از: ابو دانیال محمد رضی الرحمن قاسمی

ینبع، مدینہ طیبہ

ذرائع ابلاغ میں انقلابی تبدیلیاں

            گزشتہ چند دہائیوں میں ذرائع ابلاغ نے غیر معمولی ترقی کی ہے ، اخبار و رسائل سے ریڈیو اور ٹیلی ویژن کا دور آیا، پھر انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے آنے سے ذرائع ابلاغ اس قدر تیز ہوگیا ہے کہ چند دہائیاں قبل اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔

کچھ فائدے

            ذرائع ابلاغ کی اس تیزرفتاری سے یقینا بہت سارے فائدے بھی ہوئے ہیں کہ پہلے جن معلومات کے حصول اور ترسیل میں دنوں ، ہفتوں ، مہینوں ؛ بلکہ سالوں گزر جاتے تھے، ان کا حصول اور ان کی ترسیل چندگھنٹوں ،چند منٹوں ، بلکہ چندپلوں میں ممکن ہو گئی ہے، یقینا یہ بڑا انقلاب ہے اور اس کی وجہ سے بہت سارے کاموں میں بہت زیادہ انرجی اور وقت بچ جاتے ہیں ۔

            دعوتی نقطئہ نظر سے بھی ذرائع ابلاغ کی اس ترقی کی وجہ سے کام بہت آسان ہو گیا ہے کہ اپنی چیزیں اور اسلام کا آفاقی پیغام بہتر سے بہتر اسلوب میں زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانا نہایت ہی آسان ہو گیا ہے، اسی طرح ملحدین، اسلام دشمن عناصر اور مسلمانوں کے بیچ اور دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کے تئیں شبہات پیدا کرنے والوں کا تحقیقی اور بہ وقت ضرورت مسکت جواب دینا اور اسے بڑے پیمانے پر لوگوں تک پہنچانا بھی بہت ہی سہل ہو گیا ہے۔

            علمی وتحقیقی میدان میں کام کرنے والے افراد کے لیے بھی یہ سہولت ہو گئی ہے کہ وہ اپنے مطلوبہ مواد اور معلومات تک بہ آسانی پہنچ سکتے ہیں اور اس حوالے سے دوسرے ایکسپرٹ اور متخصص لوگوں کی آراء ، نقطہ ہائے نظر اور تحقیق سے بہ آسانی استفادہ کرکے اپنے کام کو زیادہ باوزن اور مفید بناسکتے ہیں اور اس کے بعد اپنی کاوشوں کو استفادے کے لیے بڑے پیمانے پر نشر کر سکتے ہیں ۔

چندنقصانات

            ان جیسے اور دوسرے بہت سارے فائدوں کے ساتھ ساتھ ذرائع ابلاغ کی تیزرفتاری نے اور خاص کر سوشل میڈیا کے بہت زیادہ رواج پا جانے اور ہر عام وخاص کی اس تک بہ سہولت رسائی نے افراتفری کا ماحول اور انفرادی واجتماعی سطح پر انسانی، مذہبی، سماجی اور اخلاقی ایسے چیلنجز کھڑے کر دیے ہیں ، جن کا تصور چند دہائیوں قبل ممکن نہیں تھا اور ذرائع ابلاغ کی اس تیزرفتاری خاص کر سوشل میڈیا کے بہ آسانی ہر عام وخاص تک رسائی نے اکثر لوگوں کے حق میں ایسی صورت حال پیدا کردی ہے، جیسے کہ ناسمجھ بچوں کے ہاتھوں میں کھیلنے کے لیے چھری اور دوسری مہلک چیزیں دے دی جائیں کہ ان چیزوں کا یقینا صحیح استعمال بھی ہے اور انسانیت کو اس کی ضرورت بھی ہے اور اس سے بہت سارے فائدے بھی ہیں ؛ لیکن ناسمجھ بچوں کے ہاتھ میں ان کا ہونا نقصان، تباہی اور ہلاکت وبربادی ہی کا سبب بن سکتا ہے ۔

