از:   مفتی محمد خالد حسین نیموی قاسمی

            خواتین نو عِ انسانی کا نصف حصہ ہیں ؛وہ انسانی معاشرے کا ایک لازمی اور قابل احترام کردار ہیں۔اسلام نے خواتین کے لیے اجر وثواب اور خدمات وطاعت کے وہ مواقع رکھے ہیں ؛جو مردوں کے لیے ہیں ۔قرآن کریم کا اعلان ہے : مَنْ عَمِلَ صَالِحاً مِّن ذَکَرٍ أَوْ أُنثَی وَہُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہُ حَیَاۃً طَیِّبَۃً وَلَنَجْزِیَنَّہُمْ أَجْرَہُم بِأَحْسَنِ مَا کَانُواْ یَعْمَلُونَ۔(النحل: ۹۷)یعنی جس نے نیک عمل کیا؛چاہے وہ مرد ہو یا عورت، اس حال میں کہ وہ مومن ہو، تو ہم اسے پاکیزہ زندگی عطا کریں گے  اور ہم انھیں ان کے اعمال کا بہترین بدلہ دیں گے ۔

            رسول اللہ ﷺ  نے اپنی دعوتی وتبلیغی جد وجہد کا مرکز جس طرح مردوں کو بنایا، اسی طرح عورتوں کو بھی بنایا ۔آپ کی تعلیم وتربیت کے نتیجے میں جس طرح خدا پرستی کا مثالی جذبہ مردو ں میں پیدا ہوا اسی طرح خواتین میں بھی انقلابی روح پیدا ہوئی ۔  رسول اللہ سے تربیت جس طرح صحابہ ؓنے پائی اس طرح صحابیا ت ؓ  بھی رسول اللہ کے فیض صحبت اور ان کی مثالی تربیت کے زیور سے آراستہ پیراستہ ہوکر دیگر خواتین کے لیے نجوم ہدایت بن گئیں ؛اگر ہماری عورتوں کے سامنے اسلام کی ان بر گزیدہ خواتین کا نمونہ پیش کردیا جائے؛ تو ان کی فطری لچک ان سے اور زیادہ متاثر ہوسکے گی اور موجودہ دور کے مؤثرات سے بے نیاز ہوکر خالص اسلامی اخلاق، اسلامی معاشرت اور اسلامی تمدن کا نمونہ بن جائے گی ۔آج جب کہ زمانہ بدل رہاہے ،یورپی تمدن اور مغربی طرز معاشرت سے ہمارے جدید تعلیم یافتہ لوگ بھی بے زاری کا اظہار کررہے ہیں۔ایسے حالات میں اسلام کی قدیم تاریخ مسلمان عورت کا بہترین اور اصلی نمونہ پیش کرتی ہے ۔ فروغ اسلام میں خواتین کا ہمیشہ معیاری اور شاندار کردار رہاہے ۔تاریخی حقائق کی روشنی میں اس کردار کو ذیل کی سطور میں نمایا ں کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

            قبول اسلام میں سبقت۔کفار میں ہمیں بہت سے اشقیاء کا نام معلوم ہے جنھوں نے ہزاروں کوششوں کے بعد بھی اللہ تعالی کے آگے سر نہیں جھکایا ؛لیکن صحابۂ کرامؓ میں سیکڑوں ایسے بزرگ ہیں؛ جو تو حید کی آواز سننے کے ساتھ ہی اسلام کے حلقہ میں داخل ہوگئے ۔ صحابہ کے ساتھ صحابیات اس فضیلت میںبرابرکی شریک ہیں اور نہ صرف شریک ہیں؛ بلکہ بعض جہات سے ان پر ترجیح بھی رکھتی ہیں؛ چنانچہ یہ شرف تمام لوگوں میں ام المومنیں سیدہ خدیجہ الکبری ؓکو  حاصل ہے کہ وہ سب سے پہلے اوربغیر کسی کد وکاوش اور بغیر کسی جبر واکراہ کے اسلام قبوک کرنے اورنبی کریم کے بعد امت میں سب سے پہلے خداوند قدوس کے سامنے سر جھکانے والی بن گئیں ۔تاریخ ابن خمیس میں سیدنا رافع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ  نے فرمایا :میں دو شنبہ کے دن مبعوث ہوا اور خدیجہؓ نے اس دن کے آخر کی نماز پڑھی ،اور علی ؓنے دوسرے دن منگل کی نماز پڑھی۔ اس کے بعد ابوبکر ؓ صدیق اور زید بن حارثہ شریک نماز ہوئے ۔(۲۸۶)اسلام میں سب سے بڑی فضیلت تقدم فی الاسلام (پہلے اسلام لانا) ہے۔ اور حضرت ابوبکرؓ کے فضائل میں یہ سب سے بڑی فضیلت ہے؛ لیکن اس میں بھی تین صحابیات شریک ہیں ۔حضرت خدیجہؓ ،حضرت سمیہؓ  حضرت ام ایمن ؓ۔

