محرم کے بغیر خواتین کا سفرِ حج کتاب وسنت اور عقل کی میزان میں

از: مولانا امداد الحق بختیار قاسمی

صدر شعبۂ عربی ادب جامعہ اسلامیہ دارالعلوم حیدرآباد

            عمومی طور پر شریعت اسلامیہ نے جو احکام عطا کیے ہیں ،ان میں  مرد وعورت دونوں  مراد ہوتے ہیں ، عام احکام بحیثیت انسان یامومن نازل ہوتے ہیں ، نہ کہ بحیثیت مرد یا عورت، جیسے نماز، روزہ، زکات اور حج وغیرہ کے احکام، یہ عبادتیں  جس طرح مردوں  کے لیے ہیں ، اسی طرح خواتین کے لیے بھی ہیں ؛ البتہ بعض حالات میں  عورتوں  کی طبیعت و مزاج، ان کی ساخت، فطری کمزوری اور ان کے ساتھ مخصوص بعض احوال کی وجہ سے، ان کے لیے بعض عبادتوں  میں  رخصت ہوتی ہے، جیسے ماہواری سے بہت سی عبادتوں  اور احکام میں  عورتوں  کے لیے رخصت ہوتی ہے، اسی طرح بعض عبادتوں  کی ادائیگی کی کیفیت میں  بھی مرد وعورت کے اعتبار سے فرق پڑتاہے، جیسے نماز میں  خواتین کے کھڑے ہونے کی حالت میں  ہاتھ باندھنے کا طریقہ، سجدہ کی ادائیگی کی کیفیت وغیرہ، مردوں  سے مختلف ہے، ایسے تمام حالات میں  شریعت نے خواتین کے صنفی خواص کا لحاظ رکھاہے اور ان کی صنف کے ساتھ جو عوارض مخصوص ہیں ، ان کی وجہ سے عبادتوں  میں  سہولت یا بالکل رخصت عنایت کی گئی ہے اور یہ اس لیے ہے کہ شریعت اسلامیہ دین فطرت ہے، اس میں  کوئی بھی حکم فطرت کے خلاف نہیں  ہے، لہٰذا صنف عورت کی فطرت کا تقاضا یہی ہے کہ مردوں  کی طرح مشقت کا انھیں  مکلف نہ بنایا جائے؛بلکہ ان کے لیے خصوصی مراعات ہو ں  ۔

            اسی طرح اللہ تبارک وتعالی نے ہر صاحب استطاعت پر حج کو فرض قرار دیا ہے؛خوا ہ وہ مرد ہو یا عورت، فرمان الٰہی ہے:{وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَیْہِ سَبِیْلاً} اللہ کے لیے ان لوگوں  پر حج کرنا فرض ہے، جو بیت اللہ تک جانے کی استطاعت رکھتے ہیں ۔ (سورہ آل عمران:۹۷) اس آیت پاک کے ذریعہ اللہ تبارک وتعالی نے مردو خواتین دونوں  پر حج فرض کیا ہے؛ کیوں  کہ لفظ ’’ناس‘‘ جو اس آیت میں  استعمال ہوا ہے، یہ مذکر ومؤنث دونوں  کے لیے بولا جاتاہے؛لہٰذا صاحب استطاعت خواہ مرد ہو یا عورت دونوں  پر حج فرض ہے اور صاحب استطاعت کسے کہتے ہیں ، ایک روایت میں  آپ ﷺ نے اس کی تشریح فرمائی ہے : {عن ابن عمر قال:۔۔۔۔ فقام رجل فقال: ما السبیل یا رسول اللّٰہ؟ قال: الزاد والراحلۃ}  ابن عمر کہتے ہیں  کہ جب نبیﷺ یہ آیت صحابہ کے سامنے سنا رہے تھی تو ایک صحابی نے پوچھا یار سول اللہ ! اس آیت میں  جو لفظ’’ سبیل‘‘ ہے،  اس کا کیا مطلب ہے :یعنی استطاعت کا کیا مطلب ہے ؟ تو آپﷺ نے جواب عنایت فرمایا کہ اس سے مراد’’ زاد‘‘(توشہ) یعنی انسان کے پاس اتنا مال ہو کہ حج کا پورا خرچہ برداشت کرسکے اور جتنی مدت حج میں  لگے گی اس مدت میں  اہل وعیال کا نفقہ برداشت کرسکے اور’’ راحلہ‘‘ (سواری) یعنی مکہ جانے آنے کے لیے سواری کا نظم ہو ۔(سنن ترمذی،باب ومن سورۃ آل عمران، حدیث نمبر: ۲۹۹۸)اس حدیث کی روشنی میں  معلوم ہواکہ صاحب استطاعت وہ ہے، جس کے پاس زاد وراحلہ ہو، اس پر حج فرض ہے؛ خواہ وہ مرد ہو یا عورت، اگر عورت کے پاس یہ چیزیں  ہیں ، تو اس پر بھی حج فرض ہوگا؛ لیکن اس کے ساتھ احادیث سے معلوم ہوتاہے کہ عورت اگر مکہ سے دور،سفر شرعی کی مسافت پر رہتی ہے، تو اس کے لیے حج کرنے کے لیے مذکورہ چیزوں  کے ساتھ محرم کا ہونا بھی ضروری ہے؛ کیوں  کہ جیسے مرد و عورت دونوں  کا ’’راحلہ‘‘یعنی مکہ تک سفر کا نظم، تندرستی اور راستہ کے مامون ہوئے بغیر مکمل نہیں  ہوتا، اسی طرح عورت کا’’ راحلہ‘‘محرم کے بغیر پورا نہیں  ہوتا :