            مختلف سروے کے ذریعے یہ بات معلوم ہوئی ہے؛ بلکہ ہر معمولی سمجھ بوجھ والا انسان اپنے اردگرد کے مشاہدے کے ذریعے بھی یہ جان سکتا ہے کہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے صارفین میں زیادہ تر لوگ اِن کا اوسطاً 90% کے آس پاس بے مقصد اور بسا اوقات تباہ کن استعمال کرتے ہیں ۔ اور روزانہ کئی کئی گھنٹے عمر عزیز کے قیمتی اوقات کو ضائع کرتے ہیں ؛ حالانکہ اگر تھوڑا سا غور کیا جائے تو یہ بات بالکل سامنے کی ہے کہ’’زندگی درحقیقت وقت ہی کا نام ہے جو کہ ہمیں پیدائش سے لے کر موت کے بیچ تک ملتا ہے ‘‘گویا کہ وقت کو ضائع کرنا زندگی کو ضائع کرنا ہے۔

سوشل میڈیائی مصلحین و مفکرین

            سوشل میڈیا کے اس پھیلاؤ نے ایک اور بڑا مسئلہ یہ پیدا کیا ہے کہ دینی، سماجی، معاشرتی، اخلاقی، سائنسی، تاریخی اور مختلف میدان میں بزعم خود مصلحین اور مفکرین کا ایک بڑا جتھا اپنے خیال کے مطابق انسانیت کی اصلاح اور اس کو نفع پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پرکمربستہ ہو گیا ہے۔

سوشل میڈیائی مصلحین و مفکرین کے نمایاں اوصاف

            ان مصلحین اور مفکرین کی کارکردگی اور چند نمایاں اوصاف یہ ہیں :

            ۱- یہ اپنے موضوع سے متعلق بلکہ غیر متعلق ہر اہم اور غیر اہم؛ بلکہ لغو قسم کی باتوں کو نقل کرنا اور دوسروں تک پہنچانا اپنی نہایت ہی اہم ذمہ داری سمجھتے ہیں ۔

            ۲- اپنے موضوع سے متعلق اور غیر متعلق مراسلوں اور پوسٹ پر تبصرہ کرنا اور ان کے بارے میں اپنی معقول اور نامعقول رائے اور تجزیہ پیش کرنا نہایت ہی اہم فریضہ اور ذمہ داری سمجھتے ہیں ۔

            ۳- بیہودہ باتوں کو اور ایسی باتوں کو جو لوگوں کی کردار کشی پر مشتمل ہو اور جن میں استہزاء اور مذاق اڑایا گیا ہو، انہیں بہ زعمِ خود بغرض اصلاح نہایت ہی مخلصانہ طور پر لوگوں کے درمیان پھیلاتے  ہیں ۔

            ۴- بد زبانی اور بیہودہ جملوں کا بے دریغ استعمال نہ صرف روا سمجھتے ہیں ؛ بلکہ انھیں اپنے لیے باعث عزت و فخر گردانتے ہیں ۔

            ۵- ان کی تحقیقی باتوں میں حقیقتاً تحقیق اور صحیح نتیجے پر پہنچنے کی سچی طلب اور جستجو کے بجائے بدگمانی کا عنصر بڑی وافر مقدار میں ہوتا ہے۔

            ۶- ’’بغرض اصلاح‘‘ مختلف موقعوں پر اپنی بات کی تائید و تصویب میں جھوٹ ، دجل وفریب اور حقیقت کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کا بھی کام کرتے ہیں ۔

            ۷- اللہ نے بحیثیت انسان ہر شخص کو عزت و تکریم سے نوازا ہے، یہ اپنے اس طرح کے طرز عمل سے جہاں دوسروں کو بے عزت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، وہیں اپنی سطحیت اور گری ہوئی سوچ کا اظہار کرکے اپنے آپ کو بڑے پیمانے پر بے عزت کرنے کا سبب بنتے ہیں ۔

سوشل میڈیائی مصلحین و مفکرین کا طرز عمل دین اور اخلاق کے میزان میں

            جو لوگ ملحد ہوں ، دین اور اخلاق دونوں سے عاری ہوں یا مذہب کے پیروکار ہوں ؛ لیکن اخلاق سے عاری ہوں ، ایسے لوگوں کے حق میں تو صرف دعا ہی کی جاسکتی ہے کہ اللہ عزوجل ان کے اندر دین و اخلاق پیدا کرے یا یہ کہ اخلاقی قدروں سے ان کی زندگی کو آراستہ کرے!

