرادی کارگزاری میں مذکورہ بالا دواوین درج ہیں ؟
اس کے برعکس پیشِ نظر مثالیں ’’اے بسا آرزوکہ خاک شدہ!‘‘ کا منظربیان کرتی ہیں ، خاکے خوب بنائے گئے؛ لیکن رنگ بھرنے کے خواب شرمندئہ تعبیر نہ ہوسکے اور اس صورتِ حال سے بڑے بھی مستثنیٰ نہیں ، خود بخاری کی کتنی شروح ہیں ، جن کی علمی قیمت اپنی جگہ؛ لیکن اکثرناتمام ہیں اور بعض تو ایک دوجلدوں تک محدود رہ گئیں ، ان میں بکھرے جواہر پارے قدردانوں کے صبر کا امتحان لے رہے ہیں ، کیسے جام ہیں جو چھلکائے گئے؛ لیکن بادہ خوارتشنہ ہیں ، محفلیں سجائی گئیں ؛ مگر سیری نہیں ہوئی، حضرت الاستاذؒ کے علمی منصوبوں کو دستِ غیب کا یہ تعاون ہمیشہ حاصل ہوا کہ جس کام کی تحریک اٹھائی اس کو انجام تک پہنچایا۔
تدریس کی طرح تصنیف میں بھی آپ کاطرزجداگانہ ہے، جو یقینا سہل بلکہ سہلِ ممتنعہے، ان کا جو یہ طریقہ ہے کہ وہ درپیش بحث پر سیرحاصل گفتگوپہلے کرتے ہیں اور عبارت کے حل کی سمت بعد میں آتے ہیں ، یہ جتنا کامیاب، مؤثر اور پرکشش ہے اتنا ہی مشکل اور دشوار بھی ہے، اس کی اولین شرط یہ ہے کہ متکلم کو بحث پر عبور حاصل ہونے کے ساتھ مضمون مرتب بھی ہواور بیان کے لیے یہ درجہ حاصل کرنا جوئے شیرلانے سے کم نہیں ۔
تحفۃ الالمعی اور تحفۃ القاری دونوں دواوین ہماری طالبِ علمی کے بعد کے نقوش ہیں ، تحفۃ الالمعی سے استفادے کا موقع کم ہوا؛ تاہم تحفۃ القاری کا مستقل خوشہ چیں ہوں ، ایضاح البخاری سے تعلق کی وجہ سے قدیم مراجع کی طرح، اہم معاصر شروح بھی پیش نظر ہیں ، موجودہ پسِ منظر میں شرح پر پڑنے والی نظر استفادے کے ساتھ ساتھ جانچ پرکھ اور نقد وتحقیق کو بھی شامل ہوتی ہے؛ اس لیے تحفۃ القاری سے متعلق تاثراندھیرے کا تیر نہیں ہوگا؛ بل کہ ذاتی مشاہدے وتجربے کے حکم میں ہوگا۔
تحفۃ القاری کی خصوصیات
اس عظیم تصنیف کی اولین خصوصیت یہ ہے کہ وہ اردوزبان میں بخاری شریف کی ایک مکمل شرح ہے، فی زمانہ ہمارے سامنے اردو زبان میں صحیح بخاری شریف کی متعدد شروح ہیں ؛ لیکن ان میں سے بیشتر ناتمام ہیں ؛ جب کہ بعض ایسی بیش قیمت اور نابغۂ روزگار ہیں کہ ان کا ناتمام ہونا حسرتِ آیات سے کم نہیں ، جیسے محدثِ بجنور، علامہ احمد رضابجنوری کی ’’انوارالباری شرح صحیح بخاری‘‘، جس کی سطرسطر میں علم کے خزانے پنہاں ہیں ؛ لیکن بہ ہرحال وہی ہوتا ہے جو منظور خداہوتاہے!۔
دوسری خصوصیت یہ ہے کہ حضرت والا نے اختصار کے ساتھ صحیح بخاری کو حل کردیا ہے، حضرت کی شرح کے بعد نسبتاً کم استعدادوالوں کے لیے بھی بخاری کے تراجم ومضامین اوراحادیث کو سمجھنا ممکن اورآسان ہوگیاہے، حضرت کی شرح کے علاوہ اردو میں غالباً دوشرح اور دستیاب ہیں جو مکمل ہیں ؛ لیکن دونوں حلِ عبارت سے قاصر ہیں ؛ بل کہ حضرت مفتی تقی صاحب عثمانی دامت برکاتہم کے دروس پر مشتمل جوانعام الباری آئی ہے، اس کو تو شرح سمجھنا ہی زائدبات ہے؛ اس لیے کہ اس میں حضرت کے درس کومن وعن کتاب کی شکل دے دی گئی ہے، یہی وجہ ہے کہ اس میں عین درس کی مانند صفحات کے صفحات بغیرکسی کلام کے گذرتے ہیں ، حلِ عبارت کے نقطئہ نظر سے دوسری شرح کاحال بھی ناگفتہ بہ ہے؛ تاہم یہ ممکن ہے کہ ثانی الذکر کے شارح کے پیش نظر بھی کوئی دیگر مقصود ہو، جس میں وہ شرح کامیاب ہو؛ لیکن حل بخاری کے لیے وہ یقینا کافی نہیں ۔
تیسری خصوصیت یہ ہے کہ حضرت نے کتاب میں جامعیت کے ساتھ اختصار کو پیش نظر رکھا ہے، حضرت نے کتاب کے حل کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں رکھا؛ لیکن حضرت کو اس بات کا بہ خوبی اندازہ تھا کہ اگر شارحین کی بحثوں میں توسع کی جانب گئے، تو عمرعزیز کافی نہیں ہوگی؛ اس لیے بحثوں کو سمیٹتے ہوئے حل کتاب پر توجہ مبذول کی ہے، اس طریق کی تفسیر کرتے ہوئے، حضرت بے تکلف تعبیر میں یوں فرماتے تھے کہ میں پنچایت نہیں کرتا کہ فلاں نے یہ کہا اور فلاں نے یہ کہا، میں تو وہ بیان کرتا ہوں جو مجھے سمجھ میں آیا؛ خلاصہ یہ کہ حضرت نے عبارت کو حل کرتے ہوئے، صحیح بخاری کی تفہیم وتوضیح کا حق ادا کردیاہے۔