            {عن أبی سعید الخدريؓ قال: قال رسول اللّٰہ ﷺ: لا یحل لامرأۃ تؤمن باللّٰہ والیوم الآخرۃ أن تسافر سفرًا یکون ثلاثۃ أیام فصاعدًا إلا معہا أبوہا أو ابنہا أو زوجہا أو أخوہا أو ذو محرم منہا}ابو سعید خدری ؓ کہتے ہیں  کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ایسی عورت کے لیے حلال نہیں  ہے، جو اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتی ہے کہ تین دن یا زیادہ کا سفر کرے؛ مگر اس حال میں  کہ اس کے ساتھ اس کے والد، بیٹا، شوہر، اس کا بھائی یا کوئی اور محرم ہو۔(صحیح مسلم، کتاب الحج، باب سفر المرأۃ مع المحرم إلی الحج وغیرہ، حدیث نمبر:۹۳۳۱)

            اس طرح کی احادیث متعدد صحابہ سے مروی ہیں ، ان سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ عورت بغیر محرم کے سفر نہیں  کرسکتی اور یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ اس طرح کی کسی بھی روایت میں  سفر حج کو الگ نہیں  کیا گیا ہے، جس کا صاف مطلب ہے کہ کوئی بھی سفر ہو خواہ حج کا ہو یا اس کے علاوہ،کسی بھی سفر میں  عورت تنہا گھر سے نہیں  نکل سکتی، اس کے ساتھ محرم کا ہونا ضروری ہے۔

            چنانچہ علامہ ابن تیمیہ لکھتے ہیں :

’’یہ تمام احادیث جن میں  نبیﷺ نے صراحت فرمائی ہے کہ عورت بغیر محرم کے سفر نہیں  کرسکتی اور ان احادیث میں  کسی سفر کی تخصیص نہیں  کی گئی ہے؛ حالانکہ عورتوں  کا زیادہ تر سفرحج کا ہی ہوتا تھا؛ لہٰذا ممکن نہیں  کہ آپﷺ اس کی طرف سے غفلت برتتے، یا اس کو چھوڑ دیتے یا صرف دل میں  اس کی نیت کرلیتے اور الفاظ میں  بیان نہیں  کرتے؛بلکہ آپ ﷺ کی ان نصوص سے صحابہ نے بھی یہی سمجھا تھاکہ حج کا سفر بھی اس ممانعت میں  داخل ہے، جب ہی تو اس حدیث کے بعد ایک صحابی نے پوچھا یارسول اللہ میں  جہاد کے لیے تیار ہوں  اور میری بیوی حج کو جارہی ہے تو آپ نے ان سے فرمایا تم بھی بیوی کے ساتھ حج کو جاؤ اور جہاد کا ارادہ ابھی ترک کرو۔علامہ نے آگے یہ بھی کہا ہے کہ نبی ﷺ کے زمانہ میں  عورتیں  شاذ و نادر ہی تجارت یا جہاد کا سفر کرتی تھیں ، ان کے بیشتر اسفار حج و عمرہ کے لیے ہی ہوتے تھے، لہٰذا ن تمام احادیث میں  حج کا سفر اولین درجہ میں  مراد ہوگا ۔‘‘

(المقنع شرح الخرقی ۲/۵۸۳، المغنی۵/۳۱، الفروع ۵/ ۲۴۲)

            اس کے علاوہ بہت سی روایتوں  میں  آپﷺ نے خاص طور پر سفر حج کے تعلق سے بھی ارشاد فرمایا ہے کہ کسی عورت کا یہ سفر محرم کے بغیر نہیں ہونا چاہیے: {عن ابن عباسؓأنہ قال۔۔۔ فقال النبي ﷺ:۔۔۔۔۔ لا تحجن امرأۃ إلا ومعہا ذومحرم} ایک روایت میں ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا:ہرگز کوئی عورت محرم کے بغیر حج نہ کرے۔ (سنن دار قطني، کتاب الحج، حدیث نمبر:۲۴۴۰)

