از: مولانا محمد فیاض عالم قاسمی

قاضی شریعت دارالقضاء آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ، ناگپاڑہ، ممبئی

            اسلام میں  نکاح کی ایک حیثیت عبادت کی بھی ہے، نکاح کی اہمیت کااندازہ اس سے لگایا جاسکتاہے کہ نبی اکرم ﷺنے نکاح کو نصف ایمان قرار دیاہے، آپ نے صاحبِ استطاعت کو اس کی ترغیب دی ہے اوراسلامی تہذیب وتمدن میں  اس کو شمار کیاہے۔ نکاح کے ذریعہ انسان اپنی جنسی خواہش کی تسکین اورصنفی ضرورت کی تکمیل کرتاہے۔جس سے اس کے قلب کو سرور اوردماغ کو سکون نصیب ہوتاہے۔اسی کے ساتھ نکاح ہی بقائِ انسانی کاذریعہ اورصاف وستھرا ماحول کاضامن ہے؛  لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جو دو اجنبی رشتہ نکاح میں  مربوط ہوئے ہیں ،وہ الگ الگ دل ودماغ رکھتے ہیں ،سوچنے اورغوروفکر کے لگ الگ طریقے ہیں ۔دونوں  کے فکر وعمل اورطرز زندگی مختلف ہوسکتے ہیں ؛اس لیے دونوں  کاہر معاملہ میں  مکمل طورپر ہم آہنگ ہوناضروری نہیں ۔ان ہی دشواریوں  کی وجہ سے یہ رشتہ بجائے راحت وسکون کے دردسری اورایک مصیبت کی شکل اختیار کرلیتاہے۔ دونوں  ایک دوسرے کی حق تلفی کرنے لگتے ہیں ،ایسی ناگفتہ بہ صورت حال سے خلاصی کے لیے شریعت نے طلاق کی راہ ہموارکررکھی ہے۔

طلاق کے فوائد

            جس طرح نکاح کے بہت سارے اغراض ومقاصداورفوائد ہیں ،اسی طرح طلاق کے بھی بہت سے اغراض و مقاصداورفوائد ہیں ،نکاح حرام کو حلال کرنے کاذریعہ ہے، تو طلاق بھی حلال کو حرام کرتاہے۔جس طرح نکاح کرناشریعت کاحکم ہے اورنکاح سے متعلق احکام پرعمل کرناضروری ہے، اسی طرح طلاق دینابھی شریعت کاحکم ہے اوراس سے متعلق احکام پر عمل کرناضروری ہے۔ دراصل خالق کائنات نے ہر مرد وعورت کو آزاد پیداکیاہے، ہر ایک کو شریعت کے دائرہ میں  رہ کراپنی زندگی گزارنے کاحق حاصل ہے۔ہر ایک پر لازم ہے کہ دوسرے کے حقوق اداکرنے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کے حقوق بھی اداکرے،مگر جب میاں  بیوی رشتۂ نکاح میں  رہ کرایک دوسرے کے حقوق کو ادانہ کرسکیں ،دونوں  کے درمیان اس طرح اختلاف رونما ہوجائے کہ ان دونوں  کایاان میں  سے کسی ایک کاآرام وسکون سے زندگی گزارنادشوارہوجائے،اورنکاح کے جومقاصد ہیں  وہ فوت ہونے لگیں ،تو پھر طلاق کے ذریعہ رشتہ نکاح کو ختم کرلینے کاحکم دیاگیاہے؛ تاکہ دونوں  اپنی اپنی پسند کے مطابق زندگی گزاریں ، کوئی کسی کی راہ میں  رکاوٹ نہ بنے۔گویا کہ طلاق میاں  بیوی کے درمیان ہونے والے ذہنی تناؤ، روز روزکے جھگڑے اورایک نہ ختم ہونے والی جنگ کے خاتمہ کانام ہے۔ طلاق میاں  بیوی کے درمیان پیداشدہ مسائل کاحل ہے۔مرد اپنی بیوی کو طلاق دے کراوراس کوباعزت رخصت کرکے سکون حاصل کرکے اپنی پسندکے مطابق دوسری بیوی بھی لاسکتاہے،تو عورت بھی اپنی پسند کے مطابق دوسراشوہر تلاش کرسکتی ہے۔گویاکہ دونوں  کے لیے اپنی زندگی کو خوشگوار بنانے کاذریعہ طلاق ہے۔

