از: محمد طارق اعظم قاسمی

            شاید عنوان سے آپ چونکے ہوں گے، مگر یقین جانیے کہ اسی چور دروازے کی بدولت یہ جہیز برسوں کی کوششوں کے باوجود بھی اول روز کی طرح تنو مند اور توانا نظر آرہا ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ اس جہیز کی تجویز ہی غلط ہوئی ہے یا پھر چوروں نے معاف کیجیے گا شریفوں نے اپنی دامن شرافت کو داغدار ہونے سے بچانے کے لیے اس کی تجویز ہی غلط یا محدود پیرائے میں کی ہے۔ خیر معاملہ جو بھی ہو؛ مگر عام طور پر سمجھا یہ جاتا ہے اور سمجھایا بھی یہی جاتا ہے کہ جہیز اصل وہ مال یا سامان ہے جس کا مطالبہ ناہنجار لڑکے والے لڑکی والوں سے کرتے ہیں، اس کے علاوہ اور جو لین دین ہوتا ہے وہ جہیز کے حدود سے باہر اور خارج ہے۔ دیکھیں کتنی بڑی غلط فہمی ہے جو دانستہ یا نادانستہ طور پر پھیل رہی ہے یا پھیلائی جا رہی ہے۔ میں نے اس چاہ میں کہ دیکھیں اہل لغت اس جہیز کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ لغت کھنگالاتو یہاں بھی مجھے یہ تفریق اور تفصیل نظر نہیں آئی بلکہ اہل لغت نے بغیر کسی تفصیل اور تفریق کے مطلق لکھا ہے کہ جہیز وہ ساز و سامان ہے جو لڑکی کو شادی کے وقت اپنے باپ کے گھر سے ملتا ہے۔ (اردو لغت )

            گھبرائیں نہیں مقصد تحریر یہ نہیں ہے کہ میں جہیز کی لغوی اور فنی تحقیق پیش کروں۔ اصل میں اس جہیز کی وسعت اور ہمہ گیریت کو دکھلانا چاہتا ہوں جسے میں نے جہیز کے چور دروازے سے تعبیر کیا ہے۔ کچھ وسعت اور ہمہ گیریت کا اندازہ تو لغت سے ہوہی گیا ہوگا، اور مزید وسعت اور ہمہ گیریت کے لیے ذیل کے چند چور دروازے ملاحظہ کریں:

            ۱-  ہمیں تو کچھ نہیں چاہیے ویسے آپ اپنی بیٹی اور صاحبزادی کو خوشی سے جو دینا چاہیں ہمیں اس سے کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔

             ۲- آپ اپنی بیٹی اور صاحبزادی کو کیا دے رہے ہیں؟

             ۳- مطالبہ کچھ تو نہیں ہے؛ مگر گھر میں ریفریجریٹر اور واشنگ مشین وغیرہ کی ضرورت ہے۔

             ۴- گھر میں تو سبھی کچھ موجود ہے؛ مگر یہ بیٹے کا روزانہ بازار مارکیٹ وغیرہ آنا جانا لگا رہتا ہے۔بین السطور سے سمجھ ہی گئے ہوں گے مقصد کیا ہے؟

            یہ مشتے نمونہ از خروارے چند چور دروازے ہیں، اس کے علاوہ اور بھی چور دروازے ہیں جو چور حضرات معاف کیجیے گا شریف حضرات ایسے موقعوں پر اپنی شرافت کا اعلیٰ مظاہرہ کرتے ہوئے ان چور دروازوں کا استعمال کرتے ہیں۔

            میں نے اپنے ایک دیرینہ رفیق سے جب ان چور دروازوں کا ذکر کیا تو انھوں نے برملا اور برجستہ یہ کہا کہ یہ چور دروازے کہاں یہ تو کھلے دروازے ہیں۔پہلے خیال تھا کہ میری یہ رائے شدت پر مبنی ہے پر اس تبصرے کے بعد اندازہ ہوا کہ میری رائے نرم اور مبنی بر احتیاط ہے۔