            درج ذیل معروضات ان سوشل میڈیائی مفکرین و مصلحین کی خدمت میں پیش ہیں ، جو نہ تو دین کے منکر ہیں اور نہ ہی ایسے ہیں کہ اخلاقی قدروں کی ان کی نگاہوں میں کوئی وقعت نہیں ہے۔

            پہلی بات یہ ہے کہ سماجی اور عقلی طور پر بھی یہ ایک مبینہ حقیقت ہے کہ وہ شخص جو ہر سنی ہوئی اور اس تک پہنچی ہوئی باتوں کو نقل کرتا ہے اور آگے پہنچاتا ہے ، وہ بہت ساری باتوں میں جھوٹا ہوتا ہے یا کسی جھوٹے کا آلہ کار بنتا ہے، اسی حقیقت کو سید الاولین والآخرین محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں ذکر کیا ہے:

کفی بالمرء کذبا أن یحدث بکل ما سمع۔ (صحیح مسلم، حدیث نمبر:۵) ترجمہ:کسی انسان کے جھوٹے ہونے کے لیے یہ کافی ہے کہ وہ ہر سنی ہوئی بات کو بیان کرے۔

            یہ بات بھی واضح رہے کہ as received لکھ دینے سے انسان جھوٹے ہونے کے دائرہ سے نہیں نکل جاتا ہے؛ کیوں کہ یہ نہایت ہی سادہ سا سوال ہے کہ کسی بھی فرد کو اس بات کی کیا ضرورت ہے کہ وہ ہر سنی ہوئی یا اس تک پہنچی ہوئی بات کو دوسروں تک ضرور منتقل کرے ہی؟!

            دوسری بات یہ ہے کہ انٹرنیٹ کے ذریعے یا سوشل میڈیا پر آنے والے ایسے مراسلوں اور پوسٹ پر تبصرہ کرنا یا ان پر کوئی مختصر یا مفصل تجزیاتی تحریر لکھنا جس کا دینی ودنیاوی کوئی فائدہ نہ ہو لغو کام ہے اور ایک مسلمان کو اور اچھے اخلاق کے حامل فرد کو یہ زیب نہیں دیتا ہے کہ وہ لغو کاموں میں اپنا وقت اور اپنی طاقت صرف کرے، چنانچہ اللہ عزوجل نے مؤمنوں کے اوصاف میں یہ ذکر فرمایا ہے کہ وہ لغو کاموں کے پاس سے اعراض کر کے گزر جاتے ہیں :

          وَإِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا کِرَامًا (الفرقان:۷۲)

            اور سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ایک اچھے مسلمان کی یہ صفت ہی بتائی ہے کہ وہ لغو اور فضول کاموں سے مکمل طور پر اجتناب و اعراض کرے: من حسن إسلام المرء ترکہ مالا یعنیہ۔ (سنن ترمذی، حدیث نمبر:۲۳۱۷)

            تیسری بات یہ ہے کہ بے ہودہ اور فحش باتوں کو پھیلانا نہ تو کسی صاحب ایمان کو زیب دیتا ہے اور نہ ہی اچھے اخلاق کے تقاضوں سے میل کھاتا ہے، قرآن کریم نے فحش اور بیہودہ باتوں اور چیزوں کو پھیلانے والوں کے لیے دردناک عذاب کی وعید سنائی ہے:

          إِنَّ الَّذِینَ یُحِبُّونَ أَن تَشِیعَ الْفَاحِشَۃُ فِی الَّذِینَ آمَنُوا لَہُمْ عَذَابٌ أَلِیمٌ فِی الدُّنْیَا وَالآخِرَۃِ (النور:۱۹)

            جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مسلمان بیہودہ گوئی کرنے والا اور فحش باتیں کرنے والا ہو ہی نہیں سکتا ہے۔ (سنن ترمذی، حدیث نمبر:۱۹۷۷)

            اورقرآن و سنت سے یہ بات ثابت ہے کہ ایسی باتیں جو کسی کے استہزا پر مشتمل ہو، بدترین قسم کا اخلاقی جرم اور صریح ظلم ہے۔ (الحجرات:۱۱، سنن ابو داود، حدث نمبر:۴۸۷۵، صحیح بخاری، حدیث نمبر:۳۰)

            چوتھی بات یہ ہے کہ بدگمانی ایک نہایت ہی بدترین قسم کی صفت ہے چنانچہ اسی وجہ سے اللہ عزوجل نے بدگمانی تو کجا بہت زیادہ گمان اور ظن سے بھی کام لینے سے منع فرمایا: یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا کَثِیرًا مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ (الحجرات:۱۲) ترجمہ: اے ایمان والو! بہت زیادہ گمان کرنے سے بچو، یقینا بعض گمان گناہ ہوتے ہیں ۔

