از: مولانا سیّدانور شاہ

استاذ جامعہ بیت السلام، لنک روڈ، کراچی

            اسلام جہاں غلو، غلط بیانی اور بے جا مبالغہ سے منع کرتا ہے، وہیں ہر معاملے میں راہِ اعتدال اپنانے کی تاکید کرتا ہے۔ یہی دینِ اسلام کی ایک بڑی خوبی ہے کہ اس نے اعتدال، توسط اور میانہ روی کی تلقین کی ہے اور ہمیں اُمتِ وسط بنایا۔ یہی وجہ ہے کہ اعتدال اپنانے والوں کو کبھی بھی گمراہی اور پچھتاوے کاسامنا نہیں کرنا پڑتا۔ اس کے برعکس وہ لوگ جو اعتدال کے دامن کو چھوڑ کر دوسری راہ اختیار کیے ہوئے ہیں ، وہ یاتو افراط کا شکار ہوکر گمراہ ہوجاتے ہیں یا پھر تفریط کی کھائی میں جا گرتے ہیں ۔ اسی طرح دینِ اسلام سادگی اور للہیت کو بڑی اہمیت دیتا ہے؛ جب کہ نام ونمود، دکھاوے اور نمائش کی مذمت کرتا ہے۔

            آج کل ہمارے معاشرے میں مذہبی القاب کے استعمال کرنے میں جو بے اعتدالیاں پائی جارہی ہیں ، وہ کسی پر اوجھل نہیں ۔ نام کے آگے القاب پر القاب جڑدیے جاتے ہیں ، خواہ وہ شخص ان صفات کا حامل ہویا نہ ہو۔ آئے روز نئے سے نئے اور بڑے سے بڑے القاب سامنے آتے ہیں ۔ بعض اوقات تو جلسوں میں اور بعض دیگر مجالس میں امیروں ، وزیروں ، عہدیداروں ، پیروں اور خصوصاً علماء کی تعریفوں میں زمین وآسمان کے قلابے ملادئیے جاتے ہیں ، مثلاً کسی کے لیے حجۃ الاسلام، کسی کے لیے شیخ الاسلام، کسی کے لیے شیخ الفقہ، کسی کے لیے شیخ الحدیث، کسی کے لیے مفتی اعظم، کسی کے لیے خطیب بے بدل، خطیبِ زماں ، نمونۂ اسلاف، محققِ دوراں ، محقق العصر، علامۃ العصر، محدث العصر، فقیہِ زماں ، جامعِ علوم عقلیہ ونقلیہ، شیخ المشائخ، اعلیٰ حضرت، مفکرِ اسلام، غزالیِ دوراں ، شہنشاہِ خطابت، محقق علی الاطلاق، محدثِ اعظم، شیخ الجامعہ، ولیِ کامل، رہبرِ شریعت، ثانیِ جنیدؒ، وغیرہ وغیرہ۔

            افسوس ناک بات یہ ہے کہ بعض حضرات تو باقاعدہ اپنے حلقۂ احباب کو اس طرح بڑے بڑے القاب اپنے نام کے ساتھ لگانے کی تاکید کرتے ہیں اور القاب کے بغیر پکارے جانے پر بے التفاتی اور ناراضگی کا اظہار کرتے ہیں اور اب تو معاملہ یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ علمائے کرام کی اکثر مجالس اس قسم کے القاب سے گونجتی ہوئی نظر آتی ہے۔ مذہبی القاب کے متعلق یہی بے اعتدالیاں ، پمفلٹوں اور اشتہارات میں بھی واضح طور پر نظر آتی ہیں اور نہایت بے احتیاطی کے ساتھ شریعت کے تقاضوں کو فراموش کیاجارہا ہے۔ ایک طرف تو یہ معاملہ ہے، جب کہ دوسری طرف کچھ حضرات ایسے بھی ہیں جو اپنے لیے ایسے القاب تجویزکرتے ہیں جس سے گناہ گاری ٹپکتی ہو، جیسے: العبدالعاصی، عاصی وغیرہ، حالانکہ یہ بھی درست نہیں ۔ یہ ساری باتیں اوراحکام سمجھنے کے ہیں ۔ ان کے نہ سمجھنے کی وجہ سے لوگ افراط وتفریط اور متضاد پہلوئوں کا شکار ہیں ۔ اس موضوع پر انتہائی عمدہ اور تفصیلی گفتگو علامہ بن الحاج المالکی المصریؒ نے اپنی مشہور کتاب  ’’المدخل‘‘ کی پہلی جلد ’’فصل فی ذکر النعوت‘‘ کے تحت فرمائی ہے۔  واضح رہے کہ علامہ ابن الحاجؒ کا شمار مسلک مالکیہ کے مشہور اور بڑے فقہاء میں ہوتا ہے:  ’’وقد ذکرہ السیوطيؒ فی من کان بمصر من فقہاء المالکیۃ‘‘ (حسن المحاضرۃ، السیوطی، ج:۱، ص:۳۸۲) ان کی وفات مصر کے مشہور شہر قاہرہ میں ہوئی۔  ’’المدخل‘‘  فقہ مالکیہ کی نہایت معتبر اور انفع کتاب ہے۔