            تقدم فی الاسلام کے بعد سب سے بڑا شرف تقدم فی الہجرہ (پہلے ہجرت کرنا) ہے ۔ اس میںصحابۂ کرامؓ کے ساتھ ہجرت کرنے والی تمام مہاجرات خواتین صحابیات ،مہاجرصحابہؓ کی شریک ہیں ؛اسلام میں سب سے پہلی ہجرت ہجرت حبشہ ہے اور اس ہجرت میں ایک صحابیہ حضرت اسماء بنت عمیسؓ  کو وہ شرف حاصل ہوا کہ جس پر تمام صحابہ رشک کرتے تھے ۔

            خلاصہ یہ کہ آفتاب رسالت سے پہلے دن جو شعاع افق عالم پر چمکی وہ ایک رقیق القلب خاتون کے سینہ پر نور سے چھن کر نکلی ۔

اعلان اسلام

            ابتدائے اسلام میں اسلام قبول کرنے سے زیادہ اظہار اسلام کے لیے ہمت شجاعت اور جسارت کی ضرورت تھی ۔کفار کے روک ٹھوک اور ظلم وستم کے باوجودصحابہ کے ساتھ صحابیات نے بھی پوری جرأت کے ساتھ اپنے اسلام کا اظہار کیا ؛چنانچہ ابتدا میں جن سات بزرگوں نے اپنے اسلام کا اعلان کیا تھا؛ ان میں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حضرت ابو بکرؓ ،حضرت بلال ،حضرت خباب، حضرت صہیب ،حضرت عمار رضی اللہ عنہم کے ساتھ ساتویں ایک غریب صحابیہ حضرت سمیہ ؓ  بھی شامل ہیں ۔

تحمل شدائد

             صحابۂ کرام ؓکے ساتھ صحابیاتؓ نے بھی اسلام کی راہ میں ہر قسم کی تکالیف کو برداشت کیا ،مختلف سختیوں اور آزمائشوں کا انھیں شکار بننا پڑا؛لیکن ان کے ایمان میں ذرہ برابر بھی تزلزل واقع نہیں ہوا۔ صحابیات ؓکی یہ سب سے بڑی فضیلت ہے کہ سب سے پہلے ایک صحابیہ نے اسلام بھی قبول کیا اور سب سے پہلے ایک صحابیہ نے شرف شہادت بھی حاصل کی ۔حضرت سمیہؓ کو ملعون ابو جہل نے ران میں برچھی مار کر شہید کردیا ۔

            سیدنا عمر بن خطابؓ کی بہن نے جب اسلام قبول کیا اور عمر کو ان کا حال معلوم ہوا تو ان کو اس قدر مارا کہ لہو لہان ہوگئیں؛ لیکن انھوں نے صاف کہہ دیا جو کچھ کرناہے کرلو میں تو اسلام لاچکی (اسدالغابۃ تذکرۃ عمر )

            حضرت لبینہؓ  اور زنیرہ ،اور نہدیہ (جو باندی تھیں )کو بھی کفار سخت تکلیفیں دیتے اور سختیاں کرتے ؛لیکن وہ سب اسلام پر جمی رہیں ۔سیدہ فکیہہ ایک صحابیہ تھیں ۔سیدنا عمر اپنے اسلام سے قبل اس کو مارتے مارتے تھک جاتے تو چھوڑ دیتے اور کہتے کہ میں رحم کھا کر تجھ کو نہیں چھوڑا؛ بلکہ اس لیے چھوڑا ہے کہ تھک گیا ہوں ۔وہ نہایت استقلال سے جواب دیتیں ۔عمر! اگر تم مسلمان نہ ہوگے تو اللہ تم سے ان بے رحمیوں کا انتقام لے گا ۔ (مسلمان عورتوں کی بہادری )