            خوشی سے دینے کی بات زیادہ کی جاتی ہے اس میں شرفاء کچھ حرج نہیں سمجھتے ہیں؛ بلکہ اسے محمود خیال کرتے ہیں۔آئیے اس کا ذرا دقت نظر سے جائزہ لیتے ہیں۔

            لڑکیوں کے والدین جہیز یا تو سماج اور معاشرے کے دباو میں دیتے ہیں، یا دفعِ ظلم کے طور پر دیتے ہیں کہ ان کی لاڈلی کو ان کے سسرال میں ظلم و ستم کا تختۂ مشق نہ بنایا جائے یا پھر اپنی نام و نمود کے لیے دیتے ہیں۔ بیٹی کی محبت ان تینوں کے ذیل میں آجاتی ہو تو خیر ہے ورنہ اس کا وجود شاذ ہی ہے۔ اگر شرفاء کے اس دعوے کو تسلیم بھی کر لیا جائے کہ وہ برضا و رغبت اس مقدس جہیز کو دے رہے ہیں تب بھی یہ دینا ناپسندیدہ ہے۔ اتنی بڑی بات میں بڑی ذمہ داری سے کہہ رہا ہوں، اس کی دو بڑی وجہیں ہیں۔

            پہلی وجہ؛ فقہ کا ایک مشہور قاعدہ ہے ’’المعروف کالمشروط ‘‘اس کا مطلب یہ ہے کہ جو چیزیں معاشرے میں چل پڑتی ہیں یا عام اور معروف ہوجاتی ہیں تو اب ایسی چیزیں شرط کی مانند ہوجاتی ہیں خواہ صاحب معاملہ نے اس کا ذکر کیا ہو یا نہ کیا ہو۔اس اصول کی روشنی میں خوشی سے جہیز دینے کو دیکھیں کہ اس جہیز کے لین دین کارواج اس قدر بڑھ چکا ہے کہ بغیر اس کے نکاح اور شادی جیسے مقدس فریضے کا تصور ہی نہیں کہ ادھر بیٹی کے نکاح کا خیال آیا اور اسی دم چشم تصور میں جہیز نے آکر غریب والدین کا منہ چڑایا۔ جہیز کے اس چلنِ بد کی انتہا یہ ہے کہ اگر لڑکے والے منع بھی کریں تو یہ لڑکی والے اپنی نیک نیتی کے ساتھ اس منع کو خواہ حقیقی ہی کیوں نہ ہو مجاز پر محمول کرتے ہوئے رسمی سمجھ کر سنی اَن سنی کر دیتے ہیں اور بیٹی کے باپ ہونے کا حق پورا نبھاتے ہیں۔ گویا لڑکے کی جانب سے مطالبہ ہو یا نہ ہو یہ جہیز ملنی ہی ہے، اور لڑکے والے خواہ انھوں نے زبان سے کچھ نہ کہا ہو، مگر دل سے اس کے متمنی اور منتظر رہتے ہیں، الا ماشاء اللہ۔

            دوسری وجہ؛ فقہ کا ایک مسلم اصول ہے کہ امر مستحب پر اصرار جائز نہیں ہے۔ مستحب کسے کہتے ہیں اور امر مستحب پر اصرار کا کیا مطلب ہے؟ اس کی تفصیل کے لیے کتاب المسائل کا یہ اقتباس ملاحظہ کریں ؛ ’’اصطلاحِ شریعت میں جس عمل پر ادب اور مستحب کا اطلاق کیا جاتا ہے اس کی حیثیت یہ ہے کہ اگر اسے اختیار کیا جائے تو ثواب ملے گا اور اگر عمل نہ کیاجائے تو کوئی گناہ نہ ہوگا۔ ولہا اٰداب ترکہ لایوجب إسائۃً، ولا عتاباً کترک سنۃ الزوائد لکن فعلہ افضل۔(درمختار مع الشامی بیروت ، درمختار زکریا)