            میاں  بیوی کے جھگڑوں  کابرااثربچوں  پر بھی پڑتاہے، اگر بچوں  کی موجودگی میں  ماں  باپ جھگڑا اورلڑائی کرتے ہیں ،توجہاں  ایک طرف بچوں  کی تعلیم وتربیت متاثر ہوتی ہے،وہیں  دوسری طرف ان کی ذہنی نشونمااورسوچ وفکر بھی اسی طرح ہوجاتی ہے،بچے بھی گالم گلوچ، لعن طعن اورلڑائی سیکھتے ہیں  ، پھر وہ خود اپنی شریک حیات کے ساتھ وہی رویہ اپناتے ہیں ،اس طرح گویااپنی زندگی اجیرن ہونے کے ساتھ ساتھ بچوں  کابھی مستقبل خراب ہوتاہے۔بعض دفعہ دونوں  میاں  بیوی کے درمیان جھگڑوں  کی وجہ سے پڑوسیوں  کوبھی تکلیف ہوتی ہے،ان دونوں  کی آوازیں ، اورگالم گلوچ سے پڑوسی تنگ آجاتے ہیں ،ان کے بچے بھی متاثر ہوتے ہیں ؛ اس لیے طلاق کے ذریعہ جس طرح میاں  بیوی کو سکون حاصل ہوتاہے اوروہ اپنی پریشانیوں  سے نجات پاتے ہیں ،اسی طرح ان کے بچوں  کو بھی پرسکون ماحول نصیب ہوتاہے۔جس سے ان کی تعلیم وتربیت اچھی ہونے کے امکانات بھی ہیں ، نیز پڑوسی بھی سکون وراحت کی سانس لیتے ہیں ۔

طلاق کے نقصانات

            نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا: أبْغَضُ الْحَلَالِ إِلَی اللَّہِ تَعَالَی الطَّلَاقُ(ابوداؤد:۲۱) یعنی طلاق اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ ناپسندیدہ عمل ہے،کیوں  کہ اس سے میاں  بیوی کے درمیان کامقدس رشتہ ٹوٹ جاتاہے،دو اجنبی مردوعورت جنھوں  نے اپنی زندگی کو خوشگواربنانے،صنفی ضرورت کو پوراکرنے اوردیگر امورمیں  ایک دوسرے کاتعاون کرنے کاعہد کیاتھا،طلاق کے ذریعہ یہ سارے معاہدے ٹوٹ جاتے ہیں ،دونوں  سے اگر بچے ہیں  توان کو جہاں  ایک طرف پیارومحبت کی آغوش چاہیے، وہیں  دوسری طرف انھیں  باپ کی نگرانی کی بھی سخت ضرورت ہوتی ہے؛مگر طلاق کی وجہ سے ماں  کی مامتااورباپ کی نگرانی سے محروم ہونے کے امکانات کافی بڑھ جاتے ہیں ؛ اس لیے طلاق اللہ تعالیٰ کے نزدیک نہایت ہی ناپسندیدہ ہے۔طلاق کی وجہ سے نہ یہ کہ دونوں  میاں  بیوی الگ الگ ہوجاتے ہیں ؛بلکہ دوخاندان کارشتہ ٹوٹ جاتاہے۔اسی وجہ سے طلاق ہر زمانہ میں  اورہر معاشرہ میں  ایک ناپسندیدہ عمل سمجھاجاتارہاہے؛بلکہ اس طرح کے بھی واقعات ہیں  کہ جب آں  حضور ﷺ کو خبر پہونچی کی فلاں  نے اپنی بیوی کو تین طلاق دیدی ہے تو آپ ﷺ غصہ سے لال پیلے ہوگئے اورکہنے لگے کہ کیامیری موجودگی میں  کتاب اللہ کے ساتھ کھلواڑکیاجارہاہے؟(سنن نسائی:۳۴۰۱)