القابات کے ارتقاء کا پس منظر

            علامہ ابن الحاج المالکی المصریؒ ان القاب کے رائج ہونے کے اسباب بیان کرتے ہیں :

            ’’ان کی ترویج میں سب سے بڑا کردار عجمیوں کا رہا ہے اور وہ اس طرح کہ جب ترک مسندِ خلافت پر غالب آگئے اور حکومت کی باگ ڈور خود سنبھالی، تو انھوں نے اپنے لیے مختلف قسم کے القاب اختیار کرلیے، جیسے: شمس الدولۃ، ناصرالدولۃ،نجم الدولۃ وغیرہ، چونکہ ان القاب کا استعمال حکومت کے مناصب پر فائز بڑے بڑے عہدے داروں کے لیے ہوتا تھا؛ اس لیے لوگ ان القاب کو باعثِ عظمت وفخر سمجھنے لگے، اس وجہ سے عام لوگوں نے ان میں انتہائی دلچسپی ظاہر کی؛ لیکن حکومت میں منصب اور عہدہ نہ ہونے کی بنا پر ان کے لیے اپنے ان القاب کا رکھنا ممکن نہیں تھا؛ چنانچہ جب انھوں نے اس کے حصول کے لیے کوئی راستہ نہیں پایا تو اب انھوں نے اس کمی کو پورا کرنے کے لیے مذہب کا راستہ اختیار کرلیا: ’’نجم الدولۃ نہ سہی تو نجم الدین ہی سہی۔‘‘

            اس زمانے میں ان القاب کی انتہائی اہمیت اور وقعت تھی اور بڑی باعثِ عظمت اور قابلِ فخر چیز تھی۔ یہی وجہ تھی کہ حکومت نے ان ناموں اور القاب کے رکھنے پر سخت پابندی عائد کی تھی؛ لہٰذا جب کوئی اپنی اولاد کے لیے اس قسم کا لقب رکھنا چاہتا تو اسے حکومت کو ایک بھاری رقم ادا کرنی ہوتی اور حکومت سے باقاعدہ اجازت نامہ لینا ہوتا۔ یوں ہی لوگ حکومت کی مقرر کردہ بھاری رقم ادا کرتے تھے اور اپنی اولاد کے لیے اس قسم کے القاب تجویز کرتے تھے۔ کچھ عرصہ کے بعد خلافتِ عباسیہ پر ترک نے مکمل طور پر قابض ہوکر ہر قسم کا کنٹرول اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ زمانہ گزرنے کے ساتھ ان القاب کی اہمیت باقی نہیں رہی؛ کیونکہ اب حکومت ان کے لیے ایک قسم کی لونڈی بن چکی تھی، اس لیے اب وہ مذہبی القاب میں کشش محسوس کرتے ہوئے ان کی طرف متوجہ ہوگئے اور ان کے لیے نجم الدولۃ کے بجائے نجم الدین جیسے القاب زیادہ باعثِ عظمت وفخر بن گئے۔ اس دوران حکومت نے پابندی ختم کرکے عام لوگوں کو کھلی چھوٹ دے دی۔ یہ القاب اس قدر تیزی کے ساتھ رائج ہوگئے کہ کوئی بھی اس کی زد سے محفوظ نہیں رہا، امیرغریب، چھوٹے بڑے سب اس وبا کی زد میں آگئے، یہ معاملہ اس سطح پر پہنچ گیا کہ علماء نے بھی اس سے مانوس ہوکر ان کے رکھنے میں کوئی برائی محسوس نہیں کی اور لوگوں سے متاثرہوکر ان کو قبول کرنے لگے۔‘‘ (المدخل، ج:۱، ص:۱۱۰، فصل فی النعوت) القاب کی اس ترویج کے متعلق علامہ ابن خلدون نے بھی مقدمہ تاریخ ابنِ خلدون میں اس کے قریب قریب گفتگو فرمائی ہے۔

مذہبی القاب کی شرعی حیثیت

            قرآن کریم اور احادیثِ طیبہ سے یہ بات واضح طور پر معلوم ہوتی ہے کہ کسی کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے تزکیہ کا اعلان کرے، یا اپنے لیے ایسے القاب اختیار کرے جس میں پاکیزگی اور تقدس کا پہلو پایاجاتا ہو؛ چنانچہ ذیل میں اس کے متعلق چند آیاتِ کریمہ مفسرین کی تشریح کی روشنی میں ملاحظہ فرمائیے:

            ۱- ’’أَلَمْ تَرَ إِلَی الَّذِیْنَ یُزَکُّوْنَ أَنْفُسَہُمْ بَلِ اللّٰہُ یُزَکِّيْ مَنْ یَّشَائُ وَلَا یُظْلَمُوْنَ فَتِیْلاً۔‘‘ (النساء:۴۹)