            مذکورہ بالا صراحت سے یہ بات واضح ہوگئی کہ کسی مستحب امر پر اس قدر اصرار کرنا کہ اس کے نہ کرنے والے پر طعن وتشنیع کی نوبت آجائے یہ قطعاً جائز نہیں ہے  اور اگر کسی جگہ مستحب کو ایسی مبالغہ آمیز حیثیت دی جانے لگے تو پھر عارض کی وجہ سے وہ مستحب، مستحب نہ رہے گا؛ بلکہ قابلِ ترک ہوجائے گا؛ تاکہ شرعی احکام کے درجات کا بھرپور تحفظ کیا جاسکے۔ اس سلسلہ میں ہمیں بہترین رہنمائی سیدنا حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ کے اس ارشاد سے ملتی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ کوئی شخص اپنے عمل میں شیطان کا حصہ نہ رکھے اور یہ نہ سمجھے کہ اس پر نماز کے بعد دائیں جانب ہی رخ کرکے بیٹھنا ضروری ہے؛ اس لیے کہ میں نے خود آںحضرت … کو بائیں جانب بیٹھتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔ یعنی دائیں طرف رخ کرنا گوکہ مستحب ہے؛ مگر اس پر اصرار کرنا شیطانی عمل ہے، جس سے بچنے کی صحابی  رسول حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ تلقین فرمارہے ہیں۔ عن ابن مسعودؓ قال: لا یجعلن احدکم للشیطان من نفسہٖ جزئاً لا یری إلاَّ ان حقاً علیہ ان لا ینصرف إلا عن یمینہ، اکثر ما رایت رسول اللّٰہ ﷺ ینصرف عن شمالہ۔(مسلم شریف ، حدیث:، موسوعۃ اثار الصحابۃ،’’کتاب المسائل جلد اول )

            اس اقتباس کی روشنی میں خوشی سے دی جانے والی جہیز کو دیکھیں کہ یہ مستحب کے دائرے میں بھی نہیں آتا ہے اور اس پر اصرار کس قدر ہے اس کی تفصیل پہلے آچکی ہے کہ اس کے بغیر نکاح کا تصور ہی ناممکن سا ہے، آج کل کی شادی میں پلنگ اپنے تمام لوازمات کے ساتھ جیسے گدا، چادر، تکیہ وغیرہ کے ایک نہیں کئی سیٹ، دولہا کے لیے مستقل آرائشی سامانوں سے بھرا لگژری سوٹ کیس ، الماری، کرسی، ٹیبل پنکھے، برتنوں کے کئی سیٹ، فریج، واشنگ مشین اور حسب حیثیت گاڑی، ٹی وی اور بھی دیگر ساز و سامان اس طرح سے دیئے جاتے ہیں گویا کہ شریعت مطہرہ نے اسے فرض قرار دیا ہے اور ان ساز و سامان کے بغیر شادی ہی منعقد نہیں ہوتی۔ حیثیت والے حیثیت سے زیادہ تو دیتے ہی ہیں اور جو حیثیت نہیں رکھتے وہ بیچارے بھاری بھر کم قرض اور لون لے کر اس کی قیمت چکاتے ہیں۔ جہیز ایک امر مستحب بھی نہیں اور مزید اس پر اصرار ۔کیا اس کا ترک ہمارے لیے اب بھی واجب نہیں ہونا چاہیے؟