طلاق کاحکم

            حرام:  اگر میاں  بیوی بحسن وخوبی ایک دوسرے کے حقوق اداکررہے ہوں ،دونوں  کے درمیان خوشگوار ماحول ہوتو ایسی صورت میں   طلاق دیناممنوع اورحرام ہے۔امام اعظم ابوحنیفہ ؒ سے یہی منقول ہے۔صاحب ہدایہ علامہ مرغینانیؒ فرماتے ہیں : أن الأصل فی الطلاق ہو الحظر لما فیہ من قطع النکاح الذی تعلقت بہ المصالح الدینیۃ والدنیویۃ  والإباحۃ للحاجۃ إلی الخلاص (ہدایہ:۱؍۲۲۱،المیزان:۲؍۱۳۵)

            واجب: اگر حالات ایسے پیدا ہوجائیں  کہ شوہر کااپنی بیوی کے حقوق کو اداکرناممکن نہ ہو، یا اس پر وہ ظلم کررہاہو، مثلاوہ اس کی صنفی ضرورت کو پوراکرنے پر قادر نہ ہو، یانفقہ ادانہیں  کرپا رہاہو، یا اس کے ساتھ گالم گلوچ اورمارپیٹ کرتاہو اوربیوی رہنانہیں  چاہتی ہوتوایسی صورت میں  طلاق  کے ذریعہ رشتۂ نکاح کو ختم کرلیناواجب ہے۔اگر مرد طلاق نہیں  دیتاہے یابیوی کے خلع کو قبول نہیں  کرتاہے تو وہ گنہگارہوگا۔

            مستحب: اگر بیوی اپنے شوہر کے حقوق اداکرنے کے بجائے اسے ذہنی یاجسمانی تکلیف دیتی ہو، اس کی وجہ سے خود مرد پریشان ہو،مرد کادنیاوی یااخروی نقصان ہورہاہو،بیوی کی وجہ سے وہ  دوسروں  کے حقوق ادانہیں  کرپارہاہو،تو ایسی بیوی کو طلاق دے دینامستحب ہے؛تاکہ مرد اس کی طرف سے ہونے والی تکلیفوں  سے نجات پالے اوردوسروں  کے حقوق کوصحیح سے اداکرسکے۔علامہ حصکفیؒفرماتے ہیں : (وَإِیقَاعُہُ مُبَاحٌ) عِنْدَ الْعَامَّۃِ لإِطْلَاقِ الآیَاتِ أَکْمَلَ (وَقِیلَ) قَائِلُہُ الْکَمَالُ (الْأَصَحُّ حَظْرُہُ) (أَیْ مَنْعُہُ) (إلَّا لِحَاجَۃٍ)۔۔۔ بَلْ یُسْتَحَبُّ لَوْ مُؤْذِیَۃً أَوْ تَارِکَۃً صَلَاۃَ غَایَۃٍ، وَمُفَادُہُ أَنْ لَا إثْمَ بِمُعَاشَرَۃِ مَنْ لَا تُصَلِّی وَیَجِبُ لَوْ فَاتَ الإِمْسَاکُ بِالْمَعْرُوفِ وَیَحْرُمُ لَوْ بِدْعِیًّا۔ وَمِنْ مَحَاسِنِہِ التَّخَلُّصُ بِہِ مِنْ الْمَکَارِہ۔ (درمختارعلی ردالمحتار:۳/۲۲۷)