            {عن أبي أمامۃؓ قال: سمعت رسول اللّٰہ ﷺ یقول: لا تسافر امرأۃ سفراً ثلاثۃ أیام أو تحج إلا ومعہا زوجہا} ابوامامہ کہتے ہیں  کہ میں  نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ کوئی عورت تین دن کا سفر یا حج اپنے شوہر کی معیت کے بغیر نہ کرے۔(سنن دارقطني، کتاب الحج، حدیث نمبر :۲۴۴۲)

            ان دونوں  روایتوں  سے واضح طور پر معلوم ہوتاہے کہ اگر عورت کعبۃ اللہ سے دور رہتی ہے اور حج کرنا چاہتی ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ اپنے ساتھ شوہر کو لے یا کسی اور محرم کے ساتھ ہی سفر حج کو جائے، تنہا ہرگز سفر نہ کرے ۔

            {عن ابن عباسؓ قال: قال النبيﷺ: لا تسافر المرأۃ إلا مع ذی محرم، فقال رجل: یار سول اللّٰہ! إني أرید أن أخرج في جیش کذا وکذاوامرأتي ترید الحج؟ فقال: اخرج معہا}ابن عباس ؓ کہتے ہیں  کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ عورت بغیر محرم کے سفر نہ کرے، تو ایک شخص نے پوچھا یارسول اللہ ! میں  فلاں  لشکر کے ساتھ جہاد میں  جانا چاہتا ہوں ، جب کہ میری بیوی کا حج کا ارادہ ہے؟ تو آپﷺ نے فرمایا:آپ اپنی بیوی کے ساتھ حج کو جاؤ۔(صحیح بخاری، کتاب جزاء الصید، باب حج النساء، حدیث نمبر:۱۸۶۲،صحیح مسلم، کتاب الحج، باب سفر المرأۃ مع المحرم إلی الحج وغیرہ، حدیث نمبر:۱۳۴۱) بعض روایتوں  میں  حدیث اس طرح ہے کہ وہ صحابی کہتے ہیں  کہ میں  نے جہاد میں  جانے کے لیے نام لکھوا لیا ہے اور بعض روایت میں  ہے کہ میں  نے جہاد میں  جانے کی نذر مانی ہے، نیز بعض میں ہے کہ عورت بغیر محرم کے حج نہ کرے ۔

            دیگر سندوں  کے ساتھ اس روایت کے جو الفاظ منقول ہیں ، ان سب کو سامنے رکھنے سے معلوم ہوتاہے کہ جنگ میں  جانا ان صحابی کے لیے واجب ہوگیا تھا کیوں  کہ انھوں  نے نام لکھوادیا تھا اور اس کی نذر مان لی تھی، اس کے باوجود آپ ﷺ نے ان کو اس واجب پر عمل کرنے اور اپنی نذر پوری کرنے سے منع فرمایا اور فی الحال حج پر جارہی بیوی کے ساتھ جانے کا حکم عطا فرمایا، جس سے صاف ظاہر ہوتاہے کہ عورت کے لیے سفر حج میں  اس کے شوہر یا محرم کا ہونا ضروری ہے، اگر یہ ضروری نہ ہوتا تو حضورﷺ ان کو جہاد میں  شریک ہونے سے نہ روکتے ۔

            نیز یہ پہلو بھی قابل غور ہے کہ آپﷺ نے ان صحابی سے یہ دریافت نہیں  کیا کہ آپ کی بیوی تنہا جارہی ہے یا چند قابل اطمینان خواتین اور پرہیز گار مردوں  کے ساتھ جارہی ہے، جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ کوئی عورت دیگر قابل اطمینان خواتین یا متقی اور پرہیزگار مرد حضرات کے ساتھ بھی سفر نہیں  کرسکتی، یہ کا فی نہیں  ہے؛بلکہ محرم کا ہونا ضروری ہے، جب کہ حضور ﷺ کے زمانہ میں  اکثر خواتین قابل اطمینان تھیں ؛بلکہ سب کہا جائے تو بھی غلط نہیں  ہوگا اور مرد حضرات کا بھی یہی حال تھا وہ صحابۂ رسولﷺ تھے اور غالب یہی ہے کہ ان کی بیوی تنہا نہیں  جارہی ہوگی؛بلکہ دیگر خواتین کے ساتھ ہی جارہی ہوں گی۔

