شیخ الحدیث وصدر المدرسین دارالعلوم دیوبند
حضرت اقدس مفتی سعید احمد صاحب پالن پوریؒ
نقوش وتاثرات
از: مولانا منیرالدین احمد عثمانی نقشبندیؔ
استاذ دارالعلوم دیوبند
۲۴؍رمضان المبارک ۱۴۴۱ھ مطابق ۱۹؍مئی ۲۰۲۰ء کی صبح ۷؍بجے کروناوائرس کی دہشت تھی، سناٹا تھا، دیوبند کی گلیاں اور شاہراہیں خاموشی کی چادریں اوڑھے ہوئے گہری نیند میں ڈوبی ہوئی تھیں کہ ایک صاعقہ اثر خبرپردۂ سماعت سے ٹکرائی کہ مسند حدیث کا مہتاب غروب ہوگیا،جس کی ضیاء پاشیوں سے ہزاروں ستارے روشن ہوتے تھے، اس کے غروب ہونے سے ان گنت تاروں کی روشنی ماند پڑگئی، کتنے گلشن حدیث اس کی ضیاء باریوں سے سرسبز وشاداب دکھائی دے رہے تھے، اس کے غروب ہوجانے سے خزاں رسیدہ نظرآرہے ہیں ،گلشن حدیث کے ہزاروں گلوں کو اس کی چمک سے خوشبوئیں فراہم ہوتی تھیں ، اس کے ڈوبنے سے خوشبوئیں معدوم نظر آرہی ہیں ، کتنی کلیوں کو اس کے وجود سے کھلنا نصیب ہوتا تھا، اس کے غروب ہونے سے بن کھلے مرجھا گئیں ، اس کے وجود سے بے شمار احادیث نبویہ کے شجر ثمربار ہوتے تھے، اس کے غروب ہونے سے وہ اشجار بے ثمر ہوکر رہ گئے، اس کے وجود سے ہزاروں تشنگان احادیث کو سیرابی ملتی تھی، اس کے عدم سے سیرابی کے لیے تڑپ رہے ہیں ، وہ ماہتاب استاذ گرامی مرتبت، شیخ الحدیث وصدرالمدرسین دارالعلوم دیوبندحضرت اقدس مولانا مفتی سعید احمدصاحب پالن پوری کی ذات گرامی ہے، جس کے پردۂ عدم میں چلے جانے سے اس عاجز کی آنکھیں اشک بار ہیں ، جگر پارہ پارہ ہے،طبیعت غم واندوہ کی مسموم ہوائوں سے جھلسی ہوئی ہے، آلام ومصائب کی تیز وتند آندھی سے دل مضطرب ہے، نہ محفل میں اطمینان ہے نہ تنہائیوں میں سکون، اضطراب ہی اضطراب ہے، پورا ماحول سوگوار ہے، آلام ومصائب اتنے شدید ہیں کہ اگر وہ روشن دنوں پر ڈال دئے جائیں تو تاریک شب میں تبدیل ہوجائیں ؎
صُبَّتْْ عَلَیَّ مَصَائِبٌ لَوْاَنَّہَا
صُبَّتْ عَلَی الْاَیَّامِ صِرْنَ لَیَالِیَا
اس عاجز کی طرح ہزاروں تلامذہ اپنے مشفق استاذ گرامی مرتبت کی جدائیگی کے غم سے نڈھال، اولادواحفاد اپنے بے مثیل والد کے اس سفر پر چلے جانے سے جہاں سے کوئی واپس نہیں آیا، بے پناہ حزین وپُرملال، جو اپنی اولاد کے لیے نہ صرف باپ؛ بلکہ ایک شیخ وقت ،پیر طریقت، جو اپنے سالک کی ہر چہار سمت نظر رکھتا ہے، شفیق ایسے کہ ہر سو شفقت برستی تھی، اپنی اولاد میں سے ہر ایک کو دنیاوی اعتبار سے خود کفیل بنانے کے خواہشمند اور دینی لحاظ سے سب کو دیندار دیکھنے کے آرزومند رہتے تھے، اس عاجز پر توحد سے زیادہ مہرباں وکرم فرماتھے، یہ عاجز تقریباً تین سال محلہ کوٹلہ دیوبند میں حضرت کے پڑوس میں رہا، حضرت نے جس طرح حق پڑوس ادا کیا وہ ایک مومن کامل کی مثال ہے، اس دوران حضرت والا کی شفقتوں سے خوب متمتع ہوا۔
