حضرت مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری

ایک عہدآفریں شخصیت

از: مولانا محمد ساجد قاسمی ہردوئی

استاذ تفسیر وادب دارالعلوم دیوبند

            مورخہ ۲۵؍رمضان المبارک ۱۴۴۱ھ(۱۹؍مئی۲۰۲۰ء)کو حضرت الاستاذ مفتی سعید احمدصاحب پالن پوری (شیخ الحدیث وصدر المدرسین دار العلوم دیوبند)کی رحلت آپ کے اہل خانہ ، ہم کنبۂ دارالعلوم  اور تما م وابستگان حلقۂ دیوبند؛ بلکہ عالم اسلام کے علمی حلقوں کے لیے بہت بڑا حادثہ ہے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔

            آپ نہ صرف دار العلوم دیوبند اور حلقۂ دیوبند بلکہ عالم اسلام کی چنیدہ شخصیات میں سے تھے ،  آپ اپنی تصنیفات وتالیفات  اور علمی جلالت شان کی وجہ سے بیرون ممالک کے علمی حلقوں میں بھی معروف تھے اور وہ حلقے آپ کی علمی عظمت کے معترف تھے، اسی لیے آپ کے انتقال پر پوری دنیا سے تعزیتی پیغامات کا سلسلہ بندھ گیا۔

ایک عہد آفریں شخصیت

            واقعہ یہ ہے کہ آپ ایک عہد آفریں شخصیت کے مالک تھے، آپ اپنے درس وتدریس ، تصنیف وتالیف اور تربیت ورہنمائی کے لحاظ سے ایک فر د نہیں ؛بلکہ ایک انجمن تھے۔ آپ کی وفات سے ایک عہد کا خاتمہ ہوگیا اور ایک انجمن سونی پڑ گئی۔ آپ کی پوری زندگی جہد مسلسل سے عبارت تھی اور نئی نسلوں کے لیے آپ کی زندگی میں بہت کچھ سیکھنے کی چیزیں ہیں ۔

            زمانۂ طالب علمی سے لے کر وفات سے چند روز قبل تک جہد مسلسل  اور پیہم علمی اشتغال کے نتیجے میں اللہ تعالی نے آپ کو علمی جامعیت سے نوازا تھا، آپ کو متداول اسلامی علوم پر بڑی دستگاہ تھی،  ان میں سے ہر ایک میں آپ کا حصہ تھا، کسی بھی علمی موضوع پر آپ بڑی بصیرت کے ساتھ گفتگو کیا کرتے تھے ، جس سے سامعین بھی مطمئن ہوجاتے اور اس موضوع پر ان کو بصیرت بھی حاصل ہوتی تھی۔ یہ آپ کی علمی جامعیت کی دلیل تھی۔ دار العلوم دیوبند میں وقتاً فوقتاً ہونے والے علمی وتربیتی اور اصلاحی پروگراموں میں آپ کا خطاب ہوتا تھا، آپ کا خطاب بہت وقیع،پر مغز اور بصیرت افروز ہوتا ۔ جو آپ کی علمی شخصیت کا  عکاس ہوتاتھا۔

یکسوئی و علمی اشتغال

            آپ  وقت کے انتہائی پابند تھے، اسباق اور میٹنگوں میں ٹھیک وقت پر پہنچتے تھے ، اور وقت کی پابندی کی ہم مدرسین اور طلبہ کو نصیحت بھی کیا کرتے تھے۔ آپ اپنے معمولات کے بڑے پابند تھے ، حتیٰ کہ کبھی کبھی بعد نماز عصر اپنے لکھنے پڑھنے کا معمول جاری رکھتے تھے؛ البتہ اگر طلبہ یا اساتذہ آپ کے پاس عصرکے بعد جاتے تو ان سے پوری توجہ سے گفتگو کرتے تھے۔ آپ نے اپنے آپ کو تدریسی اور علمی مصروفیات کے لیے یکسو کرلیا تھا ، آپ  نہ کوئی انتظامی ذمے داری سنبھالتے تھے اور نہ سیاسی یا نیم سیاسی مسائل میں پڑتے تھے اور نہ ہی اس قسم کے جلسوں میں شریک ہوتے تھے؛ البتہ جمعیۃ علماء ہند کے زیر انتظام ادارۃ المباحث الفقہیۃ کے فقہی سیمیناروں میں تقریبا پابندی سے شریک ہوتے تھے، جب کہ جمعیۃ کے عمومی اجلاسات میں آپ شرکت نہیں کرتے تھے۔ جو علمی و دینی خدمات آپ نے انجام دیں وہ یکسوئی اور زندگی کے ہنگاموں سے اپنے آپ کو دور کھے بغیر ممکن نہیں تھیں ۔

