محمد سلمان بجنوری
ہمارے ملک ہندوستان کی تاریخ بہت پرانی ہے، ماقبل تاریخ کو چھوڑ کر بات کریں تو بھی اس کی معلوم تاریخ کئی ہزار سال پر محیط ہے۔ اس کے حکومتی ادوار میں، قدیم سندھ طاس دور کے بعد ویدک دور، موریہ دور، گپتادور، سلطنت دہلی دور (جس میں خاندان غلامان، پھر خلجی، تغلق اور لودھی حکومتیں شامل ہیں) مغل دور اور برطانوی دور قابل ذکر ہیں۔ اور یہ بات کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ ہر حکومت نے اپنے طور پر ملک کو ترقی دینے کے لیے کام کیا ہوگا؛ لیکن جس عہد میں ہندوستان ترقی کرکے سونے کی چڑیا کہلایا وہ سلطنت دہلی دور اور مغل دور یا دوسرے الفاظ میں مسلم عہد حکومت ہے، جس کے آثار، تاریخ کے صفحات پر ہی نہیں، ملک کے چپے چپے پر آج بھی نمایاں ہیں اور مٹائے نہیں مٹتے۔
اسی دور میں انگریز ہندوستان آئے اور آہستہ آہستہ اپنے استعماری منصوبوں میں رنگ بھرتے رہے تاآںکہ ۱۸۵۷ء میں مغل سلطنت کا خاتمہ ہوگیا اور اُس دور کی سب سے بڑی طاقت برطانیہ کا ہندوستان پر تسلط ہوگیا۔ اس طرح مسلمان ہی وہ قوم تھے جس سے انگریزوں نے براہ راست اقتدار چھینا تھا، اس لیے قدرتی طور پر وہی اُن کا نشانہ بھی بنے اور انگریزوں کی مزاحمت کا ہراول دستہ بھی؛ بلکہ تاریخ گواہ ہے کہ انگریزوں سے مسلمانوں کی مزاحمت کا سلسلہ مغلیہ سلطنت کے خاتمہ سے بہت پہلے علاقائی سطح پر جاری تھا، جس کے نمایاں ترین واقعات میں ۱۷۵۴ء میں کلکتہ میں علی وردی خاں کا انگریزوں سے مقابلہ، ۱۷۵۷ء میں نواب سراج الدولہ کی جنگ مرشدآباد میں، اس کے بعد ۱۷۶۴ء میں بکسر کی جنگ، پھر شیرہند سلطان ٹیپو کی مسلسل مقابلہ آرائی، جو ۱۷۹۹ء میں اُن کی شہادت پر ختم ہوئی، پھر انگریزوں کی مخالفت کو ایک اہم اجتماعی رُخ دینے والا، حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ کا فتویٰ ۱۸۰۳ء میں، اس کے بعد ان کے تربیت یافتہ مجاہدین، حضرت سیداحمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید وغیرہ کا جہاد ۱۸۳۱ء میں، پھر اسی سلسلہ اور فکر کے حاملین حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ، حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی، امام ربانی حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی، حضرت حافظ محمد ضامن شہید اور اُن کے رفقاء کا جہادِ شاملی ۱۸۵۷ء میں۔
یہ تمام واقعات ۱۸۵۷ء تک پیش آئے اوراس کے بعد جب انگریزوں کا پورے ملک پر تسلط ہوگیا اور انھوں نے اپنے تمام منصوبوں کو نافذ کرنے کا سلسلہ شروع کیا تو علماء اسلام نے اپنی جدوجہد کا رُخ تبدیل کرتے ہوئے ۱۸۶۶ء میں دارالعلوم دیوبند کی بنیاد رکھی، پھر اسی سال کے آخر میں مظاہرعلوم سہارنپور اور بعد میں دیگر مدارس کا سلسلہ شروع کیا۔ ان مدارس کی جدوجہد کا اصل میدان تو علوم اسلامیہ کی حفاظت و اشاعت کے ذریعہ مسلمانوں کے دین وایمان کی پاسبانی کا فریضہ انجام دینا تھا؛ لیکن ان کے بانیانِ عالی مقام نے ان کے مزاج میں استعمار کی مخالفت اور حریت کی روح کو اس طرح سمودیا تھا کہ جیسے ہی آزادی کی تحریکات کا نئے سرے سے آغاز ہوا، ان مدارس کے علماء قیادت کے مقام پر کھڑے نظر آئے اور یہ قیادت کسی حکومت وبادشاہت کی قیادت نہیں تھی؛ بلکہ دارورسن کے میدان میں سرفروشی اور تن من دھن کی بازی لگادینے کی قیادت تھی۔
مدارس کے علماء کا یہ کردار اور ان کے ساتھ مسلمانوں کے تمام طبقات کی قربانیاں ایک عظیم اور طویل تاریخ کا موضوع ہیں اور ان کا حق یہ ہے کہ ان کا پوری فراخ دلی سے اعتراف کیا جائے اور نئی نسلوں کو ان سے روشناس کرایا جائے؛ لیکن اس وقت صورت حال یہ ہے کہ برادرانِ وطن کی تو کیا شکایت کی جائے خود مسلمانوں کی اکثریت اس تاریخ سے مجرمانہ حد تک ناواقف ہے۔ کتنے مسلمان ہیں جن کو ریشمی رومال تحریک اور شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی قدس سرہ کی خدمات اور ان کی ہمہ گیر سرگرمیوں اور سرفروشانہ جدوجہد سے تھوڑی بھی واقفیت ہے، پھر اُن کے تلامذہ ورفقاء، مولانا عبیداللہ سندھیؒ، شیخ الاسلام حضرت مدنیؒ، مفتی کفایت اللہ دہلویؒ، مولانا عزیر گل، مولانا محمد میاں منصور انصاری، مولانا فضل ربی، حکیم نصرت حسین وغیرہ کی قربانیاں کتنے لوگوں کو معلوم ہیں، پھر جمعیت علماء ہند اور اس کے پلیٹ فارم سے مذکورہ حضرات کے علاوہ ابوالمحاسن مولانا سجادؒ، مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ، مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری، مولانا احمد علی لاہوری، مولانا احمدسعید دہلویؒ، مجاہد ملت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی، مولانا سیدمحمد میاں دیوبندی وغیرہ کی سرفروشی کی داستانیں کتنے لوگوں کے علم میں ہیں۔ اُدھر مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی اور مولانا حسرت موہانی جیسے لوگوں کی جدوجہد کتنے لوگوں کو یاد ہے اور جب ان حضرات کی قربانیاں طاق نسیاں کی نذر ہورہی ہیں تو میدان سے الگ رہ کر پشت پناہی اور دعائیں کرنے والے حضرت شاہ عبدالرحیم رائے پوری، حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری یا قدم قدم پر ساتھ دینے والے ڈاکٹرمختار احمد انصاری اور حکیم اجمل خاں جیسے لوگوں کی قربانیاں کیسے یاد ہوںگی؟ اور پھر ۱۸۵۷ء میں انگریزوں سے نبرد آزائی کرنے والے مولانا احمد اللہ شاہ مدراسی، مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ اور کالاپانی کی سزاپانے والے مولانا فضل حق خیرآبادی، مولانا یحییٰ علی، مولانا جعفر علی تھانیسری، مولانا احمد اللہ عظیم آبادی اور مولانا عبدالرحیم صادق پوری اور ان جیسے دیگر سرفروشوں کے تو نام بھی کس کو معلوم ہوںگے؟
حقیقت یہ ہے کہ یہ اور تمام مجاہدین آزادی ہمارے ملک کے محسنین ہیں اور اپنے محسنوں کو فراموش کرنا کسی مہذب قوم کا شیوہ نہیں ہوتا؛ لیکن آج ہر سطح پر محسن فراموشی کا یہ سلسلہ جاری ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ اس صورت حال پر اظہار افسوس یا احتجاج پر اکتفاء کرنے کی روش ترک کی جائے اور عملی جدوجہد شروع کی جائے۔
اس سلسلے میں سرسری غور وفکر سے چند باتیں ذہن میںآتی ہیں:
(۱) سب سے پہلے تو خود اپنے مسلمان بھائیوں اور اُن کی نسل نو کو اپنی عظیم تاریخ سے واقف کرانے پر توجہ دی جائے۔ اس کے لیے مختصر کتابچے اور مفصل کتابیں تیار کی جائیں، کچھ کتابیں پہلے سے موجود ہیں، اُن کو بھی عام کیا جائے، یوم آزادی اور یوم جمہوریہ پر معلوماتی بیانات کا سلسلہ جاری رکھاجائے اور اس کے علاوہ دیگر مواقع پر بھی ان موضوعات سے واقف کرانے کی کوشش کی جائے۔
(۲) برادران وطن کو اپنی اس تابناک تاریخ سے واقف کرانا اور زیادہ اہمیت رکھتا ہے بالخصوص اس لیے کہ نفرت کا جو ماحول تیار کردیاگیا ہے اس میں ہم پر جو بے بنیاد الزامات لگانے کا منصوبہ بند سلسلہ جاری ہے، ان میں وطن سے محبت نہ ہونے کا بے بنیاد الزام بھی ہے، اس کی تردید کے لیے اگرچہ ہمارا موجودہ شفاف کردار بھی کافی ہے؛ لیکن آزادی کی صحیح تاریخ کو پیش کرنا اس میں زیادہ معاون ثابت ہوگا۔
اس مقصد کے لیے اردو کے علاوہ دیگر زبانوں میں اور سب سے بڑھ کر ہندی زبان میں بے شمار کتابیں تیار کیا جانا ضروری ہے۔ اس راہ میں سنجیدہ محنت کے بعد ہی کچھ غلط فہمیاں دور ہوسکتی ہیں۔ اس کے لیے اہل قلم اور اہل ثروت دونوں کو میدان عمل میں آنا ہوگا۔
یہ چند سطور پندرہ اگست کی مناسبت سے تحریر کردی گئی ہیں، ورنہ کرنے کے اور بھی بہت سے کام ہماری مستعدی اوراحساس ذمہ داری کے منتظر ہیں۔ اللہ رب العزت ہمیں وقت کے تقاضوں کے مطابق صحیح کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین!
****
مضمون نگار حضرات سے ضروری گذارش (۱) ماہ نامہ دارالعلوم، ملت اسلامیہ کی پاسبانی ورہنمائی کرنے والے ادارہ، دارالعلوم دیوبند کاترجمان ہے، اس لیے مضامین میں اُس کی فکر کو خاص طور پر ملحوظ رکھیں۔ (۲) مضامین علمی، فقہی، ادبی، اصلاحی کسی بھی انداز کے ہوسکتے ہیں؛ لیکن کوشش کی جائے کہ اپنی بات جامعیت واختصار کے ساتھ پیش کی جائے۔ مضمون کو غیرضروری طول دینے سے احتراز کیا جائے۔ |
—————————————
دارالعلوم ، شمارہ : 8، جلد:102، ذیقعدہ- ذی الحجہ 1439ھ مطابق اگست 2018ء
٭ ٭ ٭