از: مولانا محمد اللہ قاسمی
شعبۂ انٹرنیٹ، دارالعلوم دیوبند
مرکزی حکومت کا طلاق ثلاثہ آرڈیننس نا قابل قبول ہے
۱۹؍ ستمبر کو مرکزی حکومت کے ذریعہ طلاق ثلاثہ کے متعلق بنائے گئے قانون اور کابینہ کے ذریعہ منظور کیے گئے آرڈیننس پر دارالعلوم دیوبند کے مہتمم حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم صاحب نعمانی نے تشویش کا اظہار کیا ہے اور اس آرڈیننس کو مذہبی معاملات میں مداخلت مانتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے۔ حضرت مہتمم صاحب نے کہا کہ دستور ہند ہمیں مذہبی آزادی دیتا ہے اور طلاق و نکاح جیسے مسائل خالص مذہبی امور ہیں، ان میں کسی بھی حکومت کی مداخلت ناقابل قبول ہے۔ ہم حکومت کے اس اقدام کو دستور کی روح کے منافی مانتے ہیں۔
واضح رہے کہ آرڈیننس عموماً ایمرجنسی صورت حال میں لایا جاتا ہے ، مگر خود وزیر قانون روی پرساد شنکر نے دو برسوں میں ۲۰۱؍ واقعات کا حوالہ دیا ہے، ظاہر ہے کہ سولہ کروڑ کی آبادی میں سوواقعات کسی طرح ایمرجنسی کے زمرہ میں نہیں آسکتے۔ یہ آرڈیننس مرکزی سرکار کی آمریت کی واضح مثال ہے کہ جس قوم کے لیے یہ قانون بنایا گیاہے اس کے نمائندوں سے کوئی مشورہ نہیں کیا گیا ، نیز شریعت کے ماہر معتبر اداروں اور تنظیموں نے اس مسئلے کے حل کے لیے جو تجاویز پیش کیںانھیں یکسر نظر انداز کردیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ سرکار کا یہ رویہ پارلیمنٹری اصولوں کی خلاف ورزی اور انصاف و رائے عامہ کو طاقت کے ذریعہ روندنے کے مترادف ہے ۔
علاوہ ازیں، معتدد سماجی و مذہبی تنظیموں نے اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ اس آرڈیننس سے مسلم مطلقہ خواتین کے ساتھ انصاف نہیں بلکہ سخت نا انصافی کا خطرہ بڑھ جائے گا، مطلقہ خواتین ہمیشہ کے لیے معلق ہو جائیں گی اور ان کے لیے دوبارہ نکاح اور از سرنو زندگی شروع کرنے کا ر استہ یکسر منقطع ہو جائے گا۔
اتراکھنڈ ہائی کورٹ کی جانب سے فتوی پر پابندی کی بات ناقابل فہم ہے
اخبارات کے مطابق اتراکھنڈ ہائی کورٹ نے ۳۰؍ اگست کوایک عصمت دری متاثرہ کے سلسلہ میں پنچایت کے فیصلہ کے خلاف اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ فتوی جاری کرنا ممنوع ہے اور کسی کو بھی ایسا حق حاصل نہیں ہے۔ اس خبر پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے نائب مہتمم حضرت مولانا عبد الخالق صاحب مدراسی نے کہا ہائی کورٹ کی جانب سے کسی بھی پنچایت یا چند افراد کے فیصلہ کو فتوی سے تعبیر کرنا غلط ہے، فتوی ایک خالص اصطلاحی لفظ ہے اور فتوی دینے کا حق صرف مفتی کو ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں، فتوی پر پابندی کی بات بالکل ناقابل فہم ہے کیوں کہ سپریم کورٹ نے اپنے ۲۰۱۴ء کے ایک فیصلہ میں واضح طور پر کہا ہے کہ دارالافتاء اور دارالقضا ء کو غیر قانونی نہیں کہا جاسکتا ہے؛ کیوںکہ یہ دو فریق کی رضامندی سے مصالحت اور معاملہ حل کرنے کا ایک مبنی بر انصاف طریقہ ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے الفاظ حسب ذیل ہیں:
"It is not sanctioned under our constitutional scheme. But this does not mean that existence of Dar-ul-Qaza or for that matter practice of issuing Fatwas are themselves illegal. It is informal justice delivery system with an objective of bringing about amicable settlement between the parties.” (Case No:386 Civil of 2005(
٭ ٭ ٭
——————————————-
دارالعلوم ، شمارہ : 10، جلد:102، محرم الحرام – صفر المظفر 1440ھ مطابق اكتوبر 2018ء