            ایمان لانے کے بعد سارے رشتے ناطے منقطع ہوجاتے ہیں ؛شوہر بیوی سے جدا ہوجاتی ہے۔یہ بڑا صبر آزما مرحلہ ہوتا ہے ۔ عورت کی زندگی کا دار ومدار عام طور پر شوہر اور رشتہ داروں کی اعانت پر ہوتا ہے؛ لیکن صحابیات نے اس تکلیف کو بھی اسلام کی سر بلندی اور رب کی رضا کے لیے برداشت کرلیا ۔

توحید پر استقامت

            کفار نے صحابیات کو طرح طرح کی تکلیفیں دیں ؛لیکن ان کی زبان سے توحید کے علاوہ کچھ نہیں نکلا ۔سیدہ ام شریک ؓ ایمان لائیں؛ تو ان کے اعزہ واقرباء نے ان کو دھوپ میں لے جاکر کھڑا کردیا ۔اس حالت میں جب کہ وہ دھوپ میں جل رہی تھیں تین دن گذرگئے؛ تو ظالموں نے کہا کہ جس دین پر تم ہو اب اس کو چھوڑ دو ۔وہ اس قدر بدحواس ہوچکی تھیں کہ ان جملوں کا مطلب نہ سمجھ سکیں۔ جب انھوں نے آسمان کی طرف اشارہ کیا تو وہ سمجھیں کہ یہ ظالم ہم سے توحید کا انکار کروانا چاہتے ہیں تو ام شریکؓ کہنے لگیں خدا کی قسم میں اب بھی اسی پر قائم ہوں ۔(طبقات ابن سعد۔ تذکرہ ام شریک )

شرک سے علیحدگی

            مختلف اسباب کی وجہ سے عورتیں قدیم رسم ورواج اور قدیم عقائد کی پابند ہوتی ہیں ،عرب میں مشرکانہ عقائد ونظریات اور باطل رسم ورواج پھیل کر قلوب میں راسخ ہوگئے تھے ؛لیکن صحابیات ؓ نے اسلام قبول کرنے کے ساتھ ہی شدت سے ان عقائد کا انکار کیا۔اہل عرب کا خیال تھا کہ جو بتوں کی برائی بیان کرتا ہے، وہ مختلف بیماریوں اور آفتوں میں مبتلا ہوجاتا ہے؛ اس لیے جب سیدہ زنیرہؓ اسلام لانے کے بعد طبعاً نابینا ہوگئیں، تو کفار نے یہ کہنا شروع کیا کہ ان کو لات اور عزی نے اندھا کردیا ہے؛لیکن انھوں نے صاف صاف کہہ دیا کہ لات وعزی خود مجبور ہیںانھیں اپنے پوجنے والوں کی کیا خبر۔ (اسد الغابہ، تذکرہ زنیرہ)

            عرب میں شرک کا اصلی مرکز بت تھے، جو گھر گھر میں نصب تھے؛ لیکن صحابیات نے ہرحال میں ان سے تبرا ظاہر کی۔سیدنا ابو طلحہؓ نے جب سیدہ ام سلیمؓ سے نکاح کی خواہش ظاہر کی، تو انھوں نے کہا ابو طلحہ کیا تمہیں خبر نہیں کہ جن مورتیوں کو تم پوجتے ہو وہ لکڑی کی ہے، جو زمین سے اگتی ہے ۔ پھر کہنے لگیں تم کافر ہو اور میں مسلمان ۔آپس میں نکاح کیوں کر ہوسکتا ہے ؟ اگر تم اسلام قبول کر لو، تو وہی میرا مہر ہوگا اس کے سوا تم سے کچھ نہیں مانگوں گی؛چنانچہ وہ مسلمان ہوگئے اور اسلام لانا ہی ان کا مہر مقرر ہوا۔ (اسد الغابہ، تذکرہ زید بن سہل بن اسود)