چوتھی خصوصیت کو حضرت کی تمام تصانیف کی خصوصیت سمجھنا چاہیے کہ وہ عبارت کے ذکر سے قبل ہی بحث کو اس کے مبادی کے ساتھ ذہن نشین کردیتے ہیں ، اس طرح مضمون ذہن نشین ہوجاتا ہے اور بات دل میں راسخ ہوجاتی ہے؛ تاہم یہ طرزاختیار کرنا آسان نہیں ، ظاہر ہے کہ اس مشکل طریق کو اپنانے میں آپ کی کامیابی بھی کوئی سادہ بات نہیں ہوسکتی؛ یقینا اس کے پسِ پشت ریاضت اور مجاہدے کی ایک داستان ہوگی۔
تدریس وتصنیف کی طرح خطابت میں بھی آپ کا اسلوب وانداز بالکل جداگانہ تھا، خاص رنگ، پیارا انداز، دل کو لبھانے والی ادا، بولنے میں ایک نوع کا ٹھہرائوتھا، جس سے مضمون عام فہم ہوجاتا تھا، زبان کی سلاست وروانی مجمع کو باندھے رکھتی تھی، جو عموماً ازدحامِ عظیم کی شکل میں ہوتا، بیشتر خطاب دراز ہوتے؛ لیکن سامعین کی بشاشت میں تغیرممکن نہیں تھا، ہمہ تن گوش کا منظرازاوّل تا آخر یکساں قائم رہتا۔
تدریس وتصنیف کی مانند، خطابت کی لائن سے بھی آپ نے ایک عالم کو فیض یاب کیا، اس نسبت سے دنیا بھر میں آپ کو یاد کیاگیا، مشرق ومغرب میں عوام وخواص نے آپ کو سنا، احاطۂ دارالعلوم میں بھی منصبِ خطابت آپ ہی کے لیے محفوظ تھا۔
مادرِعلمی میں تعلیمی سال کے آغاز کی انتہائی خاص مجلس ہوکہ جس میں علمی دنیا کا کریم سامنے ہوتا تھا، یا انبوہِ عظیم پر مشتمل عوامی اجلاس، یادانش گاہوں کے خالص علمی پروگرام، یا ملک بھر کے چنیدہ اہل فقہ وفتاویٰ کا اجتماع، ہر رنگ وآہنگ کے خطاب پر یکساں عبور تھا اور ہرماحول کی نزاکتوں کو بڑی پُرکاری سے نبھالے جاتے تھے۔
آپ کے بیانات، دراصل علمی، فکری اور تربیتی مضامین وابحاث سے تعبیر ہیں ، فی زمانہ بیانات کا رجحان عروج پر ہے، آپ کے سلسلے کو اس کا حصہ گرداننا کوتاہ بینی ہوگی، علمی وفکری خزانوں کے لحاظ سے آپ کے بیانات کا درجہ، آپ کی معرکۃ الآراء تصانیف اور شہرئہ آفاق دروس سے کم نہیں ہے، بہت اچھا ہوا کہ آپ کے بیانات پر ترتیب وتدوین کا کام ہوا اور ان کو کتابی شکل میں طبع کیاگیا، آج وہ ’’علمی خطبات‘‘ کے نام سے اہل ذوق کے لیے سامانِ شفاء بنے ہوئے ہیں ۔ کاش! بقیہ بیانات بھی زیورطباعت سے آراستہ ہوجاتے تو امت کو بڑا فائدہ ہوتا۔
فکر ونظر کا خاص ذوق
آپ نوع بہ نوع موضوعات پر تدبر وتفکر کا خاص ذوق اور متواتر شغل رکھتے تھے، ممکن ہے یہ وصف اپنے استاذِ خاص حضرت علامہ محمد ابراہیم بلیاوی علیہ الرحمہ سے گہرے تاثر کا نتیجہ ہو، آپ کے اس ذوق کے دوثمرات مرتب ہوئے: ایک یہ کہ بعض مسائل میں آپ نے ایک نئی رائے قائم کی اور اس نوع کی تخلیقی فعالیت نے، روایات کے گلشن میں ،افکارِ تازہ کے گلہائے رنگارنگ کھلائے، دوسرا یہ کہ قدیم مباحث کو نئی ترتیب حاصل ہوئی، اول الذکر ثمرہ اہل علم کے یہاں زیربحث رہا ہے؛ لیکن دوسرا فائدہ نہایت انمول ہے، یعنی بات تو اکابر ہی کی ہے؛ لیکن اس کو ایک خاص انداز میں سمیٹاگیا ہے اورجدید ترتیب سے آراستہ کیاگیا ہے، آپ کے دروس اورآپ کی تصانیف میں یہ نگینے جگہ جگہ جلوہ گر ہیں ۔
کئی سال قبل لبنان کے ایک بہت ہی ذی علم شافعی عالم دیوبند آئے ہوئے تھے؛ انھوں نے بڑی جدوجہد سے باضابطہ تعلیمی ویزالے کر داخلہ لیا تھا، اس پوری کارروائی میں میرے خاص دوست، حضرت مولانا مفتی محمد انوار خان بستوی قاسمی حفظہ اللہ نے ان کی مدد اور رہنمائی کی تھی، ان کی وساطت سے مذکورہ عرب عالم کے ساتھ میرا بھی قریبی تعلق رہا، ایک روز وہ شدید تاثر میں تھے، دریافت کرنے پر کہنے لگے کہ آج تو عجیب ہوگیا کہ حضرت مفتی سعید صاحب علیہ الرحمہ نے، إنما الاعمال بالنیات کی ایسی تشریح کی جو میرے لیے بالکل نئی تھی اور نہایت علمی اور دل چسپ تھی، ان کو مطلع کیاگیا کہ حضرت کے علمی عجائب کا یہ ایک نمونہ ہے۔
آپ کے دروس، تصانیف، حواشی او رعلمی خطبات کو بہت حد تک آپ کا نتیجۂ فکر سمجھنا چاہیے، اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ آپ کے نقوش وآثار نے اسلامی لائبریری کی ثروت میں اضافہ کیا ہے اور علم کی سرسبزی اور اس کے سرگرم سفر کی روانی میں اپنا قیمتی حصہ شامل کیا ہے، بہت سے مباحث میں آپ کا یہ شہرئہ آفاق موقف رہا کہ اختلاف نص فہمی کا ہے، اس خصوصیت کو بھی اسی خاص پسِ منظر میں دیکھنا چاہیے؛ بل کہ آپ اپنے خوردوں کو بھی اس کی دعوت وترغیب دیتے تھے، مختلف مجالس میں فرمایا کہ میں تو خوب سوچتا ہوں ، تم بھی سوچو اور اس علمی سفر کو آگے بڑھائو۔