            ترجمہ: ’’کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو اپنے آپ کو بڑا ہی پاکیزہ بتاتے ہیں ؟ حالانکہ پاکیزگی تو اللہ جس کو چاہتا ہے عطا کردیتا ہے اور کسی پر اس عطا میں ایک دھاگے کے برابر بھی ظلم نہیں کیا جائے گا۔‘‘

            اس آیت کے شانِ نزول میں مفسرین لکھتے ہیں :

            ’’یہود اپنے آپ کو بڑے پاکیزہ اور مقدس بتلاتے تھے کہ ہم اللہ کے بیٹے اور محبوب ترین لوگ ہیں ۔ اس آیتِ کریمہ میں ان کی مذمت کی گئی ہے کہ ذرا ان لوگوں کو دیکھو! جو اپنی پاکی بیان کررہے ہیں ، ان پر تعجب کرنا چاہیے۔‘‘

            اس آیتِ کریمہ کے تحت حضرت مولانا محمدادریس کاندھلویؒ لکھتے ہیں :

            ’’معلوم ہوا کہ اپنے کو پاک باز کہنا اور تقدس کا دعویٰ کرنا صریح گناہ ہے۔‘‘ (معارف القرآن:۲)

            حضرت مولانا مفتی محمد شفیعؒ نے اپنی تفسیر ’’معارف القرآن‘‘ میں اس آیت کے متعلق عنوان باندھا ہے: ’’اپنی مدح سرائی اور عیوب سے پاک ہونے کا دعویٰ جائز نہیں ۔‘‘ پھر نیچے لکھتے ہیں :

            ’’اس سے معلوم ہوا کہ کسی کو اپنی یا دوسروں کی پاکی بیان کرنا جائز نہیں ہے۔ یہ ممانعت تین وجہ سے ہے:

            ۱-          اپنی مدح کا سبب اکثر کبر ہوتا ہے، تو حقیقت میں ممانعت کبر سے ہوئی۔

            ۲-        یہ کہ خاتمہ کا حال اللہ کو معلوم ہے کہ تقویٰ وطہارت پر ہوگا یا نہیں ، اس لیے اپنے آپ کو مقدس بتلانا خلافِ خوفِ الٰہی ہے۔

            ۳-        ممانعت کی تیسری وجہ یہ ہے کہ اکثر اوقات اس دعوی سے لوگوں کو یہ وہم ہونے لگتا ہے کہ یہ آدمی اللہ کے ہاں اس لیے مقبول ہے کہ یہ تمام نقائص اور عیوب سے پاک ہے، حالانکہ یہ جھوٹ ہے؛ کیونکہ بہت سے عیوب بندہ میں موجود ہوتے ہیں ۔‘‘ (معارف القرآن، ج:۲، ص:۴۳۰)

            حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ ’’بیان القرآن‘‘ میں لکھتے ہیں :

            ’’اس میں دعوائے تقدس پر انکار ہے اور اس میں بجز اہلِ فنا کے بہت مشائخ مبتلا ہیں ۔‘‘

                                                                                                                        (بیان القرآن، ج:۱، ص:۳۶۱)

            ۲- ’’فَلَا تُزَکُّوْا أَنْفُسَکُمْ ہُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقٰی۔‘‘ (سورۃ النجم:۳۲)

            ’’تم اپنی پاکیزگی مت بیان کرو، وہ خوب جانتا ہے کہ کون متقی ہے۔‘‘

            حضرت تھانویؒ ’’بیان القرآن‘‘ میں فرماتے ہیں :

            ’’اس آیتِ کریمہ میں دعوائے تقدس سے صریح ممانعت ہے۔‘‘ (بیان القرآن، ج:۲، ص:۴۷۵)

            حضرت مولانا عاشق الٰہیؒ تفسیر ’’انوارالبیان‘‘ میں لکھتے ہیں :

            ’’اپنا تزکیہ کرنا اور اپنی تعریف کرنا، یعنی اپنے اعمال کو اچھا بتانا اور اپنے اعمال کو بیان کرکے دوسروں کو معتقد بنانا، یا اپنے اعمال پر اترانا اور فخر کرنا، آیت کریمہ سے ان سب کی ممانعت معلوم ہوگئی۔ رسول اللہ ﷺ  کو  ایسا نام رکھنا بھی پسند نہ تھا جس سے اپنی بڑائی اور خوبی کی طرف اشارہ ہوتاہو۔(انوارالبیان، ج:۵، ص:۲۳۵)

            حضرت مولانا صوفی عبدالحمید سواتی صاحبؒ ’’معالم العرفان‘‘ میں فرماتے ہیں :

            ’’آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ امیروں ، وزیروں اور عہدیداروں کی ان کے حاشیہ بردار کتنی تعریفیں کرتے ہیں ، ان کو سپاس نامے پیش کیے جاتے ہیں جس میں زمین وآسمان کے قلابے ملائے جاتے ہیں ، آپ نے اس سے منع فرمایا ہے۔ ایسے معاملے میں مبالغہ آرائی سے منع کیا گیا ہے، صرف حقیقت بیان کرنے کی اجازت ہے۔‘‘ (معالم العرفان، ج:۱۷، ص:۴۱۸)