شجاعت وبہادری

            غزوات میں صحابۂ کرامؓ کی بہادری کے انمٹ نقوش سے تاریخ کے صفحات پُر ہیں؛لیکن اس میدان میں بھی صحابیات پیچھے نہیں ہیں ۔صحابہ نے جس طرح داد شجاعت دی صحابیاتؓ کے بہادرانہ کارنامے اس سے بھی حیرت انگیز ہیں۔ غزوئہ حنین میںکفار نے اس زور شور سے حملہ کیا تھا کہ صحابہ کے قدم اکھڑ گئے اور میدان جنگ لزر اٹھا تھا ؛لیکن حضرت ام سلیم ؓکی شجاعت کا یہ حال تھا کہ ہاتھ میں خنجرلیے ہوئے منتظر تھیں کہ کو ئی کافر سامنے آئے تو اس کا کام تمام کردیں ۔حضرت طلحہ نے ان سے پوچھا یہ کیا؟کہنے لگیں: میں چاہتی ہوں کہ کوئی کافر قریب آئے تو اس کا پیٹ پھاڑدوں۔(ابوداؤد، کتاب الجہاد )

            غزوئہ خندق میں رسول اللہ ﷺ  نے تمام عورتوں کو ایک قلعہ میں محفوظ کردیا تھا ایک یہودی آیا اور قلعہ کے گرد چکر لگانے لگا حضرت صفیہ ؓ نے دیکھا تو حسان بن ثابت ؓ سے کہا کہ یہ دشمن کا جاسوس معلوم ہوتا ہے، اس کو ٹھکانے لگا دو، بولے کہ تمہیں تو معلوم ہی ہے کہ میں اس میدان کا آدمی نہیں ہوں۔  اب حضرت صفیہ خود اتریں اور خیمہ کی ایک میخ اکھاڑ کر اس زور سے اس دشمن کو مارا کہ وہ وہیں ٹھنڈا ہوگیا ۔(اسد الغابۃ، تذکرۃ سمیہ بنت عبد المطلب ) مورخ ابن اثیر لکھتے ہیں کہ یہ پہلی بہادری تھی جو ایک مسلمان عورت سے ظاہر ہوئی ۔(اسد الغابہ)

            سیدہ ام عمارہ ؓ ایک مشہور صحابیہ ہیں، قبل از ہجرت جب مقام عقبہ پر مدینہ کے نیک لوگوں نے کفار قریش سے چھپ کر اسلام کی اشاعت اور رسول اللہ ﷺ  کی  امداد کے لیے رسول اللہ کے ہاتھوں پر بیعت کی تھی ،تو اس مختصر سی جماعت میں سیدہ ام عمارہؓ  بھی شریک تھیں ؛ اسی طرح جنگ احد میں عین اس وقت جب مسلمانوں کے قدم اکھڑرہے تھے اور نبی کریم ﷺ  پر کفار بڑھ بڑھ کر حملے کررہے تھے اور جان نثار آگے آکر آکر اپنی جانیں قربان کر رہے تھے یہ بہادر خاتون بھی تیغ بدست حملہ آووروں کو مار مار کر پیچھے ہٹا رہی تھیں ۔اس دن کئی زخم ان کے دست وبازو میں آئے تھے ۔دیگر غزوات میں بھی ان سے بے مثال بہادری کے کارنامے ظہور میں آئے ۔ صدیق اکبر کے زمانے میں جنگِ یمامہ میں بھی انھوں نے بے مثال شجاعت کا مظاہرہ کیا اور جب تک ان کا ہاتھ بری طرح زخمی نہ ہوگیا اس وقت تک لڑتی رہیں (فتوحات اسلام ،سید دحلان ص ۴۶)

            سن ۶ ہجری میں جب رسول اللہ ﷺ  نے حج کے اردہ سے مکہ مکرمہ کاارادہ کیا ،اور تحقیق حال کے لیے حضرت عثمان ؓ  کو مکہ بھیجا ان کے بارے میں یہ افواہ پھیل گئی کہ حضرت عثمانؓ  کو قریش نے شہید کردیا ہے ،اس وقت رسول اللہ ﷺ نے تقریبا تمام صحابۂ سے کفار قریش سے لڑنے مرنے پر بیعت لی ،جو اسلامی تاریخ میں ’’بیعتِ رضوان ‘‘سے مشہور ہے، موت پر بیعت کرنے والیوں میں حضرت ام عمارہؓ  بھی شامل تھیں ۔

