از: ڈاکٹر ایم اجمل فاروقی، ۱۵- گاندھی روڈ، دہرہ دون

آج خدا بیزار، مادہ پرستانہ نقطئہ نظر کی بے روک ٹوک اشاعت نے انسانیت کو خطروں اور مضر صحت ماحول میں وہاں پہنچادیا ہے جہاں اس کے چاروں طرف ہلاکت ہی ہلاکت ہے۔ اپنے فائدہ کے لئے ہتھیاروں کی فروخت ہو یا مضر صحت کھانے پینے کی اشیاء کا معاملہ ہو انسانی زندگی صبح سے شام ہر وقت انسانوں کی پیدا کردہ مصیبتوں اور لعنتوں کی زد پر ہے۔

۲۱/فروری ۲۰۰۵/ کے اخبارات میں خبر کے مطابق ہندوستان سے انگلستان بھیجی جانے والی سرخ مرچوں کی جانچ کے نتیجہ میں پایاگیا کہ اس میں سوڈان I- نام کا کیمیاوی مادہ پایا گیا جوکہ انتہائی مضر صحت اور کینسر پیدا کرنے والا ہوتا ہے۔ کیونکہ انگلستان کا معاملہ تھا اس لئے اخبارات بھی کافی دنوں تک گرم و سرخ رہے۔ قوانین بھی بنائے گئے کہ ایکسپورٹ کرنے والی اشیاء خورد و نوش کی سخت چیکنگ کی جائے۔ مگر حکومت انگلستان نے بتایا کہ یہ مادہ عموماً پالش کریم اور رنگ گھولنے والے رقیق مادوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اس کی اشیاء خورد و نوش میں موجودگی سخت غلط حرکت ہے۔ اس کے نتیجہ میں ایک کروڑ پچاس لاکھ پاؤنڈ مالیت کا تیار شدہ سامان ضائع کرنا پڑا۔ اس کے بالمقابل ہمارے ملک کی ریاست اترپردیش میں گذشتہ مہینوں میں لکھنوٴ اور آس پاس کے اضلاع میں سرسوں کے تیل میں زہریلا مضر صحت تیل ملایاگیا نتیجتاً بڑے پیمانہ پر گردہ اورجگر کی بیماریاں عوام میں پیدا ہوگئیں۔ بہت شورشرابہ کے بعد ہی چند بیوپاریوں کے خلاف کارروائی ہوپائی۔ ہاپوڑ اور خورجہ میں بڑے بڑے گوداموں پر چھاپہ کے دوران گھی میں ملانے کے لئے رکھے گئے معدنی تیل اور اس سے تیار شدہ زہر آلود گھی پکڑا گیا۔ ۲۹/ اپریل ۲۰۰۵/ کو ایٹہ میں چھاپہ مارے جانے پر پانچ کروڑ روپیہ سے زیادہ قیمت کا ملاوٹی اشیاء ہائیڈروجن پر آکسائڈ، یوریا، کاسٹک سوڈا، گلوکوز اور ریفائنڈ تیل کے دس ہزار سے زیادہ ڈرم پکڑے گئے۔ اس شہر کی دوسری فیکٹری میں بڑی کمپنی کے ٹھنڈے مشروب بنانے کی جعلی کمپنی بھی پکڑی گئی۔

دن رات میں ہوا، پانی، اناج، دودھ، سبزی، دال، گوشت، دوا، پھل، کریم، پاؤڈر، صابن کو ہم استعمال کررہے ہیں وہ کتنی محفوظ یا مضر ہے اس کا اندازہ ذیل کی اجمالی نظر سے لگاسکتے ہیں:

صبح اٹھتے ہی پی جانے والی چائے کی پیالی یا ٹوتھ پیسٹ یا منجن کن کن زہروں سے مرکب ہوگا آپ کو معلوم نہیں۔ این جی او بٹاکسک لنک کے روی اگروال کہتے ہیں کہ دودھ اگر زہریلا نہ ہو تو اس میں یوریا ضرور ہوگا۔ جانوروں کو لگایا جانے والا ہارمون کے جزئیات ہونگے جس ہارمون سے اسقاط حمل اور بانجھ پن پیدا ہوسکتا ہے۔ چائے کی پتی میں برادہ، لوہے کا برادہ، رنگی ہوئی پتیاں، چمڑہ کا پاؤڈر اور کول تار کا رنگ ملا ہوسکتا ہے۔میدہ کی سفید ڈبل روٹی کو رنگ کر سوجی کی براؤن پریڈ بنادیا جاتا ہے۔ اور چینی میں چاک کا پاؤڈر ملاہوسکتا ہے۔