طلاق دینے کاصحیح طریقہ

            اگر ایسی صورت حال پیش آجائے کہ طلاق دیناواجب یامستحب ہوجائے تواس صورت میں  طلاق دینے سے کوئی گناہ نہیں  ہوگا؛بلکہ حکم شریعت پر عمل کرنے کی وجہ سے ثواب ہوگا؛ مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ شریعت کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق ہی طلاق دی جائے اوریہ ایسے اصول ہیں  کہ اگر ان کی رعایت کی جائے تو نوے فیصدمعاملات میں  علیحدگی کی نوبت نہیں  آئے گی اور اگرعلیحدگی ہوبھی جائے تومردو عورت دونوں  کو اپنے کیے پرپچتاوا ہوگااوردونوں  اپنی حرکت پر ندامت کے آنسو بہاکر دوبارہ نکاح کے بندھن میں  بندھ سکتے ہیں ۔وہ اصول وضوابط حسب ذیل ہیں :

            ۱- پہلے مرد وعورت کو چاہیے کہ وہ خود ہی صلح کرنے کی کوشش کریں ،دونوں  سوچیں  کہ مکمل سکھ دنیامیں  ملناناممکن ہے،ایک دوسرے کو جھیلنابھی کارثواب ہے،صبراوربرداشت کرنابھی عبادت ہے۔ معافی تلافی کرلیں ،گزری ہوئی باتوں  کو فراموش کرجائیں ،ایک دوسرے کی غلطیوں  کو نظرانداز کر یں ،خوبیوں  پرنظررکھیں ۔اگر دونوں  میاں  بیوی سے بچے ہیں  تو ان کی زندگی کے بارے میں  سوچاجائے کہ کیا اس علیحدگی سے ان کی تعلیم وتربیت متاثرتونہیں  ہوگی؟ان کی ذہنی وجسمانی نشوونمامیں  کوئی فرق تو نہیں  پڑے گا؟کہیں  اس علیحدگی کی وجہ سے اپنے بچوں  کی زندگی تباہ نہ ہوجائے،اگر بچے شادی کے لائق ہوگئے ہیں  تو سوچاجائے کہ کیاان بچوں  کی شادی کرانے میں  کوئی پریشانی تو نہیں  ہوگی؟کیاان کو اچھاشریک حیات مل پائے گا؟کیاجب کوئی آدمی رشتہ کے لیے آئے گاتو ان کے ماں  باپ کو تلاش نہیں  کرے گا؟ماں  باپ کی علیحدگی کی وجہ نہیں  پوچھے گا؟ان خدشات کو سوچاجائے ،اس کے بعدکوئی قدم اٹھایاجائے۔

            ۲- طلاق دینے سے پہلے اپنے اورسسرال کے ذمہ داروں  سے مشورہ کرلیاجائے۔ذمہ داروں  کو چاہیے کہ وہ دونوں  میاں  بیوی کی بات سن کر صلح کرانے کی کوشش کریں ،انھیں  طلاق کے فوائد اوراس کے نقصانات سے آگاہ کریں ۔

            ۳- معتبر علمائے کرام، دارالافتاء، مدرسہ اور مسجد کے ذمہ داران سے بھی  مشورہ کرلیا جائے اور ان سے طلاق دینے کاطریقہ بھی معلوم کرلیاجائے، اگرپہلے سے معلوم ہے توبھی مزیدپوچھ لیا جائے؛کیوں  کہ یہ ایسے مسائل ہیں  جن میں  عموماً غلط فہمی ہوجاتی ہے۔ بہرحال جن سے مشورہ لیاجائے انھیں  چاہیے کہ میاں  بیوی کی بات سن کر صلح کرانے کی کوشش کریں ۔

            ۴- اگر کسی بھی طرح سے صلح ممکن نہ ہوتوجب بیوی پاکی کی حالت میں  ہویعنی حالتِ حیض میں  نہ ہو اوراِس پاکی میں  صحبت بھی نہ کی گئی ہو، توصرف ایک طلاق دی جائے، دراصل پاکی کی حالت میں  بیوی کی طرف رغبت زیادہ ہوتی ہے؛اس لیے کافی امکان ہے کہ شوہر کے دل میں  رغبت پیدا ہوجائے اورطلاق دینے کاخیال دل سے نکل جائے،یاپھر اس دوران بیوی معافی تلافی کرلے۔