مارچ ۲۰۰۱ء میں بچوں کی دل لگی کے لیے ایک گراں قیمت مرغا خریدا، مگر کچھ ہی دنوں بعد کسی خیرخواہ کی نظر میں وہ مرغا بھا گیا،اور اس نے اس کو غائب کردیا، اس کے لیے حضرت اقدس گھر پر تشریف لائے، تعزیت فرمائی اور دیر تک تسلی کے کلمات ارشاد فرماتے رہے، جس سے دل کوبڑی تسکین نصیب ہوئی۔
جنوری ۲۰۱۹ء میں جب عاجززادی کا عقد نکاح میں نکاح خوانی کا مسئلہ آیا تو یہ عاجز ڈرتے ڈرتے مفتی اشتیاق احمد صاحب ، مدرس دارالعلوم کی معیت میں حاضر خدمت ہوا، اورعقد نکاح میں شرکت کی درخواست پیش کی، حضرت والاؒ نے بطیبِ خاطرمنظور فرمائی؛ حالانکہ حضرت کی طبیعت علیل تھی، کسی قسم کی مجلس میں شرکت نہیں فرماتے تھے، فرمایا کہ میں ضرور شرکت کروں گا،ساتھ ہی فرمایا کہ تمہاری امی(اہلیہ مرحومہ) سے تمہاری اہلیہ اور اس بچی کا بڑا گہرا ربط تھا؛ چنانچہ بعد نماز عصر جامع رشید میں مجلس نکاح منعقد ہوئی ،حضر ت نے شرکت فرمائی اور بڑی جامع اور مستجاب دعا فرمائی۔
حضرت استاذ گرامی، ان مؤفق اور بافیض علماء میں سے ہیں جن سے اللہ رب العزت نے تعلیم وتدریس اور تصنیف وتالیف کا خوب کام لیا، شمالی گجرات کا مردم خیز اور متدین علاقہ پالن پور، ضلع بناس کانٹھا، مقام کالیڑہ میں ۱۳۶۰ھ مطابق ۱۹۴۰ء میں حضرت کی ولادت باسعادت ہوئی، والد محترم نے بسم اللہ خوانی کی رسم ادا کی، پہلے گائوں کے مکتب سے اکتساب فیض کیا ، پھر گجرات کی معروف دینی درس گاہ دارالعلوم چھاپی، تحصیل علم دین کے لیے اپنے ماموں جان مولانا عبدالرحمن کے ہمراہ تشریف لے گئے، مگر اللہ رب العزت نے حضرتؒ کے لیے کچھ اور ہی سعادتیں مقدر فرما رکھی تھیں ، اس لیے صرف چھ ماہ کی مختصر مدت کے بعد مصلح الامت حضرت مولانا نذیر احمد صاحب پالن پوری کے ادارہ میں منتقل ہوگئے اور مولانا نذیر احمد صاحب کے مدرسہ کے فن کار ماہر اساتذہ کرام حضرت مفتی محمد اکبر صاحب پالن پوریؒ اور حضرت مولانا محمد ہاشم صاحب بخاریؒ سے ابتدائی سے شرح جامی تک کتابیں پڑھیں ، ۱۳۷۷ھ مطابق ۱۹۵۷ء میں شمالی ہندکی بافیض درس گاہ جامعہ مظاہر علم سہارنپور میں داخل ہوئے، اور فن نحو میں دسترس رکھنے والے امام النحو علامہ صدیق احمد صاحب جمویؒ سے تین سال تک کسب فیض کیا، فن نحو کے علاوہ ، فن منطق اور فلسفہ میں بھی استفادہ کیا۔
مادرعلمی دارالعلوم دیوبند میں اس وقت علم حدیث وفقہ کے آفتاب وماہتاب موجود تھے، حدیث وفقہ کی روشنی سے علمی دنیا کو روشن کررہے تھے، اور پوری دنیا ان کی ضیاء پاشیوں سے چمک رہی تھی، حضرت اقدسؒ نے بھی ان سب کے علمی نور کو اپنے دامن میں سمیٹنے کے لیے ۱۳۸۰ھ مطابق ۱۹۶۰ء داخلہ لیا، اور یکتائے روزگار ہستیوں سے علمی استفادہ میں مشغول ہوگئے، حدیث کے شناور، مسند حدیث کے شہ نشیں فخرالمحدثین حضرت مولانا فخرالدین صاحبؒ سے بخاری شریف کی تکمیل کی۔ فن منطق وفلسفہ میں پیش رو میں نظیر نہ رکھنے والے بے مثیل اور افہام وتفہیم میں منفرد شخصیت حضرت علامہ محمد ابراہیم بلیاویؒ سے مسلم شریف اور ترمذی شریف میں کسب فیض کیا ۔