دوپہر کے کھانے میں دال، سبزی، تیل، گوشت، گھی، دھنیا، مرچ، اچار، چٹنی کچھ بھی استعمال کریں سب میں ٪۹۰ کی حد تک ملاوٹی یا مضر صحت مادوں کا پایا جانا ضروری ہے۔ سب سے زیادہ عام مضر صحت اشیاء میں کیڑے مار ادویہ ڈی․ ڈی․ ٹی وغیرہ شامل ہیں، جو عموماً خطرناک حدتک زیادہ ہوتی ہیں۔ دالوں کو رنگنے والے مادہ سے کینسر ہوسکتا ہے، ہلدی میں کی جانے والی ملاوٹ سے خون کی کمی، فالج، ذہنی نشوونما میں رکاوٹ مٹھائیوں میں میٹانل یلو اور اوڈامن B ملانے سے کینسر، اچار میں کاپرسالٹ ملانے سے گردوں کے لئے خرابی، سونف کی ملاوٹ سے کینسر ، وناسپتی میں نمی سے ملی جانور کی چربی ملانے سے الٹی اور متلی، تیز صابن بنانے میں کام آنے والے پام آئیل کی چربی اسٹیرین Stearin دل اور معدہ کے خطرناک امراض، بھنڈی پر نیلا تھوتھا خون کی کمی، بیگن پر چمکانے والا مادہ کینسر، پتہ گوبھی پر موجود میٹھا تیل پیراتھین کینسر اور نشوونما میں رکاوٹ، نمک میں موجود رنگولی معدہ و آنت میں خراش پیدا کرسکتے ہیں۔ جانوروں میں کرم کش ادویہ کے علاوہ اینٹی بایوٹک دواؤں کی مضر صحت مقدار ملتی ہے۔ مٹھائیاں اگر مصنوعی دودھ سے بنی ہیں تو اس میں سرف اور یوریا بھی ملاہوگا۔

کولڈڈرنک اور فاسٹ فوڈ

(چاومین، میگی، چومو، مومو وغیرہ) انسانی ضروریات کو کاروباری مقصد سے استعمال کرنے کے ذہن نے فاسٹ فوڈ کو رواج دیا، جن کے بارے میں متفقہ رائے ہے کہ ان کے مستقل استعمال سے متعدد قسم کے امراض لاحق ہوسکتے ہیں۔

سنجے گاندھی پوسٹ گریجویٹ انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر کے مطابق فاسٹ فوڈ اور شراب کے استعمال کی وجہ سے پیٹ اور جگر کے امراض میں اضافہ ہورہا ہے۔ اس زمرہ میں ہاٹ ڈاگ اوربرگر بھی شامل ہیں جو کہ گوشت کو مخصوص طور پر بنایا جاتا ہے۔ تازہ ترین تحقیق کے مطابق اس طرح تیار شدہ غذائی اشیاء کے استعمال سے بانقراس (Pancrcas) کے استعمال کا خطرہ بہت ہوتا ہے۔ مصنوعی طور پر تیار کئے گئے مشروبات میں کوک اور پیپسی سرفہرست ہیں۔ گذشتہ اگست میں کوکاکولا میں پائے جانے والی کرم کش ادویہ کی سطح خطرناک حد تک مضر صحت پائی جانے کے بعد بہت ہنگامہ ہوا تھا۔ بعد میں مشترکہ جانچ کمیٹی کی رپورٹ نے ان الزامات کو صحیح پایا تھا کہ کوکا کولا میں کیڑے مار ادویہ کی مقدار خطرناک حد تک زیادہ تھی، مگر سوال یہ ہے کہ سالوں تک اس مقدار میں مضر صحت کوکاکولا کو اربوں لوگوں نے استعمال کیا اس نقصان کو کون پورا کرے گا؟ کیا اس نقصان کیلئے ہم خود بھی ذمہ دار نہیں ہیں؟ کوکاکولا صرف ایک کمپنی نے، پیپسی الگ ہے نے ۲۰۰۲/ میں 200 ممالک میں کاروبار کرکے 19-ارب ڈالر یعنی تقریباً 855 ارب روپیہ کے کاروبار میں تین ارب ڈالر یعنی ایک کھرب 35 ارب روپیہ کا خالص منافع کمایا۔ یعنی دنیابھر کے لوگوں نے ایک غیر ضروری بلکہ مضر صحت عادت پر اپنی گاڑھی کمائی کا نہ صرف روپیہ ضائع کیا بلکہ بدلہ میں بیماریاں بھی خریدتے ہیں، جس سے مستقل ذہنی جسمانی تکلیف کے ساتھ دواء علاج کا خرچہ بھی بڑھاتے ہیں۔