            خدارا ان دو مذکورہ شرعی اصولوں کی بنیاد پر خود فیصلہ کریں اور اپنے ضمیر اور دل کے مفتی سے فتوی لیں کہ کیا جہیز کی مروجہ شکل لائقِ اختیار ہے؟ اکثر لڑکے اور لڑکیاں ایسے ہیں جن پر نکاح فرض یا واجب ہے؛ مگر سماج کے ظالمانہ رسوم و رواج اور جہیز کے انھیں چور دروازوں کی وجہ سے یہ نکاح کر نہیں پا رہے ہیں یا ان کا نکاح ہو نہیں پا رہا ہے، اور نئی نسل کی ایک بڑی تعداد اسی وجہ سے سنگین گناہوں میں مبتلا ہو رہی ہے۔ گویا کہ جہیز کے یہ چور دروازے اور ظالمانہ رسمیں نکاح جیسے مقدس فرض کی ادائیگی میں رکاوٹ بن رہے ہیں، تو کیا دفع ظلم اور دفع گناہ کے لیے اس رکاوٹ کا دور کرنا ضروری نہیں ہے؟ اسلام کی ایک امتیازی خوبی یہ بھی ہے کہ گناہوں اور جرائم پر پابندی لگانے کے ساتھ ساتھ ان ذرائع اور راستوں پر بھی پابندی لگاتا ہے جو ان گناہوں اور جرائم تک پہنچانے والی ہوتی ہیں۔ نظر بد پر اسلام نے پابندی اسی لیے لگائی کہ یہ زنا کے لیے آلہ کار ہے۔ کیا اب یہ ضروری نہیں ہے کہ جہیز کے ان چور دروازوںکا بالکلیہ سدباب کیا جائے، اور اس کے ہولناک شر سے انسانیت کو بچایا جائے۔

            یہ تو پہلے فریق کا ذکر خیر ہوا، اب دوسرے فریق کا بھی ذکر خیر سن لیں کہ بعض قارون صفت نشہِ مال سے سرشار اور اس کی محبت میں غرق ہو کر باوجود فریق اول ( لڑکے والوں ) کے منع اور انکار کے اسراف، فضول اور پیسوں کو پانی کی طرح بہانے پر مصر رہتے ہیں، اور معذرت کے ساتھ اس فضول خرچی کا اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت اور محبت سے تو دور کا بھی واسطہ نہیں ہے، اور نا ہی اس فضول خرچی کا تعلق بیٹی کی محبت سے ہوتا ہے؛ بلکہ اس کا رشتہ اور تعلق محض تفاخر، نمود و ریا اور اپنی بدنام شہرت سے ہوتا ہے۔ اس کا نفس اور شیطان یہ کہہ کر تسلی دیتا رہتا ہے کہ یہ تیرا مال ہے تجھے مکمل اختیار حاصل ہے کہ تو اسے جیسے چاہے جہاں چاہے خرچ کر ۔اس دھوکے میں یہ بھول جاتا ہے کہ مال تو درکنار اپنے جسم و جاں پر بھی اسے مکمل اختیار حاصل نہیں ہے؛ بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمت ہے جو بہ طور امانت اس کے پاس ہے۔ امانت میں خیانت ایک مسلم مانا ہوا سنگین جرم ہے ۔ مال کہاں سے، کیسے کمانا اور کہاں کیسے خرچ کرنا ہے؟ اسلام نے اس کی پوری تفصیل بیان کی ہے۔شادی کی یہ شاہ خرچیاں فضول خرچی کے ذیل میں آتی ہیں، فضول خرچی اسلام میں انتہائی ناپسندیدہ عمل ہے، قرآن حکیم میں فضول خرچوں کو شیطان کا بھائی کہا گیا ہے۔یعنی ریا، نمود و شہرت، اسراف اور فضولی خرچی کی وجہ سے بھی جہیز کے ان چور دروازوں کی گنجائش نہیں ہے ۔

            اخلاقی نقطئہ نظر سے دیکھا جائے تو جہیز کے چور دروازوں کی نوعیت اور بھی سنگین ہوجاتی ہے۔اس رسمی اور نمائشی جہیزوں کو دیکھ کر اعزہ، اقربا اور پڑوسیوں میں سے کتنے ہی ایسے ہوتے ہوں گے جن کا سینہ شق ہوجاتا ہوگا، آنکھیں آنسووں سے بھر جاتی ہوں گی اور کتنے ہی تمناوں اور ارمانوں کا خون ہوتا ہوگا۔