دوشخصیتوں کی کتابوں سے غیر معمولی دلچسپی

            آپ نے تدریس وتعلیم کے ساتھ مدرسی کی شروعات ہی سے تصنیف وتالیف کا آغاز کردیا تھا ۔ آپ نے جن شخصیات کو زیادہ پڑھا ان میں سے ایک امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور دوسرے حجۃ الاسلام مولانا محمد قاسم نانوتوی ہیں ۔ آپ ان دونوں کے فکر وفلسفے سے زیادہ متاثر تھے؛ چنانچہ آپ نے اول الذکر کی کتابوں کا نہ صر ف مطالعہ کیا؛بلکہ آپ  نے ان پر کام بھی کیا ، آپ نے شاہ صاحب کی کتاب الفوز الکبیر کے فارسی نسخے سے عربی میں ترجمہ کیا اور العون الکبیرکے نام سے اس کی عربی شرح بھی لکھی۔ شاہ صاحب کی دوسری کتاب حجۃ اللہ البالغہ جو آپ کا علمی شاہ کار ہے، آپ نے دارالعلوم میں عرصۂ دراز تک اس کی تدریس کی خدمت انجام دی۔ اور اس پر عربی میں حواشی بھی لکھے ، نیز اس کی اردو زبان میں رحمۃ اللہ الواسعہ کے نام سے مبسوط شرح بھی لکھی جوآپ کا ایک اہم علمی کارنامہ ہے۔

            ثانی الذکر حضرت نانوتوی کی کتابوں کا بھی آپ نے گہرائی وگیرائی کے ساتھ مطالعہ کیا اور اپنے حاصل مطالعہ کو ’’افادات قاسمی‘‘ کے نام سے مرتب کیا، جو ماہنامہ الفرقان لکھنؤسے قسط وار شائع ہوئے۔ نیز اسی طرح آپ نے حضرت نانوتوی کی کتاب توثیق الکلام کی نہایت آسان شرح کے انداز میں (کیا مقتدی پر فاتحہ واجب ہے؟) نامی کتاب بھی مرتب کی ۔

            اس کے علاوہ آپ نے متعدد درسی کتابوں بالخصوص قرآن کریم کی تفسیر اورحدیث کی کتابوں پر کام کیا۔ جن میں قرآن کی تفسیر ہدایت القرآن اور بخاری کی شرح تحفۃ القاری اور ترمذی کی شرح تحفۃ الالمعی قابل ذکر ہیں ۔

تقریر و تحریر میں اچھوتا انداز

            اللہ تعالی نے آپ کو تقریر وتحریر کا بہت سہل وآسان اور اچھوتا انداز عطا فرمایا تھا، آپ اسباق کے مضامین کو بہت سہل وآسان اور دلنشیں انداز میں پیش کرتے تھے، چنانچہ مشکل سے مشکل مسائل کو عام فہم انداز میں پیش کرتے ، جنھیں سننے والے بآسانی سمجھ لیتے تھے اور مشکل ہونے کے باوجود ان کو سمجھنے میں کسی قسم کی کوئی دقت نہیں ہوتی تھی۔