القاب میں مبالغہ آرائی احادیثِ طیبہ کی روشنی میں

            القاب میں مبالغہ آرائی سے ممانعت پراب چند احادیثِ طیبہ ملاحظہ فرمائیے:

            ۱-         ایک مرتبہ ایک شخص نے جناب نبی کریم ﷺ  کے سامنے ایک دوسرے آدمی کی خوب مدح و تعریف کی، اس پر آپ ﷺ  نے فرمایا:  ’’وَیْحَکَ، قَطَعْتَ عُنُقَ صَاحِبِکَ‘‘ ۔۔۔ ’’افسوس ہے تجھ پر، تونے تو اپنے ساتھی کی گردن کاٹ دی۔‘‘ پھر فرمایا کہ اگر تمہیں کسی کی تعریف کرنی ہوتو ان الفاظ سے کرو کہ میرے علم کے مطابق یہ شخص نیک ومتقی ہے۔  ’’وَلَا أُزَکِّیْ عَلَی اللّٰہِ أَحَدًا‘‘ یعنی ’’میں یہ نہیں کہتا کہ اللہ کے نزدیک بھی وہ ایسا ہی ہے جیسا میں سمجھ رہا ہوں ۔‘‘ (صحیح بخاری، کتاب الشہادات والادب۔ مسلم، کتاب الزہد)

            ۲-        حضرت مقداد بن اسودؓ سے روایت ہے کہ ہمیں حضور اقدس ﷺ  نے حکم دیا:

          ’’أَنْ نَّحْثُوَ فِيْ وَجُوْہِ الْمَدَّاحِیْنَ التُّرَابَ۔‘‘

            ’’ہم تعریف کرنے والوں کے چہروں پر مٹی دیں ، یعنی ان کو ناکام بنادیں ۔‘‘

            ۳-        ایک روایت میں ہے کہ حضرت زینب بنت ابی سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جناب نبی کریم ﷺ  نے مجھ سے دریافت فرمایا: تمہارا نام کیا ہے؟ چونکہ اس وقت میرا نام ’’برّہ‘‘ تھا (جس کے معنی ہیں نیک و گناہوں سے پاک عورت) میں نے وہی بتلایا، تو آپ ﷺ  نے فرمایا:  ’’لَا تُزَکُّوْا أَنْفُسَکُمْ، اَللّٰہُ أَعْلَمُ بِأَہْلِ الْبِرِّ مِنْکُمْ‘‘ (رواہ مسلم وبخاری، باب تحویل الاسم) یعنی ’’تم اپنے آپ کی گناہوں سے پاکی بیان نہ کرو؛ کیونکہ یہ علم صرف اللہ ہی کو ہے کہ تم میں سے نیک اور پاک کون ہے۔‘‘ پھر ’’برہ‘‘ کے بجائے آپ نے زینب نام رکھا۔ مطلب یہ ہے کہ جب کسی کا نام ’’برہ‘‘ (نیک عورت) ہوگا تو اس سے جب دریافت کیا جائے گا کہ تم کون ہو؟ تو ظاہرسی بات ہے کہ وہ یہ کہے گی ’’برّہ‘‘ یعنی میں نیک اور گناہوں سے پاک خاتون ہوں ، اس میں چونکہ بظاہر صورتاً خود اپنی زبان سے نیک ہونے کا دعویٰ پایا جاتا ہے؛ اس لیے آپ ﷺ  نے اس سے منع فرمایا۔

            ۴-        علامہ ابن الحاج مالکیؒ نے ’’سنن ابودائود‘‘ کے حوالے سے یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ ایک مرتبہ حضور اقدس ﷺ  کی خدمت میں ایک وفد حاضر ہوا، آپ ﷺ  نے ان کو سنا کہ وہ اپنے سردار کو ’’ابوالحکم‘‘ سے پکاررہے تھے؛ چنانچہ آپ ﷺ  نے اس کنیت کو ناپسند فرمایا، ان کے سردار کو بلایا اور ان سے پوچھا کہ آپ کو ’’ابوالحکم‘‘ کیوں کہتے ہیں ؟ اس نے جواب میں کہا: میری قوم میں جب کوئی دوفریق اختلاف کریں تو وہ میرے پاس فیصلہ کرنے کے لیے آتے ہیں ، پھر میں ان کے درمیان فیصلہ کرتا ہوں ۔ تو دونوں فریق اس فیصلہ کو تسلیم کرلیتے ہیں ، آپ ﷺ  نے اس سے پوچھا: آپ کی اولاد ہے؟اس نے کہا: جی ہاں ! میرے تین بیٹے ہیں : شریح، عبداللہ، مسلم۔ آپ نے اس سے پوچھا: ان میں بڑا کون ہے؟ انھوں نے کہا: شریح۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ: آپ ابوشریح ہیں نہ کہ ابوالحکم؛ کیونکہ اس میں تقدس اور بڑائی کا پہلو پایا جاتا ہے۔ (المدخل، ج:۱، ص:۱۱۰، فصل فی ذکر النعوت)