            ۵- دومسلمان مرد یاایک مرد اوردوعورتوں  کی موجودگی میں  طلاق دی جائے۔

            ۶- لکھ کرطلاق دی جائے،اوردستخط بھی کیاجائے۔دونوں  گواہ بھی دستخط کریں  اورتاریخ بھی لکھیں ۔

            ۷- صرف ایک طلاق دی جائے،مثلایوں  کہاجائے یالکھاجائے: ’’میں  نے تم کو ایک طلاق دی‘‘، بس۔اس جملے کودویاتین  بار دوہرایابھی نہ جائے اورنہ دویاتین بارلکھاجائے۔اسی طرح جملہ کے بعد طلاق طلاق طلاق کااضافہ بھی نہ کیا جائے۔

            ۸- اگردونوں  میاں  بیوی کی رضامندی سے طلاق ہورہی ہے تو پہلے دونوں  کی طرف سے اقرارہوکہ فلاں  تاریخ کودونوں  کانکاح ہواتھا،اتنے بچے ہیں ، ان کے نام اور عمریہ ہیں ،سوئے اتفاق ہم دونوں  کے درمیان قلبی اورذہنی ہم آہنگی نہ ہونے کی وجہ سے آئے دن اختلافات ہوتے رہتے ہیں ، صلح کی کافی کوششیں  کی گئیں ؛ مگرنہ ہوسکی؛اس لیے دونوں  نے باہمی رضامندی اوراپنے اولیاء سے مشورہ کرنے کے بعدطے کیاکہ بذریعہ طلاق اس رشتہ نکاح کوختم کرلیاجائے؛لہٰذامیں  فلاں  ولدفلاں  نے درج ذیل گواہوں  کی موجودگی میں  اپنی بیوی فلانہ بنت فلان کو ایک طلاق دیدی۔ اس کے بعد عورت کی طرف سے لکھاجائے کہ اسے دین مہر،عدت خرچ اورجہیز کے سامان وغیرہ مل گئے ہیں ،  لہٰذااب وہ  نکاح سے متعلق کسی طرح کاکوئی مطالبہ کسی بھی عدالت میں  نہیں  کرے گی۔

            ۹- اس کے بعد دونوں  میاں  بیوی،ان کے اولیاء اورگواہ  دستخط کریں  اورتاریخ لکھیں ۔

            ۱۰- اگرطلاق باہمی رضامندی سے نہیں  ہورہی ہے، تواوپرجو اقراردونوں  کی طرف سے کیا گیا تھا وہی صرف مرد کرے اورحسب مذکورایک طلاق دیدے،دین مہراورعدت خرچ کے بارے میں  بھی واضح کردے کہ بذریعہ چیک/نقد بھیج رہاہے ،یافلاں  تاریخ تک دے دیاکرے گا۔

            ۱۱- خرچہ کاتعین مردکی آمدنی اورعورت کے ضروری اخراجات دونوں  کو پیش نظر رکھ کر کیا جائے۔

            ۱۲- اگرخرچہ کی تعیین میں  اختلاف ہوتوکسی مفتی،عالم دین یا دارالقضاء سے رجوع کیاجائے۔

            ۱۳- اگردونوں  میاں  بیوی سے اولادبھی ہیں ،جو بیوی کے ساتھ ہیں ،توان کے خرچہ کے بارے میں  بھی لکھے ماہانہ اتنادے دیاکروں  گا۔

            ۱۴- جن عورتوں  کوحیض آتاہے ان کی عدت تین حیض (ماہواری )ہے، اورجن عورتوں  کوحیض نہیں  آتاہے تو ان کی عدت تین ماہ ہے، اورحمل والی عورتوں  کی عدت وضع حمل ہے۔