ٹھنڈے مشروب کے مہلک نقصانات

ٹھنڈے مشروب (کولا) ایک سے زائد طریقہ سے انسانی جسم کو نقصان پہنچاسکتے ہیں۔ ٹھنڈے مشروب کا عمل تیزابی P4 3.4 ہوتا ہے۔ اتنی تیزابیت دانتوں کو اور ہڈیوں کو گھولنے کے لئے کافی ہے۔ ان مشروبات میں تغذیہ نہیں ہوتا۔ بلکہ اس میں چینی، رنگ اور محفوظ رکھنے والے مادہ ہوتے ہیں۔ ان کا درجہ حرارت پیتے وقت عموماً صفر کے قریب رہتا ہے۔ اتنا کم درجہ حرارت ہمارے نظام ہضم کو متاثر کرتا ہے۔ انزائم کے کام کرنے کی صلاحیت کومتاثر کرتا ہے۔ غذا میں خمیر پیدا کردیتاہے۔ اور اس خمیر سے پیدا ہونے والے زہریلے مادہ اور گیس آنتوں کے ذریعہ جذب ہوکر خون میں شامل ہوکر پورے جسم کو متاثر کرتی ہیں، جو کہ بہت سی بیماریوں کا سبب بنتا ہے۔ اندازہ لگائیں کہ آپ کے چھوٹے بچوں کے نرم و نازک ہڈیوں، دانتوں، آنتوں اور نظام ہضم پر یہ رقیق، خوبصورت زہر کتنا مہلک اثر ڈالتا ہے؟ پھر کیا آپ زہرکو خریدنے اوراستعمال سے باز آئیں گے؟ (پاباینگ TOI ۸/اگست ۲۰۰۴/)

یہی نہیں بلکہ بوتلوں میں آنے والا پینے کا پانی بھی اکثر معاملات میں ویسا صاف نہیں ہوتا جیسا کہ معیار کے مطابق ہونا چاہئے۔ یہ پانی جس خالی بوتل میں بھرا ہوتا ہے وہ بھی اگر معیاری مواد اور موٹائی کی نہ بنی ہو تو مختلف امراض پیدا کرسکتی ہے۔ اس لئے ماہرین خالی غیرمعیاری پلاسٹک کی بوتلوں میں پانی بھرکر رکھنے کو منع کرتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ 20 مائکرونس سے زیادہ موٹائی کی بوتل نہ ہو۔ اس پلاسٹک میں کیڈمیم، مرکری اور سیسہ ملا ہوتا ہے جو مختلف امراض کی وجہ بن سکتے ہیں۔ جن میں یرقان،امراض قلب اور سانس کی بیماریاں بھی شامل ہیں۔ اسی طرح کی بوتلوں میں آنے والا فروٹ جوس، ڈبہ بند اشیاء خورد و نش، مچھلیاں وغیرہ کے ذریعہ مضر صحت کیڈمیم (Cadmim) جسم میں داخل ہوسکتا ہے۔ جو کہ انسانی جسم کے لئے نہایت مضر ہوتا ہے۔

