محمد سلمان بجنوری

            ۱۵؍ مارچ ۲۰۱۹ء جمعہ کے دن، نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ کی مسجد میں فائرنگ کرکے پچاس بے قصور مسلمانوں کو شہید کرنے والے شخص ۔۔۔۔ نے اپنا نام جدید تاریخ کے بڑے دہشت گردوں میں سرفہرست لکھوالیا، اور اپنے عمل سے دنیا کوایک بار پھر اس بات کو سمجھنے کا موقع فراہم کردیا کہ دنیا کا پروپیگنڈہ کچھ بھی ہو، دہشت گردی کے اصل شکار مسلمان ہیں ، ہماری یہ بات،دہشت گردی کے اصل ذمہ داروں اور سرپرستوں کے لیے اور ان کے جھوٹ کو سچ سمجھنے والے طبقہ کے لیے ناقابل قبول ہوگی؛ لیکن سچائی یہی ہے۔

            اس حادثہ کے مختلف پہلو ہیں ، ایک تو اُن اہل ایمان کا معاملہ ہے جو آئے تھے اپنے رب کے سامنے سربسجود ہونے کے لیے؛ لیکن تقدیر نے اُن کو اس کا موقع دیا کہ بارگاہ الٰہی میں متاع جاں نذر کرکے زبانِ حال سے یہ کہہ سکیں کہ       ؎

جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی             حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا

            بلاشبہ کسی بھی مسلمان کے لیے یہ سب سے بڑی سعادت ہوتی ہے کہ اسے ایمان پر موت نصیب ہوجائے اور ان لوگوں نے تو ایسے حال میں جان دی کہ حدیث نبوی کے مطابق کوئی بھی شخص ان کے لیے مؤمن ہونے کی شہادت دے سکتا تھا۔ واہ رے خوش نصیبی! ایسی موت پر ہزار زندگیاں قربان؛ لیکن شہیدوں کے اس نیک انجام کے باوصف یہ حادثہ بعد والوں کے لیے ہرطرح سے ناقابل قبول ہے۔

            خاص طورسے یہ بات کہ ایسے لوگ اس ظلم کا نشانہ بنائے گئے، جو دنیا میں پائے جانے والے کسی بھی قانون کی رو سے قطعی طور پر بے قصور تھے، یہی وجہ ہے کہ نیوزی لینڈ کی حکومت نے فوری طور پر اسے دہشت گردی سے تعبیر کیا اور وہاں کی وزیر اعظم نے بجا طور پر اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے اپنے پہلے ہی بیان میں اُس ظالم کو دہشت گرد کہا باوجودیکہ وہ انہی کا ہم مذہب تھا؛ لیکن ظاہر ہے کہ اس کے اس عمل کے لیے کوئی جواز کسی بھی طرح فراہم نہیں ہوسکتا تھا؛ اس لیے اُس حکومت کی ذمہ داری یہی تھی جو اُس نے ادا کی۔

            لیکن انتہائی افسوس ناک صورت حال یہ ہے کہ عین اسی وقت جب کہ متعلقہ حکومت اس واقعہ کو دہشت گردی سے تعبیر کرنے میں کسی تکلف سے کام نہیں لے رہی تھی، میڈیا کو اس پر دہشت گردی کا اطلاق کرنے میں تامل تھا اور وہ اسے قتل جیسے عام الفاظ سے تعبیر کرکے، اس کی شناعت کو کم کرنے کی خاموش کوشش کررہا تھا، جب کہ یہی میڈیا اُس وقت دہشت گردی کا لفظ استعمال کرنے میں بڑی سخاوت سے کام لیتا ہے، جب ایسے کسی حادثے کی ذمہ داری کسی مسلمان پر ڈالنے کا ذرا بھی امکان نظر آتا ہو، خواہ بعد میں وہ ثابت بھی نہ ہوسکے۔ میڈیا کے اس رویے نے ظالم کے ہاتھ کس قدر مضبوط کیے ہیں اور کتنے بے قصور لوگوں کو ناکردہ گناہوں کی سزا جھیلنے پر مجبور کرنے میں تعاون کیا ہے، اس کا اندازہ ہراس شخص کو ہے جو واقعات کو صرف میڈیا کی آنکھ سے دیکھنے کے بجائے اپنی عقل استعمال کرکے دیگر قرائن وآثار اور پس منظر وپیش منظر پر نظر رکھ کر رائے قائم کرتا ہو، یہ صورت حال جس نے مسلمانوں کے لیے بے شمار مسائل کھڑے کیے ہیں ، ہمارے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔

            نیوزی لینڈ کے حادثے نے جس طرح میڈیا کے اس غیرمناسب رویے کو بے نقاب کیا ہے، وہیں اس کے نتیجہ میں عالمی امن کے ٹھیکیداروں کی انصاف پسندی کی بھی قلعی کھل گئی ہے، جن کا طرزِ عمل اس وقت بالکل مختلف ہوتا ہے جب کسی حادثے کا شکار اُن کے ہم مذہب لوگ ہوتے ہیں ، اسی وقت اُن کو مظلوم کی مظلومیت کے متعلق سارے سبق یاد آجاتے ہیں اور دہشت گردی برپا کرنے والوں کے خلاف ہرقسم کی طاقت اور وسائل کا استعمال انھیں روا نظر آتا ہے، خواہ اُن کی پھانسی کا پھندا ظالم کے بجائے کسی بے قصور کی گردن میں فٹ ہوجائے تو وہ اسی کی تکمیل کرکے اپنا فرض منصبی ادا کرنے کا دعویٰ کرتے اور اس کی داد مانگتے ہیں ، اس طرز عمل نے کتنے بے قصور لوگوں کے بچوں کو یتیم کیا ہے اس کا اندازہ کرنے کے لیے گذشتہ بیس پچیس سال کے دوران برپا ہونے والی جنگیں اور مختلف ممالک میں ہونے والی کارروائیاں کافی ہیں ، جن سے ساری دنیا واقف ہے۔

            نیوزی لینڈ کے حادثے کے بعد وہاں کی حکومت کا طرزِ عمل یقیناً کسی نہ کسی درجہ میں استثنائی کہا جاسکتا ہے، اگرچہ وہ اُن کی ذمہ داری بھی تھی اور شاید مجبوری بھی؛ لیکن جس دنیا میں مجبوراً بھی انصاف کے تقاضے پورے کرنے میں کوتاہی عام ہے، وہاں نیوزی لینڈ کی حکومت اور اس کی وزیر اعظم کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات یقینا قابل تعریف ہیں اور انھوں نے وہاں کے مسلمانوں کا حوصلہ بحال کرنے میں بڑا کردار ادا کیا ہے۔ پھر وہاں کے عوام نے بھی مسلمانوں کے ساتھ اظہارِ یک جہتی میں کوئی کوتاہی نہیں کی اور بھرپور طریقہ سے ہمدردانہ اور برادرانہ اخوت پر مبنی کردار پیش کیا، جس سے اندازہ ہوا کہ اُس قوم کا عمومی مزاج عالمی طاقتوں کے منفی پروپیگنڈے کے نفرت انگیز اثرات سے بڑی حد تک محفوظ ہے، یقینا یہ چیز بھی اعتراف وقدر افزائی کی مستحق ہے۔

            ان مختلف گوشوں کے ساتھ جس بات پر سب سے زیادہ توجہ کی ضرورت ہے اور جو طویل مدتی منصوبہ سازی کی مستحق ہے وہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پھیلائے جانے والے نفرت انگیز پروپیگنڈے کے توڑ اور اس کے لیے مؤثر ومفید اقدامات کا مسئلہ ہے، یہ بات جس قدر سچی ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کا بحیثیت مذہب، یا بحیثیت قوم دہشت گردی سے اور اس کی ذمہ داری سے کچھ لینا دینا نہیں ہے، اُسی قدر اس بات کو مشتبہ بنادیا گیا ہے، اور یہ ایک واقعاتی حقیقت ہے کہ اگر کوئی شخص دن میں سورج کے وجود کا انکار کردے تو اس پر بھی دلائل قائم کرنے کی ضرورت پیش آسکتی ہے، تو جس طرح اس زمانے میں دہشت گردی کو پوری طرح مسلمانوں کے سرمنڈھ دیا گیا ہے، اس کے ازالے کے لیے اسی طرح بھرپور محنت کی ضرورت ہے۔

            اس پس منظر میں اس حقیقت کو سامنے رکھا جائے کہ دنیا کی آدھی سے زیادہ آبادی اسلام اور مسلمانوں کے امن پسند کردار سے؛ بلکہ اسلام کے تمام ہی محاسن سے یکسر ناواقف ہے، اور اس کے پاس اسلامی تعلیمات اور مسلمانوں کی تاریخ سے واقفیت کا ذریعہ وہی منصوبہ بند منفی پروپیگنڈہ ہے، جو دشمنان اسلام کی جانب سے جاری ہے یا پھر مستشرقین کا تیار کردہ لٹریچر ہے جو علمیت اور انصاف کے تمام تر دعووں کے باوجود کل ملاکر اسلام اور مسلمانوں کی شبیہ کو خراب ہی کرتا ہے؛ اس لیے طویل اور شدید محنت کرکے اس صورت حال کو بدلنا ہے۔