            یہ محض مبالغہ آرائی نہیں ہے؛ بلکہ آپ چشم بصیرت سے دیکھیں گے تو آپ کو بھی اس خوشی کے ماحول میں غم کی یہ تصویریں چلتی پھرتی نظر آئیں گی۔ اس کے علاوہ اور بھی اخلاقی قباحتیں معاشرتی اور سماجی برائیاں وغیرہ اس میں پائی جاتی ہیں۔ اخلاقی نقطہ نظر سے بھی ان چور دروازوں کے لیے کوئی جواز کا پہلو نظر نہیں آتاہے ۔

            بعض دریدہ دہن اپنے اس عمل بد کے جواز میں جہیز فاطمی کو پیش کرتے ہیں، گویا بیخبری میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن عدالت کو داغدار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔اس طورپر کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بہ قدر ضرورت سامان صرف حضرت علی اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہما کو ہی نکاح کے موقع پر عطا فرمایا تھا ۔اس کے علاوہ کسی اور بھی بیٹی کو ان کے نکاح کے موقع پر کچھ دینا ثابت نہیں ہے ۔ان بہ قدر ضرورت سامان کے لیے مروجہ لفظ جہیز کا استعمال بھی ذوق پر گراں گذرتا ہے۔ اس لیے کہ ان بہ قدر ضرورت سامانوں اور مروجہ جہیز کے چور دروازوں میں دور کی بھی نسبت نہیں ہے۔نسبت کیوں نہیں ہے؟ اس کی وضاحت کے پیش نظر جہیز فاطمی کی مختصر تحقیق پیش کر دوں؛ تاکہ بات پوری طرح سے واضح ہوجائے اور کسی قسم کا ابہام باقی نا رہے ۔

             حضرت علی رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہی زیر تربیت اور زیر پرورش تھے۔

             حضرت علی رضی اللہ عنہ نا ہی اپنا کوئی ذاتی مکان رکھتے تھے اور نا ہی دیگر ضروریات زندگی کے اسباب آپ کو اس وقت میسر تھے۔

             آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بحیثیت مربی اور سرپرست کے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو زرہ فروخت کرنے کا حکم دیا اور اسی زرہ کی قیمت سے آپ نے ضرورت کی چیزیں تیار کروائیں اور بقیہ رقم کو مہر ٹھہرایا۔

             حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ نے کتب شیعہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بھی نکاح کا سامان( جہیز ) تیار کرنے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی مدد کی تھی ۔(المرتضیٰ)

             جہیز فاطمی کی حدیث کی شرح کرتے ہوئے اور اس کی تحقیق کرتے ہوئے حضرت مولانا منظور نعمانی صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں؛ ’’ہمارے ملک کے اکثر اہل علم اس حدیث کا مطلب یہی سمجھتے اور بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ چیزیں (چادر، مشکیزہ، تکیہ) اپنی صاحبزادی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے نکاح کے موقع پر’’جہیز‘‘کے طور پر دی تھیںلیکن تحقیقی بات یہ ہے کہ اس زمانہ میں عرب میں نکاح شادی کے موقع پر لڑکی کو جہیز کے طور پر کچھ سامان دینے کا رواج؛ بلکہ تصور بھی نہیں تھا اور جہیز کا لفظ بھی استعمال نہیں ہوتا تھا۔اس زمانہ کی شادیوں کے سلسلے میں کہیں اس کا ذکر نہیں آتا۔ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے علاوہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری صاحبزادیوں کے نکاح کے سلسلے میں بھی کہیں کسی قسم کے جہیز کا ذکر نہیں آیا، حدیث کے لفظ’’جھز‘‘کے معنی اصطلاحی جہیز دینے کے نہیں؛ بلکہ ضرورت کا انتظام اور بندوبست کرنے کے ہیں۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان چیزوں کا انتظام حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سرپرست ہونے کی حیثیت سے انھیں کی طرف سے اور انھیں کے پیسوں سے کیا تھا؛ کیونکہ یہ ضروری چیزیں ان کے گھر میں نہیں تھیں۔ روایات سے اس کی پوری تفصیل معلوم ہوجاتی ہے۔ بہرحال یہ اصطلاحی جہیز نہیں تھا‘‘۔ (معارف الحدیث جلد ہفتم )