بے تکلفی وسنجیدگی
حضرت کا مزاح بھی عالم آشکارہے،جو آپ کے حسین جمالیاتی ذوق کا عکاس ہے اور آپ نے جس طرح اس کو نبھایا وہ کرامت سے کم نہیں ؛ کیوں کہ عصر بعد کی مجلس ہو، عوامی جلسہ ہو، یادرسِ حدیث کی مسند ہو؛ آپ کے رکھ رکھائو، خاص وضع اور علمی وقار سے، ماحول پر ایک پُرہیبت فضا طاری رہتی تھی؛ لیکن اسی مہیب سناٹے میں ، خاص مناسبت سے کوئی لطیفہ سناتے اور ماحول زعفران زار ہوجاتا اور حاضرین تازہ دم ہوجاتے، مجمع کو علمی مضامین گھول کر پلانے کے لیے سنجیدہ ماحول بنانا اوراسی لمحہ لوٹ پوٹ کرنے کے لیے محفل کو باغ باغ کرنا؛ یہ دونوں متضاد کرامتیں آپ کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھیں ، آپ ہر ماحول میں ہنسانے پر قادر تھے، ہنساتے تھے اور خوب ہنساتے تھے اور بڑوں بڑوں کو لوٹ پوٹ ہونے پر مجبور کردیتے تھے۔
مجھے تکمیل ادب کے سال کا، حضرت والا کا ایک شگفتہ بیان، بیس سال بعد بھی ایسا ہی تازہ ہے جیسے کل کی بات ہو، ہفتم اولیٰ کی درس گاہ میں محاضرات سے متعلق کوئی اجتماعی پروگرام، استاذِگرامی حضرت قاری عثمان صاحب دامت برکاتہم کی زیرصدارت جاری تھا، منصبِ خطابت پر حضرت پالن پوری علیہ الرحمہ جلوہ گر تھے،اس روز حضرت کی طبیعت خوب کھلی اور پورے رنگ میں نظرآئے، مجھے حضرت صدرِجلسہ کا ہنس ہنس کر بے حال ہونا اور گرتے گرتے سنبھلنا کل کی طرح یاد ہے۔
شگفتہ مزاجی میں بہت بے تکلف ہوتے ہوئے بھی دیکھا اور اس رومیں ایسے لطائف بھی سنے کہ اس امانت کو آگے بڑھانا، ہرکس وناکس کا کام ومقام نہیں ، رفقائے درس میں حضرت کے ایک صاحب زادے بھی تھے اور وہ سامنے ہی بیٹھتے تھے؛ لیکن مزاجِ عالی اگر آمادئہ شگفتگی ہوجائے، تو پھر کسی کا خیال نہیں فرماتے تھے اور بے تکلفی اسی عروج پر ہوتی، جو عروج کمالِ وقار کو کچھ وقت قبل حاصل تھا، ابراہیم بھائی جائے پناہ دیکھتے اور ساتھیوں کی شریر ومعنی خیزنگاہیں ان کا تعاقب کرتیں ۔
حضرت جب سنجیدگی کے موڈ میں ہوتے، تو اس کا اہتمام بھی حددرجہ فرماتے، پھر مجال نہیں کہ کوئی زیرلب بھی مسکرائے، ترمذی شریف کے سبق میں اس حوالے سے ایک تنبیہ میرے حصے میں بھی آئی، حضرت نے خاص لہجے میں فرمایا: ’’سنجیدگی سے سن، کیا ہوں ہوں ہنستا ہے‘‘!۔
دارالعلوم کے مردِ بحران
سب جانتے ہیں کہ اختلاف کے ایام میں اضطراب وانتشار اپنے عروج پر تھا، دیگر مصیبتوں کے علاوہ طلبہ کا تعلیمی زیاں موجبِ قلق تھا؛ اس لیے اس وقت ایک عارضی نظامِ تعلیم کی تحریک ہوئی، اس نظام کے روح رواں آپ ہی تھے، اس کے قصے بڑوں کی زبانی بہت سنے گئے اور اس وقت تدریس کی باگ ڈور، جس طرح آپ نے سنبھالی، وہ اپنے آپ میں ایک تاریخ ہے۔
بعد کے دور میں بھی جو فتنے رونماہوئے، ان کی آگ بجھانے میں ہم نے آپ ہی کو پیش پیش دیکھا، ہماری طالبِ علمی میں بھی ایک بڑا ہنگامہ ہوا، تعلیم کی پرسکون فضا اچانک ہیجانی ماحول میں تبدیل ہوگئی اور ایک طوفان کھڑاہوگیا، حضرت مہتمم صاحب علیہ الرحمہ کی طرف سے مسجدِرشید میں طلبہ کو جمع کیاگیا، اس موقع پر حضرت الاستاذ علیہ الرحمہ نے بہت مؤثر خطاب کیا، جس میں فتنے کے عواقب سے متنبہ کیا اور اس کو فرو کرنے کا جونسخہ احادیث میں آیا ہے، یعنی دوڑنے والا اپنی جگہ کھڑا ہوجائے، کھڑاہوا شخص بیٹھ جائے اور بیٹھا ہوا لیٹ جائے؛ اس کی نہایت دل کش تشریح کی، طلبہ مطمئن ہوگئے اور فتنہ سرد پڑگیا۔
فناء فی العلم
ایک خاص چیز جو آپ کو معاصر اساطین واعیان سے ممتاز کرتی ہے، وہ علمی یکسوئی ہے، آپ نے خود کو علم کے لیے وقف کرلیا تھا، غیرعلمی سرگرمیوں سے خود کو سمیٹ کر فناء فی العلم ہوکر رہ گئے تھے، خلوت ہویا جلوت، صرف اور صرف علمی شغل تھا اور کچھ نہیں ، یہ رنگ اس درجہ غالب تھا کہ غیرعلمی گفتگو بھی ناگواری کا موجب ہوتی تھی، بسا اوقات برملا اس کا اظہار بھی فرمادیتے تھے؛ حتی کہ عصر بعد کی مجلس بھی اسی مزاج میں ڈوبی ہوتی تھی، طلبہ مختلف علمی سوال کرتے اور حضرت ان کی تشفی کرتے، اگر سکوت طاری ہوتا، تو خود تحریک کرتے اور فرماتے: ’’بھائی! کچھ پوچھو بولنے سے بِیر بکتے ہیں !