دورۂ حدیث کے بعد فقہ وفتاویٰ کے روشن ستارہ حضرت مفتی مہدی حسن صاحبؒ سے فتویٰ نویسی کی تربیت حاصل کی، اس طرح اپنے زمانے کے یکتائے روزگار ہستیوں سے استفادہ کیا جس کی وجہ سے اللہ رب العزت کی ودیعت کی ہوئی صلاحیتوں میں خوب جِلا پیدا ہوا، اور آپ علیہ الرحمہ اپنے ہم عصروں میں ممتاز ہوگئے۔
مادرعلمی دارالعلوم دیوبندسے درس نظامی کی تکمیل کے بعد ۱۳۸۴ھ میں جامعہ اشرفیہ راندیر، سورت گجرات میں بحیثیت مدرس علیا آپ کا تقرر ہوا، اور مختلف علوم وفنون کی تدریس کے ساتھ کتب احادیث آپ سے متعلق رہیں ، جب تدریس کے لیے مادرعلمی سے روانگی عمل میں آنے لگی تو حضرت نوراللہ مرقدہٗ شیخ المعقول والمنقول حضرت علامہ محمد ابراہیم بلیاویؒ کی خدمت بابرکت میں حاضر ہوئے اور خصوصی نصیحت کی درخواست کی، اس پر حضرت علامہ نے فرمایا: صبح تشریف لائیے، چناں چہ صبح کے وقت حاضری پرتین گراں قدر نصیحت فرمائی۔فرمایا:
(۱) فن دیکھ کر پڑھائیے، علم آئے گا۔
(۲) طلبہ کو اپنی اولاد سمجھئے، طلبہ محبت کریں گے۔
(۳) سنت نبوی … کی پیروی کیجئے، لوگوں کی الفت نصیب ہوگی۔
چنانچہ حضرت اقدسؒ نے تینوں نصیحتوں کو دل کے گوش سے سنا اور ان پر عمل کی گرہ باندھ لی، جامعہ اشرفیہ راندیر ،سورت میں تدریس کے دوران ہی مفکر اسلام حضرت مولانا ابوالحسن علی ندویؒ کی عقابی نگاہ آپ پر پڑی، اور آپ نے دارالعلوم ندوۃ العلما لکھنؤ میں خدمت تدریس کی دعوت پیش کی، اوّلاً دعوت تدریس منظور فرمائی، پھر غور وفکر کے بعد جامعہ اشرفیہ کی خدمت تدریس کو ترجیح دی اور حضرت علی میاں ندویؒ کو (ممبئی حاضری پر) ممبئی میں جاکر معذرت پیش فرمادی۔
جامعہ اشرفیہ راندیر ،سورت میں دس سال خدمت تدریس کے بعد ۱۳۹۳ھ میں دارالعلوم دیوبندکی خدمت تدریس کے لیے آپ کا انتخاب عمل میں آیا، انتخاب کے بعد مختلف علوم وفنون کی کتابیں متعلق ہوتی رہیں ، اور آپ کامیاب تدریسی خدمات انجام دیتے رہے۔ استاذ گرامی قدر حضرت مولانا نصیر احمد صاحب کی علالت کے بعد ۱۴۲۹ھ مطابق ۲۰۰۸ء میں بخاری شریف اوّل آپ سے متعلق کی گئی اور آپ کو شیخ الحدیث وصدرالمدرسین کے عظیم منصب پر فائز کیا گیا، اور تاحین حیات اس منصب جلیلہ پر فائز رہے۔
منصب تدریس جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا منصب ہے، اس منصب کا میسر آنا توفیق باری تعالیٰ ہے، اور اس منصب کے حصول کے بعد اس کو غنیمت سمجھنا اتباع سنت ہے، حضرت نور اللہ مرقدہٗ نے اس منصب تدریس کو جان سے زیادہ عزیز سمجھا، جب درس کا وقت ہوجاتا تو کوئی سخت سے سخت چیز بھی رکاوٹ نہیں بن پاتی، موسم سرما کی برفیلی ہوائیں ہوں ، موسم گرما کی لُوزدہ آندھی، زمانۂ مرض کی تکلیف بھی آپ کی تدریس میں حائل نہیں ہوپاتی؛ بلکہ ڈاکٹروں کی تدریس کو منع کرنے کے باوجود تدریسی خدمت میں عافیت محسوس کرتے،اور گھنٹوں تدریس