            پانچویں بات یہ ہے کہ جھوٹ بولنا وہ بدترین عمل ہے جو عقل، شریعت اور سماج ہر ایک کی نگاہ میں قابل مذمت ہے قرآن وسنت کے مختلف نصوص میں بھی اس کی قباحت و شناعت کا ذکر موجود ہے۔ (حج:۳۰، صحیح بخاری، حدیث نمبر:۳۳)

            چھٹی بات یہ ہے کہ بحیثیت انسان اللہ عزوجل نے ہر انسان کو معزز و مکرم بنایا ہے، قرآن کریم میں ہے: وَلَقَدْکَرَّمْنَا بَنِی آدَمَ۔ (الاسراء:۷۰) ترجمہ:اور ہم نے انسان کو باعزت بنایا۔

            اور یہ کہ عزت اور ذلت اللہ عزوجل کے ہاتھ میں ہے۔ چنانچہ ارشاد ربانی ہے: وَتُعِزُّمَن تَشَاء ُ وَتُذِلُّ مَن تَشَاء ُ  بِیَدِکَ الْخَیْرُ (آل عمران:۲۶) ترجمہ: اور تو جس کو چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور تو جس کو چاہتا ہے ذلیل کرتا ہے، تیرے ہی ہاتھ میں بھلائی ہے۔

            اپنی باتوں اور کارکردگی کے ذریعے کسی کو بے عزت کرنے کی کوشش کرنا نہایت ہی مکروہ اور گھناؤنا عمل ہے۔ نیز جھوٹ، بدگمانی ، دجل وفریب ، استہزاء ، نامعقول رائے اورلغو قسم کی باتوں کے ذریعے دوسروں کو بے عزت کرنے کی کوشش درحقیقت اپنے آپ کو بھی بے عزت کرنے کو مستلزم ہے اور خود کو بے عزت کرنے کی کوشش عقل و شرع دونوں کے میزان میں ایک احمقانہ حرکت ہے۔

            آخری بات یہ ہے کہ اللہ عزوجل نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو انسانیت کی ہدایت و رہنمائی کے لیے بھیجا تھا ، لیکن قرآن کریم میں متعدد جگہ اس بات کی صراحت بھی فرمائی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمہ داری بہتر اسلوب میں اللہ کی طرف سے آئے ہوئے پیغام کو لوگوں تک پہنچا دینا ہے، زبردستی لوگوں کو دین پر لانا اور ان کو اچھے اخلاق سے متصف کرنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دائرہ کار میں نہیں ہے: لَّسْتَ عَلَیْہِم بِمُصَیْطِرٍ (الغاشیۃ:۲۲، نیز دیکھئے:کہف:۶)

            ہم اور آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دعوت و اصلاح کے کاموں میں نائب ہیں ، لہٰذا ہماری بھی ذمہ داری بس اتنی ہے کہ ہم لوگوں تک صحیح پیغام پہنچانے کی کوشش کریں ؛ لیکن اصلاح کی اس کوشش میں یہ ہمارے لیے لازمی اور ضروری ہے کہ صحیح اسلامی اور اخلاقی خطوط پر یہ کام کریں ، اصلاح کے نام پر غیراخلاقی ہتھکنڈوں کو استعمال کرنے کی ہر گز اجازت نہیں ہے، درحقیقت یہ اصلاح کا طریقہ بھی نہیں ہے؛ بلکہ اپنے نفس اور شیطان کی پیروی ہے اور اپنے اندر پائے جانے والے غیر اخلاقی خواہشات کی تسکین کا ایک ذریعہ ہے۔ سوشل میڈیائی ایسے مصلحین اور مفکرین سے میری یہ درخواست ہے کہ وہ کتاب وسنت ، عقل سلیم اور اخلاق کے معیار کو سامنے رکھ کر یہ غور کریں کہ کیا واقعی وہ مصلحین اور مفکرین ہیں یا اپنے غیراخلاقی جذبات کی تسکین کا سامان فراہم کرنے کی کوشش میں لگے ہیں اور در حقیقت اصلاح کے پردے میں فساد پھیلانے کا بدترین کام کر رہے ہیں ؟ جس پر اللہ عزوجل نے سخت وعید فرمائی ہے۔

————————————–

دارالعلوم ‏، شمارہ : 1،    جلد:104‏،  جمادى الاول  1441ھ مطابق جنوری 2020ء

٭           ٭           ٭

Related Posts