فی زمانہ مجالس کا یہ رنگ علماء کے یہاں بھی مفقود ہے، ایک تو عصر کے بعد تفریحِ طبع کا ذہن ہوتا ہے، دوسرے بعض کے یہاں بالقصد علمی گفتگوکو غیرمستحسن سمجھا جاتا ہے، ان کے یہاں امورِ سیاست اور کوائف زمانہ کے واقف کار ہی مجلس پرحاوی رہتے ہیں ، یہ چیزبھی قبیح نہیں ؛ بل کہ امور زمانہ سے باخبر رہنا بھی اپنی جگہ اہم تر ہے؛ تاہم علمی مذاکروں کا، اہل علم کی مجالس سے یک لخت اٹھ جانا اور اس سے ہمارا صاف کترانا بھی لمحۂ فکریہ ہے، حضرت الاستاذ علیہ الرحمہ کے یہاں مجلس میں بھی علمی مذاکرے کی میراث زندہ وتابندہ رہی۔
عرق ریزی و جانفشانی
نقش ہیں سب ناتمام خونِ جگر کے بغیر
نغمہ ہے سودائے خام خونِ جگر کے بغیر
(علامہ اقبال)
آپ کی زندگی عمل پیہم کا بھرپور استعارہ ہے، آپ کے مسلک میں جہدمسلسل، ’’علت العلل‘‘ کا جزولاینفک تھی، ان کا ایقان یہ تھا کہ انسان کی مساعی ہی، قدرت کی پراسرار قوتوں کو مشکل کشائی اور سرپرستی کی جانب راغب کرتی ہیں ۔
چنانچہ پیرانہ سالی میں بھی نوجوانوں سے زیادہ مصروفِ عمل دیکھا گیا، ولولۂ عمل سے بے تاب دل ہمیشہ جوان رہا، آپ کے جملہ آثارِعلمیہ کو انھیں شب وروز کی کاوشوں کا خون بہا سمجھنا چاہیے، کوہ کنی اور سنگ تراشی میں نازک مزاجی کا کوئی دخل نہیں ، ہم نے اپنے اکابر اور آپ کے معاصرین کو بھی کھلے دل سے اس جانفشانی کا اعتراف کرتے ہوئے دیکھا اور سنا اور حلقۂ احباب کو تو اس احساس پر غریق ندامت پایا کہ پیرانہ سالی، ضعف اور عوارضِ صحت کے علی الرغم، حضرت کی مساعی جلیلہ، ہماری کاوشوں سے کہیں زیادہ بڑھی ہوئی تھیں ۔
حق گوئی وبیباکی
آئین جواں مرداں حق گوئی و بیباکی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی
(علامہ اقبال)
حق گوئی میں بے نظیر تھے، بہ بانگِ دُہل اپنی بات رکھنے کے لیے جو جرأتِ ایمانی درکار ہے، وہ حضرتِ حق سے بہ افراط پائی تھی، اس کی ایک دو نہیں ، درجنوں مثالیں ہیں ، نیز اس کا مشاہدہ کرنے والے بھی ہزاروں کی تعداد میں ہیں ۔
مجھے یاد آرہا ہے کہ آپ کی بنگلور تشریف آوری ہوئی تھی، میں اس وقت مسیح العلوم میں مدرس تھا، شہر کی مشہور مسجد ’’قادریہ مسجد‘‘ میں آپ کا خطاب تھا، مسجد حاضرین سے کھچاکھچ بھری ہوئی تھی، مجمع مرفہ الحال اور تعلیم یافتہ تھا، جس میں مختلف افکاروخیالات کے لوگوں کی نمائندگی تھی، حضرت والا کسی موضوع پر گفتگوفرماتے ہوئے مودودیت پر آگئے اوراس شان سے گفتگوکی جیسے دیوبند کی دارالحدیث میں تشریف فرماہوں ، مجمع پر سناٹا چھایاہوا تھا اورمخلصین اس ڈر میں سانسیں روکے ہوئے تھے کہ مبادا کسی گوشے سے گستاخانہ ردعمل نمودار ہو؛ لیکن آپ کے بیان وخطاب کارعب بھی دیدنی ہوتا تھا، سب گردنیں بدستور خم رہیں اور ماحول کی خوشگواری میں فرق ڈالنے والا کوئی واقعہ رونما نہ ہوا۔