            یہی حال آپ کی تحریر کا بھی تھا ، آپ کا اسلوب سادہ ، عام فہم اور بلا کی سلاست لیے ہوئے تھا،  مشکل اور پیچیدہ مسائل کو آسان انداز میں پیش کرنے کا آپ کو بڑا ملکہ تھا، آپ کے اسلوب کو سہل ممتنع کہا جاسکتا ہے، یعنی اسلوب اتنا آسان کہ اس سے آسان ممکن نہ ہو۔حضرت شیخ الہند کی کتاب ادلۂ کاملہ کی آپ نے تسہیل کی اور اپنے خاص اسلوب میں اس کے مسائل کی توضیح کی۔ میرے وطن کے ایک بڑے عالم  نے آپ کی اس کتاب کی زبان اور اس کے اسلوب تحریر کی بڑی تعریف کی جن کا ذوق ادب نکھرا ہوا ہے ۔

قابل رشک زندگی      

            حضرت مولانا عمید الزماں صاحب (برادر خورد حضرت مولانا وحید الزماں صاحب)آپ کے رفیق درس تھے، فراغت کے بعد دار العلوم میں عربی زبان میں ترجمہ اور تحریری کاموں کے لیے  ملازم رکھے گئے۔ کچھ مدت یہاں کام کیا ، اس کے بعد دہلی چلے گئے اور سعودی سفارت خانے میں ملازم ہوگئے ، اس وقت سفارت خانے میں مولانا کی تنخواہ چالیس ہزار تھی یہ اب سے تقریباً تیس سال پہلے کی بات ہے ۔ جب کہ مدارس میں اس وقت تنخواہ تین چارہزارسے زیادہ نہیں ہوتی تھی۔ مفتی صاحب نے ایک بار ان سے کہا کہ بھائی عمید الزماں صاحب آپ اتنی تنخواہ کا کیا کرتے ہیں : اوڑھتے ہیں یا بچاتے ہیں ۔منشاء یہ تھا کہ اتنی بڑی تنخواہ کا مصرف کیا ہے؟

            جب کہ مفتی صاحب کی مدرسے سے قلیل تنخواہ تھی اور کتابوں کی معمولی سی تجارت تھی، آپ اسی   پر گذر بسر کرتے تھے۔

            اس کے بعد اللہ تعالی نے آپ کے یہاں مالی وسعت عطا فرما ئی اور آپ نے بلا تنخواہ پڑھا یا بلکہ ماضی میں جو تنخواہ لی تھی اسے واپس بھی کردیا ۔

            مولانا عمید الزمان صاحب آپ کے بارے میں فرماتے تھے کہ ان کے پاس دین بھی ہے اور دنیا بھی۔ اوروہ خوددار العلوم کی ملازمت چھوڑ کر سفارت خانے کی ملازمت اختیارکرنے پر افسوس کا اظہار کرتے تھے۔

عادات واخلاق

            آپ انتہائی خلیق اور ملنسار تھے،  اور اپنے خوردوں کے ساتھ خوش طبعی اور بے تکلفی  کے ساتھ پیش آتے تھے۔ دیکھا یہ گیا ہے کہ کچھ لوگ اپنے ارد گرد وقار کا ایک ہالہ بناکے رکھتے ہیں ، خوردوں کا ان کے پاس بے تکلفی سے کوئی بات کرنا یا ہنسنا گستاخی تصور کیا جاتا ہے۔ حضرت مفتی صاحب کے یہاں اس طرح کی کوئی بات نہیں تھی؛ چنانچہ ہم لوگوں سے خوش طبعی کی باتیں کرتے، اور ہم لوگوں سے بھی کچھ سنانے کے لیے کہتے۔ آپ کی ایک خوبی سب کے ساتھ ہمدردی اور خیر خواہی کا معاملہ تھا، ہم لوگ جب بھی اپنی انتظامی  یا ادارہ جاتی کوئی ضرورت لے کر گئے تو اسے بغور سنا اور اس سلسلے میں ممکنہ تعاون بھی کیا۔

اصابت رائے

            اللہ تعالی نے آپ کو اصابت رائے سے بھی نوازا تھا، علمی مسائل ومعاملات میں آپ کی رائے بہت صائب ہوتی تھی، اور بڑی جرأت کے ساتھ آپ اپنی رائے رکھتے تھے۔