            مزید تحقیق مفتی دارالعلوم دیوبند حضرت مولانامفتی ظفیر الدین مفتاحی رحمہ اللہ کے الفاظ میں ملاحظہ کریں، تحریر فرماتے ہیں؛ کہ ’’حضرت فاطمہ کی شادی کے سلسلہ کی تمام روایتوں کو سامنے رکھنے کے بعد نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ حضرت علی نے اپنی زرہ مہر میں دیدی تھی گھر میں کوئی سامان نہیں تھا خودسرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم اپنی طرف سے وہ سامان نہیں کر سکتے تھے؛ اس لیے آپ نے حضرت علی سے فرمایا کہ مہر والی زرہ فروخت کر دو اور اس سے جو رقم آئے اس سے ضروری سامان خرید لو خود حضرت علی کا بیان ہے۔‘‘میں نے اس زرہ کو عثمان بن عفان کو چار سو اسی درہم میں فروخت کردیا؛ مگر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے زرہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو واپس کر دی، حضرت علی رضی اللہ عنہ زرہ اور درہم لے کر حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے لیے دعا کی۔‘‘ (فتاوی دارالعلوم دیوبند )

            بنظر انصاف اس کا جائزہ لیں اور خود فیصلہ کریں کہ مروجہ جہیز اور حضرت فاطمہ حضرت علی رضی اللہ عنہما کو بہ قدر ضرورت دیئے گئے سامان میں کوئی نسبت اور تعلق ہے؟ یہاں محض خواہش نفس کی تکمیل مقصود ہے اور وہاں صرف ضرورت کی تکمیل مقصود تھی۔ چہ نسبت خاک را بہ عالمِ پاک۔

            اس پوری تفصیل سے یقیناً یہ واضح ہوگیا ہوگا کہ مروجہ جہیز اور جہیز کے چور دروازوں کی شرعاً اور اخلاقا کسی بھی اعتبار سے گنجائش نہیں ہے۔

چند گذارشات

             شاہین صفت نوجوانوں سے عاجزانہ درخواست ہے کہ کچھ نا لینے کے شرط پر انتہائی سادگی کے ساتھ نکاح کریں۔

             نکاح کے لیے کسی دور بستی یا شہر میں جانا ہو تو صرف چار پانچ افراد کے ساتھ ہی جائیں، فلاں فلاں رشتہ دار کے چکر میں پڑ کر خود پر اور مظلوم معاشرے پر مزید ظلم نہ ڈھائیں۔

             اپنے بھائیوں اور اپنے ماتحتوں کی بھی اسی طرح سادگی کے ساتھ نکاح کریں۔

             لڑکیوں کے سلسلے میں لوگ خود کو زیادہ کمزور اور دباو میں محسوس کرتے ہیں، اس لیے لڑکے والوں کے ہر ناجائز مطالبے کو سر جھکا کر تسلیم کر لیتے ہیں۔ خدارا اس بے بسی اور کمزوری سے باہر نکلیں، خدا کی ذات پر اعتماد کرتے ہوئے پوری قوت اور ہمت کے ساتھ ان کے ہر ناجائز مطالبے کو ٹھکرا دیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو، آپ کے اہل کو اور آپ کی کوششوں کو ضائع نہیں کرے گا اور یقینا اس سے بہتر نوازے گا ان شاء اللہ، بس یقینِ محکم اور عملِ پیہم شرط ہے۔

             شادی سے پہلے منگنی وغیرہ کی دس قسم کی رسمیں اور شادی کے بعد منہ دکھلائی وغیرہ کی بیس قسم کی رسمیں سب کا مکمل بائیکاٹ کریں، یہ رسمیں بھی ہلاکت اور تباہی کے اعتبار سے شریک جرم اور شریک گناہ میں جہیز سے کم نہیں ہیں۔