کے بعد تکلیف کے بجائے آرام وراحت محسوس کرتے، تدریس ایسی کہ جب حضرت نور اللہ مرقدہٗ کے درس کا وقت ہوتا تمام متعلقہ طلبہ بھاگ دوڑ کر اپنی اپنی جگہ حاصل کرتے، سکون سے بیٹھ جاتے، ماحوں میں سناٹا چھا جاتا، اور ’’کَاَنَّمَا عَلی رُؤسِہِمُ الطَّیْرُ‘‘ کا منظر پیش کرتا، اور تفہیم ایسی کہ ذکی، متوسط اور غبی ،تینوں طبقات کے طلبہ یکساں مستفید ہوتے، ایک نشست میں تین تین گھنٹے کا درس بالکل بھی گراں محسوس نہیں ہوتا؛ بلکہ مزید استفادہ کے خواہشمند ہوتے، خاردار، شعلہ بار اورکٹھن راہوں سے گذرکر نرم وگرم جھیلتے ہوئے، موج وحوادث میں ہنستے اور کھیلتے ہوئے شبانہ روز کی جدوجہد اور محنت ومشقت کے ذریعہ صبح تمنا کی کرن تک پہونچنے کے عادی تھے، جامعہ اشرفیہ راندیر میں تنخواہ کی مقدار قلیل تھی، خرچ پورا ماہ کفایت نہیں کرتا تھا، پہلے عشرہ میں چائے وپان ساری چیزیں تکمیل تک پہونچتی تھی، دوسرے عشرہ میں چائے رہتی، پان بند ہوجاتا، اور تیسرے عشرہ میں چائے وپان دونوں چیزیں بند ہوجاتی تھیں ، مگر کبھی تدریس موقوف نہ ہونے پائی، اور نہ ہی کبھی جگہ کی تبدیلی کا خیال ذہن میں آیا، اور اپنے ماتحتوں کی ترقی کے لیے تڑپنا، پھڑکنا ،گھلنا اور اپنی تمام تر توانائیوں کو صرف کرنا ان کا محبوب مشغلہ تھاا ور اپنی ۱۳؍اولاد کو خود کفیل بنانے کے لیے اسباب مہیا فرماتے اور اسباب میں مصروف کرنے کی فکر فرماتے؛ تاکہ ان لوگوں کو دشوار گزار گھاٹیوں سے گذرنا نہ پڑے، اور مشکل ایام دیکھنا نہ پڑے۔آج ــ–الحمد اللہ– ـــ حضرتؒ کی ۱۳؍صلبی اولاد میں سے جو حیات مستعار سے لیث ہیں وہ بقدر کفایت اسبابِ معیشت سے بھی لبریز ہیں ۔
تصنیف وتالیف اللہ رب العزت کی بیش بہا نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت ہے، جو استاذ گرامی مرتبت کے حصہ میں وافر مقدار میں آئی، بعض تصنیف تو ایسی ہے کہ سوچ کر دانتوں کو پسینہ آجاتا ہے۔ ’’رحمۃ اللہ الواسعہ، شرح حجۃ اللہ البالغہ‘‘ حضرت کی ایسی کاوش ہے جس نے علماء امت سے ایسا قرض اتارا ہے جو عرصہ سے چلاآرہا تھا۔ ’’عمدۃ القاری شرح بخاری شریف‘‘ بارہ جلدوں میں ۔ ’’تحفۃ الالمعی شرح ترمذی شریف‘‘ ۸؍جلدوں میں ۔ الغرض ہرفن میں آپؒ کی بیش قیمت تصانیف درجنوں کی تعداد میں کتب خانہ علمیہ کے ذخیرے ہیں ، جن سے دنیا ہمیشہ استفادہ کرتی رہے گی۔ ’’مبادی الفلسفہ‘‘ فن فلسفہ میں وہ گران قدر تصنیف ہے جو فن فلسفہ کے شیدائیوں کے لیے بنیاد اور اصول کی حیثیت رکھتی ہے، جس کے بغیر فن فلسفہ کی تحصیل دشوار گذار اور مشکل ہے اور تقریباً مدارسِ اسلامیہ میں داخل نصاب ہے۔