خوردوں کی علمی رہنمائی وحوصلہ افزائی

            آپ علمی کاموں میں رہنمائی ا ور بڑی حوصلہ افزائی کرتے تھے اور مفید آراء سے بھی نواز تے تھے؛ چنانچہ بہت سے لوگو ں نے آپ کی رہنمائی اور سرپرستی میں کتابیں تصنیف کیں اور مصنف بن گئے۔ ناچیز نے دار العلوم میں آنے کے بعد حضرت نانوتوی کی کتابوں کا عربی میں ترجمہ شروع کیا، اور جب وہ تراجم شیخ الہند اکیڈمی کی جانب سے طبع ہوکر آئے تو میں نے آپ کی خدمت میں انھیں پیش کیا۔ آپ نے بڑی حوصلہ افزائی فرمائی ، اور اس وقت آپ نے حجۃ اللہ البالغہ کا ایک نسخہ دیاعربی زبان میں جس کی تحقیق و تعلیق کا کام آپ نے کیا تھا وہ ابھی ابھی طبع ہوکر آئی تھی اور کہا کہ اس کتاب کو اس قسم کا کام کرنے والے سمجھیں گے۔

            ناچیز نے دارالعلوم میں آنے کے بعد جو کچھ تھوڑا بہت کام کیا وہ آپ کی خدمت میں پیش کیا، آپ نے اسے ملاحظہ فرمایا اور اس کے سلسلے میں کوئی مفید رائے اور مشورہ ضرور دیا۔ تحصیل علم کے موضوع پر میں نے اپنا مختصر رسالہ(تحصیل میں اسلاف کی قربانیاں )آپ کی خدمت میں پیش کیا تو آپ نے اسے پورا پڑھا اور اگلی ملاقات پر فرمایا کتاب اچھی ہے؛ البتہ اس میں فلاں فلاں واقعہ  مناسب نہیں ہے، اسے اگلے ایڈیشن میں نکال دینا۔

            نیز جب میں نے ’’تیسیر الانشائ‘‘ کے سلسلے کا پہلا جزء مرتب کیا اور طبع ہونے کے بعد آپ کی خدمت میں پیش کیا تو آپ نے اسے پسند فرمایا؛ البتہ بعض آراء بھی دیں اور فرمایا جب اگلے اجزاء مرتب کرنا تو طبع کرانے سے پہلے مجھے دکھانا۔ چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا۔ دوسرا جزء جب مرتب کیا تو اسے آپ کو دکھایا اور آپ کے مشوروں کے مطابق اس میں ترمیم کی ، نیز تیسرے جزء کی ترتیب کے وقت بھی ایسا ہی کیا۔ طبع ہونے کے بعدجب میں نے تیسرا جزء پیش کیا تو آپ نے مجھے ایک ہزار روپیہ دیا اور فرمایا کہ پانچ سو اس جزء کا ہدیہ ہے اور پانچ سو پچھلے جزء کا ۔  

            جیساکہ میں اوپر ذکر کرچکا ہوں کہ آپ کو حضرت نانوتوی کے فکر وفلسفے سے بہت گہرا لگاؤ تھا اور اس موضوع پر آپ نے کام بھی کیا تھا؛ چنانچہ اس موضوع پر آپ کی رائے بہت اہمیت کی حامل تھی، اسی طرح اس موضوع پر کام کو پسند بھی کرتے تھے۔ ابھی چند سال پہلے دارالعلوم وقف نے حضرت نانوتوی پر ایک سیمینار کرنے کا فیصلہ کیا تھا، حضرت نانوتوی کی شخصیت سے متعلق موضوعات  کی فہرست آئی اور مجھے بھی ایک موضوع پر لکھنے کے لیے کہا گیا ۔ میں نے اپنے لیے (فلسفۂ قاسمی:منہج اور اصول)کے موضوع کا انتخاب کیا۔ 