            چٹ منگنی پٹ بیاہ کو فروغ دیں، اگر یہ نہ ہو تو کم از کم اتنا تو ہو ہی کہ ہماری شادی میں نکاح کے بعد صرف ولیمہ ہو اور کوئی بھی رسم نہ ہو۔

             اگر ہم ایسا کوئی اجتماعی نظام بنا سکتے ہیں تو ضرور بنائیں کہ جس سے اس طرح کی غیر شرعی اور غیر اخلاقی شادی کی حوصلہ شکنی ہو، جیسے اجتماعی طور پر ایسی شادیوں کا بائیکاٹ کیا جائے۔اجتماعی اگر نا ہو تو انفرادی طور پر ایسی پہل ضرور ہونی چاہیے گو کہ ہمیں یہ ناگوار اور سخت معلوم ہو۔

             اگر آپ اس برائی کو ختم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو یہ سخت قدم اٹھائے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے ۔

             جہیز لین دین اور شادی سے پہلے اور بعد کی ناجائز اور ظالمانہ رسوم کے تعلق سے ہم اپنے گھر کی عورتوں کی ضرور ذہن سازی کریں اور اصلاح کریں ۔یہ بہت ضروری ہے اس لیے کہ اس معاملے میں زیادہ تر عورتیں ہی ملوث رہتی ہیں، اور بہت ہی افسوس کے ساتھ یہ لکھنا پڑ رہا ہے کہ اس معاملے میں صنف نازک پر ظلم ڈھانے میں صنف نازک ہی پیش پیش ہے۔

             ہم میں سے ہر ایک اس کا خواہش مند ہوتاہے کہ ہمارے نکاح میں خوب برکت ہو، مگر برکت کا جو نسخۂ اکسیر نبی…نے بتلایا ہم اسے یکسر نظر انداز کردیتے ہیں ۔وہ نسخہ اکسیر یہ ہے ’’سب سے با برکت نکاح وہ ہے جس میں کم سے کم خرچ میں ہو ‘‘( مسند احمد ) اس نسخہ اور تھرمامیٹر سے بھی ہم اپنے نکاح کو جانچیں کہ آیا یہ نکاح با برکت ہے یا نہیں ؟

            اخیر میں ہم یہ نوشتۂ دیوار بھی پڑھ لیں کہ جب تک ہمارے معاشرے کے شرفاء ، امراء ، زعماء اور علماء نکاح میں سادگی اور سنتِ رسول کو عملی طور پر اختیار نہیں کریں گے، جہیز کے ان چوپٹ کھلے چور دروازوں کو بند نہیں کریں گے اور شادی منگنی وغیرہ کی فضول ناجائز اور ظالمانہ رسموں پر قدغن نہیں لگائیں گے، یقین جانیے تب تک یہ جہیز اور یہ ظلم یونہی پروان چڑھتا رہے گا  پھلتا اور پھولتا رہے گا، گو کہ لاکھ اس کے خلاف نعرے لگائے جائیں ، تحریکیں چلائی جائیں ، ریلیاں نکالی جائیں اور انسانی زنجیریں بنائی جائیں ۔ سب بے سود بیکار ثابت ہوں گی !!!

نقش ہیں سب ناتمام خونِ جگر کے بغیر

نغمہ ہے سودائے خام خونِ جگر کے بغیر

            ماقبل سے ربط ڈھونڈھے بغیر حکیم الامت علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے اس آفاقی اور لازوال شعر کو بھی من میں گنگنا لیں۔

اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی

تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن، اپنا تو بن

——————————————-

دارالعلوم ‏، شمارہ : 7،  جلد:102‏،  شوال- ذیقعدہ ۱۴۳۹ھ مطابق جولائی ۲۰۱۸ء

٭        ٭        ٭

Related Posts