            ۵-        خود جناب نبی کریم ﷺ  نے اپنی ذاتِ اقدس کے متعلق ارشاد فرمایا:  ’’لَا تُطْرُوْنِیْ کَمَا أَطْرَتِ النَّصَارٰی عِیْسَی بْنَ مَرْیَمَ۔‘‘۔۔۔ ’’لوگو! میری تعریف میں مبالغہ سے کام نہیں لینا، جیساکہ نصاریٰ نے حضرت عیسی بن مریم علیہ السلام کے متعلق مبالغہ اختیار کیا ہے۔‘‘ انھوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو الوہیت کا درجہ دے کر خودکافر اور مشرک بن گئے، میرے ساتھ ایسا معاملہ نہ کرنا  ’’إِنِّيْ عَبْدُ اللّٰہِ وَرَسُوْلُہٗ‘‘۔۔۔ ’’میں تو اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں ۔‘‘ لہٰذا تم بھی مجھے اللہ کا بندہ اور رسول ہی کہو۔ (بخاری، باب  ’’واذکر فی الکتاب مریم‘‘)

ایک اعتراض اوراس کا جواب

            یہاں پر یہ سوال ہوسکتا ہے کہ بعض مواقع پر آپ ﷺ  نے خود بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی مدح اور تعریف فرمائی ہے اور ان کو اچھے اچھے القاب سے نوازا ہے۔ حضرت عثمانؓ کے بارے میں فرمایا:  ’’وَأَصْدَقُہُمْ حَیَائً عُثْمَانؓ‘‘  حضرت  علیؓ کے بارے میں فرمایا:  ’’وَأَقْضَاہُمْ عَلِيٌّ‘‘  حضرت ابوعبیدہ بن جراحؓ اور بعض دیگر صحابہؓ کے بارے میں فرمایا:  ’’وَأَمِیْنُ أُمَّتِيْ أَبُوْعُبَیْدَۃُ بْنُ الْجَرَّاحِ، وَأَعْلَمُ أُمَّتِيْ بِالْحَلَالِ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍؓ، وَأَقْرَأُہُمْ أَبُوْ مُوْسٰی، نِعْمَ الْعَبْدُ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عُمَرَ وَ غَیْرُ ذٰلِکَ۔‘‘

            جواب:۔۔۔ اس سوال کا جواب امام نوویؒ، حافظ ابن حجرؒ اور علامہ ابن بطالؒ نے یہ ذکر کیا ہے کہ صرف حقیقتِ حال بیان کرنے کی اجازت ہے کہ میرے علم کے مطابق فلاں آدمی میں یہ خوبی ہے، اس میں مبالغہ سے کام لینا جائز نہیں ، جیساکہ  ’’الْمَدَّاحِیْن‘‘ (بہت زیادہ تعریف کرنے والے) کا لفظ بھی اس پر دلالت کرتا ہے۔ یہ بھی صرف اس شخص کے متعلق کہا جاسکتا ہے جس کے متعلق تکبر اور عجب کے فتنہ کا اندیشہ نہ ہو، جیساکہ آں حضرت ﷺ  کو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں یقین تھا کہ وہ حضرات اس سے فتنہ میں مبتلا نہیں ہوں گے؛ اس لیے آپ ﷺ  نے ان کی تعریف فرمائی، چونکہ صحابۂ کرامؓ کے علاوہ دیگر لوگوں کے متعلق فتنہ میں ابتلا کا اندیشہ غالب ہے، لہٰذا دوسرے لوگوں کی تعریف سے بچنا چاہیے۔ (شرح صحیح البخاری لابن البطالؒ: باب ما یکرہ من التمادح، ج:۹، ص:۲۵۳۔ فتح الباری: باب ما یکرہ من التمادح، ج:۱۰، ص:۴۷۶۔ شرح النووی علی صحیح مسلم، باب النہی عن المدح)

فقہائے کرام کے اقوال کی روشنی میں

            قرآن وسنت کے ماہرین حضرات فقہائے کرام نے بھی نیکی، تقدس، پاکیزگی، بڑائی اور مدح سرائی میں مبالغہ کا تاثر دینے والے ان القاب کو ناجائز قرار دیا ہے۔

            چنانچہ مالکیہ کے مشہور فقیہ علامہ ابن الحاج المالکیؒ لکھتے ہیں : اس بدعت سے بچنا ضروری ہے جو وبا کی طرح پھیل گیا ہے اور شاید ہی اس کی زد سے کوئی بڑا چھوٹا محفوظ رہاہو اور وہ یہ نئے اور خود ساختہ القاب ہیں جو شریعت کے سراسر مخالف ہیں ، وہ ہیں :  ’’فلان الدین وفلان الدین‘‘  عالم کے لیے تو اور زیادہ ضروری ہے کہ وہ اس جیسے القاب سے اپنے آپ کو محفوظ رکھے۔ اس سلسلے میں لوگوں کو بھی سمجھائیں کہ یہ القاب شریعت کے مخالف ہیں ؛ لہٰذا ان کو اس جیسے القاب سے نہ پکاریں ۔ ایسے القاب و اسماء کو استعمال کرنا جو تزکیہ اورتعریف پر مشتمل ہو، اس کی ممانعت کتاب اللہ، سنت رسول اور علماء کے اقوال سے ثابت ہوتی ہے۔ نیز یہ غلط بیانی اور جھوٹ میں داخل ہوکر سلفِ صالحین کے عمل کے بالکل مخالف ہے۔