             شریعت کا یہ حکم کہ کوئی عورت بغیر محرم کے سفر حج یا دیگر سفر نہ کرے بالکل عقل وخرد کے موافق ہے؛کیوں  کہ عمومی احوال میں  اور عام خواتین کی ساخت، ان کے مزاج اور حالات و کیفیات کو سامنے رکھا جائے، تو عورت کے سفر کا انتظام محرم کے بغیر مکمل نہیں  ہوتا،لہٰذا محرم موجود نہ ہو تو یہی کہا جائے گا کہ ابھی یہ عورت حج کی استطاعت نہیں ر کھتی اور اس کی وجہ یہ ہے سفر حج میں  قدم قدم پر ایسے مراحل سامنے آتے ہیں ، جن میں  عورت کو کسی مرد کے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ تمام ضرورتیں  تنہا عورتوں  سے پوری نہیں  ہوسکتیں ؛کیوں  کہ عام طور پر عورت فطری اعتبار سے کمزور اور نازک واقع ہوئی ہے، حج کے سفر کے دوران، حج کی ادائیگی کے دوران، وہاں  کی آب وہوا کی تبدیلی کی وجہ سے درپیش دشواریوں ، بیماریوں  اور دیگر پریشانیوں  میں  عورت بڑے سہارے اور مدد کی محتاج ہوتی ہے، بعض اوقات سفر کے دوران گاڑی وغیر ہ میں  یا کسی بیماری میں  عورت کے جسم کو چھونے کی ضرورت پیش آجاتی ہے اور یہ کام محرم یا شوہر کے علاوہ کوئی دوسرا نہیں کرسکتا۔

            اسی طرح یہ حکم اسلام کے مزاج اور مذاق کے اعتبار سے بھی ہے؛کیوں کہ شریعت اسلامیہ نے ہر قدم پر خواتین کی حفاظت، ان کی عفت و عصمت کی پاسداری کا بہت خیال رکھا ہے اور یہ حکم بھی اسی وجہ سے ہے؛کیوں  کہ سفر میں  شیطان انسانوں  کو ورغلاتا ہے ان کے دل میں  وساوس ڈالتاہے، انھیں  گناہ پر آمادہ کرنے کی کوشش کرتا ہے، خواتین کی طرف نظریں  اٹھانے کی دعوت دیتاہے اور یہ مسلم ہے کہ شیطان کے داؤ پیچ سے نبی کے علاوہ کوئی نہیں  بچ سکتا،چاہے کتنا ہی بڑا پارسا اور پرہیزگار کیوں  نہ ہو، نیز یہ بھی طے شدہ ہے کہ عورت اپنے شوہر یا کسی محرم کے ساتھ جتنی محفوظ رہتی ہے کسی اور کے ساتھ اتنی محفوظ نہیں  رہتی؛اسی لیے شریعت اسلامیہ نے یہ دانشمندانہ حکم دیاہے کہ سفر میں  عورت کے ساتھ محرم ضرور ہو۔

            اسی سے یہ بات بھی روشن ہوگئی کہ بغیر محرم کے عورت کے اوپر سفر کو لازم کرنا، یہ اس کے ساتھ کوئی انصاف نہیں ؛ بلکہ ظلم ہے، زیادتی ہے،اس کو مشقت اور دشواری میں  ڈالنا ہے؛ یہ ایسا ہی جیسے مساوات اور آزادی کے نام پر یہ کہا جائے کہ اب ہمارے ملک کے وزیر اعظم بغیر سیکوریٹی اور محافظ دستہ کے ملک اور بیرون ملک کہیں بھی جانا چاہیں  تو جائیں ، ظاہر ہے یہ انصاف، مساوات اور آزادی نہیں ؛ بلکہ وزیر اعظم کے ایک حق کو ان سے چھیننا ہے، اسی طرح سفر میں  محرم کی شرط کو ہٹانا عورت کو اس کے ایک حفاظتی حق سے محروم کرنا ہے، لہٰذا اسلام کا یہ حکم عورت کے ساتھ شفقت، اس کے لیے سہولت اور رخصت کی وجہ سے ہے، عورت کی جان و مال، عزت و آبرو کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے شریعت نے یہ قدم اٹھایا ہے ۔

            اخیر میں  اپنی ماؤوں  اوربہنوں  سے ایک گزارش ہے کہ اسلام قرآن وسنت کا نام ہے اور اس کے ماہرین یعنی معتمد علماء کرام اسلام کے احکام دیگر حضرا ت کے مقابلہ میں  بہتر جانتے ہیں ؛ لہٰذااسلام کے کسی بھی حکم پر عمل کرنے کے لیے قابل اطمینان علماء کرام کی طرف رجوع ہوں ، ٹی۔ وی پر آئی ہوئی، یا سیاست کے اکھاڑے میں  اچھالی ہوئی ہر بات پر ایمان نہ لائیں ، ہمارا ایمان صرف قرآن و سنت پر ہوگا اور ہم اسی کے تابع ہیں  اور ان شاء اللہ رہیں گے۔

—————————————–

دارالعلوم ‏، شمارہ : 4،  جلد:102‏،  شعبان – شوال ۱۴۳۹ھ مطابق مئی – جون  ۲۰۱۸ء

٭           ٭           ٭

Related Posts