استاذ گرامی مرتبت ایسے خاندان کے فرد فرید تھے جو بزرگوں سے مربوط اور مضبوط رشتہ رکھتے تھے، آپ کے والد گرامی قدر الحاج حضرت یوسف صاحب متدین ، بزرگوں اور اللہ تبارک وتعالیٰ کے خاص اور مقرب بندوں کے ارادت مند اور عقیدت مند تھے، اسی وجہ سے انھوں نے اپنی پانچوں نرینہ اولاد کو حصول علم دین میں لگایا، ان میں سے تین حضرت مفتی سعید احمد صاحب، حضرت مفتی محمد امین صاحب، اور حضرت مفتی حبیب احمد صاحب خدمت تدوین علم دین کے لیے وقف ہوگئے، ان کا خلوص تھا کہ اللہ رب العزت نے ان تینوں کو دین مبین کی سعادت بھری خدمات سے بہرہ ور فرمایا، بلکہ ان میں سے اول الذکر دونوں مادرعلمی دارالعلوم دیوبند میں حدیث کے ممتاز اساتذۂ کرام میں شامل ہیں ۔ استاذ گرامی مرتبت کی پُروقار شخصیت ہمارے لیے تمام امور میں رجع کی حیثیت رکھتی تھی، ان کا وجود مسعود ایک مبارک گھنیرے اور پھلدار دخت کے مانند تھا، اور ہر محفل کے لیے شمع تھے، لیکن کسی چیز کی قدروقیمت اسی وقت سمجھ میں آتی ہے جب وہ باقی نہ رہے۔
آہ! اس شخصیت کے زندہ رہنے سے کتنے اقداروروایات ، حوصلوں اور امنگوں کو فروغ ملتا تھا، آج اس کے اٹھ جانے سے کتنی شمعیں بے نور اور کتنی محفلیں سونی ہوگئیں ع
کہاں ہے آج تو اے آفتاب نیم شبی
؎
چلاجاتا ہوں ہنستا، کھیلتا موجِ حوادث سے
اگر آسانیاں ہوں زندگی دشوار ہوجائے
انسان کتنا ہی توانا وتندرست ہو مگر وہ ایک کمزور مخلوق ہے، خود خالق کائنات نے فرمایا: ’’وَخُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِیْفًا‘‘ انسان کمزور پیدا کیا گیا، اس مضمون کو مزید وضاحت کے ساتھ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ روم میں بیان فرمایا ہے:
’’اَللّٰہُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّن ضُعْفٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْ بَعْدِ ضُعْفٍ قُوَّۃً ثُمَّ جَعَلَ مِنْ بَعْدِ قُوَّۃٍ ضُعْفًا وَّ شَیْبَۃً یَخْلُقُ مَا یَشَآئُ وَھُوَ الْعَلِیْمُ الْقَدِیْرُ‘‘۔(سورہ روم آیت ۵۴)
اِس آیت میں اللہ رب العزت نے انسان کے تین مراحل ذکر فرمائے ہیں ، ابتدائی کمزوری، درمیانی توانائی، اور انتہائی کمزوری، گویا انسان کمزور زیادہ ہیں ، توانا وطاقت ور کم ۔
استاذ گرامی مرتبت ! صبر واستقامت کے پیکرِ جمیل تھے، کتنے بھی حوادث آئے سب کو بسہولت انگیز کرلیتے تھے، عمر کی ۸۲؍بہاروں سے گذرنے کے باوجود حساس وبشاش رہتے تھے، دورۂ حدیث شریف کی جماعت میں تدریس کے طاقت ور اور مضبوط ستون تھے، کسے معلوم تھاکہ یہ مضبوط ستون اتنی جلدی گر جائے گا، وہ نکتہ آفریں درس جس کے سننے کے بعد ذہن ودماغ کو غذا ملتی تھی، وہ درس جس کے سننے کے لیے ہر طالب علم سانس روکے گوش برآواز رہتا تھا کہ مبادا کوئی لفظ دل وکان میں پڑنے سے قبل ہوا کے دوش پر اُڑ نہ جائے، ہر لفظ ہیرے جواہرات سے گراں ، آتش فروزاں سے زیادہ پُرسوز، دردوکرب سے لبریز، دریتیم سے زیادہ صاف وستھرا، تخت وطائوس سے زیادہ قیمتی، اخلاص ووفا سے دُھلا ہوا، احتساب وللہیت سے تاباں ، خون جگر سے رنگین، ایسا محسوس ہوتا تھا کہ دل کی بے چینی وکرب وسوز الفاظ وعبارات کے جامہ میں تبدیل ہورہا ہے، کسے پتہ تھا کہ یہ آوازیک لخت خاموش ہوجائے گی۔