            آگے فرماتے ہیں : اگر ان القاب و اسماء کا استعمال جائز ہوتا تو اُمتِ محمدیہ میں اس کے سب سے زیادہ حقدار اور مستحق صحابۂ کرامؓ تھے، جو ہدایت کے سورج اور اندھیروں کے چراغ تھے اور دین کے سب سے پہلے مددگار تھے، جیساکہ قرآن نے اس کی گواہی دی ہے۔ اسی طرح ازواجِ مطہراتؓ جن کو اللہ تعالیٰ نے نبی پاک ﷺ کے لیے چنا اور جن کی فضیلت کی گواہی اللہ تعالیٰ نے خود دی ہے۔ المومنین حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا پہلے نام ’’برہ‘‘ تھا، آپ نے تبدیل کردیا؛ حالانکہ وہ اس کی مصداق اور حقدار تھیں ، تو پھر ہم کون ہیں کہ اپنے لیے ایسے القاب تجویز کریں ؛ لہٰذا نجات اور کامیابی صحابہؓ کی اتباع میں ہے۔ اس سلسلے میں انھوں نے امام نوویؒ کا مشہور اورمعروف واقعہ بھی نقل کیاہے۔ امام نوویؒ مشہورشافعی عالم دین ہیں جو کئی مفید اور بڑی کتابوں کے مصنف ہیں ، جن میں شرح مجموع مہذہب اور شرح مسلم جوکئی جلدوں پر مشتمل ہے اور ریاض الصالحین وغیرہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں ۔ یہ شافعیہ میں بڑی عبقری شخصیت گزرے ہیں جن کی تصنیفات سے اُمت کا ایک بڑا طبقہ استفادہ کرتا چلا آرہا ہے، دینی وعلمی خدمات کی بنیاد پر جب ان کے معاصرین نے ان کو محی الدین کے لقب سے موسوم کیا تو انھوں نے سخت ناراضگی کا اظہار کیا اور فرمایا:  ’’إِنِّيْ لَا أَجْعَلُ أَحَدًا فِيْ حِلِّ مَنْ یُّسَمِّیْنِيْ بِمُحْيِ الدِّیْنِ۔‘‘  یعنی میں کسی کو بھی محی الدین کے لقب سے پکارنے کی اجازت نہیں دیتا، حالانکہ وہ اس لقب کے حق دار بھی تھے، یہی وجہ ہے کہ امت نے انھیں انتقال کے بعد اس لقب سے موسوم کیا؛ مگر اپنی زندگی میں انھوں نے سخت ناراضگی کا اظہار کیا اور ظاہر ہے کہ ناراضگی کی وجہ صرف یہی تھی کہ اس میں مذہبی تقدس کا پہلو تھا۔ (المدخل، ج:۱، ص:۱۱۱، فصل فی النعوت)

            مولانا عبدالحئی لکھنویؒ نے ’فوائدِبہیہ‘‘ کے آخر میں لکھا ہے کہ عراق کے فقہاء میں عام طور پر القاب میں سادگی تھی، وہ کاروبار، محلہ، قبیلہ یا گائوں کی طرف نسبت کرنے پر اکتفا کیا کرتے تھے، جیسے جصاص (گچ والا)، قدوری (ہانڈی والا)،  طحاوی (طحاگائوں کا باشندہ)، کرخی (مقام کرخ کا باشندہ)، صمیری (صمیرہ کا باشندہ) اور خراسان اور ماوراء النہر میں عام طور پر القاب میں مبالغہ کیا جاتا تھا اور دوسروں پر ترفع ظاہر کیا جاتا تھا، جیسے: شمس الائمہ، فخرالاسلام، صدرالاسلام، صدرِ جہاں ، صدرالشریعہ وغیرہ اور یہ صورت زمانۂ مابعد میں پیدا ہوگئی تھی۔ پہلے زمانے کے لوگ اس قسم کی باتوں سے پاک تھے۔ ابوعبداللہ قرطبیؒ اسماء اللہ الحسنیٰ کی شرح میں لکھتے ہیں :