اسی قبیل کا ایک اور قصہ یاد آیا اور وہ بھی شہربنگلور ہی کی مرکزی ’’مسجدسراسماعیل سیٹھ فریزر ٹاون‘‘ کا ہے، حضرت ایک بہت بڑے مجمع کو خطاب کررہے تھے اور حسنِ اتفاق کے دارالعلوم کے اکابر اساتذہ میں سے، ایک دیگر استاذِگرامی بھی تشریف فرماتھے اور وہ باہر والے حصے میں ایک جانب تھے، میں بھی ان کے قریب بیٹھا تھا، واقفِ حال جانتے ہیں کہ اس مسجد سے مربوط طبقہ بہت حدتک وسیع المشرب اور جدید سوچ وخیال کا حامل ہے، حضرت نے مجمع کی نبض دیکھ کر اسی کا علاج شروع کیا اور بہت صاف صاف سنائی، مجھے اس بیان کا ایک وقفہ مستحضر ہے، جس نے مسجد کے دروبام پر سکتہ طاری کردیا تھا۔
یہ اس وقت کی بات ہے جب موبائل کی آمد کی خبریں اخباروں تک محدود تھیں اور مواصلات کا انحصار لینڈلائن پر تھا، متدین گھرانوں میں اس بات کا اہتمام ہوتا تھا کہ نئی کال گھر کا مردہی رسیو کرے، جب کہ جدید گھرانوں میں توسع تھا، مردوں کے ہوتے ہوئے بھی خواتین کی سبقت قبیح نہیں سمجھی جاتی تھی، حضرت نے اس پر تنبیہ کے لیے سخت تعبیر منتخب کی، مزید کام لب ولہجے نے کیا، جملہ کیا تھا ایک بجلی تھی، جو پوری قوت کے ساتھ بلااستثناء سب پر گری، میرے قریب تشریف فرماحضرت الاستاذ نے بھی اس کی شدت کو محسوس کیا۔
نیز ان سب سے بڑھ کر وہ واقعہ ہے، جس کی شہرت دور دور تک ہوئی، بنگلور میں حضرت مولانا مفتی محمد شعیب اللہ خان صاحب دامت برکاتہم، بانی ومہتمم جامعہ اسلامیہ مسیح العلوم بنگلور نے ’’تحفظ شریعت‘‘ کے عنوان سے اپنی نوعیت کی سب سے بڑی اور تاریخی کانفرنس بلائی تھی، اس رات ’’قدوس صاحب عیدگاہ‘‘ کے میدان میں پوراہندوستان موجود تھا، دارالعلوم کے اکابر،ندوۃ العلماء کے اکابر وغیرہ زینت اسٹیج تھے، اجلاس میں بنگلور کے ایک بزرگ عالم دین نے اپنے بیان میں بعض قابلِ اعتراض نکات شامل کردیے، حاضرین دم بہ خود رہ گئے، مجمع میں ایک عجیب ہیجانی کیفیت طاری تھی، حضرت الاستاذ رحمہ اللہ کا تفصیلی بیان پہلے ہوچکاتھا، حضرت دوبارہ خطاب کی کرسی پر تشریف لائے اور جملہ اکابر کی موجودگی میں ، مذکورہ بالافکر کی گمراہی کا اعلان فرمایا،اس وقت کا ماحول دیدنی تھا؛ کیوں کہ شہر بنگلور کے وہ مالک ہوتے تھے، یوں اعلانیہ رد، ذاتی خطرات کو دعوت دینے سے کم نہ تھا اور ایسا ہوا بھی؛ چناں چہ دھمکیاں بھی دی گئیں اور بنگلور میں داخلے کی پابندی کے عہدوپیمان بھی ہوئے۔
یہاں دوباتیں قابلِ ذکر ہیں : ایک تو یہ کہ برملا اظہارِحق، آپ کا خاص ذوق تھا، دوسرے یہ کہ وہ حق گوئی میں ہمالیائی حوصلہ رکھتے تھے اور اس حوالے سے وہ ہر طرح کی ترغیب وترہیب سے بے نیاز تھے، یہ ایک دوواقعات محض مثالیں ہیں ، حضرت کا یہ مزاج خاص تھا اور سیکڑوں لوگ اس جلوے کے شاہد ہیں ؛ گویا مذہب ومشرب ہی حق گوئی تھا، جس بات کو وہ اپنے نزدیک حق سمجھتے تھے، اس کو بلاتامل، بے کم وکاست، بدون ہموار کیے، مصلحت وموقع کا انتظار کیے بغیر، بے ساختہ کہہ ڈالنا، ان کے یہاں معمولی بات تھی، ایسا محسوس ہوتا تھا، جیسے روح القدس یا دستِ غیب آپ کا مؤید ہے!