تنبیہ

            طلاق نامہ تحریرکرنے کے تعلق سے یہ بات یادرکھنی چاہیے کہ میاں  بیوی کے درمیان جھگڑے کی جووجوہات ہیں  ان کوذکرنہ کیاجائے؛ کیوں  کہ شریعت کامزاج برائیوں  کودبانے کاہے،پھیلانے کا نہیں ،اگران برائیوں  کو ذکرکردیاجائے توپھردونوں  کی دوسری شادی مشکل ہوجائے گی، نیزایسی صورت میں  ایک دوسرے کے اندرانتقام لینے کاجذبہ بھی انگڑائی لے گا،نتیجتاً دونوں  ایک دوسرے کی برائیوں  کواجاگرکرنے کوشش کریں  گے،یاالزام لگا ئیں  گے، یاپھر بیوی بے بنیاد الزام لگاکرمرد کو جیل بھیجوانے کی کوشش کرے گی پھر طلاق دینے کے باوجود بھی تنازع ختم ہوتانظرنہیں  آئے گا۔

طلاق رجعی کاحکم

            بہرحال’’میں  نے ایک طلاق دیدی‘‘اس جملہ سے ایک طلاق رجعی واقع ہوگی،طلاق دینے کا یہی بہترین طریقہ ہے اوریہی سنت ہے۔اس کے بعدتین حیض (ماہواری)گزرنے سے پہلے تک رجوع کرنے کی گنجائش رہتی ہے، یعنی اس دوران دونوں  میاں  بیوی چاہیں  ایک دوسرے سے میاں  بیوی کی طرح مل لیں ، نکاح بحال ہوجائے گا۔اسی طرح اگرمردچاہے تو بیوی کو اپنے نکاح میں  واپس لے سکتاہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ بیوی کواپنے پاس بلالے،یایوں  کہہ دے کہ میں  نے اپنی بیوی کو واپس لے لیا، یااس کے ساتھ وہ کام کرلے جو صرف اپنی بیوی کے ساتھ جائزہوتاہے، مثلاً بوسہ لے لے یاصحبت کرلے، تو اس سے بھی رجوع ہوجائے گااوردونوں  دوبارہ میاں  بیوی بن جائیں   گے۔ بہتر ہے کہ دومسلمان مرد یاایک مرد اوردوعورتوں  کی موجودگی میں  رجوع کرے۔

            اگر عدت کے اندر رجوع نہیں  کیاتو پھر تین حیض مکمل ہوجانے کے بعد یہی طلاقِ رجعی طلاق ِبائن بن جائے گی، اورعورت بائنہ ہوجائے گی، یعنی نکاح مکمل طورپر ختم ہوجائے گا۔تاہم اس کے بعدبھی  اگر دونوں  چاہیں  تو ازسرے نونئے مہرکے ساتھ حسب ضابطہ نکاح کرسکتے ہیں ۔

طلاق دینے کے غلط طریقے

            طلاق دینے کابہتر اورمحفوظ طریقہ وہی ہے جو اوپر بیان ہوا؛ مگر افسوس کہ طلاق دینے کے جو غلط اورغیرمحفوظ طریقے ہیں  ہمارے معاشرہ میں  بدقسمتی سے وہی رائج ہوگئے ہیں ، جس سے معاملہ سلجھنے کے بجائے اورالجھ جاتاہے۔مثلا ًاس طرح طلاق دیناغلط ہے:

            (الف) میں  نے تم کو تین طلاق دیا۔

            (ب) میں  نے تم کو طلاق دی،طلاق دی،طلاق دی۔

            (ج) طلاق، طلاق، طلاق وغیرہ؛کیوں  کہ اس صورت میں  تین طلاق مغلظہ واقع ہوجاتی ہے، جس میں  رجوع کرنے یانکاح کرنے کی گنجائش نہیں  رہتی۔