            ’’قرآن وحدیث سے اپنا تزکیہ کرنے کی ممانعت ثابت ہوتی ہے۔ ہمارے علماء نے فرمایا ہے: مصر کے علاقوں میں اور دیگر بلادِ عرب وعجم میں جورواج ہوگیا ہے کہ اپنے لیے ایسی صفات استعمال کی جاتی ہیں جو تزکیہ اور تعریف پر دلالت کرتی ہیں وہ بھی اس ممانعت میں داخل ہے، جیسے زکی الدین، محی الدین، علم الدین اور اسی طرح کے دیگر القاب۔ اور محی الدین نحاس کی  ’’تَنْبیہ الغافلین‘‘ میں جہاں منکرات کا تذکرہ ہے، لکھا گیا ہے کہ منکرات میں سے وہ بھی ہے جو وبا کی طرح پھیل گیا ہے، یعنی وہ جھوٹ جو زبانوں پر رائج ہوگیا ہے اور وہ خود ساختہ القاب ہیں : جیسے محی الدین، نورالدین، عَضُدالدین، غیاث الدین، معین الدین اور ناصرالدین وغیرہ۔ یہ وہ جھوٹ ہے جو پکارتے وقت اور تعریف کرتے وقت اور حکایت کرتے وقت زبانوں پر باربار آتا ہے۔ یہ سب دین میں امرمنکر اور بدعت ہے۔‘‘

            مذکورہ بالا اقتباسات نقل کرنے کے بعد مولانا لکھنویؒ نے یہ نوٹ لکھا ہے:

            ’’یہ بات یعنی مذکورہ بالا القاب کا منکروبدعت ہونا اس صورت میں ہے جب کہ صاحبِ لقب اس کا اہل نہ ہو، یا اہل تو ہو؛ مگر اس نے لقب بطور تزکیہ رکھاہو۔‘‘ (فوائد بہیہ:۱۰۰، بحوالہ: آپ فتویٰ کیسے دیں ؟:۵۰)

            حاشیہ میں حضرت مولانا مفتی سعید احمد پالن پوری صاحب لکھتے ہیں :

            ’’ہمارے عرف میں یہ القاب بطور اعلام (ناموں کے) مستعمل ہیں ؛ اس لیے ممنوع نہیں ہیں ، ہمارے محاورات میں القابِ غالیہ کی مثالیں ، مفتی اعظم، محقق بے بدل، خطیبِ عصر، علامۂ زماں وغیرہ ہیں ۔‘‘ (آپ فتویٰ کیسے دیں ؟:۵۰)

            حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے ایک سلسلۂ گفتگو میں بعض مخترع القاب کے متعلق فرمایا:

            ’’خبرنہیں لوگ کس عبث اور فضولیات میں مبتلا ہیں ، اس سے ان لوگوں کے مذاق کا پتہ چلتا ہے، کوئی شیخ الحدیث ہے، کوئی استاذ الحدیث، کوئی شیخ التفسیر، کوئی شیخ الجامعہ، یہ اس قسم کے جھگڑے ابھی شروع ہوئے  ہیں ۔ ہمارے بزرگوں میں تو ان چیزوں کا نام ونشان بھی نہ تھا، یہ سب جاہ طلبی ہے اور سب سے زیادہ اچھی اور خوبی کی بات تو وہی ہے جو پہلے اپنے بزرگوں میں تھی: سادگی، اسی میں برکت ہے، ان چیزوں میں برکت کہاں ، یہ سب نئی روشنی کا اثر ہے۔‘‘ (ملفوظ نمبر:۴۲۷،۲۷۳، ملفوظات حکیم الامت)

آپ کو صرف مولانا محمدانورشاہ لکھنے کی اجازت ہے

            حضرت علامہ سیدمحمدانور شاہ کشمیریؒ علم وفضل میں یکتائے روزگار تھے۔ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے اپنی ایک مجلس میں نقل کیا کہ ایک عیسائی فیلسوف نے لکھا ہے کہ: ’’اسلام کی حقانیت کی ایک دلیل یہ ہے کہ امام غزالیؒ جیسا محقق اور مدقق اسلام کو حق سمجھتا ہے۔‘‘ یہ واقعہ بیان کرکے حضرت تھانویؒ نے فرمایا: ’’میں کہتا ہوں کہ میرے زمانے میں مولانا انورشاہ صاحبؒ کا وجود اسلام کی حقانیت کی دلیل ہے کہ ایسا محقق اور مدقق عالم اسلام کو حق سمجھتا ہے اوراس پرایمان رکھتاہے۔‘‘