قدامت پر اصرار
کیا عشق نے سمجھا ہے کیا حسن نے جانا ہے
ہم خاک نشینوں کی ٹھوکر میں زمانہ ہے
متاعِ دین ہی اہل اللہ کا سرمایہ ہے، اس خرمنِ حیات کے پیچھے قربانیوں کی ایک داستان ہوتی ہے، جسے وہ اپنے خودنِ جگر سے رقم کرتے ہیں ، دورِ جدید کی بیشتر پیش رفت اسی متاعِ عزیز پر شب خون مارتی ہیں ؛ اس لیے اہلِ نظر ان سے قربت بنانے میں محتاط ہوتے ہیں ، اس سے انکار نہیں کہ بسا اوقات اس احتیاط میں بھی تجاوز ہوجاتا ہے؛ لیکن کیاکریں قزاقوں کی نگری میں ، شک مزاجی ہی سلامتی کی ضامن ہے؛ بعض جدید سہولیات سے اکابر کے ابتدائی نفور کو اسی پسِ منظر میں دیکھنا چاہیے، اس حوالے سے حضرت الاستاذ علیہ الرحمہ بھی غایت درجہ ذکی الحس تھے، حضرت الاستاذ علیہ الرحمہ اپنے استاذِگرامی حضرت علامہ محمدابراہیم بلیاوی علیہ الرحمہ کے حوالے سے بیان کرتے تھے کہ ایک مرتبہ ان کے خدام یا فرزندان نے پُرانا فرش اٹھادیا، تو بڑی حسرت سے فرمایاکہ ’’سعید! ایک دن یہ فرش ہی تبدیل ہوجائے گا اور یہاں نئی نئی چیزیں درآئیں گی‘‘۔
حضرت ایک مرتبہ جامعہ مسیح العلوم تشریف لائے، راستے میں کسی نے حضرت امام مالکؒ کے مشہور ارشاد: ’’لَنْ یَصْلُحَ آخِرُ ہذہِ الأمۃِ إلَّا بِمَا صَلُحَ بِہٖ أوَّلُہا‘‘ کی تشریح دریافت کی، حضرت نے سکوت اختیار فرمایا، جامعہ آمد پر دفترتشریف لے گئے، جہاں کرسیوں کا نظام تھا، حضرت نے کرسی پر بیٹھنے سے گریز کیا اور دوسری جانب نیچے تشریف فرماہوئے اور سائل سے مخاطب ہوئے کہ اس اثر کا مفہوم یہی ہے؛ گوکہ حضرت نے خود آخر میں بہ عذر کرسی استعمال کی اور ظاہر ہے کہ مسیح العلوم کے دفتر میں بھی کرسیوں کا نظم، عذر وضرورت اور کاموں کی انجام دہی میں سہولت وغیرہ کے پیش نظر ہی کیاگیا تھا۔
یادوں کے صفحات
آئی جو اُن کی یاد تو آتی چلی گئی
ہر نقشِ ماسوا کو مٹاتی چلی گئی
مادرِعلمی دارالعلوم دیوبند میں داخلے کا خواب ۱۹۹۷ء کو پورا ہوا؛ گوکہ میرا یہ ششم کا سال تھا؛ لیکن آپ کا جادو سرچڑھ کر بول رہا تھا، اس وقت صحت بھی عمدہ تھی، گوشہ گوشہ آپ کے جمال وکمال کی خوشبو سے معطر تھا، سابقہ سال میرے برادرِکبیر جناب مولانا فخرالدین قاسمی کی فراغت کا سال ہے، وہ ممتاز طلبہ میں تھے، اگر تدریس اختیار کرتے، تو ان کی بھی ایک شان ہوتی، خط نہایت صاف تھا، ترمذی شریف کا درس اہتمام سے ضبط کیا تھا، حضرت کی تعریف میں رطب اللسان رہتے تھے، بالکل نوعمری میں بندے کے قلب پر اولین نقوش یہیں سے ثبت ہوئے۔
ایک خاص دل فریب ادا
احقر کو بعض پروگراموں کے لیے رابطہ کرنے کا بھی اتفاق ہوا اور بعض رابطہ کاروں کی تحریک دیکھنے کا بھی موقع ملا، اس سلسلے میں احقر نے ایک خاص ادانوٹ کی، پروگرام کا لفظ سنتے ہی غایت درجہ بے رخی اختیار فرماتے اورایسا جواب دیتے کہ سامنے والا قطعی مایوس ہوجائے، نووارد کی تحریک یہیں اختتام پذیر ہوجاتی؛ لیکن اگر کوئی واقف کار ہوتا، تو دعوتِ قدم رنجائی میں معقولیت شامل کرتا، تو مان بھی لیتے تھے، میں نے بعض کرتب بازوں کو بھی کامیاب ہوتے دیکھا، ایک صاحب بہت ہی فن کار ہیں ، وہ عصر کے بعد حاضر ہوئے، حضرت نے ان کے نمودار ہوتے ہی دونوں ہاتھ اٹھاکر معافی کی خواستگاری کا اشارہ دیا، انھوں نے جیسے ہی پروگرام کی بات چھیڑی، حضرت نے درمیان میں قطع کلامی کرتے ہوئے، ان کو مایوسی آمیز حتمی جواب دیا، وہ پہنچے ہوئے تھے، خاموش ہوگئے، قدرے توقف کے بعد دوبارہ سلسلہ جنبانی کرتے ہوئے کہنے لگے کہ حضرت سفر کے بارے میں آپ کی مرضی؛ لیکن مجھے یہ عرض کرنا ہے کہ مسجد کے سنگِ بنیاد کا معاملہ ہے اور ایک صاحبِ خیرنے یہ کہا ہے کہ اگر حضرت مفتی صاحب دامت برکاتہم تشریف لاتے ہیں ، تو تعمیر کے مکمل اخراجات میں دوں گا، بہ صورت دیگر میری طرف سے کوئی عہد نہیں ، یہ تیر کام کرگیا اور حضرت نے فوراً فرمایا: ٹھیک ہے جمعہ کا دن رکھ لو، قسطوں والی ترکیب کو میں نے بھی کامیابی کے ساتھ آزمایا اور بخت آور رہا۔
اس سلسلے میں حضرت تعلق کو حددرجہ نبھاتے تھے، حضرت نے بعض ایسے مقامات کے لیے بھی زحمتِ سفرگوارا کی، جہاں نام اور کام خاص نہیں تھا؛ لیکن زمامِ کارکسی قدیم خادم کے ہاتھوں میں تھی۔
فضائی سفر سے متعلق میراسوال اورآپ کا جواب