            حضرت نانوتوی کی کتابوں کے ترجمہ کے دوران آپ کی کتابوں اور تحریروں کو غور سے پڑھنے کا موقع ملا، میں نے دیکھا کہ حضرت کے یہاں کچھ اصول ہیں کہ جن کی روشنی میں آپ گفتگو کرتے ہیں ،  آپ  پہلے اصول ذکر کرتے ہیں اس کے بعد جزئیات ان پر متفرع کرتے ہیں ۔ میں نے اپنے اس مضمون میں حضرت کے انہی اصولوں کو اور ان کی تفریعات کو پیش کرنے کی کوشش کی۔ مضمون مکمل کرکے سیمینار کے منتظمین کے حوالے کردیا؛ لیکن سیمینار کسی وجہ سے ملتوی ہوگیا۔ تو میں نے مضمون اشاعت کے لیے ماہنامہ دار العلوم میں دے دیا ، چنانچہ وہ شائع بھی ہوگیا۔

            ایک دن میں عصر کے بعد آپ کی مجلس میں گیا تو آپ نے ماہنامہ دار العلوم میں شائع ہوئے  میرے اس مضمون کا تذکرہ کیا اور فرمایا کہ میں نے ماہنامہ میں آپ کا مضمون پڑھا ، وہ بہت اچھا ہے میں یہ سمجھتا تھا تمھارا عربی اردو میں ترجمہ کا ذوق ہے ،  مجھے نہیں اندازہ تھا کہ حضرت نانوتوی کی فکر سے متعلق تم ایسا مضمون لکھ سکوگے۔ تمہارا مضمون بہت اچھا ہے۔ میں نے عرض کیا کہ ترجمہ کے دوران حضرت نانوتوی کی کتابوں کو غور سے پڑھنے کا اتفاق ہوا، حضرت کے فلسفے سے متعلق یہ چیزیں میرے ذہن میں آئیں جنھیں میں نے مرتب کردیا۔ اس کے بعد آپ نے حضرت نانوتوی کی کتابوں پر کام کرنے کا طریقہ بتایا ، غالباً آپ نے فرمایا کہ حضرت کی وہ کتابیں اور تحریریں جو قابل فہم ہیں ان کو موضوع وار مرتب کرکے عام قارئین کی خدمت میں پیش کیاجائے، اس موقع پر آپ نے حضرت نانوتوی کی جن کتابوں پر کام کیا اس کا بھی تذکرہ کیا اور آپ کے جو مضامین افادات قاسمی کے عنوان سے قسطوار ماہنامہ الفرقان میں شائع ہوئے ان کا بھی ذکر کیا۔

اساتذہ کے لیے قیمتی نصائح

            آپ کو اپنے اساتذہ میں سے علامہ ابراہیم بلیاویؒ سے خصوصی تعلق تھا ، آپ  ان کی یہ وصیت  ہم اساتذہ کی مجلس میں ہمیشہ نقل کیا کرتے تھے۔ آپ نے فرمایا کہ میں نے دار العلوم سے رخصتی کے وقت حضرت علامہ سے کہا کہ حضرت مجھے کوئی نصیحت کردیجیے۔ چنانچہ علامہ نے تین باتوں کی نصیحت فرمائی ، آپ نے فرمایا:

            مولوی صاحب!

            ۱-         فن دیکھ کر پڑھانا علم آئے گا۔

            ۲-        طلبہ کو اپنی اولاد سمجھنا طلبہ تم سے محبت کریں گے۔

            ۳-        سنت پر عمل کرنا مقبولیت حاصل ہوگی۔

            نیز آپ اساتذہ کی مجلس میں یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ کسی بھی کتاب کی تدریس کے وقت اس فن کی چھوٹی بڑی تمام کتابوں کا مطالعہ کرو ، مثال کے طور پر فقہ میں اگر کسی کتاب کی تدریس متعلق ہوئی ہے تو نیچے نور الایضاح اور اوپر ہدایہ اور درمختار تک کا مطالعہ کرو۔ یہ مطالعہ اپنے لیے ہوگا طلبہ کو صرف ضروری  باتیں ہی بتانی ہیں ۔آپ جو کچھ فرماتے تھے وہ بالکل صحیح تھا کسی فن پر استیعابی نظر اسی طرح  کے مطالعہ سے ہو سکتی ہے۔

            آپ یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ اپنے لیے کسی ایک فن کو منتخب کرکے اس میں مہارت حاصل کی جائے، اور اسے اپنا اختصاصی فن بنایاجائے ، اس سلسلے میں بعض اساتذہ کی مثال بھی دیتے تھے جو کسی فن میں اختصاص کے لیے مشہور ہیں ۔