            ام زیاد اشجعیہ ؓ اور دوسری پانچ عورتوں نے غزوئہ خیبر میں چرخہ کات کر مسلمانوں کی مدد کی وہ میدان سے تیر اٹھاکر لاتی تھیں اور سپاہیوں کو ستو پلاتی تھیں ۔(مسلم ج۲ص ۱۰۵)ام عطیہ ؓ نے سات غزوات میں صحابۂ کرامؓ کے لیے کھانا پکایا (طبری ج۶،۲۳۱۶)

            حضرت فاروق اعظم ؓکے زمانے میں جنگِ قادسیہ اسلام اورکفرکے درمیان ہونے والا زبردست اور فیصلہ کن معرکہ تھا ۔اس جنگ میںعرب کی مشہور شاعرہ حضرت خنساءؓ  بھی شریک تھیں۔ حضرت خنساء کے ساتھ ان کے چاروں بیٹے بھی شریک تھے، شب کے ابتدائی حصہ میں جب ہر سپاہی صبح کے ہولناک منظر پر غور کررہا تھا ؛آتش بیان شاعرہ نے اپنے بیٹوں کو یوں جوش دلا نا شروع کیا ۔

            (ترجمہ اشعار )پیارے بیٹو! تم اپنی خواہش سے مسلمان ہوئے اور تم نے ہجرت بھی کی خدائے وحدہ لاشریک لہ کی قسم جس طرح تم ایک ماں کے بیٹے ہو۔ ایک باپ کے بیٹے بھی ہو۔ میں نے تمہارے باپ سے خیانت نہیں کی اور نہ تمہارے ماموں کو رسوا کیا اور نہ تمہارے حسب ونسب میں داغ لگایا ۔جو ثواب عظیم اللہ تعالی نے کافروں سے لڑنے میں مسلمانوں کے لیے رکھا ہے ۔تم اس کو خود جانتے ہو خوب سمجھ لو کہ آخرت جو ہمیشہ رہنے والی ہے اس دار فانی سے بہتر ہے ۔اللہ فرماتا ہے: یٰٓأَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُواْ اصْبِرُواْ وَصَابِرُواْ وَرَابِطُواْ وَاتَّقُواْ اللّہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ۔(آل عمران:۲۰۰) مسلمانوں صبرکرو اور استقلال سے کام لواور اللہ سے ڈرتے رہو؛تاکہ تم کامیاب ہوسکو۔ کل جب خیریت سے صبح کرو ان شاء اللہ تو تجربہ کاری کے ساتھ اللہ سے مدد مانگتے ہوئے تم دشمن پر جھپٹ پڑنا اور جب دیکھنا کہ لڑائی زوروں پر ہے تو خا ص طور پر تم جنگ کی بھٹی کی طرف رخ کرنا اور جب دیکھنا کہ فوج غصہ سے آگ ہورہی ہے تو غنیم کے سپہ سالاروں پر ٹوٹ پڑنا۔ اللہ کرے کہ تم دنیا میں مال غنیمت اور عقبی میں عزت پاؤ۔(اسد الغابہ)

            صبح کو جنگ چھڑتے ہی سیدہ خنساء ؓکے چاروں بیٹے یک بار گی دشمنوں پر جھپٹ پڑے اور آخر کار بڑی بہادری سے چاروں لڑکر شہید ہوگئے۔ سیدہ خنساء کو جب یہ خبر پہنچی تو انھوں نے کہا: اس اللہ کا شکر ہے جس نے بیٹوں کی شہادت کا مجھے شرف بخشا ۔

            مورخ طبری نے جنگ یر موک میں سیدہ ام حکیم بنت حارث کا نام خصوصیت سے لیاہے ۔ابن اثیر جزری نے لکھا کہ معاذ بن جبلؓ کی پھوپھی زاد بہن اسماء بنت عمیس نے تنہا نو رومیوں کو مارڈالا ۔کہا جاسکتا ہے کہ یرموک کی جنگ میں اگر خواتین تلوار سونت کر رومیوں پر نہ پل پڑتیں تو شاید فتح نہ ہوپاتی۔

(باقی آئندہ)

—————————————

دارالعلوم ‏، شمارہ : 2،  جلد:103‏،  جمادی الاول – جمادی الثانی 1440 مطابق فروری 2019ء

٭           ٭           ٭

Related Posts