            حضرت علامہ سیدمحمدیوسف بنویؒ فرماتے ہیں : طلاق کے ایک مسئلہ میں کشمیر کے علماء میں اختلاف ہوگیا، فریقین نے حضرت شاہ صاحبؒ کو حکم بنایا۔ حضرت شاہ صاحبؒ نے دونوں کے دلائل غور سے سنے، ان میں سے ایک فریق اپنے موقف پر فتاویٰ عمادیہ کی ایک عبارت سے استدلال کررہا تھا۔ حضرت شاہ صاحبؒ نے فرمایا: میں نے دارالعلوم کے کتب خانے میں فتاویٰ عمادیہ کے ایک صحیح قلمی نسخے کا مطالعہ کیا ہے، اس میں یہ عبارت ہرگز نہیں ہے، لہٰذا یاتو ان کا نسخہ غلط ہے یا یہ لوگ کوئی مغالطہ انگیزی کررہے ہیں ۔ ایسے علم وفضل اور ایسے حافظہ کا شخص اگر بلند بانگ دعوے کرنے لگے تو کسی درجہ میں اس کو حق پہنچ سکتا ہے؛ لیکن حضرت شاہ صاحبؒ اس قافلۂ رشدوہدایت کے فرد تھے جس نے  ’’مَنْ تَوَاضَعَ لِلّٰہِ‘‘  کا عملی پیکر بن کر دکھایا تھا، چنانچہ اسی واقعہ میں انھوں نے حضرت علامہ محمد یوسف بنوریؒ کو اپنا فیصلہ لکھنے کاحکم دیا تو انھوں نے حضرت شاہ صاحبؒ کے نام  کے ساتھ  ’’الحبر البحر‘‘ (عالم متبحر) کے دو تعظیمی لفظ لکھ دئیے، حضرت شاہ صاحبؒ نے دیکھاتو قلم ہاتھ سے لے کر زبردستی خود یہ الفاظ مٹائے اور غصہ کے لہجے میں مولانا بنوریؒ سے فرمایا: ’’آپ کو صرف مولانا محمد انورشاہ لکھنے کی اجازت ہے۔‘‘ حضرتؒ کا جملہ ملاحظہ فرمائیے کہ وہ تواضع کے کس مقام کی غمازی کررہا ہے؟ اوریہ محض لفظ ہی نہیں ہیں ؛ بلکہ وہ واقعتا اپنے تمام کمالات کے باوجود اپنے آپ کو ایک معمولی طالب علم سمجھتے تھے اوراس دعائے نبوی (علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام) کے مظہر تھے:  ’’اَللّٰہُمَّ اجْعَلْنِيْ فِيْ عَیْنِيْ صَغِیْرًا وَ فِيْ أَعْیُنِ النَّاسِ کَبِیْرًا۔‘‘ (اکابر دیوبند کیا تھے؟:۹۷،۸۹)

            حقیقت یہ ہے کہ علم وفضل کے سمندر سینے میں جذب کرلینے کے باوجود سلفِ صالحین کی تواضع، سادگی اور للہیت انتہاء کو پہنچی ہوئی تھی۔           

تحدیث بالنعمۃ کی اجازت

            اگر اللہ تعالیٰ نے کسی کو اچھے اعمال، اچھے اخلاق اور اچھے اوصاف کی نعمت سے نوازا ہو اور وہ بطور تحدیث بالنعمۃ اپنی اچھی حالت بیان کردے تو اس کی گنجائش ہے؛ لیکن بیان کرتے وقت اپنے باطن کا جائزہ لے لے کہ نفس کہیں دھوکہ تو نہیں دے رہا ہے۔ (المستفاد: انوارالبیان، ج:۱، ص:۶۰۱۔ معارف القرآن، ج:۲، ص:۴۳۱)

ایسا لقب اختیار کرنا جس سے گناہ گاری ٹپکتی ہو

            یاد رہے کہ رسول اللہ ﷺ  نے جس  طرح ام المومنین کا نام زینب رکھ دیا جن کا پہلا نام ’’برہ‘‘ تھا، اسی طرح آپ ﷺ  نے ایک لڑکی کا نام ’’جمیلہ‘‘ رکھ دیا جس کا پہلا نام ’’عاصیہ‘‘ (گناہ گار) تھا۔ (رواہ مسلم) معلوم ہوا کہ اپنی نیکی کا ڈھنڈورا بھی نہ پیٹے اور اپنا نام اور لقب بھی ایسا نہ رکھے جس سے گناہ گاری ٹپکتی ہو، مومن نیک ہوتا ہے؛ لیکن نیکی کو بگھارتا نہیں پھرتا اور کبھی گناہ ہوجاتا ہے تو توبہ کرلیتا ہے۔ نیز اپنی ذات کے لیے کوئی ایسا نام ولقب بھی تجویز نہیں کرتا، جو گناہ گاری کی طرف منسوب ہوتا ہو، بہت سے لوگ تواضع میں اپنے نام کے ساتھ العبد العاصی یا عاصی پر معاصی لکھتے ہیں ، یہ طریقہ رسول اللہ ﷺ  سے جوڑ نہیں کھاتا۔ (انوارالبیان، ج:۵، ص:۲۳۲)

            ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام کے سامنے یہ بات خوب واضح کرلی جائے، اس طرح بے محل القاب استعمال کرنا ہرگز درست نہیں ؛ بلکہ یہ غلط بیانی اور جھوٹ میں داخل ہے۔ نیز مدارسِ دینیہ میں طلبۂ کرام کی اس طرح تربیت کی جائے کہ وہ اپنے لیے ایسے القاب پسند ہی نہ کریں ؛ بلکہ سادگی کے ساتھ اپنے نام کو ہی پسند کریں ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس سلسلے میں افراط و تفریط سے بچنے اور راہِ اعتدال پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!            (بشکریہ ماہ نامہ بینات)

——————————————–

دارالعلوم ‏، شمارہ : 11-12،  جلد:103‏،  ربیع الاول– ربیع الثانی 1441ھ مطابق نومبر – دسمبر  2019ء

٭           ٭           ٭

Related Posts