            اسی طرح حالتِ حیض میں  طلاق دینا،یاحالتِ حمل میں  طلاق دینا کہ دونوں  صورتوں  میں  عدت کی مدت لمبی ہوجاتی ہے، یاایسی پاکی میں  طلاق دیناکہ اس میں  صحبت ہوچکی ہو کہ اس میں  حمل ٹھہرنے کااندیشہ رہتاہے ،اگر حمل ٹھہرجاتاہے تو پھر عدت وضع حمل ہوگی،جو کم از کم نومہینے تک دراز ہوگی۔ غصہ کی حالت میں  طلاق دینا کہ اس میں  آدمی کادماغی توازن معتدل نہیں  رہتاہے اورایسی صورت میں  کیاگیاکام عموماًندامت کاباعث ہوتاہے۔اسی طرح بغیرصلح کی کوشش کے طلاق دینا، بغیر گواہ کے طلاق دینا،صرف زبانی طلاق دینا،بیوی کو خبر کیے بغیرطلاق دینایہ سب ایسی صورتیں  ہیں  جس میں  طلاق تو واقع ہوجاتی ہے اورجتنی دیتاہے اتنی واقع ہوتی ہے، مگر طلاق دینے کے یہ طریقے غیرمناسب اور غلط ہیں ۔

تین بڑی غلط فہمیاں 

            (۱)پہلی غلط فہمی یہ ہے کہ بہت سارے لوگ یوں  سمجھتے ہیں  کہ ایک طلاق سے طلاق رجعی پڑتی ہے دوسے طلا ق بائن اورتین سے طلاق مغلظہ،حالاں  کہ ایسانہیں  ہے؛ بلکہ ایک طلاق طلاق رجعی بھی ہوتی اوربائن بھی مثلاًاگر ایک طلاق کے ساتھ لفظ بائن بڑھادیایاعوض کے بدلہ میں  طلاق دیاتو یہ طلاق بائن ہوگی چاہے ایک دیاہو، اس میں  رجوع تو نہیں  ہوسکتاہے؛ مگر عدت کے دوران اوربعد میں  بھی دونوں  صورتوں  میں  ازسرنونئے مہر کے ساتھ نکاح کرسکتے ہیں ۔یہی صورت حال دو طلاق کی بھی ہے۔فرق صرف ایک اوردو کے الفاظ کاہے۔

            (۲)دوسری غلط فہمی یہ ہے کہ بعض لوگ یوں  سمجھتے ہیں  پہلے ایک طلاق دیناچاہیے پھر دوسرے مہینے میں  دوسری اورپھر تیسرے مہینے میں  تیسری طلاق دیناچاہیے؛ حالاں  جب ایک طلاق دینے کے بعد عدت گزرجاتی ہے تو یہی طلاق بائن ہوجاتی ہے؛ لہٰذا دوسرے اورتیسرے مہینے میں  طلاق دینے کی ضرورت ہی نہیں  رہتی ہے۔

            (۳)تیسری غلط فہمی یہ ہے کہ بہت سے لوگ یوں  سمجھتے ہیں  کہ ہر طلاق میں  شوہراول سے رجوع ہونے کے لیے حلالہ کرناپڑتاہے،حالاں  کہ ایسانہیں  ہے؛بلکہ یادرکھناچاہیے کہ حلالہ نہ فرض ہے نہ مستحب اورنہ سنت ؛ بلکہ باضابطہ طورپرحلالہ کرنے والے اورکروانے والے پرحدیث میں  لعنت بھیجی گئی ہے۔  (ابوداؤد:۲۰۷۶) تاہم  اگرتین طلاق دے دی جاتی ہے،تو پھر میاں  بیوی کے درمیان رجوع اورنکاح کرنے کی گنجائش نہیں  رہتی ہے،یہی شریعت کامزاج اورمنشا ہے؛البتہ اگر بعد عدت اس عورت کانکاح کسی دوسرے مرد سے ہوگیا،اورسوئے اتفاق کہ اُس دوسرے مرد کاانتقال ہوگیایااُس نے بھی اس عورت کو طلاق دے دی تو اب اگر یہ عورت اپنے پہلے شوہر کے ساتھ نکاح کرنا چاہے تو عدت کے بعد اس سے نکاح کرسکتی ہے،کوئی لازم وضروری نہیں  ہے۔فقط

——————————————

دارالعلوم ‏، شمارہ : 4،  جلد:102‏،  شعبان – شوال ۱۴۳۹ھ مطابق مئی – جون  ۲۰۱۸ء

٭           ٭           ٭

Related Posts