            مطالعے کے سلسلے میں آپ کی یہ رہنمائی بھی بڑی قیمتی ہے جو آپ مجلس میں اساتذہ کے سامنے ذکر کیا کرتے تھے کہ کسی کتاب ؍فن کا مطالعہ کیا جائے اس کے بعد استنتاج (نتیجہ اخذکرنا)کیا جائے۔  یہ بات صحیح ہے کہ نتیجہ اخذکرنا ہی حاصل مطالعہ ہے۔محض معلومات اکھٹا کرنے اور اس کا ثمرہ حاصل نہ کرنے سے مطالعے کا عمل نامکمل رہتا ہے۔

            مجھے یاد آیا کہ میں نے کسی جگہ پڑھا تھا کہ احمد امین نے کسی سے اس کے مطالعہ کے نظام الاوقات  کے بارے میں معلوم کیا تو اس نے بتایا کہ صبح سے رات گئے تک میں مطالعہ کرتا ہوں تواحمد امین نے اس سے کہا کہ جب سارا وقت تم مطالعے میں لگاتے ہو تو جو مطالعہ کیا ہے اس میں غور وفکر کرکے نتیجہ کب حاصل کرتے ہو؟

ہم آپ کو رخصت نہ کرسکے

            الغرض آپ ہمارے درمیان سے چلے گئے، اور ایک ناقابل تلافی خلا اپنے پیچھے چھوڑگئے،  ہمارے درمیان آپ کی یادیں اور کتابوں کی شکل میں انمٹ نقوش باقی ہیں ۔ شعبان میں آپ کی  طبیعت ناساز ہوئی اور بغرض علاج ممبئی تشریف لے گئے، آپ کو افاقہ بھی ہوگیا، رمضان میں آپ نے تراویح کے بعد بیان کا سلسلہ بھی شروع کیا جو نشر ہو ا اور لاکھوں لوگوں نے اس سے استفادہ کیا، اس سے یہ اندازہ ہورہا تھاکہ اب آپ کی طبیعت بالکل ٹھیک ہوگئی ہے؛ لیکن پھر طبیعت بگڑی اور علاج کے باوجود سنبھل نہ سکی، اور ہم سب کو ہمیشہ کے لیے داغ مفارقت دے کر چلے گئے۔ کیا معلوم تھاکہ دیوبند سے آپ کا یہ سفر آخری ہے اور اب دوبارہ کبھی واپس نہیں آئیں گے۔ اس سے بھی زیادہ ہم سب کے لیے تکلیف دہ بات یہ ہے کہ کورونا جیسی وبائے عام اور بلائے ہمہ گیر کی وجہ سے ہم لوگ بلکہ آپ کے اہل خانہ(سوائے دو بیٹوں کے)بھی آپ کا آخری دیدار نہ کرسکے اور نہ جنازے میں شریک ہوسکے ۔

            ہم لوگو ں کا حال حضرت مفتی صاحب کے سلسلے میں تقریباً وہی ہے جو کسی شاعر کا بغداد اور اس کے مکین کے تئیں تھا:

لعَمْری ما فارقتُ بغداد عن قلی            لوأنی وجدتُ من فراقٍ لہا بُدَّا

کفی حُزْنًا أن رُحْتُ لم أستطِعْ لہا          وَدَاعا ولم أُحْدِث بسَاکِنہا عہدًا

(بخدا میں نے بغداد کو کسی خفگی ونارضگی کی وجہ سے نہیں چھوڑا،اگر میں اس کو چھوڑنے کے علاوہ کوئی چارہ پاتا(تو میں اسے ہرگز نہ چھوڑتا)۔

میرے غم کے لیے یہ بات کافی ہے کہ میں اسے رخصت نہیں کرسکااور اس کے مکین کے ساتھ کوئی عہدو پیمان نہ باندھ سکا۔

——————————————-

دارالعلوم ‏، شمارہ :7-6،    جلد:104‏،  شوال المكرم – ذی القعدہ 1441ھ مطابق جون –جولائی 2020ء

٭           ٭           ٭

Related Posts