۱۶؍رجب المرجب ۱۴۴۱ھ کی وہ گھڑی آگئی جس میں کمزوری تندرستی پر غالب آگئی، توانائی مغلوب ہوگئی، مجلس درس سونی ہے، صرف قاری روایات طالب علم کی آواز کانوں میں آرہی ہے، مگر جس آواز کے لیے سماعت بے چین ہے، اس میں بالکل سکوت ہے، یہی صورت حال پانچ دنوں تک برقرار رہتی ہے، اور ۲۲؍رجب المرجب ۱۴۴۱ھ بعد نماز عشاء درس کا آغاز ہوتا ہے، قاری روایات کی آواز گونجنے لگتی ہے، طلبۂ دورۂ حدیث سناٹے میں ہیں ، بخاری شریف کی تکمیل ہوتی ہے، اور شیخ وقت کی زبان مبارک سے صرف ایک جملہ نکلتا ہے’’اللہ جو چاہتا ہے وہ ہوتا ہے‘‘ اس جملہ کا سننا تھا کہ طلبہ کی چیخیں نکل گئی، پورا مجمع زاروقطار رونے لگا اور روتے روتے محفل برخواست ہوگئی۔
۲۲؍رجب المرجب ۱۴۴۱ھ شام میں اس عاجز کی حضرت کی خدمت میں حاضری ہوئی، مگر کوئی بات نہ ہوسکی، پھر جب ۲۳؍رجب ۱۴۴۱ھ کی صبح میں حاضری ہوئی تو حضرت کی زبان مبارک سے الفاظ صاف نکل رہے تھے، باتیں کیں اور فرمایا کہ تم کل آئے تھے، لیکن میری زبان بند تھی، اور اب زبان جاری ہے، پھر بغرض علاج ممبئی جانے کا تذکرہ آیا، اور فرمایا کہ دوپہر کی فلائٹ سے ممبئی کے لیے روانہ ہورہا ہوں ، چناں چہ ۲۳؍رجب المرجب ۱۴۴۱ھ میں ممبئی تشریف لے گئے ، ایک ہفتہ کے علاج کے بعد الحمداللہ صحت بحال ہوگئی اور مجلس وعظ ونصیحت کا آغاز فرمادیا، وہ دیوبند لوٹنا چاہتے تھے، لیکن ملک میں لاک ڈائون کی وجہ سے ساری سواریاں مسدود ہوگئیں تھیں ، جس کی وجہ سے ممبئی میں قیام کرنا پڑا، پھر ۲۳؍رمضان المبارک ۱۴۴۱ھ میں طبیعت بگڑگئی، ایک نجی ہسپتال میں داخل کیا گیا، مگر وقت موعود آپہنچا تھا، جس کی وجہ سے ۲۵؍رمضان المبارک ۱۴۴۱ھ کی صبح کی اولین ساعتوں میں کلمہ پڑھتے ہوے اپنے محبوب حقیقی اللہ رب العزت کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اس دارِ فانی کو خیرباد کہہ دیا۔ ( اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ)۔
اب ہم تقدیری فیصلے کے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہیں ، جس طرح رسول اکبر صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صاحبزادے حضرت ابراہیم کی وفات پر اپنے غم کا اظہار فرمایا تھا، اللہ رب العزت کی مرضی پر رضا ظاہر فرمائی تھی ’’ان العین تدمع، والقلب یحزن، ولا نقول الا مایرضی، ربنا وانا بفراقک یا إبراہیم لمحزونون‘‘ ہماری آنکھیں اشک بار ہیں ، دل غمگین ہیں ، ہم اپنی زبان پر وہی لاتے ہیں جو ہمارے رب کی خوشنودی کا سبب ہو اوراے ابراہیم! ہم تمہاری جدائی سے بے حد غمگین ہیں ۔
ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے
سفینہ چاہیے اس بحرِ بیکراں کے لیے
———————————————-
دارالعلوم ، شمارہ :7-6، جلد:104، شوال المكرم – ذی القعدہ 1441ھ مطابق جون –جولائی 2020ء
٭ ٭ ٭