سامانِ آرائش و زیبائش یا سامانِ بیماری

سرف، نرما اور دیگر کپڑا دھونے کے صابن اور پاؤڈر ہاتھوں اور ماحولیات کو جو نقصان پہنچارہے ہیں وہ اکثر لوگوں کو علم میں ہیں۔ سرف اور نرما کی الرجی بہت مشہور ہے۔ مگر ان خوبصورت زہروں کے بارے میں علم و شعور زیادہ عام نہیں ہے جوامریکہ اور یوروپ سے میک اپ کے سامان کے طور پر یہاں آتا ہے اور اپنا رعب جماتا ہے۔ مشہور برانڈوں کی خالص مصنوعات کے مضر صحت اثرات پر میں یہاں کچھ روشنی ڈال رہا ہوں، مگر ہمارے یہاں تو آدھے سے زیادہ مارکیٹ میں جعلی اور Duplicate مال کا قبضہ ہے۔ کیونکہ اس میں ناقابل یقین حد تک منافع ہوتا ہے۔ خالص اشیاء آرائش و زیبائش کے خلاف جب انہیں ممالک سے انتہائی موثر تحقیقی اور مستند رپورٹ آرہی ہیں تو ان کی Duplicate اشیاء کتنی حسن افزا ہونگی یہ قیاس کرنا بہت آسان ہے۔

پروفیسر نونزینگ زینگ کی تحقیق امریکن جنرل برائے وبائی امراض میں شائع ہوئی جس میں 1300 خاتون مریضوں پر طویل ریسرچ کے بعد پایاگیا کہ جو خواتین 20 سال یا زیادہ عرصہ سے بال رنگ رہی ہیں ان میں لمعاوی نظام میں پایا جانے والا کینسر کے امکانات 1/3 بڑھ جاتا ہے اور 25 سال سے گہرے رنگ استعمال کرنے والوں میں 2/3 امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ 2004میں اس مخصوص کینسر کے 54000 مریض امریکہ میں ہونگے جن میں سے 19000 کی موت واقع ہوجائے گی۔ (راشٹریہ سہارا اردو بحوالہ راشٹر ․․․ ۲۵/جنوری ۲۰۰۴/)

بیوٹی کریم اور لوشن جلد کیلئے خطرہ

لکھنوٴ میں واقع انڈسٹریل ٹاکسیکولوجی ریسرچ سنٹر کے سائنسدانوں ڈاکٹر راجندر کمار ہنس، محمد فاروق، آر ایس اے اور آر․ بی․ مشرا نے جو فوٹو بائیلوجی شعبہ سے منسلک ہیں ہندوستان کی دس مختلف کمپنیوں کی لپ اسٹک اورآٹھ کریموں پر ریسرچ کے بعد آگاہ کیا کہ ”ان میں پائے جانے والے اجزاء سورج کی روشنی کے اثر سے متحرک ہوجاتے ہیں اور زہریلے اثرات پیدا کرنے لگتے ہیں۔ سورج کی شعاعوں کے اثر سے انکے کچھ اجزاء کو توڑ دیتا ہے وہ جلد کے ذریعہ جذب کرلئے جاتے ہیں۔ سورج کی روشنی میں موجود الٹراوائیلیٹ شعاعیں کریموں اور لپ اسٹکوں میں موجود کچھ اجزاء کو کھال میں جذب کرنے کے لائق بنادیتا ہے جہاں وہ خلیات Cells کو برباد کردیتی ہیں۔ یہ رپورٹ بنگلور میں مالیکولربائیلوجسٹ کی عالمی کانفرنس میں پیش کی گئی۔ (ہندوستان ٹائمس، ۹/جنوری ۲۰۰۴)

اگست ۲۰۰۴/ میں پاگل گائے نام کی بیماری کے گایوں میں پھیلنے سے امریکی میک اپ انڈسٹری میں تہلکہ مچ گیا۔ کیونکہ تقریباً شیونگ کریم، شیمپو، کریم، سپرے (Spray) ، لپ اسٹک، آنکھوں کی لائنرس میں چمک اور چکنائی کے لئے گائے کے مختلف اعضاء کا روغن ملایاجاتا ہے۔ خدشہ یہ تھا کہ اس ناقابل علاج بیماری کے جراثیم اس روغن اورکریم کے ذریعہ آنکھوں، زخموں یا مشام خاصر کے ذریعہ جسم میں داخل ہوسکتی ہیں۔ امریکی حکومت نے حکم دیا کہ اس روغن کے بجائے دوسرے روغنیات کااستعمال کیا جائے۔ (ٹائمس آف انڈیا ۲۸/ اگست ۴۰۰۲/)

واضح رہے کہ ہندوستان میں امریکی سامان آرائش کی سالانہ درآمد تقریباً ڈیڑھ کروڑ ڈالر کی ہے۔ اور انہیں استعمال کرنا بہت معیاری اور مہذب ہونے کی دلیل مانا جاتا ہے۔