فضائی سفرمیری خاص کمزوری ہے، ٹکٹ کنفرم ہوتے ہی پسینہ پسینہ ہوجاتاہوں ، ایئرپورٹ کی سمت دوڑتی ہوئی سواری، مقتل کی جانب کشاں کشاں لیجائے جانے کاتصور پیدا کرتی ہے، میں نے دہلی ایئرپورٹ پر، حضرت کے سامنے اس کا شکوہ کیا، حضرت نے بے تکلف انداز میں تین سوال کیے کہ بتائومرنے کا وقت مقرر ہے؟ جگہ مقررہے؟ سبب مقررہے؟ اثبات کے جواب پر فرمایا: پھر ڈرکس بات کا ہے؟ حضرت کے خاص انداز نے کم ازکم اس وقت راحت پہنچائی اور وہ سفر نسبتاً آسان گذرا۔
دل چسپ فون کال
کئی سال قبل کی بات ہے، حضرت ایک مسئلے کی تحقیق فرمارہے تھے، میں نے سرسری طور پر عرض کیا کہ یہ بات ایک عرب عالم نے فلاں کتاب میں لکھی ہے اور اس موضوع پر مبسوط کلام کیا ہے، بات آئی گئی ہوگئی، پھر اس بحث نے زورپکڑا، تو ایک شب مجھے حضرت کا فون آیا، میرے پاس اس وقت حضرت کا نمبر نہیں آیا تھا، دوسری طرف سے آواز آئی کہ میں ’’سعیداحمد‘‘ بول رہا ہوں ، مجھے آواز کی شناخت نہیں ہوئی، تو میں نے لاپرواہی میں کہا: بولوکیا کہنا ہے! حضرت نے دوسری بار میں فرمایا کہ ’’میں سعیداحمد پالن پوری بول رہا ہوں ‘‘، تب میں ناگاہ اپنی اوقات میں آیا، حضرت نے فرمایا کہ مجھے عرب عالم کی وہ بحث درکار ہے، سردی شباب پر تھی اورکہرے میں کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا، حضرت نے کسی کو بھیجنے کی پیش کش کی؛ لیکن وہ کاغدات لے کر حاضرِ آستانہ ہونا میری سعادت تھی، اس لیے صبح سویرے لے کر حاضر ہوا اور دعائیں لیں ۔
تعلیم میں لاپرواہی پر اولاد کی فہمائش
میری معین مدرسی کے دور میں حضرت کے ایک صاحب زادے کا سبق متعلق تھا، اس کو بسااوقات سبق میں دل چسپی کم ہوجاتی تھی، ایک مرتبہ کئی دن کا ناغہ ہوگیا، میں اور رفیقِ محترم حضرت مولانا توحیدعالم بجنوری قاسمی، استاذ دارالعلوم دیوبند، حضرت کو آگاہ کرنے کے لیے دولت کدے پر حاضر ہوئے، اس وقت رہائش سابقہ مکان میں تھی، پہلی منزل پر کونے کاکمرہ مطالعے اورملاقات کے لیے تھا اور وہیں سے ایک دروازہ زنانے حصے کی طرف بھی کھلا تھا۔
حضرت کی خاص ادا تھی کہ روزمرہ آنے والوں کے علاوہ کسی کو دیکھتے تو فوراً آنے کا سبب دریافت فرماتے، ہم نے معاملہ پیش کیا، کئی دن کی غیرحاضری کو سن کر حضرت بہت خفا ہوئے، فرط غضب میں اولاً تو ہماری خبرلی کہ اطلاع دینے میں اتنی تاخیر کیوں کی؟ پھر صاحب زادے کو طلب کیا اور سخت تنبیہ فرمائی۔
شاگردوں کی حوصلہ افزائی
دورئہ حدیث میں اوّل آنے پر انعام کے سلسلے میں کچھ فرمانے کے لیے مجھے گھر طلب کیا، میں عصربعد حاضرہوا، تو مخصوص مہمانوں کا ایک وفد موجودتھا، مخصوص میں نے اس لیے کہا کہ حضرت بعد میں ان کو رخصت کرنے کے لیے باہر سڑک تک تشریف لائے تھے، ان کی توجہ میری طرف مبذول کرائی اور بہت حوصلہ افزائی کی۔
ہمارے سال میں ترمذی شریف کے ششماہی نتیجے پرشاکی ہوئے تھے، فرمایاتھاکہ مجھے صرف دوکاپیاں پسند آئیں ، اس وقت نمبرات کا منتہی عدد پچاس تھا، جس کو حاصل کرنے والے دوطالب علموں میں سے ایک میں تھا اور دوسرے رفیقِ محترم مفتی محمد مزمل بدایونی، استاذ دارالعلوم دیوبند تھے، جن کو حسبِ سابق ششماہی امتحان میں اول آنے کا امتیاز بھی حاصل ہوا تھا، اس امتحان میں عاجز نے اس خوشی پر اکتفا کیا تھا کہ کُل ممتحنہ چارکتابوں میں سے، بخاری اور ترمذی دونوں میں پچاس نمبرآئے تھے اور یہ امتیاز بھی فقط متذکرہ بالا دوطالب علموں تک محدود تھا۔
دل چسپ مذاکرے
ایک مرتبہ میں نے علاماتِ قیامت اور ظہورمہدی وغیرہ سے متعلق گفتگوکی، حضرت کی رائے یہ تھی کہ ابھی اس کا وقت دور ہے، حضرت نے فرمایا کہ ظہور مہدی کی سب سے بڑی علامت یہ ہے کہ ترکی پر غیروں کا قبضہ ہوگا؛ کیوں کہ احادیث میں آیا ہے کہ ظہورمہدی سے قبل مسلمان قسطنطنیہ فتح کریں گے اور اس کے لیے خون بہانے کی نوبت نہیں آئے گی؛ بل کہ نعرئہ تکبیر سے فتح ہوگا اور ابھی چوں کہ ترکی پر مسلمانوں کی حکومت ہے؛ اس لیے ظہور مہدی کا امکان نہیں ہے۔
میں نے جب قربِ قیامت پر اصرار کیاتو فرمایا کہ تو ایضاح البخاری لکھنا بند کردے، جب تیرے نزدیک قیامت بس آنے ہی والی ہے، تو اس کو لکھنے کا کیا فائدہ؟