            اس مقصد کے لیے مسلمانوں کے تمام قائدین (علماء، دانشوران اور حکمراں طبقہ) کی ذمہ داری ہے کہ وہ دو میدانوں میں سنجیدہ اور منصوبہ بند کام کریں ، ایک تو پروپیگنڈے کا توڑ اور اسلام کی علمی ترجمانی جو دعوت کی اصل بنیاد بنتی ہے، اس کے لیے تحریر وتقریر کے تمام وسائل اور ذرائع ابلاغ کا دانش مندانہ استعمال ضروری ہوگا۔ دوسری طرف مسلمانوں کی کردار سازی پر محنت کی جائے کہ ان کی زندگی عمومی طور پر اُن اوصاف سے متصف نظر آئے جو کسی بھی دوسرے مذہب کے پیروکاروں کو اپیل کرتے ہیں اور جب اُن اوصاف کو دوسرا آدمی عملی تجربہ سے جان لیتا ہے تو وہ کسی منفی پروپیگنڈے کا اثر قبول نہیں کرتا، حالیہ حادثہ پر مسلمانوں کے محتاط اور تحمل پر مبنی رد عمل سے یہ امید قائم ہوتی ہے کہ اس سلسلے میں کی جانے والی محنت شاید آسانی سے بارآور ہوجائے؛ مگر بہرحال اس راہ میں جُہدِ پیہم کی ضرورت ہے۔

حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم پر قاتلانہ حملہ  

            سانحۂ نیوزی لینڈ کے آنسو ابھی خشک نہیں ہوئے تھے کہ ایک اور حادثے نے مسلمانوں کو شدید کوفت اور اذیت میں مبتلا کردیا، یعنی گزشتہ حادثہ کے ٹھیک ایک ہفتہ بعد ۲۲؍ مارچ ۲۰۱۹ء / ۱۴؍ رجب ۱۴۴۰ھ بروز جمعہ عالم اسلام میں نہایت احترام کی حامل شخصیت، بے شمار علمی واصلاحی کتابوں کے مصنف، ساری زندگی، علم وعمل اور انسانیت کی خدمت کی نذر کرنے والے بزرگ، عصر حاضر کی ضرورتوں کے مطابق اقتصادیات کے باب میں بے مثال علمی وعملی کارناموں کے حامل فقیہ، علم حدیث کے میدان میں فقید المثال خدمت  المدونۃ الکبریٰ  کا تخیل پیش کرنے اور اپنی نگرانی میں اس پر کام کرانے والے محدث، بے شمار مقدس نسبتوں کے حامل شیخ طریقت، اپنے بزرگوں کے منظور نظر اور معاصرین و اصاغر میں مقبول ومحبوب عالم دین حضرت مولانا محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم پر قاتلانہ حملہ کیا گیا، جس کی شدت کا یہ عالم تھا کہ خود حضرت کے الفاظ میں گولیاں بارش کی طرح برس رہی تھیں ، جس کے نتیجہ میں دو رفقاء شہید بھی ہوگئے؛ لیکن اللہ رب العزت نے حضرت اور اُن کے اہلِ خانہ کو محفوظ رکھا اور اس طرح ایک بدترین حادثہ ہوتے ہوتے رہ گیا؛ لیکن اس قاتلانہ حملہ نے جہاں حضرت مفتی صاحب کی مقبولیت ومحبوبیت کو اور زیادہ واضح کردیا، جس کا اندازہ دنیا بھر کے علماء اور ہرطبقہ کے رد عمل سے ہوتا ہے، نیز اُن کے مؤمنانہ اطمینانِ قلب اور صبر وعزیمت کو آشکارا کردیا جو خاصانِ خدا ہی کا حصہ ہوتا ہے۔ وہیں یہ حادثہ اپنے پیچھے بہت سے سوالات کھڑے کرگیا ہے، جن کا زیادہ تر تعلق اُن کے ملک کے قانون وانتظام کے مسائل سے ہے۔ جس پر ہمیں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ؛ البتہ اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ جس ملک میں اسی درجہ کی متعدد عظیم شخصیات اسی طرح کے قاتلانہ حملوں میں شہید ہوچکی ہیں ، وہاں مسلمانوں کی قیمتی متاع کی حیثیت رکھنے والے ان اکابر کے تحفظ کے لیے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔

            بلاشبہ حضرت مفتی صاحب دامت برکاتہم، جماعتِ دیوبند اور ملتِ اسلامیہ کا قیمتی سرمایہ ہیں ، ان کے سلامت رہنے پر ہم بارگاہِ الٰہی میں سجدۂ شکر بجالاتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ حق تعالیٰ ان کو اور تمام علماء واکابر امت کو سلامت رکھے اور اُن کے فیض کو مزید عام وتام فرمائے۔ آمین!

—————————————–

دارالعلوم ‏، شمارہ : 4،  جلد:103‏،  رجب المرجب – شعبان1440ھ مطابق اپریل 2019ء

٭           ٭           ٭

Related Posts