شیمپو ماں کے پیٹ میں موجود بچوں کے دماغی بڑھوتری کیلئے نقصاندہ

امریکہ کی ہنس برگ یونیورسٹی کے ڈاکٹر ایلیس آزن مین نے اپنی تحقیق کے نتائج سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ شیمپو اور باڈی لوشن کے استعمال سے حاملہ عورت کے رحم میں موجود بچہ کے دماغ کے اس حصہ کو متاثر کرسکتا ہے جو دوسرے خلیوں Cells کے ساتھ رابطہ کا کام کرتا ہے۔ یہ اثر شیمپو اور لوشن میں پائے جانے والے خصوصی کیمیائی مادہ M.I.T کی وجہ سے ہوتا ہے۔ فی الحال چوہوں پر تجربات سے یہ نتیجہ اخذ کیاگیا کہ ایم ․ آئی․ ٹی مادہ کا ہر روز استعمال انسانوں میں بھی مضر ثابت ہوسکتا ہے۔ (اردو راشٹریہ سہارا، ۸/جنوری ۲۰۰۵/)

ادویہ میں ملاوٹ اور مصنوعی ہونے کا معاملہ سب سے سنگین ہے۔ اور ہمارے ملک میں یہ جرم اتنا ہی عام بھی ہے۔ تقریباً ہراچھی دوا کانقلی برانڈ دستیاب ہے۔ تمام بڑی کمپنیوں کے برانڈ دستیاب ہیں۔ اس کے علاوہ جدید ادویہ سے متعلق یہ بات بہت اہم ہے کہ کیونکہ یہ نسبتاً بہت نئی سائنس ہے اس میں ادویہ جلدی سے مارکیٹ میں آجاتی ہیں کچھ عرصہ بعد ان کے مضر صحت بلکہ مہلک اثرات کا علم ہوتا ہے۔ حال ہی میں جوڑوں کا درد دور کرنے والی دواؤں اور عام نزلہ زکام میں استعمال ہونے والی دواؤں، ڈی – کولڈ، وکس ایکشن 500، actifed وغیرہ کے خلاف رپورٹ آنے پر ان کی فروخت پر امریکہ میں پابندی عائد کردی گئی ہے۔ ہندوستان میں بھی پابندی لگائی جارہی ہے، مگر 2 نمبر میں سب چلتا ہے۔ جیسا کہ قبل میں پابندی شدہ ادویہ جو بنگلہ دیش تک میں نہیں مل رہی ہیں مگر ہمارے یہاں بن رہی ہیں۔ کل ملاکر دیکھا جائے تو معاملہ بہت نازک اور سنجیدہ ہے، مگر مفاد پرست با اثر گروہ کی سرپرستی کی وجہ سے مسئلہ کو وہ اہمیت نہیں دی جارہی ہے جو اہمیت دی جانی ضروری ہے۔ مسئلہ کی جڑ میں بنیادی طور پر دو باتیں ہیں:

(۱) خدا بیزار طرز فکر و طرزندگی۔         (۲) مادہ پرستانہ طرز فکر و طرز زندگی۔

جب انسانوں کے ذہنوں میں دن رات یہ بات بٹھائی جارہی ہے کہ دنیا کو زیادہ سے زیادہ بھگتنا یا برتنا یا Enjoy کرنا ہی اصل مقصد حیات ہے۔ کل کس نے دیکھا ہے۔ کامیاب وہی ہے جو دنیا کے اسباب وسائل کو زیادہ سے زیادہ صرف کرسکے۔ عزت والا وہی ہے جس کے پاس زیادہ سے زیادہ اسباب ہیں۔ پھر انسان میں اللہ نے ایک فطری داعیہ رکھا ہے اپنے تشخص اور انفرادیت کے اظہار کا اپنے آپ کو نمایاں کرنے کا، خواتین میں خصوصاً یہ فطرت زیادہ مضبوط ہوتی ہے۔ انہیں فطری داعیات Instincts کا استیصال یہ انسانیت کے دشمن لالچی گروہ کرتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ اور جلد سے جلد فائدہ اٹھانے ، نفع کمانے کا بہترین طریقہ ملاوٹ اور نقلی مال کی پیداوار ہے۔ عورتوں میں قدرتی طور پر جمالیاتی حس اوراس کے تحفظ اور دکھاوے کے جذبہ کا استیصال انہیں رنگا رنگ کے اشیاء آرائش و زیبائش کے ذریعہ کیا جارہا ہے۔ جانکاروں کا کہنا ہے کہ سب سے زیادہ نفع سامانِ میک اپ میں ملتا ہے۔ اوسطاً ان کی قیمت کا 22-30% لاگت آتی ہے باقی 70% نفع ہوتا ہے۔