میں نے ایک بار لکھنے پڑھنے کے عوارض بیان کیے؛ بالخصوص گھریلوموانع کا ذکر کیا، تو فرمایاکہ تیرے بس کی بات نہیں ہے، تم لوگ کچھ نہیں کرپائوگے، پھر فرمایاکہ میں نے زندگی میں ماچس تک خود نہیں خریدی، اولاً یہ امور امین کے ذمے تھے، بعد میں بچوں نے سنبھال لیے۔
تمام خاکے مکمل
ایک اور چیز جو آپ کو معاصرین ہی نہیں ، بہت سے اکابرینِ امت سے بھی ممتاز کرتی ہے، وہ یہ ہے کہ آپ اپنے کرنے کا تمام کام کرگئے اورہر کام بڑی آسانی سے گویا ہنستے ہنستے کرگئے، بڑے بڑے منصوبے بنائے اوران کو بہ خوبی مکمل کیا اور علم وفکر کا بڑا ورثہ چھوڑگئے:
میں آج مرکے بھی بزم وفا میں زندہ ہوں
تلاش کر میری محفل، مرا مزار نہ پوچھ
علالت اور انتقال
شوگر کے قدیم عارضے کے باوجود مجموعی طور پر حضرت کی صحت وتوانائی ہمیشہ بہتر دیکھی گئی؛ اس لیے جب دو مواقع پر تشویش کی صورتِ حال بنی، تو اس کو ناگاہ سمجھا گیا، پہلا موقع دل کے عارضے کا تھا، جو کامیاب آپریشن پر منتہی ہوا، اس وقت بھی یاس کی لہر آئی تھی، دوسرا موقع یہ تھا، جو دارفانی سے کوچ پر منتہی ہوا، یہ سلسلہ رجب میں دورانِ درس زبان بندی سے شروع ہوا تھا؛ لیکن چوں کہ زبان رکنے کی تکلیف سابق میں بھی ایک بار پیش آئی تھی اور علاج سے اس کا ازالہ ہوتا رہا تھا؛ اس لیے شاید کسی نے بھی اس میں خطرے کی علامت محسوس نہیں کی اور ان کا یہ ادراک درست تھا؛ چناں چہ حسبِ سابق ممبئی کے علاج سے افاقہ ہوا؛ یہاں تک کہ آپ نے طویل خطاب بھی کیے؛ لیکن پھر طبیعت ناساز ہوئی اوراس بار مختلف عوارض نے ہجوم کیا؛ وقتِ موعود آگیاتھا؛ اس لیے قضاء غالب آئی اور تدابیر کارآمد نہ ہوئیں ۔
عالمی وبا کورونا وائرس کی وجہ سے آمدورفت کی راہیں مسدود تھیں ؛ اس لیے سانحۂ جان کاہ نے دوہرا غم دیا، جو جہاں تھا وہیں تڑپ کر رہ گیا، نہ روئے مبارک کی زیارت ملی، نہ نماز کی سعادت، ایک غم نہیں تھا غموں کے پہاڑ تھے:
رہنے کو سدا دہر میں آتا نہیں کوئی
تم جیسے گئے ایسے بھی جاتا نہیں کوئی
(کیفی اعظمی)
حضرت الاستاذ علیہ الرحمہ ہمارے درمیان نہیں رہے؛ لیکن ان کے چھوڑے ہوئے نقوش وآثار، اس ناقابلِ تسخیرسلسلۂ کوہ کی مانند، ہمارے سامنے پھیلے ہوئے ہیں کہ جس کی بلندوبالا دل کش چوٹیاں ، آنے والی نسلوں کو دعوتِ شوق کے نظارے کے ساتھ، ذوقِ جادہ پیمائی بھی دیتی رہیں گی:
بارے دنیا میں رہو غم زدہ یا شاد رہو
ایسا کچھ کرکے چلو یاں کہ بہت یاد رہو
(میرتقی میر)
بہ حالتِ غنودگی آپ کی زیارت
بندے کو بہ حالتِ غنودگی دوبار آپ کی زیارت ہوئی اور یہ عجیب اتفاق ہے کہ ہردو دفعہ غنودگی، یعنی بین النوم والیقظہ ہی دیکھا، پہلی دفعہ روئے مبارک دیکھا، جو تازہ ہشاش بشاش اور درخشاں محسوس ہوا، حضرت حسبِ عادت تبسم فرمارہے تھے، بس اسی پر میں اٹھ بیٹھا، یہ ۲۷؍رمضان کی بات ہے اور دوسرا واقعہ عید کے بعد کا ہے، اس بار آپ کو گفتگوکرتے ہوئے دیکھا، درمیان میں آپ نے پان تھوکا اور پھر سلسلۂ کلام شروع فرمایا۔
خاتمہ
عاجز کی داستان انجام کو پہنچی، میں زبان وبیان کاآدمی نہیں ہوں ، حضرت کے کمالات کا بیان میری باریابی سے بالاتر ہے، اس مضمون میں شایدکوئی بات ایسی ہو، جو قارئین کی معلومات میں اضافے کا سبب بنے، حضرت الاستاذ علیہ الرحمہ کی بارگاہ میں گلہائے عقیدت پیش کرنے کا سلسلہ جاری ہے، ہزاروں تاج دارانِ قلم کی گردنیں آپ کے حقوق سے گراں بار ہیں ، جن کو حقِ تلمذ کی ادائے گی کے فریضے کا احساس بھی ہے؛ اس لیے بہترین تخلیقات آئندہ بھی نمودارہوں گی؛ میں توبہ صدقِ دل کہتا ہوں کہ ان سطور کی تسوید کے بہارنے، کچھ وقت حضرت الاستاذ کی یادوں میں گزارنا چاہتا تھا، اللہ کا شکر ہے کہ غرضِ بالا کی تحصیل میں بامراد ہوا۔
تجھ بن تیرا شہر ویران بہت ہے
گلی چُپ ہے بازار سنسان بہت ہے
تیری صدائیں ہیں چار سو بکھری ہوئی
تیری تلاش میں نگاہ پریشان بہت ہے
اور اخیر میں ان دو اشعار کے ساتھ اجازت چاہتاہوں :
نہ دید ہے نہ سخن، اب نہ حرف ہے نہ پیام
کوئی بھی حیلۂ تسکین نہیں اور آس بہت ہے
امیدِ یار نظر کا مزاج درد کا رنگ
تم آج کچھ بھی نہ پوچھو کہ دل اُداس بہت ہے
(فیض احمد فیض)
الوداع حضرت الاستاذ!
———————————————-
دارالعلوم ، شمارہ :7-6، جلد:104، شوال المكرم – ذی القعدہ 1441ھ مطابق جون –جولائی 2020ء
٭ ٭ ٭