اس طرح کے ہوشربا حالات سے مقابلہ کیلئے انفرادی اور اجتماعی طورپر منظم اور مستقل جدوجہد کی فوری ضرورت ہے اس جدوجہد کے دو محاذ ہیں:

۱- فوری اقدامات : ان اقدامات کے تحت وہ کام کرنے ہیں جن کے ذریعہ پہلے سے موجود قوانین کا نفاذ ہوسکے۔ رضاکارانہ طور پر مہم چلائی جائے۔ ملاوٹی اور نقلی مصنوعات کا کاروبار کرنے والوں اور ان کو تحفظ دینے والے سرکاری عملہ کے خلاف مہم چلائی جائے۔

$سبزیوں اور پھلوں کو خوب اچھی طرح دھوئے بغیر نہ استعمال کیا جائے۔ بعض ماہرین کی رائے ہے کہ استعمال سے پہلے گرم پانی سے ضرور دھولیں۔

$ مصالحہ وغیرہ کوشش کریں کہ سیل بند پیکٹوں والے خریدیں۔ بہتر یہی ہے کہ ثابت مصالحہ لیکر MIxer Grinder میں باریک کرلیں۔ اتنا ہی کرنے سے کم سے کم 50% ملاوٹ سے بچا جاسکتا ہے۔

$ کھانے پینے کی اشیاء کواسٹور کرنے کے لئے عمدہ غیر استعمال شدہ پلاسٹک کے برتن خریدیں۔ خاص طور سے ٹفن وغیرہ یا کھانا گرم رکھنے کے برتن غیر معیاری نہ خریدیں۔

$ ڈبہ بند غذائی اشیاء خصوصا جو پلاسٹک کے برتنوں میں ہوں وہ نہ خریدیں۔ یونہی بھی ڈبہ بند غذا کا استعمال عادتاً نہ کریں۔ مجبوری میں ہی کریں۔

$ دودھ کی خریداری بہت معتبر دودھ والے سے ہی کریں۔ اس میں لاپرواہی نہ کریں۔ خصوصاً چھوٹے بچوں اور حاملہ خواتین کے لئے بہت مضر ثابت ہوسکتا ہے۔

$ کوشش کرکے ممکن ہو تو گھروں میں کچن گارڈن کے ذریعہ موسمی سبزیاں اگانے پر بھرپور توجہ دیں۔ لوکی، کدو، توری، ٹماٹر، دھنیا، پودینہ، لہسن، گاجر، ادرک، سیم آسانی سے اگائی جاسکتی ہیں۔

۲-    مگر اس ذہنیت کا مستقل حال یہی ہے کہ انسانوں میں اس اللہ کا تصور بیدار اور زندہ کیا جائے جو ہرجگہ موجود ہے اور ہر وقت دیکھ رہا ہے۔ انسانوں کے شعور میں اللہ کا تقویٰ جاگزیں کیا جائے۔ انسانوں کی سوچ کو مادہ پرستانہ کے بجائے خداپرستانہ بنایا جائے۔ وہ شعور پیدا کیا جائے کہ ”خلیفہ ثانی عمر فاروق کے زمانہ کی طرح دودھ فروخت کرنے والے کی لڑکی بھی کہہ اٹھے کہ عمر نہیں دیکھ رہا ہے تو کیا عمر کا خدا تو دیکھ رہا ہے۔“ اس شعور کی عمومی بیداری کے بجائے انسانوں کے ذریعہ پھیلائے جارہے فکروعمل کے کسی بھی فساد کا مقابلہ ممکن نہیں ہے۔ اس جدوجہد میں کمزوری کی قیمت ہمیں دنیا وآخرت دونوں میں خسارے اور فساد کی صورت میں ادا کرنی ہوگی۔

______________________________

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ8، جلد: 89 ‏،   جماد ی الثانی‏، رجب  1426ہجری مطابق اگست 2005ء

Related Posts